https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 7 October 2020

اسلامی تعلیمات

 اسلامی تعلیمات
مرتب:

ڈاکٹرمفتی محمد عامرالصمدانی

قاضئ شریعت دارالقضاء آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ علی گڑھ



فہرست:

والدین کے حقوق

رشتہ داروں کے حقوق

اولاد کی تعلیم و تربیت

نماز خشوع خضوع سے اداکیجئے

اتحاد واتفاق

اختلاف اور گروہ بندی

اصلاح نفس

غصہ نہ کیجئے

تکبر کی مذمت

***

والدین کے حقوق وآداب

:

؟اسلامی تعلیمات میں حقوق کی دوقسمیں ہیں :حقوق اللہ  اور حقوق العباد،خدا کو ایک ماننا تنہا اس کی عبادت کرنا ،نماز پڑھنا۔روزہ رکھنا وغیرہ یہ سب حقوق اللہ ہیں،والدین کے ساتھ حسن وسلوک ,اولاد کے ساتھ رحم وکرم،یتیموں مسکینوں اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی وغیرہ یہ سب حقوق العبادہیں ۔

 حقوق اللہ میں سب سے بڑا حق توحید و خداپرستی ہے،کہ ایک خدائے پاک کی عبادت کریں اس کی ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں،اور حقوق العباد میں سب سی بڑاحق یہ ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں،اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤکریں،یہی وجہ ہے کہ پروردگارعالم نے ایک طرف بندوں کو شرک سے روکا تو ساتھ ہی دوسری جانب ’’ولاتقل لہما اف ولا تنہرہما‘‘ کا درس دیکروالدین کو اف تک کہنے سے منع فرمادیا۔

والدین کے ساتھ حسن وسلوک کے تعلق سے بے شمار آیات کریمہ ہیں ان میں سے کچھ کو ذکر کیا جاتا ہے،خدائے تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے

(۱)وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً)’’اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو،اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں سے کو ئ ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اف تک نہ کہنا ،اور نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ،اور ان کے لأ عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے،اور عرض کر کہ اے میرے رب !تو ان دونوں پر رحم کرجیساکہ ان دونوں نے مجھے چھوٹے میں پالا

(سورہ بنی اسرائیل آیت،۲۳،۲۴)

(۲)اور دوسری جگہ ہے

’’اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیاکہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو، اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو‘‘

(سورہ بقرہ ،آیت،۸۳)

(۳)اور تیسری جگہ ہے 

’’اور اللہ کی بندگی کرواور اسکا شریک نہ ٹھہراؤاور والدین کے ساتھ بھلائی کرو‘‘

(سورہ نساء آیت ،۳۶)

:ان تمام آیتوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں،جب ان کے اوپر ضعف کا غلبہ ہو اعضا میں قوت نہ رہے اور جیساکہ بچپن میں ہم ان کے پاس بے طاقت تھے ایسے ہی وہ آخر عمر میں تیرے پاس نا تواں ہو جائیں تو ان کی مدد کریں اور انہیں اف تک نہ کہیں یعنی ایسا کلمہ نہ نکا لیں جس سے یہ سمجھا جائے کہ ان کی طرف سے طبیعت پر کچھ گراں ہو۔

والدین کے حقوق اور حسن وسلوک کے تعلق سے بے شمار احادیث کریمہ ہیں جن میں حضور علیہ السلام نے بہت تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ اچھا سلوک کریں اور انہیں تکلیف نہ دیں.ان میں سے کچھ کو ذکر کیا جاتا ہے۔

مشہور صحابئ رسول حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ایک شخص نے سرکار علیہ السلام سے پوچھا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے، تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا ،یہ دونوں تیری جنت بھی اور دوزخ بھی،یعنی اگر تم ان کے حق میں رحم وکرم اور عجزو انکساری کے پیکر بن گئے تو تمہاری لئے جنت ورنہ دوزخ کے مستحق ہوگے

(مشکوٰۃشریف صفحہ۴۲)

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے،صحابۂ کرام نے پوچھا ’’یا رسول اللہ !اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟آپ نے فرمایا!ہاں،اگرچہ وہ سو بار دیکھے،اللہ تعالیٰ بڑا پاک اور بہت بڑا ہے

(مشکوۃ شریف صفحہ۴۲۱)

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار علیہ السلام نے فرمایا کیامیں تمہیں تین بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا’ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، اور والدین کی نافرمانی کرنا ،جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،تین لوگوں کی دعا قبول ہونے میں کوئی شک نہیں ۔مظلوم کی دعا،مسافر کی دعا،اور اولاد کے خلاف والدین کی دعا ۔لہٰذا اولاد کو چاہیے کہ ہمیشہ ایسی حرکت سے پرہیز کرے ،جس کے سبب والدین کو اس کی خلاف بد دعا کرنی پڑے ،اور والدین کوبھی چاہیے کہ حتیٰ المقدور ان پر بد دعا کرنے سے بچے ۔ورنہ مقبول ہونے پر خود ہی پچھتانا پڑیگا، جیساکہ آج دنیا میں اس کا مشاہدہ کیا جاتاہے ۔حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ والدین کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔کعبہ کی طرف دیکھناعبادت ہے ۔قرآن کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔جس بھائی کے لیے اللہ کے لیے محبت ہو اس پر نظر ڈالنا عبادت ہے ۔

اور جو والدین کو ناراض کرے ان کے حقوق کوادانہ کرے ۔ان کے بارے میں سرکار دوعالم فرماتے ہیں ’’تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے فر ض کو، اور نہ نفلوں کو قبول کرتاہے ماں باپ کو ایذادینے والا ۔اور صدقہ دے کر احسان جتلانے والا ،اور تقدیر کا جھٹلانے والا ۔

ماں کا حق باپ کے حق پر مقدم ہے :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا،پوچھنے لگا !اے اللہ کے رسول سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟کہ اس کے سا تھ حسن و سلوک کرو ں ۔آپ نے فرما یا تیری ماں کا ،پوچھا، پھر کس کا، آپ نے فرما یا تیری ما ں، پوچھا، پھر کس کا ؟آپ نے فرمایا تیری ما ں کا ۔

(مسلم شریف)

چونکہ حمل وضع حمل ،اور دودھ پلانے کی شفقت اور صعوبت صرف ما ں اٹھاتی ہے باپ نہیں اٹھاتا ،اس وجہ سے ما ں کا حق زیادہ ہے۔

اولاد پر والدین کے حقوق, بعد وفات:

اسلام کی تعلیمات میں جہا ں بار بار تاکید سنایا گیا کہ دنیا وی زندگی میں والدین کے ساتھ حسن و سلوک کریں اور دوسری طرف یہ درس بھی دیا کہ وہ دنیا سے چلے جائیں تو ان کے ساتھ حسن و سلوک کرو۔ان کے کی لئے ہمیشہ دعاء و استغفار کرو،صدقہ و خیرات واعمال صالحہ کا ثواب انہیں پہنچاتے رہو،

آج معاشرے میں بہت ساری برائیاں جنم لے رہی ہیں ،جس کے نتیجے میں ہمارے اخلاقی زندگی کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہیں مخلوط خاندانوں میں رشتوں کا تقدس بری طرح پا مال ہو رہا ہے باپ جب تک کماتا ہے، اولاد والدین کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتی ہے مگر جیسے ہی ملازمت سے فراغت کے بعد گھر آتا ہے ،تو اسے بیکار اور فالتو تصور کیا جانے لگتا ہے ،ما ں باپ کا وجود کتنی بڑی نعمت ہے اس کی قدر وہیں جانتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ نے کائنات میں افضل اور اشرف مخلوق انسان کو بنایا ہے۔ والدین درحقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں،ہمارا وجود والدین کی وجہ سے ہوتا ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے۔محبت کا جذبہ فطری طور پر بدرجہ اتم والدین کو عطا کیا گیا ہے۔اولاد کے لئے والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں،والدین کی جس قدر عزت و توقیر کی جائے گی اسی قدر اولاد سعادت سے سرفراز ہوگی شریعت میں والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾

(ترجمہ)

اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے میں پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف بھی نہ کہنا ،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا ۔

(بنی اسرائیل:23)

مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ والدین کے ساتھ حُسن سلوک کرو اور اُف تک بھی نہ کہو،والدین کی عزت واحترام دینی و دنیاوی بہتری کا سبب ہوتا ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر والدین کا سایہ ہے اور سعادت مند ہے وہ اولاد جو ہر حال میں اپنے والدین کے ساتھ حُسن سلوک رکھتی ہے اور ان کا احترام کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙ۳۶﴾

ترجمہ :-

اور اللہ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، نیز رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، قریب والے پڑوسی ، دور والے پڑوسی ، ( ٢٩ ) ساتھ بیٹھے ( یا ساتھ کھڑے ) ہوئے شخص ( ٣٠ ) اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں کے ساتھ بھی ( اچھا برتاؤ رکھو ) بیشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا ۔

(النساء:36)

اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے۔

یَسۡئَلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ ؕ قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ‌السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۲۱۵﴾

ترجمہ

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ ( اللہ کی خوشنودی کے لیے ) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین ، قریبی رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہئے ۔ اور تم بھلائی کا جو کام بھی کرو ، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔

(البقرہ:215)

رسول کریم ﷺ نے بھی ہمیں والدین سے حُسن سلوک کا حکم دیا ہے آپﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ بتلادوں؟ لوگوں نے عرض کیا، کیوں نہیں یارسول اللہ ﷺ، آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا اورنہ والدین کی نافرمانی کرنا۔

والدین کی حیثیت گھر میں نگران کی ہے ۔ اولاد اگر سنجیدگی اور تدبر سے کام لے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے بعد صحیح معنوں میں قابل احترام اور لائق اطاعت اگر کوئی ہستی ہے تو وہ والدین ہیں۔والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری بھی عبادت میں داخل ہے، لیکن اگر والدین کوئی ایسا حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہو تو ان کی اطاعت فرض نہیں بلکہ شریعت کی اطاعت ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ترجمہ) ’’اور وہ دونوں (والدین) تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تُو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تُو ان کا کہنا نہ ماننا ،ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا‘‘ والدین کا مقام و مرتبہ اس قدر اہم ہے کہ توحید و عبادت کے بعد اطاعت و خدمت والدین کو ضروری قرار دیا گیا کیونکہ جہاں انسانی وجود کا حقیقی سبب اللہ ہے تو وہیں ظاہری سبب والدین۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گنا ہ والدین کی نافرمانی ہے،جیسا کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

(صحیح بخاری)

ماں باپ کی نافرمانی تو کجا ، ناراضگی کے اظہار اور جھڑکنے سے بھی روکا گیا ہے اور ادب کے ساتھ نرم گفتگو کا حکم دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ترجمہ) ’’اور اپنے والدین کو جھڑک مت اور ان سے نرمی سے پیش آ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ پوری زندگی والدین کے لئے دعا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا (ترجمہ) اور تو کہہ کہ اے میرے رب میرے والدین پر رحم کر جس طرح بچپن میں انہوں نے میری تربیت کی۔

(بنی اسرائیل: 25)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟آ پ ﷺ نے ارشاد فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ۔ حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں میں نے کہا اس کے بعد کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا والدین کی فرمانبرداری۔

(صحیح بخاری)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ آپؐ کے ساتھ ہجرت اور جہاد کرنے کیلئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ تو اس شخص نے کہا: دونوں حیات ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص سے پوچھا: کیا تو واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا طالب ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے والدین کے پاس جا اور ان کی خدمت کر۔

(صحیح مسلم)

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ میرے حُسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارا باپ۔

(صحیح بخاری)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے ۔ چنانچہ تمہیں اختیار ہے خواہ ( اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھا کے) اس دروازہ کوضائع کردو یا ( اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔

(جامع ترمذی)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر دراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھا دیا جائے اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے 

(مسند احمد بن حنبل)

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا وہ شخص ذلیل وخوار ہو۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! کون ذلیل و خوار ہو ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر(ان کی خدمت کے ذریعہ) جنت میں داخل نہ ہو۔

(صحیح مسلم)

حضرت ابو اسید الساعدی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یارسول اللہ ؐ! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کرسکوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ہاں کیوں نہیں ۔ تم ان کے لئے دعائیں کرو،ان کے لئے بخشش طلب کرو ، انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو ۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حُسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔

(ابوداؤد کتاب الادب باب فی برالوالدین)

حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔ جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور رزق میں فراوانی ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حُسن سلوک کرے (اور اپنے عزیزواقارب کے ساتھ بنا کر رکھے) اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔

(مسند احمد بن حنبل)

انسان کی پیدائش کا مقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرے ، اس کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ آنحضور ﷺ نے بیان فرمایا کہ بندے سے اللہ کا راضی ہونا بندے سے اللہ کا ناراض ہونا، والدین کی رضامندی و ناراضگی کے ساتھ وابستہ ہے۔

ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا رب کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے،رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔

(الجامع الصغیر)

حضرت ابو طفیل ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو مقام جعرانہ میں دیکھا ۔ آپ گوشت تقسیم فرما رہے تھے ۔ اس دوران ایک عورت آئی تو حضور ﷺ نے اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی ۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون خاتون ہیں جس کی حضور ﷺ اس قدر عزت فرما رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ حضور ﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات نہایت واضح ہوجاتی ہے کہ والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے۔ والدین کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا ہمیں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ خاص کر جب والدین یا دونوںمیں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا حتیٰ کہ ان کو اُف تک نہیں کہنا چاہئے۔ ادب و احترام محبت و خلوص کے ساتھ ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ ان کا ادب واحترام کرنا چاہئے۔ ان سے محبت کرنی چاہئے۔ ان کی فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ ان کی خدمت کرنا،ان کو حتی الامکان آرام پہنچانا ، ان کی ضروریات پوری کرنا ، یہ سب ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے۔

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًاO وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO

’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کروo اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجزو انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھاo‘‘

 الاسراء، 17 : 23 - 24

والدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان، لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے ہے کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے اور انہیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔ وہ خدمت کے محتاج ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لئے قرآن حکیم میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت (یعنی بچپن کا زمانہ) یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے ان سابق احسان کا بدلہ ادا کرو۔

جس طرح قرآن حکیم میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اسی طرح کئی احادیثِ مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو)۔ کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ حضور نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔

مسلم، الصحيح، کتاب البر و الصلة، باب رعم أنف من أدرک أبويه، 4 :) 1978، رقم : 2551)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کی خدمت کرنے کو جہاد سے افضل قرار دیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شریک جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس سے دریافت کیا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا فَفِيْھَا فَجَاِھد یعنی بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو یعنی ان کی خدمت سے ہی جہاد کا ثواب مل جائے گا۔

 بخاری الصحيح، 3 : 1094، رقم : 2842)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کو کبیرہ گناہ قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کوئی شخص اپنے والدین پر بھی لعنت کر سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يَسُبُّ الرَّجُلُ أبَا الرَّجُلِ فَيَسُبَّ أبَاهُ، وَيَسُبُّ أمُّهُ فَيَسُبُّ أمُّهُ.

’’کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا یہ اور کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیے اور وہ (بدلے میں) اس کی ماں کو گالی دے (تو یہ اپنے والدین پر لعنت کے مترادف ہے)۔‘‘

1. بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : لايسب الرجل والديه، 5 : 2228، رقم : 5628

2. ابوداؤد، السنن، کتاب : الأدب، باب : فی بر الوالدين، 4 : 336، رقم : 5141)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کے انتقال کے بعد بھی نیک اعمال کا ایصال ثواب اور ان کے دوستوں سے حسنِ سلوک کی صورت میں ان سے حسن سلوک جاری رکھنے کی تعلیم دی۔

اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے ،ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کوبیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی پاکیزہ نسبت عطا کی ہے؛ غرض ر شتے بناکر اللہ تعالی نے ان کے حقوق مقر ر فرمادیے ہیں ، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے ، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں اپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا ، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے ۔

والدین سے حسن سلوک کا حکم

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: ﴿وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً رَّبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوسِکُمْ إِن تَکُونُواْ صَالِحِیْنَ فَإِنَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِیْنَ غَفُوراً﴾․

(  الاسراء : ۲۳-۲۵)

ترجمہ : اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواہ کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آو ، اگر وہ یعنی ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں ، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اورا ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی ”ہوں “ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے(صرف ظاہر داری نہیں، دل سے ان کا احترام کرنا ) تمھارا رب تمھارے دل کی بات خوب جا نتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں کثرت سے معاف کرنے والا ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ جلَّ جلالُہ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فر ما یا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا ، اس کے بعد فر ما یا کہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں؛ بلکہ آج میں جو کچھ بھی ہوں، انھیں کی برکت سے ہوں ، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں؛بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کردیتے ہیں ۔

ماں کا مجاہدہ: سب سے زیا دہ محنت و مشقت اور تکلیف ماں برداشت کر تی ہے، سورة احقاف میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: 

﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ إِحْسَاناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہاً وَوَضَعَتْہُ کُرْہاً﴾ترجمہ :

 اس ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا ۔حمل کے نوماہ کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف، یہ سب ماں برداشت کر تی ہے ۔

( الاحقاف:۱۵)

جب بچہ پیدا ہو تا ہے تو اب اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کر تا ہے ، سردی ہو یا گر می ،صحت ہو یا بیما ری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسبِ معا ش کی صعوبتوں کو برداشت کر تا ہے اور ان کے لیے کما کر لاتا ہے، ان کے اوپر خرچ کرتا ہے ، ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے ،اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کو گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے ،بچہ بیما ر ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہو جا تے ہیں ، ان کی نیندیں حرام ہو جاتیں ہیں، اس کے علاج و معالجہ کی خا طر ڈاکٹروں کے چکر لگاتے ہیں ۔ غرض والدین اپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کر تے ہیں؛اس لیے اللہ تعالی نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے وہیں والدین کی شکرگزاری کا بھی حکم ارشاد فر مایا ہے

 ،سو رة لقمان میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ، إِلَیَّ الْمَصِیْرُ﴾

ترجمہ :کہ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔

 (  لقمان:۴۱)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے پو چھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اٹھا یا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے ،کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ؟تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرما یا: ”نہیں ہر گز نہیں ، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگا یا تھا ۔

اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیاہے:﴿وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَانًا﴾ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے ، تکبر نہ کرے ، ہر حال میں ان کی اطاعت کرے ، إلّا یہ کی وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو پھر ان کی اطا عت جا ئز نہیں۔سورئہ عنکبوت میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَوَصَّیْْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حُسْناً وَإِن جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا﴾تر جمہ : 

ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس با ت کا ذور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے شریک ٹھہرائے جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو ان کا کہنا مت ما ننا ۔

(  العنکبوت :۸)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا فرمان:حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریا فت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے ؟ تو انھوں نے فرما یا: تو ان پر اپنا مال خرچ کر ، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر ، ہاں اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان ۔)

الدالمنثور: ۵/ ۲۲۴)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فر ما یا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھا ڑو، کہیں کپڑوں کا غبا ر اور دھول ان کو لگ نہ جا ئے۔

بڑھاپے میں حسنِ سلوک کا خصوصی حکم: اللہ تعالی نے خاص طور سے والدین کے پڑھاپے کو ذکر فر ما کر ارشاد فر ما یا کہ اگر ان میں کوئی ایک، یا دونوں تیری ز ند گی میں پڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو ان کو ”اف “بھی مت کہنا اور نہ ان سے جھڑک کر با ت کر نا ۔ حضرت تھا نوی رحمہ اللہ نے بیا ن القرآن میں ”اف “ کا تر جمہ ”ہوں “ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ”ہوں “بھی مت کہنا ۔ اللہ رب العزت نے بڑھا پے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فر ما یا کہ والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ” ہوں“ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہو تا ہے؛ البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیا دہ اندیشہ رہتا ہے ۔،پھر بڑھا پے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑا پن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالی نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر با ت کر نا تو دور کی با ت ہے، ان کو” اف“ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناگواری کا اظہا ر بھی مت کر نا ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فر ما یا کہ اگر والدین کی بے ادبی میں ” اف “ سے کم درجہ ہوتا تو بھی اللہ جلَّ شانہُ اسے بھی حرام فرمادیتے 

الدالمنثور: ۵/ ۲۲۴)

حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا قول: حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر والدین بوڑھے ہو جائیں اور تمھیں ان کا پیشا ب دھو نا پڑجا ئے تو بھی” اف“ مت کہنا کہ وہ پچپن میں تمہارا پیشا ب پاخانہ دھوتے تھے۔

الدالمنثور: ۵/ ۲۲۴

والدین کا ادب: 

حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، وہ فر ما تی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: لا تَمْشِ أمامَہ، وَلَاتَقْعُدْ قَبْلَہ، وَلاَتَدْعُہْ بِاسْمِہ، وَلَاتَسْتَبَّ لَہ․یعنی ان کے آگے مت چلنا ، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا ، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گا لی مت دینا ۔

 معجم الأوسط، للطبراني:۴/۲۶۷، رقم الحدیث: ۴۱۶۹

 بڑھا پے میں جب والدین کی کوئی با ت نا گوار گزے تو ان سے کیسے گفتگوکی جا ئے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے فر ما یا: ﴿ وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما﴾یعنی: ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اچھی بات کر نا ، لب ولہجہ میں نر می اور الفا ظ میں تو قیر و تکریم کا خیا ل رکھنا ۔ 

الاسراء:۲۳

قول کریم کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فر ما یا: خطا  کار اور زر خرید غلام سخت مزاج اور ترش روی آقا سے جس طرح  بات کر تا ہے، اس طرح با ت کر نا 'قول کریم' ہے

آگے فر ما یا: ﴿ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾ یعنی ان کے سامنے شفقت کے ساتھ انکساری سے جھکتے رہنا ۔ حضرت عروہ رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ نے قران میں والدین کے سامنے جھکے رہنے کا حکم دیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انھوں نے فر ما یا کہ اگر وہ کوئی با ت تیری نا گواری کی کہیں تو ترچھی نگا ہ سے بھی ان کو مت دیکھ کہ آدمی کی نا گواری اول اس کی آنکھ سے پہچانی جا تی ہے۔

 الدرالمنثور۵/۲۲۵) 

اور فر ما یا کہ ان کے سامنے ایسی روش اختیار کر کہ تیری وجہ سے ان کی دلی رغبت پوری کر نے میں فرق نہ آئے اور جس چیز کو والدین پسند کریں تو وہ ان کی خدمت میں پیش کر نے میں کنجوسی مت کرنا۔

 (بر الوالدین، ص: ۴۰)

معارف القر آن میں لکھا ہے کہ والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم کسی زمانے و عمر کے ساتھ مقید نہیں ، ہر عمر میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا واجب ہے؛کیونکہ والدین کی خدمت اور ان کی رضا مندی میں اللہ تعالی کی رضامندی ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی نا راضگی ہے 

معارف القر آن:۵/۴۶۶

اللہ تعالی کی رضا و ناراضگی: حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ فر ما تے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا :ر ضا اللّٰہ مع رضا الوالدین و سخطُ اللّٰٰہِ مع سخطِ الوالدین

شعب الإیمان: ۶/۱۷۷، رقم الحدیث: ۷۸۲۹،۷۸۳۰

․ یعنی اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔

جنت یا جہنم کے دروازے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : مَنْ أَصْبَحَ مُطِیْعًا فِی وَالِدَیْہِ أَصْبَحَ لَہ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ الْجَنَّةِ، وَانْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، وَمَنْ أمسیٰ عَاصِیًا للّٰہ فی وَالِدَیْہِ أَصْبَحَ لَہ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ النَّارِ، وَانْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، قال الرجلُ: وانْ ظَلَمَاہُ؟ قال: وانْ ظَلَمَاہُ، وان ظَلَمَاہُ، وان ظلماہ․

یعنی جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فر ما نبر دار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں اوراگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے ۔اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کی نا فر ما نی کی، اس کے بتائے ہوے احکا ما ت کے مطا بق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اوراگر والدین میں ایک زندہ ہواوراس کے ساتھ بد سلوکی کر ے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فر ما یا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو ۔

شعب الإیمان: ۶/۲۰۶، رقم الحدیث: ۷۹۱۶

 حضرت رفاعہ بن ایاس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ رونے لگے، کسی نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ تو انھوں نے فرمایا : کَانَ لِيْ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ الی الجنَّةِ وَأُغْلِقَ أحدُہما یعنی میرے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے، اب ایک (والدہ کی وفات پر) بند ہوگیا ہے؛ اس لیے رو رہا ہوں۔ کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے والدین زندہ ہیں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ ََ

والدین کے لیے دعا کا اہتمام کرنا: اللہ تعالی نے جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے وہیں پر ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے؛ چناں چہ ارشاد خداوندی ہے: ﴿ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً﴾یعنی: اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر رحم فر ماجیسا کہ انھوں نے بچپن میں (رحمت و شفقت کے ساتھ) میری پرورش کی ہے۔

الاسراء :۲۴

ہر نماز کے بعدوالدین کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں، دو بہت آسان دعائیں جن کی تعلیم خود اللہ جلَّ شانہُ نے قرآن کریم میں دی ہے، ایک ماقبل والی اور دوسری یہ:﴿ رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ﴾  یعنی اے میرے پروردگار ! روزحساب تو میری، میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرما۔

الإبراہیم: ۴۱

حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا : مَنْ صَلّی الصَّلَوَاتِ الخَمْسَ فَقَدْ شَکَرَ اللّٰہَ، وَمَنْ دَعَا لِلْوَالِدَیْنِ فِيْ أَدْبَارِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ فَقَد شَکَرَ الْوَالِدَیْنِ․

 یعنی جس نے پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا تو گو یا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جس نے پانچ نمازوں کے بعد والدین کے لیے دعا ئے خیر کی تو گویا اس نے والدین کا شکر ادا کیا۔

 تفسیرالخازن المسمی: لباب التأویل في معانی التنزیل، سورة لقمان: ۵/۲۱۶

 اولاد کی دعا سے والدین کے درجات بلند ہوتے ہیں، حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اللہ کی ملاقات کے لیے گئے تو وہا ں عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا اور اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسی علیہ السلام کو اس آدمی پر رشک آیا تو موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا کہ اے اللہ ! تیرا یہ بندہ کون ہے ؟ اللہ تعالی نے فرما یا : کَانَ لاَ یَحْسُدُ النَّاسَ عَلٰی مَا آتاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ، وَکَانَ لاَ یَعُقُّ وَالِدَیْہِ، وَلاَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَةِ․ یعنی یہ شخص تین کا م کر تا تھا ( ۱ ) جو چیزیں میں نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کو نعمتیں عطا کی ہیں ان پر حسد نہیں کر تا تھا (۲)والدین کی نا فر ما نی نہیں کر تا تھا (۳) چغل خوری نہیں کر تا تھا ۔

مکارم الأخلاق لابن أبی الدنیا: ۱/۸۶، رقم الحدیث: ۲۵۷

رزق میں اضافہ: 

والدین کے ساتھ حسن سلوک رزق و عمر میں اضا فہ کا سبب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یعنی جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔

شعب الإیمان: ۶/۱۸۵، رقم الحدیث: ۷۸۵۵

ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : بَرُّوْا آبَاءَ کُمْ تَبُرَّکُمْ أَبْنَاوٴُکُمْ․ یعنی تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہا ری اولاد تمھارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔

المعجم الأوسط:۱/۲۹۹، رقم الحدیث: ۱۰۰۲

موت کے بعد والدین سے حسن سلوک کا طریقہ:

 والدین یا ان میں کوئی ایک فوت ہوجائیں اور زندگی میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک میں کوتاہی ہوئی ہو تو اس کے تدارک کا طریقہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا۔حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حضور اقدس صلی اللہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا کہ ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے جس کے ذریعے ان سے حسن سلوک کروں؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا: نَعَمْ، اَلصَّلاةُ عَلَیْہِمَا، وَالاِسْتِغْفَارُ لَہُمَا، وَانْفَاذُ عَہْدِہِمَا مِنْ بَعْدِہِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِیْ لاَ تُوْصَلُ الاّ بِہِمَا، وَاکْرَامُ صَدِیْقِہِمَا․ ہاں! ان کے لیے رحمت کی دعا کر نا ، ان کے لیے مغفرت کی دعا کر نا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نا فذکر نا اور اس صلہ رحمی کو نبھا نا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو، ان کے دوستوں کا اکرام کر نا ۔

سنن أبي داود: ۵۰۰، رقم الحدیث: ۵۱۴۴

 حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان سے ملنے کے لیے آئے اور پوچھا تمہیں معلوم ہے کہ میں تمھارے پاس کیوں آیاہوں ؟ انھوں نے کہا کہ نہیں، تو فرمایا: میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَصِلَ أبَاہُ فِی قَبْرِہ فَلْیَصِلْ اخْوَانَ أبِیْہِ بَعْدَہ․ یعنی جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ قبر میں صلہ رحمی کرے تو اس کو چاہیے کہ ان کے بعد ان کے دوستو ں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، میرے والد عمر رضی اللہ عنہ اور تمھارے والد کے درمیان دوستی تھی میں نے چاہا کہ میں ا سے نبھاوں (اس لیے تم سے ملنے آیا ہوں)۔

صحیح ابن حبان:۲/۱۷۵، رقم الحدیث:۴۳۴,۴۴۹

اسلام میں رشتہ داروں کے حقوق

اسلام رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھے برتاؤ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ سورہ النحل میں رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے۔

إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO

’’بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo‘‘

 النحل، 16 : 90

رشتہ دار مفلس و محتاج ہوں اور کمانے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو حسبِ استطاعت ان کی مالی مدد کرتے رہنا اسی طرح ان کی خوشی و غمی میں ہمیشہ شریک رہنا، صلہ رحمی کرنا اور کبھی بھی ان کے ساتھ قطع تعلق نہ کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔

حدیث مبارکہ میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی کرنے والا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

 بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : اثم القاطع، 5 : 2231، رقم : 5638

اسی طرح قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں رشتہ داروں کے معاشی حقوق پر بھی زور دیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌO

’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہےo‘‘

 البقره، 2 : 215

علاوہ ازیں احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غریب رشتہ داروں کی معاشی بحالی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ کمزور اقرباء کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تلقین فرمائی۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ (باغ) اپنے غریب اقارب کو دے دو، پس انہوں نے وہ حضرت حسان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو دے دیا (جو ان کے چچا زاد بھائی تھے)۔

 بخاری، الصحيح، 3 : 1011، رقم : 2600

رشتہ داروں کے حقوق

 اسلام کا مقصود انسانوں کے باہمی رحم و کرم اور شفقت و مہربانی پر مبنی معاشرے کی تعمیر ہے جس کی قیادت محبت و بھائی چارے کے ہاتھ میں ہو اور اس پر خیر و بھلائی اور عطاء و کرم کا راج ہو۔ اسلامی معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے۔ اسلام نے خاندان کی جڑیں مضبوط کرنے اور اس کی عمارت کو پائدار بنانے کے جو اصول و ضوابط متعین کیے ہیں ان میں سے ایک صلہ رحمی ہے۔ صلہ رحمی سے مراد ہے رشتوں کو جوڑنا، رشتے داروں اور اعزاء و اقربا کے ساتھ نیکی اور حسنِ سلوک کرنا۔ علمائے امّت کا اتفاق ہے کہ صِلہ رحمی واجب اور قطع رحمی حرام ہے، احادیث میں بغیر کسی قید کے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان سے تعلق جوڑے رکھنے کا حکم آیا ہے۔ صلہ رحمی اتنی اہم معاشرتی قدر ہے کہ تمام شریعتوں میں اس کا مستقل حکم رہا ہے اور تمام امتوں پر یہ واجب ٹھہرائی گئی ہے۔ اولادِ یعقوب علیہ السلام کے توحید پر ایمان لانے اور والدین سے حسنِ سلوک کے بعد اعزا و اقرباء سے صلہ رحمی کا عہد لیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِىْ إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَّذِي الْقُرْبَى.

اور (یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں کے ساتھ (بھلائی کرنا)۔

البقرة، 2: 83

یہ حکم امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی لازم کیا گیا اور صلہ رحمی کرنے والوں سے آخرت میں اُس حسین گھر کا وعدہ کیا گیا ہے جو گل و گلزار سے سجا ہوگا۔ ارشادِ ربانی ہے:

وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ.

اور جو لوگ ان سب (حقوق اﷲ، حقوق الرسول، حقوق العباد اور اپنے حقوقِ قرابت) کو جوڑے رکھتے ہیں، جن کے جوڑے رکھنے کا اﷲ نے حکم فرمایا ہے اور اپنے رب کی خشیّت میں رہتے ہیں اور برے حساب سے خائف رہتے ہیں (یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا گھر ہے)

الرَّعْد، 13: 21

اور قطع تعلق کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُوْلَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ.

اور جو لوگ اﷲ کا عہد اس کے مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان تمام (رشتوں اور حقوق) کو قطع کر دیتے ہیں جن کے جوڑے رکھنے کا اﷲ نے حکم فرمایا ہے اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں انہی لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔

الرَّعْد، 13: 25

مزید یہ کہ قطع رحمی کو فساد فی الارض کے جیسے گھناؤنے جرم کے ساتھ ذکر کر کے اسے منافقت کی علامت قرار دیا اور اس کے مرتکبین کی تہدید کرتے ہوئے فرمایا:

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْO

پس (اے منافقو!) تم سے توقع یہی ہے کہ اگر تم (قتال سے گریز کر کے بچ نکلو اور) حکومت حاصل کر لو تو تم زمین میں فساد ہی برپا کرو گے اور اپنے (ان) قرابتی رشتوں کو توڑ ڈالو گے (جن کے بارے میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مواصلت اور مُودّت کا حکم دیا ہے)۔

مُحَمَّد، 47: 22

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ایک امتیازی اور نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلہ رحمی کرتے، رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے اور ان کے ساتھ محبت و خیرخواہی سے پیش آتے۔ یہ خوبی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزاج مبارک میں رچ بس گئی تھی اور آپ کی زندگی کا ایک جزو لاینفک بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ قدرے گھبرا کر گھر تشریف لائے، اپنی مونس و غمخوار رفیقہٴ حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے پوری صورتِ حال رکھی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان الفاظ میں تسلی دیتی ہیں اور ہمت بندھاتی ہیں کہ:

كلا والله ما يخزيك الله ابدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق.

اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔

بخاري، الصحيح، كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ، رقم الحدیث: 3

یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کے آغاز سے ہی ایمانیات کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی کی دعوت کا بھی اہتمام فرمایا۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے شروع میں ہی مکہ مکرمہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا آپ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’میں نبی ہوں‘۔ میں نے پوچھا نبی کا کیا معنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’مجھے اللہ نے اپنا رسول و پیامبر بنایا ہے‘۔ میں نےعرض کیا اللہ نے آپ کو کیا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’صلہ رحمی کرنے، بتوں کو توڑنے اور اللہ کی توحید و یکتائي کا پیغام دے کر بھیجا ہے‘۔

مستدرک حاکم

جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو کفارِ مکہ ان کا تعاقب کرتے ہوئے ہرقل کے دربار میں جا پہنچے۔ ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا کہ جس پیغمبر کے خلاف تم برسرِ پیکار ہو وہ تمھیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ ابوسفیان نے عہد کفر میں ہونے کے باوجود گواہی دی ’وہ کہتے ہیں صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور وہ ہمیں نماز پڑھنے، سچ کہنے، عفت و پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہیں۔‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ آئے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن امور کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروائی ان میں سے ایک صلہ رحمی بھی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سلام فرماتے ہیں:

’نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے اور آپ نے جو باتیں کیں ان میں سے جو میں نے سنا سب سے پہلے آپ نے فرمایا: ’اے لوگو! سلام کو عام کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں تم نماز ادا کرو، اس طرح آسانی و سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے خلیل یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان اچھی خصلتوں کی وصیت فرمائی:

بِأَنْ لَا أَنْظُرَ إِلٰی مَنْ هُوَ فَوْقِي وَأَنْ أَنْظُرَ إِلٰی مَنْ هُوَ دُوْنِي وَأَوْصَانِي بِحُبِّ الْمَسَاکِيْنِ وَالدُّنُوِّ مِنْهُمْ وَأَوْصَانِي أَنْ أَصِلَ رَحِمِي وَإِنْ أَدْبَرَتْ، وَأَوْصَانِي أَنْ لَا أَخَافُ فِي اﷲِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَأَوْصَانِي أَنْ أَقُوْلَ الْحَقَّ وَإِنْ کَانَ مُرًّا، وَأَوْصَانِي أَنْ أُکْثِرَ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاﷲِ فَإِنَّهَا کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ الْجَنَّةِ.

’میں (دنیاوی حوالہ سے) اپنے سے اوپر والے کی طرف نہ دیکھوں بلکہ اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھوں، مجھے مساکین سے محبت رکھنے اور ان کے قریب رہنے کی وصیت فرمائی۔ اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں صلہ رحمی کروں اگرچہ وہ (رشتہ دار) مجھ سے منہ پھیر لیں، اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں اﷲتعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں، اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں حق بات کہوں خواہ وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو، اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں ’’لا حول ولا قوۃ إلا باﷲ‘‘ کے ذکر کی کثرت کروں کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔‘

ابن حبان في الصحيح، کتاب البر والإحسان، باب صلة الرحم وقطعها، ذکر وصية المصطفی صلی الله عليه وآله وسلم بصلة الرحم وإن قطعت، 2 /194، الرقم: 449

وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /159، الرقم: 21453

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلہ رحمی کو رزق میں کشادگی کا سبب قرار دیا۔ امیر المؤمنین سیدنا علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: من سره ان یمد له فی عمره و یوسع له فی رزقه، و یدفع عنه میتةالسوء فلیتق اللہ ولیصل رحمه.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جسے خوش آئے کہ اس کی عمر دراز ہو، رزق وسیع ہو، بری موت دور ہو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور رشتوں کو جوڑے۔

المسند لاحمد بن حنبل، 3: 266

مجمع الزوائد للهیثمی، 8: 136

اور حضرت ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قال رسول الله صلی الله علیہ وآله وسلم: ان اعجل الخیر ثوابا صلة الرحم حتی ان اهل البیت لیکونون فجره فتمنوا اموالهم و یکثر عددهم اذا تواصلوا.

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک سب نیکیوں میں جلد تر ثواب پانے والا عمل صلہ رحمی ہے۔ یہانتک کہ گھروالے فاسق ہوتے ہیں اور ان کے مال ترقی کرتے ہیں ان کے شمار بڑھتے ہیں جب وہ آپس میں صلہ رحمی کریں۔

السنن الکبری للبیهقی، 10/26

جمع الجوامع للسیوطی، 7213

درج بالا آیات و روایات سے صلہ رحمی کی اہمیت اور قطع رحمی کی ممانعت واضح ہوتی ہے۔ رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے تعلق میں ہمیشگی کو ملحوظ رکھنا، ان کی مدد و خیرخواہی کرنا، ان کی غمی خوشی اور دکھ درد میں شریک ہونا، تقاریب و تہواروں میں انہیں مدعو کرنا، ان کی دعوتوں میں شرکت کرنا اور اس طرح کے دیگر امور صلہ رحمی میں شامل ہیں۔

صلہ رحمی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ رشتے داروں سے ان کے رویے کے مطابق سلوک کیا جائے، اگر ایسا کیا جائے تو یہ درحقیقت مکافات یعنی ادلا بدلا ہے کہ کسی رشتے دار نے تحفہ بھیجا تو اس کے بدلے تحفہ بھیج دیا، وہ آیا تو بدلے میں اس کے پاس چلے گئے۔ حقیقتًا صلہ رحمی یہ ہے کہ رشتے دار تعلق توڑنا چاہے تو اس تعلق کو بچانے کی کوشش کی جائے، وہ جدائی چاہے، بے اعتنائی برتے تب بھی اس کے حقوق و مراعات کا خیال رکھا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها.

صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چُکائے، بلکہ جوڑنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے جوڑ دے۔

بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافی، 4: 98، رقم الحدیث: 5991

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا تكونوا إمعة، تقولون: إن احسن الناس احسنا وإن ظلموا ظلمنا، ولكن وطنوا انفسكم، إن احسن الناس ان تحسنوا وإن اساءوا فلا تظلموا.

تم لوگ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑنے والے نہ بنو یعنی اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر ہمارے اوپر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں تو تم بھی احسان کرو اور اگر بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔

ترمذی، کتاب البرو الصله، باب ماجاء فی الاحسان والعفو، 3: 405، حدیث: 3014

درج بالا احادیثِ مبارکہ سے صلہ رحمی کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے کہ رشتے داروں کے برے سلوک کے باوجود صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، جب وہ محروم کریں تب بھی انہیں عطا کیا جائے، وہ ظلم کریں تو معاف کیا جائے۔ اگر رشتہ دار روٹھیں، قطع تعلقی اختیار کرنا چاہیں، بول چال بند کر دیں تو خود ان کے پاس جاکر انہیں منایا جائے۔ یقیناً یہ رویہ نفس پر بہت گراں ہے اور شیطان ہمیشہ طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ایسا کرنے میں رکاوٹ بنا رہے گا مگر ان اعمال کا اجر خدا کے حضور بہت بڑا ہے۔ صلہ رحمی کا حکم اس اصرار اور اہتمام کے ساتھ دینے کا سبب بھی یہی ہے کہ اس پر حقیقی روح کے ساتھ عمل کرنے میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ احادیث بیان فرما رہے تھے، اس دوران فرمایا:

’ہر قاطِع رِحم (یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہماری محفل سے اُٹھ جائے۔‘ ایک نوجوان اُٹھ کر اپنی پُھوپھی کے ہاں گیا جس سے اُس کا کئی سال پُرانا جھگڑا تھا، جب دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو گئے تو اُس نوجوان سے پُھوپھی نے کہا :تم جا کر اس کا سبب پوچھو، آخر ایسا کیوں ہوا؟ (یعنی حضرت ابوہریرہ کے اعلان کی کیا حکمت ہے؟) نوجوان نے حاضر ہو کر جب پوچھا تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ: ’جس مجلس میں قاطِع رحم (یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہو، اُس قوم پر اللہ کی رحمت کا نزول نہیں ہوتا۔‘

اَلزَّواجِرُ عَنِ اقتِرافِ الکبائِر، ج: 2، ص: 351

خلاصہ کلام یہ ہے کہ صلہ رحمی ہر مسلمان پر واجب ہے۔ رشتے داروں کی بے اعتنائی، ناشکری اور زیادتی کے باوجود ان سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے، تاہم قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں قطع رحمی کرنے والے رشتے داروں کے متعلق تین طرح کے رویے ہوسکتے ہیں:

کوئی رشتے دار اگر زیادتی کرے تو زیادتی کا بدلہ لے لیا جائے، تعلقات منقطع نہ کیے جائیں کریں مگر میل جول بھی نہ رکھا جائے۔ مطلب یہ کہ اگر کہیں ملاقات ہو جائے تو سلام دعا کرنے کی صورت باقی رہے۔

ایسے رشتے دار کے ساتھ صرف غمی اور خوشی کا تعلق رکھا جائے اور عام حالات میں اس سے میل ملاقات نہ رکھی جائے۔ تاہم اگر کوئی شدید ضرورت سامنے آجائے تو اس کی مدد سے بھی گریز نہ کیا جائے۔

ایسے رشتے داروں کی زیادتیوں کو نظر انداز کیا جائے اور ان سے حسن سلوک اور مہربانی کا برتاؤ جاری رکھا جائے۔

ان میں سے پہلا رویہ اختیار کرنے پر انسان گناہ گار نہیں ہوگا، دوسرے رویے کا فائدہ یہ ہے کہ نیکی کے مواقع ضائع نہیں ہوں گے اور تیسرا رویہ احسان کا ہے جو فضیلت کا باعث ہے۔ اللہ کی رضا زیادہ زیادہ حاصل کرنا پیش نظر ہو تو اسی تیسرے کو اختیار کرنا چاہیے۔

رشتے داروں سے مراد وہ اعزّہ ہیں، جن کا انسان سے نسب کے واسطے سے تعلّق ہوتا ہے، چاہے انہیں ترکے میں حصّہ ملے یا نہ ملے۔ اسلام نے رشتوں کو معزز واعلیٰ مقام عطا فرماکر ان کی اہمیت و عظمت کو احترام کی ان بلندیوں پر پہنچایا کہ کوئی مذہب، نظریہ اور تہذیب پہنچنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتی۔ مثلاً باپ کے بھائیوں کو باپ کا درجہ، ماں کی بہنوں کو ماں کا درجہ دے کر انہیں عظمت و توقیر کی معراج تک پہنچادیا۔ رشتے داری کو ’’صلۂ رحمی‘‘ کے نام سے تعبیر کیا اور اہلِ قرابت کے ساتھ اچھے تعلّقات رکھنے، ان کی عزت و احترام کو باعثِ ثواب و نیکی قرار دیا۔ 

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ’’رشتے داری رحمان کی شاخ ہے، پس، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جو تجھے جوڑے گا، میں اس سے جڑوں گا اور جو تجھے کاٹے گا، میں اس سے کٹ جائوں گا۔‘‘(صحیح بخاری) قرآن کریم میں بہت سی آیات مبارکہ ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے رشتے داروں کے مقام و اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے ساتھ تعلّقات جوڑنے، اچھا برتائو کرنے اور صلۂ رحمی کرنے کے احکامات فرمائے ہیں۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور رشتے داروں کو (خرچ میں مدد) دینے کا۔‘‘ 

حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے، جس سے میں جنّت میں داخل ہوجائوں۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘‘

 (صحیح بخاری، مسلم)

رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک: اللہ تبارک وتعالیٰ کو اپنی عبادت اور والدین کی خدمت کے بعد رشتے داروں سے حسنِ سلوک بے حد پسند ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اور تم اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، رشتے داروں، ہم سایوں اور اجنبی ہم سایوں، پہلو کے ساتھی، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں (نوکر، ملازم) سب کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو۔ اللہ تکبّر اور بڑائی جتانے والے کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ (سورۃ النساء)

 اس آیتِ مبارکہ میں اللہ نے درجہ بہ درجہ معاشرے کے تمام افراد کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم فرماتے ہوئے رشتے داروں اور قرابت داروں کا درجہ والدین کے فوراً بعد رکھا ہے اور پھر اسی مناسبت سے دیگر لوگوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے سب کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کا معاملہ کرنے کے احکامات فرمائے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں ’’میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کا رزق کشادہ ہو اور اس کی عمر لمبی ہو، اسے چاہیے کہ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔‘‘

( صحیح بخاری۔ )

اس حدیث سے واضح ہوا کہ رشت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک نہ صرف آخرت میں اجروثواب اور جنّت کے حصول کا باعث ہے، بلکہ دنیاوی فوائد یعنی رزق میں کشادگی اور عمر میں اضافے کا سبب بھی ہے۔ 

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

 ’’اے نبیؐ!آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا، البتہ یہ چاہتا ہوں کہ تم رشتے داری کی محبت کو قائم رکھو۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ)۔

 سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

 ’’اور ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا۔‘‘ (البقرہ)

 اسی آیت میں اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے ’’صرف چند لوگوں کے علاوہ باقی سب نے ان احکامات سے منہ موڑ لیا اور اس پر عمل پیرا نہ ہوئے، لہٰذا اللہ نے ایسی بہت سی قوموں پر اپنا عذاب نازل فرمایا۔‘‘

رشتے داروں سے قطع تعلقی: قرآنِ کریم کی سورۃ النساء میں اللہ فرماتا ہے ’’لوگو!اس اللہ سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتے داروں، قرابت داروں سے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔‘‘ 

(سورۃ النساء) 

نبی کریمؐ نے فرمایا ’’اس قوم پر اللہ کی رحمت نہیں ہوتی، جس میں کوئی قطع تعلقی کرنے والا موجود ہو۔‘‘ (الادب المفرد)۔

 آج ذرا ذرا سی بات پر سگے بہن، بھائیوں، یہاں تک کہ ماں باپ کے ساتھ بھی قطع تعلق کرلیا جاتا ہے۔ 

ذاتی اَنا، تکبّر اور غلط فہمیوں نے اچھے اچھے گھرانوں کو قطع رحمی میں مبتلا کر رکھا ہے، جب کہ خوفِ خدا رکھنے والا مسلمان اس کے ارتکاب کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے ’’قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں، جو اس لائق ہو کہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کو اللہ آخرت میں سزا دینے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سزا دے۔‘‘ (ترمذی، ابنِ ماجہ)

 جبیربن مطعمؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ’’رسولؐ اللہ نے فرمایا، رشتے داروں سے تعلق توڑنے اور ان سے بدسلوکی کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘ 

(ترمذی) 

رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والوں کی بدقسمتی، بدبختی اور محرومی کے لیے نبی کریمؐ کی یہ حدیثِ مبارکہ ؐ ہی کافی ہے۔ 

مسندِاحمد میں روایت ہے ’’انسانوں کے اعمال ہرجمعرات کوپیش کیے جاتے ہیں، مگر قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا۔‘‘

رشتے داروں سے تعلق قائم رکھو: قرآن کریم کی سورۃ الّروم میں اللہ حکم دیتا ہے کہ ’’تم اپنے رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو اور یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے، جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں۔‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے کچھ رشتے دار ہیں، جن سے میں تعلق قائم کرتا ہوں، مگر وہ میرے ساتھ لاتعلقی کا رویّہ رکھتے ہیں، میں ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہوں، لیکن وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں ان کی خطائوں کو درگزر اوربرداشت کرتا ہوں، مگروہ جہالت پر اتر آتے ہیں۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا’’اگر یہی بات ہے، جو تم نے بیان کی ہے، تو گویا تم نے ان کے چہروں کو خاک آلود کردیا اور جب تک تم اس طریقۂ کار پر کاربند رہو گے، اللہ تمہاری برابر مدد فرماتا رہے گا۔‘‘

 (صحیح مسلم)

 ترمذی کی روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا’’تم ان لوگوں میں سے نہ بنو، جو یہ کہتے ہیں کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے، تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر وہ ہم پر زیادتی کریں گے،تو ہم بھی زیادتی کریں گے، بلکہ اس کے برعکس، تم اس بات کے عادی بنو کہ لوگ تمہارے ساتھ برائی کریں، تو تم بھلائی کرو اور اگر وہ زیادتی کریں، تو تم زیادتی نہ کرو۔‘‘ 

(ترمذی)

 ایک اور موقعے پر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’قطع تعلق کرنے والوں سے صلۂ رحمی کر، محروم کرنے والے کو عطا کر اور جس نے تجھے گالیاں دیں، ان سے درگزر کر۔‘‘

 (طبرانی) 

ترمذی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’جو مسلمان، لوگوں کےساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف برداشت کرتا ہے، وہ اس شخص سے کہیں بہتر ہے، جو لوگوں سے الگ تھلگ کٹ کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر برداشتۂ خاطر ہوتا ہے۔‘‘ یادرکھیے! نبی کریم ؐ کا فرمان ہے کہ ’’اپنے بھائی کے لیےمسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔‘‘ آج کے اس مادہ پرست دور میں رشتے داروں، عزیزوں اور قرابت داروں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کے لیے بڑے حوصلے، حکمت، عفودرگزر اور صبرو تحمّل کی ضرورت ہے۔ 

ورنہ عدم برداشت اور غلط فہمیوں نے تعلقات کو اس نہج پر پہنچادیا ہے کہ ذرا سی بدگمانی یا ذرا سی ٹھیس، رشتوں کے ان نازک آب گینوں کو ہمیشہ کے لیے توڑ دیتی ہے اور خون کے رشتوں میں اتنی دوری پیدا ہوجاتی ہے کہ اکثرلوگ قرابت داروں کے سفرِ آخرت میں بھی شرکت نہیں کرتے۔ 

بعض اوقات آپس کی غلط فہمیاں، سگے رشتوں کے درمیان دراڑیں ڈالنے کا سبب بن جاتی ہیں، اور اس کے بعد بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ ’’اب اس سے میرا تعلق ہمیشہ کے لیے ختم۔‘‘ حالاں کہ اگر ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں، تو محسوس ہوگا کہ غیرارادی طور پر ہونے والی کوئی حرکت، بے خیالی میں نکلنے والا کوئی جملہ اور اپنوں ہی کی لگائی بجھائی، تعلقات کی اس خرابی کا باعث بنتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، آپس میں صلح صفائی اور غلطی پر معافی مانگنا، بڑائی کی علامت اورباعثِ ثواب ہے ۔

        فرامینِ الٰہی

 اللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور رشتے داروں کے حقوق ادا کرنے کا ۔

(سورۃ النحل)

lاللہ کی خوش نودی چاہتے ہو، تو رشتے داروں کو ان کا حق دیتے رہو۔

(سورۃ الروم)

lسچّے اور اللہ سے ڈرنے والے اپنے مال سے محبت کے باوجود اسے اپنے رشتے داروں پر خرچ کرتےہیں۔ (سورۃ البقر

lاللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ، رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا۔ سورۃ البقرہ)

lاپنے مال کو اپنے والدین، رشتے داروں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ 

(سورۃ البقرہ)

lرشتے داروں سے تعلقات توڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔ 

(سورۃ النساء)

l(اللہ کی جانب سے) مقرر کردہ حصّوں کے مطابق، وراثت میں سے رشتے داروں کو ان کا حصّہ دو۔ (سورۃ النساء)

lاگر میراث کی تقسیم کےوقت (غیروارث) رشتے دار، یتیم اور مسکین آجائیں، تو انہیں بھی کچھ دو۔ (سورۃ النساء)

lماں باپ، قرابت داروں، ہم سایوں اور غریب غربا کے ساتھ احسان کرو۔

 (سورۃ النساء)

lرشتے داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو۔

 (سورہ بنی اسرائیل)

l’’اے نبیﷺ آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، البتہ یہ چاہتا ہوں کہ تم رشتے داری کی محبت کو قائم رکھو۔‘‘ 

(سورۂ شوریٰ)

lتم سے بعید نہیں کہ اگر تم حاکم بن جائو، تو زمین پر فساد پیدا کرو اور رشتہ ناتے توڑ ڈالو، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے۔ 

(سورۂ محمد)

l(ناراض ہونے پر) صاحبِ ثروت اپنے رشتے داروں، مسکینوں اور مہاجروں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں، بلکہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں، اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ 

(سورۂ نور )

تم (اس وقت تک) نیکی حاصل نہیں کرسکتے، جب تک اپنی عزیز چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔

(سورئہ آلِ عمران)          

اولاد کی تعلیم وتربیت

سورہ لقمان میں حق باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾[لقمان:13]

’’اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے‘‘۔

[سورہ لقمان:۱۳]

اسکے بعد اللہ بزرگ وبرتر نے لقمان حکیم کے الفاظ میں ان مفید ونفع بخش پند ونصائح کو یوں بیان فرمایا ہے:

۱۔﴿ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾

[لقمان:13]

’’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹہراؤ،بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔

[سورہ لقمان:۱۳]

 یعنی اللہ تعالیٰ کی بندگی بجالانے میں کسی کو بھی اس کا ساتھی اور ساجھی بنانے سے بچو،اور اللہ کے سوا مردہ یا آنکھوں سے اوجھل وپوشیدہ لوگوں سے دعائیں کرنا،ان کو پکارنا اور ان سے فریادکناں ہونا عبادت میں شرک کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ اور نبی کریمﷺ نے :

(الدُّعَاءُ هُوَ العِبَادَةِ) ’’یعنی دعا ہی عبادت ہے‘‘(اسے ترمذی نے روایت کرکے حسن صحیح کہا ہے) کہہ کر اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

اور جب یہ آیت نازل ہوئی:

﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ﴾

[الأنعام:82]


’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا‘‘

[سورہ انعام:۸۲]

تو اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اس آیت کا نزول نہایت شاق وگراں گذرا، چنانچہ انہوں نے رسولﷺ کے سامنے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: (أَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ؟) ’’یعنی ہم میں سے کون ہے جو اپنے آپ پر ظلم نہ کرتا‘‘،تو اس کے جواب میں رسولِ دوجہاں ﷺ نے فرمایا:

(لَيْسَ ذَلِكَ، إِنَّمَا هُوَ الشِّرْكُ ،أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ، إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ )

’’یعنی یہ وہ عام ظلم نہیں ہے بلکہ اس (آیت میں مذکور لفظ ظلم) سے مراد تو صرف شرک ہی ہے،کیا تم نے لقمان کا وہ قول نہیں سنا جس میں وہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرانا،یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔

 (بخاری ومسلم)

۲۔﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴾

[لقمان:14]

’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘

[سورہ لقمان:۱۴]

دیکھئے تو ماں اپنے بچے کو کس قدر مشقّت کے ساتھ اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے،جب کہ باپ بچے کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی ذمہ داری کو نبھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔ اس وجہ سے والدین کا اپنے بچے پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ اپنے محسن والدین کے احسانات کا بھی شکر گذارہو۔

۳۔﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾

[لقمان:15]

’’اور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راه چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو، تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے، تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا ‘‘

[سورہ لقمان:۱۵]

امام حافظ ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

(أَيْ : إِنْ حَرَصَا عَلَيْكَ كُلَّ الْحِرْصِ عَلَى أَنْ تُتَابِعَهُمَا عَلَى دِينِهِمَا ، فَلَا تَقْبَلْ مِنْهُمَا ذَلِكَ ، وَلَا يَمْنَعَنَّكَ ذَلِكَ مِنْ أَنْ تُصَاحِبَهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ، أَيْ : مُحْسِنًا إِلَيْهِمَا ،(وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ)  يَعْنِي : الْمُؤْمِنِينَ)

یعنی وہ تجھ کو اپنے دین کی اتّباع پر مجبور کرنے کی غرض سے چاہے جس قدر بھی اصرار کریں ان کی اس بات کو کسی بھی صورت میں قبول نہ کر،اور یہ بات تجھ کو ان کے ساتھ دنیا میں اچھا برتاؤ کرنے سے کسی طور بھی مانع نہیں ہونی چاہیے،اور اہل ایمان کے طریقہ کی پیروی واتباع برابر کرتے رہو۔

ہمارے خیال کے مطابق اس بات کی تائید تو نبیﷺ کے مندرجہ ذیل فرمان سے بھی ہوتی ہے:

(لَا طَاعَةَ لأَحَدٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ , إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ)(متفق عليه)

’’جس کام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو اس میں کسی شخص کی بھی اطاعت جائز نہیں ہے،کیونکہ اطاعت وفرمانبرداری تو صرف نیکی کے کاموں میں ہی ہونی چاہئے‘‘۔

(متفق علیہ)

۴۔﴿يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ﴾

[لقمان:16]

’’اور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راه چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا‘‘

[سورہ لقمان:۱۶]

 (أَيْ : إِنَّ الْمَظْلَمَةَ أَوِ الْخَطِيئَةَ لَوْ كَانَتْ مِثْقَالَ حَبَّةٍ [ مِنْ] خَرْدَلٍ أَحْضَرَهَا اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ ، وَجَازَى عَلَيْهَا إِنْ خَيْرًا فَخَيْرٌ ، وَإِنَّ شَرًّا فَشَرٌّ)

’’یعنی کوئی ظلم وزیادتی یا گناہ ولغزش خواہ وہ رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہواللہ تعالیٰ قیامت کے روز جس وقت عدل وانصاف کے ترازو قائم کرے گا اس کو حاضر کرے گا، پھر قوانین عدل کے عین مطابق جزا وسزا کا اہتمام فرمائے گا‘‘۔

۵۔﴿يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ ﴾

[لقمان:17]

اے میرے بیٹے نماز قائم کرو‘‘۔''

اقامت نماز سے مراد نماز کے ارکان وواجبات کو پورے خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنا ہے۔

۔﴿وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾

[لقمان:17]

’’اور نیکی کا حکم دو،اور برائی سے روکو‘‘۔

اس کا حکیمانہ انداز میں نہایت پیار اور نرمی کے ساتھ سَر انجام دینا ضروری ہے۔

﴿وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَك:

’’اور جو مصیبت تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو‘‘[سورہ لقمان:۱۷]

 لقمان حکیم نے اس وصیّت سے پہلے اپنے بیٹے کوچونکہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی ہدایت کی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی بخوبی علم رکھتے تھے کہ جو شخص بھی نیکی کو پھیلانے کے لئے جدوجہد کرے گا، یا برائی کے خلاف برسرپیکار رہے گا اس کو مصائب وآلام سے ہرصورت میں نبردآزما ہونا ہی پڑے گا،اس لئے انہوں نے موقع کی مناسبت سے پہلی وصیّت کے ساتھ ہی صبروتحمّل سے کام لینے کی تلقین بھی فرمادی۔

نبیﷺ کا بھی اس سلسلہ میں ارشاد ہے:

(اَلْمُؤْمِنُ اَلَّذِي يُخَالِطُ اَلنَّاسَ, وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنْ اَلَّذِي لَا يُخَالِطُ اَلنَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ )

(أَخْرَجَهُ اِبْنُ مَاجَهْ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ)

’’یعنی وہ مومن جو لوگوں کے ساھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف وپریشانیوں پر کبیدہ خاطر ہونے کی بجائے صبروتحمّل کا مظاہرہ کرتا ہےوہ اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والے رنج والم پر صبروتحمل کا مظاہرہ نہیں کرتا‘‘(ابن ماجہ نے اسےحسن سند سے روایت کیا ہے)۔

﴿وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ﴾

[لقمان:18]

’’ لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا‘‘[سورہ لقمان:۱۸]

آیت کے اس حصّہ کی تفسیر کرتے ہوئے امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

(لَا تُعْرِضْ بِوَجْهِكَ عَنِ النَّاسِ إِذَا كَلَّمْتَهُمْ أَوْ كَلَّمُوكَ ، احْتِقَارًا مِنْكَ لَهُمْ ، وَاسْتِكْبَارًا عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَلِنْ جَانِبَكَ ، وَابْسُطْ وَجْهَكَ إِلَيْهِمْ)

’’یعنی ایسے وقت میں جب تم لوگوں کے ساتھ گفتگو کررہے ہو یا وہ تمہارے ساتھ ہم کلام ہو رہے ہوں تو ان کو اپنے سے کم مرتبہ اور اپنے آپ کو ان سے اعلیٰ وارفع تصوّر کرتے ہوئے ان سے روگردانی مت کیجئے،بلکہ ان کے لئے ہمیشہ اپنے دل میں نرم گوشہ اختیار کئے رکھئے،اور ان کے ساتھ خندہ پیشانی وکشادہ روئی سے پیش آتے رہئیے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: (تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ) 

صحیح،رواہ الترمذی وغیرہ)۔

’’یعنی تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرادینا بھی تمہاری طرف سےصدقہ ہی ہے‘‘۔

۔﴿وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا

[لقمان:18]

’’ اور زمین پر اترا کر نہ چل ‘‘

[سورہ لقمان:۱۸]

یعنی اتراتے،ڈینگیں مارتے،شیخیاں بگھارتے او ر غروروسرکشی کے عالم میں حق وصداقت سے منہ پھیرتے ہوئے زمین پر مت چلو،اس قسم کا طرز عمل اختیار کرنےسے تمہیں باز رہنا چاہئیے،کیونکہ اگر تم اس قسم کے رویّہ سے باز نہیں آؤگے تو یہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی ونفرت کا باعث بن جائے گا،اس قسم کے طرزِ عمل میں پائی جانے والی برائیوں اور قباحتوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھنے کی مزید تاکید کے لئے لقمان حکیم نے ساتھ ہی فرمایا:

 ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴾

 [لقمان:19]

’’بے شک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے اور فخرکرنے والے کو کبھی پسند نہیں کرتا‘‘۔

امام حافظ ابن کثیرؒ اس آیت کے معانی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’مختال‘‘سےمراد ہر وہ شخص ہے جو غرور ،تکبراور گھمنڈ میں مبتلا ہو۔

اور (فخور) ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو دوسروں پر فخر میں فوقیت وفضیلت دیتا ہو۔

۔﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ﴾

[لقمان:19]

’’اوراپنی چال میں میانہ روی اختیار کر ‘‘[سورہ لقمان:۱۹]

یعنی چلتے ہوئے میانہ اور اوسط درجہ کی ایسی رفتار اختیار کیجئے جس میں قدم نہ تو آہستہ آہستہ ،رُک رک کر اٹھ رہے ہوں اور نہ ہی ان کے اٹھنے میں ضرورت سے زیادہ عجلت وتیزی کا مظاہرہ کیا جارہا ہو،بلکہ اس میں حد درجہ توازن واعتدال ہونا چاہئے۔

﴿ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ﴾

[لقمان:19]

 ’’اور اپنی آواز کو پست رکھو‘‘۔

یعنی گفتگو کرتے وقت مبالغہ آرائی سے کام مت لو،اور بلاضرورت کڑک کڑک کرباتیں نہ کرو،اس کردار کی برائی وقباحت کو بیان کرنے کے لئے لقمان علیہ السلام نے مزید کہا:

﴿إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾

[لقمان:19

’’بے شک سب سے زیادہ نا پسندیدہ اور مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے‘‘۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں مذکورہ آیت کی تشریح کرتے ہوئے امام مجاہدؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:

(إِنَّ أَقْبَحَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ ، أَيْ : غَايَةُ مَنْ رَفَعَ صَوْتَهُ أَنَّهُ يُشَبَّهُ بِالْحَمِيرِ فِي عُلُوِّهِ وَرَفْعِهِ ، وَمَعَ هَذَا هُوَ بَغِيضٌ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى . وَهَذَا التَّشْبِيهُ فِي هَذَا بِالْحَمِيرِ يَقْتَضِي تَحْرِيمَهُ وَذَمَّهُ غَايَةَ الذَّمِّ)

’’بے شک سب سے بھدّی اور بری آواز گدھوں کی آواز ہے،اوراپنی آواز کو بلاضرورت بلند کرنے والے شخص سے متعلق زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ اس کو آواز کے بلند اور اونچا کرنے کی وجہ سے گدھوں سے تشبیہ دے دی جائے۔اور اس کے ساتھ ساتھ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض اورغیر پسندیدہ انسان بھی ہے،اورگدھوں کے ساتھ ایسے شخص کو دی گئی تشبیہ کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے کہ بلا ضرورت آواز کے بلند کرنے کو حرام او رانتہائی قابل مذمّت طرز عمل کیا جائے‘‘۔

اس کے علاوہ اس سلسلہ میں نبی کریمﷺکے اس ارشادات گرامی بھی نہایت واضح ہیں:

(لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ, الَّذِي يَعُودُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَرْجِعُ فِي قَيْئِهِ)

 (صحيح البخاري، رقم: (2622:

’’ہم مسلمان بری مثالوں کے مصداق نہیں ہیں،اپنے ہبہ کی طرف لوٹنے والا(کسی چیز کو عنایت کرکے پھراس کی واپسی میں دلچسپی لینے والا)بالکل اس کتّے کی طرح ہے جو اپنی قے کی طرف لوٹتا ہے

یعنی قے کرنے کے بعد اسے کھا لیتا ہے)۔)

ب۔)إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ ،فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ ، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحَمِيرِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ، فَإِنَّهَا رَأَتْ شَيْطَانًا )

 (متفق عليه)

’’جب مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو، کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے “۔

(تفسیرابن کثیر،ج۳؍۴۶۶[1)

اصلاح نفس 

ہوس زر کس طرح انسانی اخلاقیات کی دشمن ہے ، اس کا اندازہ اس تنقید سے ہوتا ہے جو قرآن نے قریش کی قیادت پرکی ہے۔ملاحظہ ہو:

''لیکن یہ انسان ، اس کا رب جب اسے آزماتا ہے ، اور عزت بخشتا اور نعمتیں عطا کرتاہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے میری شان بڑھائی ہے۔ اور جب اسے آزماتاہے اور اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کرڈالا، ہرگز نہیں،بلکہ(یہ سب تمھیںآزمانے کے لیے ہوتا ہے ، مگر اس آزمایش سے بے پروا اس طرح زندگی بسر کرتے ہوکہ)یتیم کی قدر نہیں کرتے، اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کے لیے ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے اور وراثت کو سمیٹ سمیٹ کر ہڑپ کر جاتے ہو اور (تمھارا یہ رویہ اس لیے ہے کہ تم ) مال کی محبت میں متوالے ہوئے رہتے ہو۔''

(الفجر ۸۹: ۱۵۔۲۰)

دنیا پرستی کے یہی وہ نتائج ہیں جس پر قرآن و حدیث اور انبیا کی تعلیمات میں شدید ترین تنقید کی گئی ہے۔ قرآ ن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

''جان رکھو کہ دنیا کی زندگی لہو ولعب، زیب وزینت اور مال و اولاد کے معاملے میں باہمی فخر و مسابقت کی مثال اس بارش کی ہے جس سے ہونے والی فصل کافروں کے دل کوموہ لے، پھر وہ پک جائے اور تم اسے زرد دیکھو، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے۔ اور آخرت میں ایک عذاب شدید بھی ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوش نودی بھی۔ اور دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کی ٹٹی ہے۔''

(الحدید۵۷: ۲۰)

''لوگوں کی نگاہوں میں مرغوبات دنیا: عورتیں ، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتی کھبادی گئی ہیں۔ یہ دنیوی زندگی کے سرو سامان ہیں اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔ ان سے کہو :کیا میں تمھیں ان سے بہتر چیزوں کا پتا دوں ؟جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں، جن میں نہریں جاری ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔اور پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوش نودی ہوگی ا ور اللہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا ہے۔'' 

(آل عمران۳:۱۴۔۱۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی بڑی وضاحت فرمائی ہے۔فرمایا کہ ہلاک ہوا درہم اور دینار کا بندہ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیتا ۔ایک اور روایت میں فرمایا کہ ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔

حضرت عیسیٰ نے دولت کے فتنے کے متعلق فرمایا :

''اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔'' 

(متی۱۹: ۲۳)

دنیا کی یہ مذمت اس لیے نہیں ہے کہ مال و دنیا اصلاً کوئی ناپسندیدہ شے ہے۔یہاں مذمت مال اور دنیا کی نہیں ، بلکہ ہوس زراور دنیا پرستی کے اس فتنہ کی ہورہی ہے جس میں مبتلا انسان ہر اخلاقی حد کو پھلانگ جاتا ہے اور یہی چیز قابل مذمت ہے۔

۲۔ منفی سوچ کا فروغ


اخلاقی انحطاط کی دوسری وجہ اس منفی سوچ کا فروغ ہے جو ہمارے ہاں بعض طبقات نے عام کردی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک مقتدر طبقات اور اشرافیہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔یہی ملک کے تمام مسائل کی جڑ ہیں۔ ہر فتنہ و فساد انھی سے جنم لیتا ہے۔ ان کے خیال میں ان لوگوں سے ملک کو نجات دلادی جائے تو ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔مسائل کی اس مقامی جڑ کے علاوہ انھیں ملک وملت کے ہر مسئلے کے پیچھے یہود و ہنود اور امریکہ و روس کی سازشیں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کے نزدیک ہمارے ساتھ دنیا بھر میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس کا واحدسبب یہی ہے کہ یہ ''کفار'' ہمارے دشمن ہیں اور ہمیں ہر میدان میں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔چنانچہ کرنے کا اگر کوئی کام ہے تو یہی ہے کہ ان دشمنوں کو ملیا میٹ کردیا جائے۔

قطع نظر اس کے کہ اشرافیہ، مقتدر طبقات اور بیرونی طاقتیں کیا کررہی ہیں اور ان کے منفی طرز عمل سے نمٹنے کا درست طریقہ کیا ہے، جب یہ روش اختیار کی گئی تو عوام کی تربیت یہ ہوئی کہ ہر خرابی کی جڑ صرف دوسروں میں ہے۔اصلاح کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دوسرے ٹھیک ہوجائیں ۔جب ایسا ہوگا توسب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس سوچ کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اپنی ذمہ داریاں فراموش کرنے لگے۔ ان کی توجہ اپنے دائرے میں عائد شدہ ذمہ داریوں سے زیادہ دوسروں کے اس دائرے پر ہوگئی جس پران کا کچھ اختیار نہیں۔ نتیجۃً لوگوں کے اپنے دائرۂ اختیار میں شر بڑھتا گیا ، مگر اسے روکنے کے بجائے ان کی توجہ صرف دوسروں کی طرف مبذو ل رہی۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک عام آدمی نہ ملک کے مقتدر طبقات کی اصلاح کرسکتا ہے اور نہ بیرونی طاقتوں کے خلاف لڑکر حالات بدل سکتا ہے۔بے بسی کے اس احساس کے تحت اس کے ذہن میں مایوسی کاپیدا ہونا لازمی تھا۔یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ مایوس آدمی ہمیشہ منفی طرز عمل اختیار کرتا ہے ۔چنانچہ اس مایوسی میں لوگوں نے جب حکمرانوں کو بدعنوانی کا شکار دیکھا تواسے اپنے دائرۂ اختیار میں برائی کرنے کاجواز سمجھ کر خود کو ہر اخلاقی بندھن سے آزاد سمجھنا شروع کر دیا۔

اس طرح کی منفی سوچ کے نتیجے میں بیرونی طاقتوں کی سازشیں ختم ہوئیں نہ اشرافیہ اور مقتدر طبقات کی اصلاح ہوئی۔ صرف یہ ہوا کہ عوام الناس اپنے اوپر عائد اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی کرنے لگے۔ دوسروں کا ہر عیب اپنی غلطی کا ایک عذر بنتا چلا گیا۔سسٹم کی وہ خرابی جو پہلے بالادست طبقات تک محدود تھی اب گھر گھر پھیل گئی۔

اب ہر شخص کا ذہن کچھ اس طرح بن گیا ہے کہ میری خواہش ہے کہ ملک سے رشوت و بدعنوانی ختم ہوجائے۔ تاہم جب تک ایسا نہیں ہوتا میرے لیے رشوت لینا جائز ہے۔ سب لوگوں کو ٹریفک کے قوانین کی پابندی کرنی چاہیے، مگر جب تک ایسانہیں ہوتا مجھے قانون کی خلاف ورزی کا حق ہے۔ تمام شہریوں کو اجتماعی اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہیے ، مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا تو میں اپنے مفاد کے لیے کوئی بھی حد توڑ سکتا ہوں۔

لوگوں نے دیکھا کہ حکمران اور مقتدر طبقات کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں تو انھوں نے بھی ، جہاں موقع ملا، بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا ، بلکہ غسل کرنا ضروری جانا۔ انھیں کہیں انصاف نہ ملا تو انھوں نے دوسروں پرظلم کرنے کو اپنے لیے جائز قرار دے دیا۔اب یہی سوچ کر ایک کلرک اور کانسٹیبل رشوت لیتا ہے کہ اسے تنخواہ کم مل رہی ہے۔یہی سوچ کر ایک دکان دار ملاوٹ کرتا اور کم تولتا ہے کہ اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ اسی فکر کے پیش نظر ایک غریب دوسرے غریب کا حق اسی طرح مارتا ہے جس طرح کوئی طاقت ور کسی کم زورکے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔

لوگوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ امریکہ ، برطانیہ ، اسرائیل اور دیگر ممالک کے ظلم کا رونا روتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے ہم قوم و ہم مذہب لوگوں کے حقوق پامال کرتے جاتے ہیں۔ تیز رفتار گاڑی چلاکر لوگوں کو مار ڈالنے والے ڈرائیور ، کھلے عام رشوت لینے والا ٹریفک کا سپاہی، بدعنوان سرکاری اہلکار، بددیانت تاجر اور ان جیسے دیگر جیتے جاگتے کردار امریکہ و اسرائیل کے بدترین ناقد بھی ہوتے ہیں۔یہ فوج اور سیاست دانوں کی کرپشن کا گلہ بھی کرتے ہیں، مگر اپنے دائرۂ اختیار میں یہ سب اتنے ہی بڑے ظالم ثابت ہوتے ہیں۔اس ظلم کے خلاف اپنے اندر سے جوآواز اٹھتی ہے ، اسے دبانے کے لیے وہ اسی منفی سوچ کا سہارا لیتے ہیں کہ اس حمام میں جہاں سب ننگے ہوچکے ہیں، ہمارے لیے بھی اخلاقیات کا لباس اتارے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

اس رویے کا سب سے برا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ظلم و بدعنوانی جس کا الزام اشرافیہ اور غیر ملکی طاقتوں پر عائد کیا جارہا تھا، اس میں تو کوئی کمی نہیں آئی ، البتہ ایک عام آدمی کی زندگی اسی جیسے عام آدمی نے جہنم بنادی ہے۔اب تو صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ سوسائٹی میں پھیلی بد اخلاقی، ظلم اور بدعنوانی کا شکار ہونے والے اکثر لوگ کسی بڑے آدمی کے نہیں ، بلکہ اپنے ہی جیسے عام آدمیوں کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں۔

یہ سب نتیجہ ہے اس سوچ کا جس میں اپنی جواب دہی کے بجائے دوسروں کی جواب دہی یاد رکھی جاتی ہے۔جس میں اپنے دائرے کے بجائے دوسروں کے دائرۂ اختیار پر زور ہوتاہے۔ جس میں اصلاح کا مطلب صرف دوسروں کی اصلاح ہوتا ہے، حالانکہ دین نے ہمیں جو تعلیمات دی ہیں ، وہ بالکل برعکس ہیں۔ حدیث میں بالصراحت حکم دیا گیا ہے کہ جب تمھارے حکمران برے ہوجائیں تواسے تمھاری برائی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ وہ تمھارے حقوق دیں یا نہ دیں تمھیں اپنے فرائض ہر حال میں پورا کرنے ہیں۔ ان کی کمائی کا وبال ان پر پڑے گااور تم اپنے کاموں کے ذمہ دار ہو۔بلا شبہ یہ بات حکمت نبوی کا شاہ کار ہے جس کی خلاف ورزی کے نتائج آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر احادیث میں بھی امرا کے بگاڑ پر صبر اختیار کرنے اور اپنے دائرے میں اصلاح کرنے کا حکم دیا ہے۔

قرآن نے یہ حکیمانہ بات اپنے انتہائی بلیغ اسلوب میں اس طرح فرمائی ہے:

''اے اہل ایمان تم اپنی فکر رکھو۔اگر تم ہدایت پر ہوتو جو گمراہ ہوا ، وہ تمھارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔اللہ ہی کی طرف تم سب کا پلٹنا ہے تو وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔ ''( المائدہ۵: ۱۰۵)


جہاں تک اغیار کی سازشوں کا تعلق ہے تو صحابہ کو اسی طرح کی صورت حال کے پیش آنے پر اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا تھا وہ ہم قارئین کے سامنے رکھنا چاہیں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

'' اور اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ اختیار کروگے تو ان کی چال تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکے گی۔وہ جو کچھ کرتے ہیں ، بے شک اللہ اس کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔'' (آل عمران۳: ۱۲۰)

ان احکامات سے ظاہرہے کہ دین کا زور اس پر ہے کہ تمھاری بنیادی ذمہ داری اپنی اصلاح ہے۔دوسروں کا بگاڑ کبھی تمھارے بگاڑ کاجواز نہیں بن سکتا۔ اگر برائی پھیل جائے تب بھی تمھیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ دین کے اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ جب افراد کی اکثریت اپنی اصلاح پر زور دے گی تو اس کے نتیجے میں کسی اقلیت کا بگاڑ اکثریت کے بگاڑ کا سبب نہیں بنے گا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک عام آدمی جس کی زیادہ تر زندگی اپنے جیسے عام آدمیوں کے درمیان گزرتی ہے، کبھی عام آدمی کے ظلم کا شکار نہیں ہوگا۔ظلم کرنے والے طبقات بہت کم ہوتے ہیں۔ ان کی برائی کا اثر بھی محدود ہوتا ہے، مگر جب بگاڑ عوام الناس میں پھیلتا ہے تو پوری سوسائٹی ظلم وفساد سے بھر جاتی ہے۔ٹھیک یہی کچھ اس وقت ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔
: ظاہر پرستی

اخلاقی اقدار کا شعور ہر انسان اپنے ساتھ ماں کے پیٹ سے لے کر آتا ہے۔دنیا میں آنے والا ہر انسان ، مدرسۂ فطرت سے ، اخلاقیات کے میدان میں فارغ التحصیل ہوکر آتاہے۔اسی بنیاد پر قیامت کے دن اس کے اعمال کی جانچ ہوگی ۔ تاہم انسان اپنی بعض کمزوریوں کے باعث انحراف کا شکار ہوتے رہے ہیں۔انسانوں میں پیدا ہونے والے اس بگاڑ کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے انبیا اور رسول دنیا میں بھیجے ہیں جو لوگوں کوواپس فطرت کے راستے کی طرف بلاتے ہیں۔

انبیا کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف لوگوں کی بد اعمالیوں پر انھیں تنبیہ کرتے اور صحیح راستے کی طرف ان کی رہنمائی کرتے ہیں ، بلکہ جولوگ ان کی بات مان لیتے ہیں ، ان کو راہ راست پر رکھنے کے لیے کچھ اعمال مقرر کرتے ہیں۔یہ اعمال دین کا ظاہری ڈھانچا تشکیل دیتے ہیں۔یہ ظاہری ڈھانچا اپنی جگہ عین مطلوب ہوتا ہے ، مگر جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ، اس کا اصل مقصد لوگوں کو شاہ راہ فطرت پر قائم رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے ہر ظاہری حکم کا کوئی نہ کوئی نتیجہ اخلاق اور فطرت کی دنیا میں نکلتا ہے۔مثلاً خدا کو تنہا معبود اور سب سے بڑا ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور سوائے اچھے عمل کے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ نماز ایک طرف خدا کی یاد ذہن انسانی میں زندہ رکھتی ہے تو دوسری طرف فواحش و منکرات سے روکنا بھی اس کی خاصیت ہے۔ روزہ اگر خد اکی نعمتوں کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا ہے تو ساتھ ساتھ خدا کے حدود کی پابندی کی تربیت اور غربا و مساکین کے حالات کی طرف بھی انسان کی توجہ دلاتا ہے۔ زکوٰۃ خدا سے محبت کے ساتھ مال ودنیا سے بے رغبتی اور ضعفا کی مدد کا بھی ذریعہ ہے۔حج وعمرہ خدا کے شوق کو بھڑکا تا ہے تو ساتھ ساتھ اس اجتماعی زندگی کی تربیت بھی کرتا ہے جس میں لوگ تکلیف دہ حالات کے باوجود اپنے اوپر قابو رکھتے اورایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں۔

انبیا کی یہ تعلیمات اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بے حد موثر ہیں، مگر امتوں پر جب زوال کا دور آتا ہے تو ان کی تمام تر توجہ دین کے ظاہری ڈھانچے کی طرف ہوجاتی ہے۔ خدا پرستی اور اتباع شریعت کا معیار کچھ ظاہری اعمال بن جاتے ہیں۔ علامتی چیزوں کو حق و باطل کا معیار قرار دے دیاجاتا ہے۔ دین کا ظاہری ڈھانچا جو اصلاً دین داری کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے ، دین کا آخری مطلوب قرار دے دیا جاتا ہے۔

اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ دین کے اس سادہ ظاہری ڈھانچے میں لوگ اپنی طرف سے طرح طرح کے اضافے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ان کی ساری تگ و دو اور دلچسپی کا مرکز اگر کوئی چیز رہ جاتی ہے تو یہی فروعی اور اضافی چیزیں ہیں جن کی کوئی نظری یا عملی اہمیت نہیں ہوتی۔اس صورت حال کا ایک زیادہ برا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ دین کے ظاہری ڈھانچے سے حاصل ہونے والے اخلاقی نتائج کو یک سر فراموش کردیتے ہیں۔ شریعت کے احکامات سے وابستہ مقاصد جن کا ظہور اخلاقی سطح پر مطلوب ہے ، وہ معاشرے کا موضوع ہی نہیں رہتے اور نہ کسی کو ان کے پیدا کرنے کی فکر ہوتی ہے۔نتیجۃً لوگوں کی اخلاقی حس مردہ ہونے لگتی ہے۔لوگ دین کے تمام ظاہری اعمال کی پابندی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، مگر عین اس کے ساتھ اخلاقی سطح پر وہ بدترین انسان ثابت ہوتے ہیں۔

اس کا سبب یہ ہے کہ دین کا ظاہری ڈھانچا مشکل سہی ، مگر ایک دفعہ اسے اختیار کرنے کے بعد یہ انسان کی عادت میں شامل ہوجاتا ہے۔جس کے بعد اس پر جمے رہنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔دوسری طرف بعض لوگ اس طرح کے ظاہری اعمال پر نجات کا فتویٰ دے دیتے ہیں۔چنانچہ کوئی بھی شخص اخلاق کی بلند و مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔اور کرے بھی توکیوں کرے؟ جب جنت بغیر کسی مشکل کے آسانی سے مل رہی ہے تواخلاقیات کی اس کانٹوں بھری راہ گزر پر کون قدم رکھے جس میں قدم قدم پر اپنے اندر اور باہر لڑنا پڑتا ہے۔ چنانچہ لوگ ڈاڑھی ٹوپی، نمازروزے اور حج و عمرے کو محض رسوم کے طور پر اختیار کرتے اور اس کے بعد اپنی دانست میں اخلاقی دنیا کی ہر پستی میں اترنے کا جواز قائم کر لیتے ہیں ۔ اسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں ایک نیک مسلمان کی حیثیت سے معروف شخص بھی آج اسی اخلاقی پستی کا شکار ہے جس کا گلہ ایک دنیا دار شخص سے کیا جاسکتا ہے۔یہاں خیال رہے کہ ہماری تنقید دینی عبادات پر نہیں ، بلکہ ان میں غیر ضروری اضافے اور ان کے مقاصد سے بے پروائی اختیار کرنے پر ہے۔ عبادات کا یہ ظاہری ڈھانچا تو خود اللہ اور اس کے رسولوں نے مقرر کیا ہے اور بلاشبہ کسی معجزے سے کم نہیں۔

نزول قرآن کے وقت اہل کتاب نے قبلہ کی جو بحث اٹھائی تھی ، اس پر انھیں تنبیہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ نیکی مشرق و مغرب کی طرف سمت کرنے کا نام نہیں ، بلکہ ایمان و اخلاق کے تقاضے پورے کرنے کا نام ہے ۔ ظاہر پرستی پر زیادہ تفصیلی تنقید ہمیں انجیل میں ملتی ہے ۔ کیونکہ بنی اسرائیل اپنے دور زوال میں بری طرح اس مرض میں گرفتار تھے۔وہ معمولی ظاہری اعمال پر تو خوب زور دیتے تھے ، مگر بڑے بڑے اخلاقی احکام کے معاملے میں ان پر غفلت طاری تھی۔

ایسے میں ان کی طرف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔آپ نے جس شدت سے بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی اور اخلاقی دیوالیے پن پر تنقید کی ہے ، اسے انجیل میں جگہ جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ہم سیدنا عیسیٰ کی ایک تقریر کا اقتباس پیش کرکے اس بحث کو ختم کرتے ہیں، جس سے اس مرض کی انتہا اور اس کے بدترین اخلاقی نتائج کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی خط کشیدہ الفاظ میں ہم نے اس مسئلے کا وہ حل بھی واضح کردیا ہے جو سیدنا مسیح نے بیان فرمایا ہے:

''اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہواور دکھاوے کے لیے نمازوں کو طول دیتے ہو، تمھیں زیادہ سزا ہوگی ... اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پرتو دہ یکی (یعنی عشر) دیتے ہوپر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والو ، جو مچھر کو توچھانتے ہوا ور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔ اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو، مگر وہ اندر لوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔اے اندھے فریسی پہلے پیالی اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہوجائیں۔اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہوجو اوپر سے تو خوب صورت دکھائی دیتی ہیں ، مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو، مگر باطن میں بے دینی اور ریا کاری سے بھرے ہو۔' '( متی ۲۳: ۱۴۔ ۲۸ )

:۔اجتماعی نصب العین کی غیر موجودگی

اخلاقی انحطاط کا چوتھا سبب قومی زندگی میں کسی اجتماعی نصب العین کی عدم موجودگی ہے۔اخلاقی زندگی اصلاً قربانی کی زندگی ہے۔ انسان عام حالات میں خود پرستانہ اور ذاتی مفادات پر مبنی زندگی گزارتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے لیے ضروری ہے ، کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے، مگر جب سامنے کوئی بلند تر مقصد ہوتوانسان دوسروں کی خاطر دکھ جھیلتا اور ایثار کرتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال ایک خاندان اور بچوں کے لیے ماں اور باپ کی قربانیاں ہیں۔یہ دونوں اگر اپنے بہت سے حقوق سے دست بردار ہوکر اپنا مال ، وقت اور محبت بچوں کو نہ دیں اور ان کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کریں تو کبھی کوئی خاندان وجود میں نہیں آسکتا۔

ٹھیک یہی معاملہ ایک معاشرے کا ہوتا ہے۔ایک مضبوط قوم اور مستحکم معاشرہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب افراد کسی خارجی دباؤ کے بغیر خود اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کرلیں۔خاندان کے معاملے میں تو یہ چیز اس لیے باآسانی حاصل ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جبلت میں اولاد کی بے پناہ محبت ڈال رکھی ہے ، مگر قوم کے معاملے میں لوگ ایسا صرف اس وقت کرتے ہیں جب ان کے سامنے اپنی ذات سے بلند ترکوئی اجتماعی مقصد اور نصب العین ہوتا ہے۔

ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوئی ایسا مقصد ہمارے سامنے نہیں۔دوسری اقوام اس مسئلہ کو قوم پرستی اور حب الوطنی کے جذبے سے حل کرتی ہیں۔ان کی زبان ایک ہوتی ہے، ان کی تاریخ ایک ہوتی ہے،ان کی تہذیب و ثقافت ایک ہوتی ہے، ان کی نسل ایک ہوتی ہے، ان کا جغرافیہ ایک ہوتا ہے ۔ یک جہتی کی اتنی بنیادوں کے بعد ان میں اپنی ایک انفرادی قومی شناخت کا بھرپور احساس پیدا ہوتا ہے۔وہ اس کی بقا، تحفظ اور فروغ کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔قوم میں اجتماعی اخلاقیات کی وہ روح پیدا ہوتی ہے جس میں ہر شخص خوش دلی سے اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کو بلااکراہ و جبر پورا کرتا اور اجتماعی مفاد کی خاطر انفرادی مفادکو پیچھے ڈال دیتا ہے۔

جہاں یہ بنیادیں کمزور ہوں ، وہاں ان کے دانش ور ان میں اجتماعیت کا وہ احساس پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے مفادات ایک ہوجاتے ہیں۔ان کے لیڈر سوسائٹی کے ہر طبقہ کے مفادات کو یکساں اہمیت دیتے اور ان کے حقوق و فرائض کے تعین میں کسی ناانصافی اورظلم سے کام نہیں لیتے ۔ جس کے بعد تھوڑا وقت گزرتا ہے اور قوم پرستی کا احساس افراد قوم کے رگ و پے میں سرایت کرجاتا ہے۔افراد قوم اپنی انفرادی شناخت بھلاکر خود کو اجتماعیت میں ضم کردیتے ہیں۔ اس عمل سے نکلنے والا نتیجہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔

دوسری طرف ہماری صورت حال یہ ہے دور جدید میں اجتماعیت کی وہ بنیادیں جن پر قوم کی بنا رکھی جاتی ہے ، ہم ان سے محروم ہیں یا ان کوپامال کرکے ہم نے اپنے لیے وطن حاصل کیا ہے۔آزادی کے وقت ہماری زبان ، نسل، تاریخ ، تہذیب و ثقافت اور جغرافیہ ،کچھ بھی ایک نہیں تھا۔ایسے میں لازمی تھا اور ہے کہ ہم اپنے قومی وجود کی تعمیر کے لیے کم ا ز کم ایک اجتماعی بنیاد تلاش کرتے ۔جو خوش قسمتی سے اسلام کی صور ت میں ہمیں پہلے ہی سے حاصل تھی۔

ایسے میں ضروری تھا کہ نعروں کے بجائے تعلیم کے ذریعے سے اسلامی تصورات کو ذہنوں میں راسخ کیا جاتا اور اقتدار اور حکومت کے بجائے معاشرے میں اسلام کے فروغ کو ہدف بنایا جاتا ۔ بالخصوص معاشرے کے وہ فعال طبقات جو اصلاً معاشرہ کی سمت اور رفتار کو کنٹرول کرتے ہیں ان کے سامنے اسلام اور شریعت اسلامی کا درست چہرہ سامنے لایا جاتااور ان کے ذہنوں کو اس کی علمی برتری سے مرعوب کیا جاتا۔ بدقسمتی سے ایسانہ ہوسکا اور آج تک ایسا نہیں ہورہا۔اس کے بجائے فرد اور حکومت کی سطح پر چند نمایشی اقدامات اور ظاہری تبدیلی کومطلوب قرار دے دیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اسلام ہماری زندگیوں میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کرتا اور اس کی بنیاد پر ایک اجتماعیت کے فروغ کے امکانات دن بدن مدھم پڑتے چلے جارہے ہیں۔مذہب کاکوئی استعمال اب بچا ہے تو ظاہر پرستی کی اس شکل میں جس پر ہم پیچھے روشنی ڈال چکے ہیں۔

ہمارے جیسی ایک تاریخی قوم جو مختلف گروہوں کے اشتراک سے وجود میں آئی ہے اور جو فطری قومی بنیادوں سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے بھی ایک زبردست تقسیم کا شکار ہے، اس کی بقا کے لیے ضروری تھا کہ اس کے مختلف گروہوں اور طبقات کے حقوق و فرائض کا تعین عدل وانصاف کے ساتھ کیا جاتا۔ پھر وقتاً فوقتاً ان پر نظر ثانی کا سلسلہ جاری رہتا ، مگر ہم اس میدان میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے۔ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو نجانے مزید کیا کیا سامنے آئے گا۔

اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ابھی تک اپنی قومی بنیادوں ہی کو متعین نہیں کرسکے۔ کبھی سارے جہاں کا درد ہمارے دل میں سماجاتا ہے اور کبھی سب سے پہلے ہمیں اپنی جان کی پڑ جاتی ہے۔ہم خود کو دائرۂ اسلام کا مکیں بتاتے ہیں ، مگر عملاً ہمارا ہر دائرہ صوبائی سرحدوں اور لسانی حدبندیوں تک محدود ہے۔ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر اصرار ہے ، مگر اس کے ساتھ اپنی فرقہ دارانہ شناخت پر بھی ہمیں فخر ہے۔ہمار اقومی کلچر کیا ہے،ہمیں نہیں معلوم۔ ہماراثقافتی چہرہ کیا ہے، ہم نہیں جانتے۔ من حیث القوم ہماری کوئی منز ل نہیں۔فی الوقت ہماری اجتماعیت مغربی، ہندوستانی اور زوال یافتہ مسلم تہذیب اور مقامی ثقافت کاایک ایسا ملغوبہ ہے جس کی کوئی متعین شکل پچاس سال میں سامنے نہیں آسکی۔ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آزادی کے نصف صدی بعد بھی ہمارا کوئی متفقہ قومی شعور اور کلچر وجود پزیرنہیں ہوسکا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ فرد کس قوم کے لیے انفرادی مفاد کی قربانی دے۔یہ بات اس لیے بھی بڑی اہم ہے کہ معاشرہ صرف قانون کے سہارے نہیں چلایا جاسکتا۔ قانون تو چند مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کو قابومیں رکھنے کے لیے ہوتا ہے ، جبکہ عام لوگ اجتماعی مفاد کی خاطر ایک روایت کے طور پر قانون و اقدار کی پابندی کرتے ہیں ، مگرہمارے ہاں کسی برتر اجتماعی نصب العین کے نہ ہونے کی بنا پر لوگ اپنی ذات اور مفاد سے آگے دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا ہمارا ہرگھر، ہرسڑک ،ہر دفتراور ہر فیکٹری اجتماعی اخلاقیات کے اصولوں کی بھر پور خلاف ورزی کا نمونہ بن چکی ہے۔


مسئلہ کا حل کیا ہے؟

یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جو ہمارے اخلاقی انحطاط کے پیچھے کارفرما ہیں۔جب تک ہم ان وجوہات کو دور نہیں کریں گے، اس وقت تک اخلاقی انحطاط کا یہ کینسر ہمیں اندر ہی اندر کھاتا رہے گا اور ایک روز ہمیں کسی بڑی تباہی سے دوچار کردے گا۔

ہمارے نزدیک اس مسئلے کے حل کے دو پہلو ہیں۔ایک فکری اور دوسرا عملی۔ انسان کے متعلق یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ حیوانات سے بلند ترایک مخلوق ہے۔ اس برتری کا باعث قلب ونظر کی وہ صلاحیتیں ہیں جو حیوانی جبلتوں کے ساتھ اسے عطا کی گئی ہیں۔انسان سے صادر ہونے والے تمام اعمال ، خواہ وہ جبلی تقاضوں سے متعلق ہوں، قلب و ذہن کی بارگاہ سے اجازت طلب کرکے ہی دنیا میں ظہور پزیر ہوتے ہیں۔اس لیے بگاڑ جب بھی آتا ہے ، وہ اولاً فکری طور پر آتا ہے اور پھر عملی دنیا میں اس کا ظہور ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے مذکورہ بالا تجزیے میں دیکھاکہ اخلاقی بگاڑ کے چاروں اسباب فکر ی سطح پر غلط نقطۂ نظر کے فروغ اور درست نظریہ کی عدم موجودگی سے پیدا ہوئے ہیں۔

چنانچہ اصلاح کی راہ پر پہلا قدم یہ ہے کہ ایک فکری اساس متعین کی جائے جو مذکورہ بالااسباب کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس کے ساتھ عام لوگوں کے لیے اس عملی لائحۂ عمل کی نشان دہی بھی ضروری ہے جسے اختیار کرکے وہ اس صورت حال کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اس لیے کہ یہ اخلاقی بگاڑ عوام الناس تک سرایت کرگیا ہے اور جب تک وہ عملاً اصلاح احوال کے لیے پوری قوت سے کوشش نہیں کریں گے کسی اور کے اصلاحی اقدامات کے نتیجے میں صورت حال میں بہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔

اصلاح کی فکری اساس

جہاں تک درست فکری اساس کا سوال ہے توہمارے نزدیک یہ اس مقصد کا صحیح شعور ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو پیدا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس دنیا میں مسلمانوں کو اس لیے پیدا نہیں کرتے کہ اسے کچھ نہ کچھ لوگوں کی تو بہرحال ضرورت ہے جو اس کی جنت کو ویران ہونے سے بچاسکیں۔ وہ کردار و اخلاق کا بدترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور اللہ تعالیٰ اس کے باوجود انھیں فردوس کے باغوں میں آباد کر دیں۔ امت مسلمہ سے جو چیز اصلاً مطلوب ہے ، وہ دنیا کے سامنے ایک خدا پرستانہ معاشر ے کا جیتا جاگتااور چلتا پھر تا نمونہ پیش کرناہے۔ مسلمانوں کا یہ معاشرہ توحید سے وفاداری اور شریعت کی پاس داری کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔یہی وہ فکری اساس ہے جس کا صحیح ادراک پید اہونے کے بعد مذکورہ بالا چاروں منفی اسباب ختم ہوجاتے ہیں۔

توحید پرست فرد دنیا پرست نہیں ہوسکتا۔اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنے رب کو راضی کرنا اور جنت کی اس ابدی بادشاہی کا حصول ہوتا ہے جس میں داخلے کی شرط یہی ہے کہ فرد اپنے وجود کو اخلاق و کردار کی ہر گندگی سے پاک کرکے اپنے رب کے حضور پیش ہو۔اس کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی خدا پرست اپنے آپ کو دنیا کی عارضی نعمتوں کی خاطر ان اخلاقی برائیوں سے آلودہ کرے جو اسے ابدی جنت سے دور کردیں گی۔

آخرت کی کامیابی کا یہ نصب العین انسان کی نفسیات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔انسان اپنے اندر ہمیشہ کی زندگی اور ابدی بادشاہی کی جو طلب پاتا ہے ، جنت اور اس کی نعمتیں آخری درجے میں اسی تصور کا جواب ہیں ۔ جنت کاحسن و جمال، اس کی رعنائی و دل کشی ، سکون و راحت ، سرور ولذت ، توقیروعزت ،وسعت ورحمت ، عطا ونعمت ، خوشی و مسرت ، آسانی و فراغت ، دوام وابدیت اور بخشش وعافیت کے تصور ات جب قلب انسانی میں راسخ ہوجاتے ہیں تو اس کے لیے وہ اخلاقی زندگی گزارنا بے حد آسان ہوجاتا ہے جو سرتاسر قربانی سے عبارت ہے۔ بالکل اس طالب علم کی طرح کہ کامیابی کی امید جس کے لیے امتحان کی ہر شدت کو آسان اور تیاری کے ہر مرحلے کو سہل بنادیتی ہے۔

ایسا انسان آخرت کی اس کامیابی کے لیے شریعت پر اس کی صحیح روح کے ساتھ عمل کرتا ہے ۔شریعت کا صحیح علم اسے ظاہر پرستی سے بچاتا اور دین کی ترجیحات سے آگاہ کرتا ہے۔سچی شریعت بتاتی ہے کہ اعمال میں اصل اہمیت تعداد سے زیادہ اخلاص کی ہے۔ جزئیات سے زیادہ اصول کی ہے۔شریعت کا ہر عمل اوردین کا ہر حکم اخلاقی دنیا میں اپنا ایک نتیجہ چاہتا ہے۔ جو اگر نہ نکلے تو پھر خدا کی بارگاہ میں اس کی قبولیت مشکوک ہے۔ دین وشریعت ایک بندۂ مومن کو قدم قدم پر بتاتے ہیں کہ بندوں کے حقوق مار کر رب کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔

پھر جن لوگوں کی زندگی کا مقصد توحید اور اس کا فروغ ہو ، وہ دوسروں کی ''سازشوں'' کے پرچار کے بجائے ان تک حق پہنچانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔وہ دوسروں کے فرائض انھیں یاد دلانے کے بجائے اپنی ذمہ داریاں یاد رکھتے ہیں۔وہ ان سے دنیوی امور پر جھگڑے کھڑے کرنے کے بجائے ان کی آخرت کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔وہ نفر ت کے بجائے خیرخواہی اور ذمہ داری کے اس احساس میں جیتے ہیں جو انبیا کا خاصا ہے۔وہ لوگوں کی زیادتیاں سہہ کر انھیں اپنا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر توحید کی شکل میں قوم کو وہ اجتماعی نصب العین حاصل ہوجاتا ہے جس کے فروغ کا ارفع مقصد قوم کو ایک لڑی میں پرودیتا ہے۔ہم جیسے بے مقصد و بے منزل گروہ کی ایک قوم بننے کی واحد امید اگر کوئی ہے تو یہی ہے کہ ہم توحید کے فروغ کو اپنامشن بنالیں۔توحید و شریعت سے سچی وابستگی نہ صرف ہمارے اخلاقی مسائل کا حل ہے ، بلکہ بے راہ روی اور دنیاپرستی پر مبنی مغربی تہذیب کو دنیا میں جو فروغ حاصل ہورہا ہے ، اس کے بعد ہم پر لازم ہے کہ ہم توحید اور آخرت کا مشن لے کر میدان عمل میں اتر آئیں۔ اس کو اپنے شعور میں آخری حد تک پختہ کریں اور دنیا پرستی کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔

بے خبر تو جوہر آئینۂ ایام ہے

تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

اگر ہم نے ایسا نہ کیا توبلاشبہ ہم بارگاہ احدیت کے مجرم قرار پائیں گے۔

اصلاح کا عملی طریقہ

ہم نے پیچھے جو کچھ بیان کیا اس کے حصول کا عملی ضابطہ بھی دین نے خود ہی بیان کیا ہے۔اصلاح معاشرہ کے اس ضابطے کے تین بنیادی عناصر ہیں۔ ریاست، علما اور فرد۔ہم اس تحریر میں صرف فرد سے متعلق دیے گئے طریقۂ کار پر گفتگو کریں گے ، کیونکہ وہی ہمارا مخاطب ہے۔ نیز اس دور میں اصلاح معاشرہ سے متعلق فرد کی ذمہ داریوں کے بارے میں افراط و تفریط کا رویہ عام ہوگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں عام لوگوں پر ان کی استعداد سے زیادہ بوجھ ڈالاجاتا ہے اور پھر بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے ۔ اس لیے فرد کو اس کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں باشعور بنانا ضروری کام ہے۔

ایک عام فرد سے ، عام حالات میں جو دینی مطالبات لازماً مطلوب ہیں ، وہ قرآن کریم کی سورۂ عصر میں اس طرح بیان کیے گئے ہیں:

''زمانہ گواہی دیتا ہے کہ یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔ہاں، مگر وہ نہیں جو ایمان لائے، اور انھوں نے نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی''۔ ( ۱۰۳: ۱۔۳)

قرآن کریم کی یہ سورت واضح طور پر یہ بتاتی ہے مذکورہ بالا اعمال خسارے سے بچنے کا یقینی ذریعہ ہیں۔ بلاشبہ یہ خسارہ آخرت کا ہے ، مگر ایک مسلمان گروہ کے لیے یہ اعمال دنیا میں بھی نجات کے ضامن ہیں۔اس مضمون میں ایمان اور عمل صالح ہمارا موضوع نہیں ۔ البتہ تواصو بالحق و تواصو بالصبر (یعنی ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور حق پر ثابت قدمی کی تلقین کرنا) کے حکم پر ہم تفصیل سے گفتگو کرنا چاہیں گے۔

تواصو بالحق اور تواصو بالصبر کی اہمیت

اس حکم کی اہمیت کو جاننے کے لیے اس بات کو سمجھناضروری ہے کہ معاشرے میں برائیاں اس وقت پھیلتی ہیں جب لوگ اپنے اردگرد کے ماحول سے بے پروا ہوکر زندگی گزارنا شروع کردیتے ہیں۔ انسان اپنی زندگی تنہا کسی کھوہ ، جنگل یا غار میں نہیں گزارتا ، بلکہ لوگوں کے درمیان ایک خاندان کی صورت میں رہتا بستا ہے۔وہ جب کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس کے دوست، احباب، اہل خانہ اور متعلقین اس بات سے بے خبر رہ جائیں۔ ایسے میں اس شخص کے قریبی حلقے کے لوگ اگر اس برائی کے ارتکاب پر اسے فوراً ٹوک دیں تو اس کے رجوع کرنے اور لوٹنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، لیکن ا س کے برخلاف اگر یہ لوگ اس کی بدعملی کو معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کردیں یا اس کے شریک کار اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے بن جائیں تو ایسا شخص اطمینان کے ساتھ بدترین جرائم کا ارتکاب کرتا چلا جائے گا اور اسے احساس تک بھی نہ ہوگا۔

ہمارے معاشرے میں جب ایک شخص رشوت لیتا ہے تو اکثر و بیش تر اس کے گھر والے اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ اگر حرام کے اس پیسے کو قبول کرنے سے انکار کردیں ، اسے سمجھائیں کہ یہ پیسہ نہیں ، جہنم کے انگارے اور سانپ اور بچھو ہیں تو کسی بھی رشوت خور کے لیے اس پیسے کو گھر لے جانا بہت مشکل ہوگا۔اس کے برخلاف جب گھر والے اپنے مفادات کی خاطر اس گناہ پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو معاشرے پر ایک ظالم اور بد عنوان شخص مستقل طور پر مسلط ہوجاتا ہے۔ پھراس کے ساتھی اہلکار اور ماتحت اسے روکنے کے بجائے اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو یہیں سے اس اخلاقی بگاڑ کا پوراسلسلہ شروع ہوتا ہے جس کی بہت کچھ تفصیل ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔

اس پس منظر میں آپ ''تواصو بالحق و تواصو بالصبر'' کے اس حکم کی اہمیت کو سمجھیں جس کے تحت ایک شخص جب دوسروں کو حق سے دور دیکھتا ہے تو اسے اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے اور جب کوئی فرد کسی بنا پر حق کوچھوڑنے لگتا ہے تو وہ اسے اس حق پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرتا ہے۔اس حکم کا لازمی نتیجہ ہے کہ زندگی میں پہلی دفعہ رشوت لینے والے کے دوست، احباب اور متعلقین میں سے کوئی نہ کوئی اسے ٹوک دے گا۔ کسی قریبی آدمی کا برائی پراس طرح ٹوکنا کوئی معمولی بات نہیں ۔ہر شخص اپنے قریبی لوگوں میں،جن میں وہ زندگی گزارتا ہے، صاحب عزت و شرف بن کر رہنا چاہتا ہے۔ان کی نصیحت اور فہمایش سے اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی ۔ برائی کی طرف اٹھنے والے اس کے قدم کمزور پڑ جائیں گے۔کچھ نہ بھی ہو تو کم از کم برائی اس کی نظر میں برائی کے طور پر زندہ رہے گی ۔ یہی احساس ایک دن اسے توبہ پر آمادہ کردے گا۔

تواصوا بالحق و تواصو بالصبر ایک لازمی حکم

''تواصو بالحق و تواصو بالصبر '' کے حکم کے متعلق یہ بات جان لینی چاہیے کہ دین کا یہ حکم ایک مسلمان کی لازمی ذمہ داریوں میں سے ہے جو ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ قرآن میں بیان ہوئی ہے۔قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اس ذمہ داری کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی گئی ہے۔اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی تشریح کرتے ہوئے ایک دوسری تعبیربھی اختیار کی ہے جسے ہم عام طور پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام سے جانتے ہیں۔ قرآن کہتاہے کہ ایک دوسرے کو نیکی کی نصیحت کرنا اور برائی سے روکنا ہرصاحب ایمان مرد و عورت کا لازمی وصف ہے۔سورۂ توبہ میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے:

''اور مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔باہم دگربھلائی کی نصیحت کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔''( ۹: ۷۱)

تواصو بالحق و تواصو بالصبر:چند اہم نکات

دین کے اس بنیادی حکم پر عمل کرتے ہوئے چند باتیں واضح رہنی چاہییں۔پہلی یہ کہ نماز روزے کی طرح اس حکم کے کوئی مخصوص اوقات متعین نہیں ، بلکہ ایک مسلمان کو اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ ذہناً تیار رہنا چاہیے۔جب کبھی حق سے کوئی انحراف اس کے سامنے آئے تو ضروری ہے کہ وہ کسی مفادیا اندیشہ کی پرواکیے بغیر اپنی ذمہ داری پوری کرے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ عمل دو طرفہ ہوتاہے۔یعنی ایک وقت میں اگر ایک آدمی دوسر ے کو کسی حق کی تلقین و نصیحت کررہا ہے تو کسی اور وقت میں دوسراپہلے کی توجہ اس کی کسی کوتاہی کی طرف دلا سکتا ہے۔آج ایک شخص کی کسی برائی کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے تو کل یہی شخص دوسرے کو اس کی غلطی پر نصیحت کرے گا۔اس طرح مسلم معاشرہ کا ہر شخص دین و اخلاق پر عمل کرنے والا بھی بن جاتا ہے اور اس کی رکھوالی کرنے والا بھی۔ہم بتاچکے ہیں کہ کسی معاشرے میں برائی کو پھیلنے سے روکنے کا اس سے زیادہ موثر ذریعہ کوئی نہیں ہوسکتا۔

تیسری بات یہ ہے کہ یہ کام اصلاً اپنے ماحول اور حلقے میں کرنے کا ہے۔یعنی اس کام میں انسان کا دائرۂ عمل وہ ہے جہاں وہ خود بنفس نفیس موجود ہوتا ہے۔یعنی اس کا گھر، دفتر، دوست، محلہ وغیرہ۔اس میں کوئی خیر نہیں کہ ایک انسان دنیا بھر میں تو نیکی کو عام کررہا ہو ، مگر اس کا اپنا قریبی حلقہ اس کے فیض سے محروم رہ جائے ۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اس حلقے میں بھی جو جتنا قریب ہوگا ، اسی قدر یہ ذمہ داری زیادہ ہوگی۔یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ انسان سے سب سے قریب اس کے گھر والے ہوتے ہیں جن میں اس کے وقت کا بیش تر حصہ بسر ہوتا ہے۔چنانچہ اپنے گھر والوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے انسان کو سب سے زیادہ حساس ہونا چاہیے۔

پانچویں بات یہ ہے کہ جس قریبی حلقے اور ماحول کو انسان کا دائرۂ عمل قرار دیا گیا ہے ، وہیں اس کا ایک دائرۂ اختیار بھی ہوتا ہے۔ مثلاً شوہر کے لیے بیوی اورماں باپ کے لیے اولاد وغیرہ۔چنانچہ اس دائرے کے بارے میں ہدایت دی گئی ہے کہ یہاں انسان اپنا اختیار استعمال کرکے ہر منکر کو روکنے کی کوشش کرے۔ یہ بات ایک حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے:

''حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص (اپنے دائرۂ اختیار میں) کوئی منکر دیکھے اس کو ہاتھ سے روک دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے۔ اگر اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو دل سے براجانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔''

مسلم شریف

اس حدیث میں طاقت رکھنے کے الفاظ اپنے اختیار کو نافذ کرنے کے حوصلہ وہمت کو بیان کررہے ہیں۔ اس سے یہ مراد قطعاً نہیں کہ اپنے دائرۂ اختیار سے باہر انسان کو طاقت استعمال کرنی چاہیے اور ایسا نہ کرے تو یہ اس کے ضعف ایمان کی نشانی قرار پائے ۔ مثلاً ایک باپ کے لیے بیٹی اس کے اس دائرۂ اختیار میں ہے۔چنانچہ اس کے کسی غلط عمل کو دیکھ کر باپ کو اسے روکنا چاہیے۔ مثلاً اگر وہ گھر سے باہر جسم کشا لباس پہن کر نکلتی ہے تو بیٹی کو روکنا اس کی ذمہ داری ہے ۔ حدیث کا یہ حکم اس باپ سے متعلق ہے۔ اگر وہ اپنی بیٹی کونہیں روکتا تو اپنے ضعف ایمان کا ثبوت دیتا ہے۔اس حکم کا کوئی تعلق اس بات سے نہیں کہ ایک عام آدمی کسی راہ چلتی خاتون کو ، جس نے چادر نہ اوڑھ رکھی ہو زبردستی چادر اوڑھانے کی کوشش کرے۔ اتنی طاقت نہیں تو اسے برا بھلا کہے اوراتنی طاقت بھی نہیں تو اسے دل سے برا سمجھے اور اس حالت میں وہ کم زور ترین ایمان کا حامل ہوگا۔ اس منطق کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔

چھٹی بات یہ ہے کہ قرآن میں بیان کردہ معروف و منکر کے الفاظ سے مراد عقل و فطرت اور دین و شریعت کے مسلمات ہیں۔ مثلاً امانت و دیانت مسلمہ اخلاقی اقدار ہیں۔ جھوٹ ایک ثابت شدہ برائی ہے۔ زنامذہب ومعاشرے کی نگاہ میں یکساں طور پر جرم ہے۔اسی طرح عبادات میں نمازمسلمہ طور پر شریعت کا حکم ہے، لیکن وہ معاملات جن پر علمی طور پر ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہیں، اس دائرے میں نہیں آتے ۔لہٰذا ایسے کسی معاملے میں کوئی شخص ایک نقطۂ نظر کا حامل ہونے کے باوجود اپنے حلقۂ اختیار میں اسے منوانے کا مکلف نہیں۔مثلاً عصر کی نماز کے وقت کے بارے میں امت میں ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہیں۔چنانچہ نماز کا حکم تو زیردستوں کو دینا چاہیے ، مگر وقت کے سلسلے میں کسی جبر سے احتراز کرنا چاہیے ، کیونکہ یہ کوئی دینی مسلمہ نہیں۔

ساتویں اور آخری بات یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح کے برخلاف جو انسان کا ذاتی فعل ہے، حق کی نصیحت اور اس پر صبر کی تاکید کا عمل چونکہ دوسروں سے متعلق ہے ، اس لیے اس میں حکمت کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔اس حکمت میں مخاطب کی ذہنی استعداداور اس کی نفسیات وغیرہ کا لحاظ رکھنا بہت اہم ہے۔اسی طرح اپنی حد کو پہچاننا اور اسی تک محدود رہنا بھی ضروری ہے۔مخاطب کے لیے دل میں محبت وخیر خواہی کا جذبہ اور گفتگو میں نرمی اور حکمت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ان چیزوں کو نظر انداز کرکے جب یہ کام کیا جائے گا تو ہمیشہ الٹے نتائج پیدا کرے گا اور لوگوں کے دل میں دین کی بے وقعتی اور معاشرے میں فساد پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

آخری بات

اس تحریر کے آخر میں ہم قارئین کی توجہ اسی چیز کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے جہاں سے بات کا آغاز ہوا تھا۔یعنی ہم لوگ کثرت سے اپنے معاشرے کے اخلاقی بگاڑ پر گفتگو کرتے ہیں اور اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہیں ، مگر یہ گفتگو کرتے ہوئے ہم اکثر یہ فراموش کردیتے ہیں کہ ہم بھی اس قوم اور معاشرے کے افراد ہیں۔ یہ صورت حال اگر پیدا ہورہی ہے تو ہم اس پر صرف اظہار افسوس کرکے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔یہ ہماری، مذہبی، قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور کم از کم اپنے دائرے میں غلط رویوں کے خلاف ایک جدو جہد شروع کردیں۔ اس سلسلے میں جو ہماری ذمہ داری تھی ، وہ ہم نے حتی الامکان پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ صورت حال کا ایک مکمل تجزیہ کرکے ہم نے یہ بتادیا ہے کہ مرض کیا ہے، اسباب کیا ہیں اور علاج کیا ہے۔اب اپنے طرز عمل کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔

جو لوگ اپنی قوم کے حالات سے پہلو تہی کرکے اپنی ذات میں مگن ہوجاتے ہیں اور صرف زبانی تبصروں پر گزارا کرلیتے ہیں، تاریخ بتاتی ہے کہ وہ خسارے میں پڑ کررہتے ہیں۔ آج ہم یقیناًاس خسارے کا شکار ہیں۔اس افسوس ناک صورت حال کا مشاہدہ خاندان کے ادارے سے لے کر قومی اداروں تک ، ہر جگہ کیا جاسکتا ہے۔بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اخلاقی معیارات کی پابندی کرنے والے لوگ اب استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ان حالات میں ہم پرفرض کے درجہ میں یہ چیز لازم ہوچکی ہے کہ ہم اس صورت حال کو بدلنے کے لیے جدوجہد شروع کریں۔ اس معاملے میں اپنے لوگوں کی تربیت کریں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یقیناًہمیں بدترین تباہی کا سامنا کرنا ہوگا۔


نماز خشوع خضوع سے ادا کیجئے

نماز میں رکوع اور سجود اچھی طرح سے ادا نہ کرنے اور اطمینان وسکون کے بغیر نماز ادا کرنے کو نبی اکرم نے بدترین چوری قرار دیا ہے۔قیام، قرآن کی تلاوت، رکوع، سجدہ اور قعدہ وغیرہ نماز کا جسم ہیں اور اس کی روح خشوع وخضوع ہے۔ چونکہ جسم بغیر روح کے بے حیثیت ہوتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ نمازوں کو اس طرح ادا کریں کہ جسم کے تمام اعضاء کی یکسوئی کے ساتھ دل کی یکسوئی بھی ہو تاکہ ہماری نمازیںروح یعنی خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں۔ دل کی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات ووساوس سے دل کو محفوظ رکھیں اور اللہ کی عظمت وجلال کا نقش اپنے دل پر بٹھانے کی کوشش کریں۔ جسم کے اعضاء کی یکسوئی یہ ہے کہ اِدھراُدھر نہ دیکھیں، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگیں بلکہ خوف وخشیت اور عاجزی وفروتنی کی ایسی کیفیت طاری کریں جیسے عام طور پربادشاہ کے سامنے ہوتی ہے۔

     قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں نماز کو خشوع وخضوع اور اطمینان وسکون کے ساتھ ادا کرنے کی بار بار تعلیم دی گئی ہے کیونکہ اصل نماز وہی ہے جو خشوع وخضوع اور اطمینان وسکون کے ساتھ ادا کی جائے اور ایسی ہی نماز پر اللہ تعالیٰ انسان کو دنیا اور آخرت کی کامیابی عطا فرماتے ہیں جیسا کہ مندرجـہ ذیل قرآن کریم کی آیات اور احادیث شریفہ سے معلوم ہوتا ہے۔

    خشوع وخضوع سے متعلق  آیات قرآنیہ:

    «  یقینا وہ ایمان والے کامیاب ہوگئے جن کی نمازوں میں خشوع ہے (المؤمنون2,1) ۔

    «  صبر اور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کیا کرو۔ بیشک وہ نماز بہت دشوار ہے مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے ان پر کچھ بھی دشوار نہیں (البقرہ 45) ۔

    «  تمام نمازوں کی خاص طور پر درمیان والی نماز (یعنی عصر کی) پابندی کیا کرو اور اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہا کرو( البقرہ 248) ۔

    خشوع و خضوع سے متعلق احادیث نبویہؐ:

    «   رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

    جب اقامت سنو تو پورے وقار، اطمینان اور سکون سے چل کر نماز کیلئے آؤ اور جلدی نہ کرو۔ جتنی نماز پالو پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ بعد میں پوری کرلو (صحیح بخاری )۔

    «   حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ مسجد میں تشریف لائے۔ ایک اور صاحب بھی مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، پھر (رسول اللہ کے پاس آئے اور) رسول اللہ کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: جاؤ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گئے اور جیسے نماز پہلے پڑھی تھی ویسے ہی نماز پڑھ کر آئے، پھررسول اللہ کو آکر سلام کیا۔ آپ نے فرمایا: جاؤ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس طرح 3 مرتبہ ہوا۔ اُن صاحب نے عرض کیا: اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے نماز سکھائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:

    جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھرقرآن مجید میں سے جو کچھ پڑھ سکتے ہو پڑھو، پھر رکوع میں جاؤ تو اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے کھڑے ہو تو اطمینان سے کھڑے ہو، پھر سجدہ میں جاؤ تو اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے اٹھو تو اطمینان سے بیٹھو۔ یہ سب کام اپنی پوری نماز میں کرو(صحیح بخاری ) ۔

    «  رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

    جو مسلمان بھی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لئے اچھی طرح وضو کرتاہے پھر خوب خشوع کے ساتھ نماز پڑھتا ہے جس میں رکوع بھی اچھی طرح کرتا ہے تو جب تک کوئی کبیرہ (بڑا) گناہ نہ کرے یہ نماز اس کے لئے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور یہ فضیلت ہمیشہ کیلئے ہے

صحیح مسلم)۔)

    «   رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

    جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرتاہے ،پھر2 رکعت اس طرح پڑھتا ہے کہ دل نماز کی طرف متوجـہ رہے اور اعضاء میں بھی سکون ہو تو اسکے لئے یقینا جنت واجب ہوجاتی ہے

 ابوداؤد)۔)

    «   رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

    اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف اُس وقت تک توجـہ فرماتے ہیں جب تک وہ نماز میں کسی اور طرف متوجـہ نہ ہو۔ جب بندہ اپنی توجـہ نماز سے ہٹالیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی توجـہ ہٹالیتے ہیں 

نسائی) ۔)

    «  رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

     بدترین چوری کرنے والا شخص وہ ہے جو نماز میں سے چوری کرے۔صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ!  نماز میں کس طرح چوری کرے گا؟

     آپ نے ارشاد فرمایا:

    اس کا رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے ادا نہ کرنا ( غرض اطمینان و سکون کے بغیر نماز ادا کرنے کو نبی اکرم نے بدترین چوری قرار دیا) (مسند احمد، طبرانی)۔

    «   رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :

    آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کیلئے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے، اسی طرح بعض کیلئے نواں حصہ، بعض کیلئے آ ٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھائی، تہائی، آدھا حصہ لکھا جاتا ہے

ابوداؤد، نسائی، صحیح ابن حبان) ۔)

    «  رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

    اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز کی طرف دیکھتے ہی نہیں جو رکوع اور سجدہ کے درمیان یعنی قومہ میں اپنی کمر کو سیدھا نہ کرے 

(مسند احمد۔)

    «   حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھاجو رکوع اور سجدہ کو پوری طرح سے ادا نہیں کررہا تھا۔ جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوگیا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تُو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تُواسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مرگیا تو محمد کے دین کے بغیر مرے گا 

صحیح بخاری )۔)

    «   حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ہمارے پاس آئے اور فرمانے لگے کہ میں تم لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ نماز میں گھوڑے کی دُم کی طرح اپنے ہاتھ اٹھاتے ہو۔ نماز میں سکون اختیار کرو

مسلم) ۔)

    «  حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم نے 7 اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا، اور نیز اس بات کا حکم فرمایا کہ نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں

(بخاری، مسلم)

    «  حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے منع فرمایا کوّے کی طرح ٹھونگے مارنے سے (یعنی جلدی جلدی نماز پڑھنے سے) اور درندہ کی کھال بچھاکر نماز پڑھنے سے اور اس سے کہ کوئی شخص مسجد میں نماز کی کوئی خاص جگہ مقرر کرلے جیسے کہ اونٹ (اپنے اصطبل) میں ایک خاص جگہ مقرر کرلیتاہے

 (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی)۔)

     نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کا طریقہ:

    نبی اکرم نے ارشاد فرمایا:

    ’’جب نماز کیلئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان بآواز ہوا خارج کرتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے تاکہ اذان نہ سنے، پھر جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو وہ واپس آجاتا ہے۔ جب اقامت کہی جاتی ہے تو وہ پھر بھاگ جاتا ہے اور اقامت پوری ہونے کے بعد پھر واپس آجاتا ہے تاکہ نمازی کے دل میں وسوسہ ڈالے، چنانچہ نمازی سے کہتا ہے یہ بات یاد کر اور یہ بات یاد کر۔ ایسی ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو باتیں نمازی کو نماز سے پہلے یاد نہ تھیں یہاں تک کہ نمازی کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں ہوئیں 

(مسلم: باب فضل الأذان )۔

    شیطان کی پہلی کوشش مسلمان کو نماز سے ہی دور رکھنا ہے کیونکہ نماز اللہ کی اطاعت کے تمام کاموں میں سب سے افضل عمل ہے لیکن جب اللہ کا بندہ  شیطان کی تمام کوششوں کو ناکام بناکر اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب عمل’’ نماز‘‘ کو شروع کردیتا ہے تو پھر وہ نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع سے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے، چنانچہ وہ نماز میں مختلف دنیاوی امور کو یاد دلاکر نماز کی روح سے غافل کرتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں وارد ہوا ہے لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسے اسباب اختیار کرے کہ جن سے نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے چند اسباب ذکر کئے جارہے ہیں۔ اگر درجِ ذیل اسباب اختیار کئے جائیں گے تو انشاء اللہ شیاطین سے حفاظت رہے گی اور ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں گی۔

    نماز شروع کرنے سے پہلے:

    (1)  جب مؤذن کی آواز کان میں پڑے تو دنیاوی مشاغل کو ترک کرکے اذان کے کلمات کا جواب دیں اور اذان کے اختتام پر نبی اکرم پر درود پڑھ کر اذان کے بعد کی دعا پڑھیں۔

    (2)  پیشاب وغیرہ کی ضروریات سے فارغ ہوجائیں کیونکہ نبی اکرم کا فرمان ہے:

    ’’کھانے کی موجودگی میں(اگر واقعی بھوک لگی ہو) نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی اس حالت میں جب پیشاب پائخانہ کا شدید تقاضا ہو(صحیح مسلم)۔

    (3)  بسم اللہ پڑھ کر سنت کے مطابق اس یقین کے ساتھ وضو کریں کہ ہر عضو سے آخری قطرے کے گرنے کے ساتھ اس عضو کے ذریعہ کئے جانے والے صغائر گناہ بھی معاف ہورہے ہیں اور وضو کی وجـہ سے اعضاء قیامت کے دن روشن اور چمکدار ہوں گے جن سے تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد اپنے امت کے افراد کی شناخت فرمائیں گے۔

    (4)  صاف ستھرہ لباس پہن لیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

    ’’ اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت ایسا لباس زیب تن کرلیا کرو جس میں ستر پوشی کے ساتھ زیبائش بھی ہو۔ ‘‘

(الاعراف31) 

    نیز نبی اکرم نے فرمایا:

    ’’اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘

(مسلم) ۔

     وضاحت: تنگ لباس ہرگز استعمال نہ کریں۔ احادیث میں تنگ لباس پہننے سے منع فرمایاگیا ہے،نیز مرد حضرات پائجامہ یا کوئی دوسرا لباس ٹخنوں سے نیچے نہ پہنیں ، احادیث میں ٹخنوں سے نیچے پائجامہ وغیرہ پہننے والوں کیلئے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

    (5)  جو چیزیں نماز میں اللہ کی یاد سے غافل کریں، ان کو نماز سے قبل ہی دور کردیں۔

    (6)  اپنی وسعت کے مطابق سخت سردی اور سخت گرمی سے بچاؤ کے اسباب اختیار کریں۔

    (7)  شور وغل کی جگہ نماز پڑھنے سے حتی الامکان بچیں۔

    (8)  مرد حضرات فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجدوں میں اور مستورات گھر میں ادا کریں۔

    (9)  صرف حلال روزی پر اکتفا کریں اگرچہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو ۔

    (10)  نماز میں خشوع وخضوع پیدا ہوجائے ، اس کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہیں۔

    نماز شروع کرنے کے بعد:

    (1)  نہایت ادب واحترام کے ساتھ اپنی عاجزی وفروتنی اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی، عظمت اور علو شان کا اقرار کرتے ہوئے دونوں ہاتھ اٹھاکر زبان سے اللہ اکبر کہیں۔دل سے یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا ہے اور وہی جی لگانے کے لائق ہے، اس کے علاوہ ساری دنیا حقیر اور چھوٹی ہے اور دنیا سے بے تعلق ہوکر اپنی تمام تر توجـہ صرف اسی ذات کی طرف کریں جس نے ہمیں ایک ناپاک قطرے سے پیدا فرماکر خوبصورت انسان بنادیا اور مرنے کے بعد اسی کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی اس دنیاوی زندگی کا حساب دینا ہے۔

    (2)  ثنا، سورۂ فاتحہ، سورہ، رکوع وسجدہ کی تسبیحات، جلسہ وقومہ کی دعائیں، التحیات، نبی اکرم پر درود اور دعاؤں وغیرہ کو سمجھ کراور غور وفکر کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ پڑھیں، اگر تدبر وتفکر نہیں کرسکتے تو کم از کم اتنا معلوم ہو کہ نماز کے کس رکن میں ہیں اور کیا پڑھ رہے ہیں۔

    (3)  اس یقین کے ساتھ نماز پڑھیں کہ نماز میں اللہ جلّ شانہ سے مناجات ہوتی ہے جیسا کہ حضرت انس  ؓکی حدیث میں گزرا ۔ نیز دوسری حدیث میں ہے کہ سورہ ٔفاتحہ کی تلاوت کے دوران اللہ تعالیٰ ہر آیت کے اختتام پر بندہ سے مخاطب ہوتا ہے۔

    (4)  اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، نیز بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگیں۔

    (5)  سجدہ کے وقت یہ یقین ہو کہ میں اس وقت اللہ کے بہت زیادہ قریب ہوں جیسا کہ نبی اکرم نے فرمایا:

    ’’ بندہ نماز کے دوران سجدہ کی حالت میںاپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ ‘‘

(مسلم)۔

    (6)  نماز کے تمام ارکان واعمال کو اطمینان اور سکون کے ساتھ ادا کریں۔

    (7)  نبی اکرم کے طریقے کے مطابق نماز ادا کریں۔

    (8)  نماز میں خشوع وخضوع کی کوشش کے باوجود اگر بلا ارادہ دھیان کسی اور طرف چلا جائے تو خیال آتے ہی فوراً نماز کی طرف توجـہ کریں۔ اس طرح بلا ارادہ کسی طرف دھیان چلا جانا نماز میں نقصان دہ نہیں (ان شاء اللہ) ، لیکن حتی الامکان کوشش کریں کہ نماز میں دھیان کسی اور طرف نہ جائے۔

کیونکہ ہر شے کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک باطنی حقیقت۔ نماز بھی ایک ظاہری صورت رکھتی ہے اور ایک باطنی حقیقت۔ نماز کی اس باطنی حقیقت کا نام قرآن و سنت کی زبان میں خشوع و خضوع ہے۔


نماز میں خشوع و خضوع سے مراد وہ کیفیت ہے کہ دل خوف اور شوقِ الٰہی میں تڑپ رہا ہو اور اس میں اللہ کے سوا کچھ باقی نہ رہے، اَعضاء و جوارِح پرسکون ہوں، پوری نماز میں جسم کعبہ کی طرف اور دل ربِ کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :


اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَن يُضْلِلْ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍO


الزمر، 39 : 23


’’اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں (جس کی آیتیں) بار بار دہرائی گئی ہیں، جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کی جلدیں اور دل نرم ہو جاتے ہیں (اور رِقّت کے ساتھ) اللہ کے ذکر کی طرف (محو ہو جاتے ہیں)۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے۔ اور اللہ جسے گمراہ کر دیتا (یعنی گمراہ چھوڑ دیتا) ہے تو اُس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوتاo‘‘


مومن کا شعار صرف نمازی ہونا ہی نہیں بلکہ نماز میں خشوع اِختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ خشوع نماز کا مغز ہے اور اس کے بغیر اقامتِ صلوٰۃ کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اور اگر نماز میں خشوع نہ ہو تو اس کی مثال یوں ہوگی جیسے کسی کی آنکھیں تو ہوں لیکن بصارت نہ ہو، کان تو ہوں مگر سماعت نہ ہو۔ لہٰذا نماز کی روح یہ ہے کہ اِبتدا سے آخر تک خشوع کا غلبہ ہو اور حضورِ قلب قائم رہے کیونکہ دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم و ہیبت کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری رکھنا ہی نماز کا اصل مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے :


إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِيO

طٰهٰ، 20 : 14

’’بیشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کروo‘‘

’’حضرت مطرف اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں :

رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي وَفِي صَدْرِهِ أَزِيْزٌ کَأَزِيْزِ الرَّحَی مِنَ الْبُکَاءِ.

1. أبو داود، السنن، کتاب الصلاة، باب البکاء في الصلاة، 1 : 238، رقم : 904

2. نسائي، السنن، کتاب السهو، باب البکاء في الصلاة، 3 : 13، رقم : 1214

’’میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ اقدس سے رونے کی آواز اس طرح آرہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔‘‘

اسلام ایک عظیم دین ہے، اس کے اہم ترین اصول، امتیازات اور قواعد میں یہ شامل ہے کہ مسلمانوں کو حق پر جمع کیا جائے اور دلوں میں باہمی الفت ڈالی جائے، یہ اللہ تعالی کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کا احسان اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر جتلایا اور فرمایا:

{هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ(62)وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ}

ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے، زمین میں جو کچھ ہے اگر آپ سارے کا سارا بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتے تھے۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وہ غالب حکمت والا ہے۔ 

[الأنفال:62- 63]

کلمۂ توحید پر متحد اور کتاب و سنت کے پیرو ہی سچے مومن ہیں، چاہے ان کے مخالفین کتنے ہی زیادہ یا طاقتور ہوں، انبیائے کرام اپنی امتوں کو حق پر متحد کرنے کیلیے متفق تھے، اسی لیے انہوں نے اسلام قائم کر کے اس پر کار بند رہنے کا حکم دیا، چاہے وہ علم کے اعتبار سے ہو یا عمل کے، عقائد کے اعتبار سے ہو یا طرزِ زندگی کے اعتبار سے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ }

اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کا ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔

 [الشورى: 13]

سب انبیائے کرام نے اللہ تعالی کی عبادت پر متحد ہونے کی دعوت دی، تمام انبیائے کرام نے کہا:

{يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ}

میری قوم! اللہ کی عبادت کرو تمہارا اس کے علاوہ کوئی الہ نہیں ہے۔

[الأعراف: 59]

نبی ﷺ کو ایسی قوم میں بھیجا گیا جو دینی اعتبار سے بکھرے ہوئے اور دنیاوی امور میں بھی ایک دوسرے کے خلاف تھے:

{كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ}

ہر گروہ اپنے پاس [نظریات] پر خوش ہے

[الروم: 32] 

تو نبی ﷺ نے ان کی مشابہت سے منع فرمایا اور متحد رہنے کا حکم دیا، اس طرح دینِ الہی قائم ہو گیا اور جاہلیت جاتی رہی، دین پر متحد ہونے کی وجہ سے لوگوں کے امور سنورتے چلے گئے ۔

لوگوں کا دنیاوی اور اخروی فائدہ صرف دینِ خالص، تعاون، اور باہمی مدد سے ہی ہو گا، اور چونکہ یہ ناقابل تردید دینی ضرورت ہے اس لیے یہ تمام رسالتوں میں متفقہ اصول رہا ہے، بلکہ تمام شریعتوں کا مقصد بھی تھا، یہ دنیاوی ضرورت بھی ہے اس کے بغیر زندگی سنور نہیں سکتی اور اس کے بغیر زندگی میں استحکام نہیں آ سکتا، لوگوں کے باہمی معاملات اور مفادات اسی سے پورے ہوں گے، یہی راستہ ہے امت کیلیے عظمت رفتہ کو واپس لانے کا، اتحاد، احترام اور معاشروں کو تحفظ دینے کا، یہی بہترین طریقہ ہے مسلمانوں کے ارمان پورے کرنے اور مشکلات حل کرنے کا، یہی مسلمانوں کے مابین رابطے اور اسلام کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔

یہ امت پر شرعاً فرض بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}

تم تمام اللہ کی رسی کو تھام لو گروہوں میں مت بٹو

[آل عمران: 103] 

ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: 

"اللہ کے دین پر مضبوطی سے کار بند رہو جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، اور اللہ کے قرآن میں لیے ہوئے عہد پر قائم رہو جو کہ کلمۂ حق پر اتحاد اور محبت سمیت احکاماتِ الہیہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے پر مشتمل تھا"

نبی ﷺ نے اس امر کا خصوصی خیال رکھا، چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں زبانی کلامی بھی بتلایا اور ان کے ذہنوں میں یہ چیز راسخ کرنے کیلیے زمین پر خط کھینچا، چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ ﷺ نے ایک خط کھینچا اور فرمایا : (یہ اللہ تعالی کا راستہ ہے)پھر اس کے دائیں اور بائیں مزید خطوط کھینچے اور پھر فرمایا: (دائیں بائیں ان راستوں پر ان کی طرف دعوت دینے والے شیطان ہیں)پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

{وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ}

اور بلاشبہ یہی میری سیدھی راہ ہے لہذا اسی پر چلتے جاؤ اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گی [الأنعام: 153]" احمد

اللہ تعالی نے اس امت کو عظیم اصول یاد کرواتے ہوئے فرمایا:

{إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ}

بیشک تم ایک ہی امت ہو اور میں تمہارا رب ہوں ، اس لیے صرف میری عبادت کرو۔

[الأنبياء: 92]

ہدایت پر اتحاد مہربانی کا باعث ہے، اسی لیے مومنین کی صفات میں ہے کہ وہ آپس میں مہربان ہوتے ہیں، یہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں پر جتلائی ہوئی نعمت ہے:

{وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا}

اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے

[آل عمران: 103]

جس طرح اللہ تعالی نے مومنوں کو اتحاد و اتفاق کا حکم دیا اسی طرح انہیں اختلافات اور گروہ بندی سے روکا:

{وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا}

اور مشرکین میں شامل نہ ہو جانا [31] جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے کر دیے اور خود گروہوں میں بٹ گئے۔

[الروم: 31، 32]

انہیں یہ بھی بتلایا ہے کہ تم سے پہلے والی اقوام لڑائی جھگڑے اور اللہ کے دین سے متعلق اختلاف کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ}

اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گی

 [الأنعام: 153]

دین پر استقامت اور دل جمی رسولوں کا راستہ ہے، اس رستے کا راہی کامیاب ہے، اور اس سے ہٹنے والا ناکام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ}

جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ خود ہی انہیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں لگے ہوئے تھے

 [الأنعام: 159]

ملت اسلامیہ کے التزام میں ہی فتنوں سے تحفظ ہے، فتنے رونما ہونے کے وقت اسی بات کی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو رہنمائی دی ہے، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے پوچھتے ہیں:

"کیا اس خیر کے بعد شر بھی ہو گا؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (جی ہاں ، جہنم کے دروازے پر صدائے لگانے والے ہیں جو بھی ان کی بات مانتا ہے وہ اسے جہنم میں پھینک دیتے ہیں)اس پر میں [حذیفہ رضی اللہ عنہ ] نے کہا: "اگر مجھے ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ جائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تم ملت اسلامیہ اور ان کے حکمران کے ہمراہ رہنا) 

مسلم شریف

مسلمانوں کی خیر خواہی میں یہ بات شامل ہے کہ ملت اسلامیہ کے ہم رکاب بننے کیلیے صحیح عقائد اور نیک اعمال میں ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کے دلوں کو جوڑنے کیلیے کوششیں کریں۔

سب سے پاکیزہ دل اسی کا ہے جو ملت اسلامیہ کا التزام کرے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: 

(تین چیزوں کے بارے میں کسی بھی مسلمان کا دل کینہ نہیں رکھتا –یعنی قلبِ مسلم میں کینہ اور خیانت پیدا نہیں ہوتی-:اللہ کیلیے خالص عمل، مسلم حکمرانوں کیلیے خیر خواہی، اور ملتِ اسلامیہ کا التزام، بے شک دعا مسلمانوں کی جماعت کو شامل ہوتی ہے ) 

مطلب یہ ہے کہ: مسلمانوں کی دعائیں سب مسلمانوں کیلیے ہوتی ہیں جو انہیں شیطانی چالوں سے محفوظ بناتی ہیں اور گمراہ نہیں ہونے دیتیں، ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔

یہ ان چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلیے پسند کیا ہے لہذا بندوں کو بھی اپنے لیے وہی چیزیں پسند کرنی چاہییں جو اللہ تعالی نے ان کے بارے میں پسند کی ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(بیشک اللہ تعالی تمہارے لیے تین چیزیں پسند کرتا ہے اور تین چیزوں کو پسند نہیں کرتا: پسند یہ کرتا ہے کہ: تم اسی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ، تم سب اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہ بندی میں مت پڑو) 

 مسلم شریف

، آپ ﷺ کا فرمان ہے

(میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا، انہیں رسوا کرنے کی کوشش کرنے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم آ جائے اور وہ اسی طرح حق پر غالب ہوں گے)

 مسلم شریف

وہی لوگوں میں سب سے خوشحال ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ : ان کے دل جڑے ہوں گے، باہمی شفقت اور الفت ان میں ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ}

مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں جو بھلے کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔[٨٦] یہی لوگ ہیں، جن پر اللہ رحم فرمائے گا بلاشبہ اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے

 [التوبۃ: 71]

اعتدال ان کا منہج ہے اس لیے وہ افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوتے، غلو اور بے رخی اختیار نہیں کرتے، یہی لوگ بدعات، گمراہی اور گروہ بندی سے دنیا میں نجات پائیں گے اور ہلاکت اور عذاب سے آخرت میں بچ جائیں گے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(بیشک یہ امت عنقریب 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، 72 آگ میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا اور وہی ملت اسلامیہ ہے) ترمذی ، جبکہ مستدرک حاکم میں ہے کہ نبی ﷺ سے عرض کیا گیا: "وہ ایک گروہ کونسا ہو گا؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (جو میرے اور میرے صحابہ کے منہج پر ہو گا)

اللہ تعالی کے اہل سنت کو ثابت کرنے کی وجہ سے وہ حق پر ثابت ہیں، اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کے منہج میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، جو ان کی کتابیں اور اقوال پڑھے ، ان میں سے گزشتہ و پیوستہ لوگوں کی سوانح کا مطالعہ کرے تو وہ ان سب کو ایک ہی راستے کا راہی پائے گا؛ گویا کہ ان کی باتیں ایک ہی من سے نکلی ہیں، اور ان کے افعال ایک ہی تن سے صادر ہوئے ہیں، جبکہ ان کے مخالفین کا منہج علم اور دلیل سے دور، ان کے دلائل انتہائی کمزور اور ان کی باتوں میں تناقض ہے، کیونکہ حق چھوڑنے سے ہی معاملات بگڑتے ہیں اور نظریات میں شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ}

بلکہ جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا۔ چنانچہ یہ لوگ ایک الجھی ہوئی بات [٦] میں پڑ گئے 

[ق: 5]

{يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (106) وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ}

اس دن جب کہ کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ سیاہ ہو رہے ہوں گے تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے (انہیں کہا جائے گا) کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا تھا ؟ سو جو تم کفر کرتے رہے اس کے بدلے عذاب کا مزا چکھو [106] رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو یہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے

۔[آل عمران : 106-107]

ابن عباس رضی اللہ عنہما ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں: 

"اس دن اہل سنت و الجماعت کے چہرے روشن ہوں گے جبکہ تفرقہ اور اختلاف کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے"

ملت کیلیے اتنا ہی شرف کافی ہے کہ ملت کے ساتھ اللہ تعالی کی مدد شامل حال ہوتی ہے اور اللہ تعالی ملت کو پسند بھی فرماتا ہے، تصورِ ملت میں ہی فلاح و بہبود ہے، جبکہ فرقہ واریت میں فساد اور تباہی ہے، عقل مند کتاب و سنت کی پابند اور سلف کی پیروکار جماعت کے ساتھ تعلق میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا چاہے اسے اس ترکِ تعلق کے عوض میں مفادات کی تکمیل ہی کیوں نہ نظر آئے؛ کیونکہ ایسے مفادات ناقابل التفات ہوتے ہیں، بلکہ وہ اللہ تعالی کی اس عنایت پر خوش ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے مضبوط دین اور ملت اسلامیہ کا تعلق عنایت کیا ہے نیز دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا ہے۔

{وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْر سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا}

مگر جو شخص راہ راست کے واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا خود اس نے رخ کرلیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بری بازگشت ہے [النساء: 115]

فرقہ آرائی اور گروہ بندی کے نقصانات

​حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے.

(میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا، لیکن شیاطین نے ان کے پاس آ کر انہیں دین سے گمراہ کر دیا ) مسلم

تو اللہ تعالی نے ان کے بکھرنے پر مذمت فرمائی اور رسولوں کو مبعوث فرمایا تا کہ ان میں اتحاد اور حق بات پر ان کے دل متحد ہو جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ} [البقرة: 213]

اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو چنا اور ان میں انبیائے کرام اور رسولوں کو بھیجا؛ لیکن انہوں نے رسولوں کی مخالفت کی اور کتابِ الہی کو پس پشت ڈال کر گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے، عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی) ابن حبان

اور آپ ﷺ نے اس امت میں تفرقہ بازی رونما ہونے کی خبر دی ، عہدِ نبوت سے جس قدر دور ہوتے جائیں گے گروہ بندیاں اور اختلافات بڑھتے جائیں گے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(بیشک تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا) احمد

نبی ﷺ نے فرقہ آرائی سے خبردار فرمایا تا کہ مشیئتِ الہی میں جس کیلیے سلامتی لکھی ہوئی ہے وہ فرقہ واریت سے بچ جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(اپنے آپ کو فرقوں میں بٹنے سے بچاؤ) ترمذی​

اللہ تعالی نے بھی اپنے بندوں کو گروہ بندی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

{وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}

اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہ بندی میں مت پڑو۔ [آل عمران: 103]

نیز اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا دیا کہ اس کا راستہ ایک ہی ہے، لہذا جو بھی کتاب و سنت سے متصادم راستہ ہو گا وہ شیطان کا راستہ ہے، جو کہ مخلوق کو رحمن سے دور کرتا ہے، اللہ تعالی نے اقامت ِ دین اور گروہ بندی سے دوری کی تاکیدی نصیحت تمام اقوامِ عالم کو اسی طرح فرمائی جیسے انبیائے کرام کو فرمائی، فرمانِ باری تعالی ہے:

{شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ}

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جسے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیجا ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں گروہ بندیاں مت کرنا۔[الشورى: 13]

اللہ تعالی نے گروہ بندی اور تفرقہ پردازوں کی مذمت فرمائی :

{وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ}

اور بیشک جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف کیا وہ دور کی بد بختی میں پڑ گئے۔[البقرة: 176]

تفرقہ پردازوں کی کیفیت بیان کرنے کیلیے فرمایا:

{ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ}

جس گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی پر اترا رہا ہے ۔[المؤمنون: 53]

گروہ بندی کیلیے تگ و دو منافقوں کی صفات میں سے ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ}

اور کچھ لوگوں مسجد بنائی نقصان پہنچانے کیلیے ، کفر کیلیے اور مومنوں میں پھوٹ ڈالنے کیلیے۔[التوبہ: 107]

اور مزید یہ بھی فرمایا کہ منافقین اسی پر پروان چڑھتے ہیں:

{تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى}

تم انہیں متحد سمجھتے ہو حالانکہ ان کے دل جدا جدا ہیں۔[الحشر: 14]

فرقہ واریت جاہلوں کی خصوصی صفات میں سے ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(جو شخص بھی اطاعت سے رو گردانی کرے اور اجتماعیت سے نکل جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا) مسلم

اللہ تعالی نے فرقہ آرائی میں ملوث لوگوں سے مشابہت اور ان کی ڈگر پر چلنے سے منع فرمایا اور کہا:

{وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ }

اور ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جنہوں نے نشانیاں آنے کے بعد بھی اختلاف کیا اور بٹ گئے۔[آل عمران: 105]​

اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو دھڑے بندیاں کرنے والوں سے لا تعلق قرار دیا اور فرمایا:

{إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ}

بیشک جن لوگوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور ڈھڑوں میں بٹ گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔[الأنعام: 159]​

فرقہ واریت میں ملوث لوگ رسول اللہ ﷺ کے مخالف اور مومنوں کے ساتھ تصادم رکھتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا }

جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔ [النساء: 115]

سب سے بڑا اختلاف رب العالمین کی وحدانیت سے انحراف ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ}

اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان اگر آپ ایسا کریں گے تو تب یقیناً ظالموں سے ہو جائیں گے [يونس: 106]

بالکل اسی طرح بدعات ایجاد کرنا خیر المرسلین ﷺ کی اتباع سے دوری ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے) متفق علیہ​

حکمرانوں اور حکومتی قائدین کے خلاف بغاوت، ملکی قیادت سے قیادت چھیننے کیلیے اختلاف بہت بڑی خرابی کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(جس شخص نے اللہ تعالی کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا تو وہ قیامت کے دن آئے گا تو اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا، اور جو شخص اجتماعیت کو چھوڑنے کی حالت میں مرے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے) احمد

تمام معاشروں میں اہل علم افراد ہی قابل اتباع ہوتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں الفت ڈالنے اور ان میں باہمی اتحاد قائم کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں پر عائد ہوتی ہے، اگر وہی آپس میں چپقلش رکھیں تو یہ ان کی باتوں کو مسترد کرنے کا باعث بنتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا معاذ اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا تھا: (آسانی کرنا تنگی میں مت ڈالنا، خوشخبریاں سنانا، متنفر مت کرنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اختلاف مت کرنا) متفق علیہ

اسی طرح حق بات میں اختلاف سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

(قرآن مجید کی اس وقت تک تلاوت کرو جب تک تمہارے دل مانوس رہیں اور جب [قراءت میں اختلاف کی وجہ سے ] اختلاف ہونے لگے تو اٹھ جاؤ) متفق علیہ

نماز کیلیے الگ الگ دھڑے بنانا اور اکٹھے با جماعت نماز ادا نہ کرنا شیطان کے غلبہ پانے کی صورت ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(کسی بھی بستی یا بادیہ میں تین افراد نماز با جماعت کا اہتمام نہ کریں تو شیطان ان پر غالب ہے، اپنے آپ کو اجتماعیت سے جوڑے رکھو؛ کیونکہ بھیڑیا دور نکلنے والی بکری کو کھا جاتا ہے۔ ) ابو داود

بلکہ نبی ﷺ نے بکھر کر نماز کے انتظار کو بھی اچھا نہیں سمجھا، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

"ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ [نماز پڑھانے کیلیے]داخل ہوئے تو ہمیں ٹولیوں کی شکل میں [نماز کا انتظار کرتے ہوئے]دیکھ کر فرمایا: (کیا ہے کہ میں تمہیں ٹولیوں میں دیکھ رہا ہوں!؟)" مسلم

نبی ﷺ نے صف بندی کرتے ہوئے نمازیوں کو اختلاف سے روکا اور اختلاف کرنے والوں کو چہروں میں بگاڑ اور دلوں میں نفرت پیدا ہونے کی وعید سنائی؛ کیونکہ ظاہری طور پر بگاڑ کا پیدا ہونا اندرونی بگاڑ کا باعث ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:

(تم ضرور صفیں سیدھی کرو گے یا اللہ تعالی تمہارے چہروں میں بگاڑ پیدا کر دے گا) مسلم

نماز میں امام کی مخالفت بھی اختلاف کے ان مظاہر سے ہے جن سے اسلام نے منع فرمایا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(بیشک امام اقتدا کیلیے مقرر کیا گیا ہے؛ لہذا امام کی مخالفت مت کرو) بخاری

اسلام نے جس طرح دینی امور میں اختلاف سے روکا ہے اسی طرح دنیاوی امور میں بھی اختلافات سے روکا ہے؛ چنانچہ کھانے کیلیے اکٹھے ہونے سے برکت حاصل ہوتی ہے اور الگ الگ کھانے سے برکت ختم ہو جاتی ہے، جیسے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ:

ہم کھاتے تو ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے! تو آپ ﷺ نے فرمایا: (لگتا ہے تم کھانا اکٹھے نہیں کھاتے) انہوں نے کہا: "بالکل ایسے ہی ہے" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (کھانے کیلیے اکٹھے بیٹھو اور اس پر بسم اللہ پڑھو، تمہارے لیے اس میں برکت ڈال دی جائے گی) ابو داود

دورانِ سفر رفقائے سفر سے بکھر جانے کو شیطانی راستہ قرار دیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا:

(ان گھاٹیوں اور وادیوں میں تمہارا بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے)

 ابو داود

معاشرے کے افراد کی باہمی قطع تعلقی اور بے رخی سے منع فرمایا اور بتلایا کہ:

(جنت کے دروازے سوموار اور جمعرات کے دن کھولے جاتے ہیں، تو ہر اس شخص کو معاف کر دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا، سوائے اس شخص کے جس کی اپنے بھائی کے ساتھ چپقلش ہو، تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے: ان دونوں کو آپس میں صلح کرنے تک مہلت دو، ان دونوں کو آپس میں صلح کرنے تک مہلت دو)

 مسلم

نبی ﷺ نے تعصب اور جاہلانہ نعروں سے بھی منع فرمایا:

ایک انصاری شخص نے آواز لگائی: "اے انصاریو!" تو دوسرے نے صدا لگا دی: "اے مہاجرو!" تو اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: (جاہلانہ نعرے کیوں لگا رہے ہو؛ انہیں ترک کر دو یہ بد بو دار ہیں) 

متفق علیہ

اللہ تعالی کو اپنے بندوں کے درمیان اختلاف پسند نہیں ہے ، لہذا لوگوں میں اختلافات غیر اللہ کی جانب سے ہوتے ہیں، شرعی اصولوں نے یہ واضح طور پر کسی بھی ایسی چیز کو حرام قرار دے دیا ہے جو گروہ بندی اور اختلاف کا باعث بنے، بلکہ ادیانِ رسالت میں ممنوعہ چیزوں کی ممانعت کا مقصد بھی یہی ہے، چنانچہ ہر اس چیز کو منع کر دیا گیا جو مسلمانوں میں اختلافات کا باعث بنے، مثلاً: بد ظنی، حسد، جاسوسی، چغلی، سود، کسی کی بیع پر بیع کرنا، کسی کی منگنی پر منگنی کا پیغام بھیجنا، عیب جوئی کرنا، ملاوٹ کرنا وغیرہ، نیز اللہ تعالی نے باہمی اتحاد قائم کرنے اور اختلافات سے بچانے کیلیے اچھی سے اچھی گفتگو کرنے کا حکم دیا اور بری گفتگو سے روکا، فرمان باری تعالی ہے:

{وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ}

اور میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہی بات کیا کریں جو بہترین ہو، بیشک شیطان ان کے درمیان فساد ڈلواتا ہے۔

 [الإسراء: 53]

اختلاف کا سب سے بڑا موجب شرک ہے، شرک اختلاف پرور اور معبودانِ باطلہ میں اضافے کا موجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:


{وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا}


اور مشرکوں کی طرح مت ہو جانا [31] جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور دھڑوں میں بٹ گئے۔

[الروم: 31، 32]

کتاب و سنت سے مکمل رو گردانی یا کچھ حصے کو مان لینا اور باقی مسترد کر دینا تنازعات اور تصادم کا راستہ ہے

{وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ}

جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض اور عداوت ڈال دی جو تا قیامت رہے گی [المائدة: 14]

متَشابہ نصوص کی ٹوہ لگانا گمراہی اور سب کیلیے آزمائش ہے:

{فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ}


جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متَشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے

 [آل عمران: 7]

شبہات اور شہوات کے دروازے میں قدم رکھنے کی وجہ سے کئی اقوام تباہ ہو گئیں اور نسلوں میں اختلافات ڈال دئے۔

شیطانی راستوں پر چلنے کا نتیجہ اختلاف ہی ہوتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ}


اور مختلف راستوں پر مت چلو یہ تمہیں اللہ کے راستے سے دور لے جائیں گے۔

[الأنعام: 153]

کوئی بھی قوم سرکشی کرے تو وہ گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے فرمانِ باری تعالی ہے:


{وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ}

جن لوگوں کو کتاب دی گئی انہوں نے علم آ جانے کے بعد ہی اختلاف کیا صرف آپس میں سرکشی کی وجہ سے

[آل عمران: 19]

جس اختلاف کی بنیاد بھی ہوس پرستی، تعصب، سرکشی اور تقلید، حمیت، گروہی تعصب ہو تو وہ فرقہ آرائی کا راستہ ہے اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "فرقہ آرائی اور اختلاف عام طور پر بد ظنی اور ہوس پرستی سے جنم لیتے ہیں"

حصولِ دنیا کیلیے بڑھ چڑھ کر دوڑ دھوپ کرنا عداوت اور بغض کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(اللہ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں غربت کا اندیشہ نہیں ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں دنیا ایسے ہی فراوانی کے ساتھ دے دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں کو دی گئی، پھر تم بھی انہیں کی طرح بڑھ چڑھ کر دنیا کیلیے آگے بڑھو گے، اور یہی دنیا تمہیں بھی تباہ کر دے گی جیسے سابقہ اقوام کو دنیا نے تباہ کیا.

 متفق علیہ

جب لوگ گروہوں میں بٹ جائیں تو شیطان ان پر غالب آ جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:


(اپنے آپ کو ملت سے پیوستہ رکھو، اور الگ ہونے سے بچاؤ؛ کیونکہ شیطان تنہا کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ دو افراد سے دور رہتا ہے)

 ترمذی

ابلیس کا چہیتا چیلا بھی وہی ہے جو امت میں سب سے زیادہ تفریق پیدا کرے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:


(بیشک ابلیس اپنا تخت پانی پر لگا کر اور اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے، ان میں سے شیطان کا قریبی وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ پرور ہو، ان چیلوں میں سے ایک آ کر کہتا ہے: "میں نے یہ کیا ، میں نے وہ کیا" تو ابلیس اسے کہتا ہے: توں نے کچھ نہیں کیا! پھر ایک اور آ کر کہتا ہے: "میں نے اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑا جب تک میاں بیوی میں تفریق نہیں ڈال دی" آپ نے فرمایا: ابلیس اس کے قریب ہو کر کہتا ہے: "توں سب سے اچھا ہے")

 مسلم

دینی امور میں اختلاف، ہوس پرستی اور گمراہ نظریات اللہ کے راستے اور دینِ الہی سے روکتے ہیں، اسی کی وجہ سے انبیائے کرام کے راستے اور منہج سے انحراف پیدا ہوتا ہے؛ کیونکہ سب انبیائے کرام نے دینِ الہی کے قیام اور حق بات پر باہمی اتحاد کا حکم دیا نیز تفرقہ سے روکا، اور جب اختلاف پیدا ہو جائے متخاصم لوگوں کا دین خطرے میں پڑ جاتا ہے، انہیں کتاب و سنت سے تعلیمات لینے کی برکت سے محروم کر دیا جاتا ہے، ان پر ہوس غالب آ جاتی ہے، علم و ہدایت کا تسلط ختم ہو جاتا ہے، گروہ بندی سے دلوں میں کدورت اور رابطہِ اخوت منقطع ہو جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:


(تم اختلاف میں مت پڑو وگرنہ تمہارے دل گدلے ہو جائیں گے) 

مسلم


گروہ بندی دشمنی اور بغض کا باعث بنتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: اوحاص


{وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ}

اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔

[آل عمران: 103]

کوئی بھی قوم بٹ جائے تو کمزور اور ناتواں بن جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ}

تنازعات میں مت پڑو وگرنہ تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔

[الأنفال: 46]

اور اگر کسی قوم میں گروہ بندی پیدا ہو جائے تو یہ اللہ تعالی کے ان سے ناراض ہونے کی علامت ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:


{قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ}

آپ کہہ دیں کہ وہ قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے لئے بھیج دے یا تو تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے 

[الأنعام: 65]

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "یعنی: تمہیں خواہشات اور اختلافات کا مزہ چکھا دے"

اختلافات کی فوری سزا دشمنوں کے مسلط ہونے کی صورت میں ملتی ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی کو وعدہ دیا ہوا ہے کہ:

(ان کے اپنے نفسوں کے علاوہ بیرونی کوئی دشمن مسلط نہیں کیا جائے گا جو انہیں تہس نہس کر دے، چاہے ساری دھرتی کے دشمن ان کے خلاف متحد ہو جائیں، یہاں تک یہ خود ایک دوسرے کو ہلاک کرنے لگے گیں اور ایک دوسرے کو قیدی بنانے لگے گیں)

 مسلم

تنازعات، اختلافات اور تفرقہ بازی سے حق تباہ ہوتا ہے، دینی اقدار منہدم ہوتی ہیں اور یہ مشرکین کی مشابہت بھی ہے، یہ گمراہی پھیلنے اور جہالت پر مبنی باتیں پھیلنے کا ذریعہ ہیں، ان میں ملوث ہو کر دینی احکام پر عمل، دین کی تعلیم اور دعوت شدید متاثر ہوتی ہیں، بلکہ دینی شعائر معطل ہو جاتے ہیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دیگر نیک سرگرمیاں معدوم ہو جاتی ہیں، اختلافات کے باعث نعمتیں زائل ہوتی ہیں، نبی ﷺ کو لیلۃ القدر دکھائی گئی تو آپ ﷺ نے لیلۃ القدر کے متعلق بتلانے کیلیے نکلے، [باہر] دو آدمی جھگڑ رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:

(میں تمہیں لیلۃ القدر کے بارے میں بتلانے کیلیے نکلا تھا، لیکن فلاں اور فلاں جھگڑ رہے تھے تو اس کی تعیین اٹھا لی گئی)

 بخاری

اگر گروہ بندی پیدا ہو جائے تو یہ بڑے سنگین جرائم کا پیشہ خیمہ ہو سکتی ہے، جن کی وجہ سے قتل و غارت اور خون بہہ سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:


{وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا}


اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو ان رسولوں کے بعد لوگ آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرتے جبکہ ان کے پاس واضح احکام بھی آ چکے تھے۔ لیکن انہوں نے آپس میں اختلاف کیا

 [البقرة: 253]


اختلافات کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(اختلافات مت کرو؛ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلافات کئے تو تباہ ہو گئے) 

بخاری

آخرت میں اختلافات کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ}

اس دن جب کہ کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ سیاہ ہو رہے ہوں گے تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے (انہیں کہا جائے گا) کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا تھا ؟ سو جو تم کفر کرتے رہے اس کے بدلے عذاب کا مزہ چکھ

و [آل عمران: 106]

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:

"اہل سنت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت و فرقہ واریت والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے" اللہ تعالی کا ہاتھ ملت اور اجتماعیت کے ساتھ ہوتا ہے، اور جو کوئی ملت سے بیزار ہو کر تنہا ہو گا اسے جہنم میں بھی تنہا ہی ڈالا جائے گا۔

گروہ بندی ذلت اور خفت ہے، تنازعات بدی اور بلا ہیں، اختلافات کمزوری اور دیوانگی ہیں، انتشار دین و دنیا دونوں کیلیے تباہی ہے، اس کی وجہ سے دشمن خوش ہوتا ہے اور امت کمزور ہوتی ہے، اس کی وجہ سے دعوت الی اللہ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، علم کی نشر و اشاعت بند ہوتی ہے، سینے میں کینہ اور دلوں میں ظلمت چھا جاتی ہے، معیشت کمزور اور وقت رائیگاں ہو جاتا ہے، انسان کو نیک کاموں سے موڑ دیتی ہے ۔

عقلمند انسان اختلافات سے رو گردانی کر کے کتاب و سنت پر کار بند رہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اپنی بھی اصلاح کرتا ہے، یہی نبی ﷺ کی امت کو انتشار اور اختلاف سے خلاصی کیلیے نصیحت ہے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ:{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا}

اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔ یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔

 [النساء: 59]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

جو شخص بھی کتاب و سنت اور آثار صحابہ کا جس قدر تابعدار ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ کامل ہو گا، وہ شخص اتحاد، ہدایت، اللہ کی رسی کو تھامنے والا اور فرقہ واریت ، اختلافات سمیت فتنوں سے بھی اتنا ہی دور ہوگا۔

اسلام کے بڑے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو یک زبان بنا دے، ان کے دلوں میں الفت ڈال دے، ناراض لوگوں کی آپس میں صلح کروا دے، مخلوق کیلیے بہتری دین اور حق بات پر متحد ہونے کی صورت میں ہی حاصل ہو گی، اللہ تعالی نے تمام مومنوں کو بھائی بھائی قرار دیتے ہوئے فرمایا:

{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ}

بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

[الحجرات: 10]


اور اسی طرح نبی ﷺ کے ہاں مومنوں کی (باہمی محبت، شفقت اور پیار کی مثال ایک جسم جیسی ہے، ایک عضو بھی تکلیف میں ہو تو اس کا سارا جسم بے خوابی اور بخار کسی سی کیفیت میں رہتا ہے)

 مسلم


ایک اور جگہ فرمایا: (ایک مومن اپنے دوسرے مومن بھائی کیلیے دیوار کی طرح ہے، جس کا یک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے) 

متفق علیہ

باہمی اتحاد و اتفاق اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں ، جو کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو خاص فضل و کرم کے ساتھ عنایت فرماتا ہے:

{وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ}

ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے، زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے [الأنفال: 63]


مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس نعمت کی حفاظت کیلیے اپنا سینہ صاف رکھے، دوسروں سے محبت کرے اور ان کی خیر خواہی چاہے۔


اللہ تعالی نے انسان کو جتنی قوتیں اور صلاحیتیں عطا کی ہیں ان میں سے ایک بھی لا یعنی ، بیکار اور فالتو نہیں بلکہ ہر ایک کا ایک صحیح اور جائز مصرف رکھا ہے اور ان میں سے ایک صفت بھی بندے میں نہ ہو تو انسان کو ناقص سمجھا جائے گا۔غصہ و غضب کے بارے میں بھی یہی بات ہے یہ صلاحیت جو ودیعت کی گئی ہے فضول نہیں کیونکہ اسکے ذریعے انسان اپنے دین ‘ اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے۔ مکروہات و ناگوار امور کے خلاف مشتعل ہو کر اقدام کرنے خود کو اور اپنے پیاروں کو تحفظ دلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن اسکا غلط استعمال قطعاً درست نہیں ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں اپنے مومن و مخلص بندوں کی متعدد صفات بیان کی ہیں وہیں انکی یہ صفت بھی بیان کی ہے کہ :

“والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس ” (آل عمران : 134)

” غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے”

اس لیے نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا :

“لیس الشدید بالصرعۃ انما الشدید الذی یملک نفسه عند الغضب ”

(صحیح مسلم کتاب آلبر ، باب فضل من یملک نفسه عند الغضب ، رقم الحدیث : 6614)

” پہلوان وہ نہیں جو لوگوں کو پچھاڑودے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔۔”

آئیے !!! اب غصہ کی حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں۔

غصہ کی حقیقت:۔

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

” غضب یعنی غصہ نفس کے اس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دفع کرنے پر ابھارے ۔ غصہ اچھا بھی ہے اور برا بھی ۔ اللہ کے لیے غصہ اچھا ہے جیسے مجاہد غازی کو کفار پر یا کسی واعظ عالم کو فساق و فجار پر یا ماں باپ کو نافرمان اولاد پر آئے ۔اور برا بھی ہوتاہے۔جیسے وہ غصہ جو نفسانیت کے لیے کسی پر آئے۔”

( مشکوۃ المصابیح ،، باب الغضب والکبر،الفصل الاول،جلد: 6 صفحہ :441)

امام غزالی علیہ الرحمہ غصے کی حقیقت پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“آدمی کی تخلیق اس انداز میں کی گئی ہے کہ اسکی فنا ا ور بقا مقصود تھی لہذا اس میں غصہ رکھ دیا گیا ۔ یہ حمیت و غیرت کی قوت ہے جو انسان کے باطن سے پھوٹتی ہے۔”

(لباب الاحیاء، مجلس مدینۃالعلمیہ، ص: 248، مکتبہ المدینہ)

مزید فرماتے ہیں:

“انسان کی بعض اوقات آتش غضب اتنا بھڑک اٹھتی ہے کہ اس سے انسان کے دل

کا خون بھی کھولنے لگتا ہے۔ پھر وہ خون بدن کی دیگر رگوں میں پھیل جاتا ہے اور جب دماغ تک اس طرح پہنچتا ہے جیساکہ کھولتا ہوا پانی تو وہ خون وہاں پھیلنے کے بعد چہرے میں سرایت کرجاتاہے جس سے غصہ کرنے والے کا چہر ہ اور اسکی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں۔اور کھال کا ظاہری حصہ صاف ہونے کی وجہ سے اپنے اندر موجود خون کی سرخی ظاہر کردیتا ہے۔ایسا اسوقت ہوتا ہے جب انسا ن یہ سمجھ لے کہ وہ اپنے مغصوب(جس پر غصہ آیا) پر قدرت رکھتا ہے ورنہ اگر انسان کو اپنے سے زیادہ طاقتور پر غصہ آئے اور انتقام لینے کی امید بھی نہ ہو تو اسکا خون کھال کے ظاہری حصے سے سمٹ کر دل کے اندر چلا جاتا ہے اور الٹا خوف پیدا ہوجاتا ہے ۔جس سے اسکا رنگ زرد ہوجاتا ہے ۔ اور اگر ہم پلہ شخص پر غصہ آئے اور اس پر قدرت پالینے میں شک ہو تو اسکا خون پھیلنے اورسمٹنے کے درمیان متردد ہوتا ہے جسکی وجہ سے کبھی اسکا رنگ سرخ اور کبھی زرد ہوتا ہے۔ نیز وہ بے چینی محسوس کرتا ہے۔”

(جھنم میں لے جانے والے اعمال ترجمہ الزواجر عن اقتراف الکبائر، ص: 200، مکتبۃالمدینہ)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ غصہ کی قوت کا مقام دل ہے ۔ جب انسان کسی چیز کو پسند یا ناپسند کرتا ہے تو غضب و غصہ سے بھی پاک نہیں رہ سکتا ۔ غصہ ایک فطری عمل ہے عمومًا ہم ایک جملہ سنتے ہیں کہ غصہ حرام ہے لیکن اسکے پینے پر ثواب ہے تو درست بات یہ ہے کہ غصہ مطلقا حرام نہیں بلکہ غصہ اگر کسی باطل کی وجہ سے ہو تو قابل مذمت ہے اور اگر باطل کی بجائے حق کی وجہ سے ہو تو قابل تعریف ہے۔یہی وجہ ہے کہ محبوب رب کائنات ﷺ نے اگر کسی پر غضب فرمایا تو اللہ رب العزت کی خاطر۔ ۔۔ چنانچہ:

“رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ میں فجر کی نماز تاخیر سے پڑھتا ہوں (جماعت کے بعد) کیونکہ امام طویل قرات کرتا ہے۔(راوی کہتے ہیں) میں نے رسول اللہ ﷺ کو جتنے غصے میں اس دن نصیحت کرتے ہوئے دیکھا اس سے پہلے کبھی اتنی شدت نہیں دیکھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! تم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو لوگوں کو منتشر کرتے ہیں لہذاٰ جب تم میں سے کوئی لوگوں کو جماعت کروائے تو نماز کو مختصر رکھے کیونکہ اس کے پیچھے بچے،بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں ۔”

(صحیح مسلم، کتاب الصلوت، باب امر الائمہ، رقم الحدیث: 1044)

بہرحال غصہ ایک ایسا ردعمل ہے جو کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے سامنے آتا ہے۔ لیکن جب ہم غصے میں برس پڑنے کی بجائے اس پر قابو رکھتے ہیں اسے مناسب طریقے سے ظاہر کرتے ہیں تو یہ فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

یادرہے!!!

غصہ میں افراط و تفریط ہر و حالتیں ناپسندیدہ و نقصان دہ ہیں۔ امام غزالی علیہ الرحمہ اپنی مایہ ناز تصنیف “احیاء العلوم” میں اس حوالے سے تین اقسام بیان فرماتے ہیں:

1)قوت غصہ میں تفریط

2)قوت غصہ میں افراط

3)قوت غصہ میں اعتدال

اب ہم ان پر مختصر بحث کرتے ہیں

1) قوتِ غصہ میں تفریط:-

غصہ میں تفریط یعنی اس قدر کم آنا کہ بالکل ختم ہی ہوجائے یا پھر یہ جذبہ ہی کمزور پڑ جائے تو یہ ایک مذموم صفت ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں بندے کی مروت اور غیرت ختم ہوجاتی ہے۔ اور جس شخص میں یہ دونوں صفات نہ ہوں وہ کسی قسم کے کمال کا اہل نہیں ہوتا۔ایسا شخص حشرات الارض کے مشابہ ہوتا ہے۔

اما م شافعی علیہ الرحمہ کے اس قول کا یہی معنیٰ ہے کہ :

“جسے غصہ دلایا گیا اور وہ غصہ میں نہ آیا تو وہ گدھا ہے۔”

(لباب الاحیاء ، مجلس مدینۃ العلمیہ ، ص:249، مکتبۃ المدینہ)

اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کی حمیت و شدت پر تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

“اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین ” (مائدہ: 54)

اس معاملے میں غصے کی اس کمی کا نتیجہ یوں ظاہر ہوتاہے کہ انسان اپنے حرم یعنی محرم عورتوں مثلا بیٹی، بہن، بیوی وغیرہ سے چھیڑ چھاڑ کئے جانے کے معاملے میں غیرت کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے۔جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“غیرت ایمان کا حصہ ہے۔”

(السنن الکبریٰ للبیھقی ، کتاب الشھادات، باب الرجل یتخذ القلام، الرقم الحدیث:21023)

2) قوتِ غصہ میں افراط:-

افراط یعنی اضافہ بھی غصہ میں مذموم ہے۔کیونکہ یہ قوت جب انسان پر غلبہ پاتی ہے تو وہ معقول و منقول ہر دو چیزوں کی سوجھ بوجھ سے عاری ہوجاتا ہے۔ا ور اسکے پاس کسی قسم کی دانش وفکر اور اختیار نہیں رہتا۔ اس شخص کو جس کے اندر یہ آگ بھڑک رہی ہوتی ہے ہر قسم کی نصیحت سننے، سمجھنے سے اندھا اوربہرہ ہوجاتا ہے۔چنانچہ :

“حضرت وھب بن منبہ رضی اللہ عنہ اپنی ایک طویل روایت بیان فرماتے ہیں جسکا خلاصہ یہ ہے کہ: ایک راہب اپنی عبادت گاہ میں مصروف عبادت رہا کرتا تھا ۔شیطان نے ہر چند اسے گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا ۔۔۔ آخر کار اس نے اپنا شیطان ہونا ظاہر کردیا تو راہب نے اس سے پوچھا مجھے ابن آدم کی ان خصلتوں کے بارے میں بتا جو انکے خلاف تیری مددگار ہیں؟ شیطان بولا: “وہ غصہ ہے آدمی جب غصہ کرتا ہے تو میں اسے اسطرح الٹ پلٹ کرتا ہوں جیسے بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔”

( جھنم میں لے جانیوالے اعمال ترجمہ الزواجر عن اقتراف الکبائر، مترجم مجلس مدینۃ العلمیہ، ص:185، مکتبۃ المدینہ)

غصہ کی زیادتی کا نتیجہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ چیزوں کے نقصان کے علاوہ بعض اوقات انسا ن اس حالت میں ناصرف دوسروں کی بلکہ اپنی جان بھی لے لیتا ہے۔ معاشرے میں غصہ کی اس لہر نے نظام کو بیحد متاثر کیا ہے ۔ چھوٹے سے لیکر بڑے تک ہر بندہ اس کے زیر اثر ہے۔جسکا جہاں بس چل رہا ہے وہ اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے۔اور عجیب بات یہ ہے کہ غصہ آنے کی وجہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی ہیں ۔ گھریلو معاملات دیکھیں یا دفاتر و کمپنیوں کے حالات، یا پھر شاہراہیں اور عوامی مقامات ہر جگہ ذرا سی بات پر بھڑکتےہوئے لوگ ملیں گے۔ حالانکہ اس بات کو خذ العفو پر عمل کرتے ہوئے برداشت اور حسن اخلاق سے درگزر بھی کیا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں جو رواج عام طور پر رائج ہیں مثلا غیرت کے نام پر قتل، برادری سے باہر نیز پسند کی شادی کرنے پر قتل وغیرہ یہ سب افراط کی شکلیں ہیں۔اسلام کسی انسان کو یہ ا ختیار نہیں دیتا کہ وہ اسطرح دوسرے کی جان لے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو زیادہ تر پریشانیاں اور بے سکونی ہے وہ غصہ بھرے رویے کی وجہ سے ہے۔ کسی بات کو جب انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے تو لڑائی دو افراد سے بڑھ کر دو خاندانوں پھع اس سے آگے بڑھ کر تھانہ، عدالت اور لاکھوں روپے کے ضیاع تک پہنچ جاتی ہے۔ غصے کے افراط سے متعدد مقامات پر قرآن پاک میں بھی روکا گیا ہے۔ اسے برداشت اور درگزر کرنے والوں کو احسان کرنے والوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جیساکہ سورہ آل عمران کی آیت 134 کے آخر میں فرمایا “ان اللہ یحب المحسنین” یعنی یہ عمل اللہ پاک کے نزدیک پسندیدہ ہے۔قرآن پاک کی تفسیر یعنی حدیث مبارکہ میں بھی غصہ کو برداشت کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے:

“عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال ان رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اوصنی قال لا تغضب فردد مرارا قال لا تغضب”

(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، رقم الحدیث:6116)

” حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

ایک شخص نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم سےعرض کی : مجھے وصیت (نصیحت) کیجیےفرمایا : غصہ نہ کیا کرو۔اس نے یہ سوال بار بار دہرایا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔”

اس حدیث مبارکہ میں غوروفکر کرنے سے بہت سے فوائد و حقائق سامنےآتے ہیں۔جن میں سے یہ بھی ہے کہ غصہ تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جامع اور مختصر نصیحت یہی فرمائی کہ غصہ سے اجتناب کیا جائے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے سارے کیے کرائے پر اور برسوں کی محنت پرایک لمحہ غصہ پر قابو نہ رکھ سکنے کی وجہ سے برباد کر بیٹھتا ہے۔بہت سے قابل اور باصلاحیت لوگ اس بنا پر ناکام ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ اور لوگ بھی ان سے کما حقہ استفادہ نہیں کر پاتے۔

چنانچہ۔۔۔۔۔

اب ہم غصے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

(غصے کے اثرات)

1۔ جسم پر اثرات:

غصے کے جسم پر اثرات جو مرتب ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔۔۔ رنگ کا متغیر ہونا، کاندھوں پر کپکپی طاری ہونا، اپنے افعال پر قابو نہ رہنا، حرکات و سکنات میں بے چینی کا پایا جانا نیز جھاگ نکلنے لگتی ہے۔ ۔۔آنکھوں کی سرخی حد سے بڑھ جاتی ہے۔ ناک کے نتھنے پھول جاتے ہیں بلکہ ساری صورت ہی بدل جاتی ہے۔۔۔ اگر کوئی غضبناک شخص اس حالت میں اپنی ہی شکل دیکھ لے تو شرم کے مارے خودبخود ہی اسکا غصہ ختم ہوجائےگا۔

2۔ زبان پر اثرات :

زبان پر غصہ اور غضب کے اثرات اسطرح ظاہر ہوتے ہیں کہ اس سے بری باتیں نکلتی ہیں مثلا ایسی فحش اور گندی گالیاں وغیرہ کہ جن سے ہر صاحب عقل انسان کو حیا آتی ہے۔ اور غصہ کرنے والا خود بھی بعد از غصہ اپنے رویئے پر شرمندہ ہوتا ہے اور بعض اوقات پچھتاتا بھی ہے۔

3۔ اعضاء پر اثرات:-

اعضاء پر اسکے اثرات اس طرح ہوتے ہیں کہ نوبت مار پیٹ بلکہ بعض اوقات قتل تک پہنچ جاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص بدلہ نہ لے سکتا ہو تو وہ اپنا غصہ خود پر نکالتا ہے وہ اسطرح کے اہنے ہی کپڑ ے پھاڑ ڈالتا ہے۔ اپنے آپ کو اور دوسروں کو یہاں تک کہ جانوروں اور دیگر چیزوں کو بھی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتا۔

دل پر اثرات:-

دل پہ اسکے اثرات یوں مرتب ہوتے ہیں کہ جس پہ غصہ ہو اسکے خلاف دل میں کینہ اور حسد پیداہوجاتا ہے۔اس کی

مصیبت پر خوشی اور خوشی پر غم کا اظہار کرتا ہے اسکا راز فاش کرنے اور مذاق اڑنے کا عزم مصمم کئے ہوتا ہےاوراسکے علاوہ دیگر برائیاں بھی جنم لیتی ہے۔

(جھنم میں لے جانے والے اعمال ترجمہ الزواجر عن اقتراف الکبائر، مترجم مجلس مدینۃ العلمیہ، ص202/203، مکتبۃالمدینہ)

لہذاٰ ۔۔۔ جو شخص افراط و تفریط کا شکار ہو اسے چاہیئے کہ اپنے نفس کا علاج کرے انسان کو چاہئے کہ غصہ پینے ، عفو و درگزر اور صبر کرنے کی فضیلت پر وارد روایات پر غور کرے۔ کیونکہ اسطرح انسان اللہ عزوجل کے میں اعتدال:- تیار کردہ ثواب میں رغبت کرتا ہے اللہ تعا لیٰ نے قرآن پاک میں ایمان والوں کی نشانی

” الکاظمین الغیظ” ( آل عمران، آیت :134)

یعنی غصہ پی جانے والے ۔۔۔۔بیان فرمائی ہے۔۔۔

3) قوت ِغصہ میں اعتدال:-

انسان کا کمال یہ ہے کہ اسکی قوت غضب معتدل (درمیانی) ہو یعنی نہ تو اس میں افراط (زیادتی) ہو اور نہ ہی تفریط(کمی)۔۔۔ بلکہ وہ قوت دین و عقل کے تابع ہو صرف اسی وقت بھڑکے جہاں حمیت و غیرت کی ضرورت ہو اور وہاں بجھی رہے جہاں بردباری سے کام لینا مناسب اور زیبا ہو۔ یہ وہی حالت اعتدال ہے جس کی تعریف نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمائی ہے:

“امور کی بھلائی انکا اعتدال یعنی درمیانہ پن ہے۔

( المصنف لابن کثیر، کتاب الزھد، الرقم الحدیث:13، ج:8)

یہی اسلام نے پسند کیا ہے اور ہر ایک مسلم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غصے میں اعتدال برتے اوروہیں غصے کا اظہار

کرے جہاں اسلام نے حکم دیا ہے ۔ چنانچہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا:

“من احب للہ وابغض للہ واعطیٰ للہ ومنع للہ فقد استکمل الایمان۔”

( سنن ابی داود، سلیمان بن اشعث ، 2/287)

“جس نے اللہ کے لئے محبت کی اور اللہ کے لیے بغض رکھا اور اللہ کے لیے عطا کیا اور اللہ کے لیے روکا اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔”

غصے کا خاتمہ:-

غصہ کا بالکل ختم ہوجانا ممکن نہیں ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ بعض امور میں اور بعض اوقات غصہ ظاہرنہ ہو اور لوگ سمجھیں کہ غصہ ختم ہو گیا ہے۔ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو توحید الٰہی میں اسقدر مغلوب ہوتے ہیں انکا دل کسی امر عظیم میں مشغول ہوتا ہے ایسے موقع پر بھی غصہ دب جاتا ہے یا چھپ جاتا ہے۔۔۔ کچھ واقعات ملاحظہ کیجیے:

1: کسی نے شیخ ربیع بن ہیثم کو گالی دی انھوں نے کہا میر اور بہشت کے درمیان ایک گھا ٹی حائل ہے جسے میں طے کر نے میں مصروف ہوں اگر طے کرلوں تو تیری اس گالی کی مجھے کیا پرواہ اگر طے نہ کر سکوں تو تیری یہ گا لی مجھے کافی نہیں بلکہ اور زیادہ گالیوں کا میں مستحق ہوں۔

2: امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کسی نے گالی دی فرمایا: “میر ے ایسے بہت سے عیوب ہیں جو تجھے معلوم نہیں۔”

3: ایک شخص نے امام شعبی علیہ الرحمہ کو کوئی بری بات کہی انھوں نے جواب دیا : اگر تو سچ کہتا ہے تو اللہ میری مغفرت فرمائے اور اگر تو جھوٹ کہتا ہے تو اللہ تیری مغفرت فرمائے۔

(شاہراہ ہدایت ترجمہ کیمیائے سعادت ، مولانا فیض احمد اویسی،ص:494، زاویہ پبلشرز)

چنانچہ۔۔۔ اگر ہم آخرت کی فکر کریں نیز یہ مدنظر رکھیں کہ اللہ و رسول عزوجل و ﷺ اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ بندہ انکی محبت ورضا کی خاطر جب کوئی ناپسندیدہ بات پہنچے تو غصہ نہ کرے بلکہ انکی محبت اس پر غالب رہے۔۔۔۔ تو اس سوچ سے ہم بھی اپنے غصے کے بڑھتے ہوئے زور کو توڑسکتے ہیں۔

اس تفصیل کے بعد غصہ کو دور کرنے کے چند اور طریقے درج ذیل ہیں:

٭ پہلا طریقہ:

انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت پہ غور کرے کہ اللہ اس پہ غضب فرمانے پر قادر ہے اور انسان قیامت میں عفو و درگزر کا زیادہ محتاج ہوگا۔ اس لیے وہ دوسروں پر غصٰہ نہ کرے انھین معاف کرے تاکہ اسے بھی معاف کیا جائے۔

٭ دوسر اطریقہ:

انسان خود کو سامنے والے کے انتقام سے ڈرائے ۔اگر کوئی انسان اس سے انتقام لینے پر مسلط ہوجائے اسکی عزت دری کرے ،اسکی مصیبت پہ خوشی کا اظہار کرے تو اس پر کیا گزرے گی؟ چنانچہ وہ خود بھی اس سے باز رہے۔

٭ تیسرا طریقہ:

انسان غصے کی حالت کی بری صورت پہ غور کرے اور اپنے نزدیک غصے کی قباحت اور غضب ناک شخص کو کاٹنے والے کتے سے مشابہ اور بردبار شخص کی انبیاٰء و اولیاء سے مشابہت تصور کرے۔۔اور پھر غور کرے اسے کس کے مثل بننا ہے۔

٭ چوتھا طریقہ:

وہ شیطان مردود سے اللہ عزوجل کی پناہ چاہے۔ تعوذ یعنی اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھ لے،پانی پی لے، غسل کرلے،اسے چاہیئے کہ وہ بیٹھ جائے پھر بھی غصہ ختم نہ ہو تو لیٹ جائے تاکہ اسے جس زمین سے پیدا کیا گیا ہے

اس کےقریب ہوجائے۔

نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کا فرمان عالیشان ہے:

“غصہ دل میں دہکنے والا انگارہ ہے۔کیا تم گصے والے شخص کی رگوں کا پھولنا اور آنکھوں کا سرخ ہونا نہیں دیکھتے؟ لہذاٰ تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہئے کہ بیٹھ جائے اگر بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور اگر پھر بھی غصہ زائل نہ ہوتو اسے چاہیئے کہ وضو یا غسل کر لے کیونکہ آگ کو پانی ہی بجھا تا ہے۔”

( اتحاف السادۃ المتقین، کتاب ذم الغضب والحقد والحسد، باب بیان الغضب بعد ھیجانہ، ج:9ص:425)

٭ پانچواں طریقہ:

یہ ہے کہ انسان خاموش ہوجائے اس میں عافیت ہی عافیت ہے۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا:

“جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے خاموشی اختیار کر لینی چاہیئے”

( مسند امام احمد بن حنبل، الرقم الحدیث: 2136)

نیز اس جگہ سے ہٹ جانا یا کسی اور کام میں مشغول ہوجانا بھی مفید ہے۔

بہرحال!!!

مجموعی طور پر اللہ عزوجل کے نزدیک معاف کرنا اور غصے کو پی جانا ہی پسندیدہ ہے۔ اگرچہ وہ دوسرے پر قدرت رکھتاہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ گھونٹ غصے کا ہے جو پی لیا جائے۔ جیساکہ روایت میں آیا:

“عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ ما تجرع عبد افضل عند اللہ عزوجل من جرعۃ غیظ یکظمھا ابتغاء وجہ اللہ تعالیٰ”

(مشکٰوۃ المصابیح، علامہ ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی، الرقم الحدیث: 4883)

“حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کا سب سے افضل غصے کا گھونٹ ہے جسے اللہ کی رضاکے لیےپی لیاجائے۔”

چنانچہ۔۔۔۔

قرآن و حدیث نیز بزرگان دین کے واقعات کی روشنی میں ہمیں اپنے غصے پر قابو پاکرایک نارمل اور کارآمد انسان و مسلمان ہونے کا ثبوت دینا چاہیئے۔

تکبر کی مذمت

سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا​

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ ڭ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ 34؀ [02/34]

اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ کر کافر بن گیا۔

غرور گناہ میں پھنسا دیتا ہے​

وَاِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُ ۭ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ٢٠٦؁ [02/206]

اور جب اس سے کہاجاتا ہے کہ خدا سے خوف کر تو غرور اس کو گناہ میں پھنسادیتا ہے سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

اللہ متکبر کو پسند نہیں کرتا​

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا 36؀ۙ [04/36]

بیشک خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔

لَاجَرَمَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْـتَكْبِرِيْنَ 23؀[16/23]

یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں خدا ضرور اس کو جانتا ہے۔ وہ سرکشوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔

اللہ کی بندگی کو عار سمجھنے والوں کےلیے درد ناک عذاب ہے​

وَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْتَنْكَفُوْا وَاسْتَكْبَرُوْا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا اَلِــيْمًا ۥۙ وَّلَا يَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا ١٧٣؁[04/173]

جنہوں نے (بندہ ہونے سے) عار وانکار اور تکبّر کیا ان کو وہ تکلیف دینے والا عذاب دے گا۔ اور یہ لوگ خدا کے سوا اپنا حامی اور مددگار نہ پائیں گے ۔

متکبر ہی اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں​

اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ 93؀[06/93]

آج تم کو ذلّت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔ اس لئے کہ تم خدا پر جھوٹ بولا کرتے تھے۔ اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے ۔

متکبر لوگ جہنمی ہیں​

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 36؀[07/36]

اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی وہی دوزخی ہیں کہ ہمیشہ اس میں جلتے رہیں گے ۔

متکبر وں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے​

اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِيْنَ 40؀[07/40]

جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی۔ ان کیلئے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہونگے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے۔ اور گنہگاروں کو ہم ایسی ہی سزادیا کرتے ہیں ۔

متکبروں کو قیامت کے دن کوئی فائدہ نہیں ہو گا​

وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا يَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِيْمٰىهُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ 48؀[07/48]

اور اہل اعراف اہل جھنم میں سے جن کی صورت سے پہچانیں گے پکاریں گیں اور کہیں گے کہ آج کے دن نہ تو تمہاری جماعت ہی تمہارے کوئی کام آئی اور نہ تمہارا تکبر ہی سودمند ہوا۔

متکبر ہی اہلِ ایمان سے تمسخر کرتے ہیں اور رسول کو جھٹلاتے ہیں​

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭقَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ 75؀ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِيْٓ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ 76؀[07/75-76]

تو ان کی قوم میں سردار لوگ جو غرور تھے غریب لوگوں جو ان میں سے ایمان لے آئے تھے کہنے لگے بھلا تم یہ یقین کرتے ہو صالح اپنے پروردگار کی طرف سے بھجے گئے ہیں؟ انہوں نے کہاہاں جو چیز وہ دے کر بھجے گئے ہیں ہم اس پر بلاشبہ ایمان رکھتے ہیں ۔ تو سرداران مغرور کہنے لگے جس چیز پر ایمان لائے ہو اہم اس کو نہیں مانتے ۔

متکبر عذابِ الٰہی سے نصیحت نہیں حاصل کرتے​

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ ١٣٣؁[07/133]

تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں مگر تکبر ہی کرتے رہے۔ اور وہ لوگ تھے ہی گنہگار۔

متکبر ہی اللہ کی آیات سے پھرتے اور گمراہی کو پسند کرتے ہیں​

سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِهَا ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ ١٤٦؁[07/146]

جو لوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیر دوں گا۔ اگر یہ سب نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لائیں ۔ اور اگر راستی کا راستہ دیکھیں تو (اپنا) راستہ نہ بنائیں ۔ اور اگر گمراہی کی راہ دیکھیں تو اسے راستہ بنا لیں ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غفلت کرتے رہے۔

متکبر ہی اللہ کی بندگی نہیں کرتے​

اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَيُسَبِّحُوْنَهٗ وَلَهٗ يَسْجُدُوْنَ ٢٠٦؀ڙ[07/206]

جو لوگ تمہارے پروردگار کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے گردن کشی نہیں کرتے اور اس پاک ذات کو یاد کرتے اور سجدہ کرتے رہتے ہیں ۔

متکبر ہی گنہگار ہیں​

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَھٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ بِاٰيٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ 75؀[10/75]

پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اسکے سرداروں کے پاس بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ گنہگار لوگ تھے۔

متکبروں کے لیے جہنم میں بُرا ٹھکانا ہے​

فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ 29؀[16/29]

سو دوزخ کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ اس میں رہو گے۔ اب تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانا ہے۔

متکبر کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں عذاب بھی​

ثَانِيَ عِطْفِهٖ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ لَهٗ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّنُذِيْقُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَذَابَ الْحَرِيْقِ Ḍ۝[22/09]

(اور تکبر سے) گردن موڑ لیتا (ہے) تاکہ (لوگوں کو) خدا کے راستے سے گمراہ کر دے اس کے لئے دنیا میں ذلت ہے اور قیامت کے دن ہم اسے عذاب (آتش) سوزاں کا مزہ چکھائیں گے۔

فَالْيَوْمَ تُجْـزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْـتَكْبِرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ 20؀ۧ[46/20]

تو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے (یہ) اس کی سزا (ہے) کہ تم زمین میں ناحق غرور کیا کرتے تھے اور اسکی کہ بدکرداری کرتے تھے۔

متکبر ہی سرکش ہوتے ہیں​

اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا عَالِيْنَ 46؀ۚ[23/46]

(یعنی) فرعون اور اس کی جماعت کی طرف تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے۔

متکبر ہی بے ہودہ بکواس کرتے ہیں​

مُسْتَكْبِرِيْنَ ڰ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ 67؀[23/67]

ان سے سرکشی کرتے ، کہانیوں میں مشغول ہوتے اور بےہودہ بکواس کرتے تھے۔

متکبر لوگ اللہ سے ملنے کی اُمید نہیں رکھتے​

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا ۭ لَـقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا 21؀[25/21]

اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ نازل کیے گئے یا ہم اپنی آنکھ سے اپنے پروردگار کو دیکھ لیں؟ یہ اپنے خیال میں بڑائی رکھتے ہیں اور (اسی بنا پر) بڑے سرکش ہو رہے ہیں۔

متکبر لوگ ہی رحمٰن سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں​

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ ۚ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ ۤ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا 60۝ڙ[25/60]

اور جب ان (کفار) سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمن کیا ؟ کیا جس کے لئے تم ہم سے کہتے ہو ہم اسکے آگے سجدہ کریں اور اس سے بدکتے ہیں۔

متکبر ہی رحمٰن کی نصیحت سے منہ موڑتے ہیں​

وَمَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِيْنَ Ĉ۝[26/05]

اور ان کے پاس (خدائے) رحمن کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی مگر یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِ اٰيٰتُنَا وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْهَا كَاَنَّ فِيْٓ اُذُنَيْهِ وَقْرًا ۚ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ Ċ۝[31/07]

اور جب اسکو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو اکڑ کر منہ پھیر لیتا ہے گویا اس کو سنا ہی نہیں جیسے اس کے کانوں میں ثقل ہے تو اس کو درد دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو۔

يَّسْمَعُ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْهَا ۚ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ Ď۝[45/08]

(کہ) خدا کی آیتیں اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کو سن لیتا ہے (مگر) پھر غرور سے ضد کرتا ہے کہ گویا ان کو سنا ہی نہیں سو ایسے شخص کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو۔

متکبر ہی جان بوجھ کر حق کا انکار کرتے ہیں​

وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14۝ۧ[27/14]

اور بے انصافی اور غرور سے ان سے انکار کیا کہ ان کے دل ان کو مان چکے تھے سو دیکھ لو کہ فسان کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔

قارون، فرعون اور ہامان بھی متکبر اور مغرور تھے​

وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ ۣ وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ مُّوْسٰي بِالْبَيِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ وَمَا كَانُوْا سٰبِقِيْنَ 39؀ښ[29/39]

اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی (ہلاک کر دیا) اور انکے پاس موسیٰ کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ ملک میں مغرور ہوگئے اور وہ (ہمارے) قابو سے نکل جانے والے نہ تھے۔

متکبر لوگ ملک میں بُری چال چلتے ہیں​

اسْـتِكْبَارًا فِي الْاَرْضِ وَمَكْرَ السَّــﮧ ۭ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ ۭ [35/43]

یعنی (انہوں نے) ملک میں غرور کرنا اور بری چال چلنا (اختیار) کیا اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے ۔

متکبر لوگ ہی لا الٰہ الا اللہ کا انکار کرتے ہیں​

اِنَّهُمْ كَانُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ 35؀ۙ[37/35]

ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے کوئی معبود نہیں تو غرور کرتے تھے۔

متکبر لوگ کافر ہیں​

بَلٰى قَدْ جَاۗءَتْكَ اٰيٰتِيْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ 59؀[39/59]

(خدا فرمائے گا) کیوں نہیں میری آیتیں تیرے پاس پہنچ گئی ہیں مگر تو نے ان کو جھٹلایا اور شیخی میں آگیا اور تو کافر بن گیا۔

متکبروں کے منہ قیامت والے دن سیاہ ہوں گے​

وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ تَرَى الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلَي اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ ۭ [39/60]

اور جن لوگوں نے خدا پر جھوٹ بولا تم قیامت کے دن دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہو رہے ہوں گے ۔

اللہ متکبروں پر ان کے جھگڑنے کے سبب مہر لگا دیتا ہے​

الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ ۭ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ 35؀[40/35]

جو لوگ بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی دلیل آئی ہو خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں، خدا کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک یہ جھگڑا سخت ناپسند ہے، اسی طرح خدا ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

اللہ کی بندگی سے تکبر کرنے والے جہنم میں ذلیل ہوکر جائیں گے​

اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ 60؀ۧ[40/60]

جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔

متکبر لوگ ہی سب سے طاقت ور ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں​

فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۭ اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۭ وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْــحَدُوْنَ 15؀[41/15]

جو عاد تھے وہ ناحق ملک میں غرور کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم سے بڑھ کر قوت میں کون ہے؟ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ خدا جس نے ان کو پیدا کیا وہ ان سے قوت میں بہت بڑھ کر ہے اور وہ ہماری آیتوں سے انکار کرتے رہے۔

متکبر لوگ ہی اللہ کی شریعت کا انکار کرتے ہیں​

وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۣ اَفَلَمْ تَكُنْ اٰيٰتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَاسْتَكْبَرْتُمْ وَكُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ 31؀[45/31]

اور جنہوں نے کفر کیا (ان سے کہا جائے گا کہ) بھلا ہماری آیتیں تم کو پڑھ کر سنائی نہیں جاتی تھیں؟ پھر تم نے تکبر کیا اور تم نافرمان لوگ تھے۔

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَكَفَرْتُمْ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي مِثْلِهٖ فَاٰمَنَ وَاسْـتَكْبَرْتُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْــقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ 10۝ۧ[46/10]

کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر یہ (قرآن) خدا کی طرف سے ہو اور تم نے اس سے انکار کیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اسی طرح کی ایک (کتاب) کی گواہی دے چکا اور ایمان لے آیا اور تم نے سرکشی کی (تو تمہارے ظالم ہونے میں کیا شک ہے؟ ) بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

متکبرلوگ ہی اللہ سے مغفرت نہیں مانگتے​

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ وَرَاَيْتَهُمْ يَصُدُّوْنَ وَهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ Ĉ۝[63/05]

اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ رسول خدا تمہارے لئے مغفرت مانگیں تو اپنے سرہلا دیتے ہیں اور تم انکو دیکھو کہ تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں۔

وَاِنِّىْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَهُمْ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا Ċ۝ۚ[71/07]

جب جب میں نے انکو بلایا کہ (توبہ کریں اور) تو ان کو معاف فرمائے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور کپڑے اوڑھ لئے اور اڑ گئے اور اکڑ بیٹھے۔


    حسد کی مذمت

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اِنَّ بَدْلَائَ اُمَّتِیْ لَمْ یَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِکَثْرَۃِ صَلوٰۃٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَۃٍ وَلٰکِنْ دَخَلُوْہَا بِرَحْمَۃِ اللہِ وَسَخَاوَۃِ الْاَنْفُسِ وَسَلَامَۃِ الصُّدُوْرِ۔ (ترغیب، ابن ابی الدنیا)

میری امت کے ابدال زیادہ نماز، روزہ، صدقہ، خیرات کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سخاوت اور نفس اور سینہ کی صفائی کی وجہ سے داخل ہوں گے۔

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:-

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ اَخْلَصَ قَلْبَہٗ لِلْاِیْمَانِ وَجَعَلَ قَلْبَہٗ سَلِیْمًا وَلِسَانَہٗ صَادِقًا وَنَفْسَہٗ مُطْمَئِنَّۃً وَّخَلِیْقَۃً مُّسْتَقِیْمَۃً۔ (احمد، البیہقی، ترغیب)

وہ شخص فلاح کو پہنچ گیا جس نے ایمان کے لیے اپنے دل کو خالص کرلیا اور اپنے دل کو صاف کرلیا اور زبان سچی بنالی اور نفس کو اطمینان بخش بنالیا اور اپنی طبیعت کو حسن خلق کے سانچے میں ڈھال لیا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اِنَّ بَدْلَائَ اُمَّتِیْ لَمْ یَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِکَثْرَۃِ صَلوٰۃٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَۃٍ وَلٰکِنْ دَخَلُوْہَا بِرَحْمَۃِ اللہِ وَسَخَاوَۃِ الْاَنْفُسِ وَسَلَامَۃِ الصُّدُوْرِ۔ (ترغیب، ابن ابی الدنیا)

میری امت کے ابدال زیادہ نماز، روزہ، صدقہ، خیرات کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سخاوت اور نفس اور سینہ کی صفائی کی وجہ سے داخل ہوں گے۔

 

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:-

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ اَخْلَصَ قَلْبَہٗ لِلْاِیْمَانِ وَجَعَلَ قَلْبَہٗ سَلِیْمًا وَلِسَانَہٗ صَادِقًا وَنَفْسَہٗ مُطْمَئِنَّۃً وَّخَلِیْقَۃً مُّسْتَقِیْمَۃً۔ (احمد، البیہقی، ترغیب)

وہ شخص فلاح کو پہنچ گیا جس نے ایمان کے لیے اپنے دل کو خالص کرلیا اور اپنے دل کو صاف کرلیا اور زبان سچی بنالی اور نفس کو اطمینان بخش بنالیا اور اپنی طبیعت کو حسن خلق کے سانچے میں ڈھال لیا۔

سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا: ابھی ایک جنتی آدمی تمہارے سامنے آنے والا ہے۔ چناںچہ تھوڑی دیر کے بعد ایک انصاری صاحب جن کا نام سعد بن مالک ہے، تشریف لائے، جن کی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا اور بائیں ہاتھ میں دونوں جوتیاں لیے تھے۔ دوسرے دن پھر اسی طرح فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی صاحب آنے والے ہیں۔ چناںچہ وہی صاحب پھر آئے۔ تیسرے دن آپ نے فرمایا ایک جنتی آنے والے ہیں۔ چناںچہ تیسرے روز بھی وہی صاحب آئے۔ جب نبی کریم ﷺ وہاں سے گھر تشریف لے گئے تو عبداللہ بن عمر پیچھے پیچھے گئے اور کہا کہ میرا میرے باپ سے جھگڑا ہوگیا ہے، میں نے قسم کھائی ہے کہ باپ کے پاس تین روز نہیں رہوں گا۔ اگر آپ اپنے پاس ٹھہرنے کی جگہ دیں تاکہ تین دن گزر جائیں تو آپ کی مہربانی ہوگی، تو سعد بن مالکؓ نے کہا کہ ہاں ٹھہر جائیے۔ چناںچہ عبداللہ بن عمرؓ تین روز تک ان کے مکان پر ٹھہرے رہے۔ ان کے حالات پر اور صوم و صلوٰۃ پر غور کرتے رہے کہ یہ کیا عبادت کرتے ہیں اور کتنی نماز رات میں پڑھتے ہیں تو زیادہ کچھ عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ نیند کھلتی اور کروٹ بدلتے تو سبحان اللہ، الحمد للہ ، اللہ اکبر کہتے اور آخر شب میں مسجد میں داخل ہوکر بارہ رکعتیں نماز پڑھتے جس میں مفصل کی بارہ سورتیں پڑھتے، نہ لمبی رکعتیں ہوتیں نہ چھوٹی، دو رکعت پڑھ کر تشہد کے بعد یہ تین دعائیں پڑھتے، اَللہُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ اَللہُمَّ اکْفِنَا ہَمَّنَا مِنْ اَمْرِ اٰخِرَتِنَا وَدُنْیَانَا۔ اَللہُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہٖ وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہٖ۔

جب تین راتیں گزر گئیں تو میں نے سعد بن مالک سے کہا کہ میرے اور میرے باپ میں کوئی جھگڑا نہیں تھا اور نہ کوئی تکرار تھی۔ صرف آپ کے عمل کو دیکھنا تھا کہ آپ کیا عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنتی فرمایا: کہ پہلے روز آپ نے فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی سامنے آئے۔ دوسرے روز آپ نے فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی آئے۔ پھر تیسرے دن آپ نے فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی آئے۔ غرض یہ ہے کہ تین دن تک مسلسل آپ نے یہی فرمایا اور آپ ہی سامنے آتے رہے۔

فَاَرَدْتُّ اَنْ اٰوِیَ اِلَیْکَ فَاَنْظُرَ مَا عَلَیْکَ فَاَقْتَدِیَ بِکَ فَلَمْ اَرَکَ عَمِلْتَ کَبِیْرَ عَمَلٍ فَمَا الَّذِیْ بَلَغَ بِکَ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا ہُوَ اِلَّا مَا رَاَیْتَ فَلَمَّا وَلَّیْتُ دَعَانِیْ فَقَالَ مَا ہُوَ اِلَّا مَا رَاَیْتَ غَیْرَ اِنِّیْ لَا اَجِدُ فِیْ نَفْسِیْ لِاَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غِشًّا وَلَا اَحْسُدُ اَحَدًا عَلٰی خَیْرٍ اَعْطَاہُ اللہُ اِیَّاہُ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ ہٰذِہِ الَّتِیْ بَلَغَتْ بِکَ۔ (احمد)

اور میں نے یہ چاہا کہ آپ کے پاس ٹھہر کر آپ کے عملوں کو دیکھوں اور آپ کی اقتدا کروں لیکن ان تین دنوں میں کوئی زیادہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو آپ ایسا کیا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنتی کہا ہے، انہوں نے کہا کہ میرے عمل یہی ہیں جو آپ نے دیکھے ہیں۔ جب میں وہاں سے رخصت ہونے لگا تو مجھے بلا کر یہ فرمایا: کہ میرے عمل یہی ہیں جن کو آپ نے دیکھا لیکن اس کے ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں کہ میں کسی مسلمان سے کینہ کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی کی بھلائی پر جو اللہ نے اسے دے رکھی ہے حسد کرتا ہوں۔ میرا دل کینہ کپٹ اور حسد سے پاک و صاف ہے تو عبداللہؓ نے کہا کہ اسی چیز نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے۔

اس واقعہ سے دل کی صفائی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ہرقسم کے کینہ کپٹ سے پاک و صاف رکھے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اِنَّ بَدْلَائَ اُمَّتِیْ لَمْ یَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِکَثْرَۃِ صَلوٰۃٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَۃٍ وَلٰکِنْ دَخَلُوْہَا بِرَحْمَۃِ اللہِ وَسَخَاوَۃِ الْاَنْفُسِ وَسَلَامَۃِ الصُّدُوْرِ۔ (ترغیب، ابن ابی الدنیا)

میری امت کے ابدال زیادہ نماز، روزہ، صدقہ، خیرات کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سخاوت اور نفس اور سینہ کی صفائی کی وجہ سے داخل ہوں گے۔

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:-

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ اَخْلَصَ قَلْبَہٗ لِلْاِیْمَانِ وَجَعَلَ قَلْبَہٗ سَلِیْمًا وَلِسَانَہٗ صَادِقًا وَنَفْسَہٗ مُطْمَئِنَّۃً وَّخَلِیْقَۃً مُّسْتَقِیْمَۃً۔ (احمد، البیہقی، ترغیب)

وہ شخص فلاح کو پہنچ گیا جس نے ایمان کے لیے اپنے دل کو خالص کرلیا اور اپنے دل 

سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا: ابھی ایک جنتی آدمی تمہارے سامنے آنے والا ہے۔ چناںچہ تھوڑی دیر کے بعد ایک انصاری صاحب جن کا نام سعد بن مالک ہے، تشریف لائے، جن کی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا اور بائیں ہاتھ میں دونوں جوتیاں لیے تھے۔ دوسرے دن پھر اسی طرح فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی صاحب آنے والے ہیں۔ چناںچہ وہی صاحب پھر آئے۔ تیسرے دن آپ نے فرمایا ایک جنتی آنے والے ہیں۔ چناںچہ تیسرے روز بھی وہی صاحب آئے۔ جب نبی کریم ﷺ وہاں سے گھر تشریف لے گئے تو عبداللہ بن عمر پیچھے پیچھے گئے اور کہا کہ میرا میرے باپ سے جھگڑا ہوگیا ہے، میں نے قسم کھائی ہے کہ باپ کے پاس تین روز نہیں رہوں گا۔ اگر آپ اپنے پاس ٹھہرنے کی جگہ دیں تاکہ تین دن گزر جائیں تو آپ کی مہربانی ہوگی، تو سعد بن مالکؓ نے کہا کہ ہاں ٹھہر جائیے۔ چناںچہ عبداللہ بن عمرؓ تین روز تک ان کے مکان پر ٹھہرے رہے۔ ان کے حالات پر اور صوم و صلوٰۃ پر غور کرتے رہے کہ یہ کیا عبادت کرتے ہیں اور کتنی نماز رات میں پڑھتے ہیں تو زیادہ کچھ عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ نیند کھلتی اور کروٹ بدلتے تو سبحان اللہ، الحمد للہ ، اللہ اکبر کہتے اور آخر شب میں مسجد میں داخل ہوکر بارہ رکعتیں نماز پڑھتے جس میں مفصل کی بارہ سورتیں پڑھتے، نہ لمبی رکعتیں ہوتیں نہ چھوٹی، دو رکعت پڑھ کر تشہد کے بعد یہ تین دعائیں پڑھتے، اَللہُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ اَللہُمَّ اکْفِنَا ہَمَّنَا مِنْ اَمْرِ اٰخِرَتِنَا وَدُنْیَانَا۔ اَللہُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہٖ وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہٖ۔

جب تین راتیں گزر گئیں تو میں نے سعد بن مالک سے کہا کہ میرے اور میرے باپ میں کوئی جھگڑا نہیں تھا اور نہ کوئی تکرار تھی۔ صرف آپ کے عمل کو دیکھنا تھا کہ آپ کیا عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنتی فرمایا: کہ پہلے روز آپ نے فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی سامنے آئے۔ دوسرے روز آپ نے فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی آئے۔ پھر تیسرے دن آپ نے فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی آئے۔ غرض یہ ہے کہ تین دن تک مسلسل آپ نے یہی فرمایا اور آپ ہی سامنے آتے رہے۔

فَاَرَدْتُّ اَنْ اٰوِیَ اِلَیْکَ فَاَنْظُرَ مَا عَلَیْکَ فَاَقْتَدِیَ بِکَ فَلَمْ اَرَکَ عَمِلْتَ کَبِیْرَ عَمَلٍ فَمَا الَّذِیْ بَلَغَ بِکَ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا ہُوَ اِلَّا مَا رَاَیْتَ فَلَمَّا وَلَّیْتُ دَعَانِیْ فَقَالَ مَا ہُوَ اِلَّا مَا رَاَیْتَ غَیْرَ اِنِّیْ لَا اَجِدُ فِیْ نَفْسِیْ لِاَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غِشًّا وَلَا اَحْسُدُ اَحَدًا عَلٰی خَیْرٍ اَعْطَاہُ اللہُ اِیَّاہُ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ ہٰذِہِ الَّتِیْ بَلَغَتْ بِکَ۔ (احمد)

اور میں نے یہ چاہا کہ آپ کے پاس ٹھہر کر آپ کے عملوں کو دیکھوں اور آپ کی اقتدا کروں لیکن ان تین دنوں میں کوئی زیادہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو آپ ایسا کیا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنتی کہا ہے، انہوں نے کہا کہ میرے عمل یہی ہیں جو آپ نے دیکھے ہیں۔ جب میں وہاں سے رخصت ہونے لگا تو مجھے بلا کر یہ فرمایا: کہ میرے عمل یہی ہیں جن کو آپ نے دیکھا لیکن اس کے ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں کہ میں کسی مسلمان سے کینہ کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی کی بھلائی پر جو اللہ نے اسے دے رکھی ہے حسد کرتا ہوں۔ میرا دل کینہ کپٹ اور حسد سے پاک و صاف ہے تو عبداللہؓ نے کہا کہ اسی چیز نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے۔

اس واقعہ سے دل کی صفائی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ہرقسم کے کینہ کپٹ سے پاک و صاف رکھے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ دعا بتائی ہے:

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۰ۧ (حشر:۱۰)

اے ہمارے رب! تو ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان والے گزرے ہیں اور ایمان والوں کی بابت ہمارے دلوں میں کینہ کپٹ نہ ڈال۔ اے ہمارے رب! تو بڑا شفیق اور مہربان ہے۔

جناب موسیٰ ؑ جب اللہ تبارک و تعالیٰ سے باتیں کرنے لگے تو ایک شخص کو عرش الٰہی کے سایہ میں دیکھا تو ان کے دل میں اس شخص کے مرتبہ کو دیکھ کر رشک پیدا ہوا کہ ایسا مرتبہ مجھے ملتا تو اچھا تھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے پروردگار اس شخص کا کیا نام ہے جو تیرے عرش کے سایہ میں نہایت آرام سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہ اس کے نام سے کیا کام اور کیا غرض ہے، میں اس کے کام کو بتائے دیتا ہوں جس کی وجہ سے وہ عرش تلے ہے۔

وَقَالَ اُحَدِّثُکَ عَنْ عَمَلِہٖ بِثَلَاثٍ کَانَ لَا یَحْسُدُ النَّاسَ عَلٰی مَا اٰتَاہُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَکَانَ لَا یَعُقُّ وَالِدَیْہِ وَلَا یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَۃِ۔ (احیاء العلوم)

یہ شخص تین کام کیا کرتا تھا ایک یہ کہ لوگوں پر انعام الہی کو دیکھ کر حسد نہیں کرتا تھا دوسرے یہ کہ اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہیں کرتا تھا تیسرے یہ کہ لوگوں کی چغلی ایک دوسرے سے نہیں کرتا تھا۔ (تو ان تینوں برائیوں سے بچنے اور اچھے اوصاف کی وجہ سے یہ شخص عرش الٰہی کے سایہ کا مستحق ہوا۔)

جو لوگ بلاوجہ اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے اپنے دل میں بغض و عناد اور کینہ کپٹ جما لیتے ہیں تو ایسے لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی، یہاں تک کہ وہ اس کمینہ حرکت کو چھوڑ دیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تُعْرَضُ الْاَعْمَالُ فِیْ کُلِّ اثْنَیْنِ وَخَمِیْسٍ فَیَغْفِرُاللہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْ ذٰلِکَ الْیُوْمِ لِکُلِّ امْرِئٍ لَا یُشْرِکُ بِاللہِ شَیْئًا اِلَّا امْرُأٌ کَانَتْ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ اَخِیْہِ شَحْنَآئُ فَیَقُوْلُ اَنْظِرُوْا ھٰذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا۔ 

(مالک، مسلم)

ہر سوموار اور جمعرات کو انسانوں کے اعمال اللہ تعالی کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان دنوں میں سوائے مشرک کے ہر ایک کی مغفرت فرما دیتا ہے لیکن جن دو آدمیوں کے درمیان کینہ کپٹ ہوتا ہے ان کی مغفرت نہیں فرماتا۔ (فرشتوں کو حکم) فرماتا ہے کہ ان دونوں کو ابھی مغفرت سے چھوڑے رکھو، یہاں تک کہ دونوں ملاپ کرلیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرک اور کینہ گناہ کے اعتبار سے دونوں برابر ہیں، جس طرح مشرک کی بخشش نہیں ہے، اسی طرح کینہ ور آدمی کی بھی مغفرت نہیں ہے، اسی لیے پاک و صاف دل والا کینے سے پاک رہنے کی دعا مانگتا ہے جیسا کہ ابھی اوپر بیان کیا گیا ہے۔

جنت کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں جو لوگ ہوں گے آپس میں بھائی بھائی ہوں گے، وہاں بغض و کینہ کا گزر نہ ہوگا، ارشاد فرمایا:

وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقَابِلِیْنَ۔ 

(حجر:۴۷)

اور ہم نے ان کے سینوں سے جو کینہ تھا نکال لیا اب وہ بھائی بھائی ہوکر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھَارُ۔

 (اعراف:۴۳)

اور ہم نے ان کے سینوں سے جو کینہ تھانکال کیا، نہریں ان کے نیچے بہتی ہوں گی۔

ان آیتوں کے اشارے سے معلوم ہوا کہ جب تک بھائیوں میں کینہ رہے گا، جنت کا ٹکٹ ہاتھ نہ آئے گا۔

ٍ رسول اکرم ﷺ نے جو ہم کو تعلیم دی ہے، اس کا منشا یہ ہے کہ ہم کو دنیا ہی میں جنت کی زندگی بسر کرنی چاہیے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا تَقَاطَعُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَحَاسَدُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَاللہِ اِخْوَانًا وَّلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یَّھْجُرَ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلٰثٍ۔

 (مشکوۃ)

آپس میں مقاطعہ نہ کرو اور نہ ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے منہ موڑو اور نہ کینہ بغض رکھو اور نہ حسد رکھو، اللہ کے بندے بن کر آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔

مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے دو مسلمان بھائیوں میں کینہ کپٹ پیدا ہوگیا ہے، اور کسی وجہ سے وہ بات چیت چھوڑ دیں تو تین دن کے اندر اندر انہیں ملاپ کرلینا چاہیے، تین دن سے زیادہ چھوڑے نہیں رکھنا چاہیے، ورنہ ان کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوگی۔