https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 4 March 2023

حج کے فرائض, واجبات اور سنن

حج کے ارکان تین ہیں: 1- احرام یعنی حج اور عمرے کی نیت، 2- میدانِ عرفات میں وقوف، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’الْحَجُّ عَرَفَة، مَنْ جَاءَ لَیْلَة جَمْعِِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ فَقَدْ اَدْرَکَ الحَجَّ". (الترمذي:۸۸۹، النسائي: ۳۰۱۶، ابن ماجه: ۳۰۱۵) ترجمہ: ’’حج وقوفِ عرفہ سے عبارت ہے۔ جو شخص مزدلفہ کی رات طلوعِ فجر سے قبل میدانِ عرفات میں آجائے اس کا حج ہوگیا‘‘۔ 3- طوافِ زیارت، [اسی کو طوافِ افاضہ بھی کہتے ہیں]؛ فرمانِ باری تعالی ہے: " وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ". ترجمہ: اور وہ بیت العتیق کا طواف کریں۔[الحج : 29] بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 125): "الوقوف بعرفة، وهو الركن الأصلي للحج، والثاني طواف الزيارة". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 128): "وأما شرطه وواجباته فشرطه النية، وهو أصل النية دون التعيين حتى لو لم ينو أصلاً بأن طاف هارباً من سبع أو طالباً لغريم لم يجز". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 49): "الوقوف بعرفة ركن أساسي من أركان الحج، يختص بأنه من فاته فقد فاته الحج. وقد ثبتت ركنية الوقوف بعرفة بالأدلة القاطعة من الكتاب والسنة والإجماع: أما القرآن؛ فقوله تعالى: {ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس}. فقد ثبت أنها نزلت تأمر بالوقوف بعرفة. وأما السنة: فعدة أحاديث، أشهرها حديث: الحج عرفة. وأما الإجماع: فقد صرح به عدد من العلماء، وقال ابن رشد: أجمعوا على أنه ركن من أركان الحج، وأنه من فاته فعليه حج قابل". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 51): "وعدد أشواط الطواف سبعة، وكلها ركن عند الجمهور. وقال الحنفية: الركن هو أكثر السبعة، والباقي واجب ينجبر بالدم". الموسوعة الفقهية الكويتية (2/ 129): "أجمع العلماء على أن الإحرام من فرائض النسك، حجاً كان أو عمرةً، وذلك؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: إنما الأعمال بالنيات. متفق عليه. لكن اختلفوا فيه أمن الأركان هو أم من الشروط؟ ... الخ حج کے واجبات: ١- مزدلفہ میں وقوف کے وقت ٹھہرنا ٢- رمی جمار(کنکریاں مارنا) ٣- حلق یعنی سر کے بال منڈوانا یا تقصیر یعنی سر کے بال کتروانا ۴- صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ۵- آفاقی یعنی میقات سے باہر رہنے والے کو طواف وداع کرنا ۶- حج قران اور حج تمتع کرنے والے کے لیے دم شکر ادا کرنا (قربانی کرنا) حج کی سنتیں: ۱- مفرد آفاقی اور قارن کو طواف قدوم کرنا ۲- طواف قدوم میں رمل اور اضطباع کرنا ۳-آٹھویں ذی الحجہ کی صبح کو منی کے لیے روانہ ہونا اور وہاں پانچوں نمازیں پڑھنا ۴-نویں ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد منی سے عرفات کے لیے روانہ ہونا ۵-عرفات سے غروب آفتاب کے بعد امام حج سے پہلے روانہ نہ ہونا ۶-عرفات سے واپس ہوکر رات کو مزدلفہ میں ٹھہرنا ۷-عرفات میں غسل کرنا ۸-ایام منی میں رات کو منی میں رہنا (مستفاد از غنیه الناسک، و رفیق الحج) (وتسہیل بہشتی زیور: ۱/ ۴۶۱ ٬ ط: الحجاز) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلائل: کما فی غنیۃ الناسک: اما فرائض الحج فثلاث، الاول الاحرام قبل الوقوف بعرفة، والثاني الوقوف بعرفة......والثالث طواف الزيارة...الخ (ص: 44، ط: ادارۃ القرآن) وفی بدائع الصنائع: وأما، واجبات الحج فخمسة:. السعي بين الصفا والمروة، والوقوف بمزدلفة، ورمي الجمار، والحلق أو التقصير، وطواف الصدر (ج: 2، ص: 133، ط: دار الکتب العلمیۃ) وفی الھندیۃ: (وأما سننه) فطواف القدوم والرمل فيه أو في الطواف الفرض، والسعي بين الميلين الأخضرين، والبيتوتة بمنى في ليالي أيام النحر، والدفع من منى إلى عرفة بعد طلوع الشمس، ومن مزدلفة إلى منى قبلها كذا في فتح القدير. والبيتوتة بمزدلفة سنة والترتيب بين الجمار الثلاث سنة هكذا في البحر الرائق. (ج: 1، ص: 219، ط: دار الفکر)

Thursday 2 March 2023

عمرہ یاحج میں سعی چھوٹ جائے تو کیاکرے

عمرہ میں طواف کےبعد اگر کسی نےسعی چھوڑدی اور احرام کھول دیا اور دوبارہ اس کا اعادہ بھی نہیں کیا تو دم لازم ہوگیا، دم ادا کرلینے کے بعد اب دوبارہ سعی یا عمرہ کو لوٹانا ضروری نہیں ہے، عمرہ ادا ہوجائے گا؛ اس لیے کہ سعی واجبات میں سے ہے، اور دم سے اس کا نقصان پورا ہوجاتا ہے۔ مبسوط للسرخسي میں ہے : "(قال:) وإن ترك السعي فيما بين الصفا، والمروة رأسًا في حج أو عمرة فعليه دم عندنا، وهذا؛ لأن السعي واجب، وليس بركن عندنا، الحج والعمرة في ذلك سواء، وترك الواجب يوجب الدم ...، وجحتنا في ذلك قوله تعالى: {فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما} [البقرة: 158]، ومثل هذا اللفظ للإباحة لا للإيجاب فيقتضي ظاهر الآية أن لايكون واجبًا، ولكنا تركنا هذا الظاهر في حكم الإيجاب بدليل الإجماع، فبقي ما وراءه على ظاهره". (4 / 50) البناية شرح الهداية میں ہے: "ومن ترك السعي بين الصفا والمروة فعليه دم وحجه تام؛ لأن السعي من الواجبات عندنا فيلزم بتركه دم دون الفساد. (ومن ترك السعي بين الصفا والمروة فعليه دم وحجه تام؛ لأن السعي من الواجبات عندنا) ش: وعند الشافعي ركن، وعندنا واجب م: (فيلزم بتركه الدم دون الفساد) ش: لأن كل نسك ليس بركن فالدم يقوم مقامه كالرمي، قوله: دون الفساد احترازًا عن قول مالك، وأحمد فإن السعي ركن عندهما فيلزم الفساد بتركه". (4 / 362) فتاوى هندية میں ہے: "ومن ترك السعي بين الصفا والمروة فعليه دم وحجه تام، كذا في القدوري". (1 / 247

مزنیہ کی بیٹی سے نکاح

شرعی نقطہ نظر سے زنا کرلینے سے مرد اور عورت کے درمیان حرمت مصاہرت ثابت ہوکر زانی اور مزنیہ پر ایک دوسرے کے اصول وفروع حرام ہو جاتے ہیں تاہم اگر لا علمی کی وجہ سے مزنیہ کی بیٹی سے نکاح کیا گیا ہو تو یہ نکاح فاسد شمار ہوگا اور مرد پر لازم ہوگا کہ وہ عورت کو جدائی کے الفاظ مثلاطلاق وغیرہ کہہ کر چھوڑ دے ۔اس نکاح کے نتیجے میں پیداشدہ اولاد کا نسب اسی شخص سے ثابت ہوگا ۔ لہذا اگر کسی شخص نے اپنی مزنیہ کی بیٹی سے نکاح کیا ہو تو شرعا اس پر لازم اور ضروری ہے کہ وہ اس کو طلاق یا علیحدگی پر دلالت کرنے والا کوئی اور لفظ کہہ کر چھوڑ دے۔جب کہ بچوں کا نسب اسی سے ثابت ہوگا۔ ( قوله : وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته )قال في البحر : أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا ۔(رد المحتار على الدرا لمختاركتاب النكاح ، فصل في المحرمات ج4ص144) وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول ، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك۔(ردالمحتار على الدر المختاركتاب النكاح ،فصل في المحرمات) ويجب مهر المثل في نكاح فاسد بالوطي ۔۔۔وتجب العدةبعد الوطي لاالخلوة۔۔۔ويثبت النسب احتياطا۔(الدرالمختار على صدرردالمحتاركتاب النكاح ج4ص277،274)

Monday 27 February 2023

شب برات

شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت“کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔ ۔تقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“دوسری حدیث میں ہے”اس رات میںاس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟ ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں: ۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لئے ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لئے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔ ۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔ ۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔ بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔ مزیدتفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:فتاویٰ بینات،جلد :اول،صفحہ:۵۵۲تا۵۵۷،مطبوعہ:مکتبہ بینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی۔