https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 12 November 2020

بے الف خطبۂ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ


ایک مرتبہ صحابہ کی مجلس میں گفتگو چلی کہ حروف تہجی میں وہ کونسا حرف ہے جس کا استعمال اتنا زیادہ ہےکہ اس کے بغیر چارۂ کار نہیں اورایک جملہ بھی نہیں بن سکتا

مجلس میں بیٹھے تمام احباب کا اتفاق ہوگیا کہ وہ حرف "الف" ہے

سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ بھی موجود تھے، آپ نے فی البدیہہ ایک خطبہ کہا جو اب بھی کتب میں تین سے چار صفحات پر مشتمل ہےاور پورے خطبے میں ایک بھی ،الف، نہیں ہے اسے خطبۂ مونقہ کہا جاتاہے.اس سے عربی زبان پر آپ کی قدرت کو دیکھ کر عقل حیران رہجاتی ہے.

: عربی متن

حَمِدتُ مَن عَظُمَت مِنَّتُهُ، وَ سَبَغَت نِعمَتُهُ، وَ سَبَقَت رَحمَتُهُ، وَ تَمَّت کَلِمَتُهُ، وَ نَفَذَت مَشیَّتُهُ، وَ بَلَغَت حُجَّتُهُ، و عَدَلَت قَضیَّتُهُ، وَ حَمِدتُ حَمَدَ مُقِرٍّ بِرُبوبیَّتِهِ، مُتَخَضِّعٍ لِعُبودیَّتِهِ، مُتَنَصِّلٍ مِن خَطیئتِهِ، مُعتَرِفٍ بِتَوحیَدِهِ، مُستَعیذٍ مِن وَعیدِهِ، مُؤَمِّلٍ مِن رَبِّهِ مَغفِرَةً تُنجیهِ، یَومَ یُشغَلُ عَن فَصیلَتِهِ وَ بَنیهِ، وَ نَستَعینُهُ، وَ نَستَرشِدُهُ، وَ نُؤمِنُ بِهِ، وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیهِ، وَ شَهِدتُ لَهُ بِضَمیرٍ مُخلِصٍ موقِنٍ، وَ فَرَّدَتُهُ تَفریدَ مُؤمِنٍ مُتقِنٍ، وَ وَحَّدَتُهُ تَوحیدَ عَبدٍ مُذعِنٍ لَیسَ لَهُ شَریکٌ فی مُلکِهِ، وَ لَم یَکُن لَهُ وَلیٌّ فی صُنعِهِ، جَلَّ عَن مُشیرٍ وَ وَزیرٍ، وَ تَنَزَّهَ عَن مِثلٍ وَ نَظیرٍ، عَلِمَ فَسَتَرَ، وَ بَطَنَ فَخَبَرَ، وَ مَلَکَ، فَقَهَرَ، وَعُصیَ فَغَفَرَ، وَ عُبِدَ فَشَکَرَ، وَ حَکَمَ فَعَدَلَ، وَ تَکَرَّمَ وَ تَفَضَّلَ، لَم یَزَل وَ لَم یَزولَ، وَ لیسَ کَمِثلِهِ شَیءٌ، وَهُوَ قَبلَ کُلِّ شَیءٍ وَ بَعدَ کُلِّ شَیءٍ، رَبٌّ مُتَفَرِّدٌ بِعِزَّتِهِ، مَتَمَلِّکٌ بِقُوَّتِهِ، مُتَقَدِّسٌ بِعُلُوِّهِ، مُتَکَبِّرٌ بِسُمُوِّهِ لَیسَ یُدرِکُهُ بَصَرٌ، وَ لَم یُحِط بِهِ نَظَرٌ، قَویٌ، مَنیعٌ، بَصیرٌ، سَمیعٌ، علیٌّ، حَکیمٌ، رَئوفٌ، رَحیمٌ، عَزیزٌ، عَلیمٌ، عَجَزَ فی وَصفِهِ مَن یَصِفُهُ، وَ ضَلَّ فی نَعتِهِ مَن یَعرِفُهُ، قَرُبَ فَبَعُدَ، وَ بَعُدَ فَقَرُبَ، یُجیبُ دَعوَةَ مَن یَدعوهُ، وَ یَرزُقُ عَبدَهُ وَ یَحبوهُ، ذو لُطفٍ خَفیٍّ، وَ بَطشٍ قَویٍّ، وَ رَحمَةٍ موسِعَةٍ، وَ عُقوبَةٍ موجِعَةٍ، رَحمَتُهُ جَنَّةٌ عَریضَةٌ مونِقَةٌ، وَ عُقوبَتُهُ حَجیمٌ مؤصَدَةٌ موبِقَةٌ، وَ شَهِدتُ بِبَعثِ مُحَمَّدٍ عَبدِهِ وَ رَسولِهِ صَفیِّهِ وَ حَبیبِهِ وَ خَلیلِهِ، بَعَثَهُ فی خَیرِ عَصرٍ، وَ حینَ فَترَةٍ، وَ کُفرٍ، رَحمَةً لِعَبیدِهِ، وَ مِنَّةً لِمَزیدِهِ، خَتَمَ بِهِ نُبُوَّتَهُ، وَ قَوّی بِهِ حُجَّتَهُ، فَوَعَظَ، وَ نَصَحَ، وَ بَلَّغَ، وَ کَدَحَ، رَؤفٌ بِکُلِّ مُؤمِنٍ، رَحیمٌ، ولیٌّ، سَخیٌّ، ذَکیٌّ، رَضیٌّ، عَلَیهِ رَحمَةٌ، وَ تَسلیمٌ، وَ بَرَکَةٌ، وَ تَعظیمٌ، وَ تَکریمٌ مِن رَبٍّ غَفورٍ رَحیمٍ، قَریبٍ مُجیبٍ، وَصیَّتُکُم مَعشَرَ مَن حَضَرَنی، بِتَقوی رَبِّکُم، وَ ذَکَّرتُکُم بِسُنَّةِ نَبیِّکُم، فَعَلَیکُم بِرَهبَةٍ تُسَکِّنُ قُلوبَکُم، وَ خَشیَةٍ تَذری دُموعَکُم، وَ تَقیَّةٍ تُنجیکُم یَومَ یُذهِلُکُم، وَ تُبلیکُم یَومَ یَفوزُ فیهِ مَن ثَقُلَ وَزنَ حَسَنَتِهِ، وَ خَفَّ وَزنَ سَیِّئَتِهِ، وَ لتَکُن مَسئَلَتُکُم مَسئَلَةَ ذُلٍّ، وَ خُضوعٍ، وَ شُکرٍ، وَ خُشوعٍ، وَ تَوبَةٍ، وَ نَزوعٍ، وَ نَدَمٍ وَ رُجوعٍ، وَ لیَغتَنِم کُلُّ مُغتَنَمٍ مِنکُم، صِحَّتَهُ قَبلَ سُقمِهِ، وَ شَیبَتَهُ قَبلَ هِرَمِهِ، وَ سِعَتَهُ قَبلَ عَدَمِهِ، وَ خَلوَتَهُ قَبلَ شُغلِهِ، وَ حَضَرَهُ قَبلَ سَفَرِهِ، قَبلَ هُوَ یَکبُرُ، وَ یَهرَمُ، وَیَمرَضُ، وَ یَسقَمُ، وَ یُمِلُّهُ طَبیبُهُ، وَ یُعرِضُ عَنهُ جَیِبُهُ، وَ یَتَغَیَّرَ عَقلُهُ، وَ لیَقطِعُ عُمرُهُ، ثُمَّ قیلَ هُوَ مَوَعوکَ، وَ جِسمُهُ مَنهوکٌ، قَد جَدَّ فی نَزعٍ شَدیدٍ، وَ حَضَرَهُ کُلُّ قریبٍ وَ بَعیدٍ، فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ، وَ طَمَحَ بِنَظَرِهِ، وَ رَشَحَ جَبینُهُ، وَ سَکَنَ حَنینُهُ، وَ جُذِبَت نَفسُهُ، وَ نُکِبَت عِرسُهُ، وَ حُفِرَ رَمسُهُ، وَ یُتِمَّ مِنهُ وُلدُهُ، وَ تَفَرَقَ عَنهُ عَدَدُهُ، وَ قُسِّمَ جَمعُهُ، وَ ذَهَبَ بَصَرُهُ وَ سَمعُهُ، وَ کُفِّنَ، وَ مُدِّدَ، وَ وُجِّهَ، وَ جُرِّدَ، وَ غُسِّلَ، وَ عُرِیَ، وَ نُشِفَ، وَ سُجِیَ، وَ بُسِطَ لَهُ، وَ نُشِرَ عَلَیهِ کَفَنُهُ، وَ شُدَّ مِنهُ ذَقَنُهُ، وَ قُمِّصَ، وَ عُمِّمَ، وَ لُفَّ، وَ وُدِعَّ، وَ سُلِّمَ، وَ حُمَلِ فَوقَ سَریرٍ، وَ صُلِّیَ عَلَیهِ بِتَکبیرٍ، وَ نُقِلَ مِن دورٍ مُزَخرَفَةٍ، وَ قُصورٍ مُشَیَّدَةٍ، وَ حَجُرٍ مُنَضَّدَةٍ، فَجُعِلَ فی ضَریحٍ مَلحودَةٍ، ضَیِّقٍ مَرصوصٍ بِلبنٍ، مَنضودٍ، مُسَقَّفٍ بِجُلمودٍ، وَ هیلَ عَلیهِ حَفَرُهُ، وَ حُثِیَ عَلیهِ مَدَرُهُ، فَتَحَقَّقَ حَذَرُهُ، وَ نُسِیَ خَبَرُهُ وَ رَجَعَ عَنهُ وَلیُّهُ، وَ نَدیمُهُ، وَ نَسیبُهُ، وَ حَمیمُهُ، وَ تَبَدَّلَ بِهِ قرینُهُ، وَ حَبیبُهُ، وَ صَفیُّهُ، وَ نَدیمُهُ فَهُوَ حَشوُ قَبرٍ، وَ رَهینُ قَفرٍ، یَسعی فی جِسمِهِ دودُ قَبرِهِ وَ یَسیلُ صَدیدُهُ مِن مِنخَرِهِ، یُسحَقُ ثَوبُهُ وَ لَحمُهُ، وَ یُنشَفُ دَمُهُ، وَ یُدَقُّ عَظمُهُ، حَتّی یَومَ حَشرِهِ، فَیُنشَرُ مِن قَبرِهِ، وَ یُنفَخُ فِی الصّورِ، وَ یُدعی لِحَشرٍ وَ نُشورٍ، فَثَمَّ بُعثِرَت قُبورٌ، وَ حُصِّلَت صُدورٌ، وَ جیء بِکُلِّ نَبیٍّ، وَ صِدّیقٍ، وَ شَهیدٍ، وَ مِنطیقٍ، وَ تَوَلّی لِفَصلِ حُکمِهِ رَبٌّ قدیرٌ، بِعَبیدِهِ خَبیرٌ وَ بَصیرٌ، فَکَم مِن زَفرَةٍ تُضنیهِ، وَ حَسرَةٍ تُنضیهِ، فی مَوقِفٍ مَهولٍ عَظیمٍ، وَ مَشهَدٍ جَلیلٍ جَسیمٍ، بَینَ یَدَی مَلِکٍ کَریمٍ، بِکُلِّ صَغیر َةٍ وَ کَبیرَةٍ عَلیمٍٍ، حینَئِذٍ یُلجِمُهُ عَرَقُهُ، وَ یَحفِزُهُ قَلَقُهُ، عَبرَتُهُ غَیرُ مَرحومَةٍ، وَ صَرخَتُهُ غَیرُ مَسموعَةٍ، وَ حُجَّتُهُ غَیرُ مَقبولَةٍ، وَ تَؤلُ صَحیفَتُهُ، وَ تُبَیَّنُ جَریرَتُهُ، وَ نَطَقَ کُلُّ عُضوٍ مِنهُ بِسوءِ عَمَلِهِ وَ شَهِدَ عَینُهُ بِنَظَرِهِ وَ یَدُهُ بِبَطشِهِ وَ رِجلُهُ بِخَطوِهِ وَ جِلدُهُ بِمَسِّهِ وَ فَرجُهُ بِلَمسِهِ وَ یُهَدِّدَهُ مُنکَرٌ وَ نَکیرٌ وَ کَشَفَ عَنهُ بَصیرٌ فَسُلسِلَ جیدُهُ وَ غُلَّت یَدُهُ وَ سیقَ یُسحَبُ وَحدَهُ فَوَرَدَ جَهَنَّمَ بِکَربٍ شَدیدٍ وَ ظَلَّ یُعَذَّبُ فی جَحیمٍ وَ یُسقی شَربَةٌ مِن حَمیمٍ تَشوی وَجهَهُ وَ تَسلخُ جَلدَهُ یَضرِبُهُ زَبینَتُهُ بِمَقمَعٍ مِن حدیدٍ یَعودُ جِلدُهُ بَعدَ نَضجِهِ بِجلدٍ جدیدٍ یَستَغیثُ فَیُعرِضُ عَنهُ خَزَنَةُ جَهَنَّمُ وَ یَستَصرخُ فَیَلبَثُ حُقبَهُ بِنَدَمٍ نَعوذُ بِرَبٍّ قَدیرٍ مِن شَرِّ کُلِّ مَصیرٍ وَ نَسئَلُهُ عَفوَ مَن رَضیَ عَنهُ وَ مَغفِرَةَ مَن قَبِلَ مِنهُ فَهُوَ وَلیُّ مَسئَلَتی وَ مُنحُجِ طَلِبَتی فَمَن زُحزِحَ عَن تَعذیبِ رَبِّهِ سَکَنَ فی جَنَّتِهِ بِقُربِهِ وَ خُلِّدَ فی قُصورِ مُشَیَّدةٍ وَ مُکِّنَ مِن حورٍ عینٍ وَ حَفَدَةٍ وَ طیفَ عَلَیهِ بِکُئوسٍ وَ سَکَنَ حَظیرَةَ فِردَوسٍ، وَ تَقَلَّبَ فی نَعیمٍ، وَ سُقِیَ مِن تَسنیمٍ وَ شَرِبَ مِن عَینٍ سَلسَبیلٍ، مَمزوجَةٍ بِزَنجَبیلٍ مَختومَةً بِمِسکٍ عَبیرٍ مُستَدیمٍ لِلحُبورٍ مُستَشعِرٍ لِلسّرورِ یَشرَبُ مِن خُمورٍ فی رَوضٍ مُشرِقٍ مُغدِقٍ لَیسَ یَصدَعُ مَن شَرِبَهُ وَ لَیسَ یَنزیفُ هذِهِ مَنزِلَةُ مَن خَشِیَ رَبَّهُ وَ حَذَّر نَفسَهُ وَ تِلکَ عُقوبَةُ مَن عَصی مُنشِئَهُ وَ سَوَّلَت لَهُ نَفسُهُ مَعصیَةَ مُبدیهِ ذلِکَ قَولٌ فَصلٌ وَ حُکمٌ عَدلٌ خَیرُ قَصَصٍ قَصَّ وَ وَعظٍ بِهِ نَصَّ تَنزیلٌ مِن حَکیمٍ حَمیدٍ نَزَلَ بِهِ روحُ قُدُسٍ مُبینٍ عَلی نَبیٍّ مُهتَدٍ مَکینٍ صَلَّت عَلَیهِ رُسُلٌ سَفَرَةٌ مُکَرَّمونَ بَرَرَةٌ عُذتُ بِرَبٍ رَحیمٍ مِن شَرِّ کُلِّ رَجیمٍ فَلیَتَضَرَّع مُتَضَرِّعُکُم وَ لیَبتَهِل مُبتَهِلُکُم فَنَستَغفِرُ رَبَّ کُلِّ مَربوبِ لی وَ لَکُم۔


اردو ترجمہ:

میں حمد کرتا ہوں۔ اس کی حمد جس کا احسان عظیم ہے، اس کی نعمت وسیع و کامل ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے اس کی حجت پہنچ چکی ہے اور اس کا فیصلہ عدل پر مبنی ہے۔

اس کی حمد اس طرح کرتا ہوں جس طرح اس کی ربوبیت کا اقرار کرنے والا، اس کی عبودیت میں فروتنی کرنے والا، خطاؤں سے پ رہی ز کرنے والا، اس کی توحید کا اعتراف کرنے والا اور اس کے قہر سے پناہ مانگنے والا کرتا ہے۔

اپنے رب سے مغفرت اور نجات کا امیدوار ہوں، اس روز جب کہ ہر شخص اپنی اولاد اور عزیزوں سے بے پروا ہو گا ہم اسی سے مدد و ہدایت چاہتے ہیں۔ میں اس بندہ خالص کی طرح گواہی دیتا ہوں جو اس کے وجود پر یقین رکھتا ہو، اس کے حاکمیت میں کوئی بھی اس کا شریک اور اس کی کائنات میں کوئی اس کا ولی یا حصہ دار نہیں، اس کی شان اس سے ارفع و اعلی ہے کہ اس کا کوئی مشیر، وزیر، مددگار، معین یا نظیر ہو۔

وہ سب کا حال جانتا ہے اور عیب پوشی کرتا ہے۔ وہ باطن کی حالت سے واقف ہے۔ اس کی بادشاہت سب پر غالب ہے۔ اگر گناہ کیا جائے تو وہ معاف کر دیتا ہے اور عدل کے ساتھ حکم دیتا ہے۔ وہ فضل و کرم کرتا ہے۔ نہ اس کو کبھی زوال آیا ہے نہ آئے گا اور کوئی اس کی مثل نہیں۔ وہ ہر چیز سے پہلے بھی پرودگار ہے۔ وہ اپنی ہی عزت و بزرگی سے ہی ہر چیز پر غالب ہے۔ اور اپنی قوت سے ہی ہر شے پر قادر ہے۔ اپنے عالی مرتبہ سے ہی مقدس ہے۔ اپنی رفعت کی وجہ اس میں کبریائی ہے۔ نہ کوئی آنکھ اس کو دیکھ سکتی ہے نہ کوئی نظر اس کا احاطہ کر سکتی ہے۔ وہ قوی، برتر، بصیر، ہر بات کا سننے والا اور مہربان و رحیم ہے۔ جس نے بھی اس کا وصف کرنا چاہا وہ عاجز رہا (وصف نہ کر پایا)۔ جس نے (اپنے فہم میں) اس کو پہچانا، اس نے خطا کی۔ وہ باوجود نزدیک ہونے کے بعید ہے۔ اور دور ہونے کے باوجود قریب ہے۔ جو اس سے دعا مانگتا ہے وہ قبول کرلپتا ہے۔ اور روزی دیتا ہے اور محبت کرتا ہے، وہ صاحب لطف خفی ہے۔ اس کی گرفت قوی ہے۔ اور عنایت بہت بڑی ہے اس کی رحمت وسیع ہے۔ اس کا عذاب دردناک ہے۔ اس کی رحمت جنت ہے جو وسیع اور حیرت انگیز ہے۔ اس کا عذاب دوزخ ہے جو مہلک اور پھیلی ہوئی ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے رسول، بندے، صفی،(چنے ہوئے) نبی، محبوب، دوست اور برگزیدہ ہیں۔ ان کو ایسے وقت مبعوث بہ رسالت کیا جب زمانہ نبی سے خالی تھا اور کفر کا دور دورہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے بندوں پر رحمت ہیں۔ مزید برآں اپنی نبوت کو ان پر ختم اور اپنی حجت کو مضبوط کر دیا۔ پس انہوں نے وعظ فرمایا۔ اور نصیحت کی۔ اور حکم خدا بندوں تک پہنچایا۔ اور ہر طرح کی کوشش کی۔ وہ ہر مومن پر مہربان ہیں۔ وہ رحیم، سخی اور اللہ کے پسندیدہ اور پاکیزہ ولی ہیں۔ ان پر خدا کی جانب سے رحمت و سلام، برکت وعظمت اور اکرام ہو۔ جو بخشنے والا، قریب اور دعا قبول کرنے والا ہے۔

اے حاضرین مجلس میں تمہیں تمہارے پروردگار کا حکم سناتا ہوں جو مجھے پہونچا ہے اور وصیت کرتا ہوں اورتمہیں تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت یاد دلاتا ہوں- تمہیں چاہئیے کہ خدا سے ایسا ڈرو کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں اور ایسی پ رہی زگاری اختیار کرو کہ جو تم کو نجات دلائے۔ قبل اس کے آزمائش کا دن آ جائے اور تم پریشانی میں گم ہو جاؤ۔ اس روز وہی شخص رستگار ہو گا جس کے ثواب کا پلڑا بھاری اور گناہوں کا پلڑا ہلکا ہوگا۔ تم کو چاہئیے کہ جب بھی اس سے دعا کرو تو بہت ہی عاجزی اور گڑگڑا کے، توبہ اور خوشامد اور ذلت کے ساتھ دعا کرو اور دل سے گناہ کرنے کا خیال دور کر کے، ندامت کے ساتھ خدا کی طرف رجوع کرو۔

تم کو چاہئیے کہ بیماری سے قبل صحت کو اور بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، فقر سے پہلے فراغ بالی کو اور سفر سے پہلے حضر کو اور کام میں مشغول ہونے سے پہلے فراغت کو، غنیمت جانو ایسا نہ ہو کہ پیری آ جائے اور تم سب کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاؤ یا مرض حاوی ہو جائے اور طبیب رنج میں مبتلا کر دے اور احباب منہ پھیر لیں عمر کٹ چکی ہو اور عقل میں فتور آ جآئے۔

تب کہا جاتا ہے کہ بخار کی شدت سے حالت خراب ہو گئی ہے اور جسم لاغر ہو چکا ہے اور پھر جان کنی کی سختی ہوتی ہے اور قریب و بعید سے ہر کوئی اس کے ہاں آتا ہے اور اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں، پتلیاں پھر جاتی ہیں، پیشانی پر پسینہ آتا ہے۔ ناک ٹیڑھی ہو جاتی ہے اور روح قبض ہو جاتی ہے، اس کی بیوی رونے پیٹنے لگتی ہے۔ قبر کھود لی جاتی ہے اور اس کے بچے یتیم ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی نفری (یعنی ساتھی) متفرق ہو جاتی ہے۔ اعضاء شکستہ ہو جاتے ہیں اور بینائی و سماعت چلی جاتی ہے۔ پھر اس کو سیدھا لٹا دیتے ہیں اور لباس اتار کر غسل دیا جاتا ہے اور کپڑے سے جسم پونچھتے ہیں اور خشک کر کے اس پر چادر ڈال دی جاتی ہے اور ایک بچھا دی جاتی ہے اور کفن کیا جاتا ہے اور (سر پر) عمامہ باندھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور پھر جنازہ اٹھایا جاتا ہے اور بغیر سجدہ و تعفیر کے صرف تکبیر کے ساتھ اس پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ آراستہ طلائی تختوں اور مضبوط محلوں کے نفیس فرش والے کمروں سے لا کر اس کو تنگ لحد میں ڈال دیتے ہیں اورتہہ بہ تہ اینٹوں سے قبر بنا کر پتھر سے پاٹ کر اس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے اور ڈھیلوں سے پر کر دی جاتی ہے۔ میت پر وحشت چھا جاتی ہے مگر کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ دوست و عزیز اس کو چھوڑ کر پلٹ جاتے ہیں اور سب بدل جاتے ہیں اور مردہ کی قبر پر کیڑے دوڑتے پھرتے ہیں اس کی ناک سے پیپ بہنے لگتی ہے اور اس کا گوشت خاک ہونے لگتا ہے اس کا خون دونوں پہلوؤں میں خشک ہو جاتا ہے اور ہڈیاں بوسیدہ ہو کر خاک ہونے لگتی ہیں۔ وہ روز قیامت تک اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ خدا پھر اس کو زندہ کر کے قبر سے اٹھاتا ہے۔

جب صور پھونکا جائے گا تو وہ قبر سے اٹھے گا اور میدان حشر و نشر میں بلایا جائے گا اور اس وقت اہل قبور زندہ ہوں گے اور قبر سے نکالے جائیں گے اور ان کے سینہ کے راز ظاہر کیے جائیں گے اور ہر نبی، صدیق و شہید حاضر کیا جائے گا اور فیصلہ کے لیے رب قدیر جو اپنے بندوں کے حالات سے آگاہ ہے، جدا جدا کھڑا کرے گا۔ پھر بہت سی آوازیں اس کو پریشانی میں ڈال دیں گی اور خوف و حسرت سے وہ ناچار ہو جائے گا اور اس بادشاہ عظیم کی بارگاہ میں جو ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو جانتا ہے ڈرتا ہوا جاضر ہو گا اس وقت گناہوں کی شرم سے اس قدر پسینہ بہے گا کہ منہ تک آ جائے گا اور اس کو اس سے قلق ہو گا۔ وہ بہت نالہ و زاری کرے گا مگر کوئی شنوائی نہ ہو گی اور اس کے سارے گناہ ظاہر کر دیے جائیں گے اور اس کا نامہء اعمال پیش کیا جائے گا۔ پس وہ اپنے اعمال بد کو دیکھے گا اور اس کی آنکھیں اس کی بد نظری کی اور ہاتھ، بیجا مارنے کی اور پاؤں، (برے کام کی جانب) جانے کی اور شرم گاہ، بدکاری کی اور جلد، مس کرنے کی گواہی دیں گے۔ پس اس کی گردن میں زنجیر ڈال دی جائے گی اور مشکیں کس دی جائیں گی۔

پھر کھینچ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور وہ روتا پیٹتا داخل جہنم ہو گا۔ جہاں اس پر سخت عذاب کیا جائے گا۔ جہنم کا کھولتا ہوا پانی اس کو پینے کو ملے گا۔ جس سے اس کا منہ جل جائے گا۔ اس کھال نکل جائے گی۔ فرشتے آہنی گرزوں سے اس کو ماریں گے اور کھال اڑ جانے کے بعد نئی کھال پھر پیدا ہوگی وہ بہت کچھ آہ و فریاد کرے گا مگر جہنم کے فرشتے اس کی طرف سے منہ پھیر لیں گے۔ اس طرح ایک مدت دراز تک وہ عذاب میں مبتلا اور نادم رہے گا اور استغاثہ کرتا رہے گا۔

میں پروردگار قدیر سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھے ہر مضر شے کے شر سے محفوظ رکھے اور میں اس سے ایسی معافی کا خواستگار ہوں جیسے اس نے کسی شخص سے راضی ہو کر اس کو عطا کی ہو اور ایسی مغفرت چاہتا ہوں جو اس نے قبول فرمائی ہو۔

پس وہی میری خواہش پوری کرنے والا اور امیدوں کا برلانے والا ہے جو شخص مستحق عذاب نہیں ہے وہ بہشت کے مضبوط محلوں میں ہمیشہ رہے گا اور حورعین اور غلمان (خادم) اس کی ملکیت ہوں گے جام ہائے کوثر سے سیراب ہو گا اور حدود قدس میں مقیم ہو گا۔ نعمت ہائے بہشت میں متصرف رہے گا اور نہر تسنیم کا پانی پئے گا اور چشمہ سلسبیل سے جس میں سونٹھ ملی ہوئی اور مشک و عنبر کی مہر لگی ہوئی ہے سیراب ہو گا اور وہاں کا دائمی مالک ہوگا وہ معطر شراب پئے گا مگر نہ اس سے خمار ہو گا اور نہ حواس میں فتور آئے گا۔ یہ مقام و منزلت اس شخص کی ہے جو خدا سے ڈرتا اور گناہوں سے بچتا ہے اور وہ والا عذاب اس شخص کے لیے ہے جو اپنے خالق کی نافرمانی کرتا اور خواہشات نفسانی سے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ پس یہی فیصلہ کن بات اور منصفانہ حکم ہے اور بہترین قصہ و نصیحت ہے۔ جس کی صراحت خداوند حکیم و حمید نے اس کتاب میں فرمائی ہے جو روح القدس نے ہدایت یافتہ راست باز پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمائی۔ میں پروردگار علیم و رحیم و کریم سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھ کو ہر لعین و رجیم دشمن کے شر سے بچائے۔ پس اس کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والوں کو چاہئیے کہ عاجزی

 کریں اور دعا کرنے والے دعا کریں اور تم میں سے ہر شخص میرے اور اپنے لیے استغفار کرے۔ میرا پروردگار اکیلا ہی میرے لیے کافی ہے۔

(شرح نہج البلاغہ :ابن ابی حدید معتزلی)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف اس خطبہ کی نسبت مشکوک ہونے کے باوجود عربی کا یہ ایک عظیم شاہکار ہے.

Sunday 8 November 2020

مولاناعبداللہ کاشفی رحمہ اللہ

میرے چچاجان حضرت مولاناعبداللہ بن الحاج چندرخان علیہ الرحمہ نے طویل علالت کے بعد بتاریخ 5نومبر2020 مطابق 15ربیع الاول 1442ھ بوقت 3بجے دن وفات پائی اناللہ واناالیہ راجعون.

آنے جانے پہ سانس کے ہےمدار

سخت ناپائیدار ہے دنیا

 وہ دوسال سے تقریبا صاحب فراش تھے .ذیابیطس,بلڈ پریشر,اور ضیق النفس جیسے موذی امراض کی بناپرچلنے پھرنے سے مکمل طور پر عاجز ہوگئے تھے لیکن بیماری کے دوران  اخیرتک ہوش وحواس مکمل طور پرصحیح سلامت رہے.5نومبر بعد نماز عشاء راقم الحروف نے مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی.نماز سے پہلے احباب کے اصرار پرمختصربیان بھی کیا

انہوں نے بحالت یتیمی پرورش پائی .ماں باپ کاسایہ بچپن ہی میں سرسے اٹھ گیاتھا.مختلف مدارس میوات میں تعلیم حاصل کی.زمانۂ طالبعلمی میں مدارس  کی سرزنش وزدوکوب کے ماحول سے بچپن میں ان کادل اچاٹ ہوگیاتھااسی لئےباربار مدارس سے فرار ہوجاتے تھے.والد صاحب انہیں باربار تلاش کرکے لاتے پھرکسی مدرسہ میں داخلہ دلادیتے اور وہ پھروہاں سے راہ فرار اختیار کرلیتے.یہ سلسلہ سالہا سال چلتا رہا.  آج میں سوچتا ہوں تو میں یقین کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کی وجہ مدارس میں طلباء کی بے تحاشہ پٹائی اورمدرسین کی سختی  ہوتی تھی.اس غیرشرعی طریقۂ کار نے نہ معلوم کتنے بچوں کودینی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا اور نہ جانے کتنی بڑی تعداد دینی تعلیم سے متنفر ہوکر ہمیشہ کے لئے تشنۂ علم رہ گئ.حضرت تھانوی اور دیگر محققین علماء نے مدارس میں طلباء کی اس بیجا پٹائی سے سختی کے ساتھ روکا ہے.اور اسے حرام قرار دیا ہے .لیکن افسوس مدارس میں اساتذہ طلباء کوجس  بے دردی  سے ہمارے زمانے میں مارتے تھے اس کی بناپر خود مجھے بھی اپنے زمانۂ طالبعلمی میں مدارس سے نفرت سی ہوگئ تھی .حتی کہ مجھے ان لوگوں اور گاؤں کے باشندوں سے بھی نفرت تھی جو مدارس کے قریب رہتے تھے.میں مدرسہ میل کے آس پاس آباد چھوٹے چھوٹے گاؤں جیسے کھیڑا,وغیرہ کے مکینوں کو اپنے بچکانہ دل میں پاگل سمجھتاتھا, دل میں کہتاتھایہ لوگ ان گاؤں میں کس طرح رہتے ہیں جبکہ یہاں سب سے بڑی آفت و مصیبت مدرسہ موجود ہے! جہاں اساتذہ طلباء کوجانورکی طرح مارتے ہیں اور کھانے کے لئے اتناسادہ کھانادیتے ہیں جسے انسان صرف جان بچانے کے لئے ہی شدید بھوک کی حالت میں کھاسکتاہے.اور مزدوروں سے زیادہ کام لیتے ہیں .نہ لباس کی فکر نہ بیماری کاپتہ نہ آرام کی خبر.میرا خیال تھا کہ جیل میں لوگ ان مدارس سے زیادہ آزاد اور آرام میں رہتے ہوں گے

تبارک اللہ ازیں فتنہا کہ درسرماست

 . بہرکیف چچاجان نے اسی بھاگم بھاگ میں بالآخرمدرسہ کاشف العلوم مسجد بنگلہ والی مرکز حضرت نظام الدین دہلی سے فضیلت کی سند حاصل کی. ان کے اساتذہ میں مولانا محمد ایوب بن میانجی موسی گھاسیڑہ (والد محترم مولانا محمد قاسم بانئ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا), مولانا غلام قادرکشمیری,مولانا محمد اسحاق اٹاؤڑی شیخ الحدیث مدرسہ معین الاسلام نوح,مولانانیاز محمد خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی,مولانا محمد صدیق شیخ الحدیث مدرسہ نوح,مولانا شبیراحمد بن منشی بشیراحمد رحمہ اللہ,مولانا اظہارالحسن  کاندھلوی وغیرہ قابل ذکر ہیں,والد صاحب نے بھی انہیں مدرسہ افضل العلوم تاج گنج آگرہ میں ابتدائی عربی فارسی کی کتابیں گلستاں بوستاں,نحومیرصرف میر وغیرہ پڑھائی تھیں. مرکزنظام الدین سے فارغ التحصیل ہونے کے بعدسے ہی گوڑیانی ضلع ریواڑی اورعلاقۂ جھجر میں  امامت کے فرائض انجام دیتے رہے.اور یہ سلسلہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے.

راقم الحروف کوبارہا  چچاجان نے گوڑیانی اور علاقۂ جھجر آنے کی دعوت دی لیکن اپنی کاہلی کی بناپرکبھی حاضر نہ ہوسکا.وہاں کے مسلمانوں کی حالت زار, دین سے دوری اور دینی دعوت کے واقعات اکثر سناتے تھے.

میں نے ایک روزاپنے والدگرامی حضرت مولانارحیم بخش علیہ الرحمہ سے دریافت کیا:چچاجان جب باربار مدارس سے بھاگ جاتے تھے تو آپ کیوں ان کوپڑھانے کے درپے تھے؟رہنے دیتے!توآپ نے اس کا جو جواب  دیاتھاوہ یقیناََ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.انہوں نے فرمایا"میں اس لئے ان کوتلاش کرکے باربار مدارس میں داخل کرتاتھا کیونکہ مجھے یہ خوف دامن گیرتھا , کہیں میرے ماں باپ روز محشر مجھ سے  پوچھ  بیٹھے ہم نے ایک یتیم بچہ چھوڑا تھا تم اسے بھی نہ پڑھاسکے!  تومیں انہیں کیاجواب دوں گا"اس لئے جب تک وہ فارغ التحصیل نہ ہوگئے میں چین سے نہ بیٹھا". میں نے عرض کیا لیکن آپ تو تین بھائی بہن ہیں  .آپ کی بہن بھی توہیں ؟انہوں نے فرمایا :لڑکی ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم کا کوئی انتظام اس دور میں ہم جیسے مفلوک الحال لوگوں کے لئے ممکن نہ تھا البتہ لڑکوں کے لئے مدارس موجودتھے .اس لئے جوممکن تھا اس پرعمل کرنا میں اپنا فرض سمجھتاتھا.

چچاجان خودبھی اکثر اپنے واقعات بیان فرمایاکرتے تھے ایک مرتبہ فرمایا جب ہماری شادی ہوئی توسنگار سے سرائے گاؤں برات گئ .اس میں تمہارے بڑے بھائی قاسم بھی تھے. جوبچپن میں ہی تقریبا تین سال کی عمر میں فوت ہوگئے تھے.وہ اتنے چھوٹے تھے کہ برات کا مفہوم نہیں جانتے تھے البتہ جماعت کے لفظ سےواقف تھے کیونکہ تبلیغی جماعتوں کی آمدورفت میوات میں عام تھی.غرض سرائے گاؤں کے کسی شخص نے ان سے پوچھا: کہاں سے آئے ہو؟تو انہوں نے کہا جماعت میں آیاہوں. اس وقت ان کی عمرتین سال تھی. تین سال کی عمر میں ڈھائی پارہ قرآن مجید انہیں حفظ یادتھا.مولاناعبدالکریم بن میانجی موسی رحمہ اللہ جو اس دور میں مدرسہ مصباح العلوم سنگار کے ناظم تھے اور والد صاحب سے گہرے تعلقات کی بناپراکثر گھرتشریف لاتے تھے پہلی بار اتنے چھوٹے بچے  سے قرآن مجید سن کر دنگ رہ گئے.

جب راقم الحروف قصبہ کاماں کے مدرسہ کاشف العلوم میں تحفیظ قرآن کا طالب علم تھا تو چچاجان وہاں مجھ سے ملنے آئے.اور کپڑے دھونے کے پانچ بھائی صابن  دلاکر چلے گئے میں ان کے پیچھے پیچھے ہولیا اس امید پرکہ شاید اس جنجال سے مجھے ہمیشہ ہمیش کے لئے آزاد کراکے لیجائیں گے!لیکن  ایسا نہ ہوسکا انہوں مجھے اپنے پیچھے آتے دیکھا تو سبب دریافت کیا. میرے پاس  بتلا نے کے لئے رونے کے علاوہ الفاظ نہ تھے.لہذا میں نے رونا شروع کردیا وہ مجھے  بازار سے مدرسہ میں چھوڑکر ڈانٹتے ہوئے چلے گئے کہ اب میرے پیچھے مت آنا مدرسہ میں محنت سے پڑھو.

میل کھیڑلاء میں دوران تعلیم مجھے منطق و فلسفہ سے دلچسی تھی.علامہ تفتازانی کی شرح تہذیب کی اردو شرح مصباح التہذیب میں نے کہیں دیکھی توعاریتاََ لےلی ,میں اسے چھٹیوں میں گھرلے آیا ایک روز چچاجان تشریف لائے توکتاب دیکھ کرفرمایا یہ کس کی کتاب ہے؟میں نے کہا میری ہے.فرمایامنطق وفلسفہ میں اتنی محنت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں .محنت قرآن وحدیث میں کرنی چاہئے.منطق وفلسفہ میں مہارت عام طورپرالحاد لاتی ہے."

پھروہ کتاب اٹھاکرلے گئے جب میں نے بہت اصرار کیا تو عرصۂ دراز کے بعداس تنبیہ کے ساتھ واپس کی کہ جس سے لی ہے اسے واپس کردینا.اس وقت میں نے نادانی کی بناپر یہ سمجھا کہ منطق و فلسفہ پر زیادہ توجہ نہ دینے کامشورہ غلط تھا حالاں کہ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ مشورہ بالکل درست تھا.منطق وفلسفہ صرف معاون ہیں اصل نہیں. اصل قرآن حدیث فقہ وتفسیرہی ہیں.

والد صاحب سے کسی بات پر ایک  مرتبہ ان بن ہوگئ تھی پھر عرصہ کے بعد افہام وتفہیم سے احباب نے دونوں کاسمجھوتہ کروایاتو دونوں بھائی دیر تک بچوں کی طرح گلے مل کر سرعام روتے رہے.اور سارے گلے شکوے فی الفور کافور ہوگئے.

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

***