https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday, 5 June 2025

ایام تشریق میں روزہ

 عید   اور ایام تشریق کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی شخص ان دنوں میں نفلی  روزہ رکھ لے تو اس پر  روزہ توڑنا واجب ہے، اور اس روزہ  کی قضا بھی لازم نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 428):

"(وَلَزِمَ نَفْلٌ شُرِعَ فِيهِ قَصْدًا) كَمَا فِي الصَّلَاةِ، فَلَوْ شَرَعَ ظَنَّا فَأَفْطَرَ أَيْ فَوْرًا فَلَا قَضَاءَ أَمَّا لَوْ مَضَى سَاعَةٌ لَزِمَهُ الْقَضَاءُ لِأَنَّهُ بِمُضِيِّهَا صَارَ كَأَنَّهُ نَوَى الْمُضِيَّ عَلَيْهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ تَجْنِيسٌ وَمُجْتَبًى (أَدَاءً وَقَضَاءً) أَيْ يَجِبُ إتْمَامُهُ فَإِنْ فَسَدَ وَلَوْ بِعُرُوضِ حَيْضٍ فِي الْأَصَحِّ وَجَبَ الْقَضَاءُ (إلَّا فِي الْعِيدَيْنِ وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ) فَلَايَلْزَمُ لِصَيْرُورَتِهِ صَائِمًا بِنَفْسِ الشُّرُوعِ فَيَصِيرُ مُرْتَكِبًا لِلنَّهْيِ.

(قَوْلُهُ : وَجَبَ الْقَضَاءُ) أَيْ فِي غَيْرِ الْأَيَّامِ الْخَمْسَةِ الْآتِيَةِ، وَهَذَا رَاجِعٌ إلَى قَوْلِهِ قَضَاءً ط (قَوْلُهُ: فَلَايَلْزَمُ) أَيْ لَا أَدَاءً وَلَا قَضَاءً إذَا أَفْسَدَهُ (قَوْلُهُ: فَيَصِيرُ مُرْتَكِبًا لِلنَّهْيِ) فَلَا تَجِبُ صِيَانَتُهُ بَلْ يَجِبُ إبْطَالُهُ وَوُجُوبُ الْقَضَاءِ يَنْبَنِي عَلَى وُجُوبِ الصِّيَانَةِ فَلَمْ يَجِبْ قَضَاءً كَمَا لَمْ يَجِبْ أَدَاءً، بِخِلَافِ مَا إذَا نَذَرَ صِيَامَ هَذِهِ الْأَيَّامِ فَإِنَّهُ يَلْزَمُهُ وَيَقْضِيهِ فِي غَيْرِهَا لِأَنَّهُ لَمْ يَصِرْ بِنَفْسِ النَّذْرِ مُرْتَكِبًا لِلنَّهْيِ وَإِنَّمَا الْتَزَمَ طَاعَةَ اللَّهِ تَعَالَى وَالْمَعْصِيَةَ بِالْفِعْلِ فَكَانَتْ مِنْ ضَرُورَاتِ الْمُبَاشَرَةِ لَا مِنْ ضَرُورَاتِ إيجَابِ الْمُبَاشَرَةِ مِنَحٌ مَعَ زِيَادَةٍ ط."

الفتاوى الهندية (1 / 201):

"وَيُكْرَهُ صَوْمُ يَوْمِ الْعِيدَيْنِ، وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ، وَإِنْ صَامَ فِيهَا كَانَ صَائِمًا عِنْدَنَا، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَ لَا قَضَاءَ عَلَيْهِ إنْ شَرَعَ فِيهَا ثُمَّ أَفْطَرَ، كَذَا فِي الْكَنْزِ. هَذَا فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ عَنْ الثَّلَاثَةِ وَعَنْ الشَّيْخَيْنِ وُجُوبُهُ، كَذَا فِي النَّهْرِ الْفَائِقِ."

Wednesday, 4 June 2025

ہونٹ کٹے جانورکی قربانی

 اگر بکرے کو اس کی وجہ سے چرنے اور کھانے پینے میں کوئی دقت و پریشانی نہیں ہوتی ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔ لو کانت الشاة مقطوعة اللسان ہل تجوز التضیحة بہا؟ فقال نعم إن کان لایخل باالاعتلاف ۔ وإن کان یخل بہ لاتجوز التضیحة بہا (ہندیہ: ۵/۲۹۸)۔

میت کی طرف سے قربانی

 میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دنبہ اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک  دنبہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔

  میت کی طرف سے قربانی کرنے کی دو صورتیں ہیں:

(۱) اگر مرحوم نے قربانی کرنے کی وصیت کی تھی اور اس کے ترکہ میں مال بھی تھا تو اس کے ایک تہائی ترکہ اس وصیت کو پورا کرنا لازم ہے اور اس قربانی کے گوشت کو صدقہ کرنا ضروری ہے، مال داروں کے لیے اس وصیت کی قربانی کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔

(۲)  اگر میت نے قربانی کرنے کی وصیت نہیں کی بلکہ کوئی عاقل بالغ شخص اپنی خوشی سے میت کے لیے قربانی کرتا ہے تو  یہ قربانی حقیقت میں قربانی کرنے والی کی طرف سے ہوگی اور اس کا ثواب میت کو پہنچے گا، اور اس قربانی کا گوشت مال دار اور فقیر سب کھاسکتے ہیں۔  

اس دوسری  صورت میں میت کی طرف سے قربانی کرنے کے دو طریقہ ہیں:

۱۔۔ میت کے نام پر ایک حصہ یا ایک چھوٹے جانور کی قربانی کی جائے۔

۲۔۔ قربانی کرنے والے اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایک اور حصہ قربانی کرے اور اس کا ثواب میت کو پہنچادے ، دونوں صورتیں صحیح ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وعن میت) أي لو ضحی عن میت وارثه بأمره ألزمه بالتصدیق بها وعدم الأکل منها، وإن تبرع بها عنه له الأکل؛ لأنه یقع علی ملك الذابح والثواب للمیت؛ ولهذا لو کان علی الذابح واحدة سقطت عنه أضحیته، کما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لکن في سقوط الأضحیة عنه، تأمل. أقول: صرح في فتح القدیر في الحج عن الغیر بلا أمر أنه یقع عن الفاعل فیسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب، فراجعه". (ردالمحتار علی الدر9/484)

 فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه". (فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة ۳؍۳۵۲

داماد کو زکوٰۃ دینا

 اگر داماد  واقعۃً مستحقِ زکاۃ ہو یعنی اس کے پاس  ضرورتِ اصلیہ سے زائد نقدی جو  نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر یا اس سے زیادہ ہو یا  کسی قسم کا مال (سونا، چاندی، نقدی یا مالِ تجارت) یا (اتنی مالیت کا ضرورت و استعمال سے زائد کسی قسم کا) سامان نہ ہو، اور ہاشمی بھی نہ ہو تو اسے زکاۃ دے  سکتے ہیں،  اور اس میں دوگنا اجر ہوگا، ایک فریضۂ زکاۃ کی ادائیگی کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وَيَجُوزُ دَفْعُهَا لِزَوْجَةِ أَبِيهِ وَابْنِهِ وَزَوْجِ ابْنَتِهِ، تَتَارْخَانِيَّةٌ". ( كتاب الزكاة، بَابُ مَصْرِفِ الزَّكَاةِ وَالْعُشْرِ، ٢ / ٣٤٥، ط: دار الفكر)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  میں ہے:

"والأفضل صرفها للأقرب فالأقرب من كل ذي رحم محرم منه ثم لجيرانه، ثم لأهل محلته ثم لأهل حرفته ثم لأهل بلدته، و قال الشيخ أبو حفص الكبير رحمه الله: لاتقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم". ( كتاب الزكاة، باب المصرف، ١ / ٢٧٢ - ٢٧٣، ط: المكتبة العصرية) 

Monday, 2 June 2025

قربانی کرنے والے کے بال اور ناخن کاٹنے کا حکم

 اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےارشاد فرمایا:

’’جب ذو الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال، ناخن یا کھال کا کچھ بھی حصہ نہ کاٹے، جب تک قربانی نہ کردے.‘‘

ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند نظر آتے ہی بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے۔

اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے فرمایا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے، نیز بلا ضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے، اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔

 نیز اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہو رہے ہوں تو ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔

صحيح مسلم (ج:3، ص:1565، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت):

’’حدثنا ابن أبي عمر المكي، حدثنا سفيان، عن عبد الرحمن بن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة رضي الله عنها، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئا»، قيل لسفيان: فإن بعضهم لا يرفعه، قال: «لكني أرفعه».

وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثني يحيى بن كثير العنبري أبو غسان، حدثنا شعبة، عن مالك بن أنس، عن عمرو بن مسلم، عن سعيد بن المسيب، عن أم سلمة رضي الله عنها، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا رأيتم هلال ذي الحجة، وأراد أحدكم أن يضحي، فليمسك عن شعره وأظفاره».‘‘

میت کی طرف سے قربانی

 میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دنبہ اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک  دنبہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔

  میت کی طرف سے قربانی کرنے کی دو صورتیں ہیں:

(۱) اگر مرحوم نے قربانی کرنے کی وصیت کی تھی اور اس کے ترکہ میں مال بھی تھا تو اس کے ایک تہائی ترکہ اس وصیت کو پورا کرنا لازم ہے اور اس قربانی کے گوشت کو صدقہ کرنا ضروری ہے، مال داروں کے لیے اس وصیت کی قربانی کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔

(۲)  اگر میت نے قربانی کرنے کی وصیت نہیں کی بلکہ کوئی عاقل بالغ شخص اپنی خوشی سے میت کے لیے قربانی کرتا ہے تو  یہ قربانی حقیقت میں قربانی کرنے والی کی طرف سے ہوگی اور اس کا ثواب میت کو پہنچے گا، اور اس قربانی کا گوشت مال دار اور فقیر سب کھاسکتے ہیں۔  

اس دوسری  صورت میں میت کی طرف سے قربانی کرنے کے دو طریقہ ہیں:

۱۔۔ میت کے نام پر ایک حصہ یا ایک چھوٹے جانور کی قربانی کی جائے۔

۲۔۔ قربانی کرنے والے اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایک اور حصہ قربانی کرے اور اس کا ثواب میت کو پہنچادے ، دونوں صورتیں صحیح ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وعن میت) أي لو ضحی عن میت وارثه بأمره ألزمه بالتصدیق بها وعدم الأکل منها، وإن تبرع بها عنه له الأکل؛ لأنه یقع علی ملك الذابح والثواب للمیت؛ ولهذا لو کان علی الذابح واحدة سقطت عنه أضحیته، کما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لکن في سقوط الأضحیة عنه، تأمل. أقول: صرح في فتح القدیر في الحج عن الغیر بلا أمر أنه یقع عن الفاعل فیسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب، فراجعه". (ردالمحتار علی الدر9/484)

 فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه". (فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة ۳؍۳۵۲ )

غریب شخص کا قربانی کے جانورکو فروخت کرنا

 اگر کسی غریب شخص نے  جس پر قربانی واجب نہیں تھی، قربانی کے لیے جانور خرید لیا یعنی خریدتے وقت قربانی کی نیت کی تھی ،تو اب اس غریب شخص پر اس جانور کی قربانی لازم ہے، اس جانور کو فروخت کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

اور اگر جانور خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی، بلکہ بعد میں غریب آدمی نے اس جانور میں قربانی کی نیت کی ہے اور زبان سے الفاظ کہہ کر اس جانور کو قربانی کے لیے خاص نہیں کیا، تو اب اس جانور کا  فروخت کرنا ممنوع نہیں، اپنی ضرورت کے لیے اسے  بیچ سکتا ہے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 321):

" قوله: (شراها لها) فلو كانت في ملكه فنوى أن يضحي بها أو اشتراها ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك لا يجب لأن النية لم تقارن الشراء فلاتعتبر، بدائع. (قوله: لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء و هذا ظاهر الرواية؛ لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب، و هو النذر بالتضحية عرفًا كما في البدائع."

-امدادالفتاویٰ 3/543