https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 27 July 2024

یمین لغو

 یمینِ لغو کا حکم یہ ہے کہ اس میں  نہ کفارہ لازم آتاہے اور نہ اس سے کسی کا ایمان جاتاہے البتہ   چوں کہ قسم اٹھانا ایک  بہت بڑی ذمہ داری ہے اس وجہ سے   کھیل کھود اور لغو امور میں  ربِ لم یزل،شہنشاہِ مطلق، مالک ارض وسماء  کے مبارک نام کی قسم اٹھانا سراسر بے ادبی اور گستاخی ہے جس سے ہرکلمہ گو مسلمان کو   بصد درجہ   احتیاط  برتنی   چاہیے۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"و) ثانيها (لغو) لا مؤاخذة فيها إلا في ثلاث طلاق وعتاق ونذر أشباه، فيقع الطلاق على غالب الظن إذا تبين خلافه، وقد اشتهر عن الشافعية خلافه (إن حلف كاذبا يظنه صادقا) في ماض أو حال فالفارق بين الغموس واللغو تعمد الكذب، وأما في المستقبل فالمنعقدة وخصه الشافعي بما جرى على اللسان بلا قصد، مثل لا والله وبلى والله ولو لآت

قوله وخصه الشافعي إلخ) اعلم أن تفسير اللغو بما ذكره المصنف هو المذكور في المتون والهداية وشروحها. ونقل الزيلعي أنه روي عن أبي حنيفة كقول الشافعي. وفي الاختيار أنه حكاه محمد عن أبي حنيفة، وكذا نقل في البدائع الأول عن أصحابنا. ثم قال: وما ذكر محمد على أثر حكايته عن أبي حنيفة أن اللغو ما يجري بين الناس من قولهم لا والله وبلى والله فذلك محمول عندنا على الماضي أو الحال، وعندنا ذلك لغو. فيرجع حاصل الخلاف بيننا وبين الشافعي في يمين لا يقصدها الحالف في المستقبل. فعندنا ليست بلغو وفيها الكفارة. وعنده هي لغو ولا كفارة فيها اهـ"

(کتاب الأیمان: ج:3، ص:706، ط:ایچ ایم سعید)

قسم کا کفارہ

 قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔ اور اگر  کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے ،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔

﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 89)۔

یمین منعقدہ

 مستقبل میں کسی کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے والا شخص اگر عادت  کی بنا  پر بھی قسم کے الفاظ استعمال کرے گا تو قسم منعقد ہوجائے  گی اور  خلاف  ورزی کی صورت میں کفارہ لازم ہوگا۔ عادت والے شخص کے حق میں جو قسم لغو ہوتی ہے،  وہ صرف زمانه ماضی اور حال کے ساتھ خاص ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال: أشهد أن لا أفعل كذا، أو أشهد بالله، أو قال: أحلف، أو أحلف بالله، أو أقسم، أو أقسم بالله، أو أعزم، أو أعزم بالله، أو قال: عليه عهد، أو عليه عهد الله أن لا يفعل كذا، أو قال: عليه ذمة الله أن لا يفعل كذا يكون يمينا"

(کتاب الایمان فصل اول ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۳،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"و) ثانيها (لغو) لا مؤاخذة فيها إلا في ثلاث طلاق وعتاق ونذر أشباه، فيقع الطلاق على غالب الظن إذا تبين خلافه، وقد اشتهر عن الشافعية خلافه (إن حلف كاذبا يظنه صادقا) في ماض أو حال فالفارق بين الغموس واللغو تعمد الكذب، وأما في المستقبل فالمنعقدة وخصه الشافعي بما جرى على اللسان بلا قصد، مثل لا والله وبلى والله ولو لآت

قوله وخصه الشافعي إلخ) اعلم أن تفسير اللغو بما ذكره المصنف هو المذكور في المتون والهداية وشروحها. ونقل الزيلعي أنه روي عن أبي حنيفة كقول الشافعي. وفي الاختيار أنه حكاه محمد عن أبي حنيفة، وكذا نقل في البدائع الأول عن أصحابنا. ثم قال: وما ذكر محمد على أثر حكايته عن أبي حنيفة أن اللغو ما يجري بين الناس من قولهم لا والله وبلى والله فذلك محمول عندنا على الماضي أو الحال، وعندنا ذلك لغو. فيرجع حاصل الخلاف بيننا وبين الشافعي في يمين لا يقصدها الحالف في المستقبل. فعندنا ليست بلغو وفيها الكفارة. وعنده هي لغو ولا كفارة فيها اهـ"

(کتاب الایمانج نمبر ۳ ص نمبر ۷۰۶،ایچ ایم سعید)

یمین غموس

 مذکورہ بندے نے جو جھوٹی قسم کھائی ہے وہ فقہی اصطلاح میں یمین غموس کہلاتی ہے، اس جھوٹی قسم کا حکم یہ ہے کہ قسم کھانے والا شدید گناہ گار ہوتا ہے، کیوں کہ ایسا شخص  اللہ رب العزت کا نام استعمال کرکے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر جھوٹ کہتاہے ،لہذا مذکورہ بندے کو چاہیے کہ سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ جھوٹی قسم کھانے سے بچے، جھوٹی قسم کھانے کی وجہ سے اس پر کوئی کفارہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے حسبِ استطاعت کچھ صدقہ دے دے تو بہتر ہے،تا کہ اللہ پاک کی ناراضگی ا ور غضب کو صدقہ ٹھنڈا کر دے ، کم کر دے،نیز آئندہ  نا محرم لڑکیوں کے ساتھ تعلقات نہ رکھے یہ کبیرہ گناہ ہے

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا النضر، أخبرنا شعبة، حدثنا فراس،، قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس".

(صحيح البخاري،  كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 8/ 137، ط:   دار طوق النجاة)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" أما يمين الغموس فهي الكاذبة قصدا في الماضي والحال على النفي أو على الإثبات وهي الخبر عن الماضي أو الحال فعلا أو تركا متعمدا للكذب في ذلك مقرونا بذكر اسم الله تعالى نحو أن يقول: والله ما فعلت كذا وهو يعلم أنه فعله، أو يقول: والله لقد فعلت كذا وهو يعلم أنه لم يفعله، أو يقول: والله ما لهذا علي دين وهو يعلم أن له عليه دينا فهذا تفسير يمين الغموس."

(كتاب الأيمان،في أنواع اليمين،3/ 3 ،ط: دار الكتب العلمية)

Friday 26 July 2024

فاسق کو سلام میں پہل کرنا

 اگر کوئی شخص اعلانیہ یعنی کھلم کھلا   فسق (کبیرہ گناہوں )کا ارتکاب کرتا ہے تو ایسے شخص کو  سلام کرنے میں پہل کرنا  مکروہ ہے، لیکن اگر وہ سلام میں پہل کرے تو جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اعلانیہ فسق کا اظہار نہ کرتا ہو تو اسے سلام کرنے میں پہل کرنا مکروہ  نہیں ہے، اسی طرح اگر سلام میں پہل کرنے سے فاسق کو فسق سے ہٹاکر صلہ رحمی اور دین کی طرف لانا مقصود ہو تو بھی  فاسق کو سلام کرنا مکروہ نہیں ہوگا، اس ساری تفصیل میں رشتہ دار اور اجنبی کا ایک ہی حکم ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 412)

 فلا يسلم ابتداء على كافر لحديث «لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه» رواه البخاري وكذا يخص منه الفاسق بدليل آخر، وأما من شك فيه فالأصل فيه البقاء على العموم حتى يثبت الخصوص، ويمكن أن يقال إن الحديث المذكور كان في ابتداء السلام لمصلحةالتأليف ثم ورد النهي اهـ فليحفظ.ولو سلم يهودي أو نصراني أو مجوسي على مسلم فلا بأس بالرد (و) لكن (لا يزيد على قوله وعليك) كما في الخانية

 (قوله وكذا يخص منه الفاسق) أي لو معلنا وإلا فلا يكره كما سيذكره (قوله وأما من شك فيه) أي هل هو مسلم أو غيره وأما الشك بين كونه فاسقا أو صالحا فلا اعتبار له بل يظن بالمسلمين خيرا ط (قوله على العموم) أي المأخوذ من قوله صلى الله تعالى عليه وسلم «سلم على من عرفت ومن لم تعرف» ط (قوله إن الحديث) أي الأول المفيد عمومه شمول الذمي (قوله لمصلحة التأليف ) أي تأليف قلوب الناس واستمالتهم باللسان والإحسان إلى الدخول في الإسلام (قوله ثم ورد النهي) أي في الحديث الثاني لما أعز الله الإسلام (قوله فلا بأس بالرد) المتبادر منه أن الأولى  عدمه ط لكن في التتارخانية، وإذا سلم أهل الذمة ينبغي أن يرد عليهم الجواب وبه نأخذ.(قوله ولكن لا يزيد على قوله وعليك) لأنه قد يقول: السام عليكم أي الموت كما قال بعض اليهود للنبي - صلى الله عليه وسلم - فقال له " وعليك " فرد دعاءه عليه وفي التتارخانية قال محمد: يقول المسلم وعليك ينوي بذلك السلام لحديث مرفوع إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا سلموا عليكم فردوا عليهم» "

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 415)

ويكره السلام على الفاسق لو معلنا وإلا لا

 (قوله لو معلنا) تخصيص لما قدمه عن العيني؛ وفي فصول العلامي: ولا يسلم على الشيخ المازح الكذاب واللاغي؛ ولا على من يسب الناس أو ينظر وجوه الأجنبيات، ولا على الفاسق المعلن، ولا على من يغني أو يطير الحمام ما لم تعرف توبتهم ويسلم على قوم في معصية وعلى من يلعب بالشطرنج ناويا أن يشغلهم عما هم فيه عند أبي حنيفة وكره عندهما تحقيرا لهم

زکوٰۃ کی رقم سے مریض کا علاج کرانا

 زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق ِ زکوٰۃ  شخص  (یعنی  ایسا  غریب آدمی  جو نصاب  کے بقدر رقم یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنے سامان کا  مالک نہ ہو  اور  نہ ہی سید، ہاشمی اور عباسی ہو )  کو بغیر عوض کے مالک بنانا  ضروری ہے، مستحق زکوٰۃ شخص کو  مالک بنائے  بغیر  زکوۃ ادا نہیں ہوتی، لہذا  صورتِ مسئولہ میں زکاۃ کی رقم سے کسی مریض کو مالک بنائے بغیراس کا  علاج کروانا جائز نہیں ہے،تاہم زکاۃ کی رقم سے دوائی وغیرہ خرید کر مریض کو دینا یا مستحق کو رقم کا مالک بنانے کے بعد اس رقم  سے علاج کروانا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذلك إذا اشترى بالزكاة طعاما فأطعم الفقراء غداء وعشاء ولم يدفع عين الطعام إليهم لا يجوز لعدم التمليك."

(كتاب الزكاة،فصل في ركن الزكاة، ج:2، ص:39، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"لو أطعم يتيما بنيتها لا يجزئه لعدم التمليك إلا إذا دفع له الطعام كالكسوة."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة،بناء المسجد وتكفين ميت وقضاء دينه وشراء قن من الزكاة، ج:2، ص:261، ط: دار الكتاب الاسلامي

بکرے کا صدقہ

 صدقہ کے لیے شریعت نے کوئی خاص صورت مقرر نہیں کی، جس صورت میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو،  اسے اختیار کرلیا جائے۔ اور یہ ضرورت مندوں کے احوال کے اعتبار سے ہے، اسی طرح اوقات کے اعتبار سے بھی مختلف ہوسکتاہے۔ 

عام حالات میں نقد رقم ہی بہتر ہےتاکہ وہ اپنی ضرورت پوری کر سکے،   تاہم اگر کسی جگہ کھانے کی ضرورت ہو اور وہاں جانورذبح کرکے کھلادیا جائے، تب بھی درست ہے۔ 

جانور کو ذبح کرکے لوگوں پر صدقہ کرنے کے بارے حدیث شریف میں آتا ہے کہ: 

"عن أبي قلابة، عن أبي المليح، قال: قال نبيشة: نادى رجل رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إنا كنا نعتر عتيرة في الجاهلية في رجب فما تأمرنا؟ قال: اذبحوا لله في أي شهر كان، وبروا اللہ عز وجل، وأطعموا".

(سنن أبي داود ، کتاب الضحایا، باب في العتیرۃ،ت: محيي الدين عبد الحميد3/ 104ط:المکتبۃ العصریۃ،بیروت)

ترجمہ:"  ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو آواز لگائی  کہ ہم جاہلیت میں رجب میں قربانی کرتے تھے، اب آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: کسی بھی مہینے میں اللہ کے نام پر جانور ذبح کرو، اللہ تعالی کی اطاعت کرو اور لوگوں کو کھلاؤ۔"

اگر جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کر کے اس کا گوشت غریبوں کو دے دے ، تب بھی مقصد حاصل ہوجاتا ہے، اور اس میں کالے  رنگ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے،  مگرجانور کی قیمت کا صدقہ کرنے میں  زیادہ فضیلت ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں مال سے فقیر کی ہر قسم کی حاجت پوری ہوتی ہے۔

 ملحوظ رہے کہ   اگر جانور کے ذبح سے مقصود فقط خون بہاناہو اور یہ نیت ہو کہ جان کے بدلہ جان چلی جائے یہ رواج درست نہیں، البتہ ذبح کرکے اس کا گوشت فقراء ومساکین میں تقسیم کرنامقصود ہوتویہ درست ہے۔لیکن صدقہ کی یہ صورت بھی لازم نہیں، لہذا ذبح کے بدلہ نقدرقم یادیگر اشیائے ضرورت فقراء ومساکین کو دینابھی جائز ہے۔

Thursday 25 July 2024

بیٹی سے زناکرنےوالے کا نکاح باقی رہاکہ نہیں

  اگر باپ بیٹی سے زنا کرے تو  اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہو گی، شوہر پر اپنی بیوی   ہمیشہ کے   لیے حرام ہوجائے گی ، اور میاں بیوی میں ازدواجی تعلق قائم کرنا حلال نہیں رہے گا ، لیکن نکاح نہیں ٹوٹے گا، برقرار ہوگا۔ اس  لیے یہ عورت اس واقعہ کے بعد اس وقت تک دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی  جب تک کہ درج ذیل دو باتوں میں سے کوئی ایک بات نہ پائی جائے :

الف :                       شوہر بیوی کو متارکت کے ذریعہ علیحدہ نہ کرے یعنی:  شوہر اپنی زبان سے کہہ دے کہ : ’’ میں نے تجھے چھوڑدیا ‘‘   اس کے بعد پھر عدت ( تین ما ہواری ) گزر جائے تو اب وہ دوسری جگہ نکاح کی مجاز ہوگی ۔

ب :                                  اگر شوہر نہ چھوڑے ،  لیکن عورت مسلمان عدالت میں مقدمہ دائر کرے اور گواہوں کے ذریعہ واقعہ کے ثبوت پر عدالت ان میں تفریق کا فیصلہ کردے تو  عدت کے بعد وہ عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔ اس کارروائی کے بغیر اس عورت کے  لیے دوسرا نکاح کبھی بھی حلال نہ ہوگا ۔

اور  باپ بیٹی کا اگرچہ رشتہ برقرار ہے، تاہم مذکورہ شخص کے ساتھ بیٹی کا رہنا اب  درست نہیں۔

الدر المختار  میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام."

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب النكاح، فصل في المحرمات (3/ 32)، ط.  سعيد)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"و بحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة."

حاملہ بیوی سے صحبت کرنے کی مقدار

 حاملہ بیوی سے صحبت کرنے کی ممانعت نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی مدت متعین ہے، البتہ اگر کوئی  طبیب یا ڈاکٹر    حالت حمل میں صحبت کرنے سے منع کرے تو پھر اجتناب کرنا بہتر ہے۔

شرح مسند أبي حنيفةمیں ہے:

"(عن نافع عن ابن عمر قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن توطأ الحبالى) بفتح أي عن مجامعة الحوامل من الأسارى أو غيرهن (حتى يضعن ما في بطونهن) أي من أولادهن فإن الاستبراء والعدة لا تحصل إلا بوضعهن، وأما ‌أزواجهن فيجوز لهم جماعهن، والنهي لئلا يسقي ماءه زرع غيره."

(حديث وطء الحامل، ج:1، ص:190، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

عورت کے لیے چاندی کی انگوٹھی کی مقدار

 عورت کے لیے سونے چاندی کی انگوٹھی اور زیورات کا استعمال جائز ہے،اس میں وزن کی کوئی قید نہیں ہے ،البتہ  مرد کےلیے  سونا ،چاندی کےکسی بھی قسم کے زیورات استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ،مرد صرف چاندی کی انگوٹھی استعمال کرسکتا ہے اور ایک مثقال  سے کم  وزن چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے حلال اور جائز ہے۔ایک مثقال  ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) ہوتا ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولا يتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة ۔۔۔ (ولا يتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ۔۔۔ ولا يزيده على مثقال."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج؛6،ص:358،سعید)

غیرمسلموں کواسلامی دعوت دینے کے لیے مدعو کرنا

 اسلام کی دعوت  اورتعلیم حاصل  کرنے  کے لیے غیرمسلم ( جب کہ ان کےاعضاء اور کپڑے ظاہری طور پر پاک ہوں) مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں ،نیزپروجیکٹر کے ذریعہ غیر مسلموں کو اسلامی تعلیم دینے کی اجازت ہے ،بشرطیکہ اس میں  جاندار کی تصویر یا کوئی اور شرعی خرابی  نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم ‌تصوير ‌الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى."

(کتاب الصلوۃ ، باب مایفسد الصلوۃ و مایکرہ فیها جلد 1 ص: 647 ط: دارالفکر)

 الموسوعة الفقهية  میں ہے:

"وقال الحنفیة : لایمنع الذمي من دخول الحرم، ولایتوقف جواز دخوله علی إذن مسلم ولو کان المسجد الحرام، یقول الجصاص في تفسیر قوله تعالیٰ : ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِكوْنَ نَجَسٌ فَلاَیَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ﴾ یجوز للذمي دخول سائر المساجد".

( الموسوعة الفقهية ۱۷ ؍ ۱۸۹ الکویت )

پامیرنام رکھنا

 پا میر کا لغوی معنی ہے مرتفع میدان  یا وادی ، یا  "پہاڑ کی چوٹی کا زیریں حصہ" یہ نام رکھنا درست نہیں ہے،نیز بہتر یہ ہے کہ  انبیاء کرام ،صحابہ وصالحین کے ناموں میں سے کوئی نام رکھ لیا جائے ۔

سنن أبی داود میں ہے:

"عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم، وأسماء آبائكم، فأحسنوا أسماءكم."

(كتاب الأدب، باب في تغيير الأسماء،٢٨٧/٤، ط: المكتبة العصرية)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا تم اچھے اچھے نام رکھو۔"

اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں ہے:

"پا میر" وسطی ایشیاء کے ایک پہاڑی سلسلے کا نام ہے اس نام کا اشتقاق و جہ تسمیہ پائے ِمیر سے بتایا جاتاہے جس کا  لغوی معنی  ہے "پہاڑ کی چوٹی کا زیریں حصہ."

(اردودائرہ معارف اسلامیہ،ج:5،ص:575)

اردو انسائیکلو پیڈیا میں ہے: 

"پامیر  لغوی معنی" مرتفع میدان"  وسطی  ایشیاء جمہوریہ تاجکستان کوہستانی  سطح مرتفع جس سے دنیا کی چھت کہا جاتاہے."

(اردو انسائیکلو پیڈیا،ص:404،ط:فیروز سنز)

پلاٹ پر زکوۃ

 آپ نے یہ پلاٹ ذاتی گھر بنانے کی غرض سے  لیا ہے تو پھر  ادا شدہ قسطوں پر زکوۃ واجب نہیں۔

الدر المختار میں ہے:

’’(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية)؛ لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقاً كثيابه أو تقديراً كدينه (نام ولو تقديراً) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه (فلا زكاة على مكاتب) ... (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة.

 (قوله: نام ولو تقديراً) النماء في اللغة بالمد: الزيادة، والقصر بالهمز خطأ، يقال: نما المال ينمي نماء وينمو نموا وأنماه الله تعالى، كذا في المغرب. وفي الشرع: هو نوعان: حقيقي وتقديري؛ فالحقيقي الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات، والتقديري تمكنه من الزيادة بكون المال في يده أو يد نائبه، بحر‘‘.

(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ، 259/2، سعید)

بیوہ کو زکوٰۃ دینا

 زکاۃ  اس شخص کو دی جاسکتی ہے  جو  غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے  پاس ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔

لہذابیوہ عورت نصاب کے بقدر  رقم کی مالک نہ ہو ،اور  اس کے شوہر کے ترکہ میں  بھی اس کے حصے میں آنے والی  رقم   اس قدر نہ ہو  کہ  جس سے وہ نصاب کے(ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے) بقدر رقم مالک ہوجائے تو وہ مستحق زکاۃ ہے، اس کو زکاۃ دینا جائز ہوگا، اگرچہ وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے برسرروزگار ہو


بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".


بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا

 بنو ہاشم کو زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے، اوربنو ہاشم سے مراد حضرت علی، حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل اور حضرت حارث رضی اللہ عنہم کی اولاد ہے، ان میں سے کسی کی بھی اولاد کو زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ بنو ہاشم کے بقیہ خاندان کی اولاد کو زکوۃ دینا جائز ہے ،مثلاً ابو لہب کی اولاد وغیرہ۔

آلِ علی میں چوں کہ کوئی تخصیص نہیں ہے؛ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کو زکوۃ کی رقم دینا مطلقاً جائز نہیں ہو گا۔

لہذا  اگر اعوان برادری کا سلسلہٴ نسب بہ واسطہ محمد بن الحنفیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے، اور اعوان برادری کے پاس اس سلسلہ میں مستند شجرہٴ نسب بھی موجود ہے تو یہ برادری سادات سے شمار ہوگی اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کو زکوة دینا جائز نہ ہوگا اور نہ ہی کسی دوسری برادری کا انھیں زکوة دینا جائز ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 189):

"ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج."

زکوٰۃ کی مد میں ملے ہوئے سامان کو بیچنا

 جس کو زکوۃ وغیرہ میں کوئی چیز مل جائے،تو وہ اُس چیزکا مالک بن جاتا ہے، اور اسے اس میں  تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہوتاہے ، چاہے توخود استعمال کرے ،یا فروخت کرے یا کسی دوسرے کو ہبہ کرے ،کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں مستحق  زکوۃ کو زکوۃ  کی مد میں راشن وغیرہ  ملنے کی صورت میں اس کے لیے  آگے بیچنا جائز ہے۔اور اسی طرح استطاعت رکھنے والے کےلیے زکوۃ کا مال خریدناجائز ہے، کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"للمالك أن یتصرف في ملكه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعوي، ج: 6، ص: 264، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم.

وفي الرد: (قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة فيه؛ لأن ملكه إياه عن زكاة ماله."

(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 345، ط: سعيد)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن قتادة، سمع أنس بن مالك، قال: أهدت بريرة إلى النبي صلى الله عليه وسلم لحماً تصدق به عليها، فقال: «هو لها صدقة، ولنا هدية»."

(كتاب الزكاة، باب إِباحة الهدية للنبي صلى الله عليه وسلم ولبني هاشم وبني المطلب وإِن كان المهدي ملكها بطريق الصدقة...، ج: 2، ص: 700، رقم: 2485، ط: بشري)

زکوٰۃ یاصدقہ فطرکی رقم ضائع ہوجائے تو کیاکرے

 اگر زکات  اور صدقۃ الفطر کی رقم کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو زکات  اور صدقۃ الفطرساقط نہیں ہوتے بلکہ اتنی رقم الگ سے دینی ہو گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"ولايخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء.(قوله: ولايخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لاتسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثاً عنه، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي؛ لأن يده كيد الفقراء، بحر عن المحيط".

(کتاب الزکاۃ، ج: ۲، صفحہ: ۲۷۰، ط: ایچ، ایم، سعید)

مسجد بنانے کے لیے جمع رقم پر زکوۃ

 مسجد بنانے کے لیے جمع  کی گئی  رقم پر بھی زکات  لازم ہے،  جب تک کہ وہ رقم آدمی کی ملکیت میں موجود ہو،لہذا آپ کے پاس جمع کردہ مذکوہ رقم تنہا یا دوسرے اموال کے ساتھ مل کر نصاب کے برابر ہے  یا آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں تو چوں کہ آپ ہی اس رقم کے مالک ہیں؛ ا س لیے اس  رقم کی زکات  ادا کرنا آپ پر لازم ہے، چاہے رقم کو مسجد بنانے ، یا مکان بنانے کی نیت سے جمع کررکھا ہو یا تجارت وغیرہ کی نیت سے،نقد رقم کی زکاۃ بہرصورت لازم ہے ۔

البتہ اگر دوسروں سے لے کر رقم جمع کی ہو تو دوسرے لوگوں کے  مال میں زکات  لازم نہیں ہے، کیوں کہ یہ رقم مسجد کے لیے چندہ دینے کے بعد ان کی ملکیت سے نکل چکی ہے

نکاح میں کفاءت

 احناف کے نزدیک نکاح میں کفاءت کا اعتبار نسب، نسل، اسلام، آزادی، مال ودولت، دیانت اور پیشہ میں ہے۔  (فتاوی عالمگیری ج ۱/ ص۲۹۰)

یعنی زوجین کے درمیان ذات، برادری، دِین داری، مال داری، آزادی اور  پیشہ وغیرہ میں یکسانیت ہونی چاہیے؛ تاکہ نکاح کا مقصد پورا ہوسکے۔ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  لَاتَنْکِحُوْ النِسَاءَ إلاَّ مِنَ الْأکَفَاءِ“گویا ذات برادری میں بھی برابری کا اعتبار شریعت نے کیا ہے۔  علامہ کاسانی نے "بدائع الصنائع" میں اس کے ثبوت اور معتبر ہونے پر ایک تفصیلی حدیث پیش کرتے ہوئے اپنی رائے کا بھی اظہار کیا ہے، لکھتے ہیں:

"فماتعتبر فیه الکفائة أشیاء، منھا النسب، والأصل فیه قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم: قریش بعضھم أکفاء لبعض، و العرب بعضھم أکفاء لبعض، حي بحي، و قبیلة بقبیلة، والمولي بعضھم أکفاء لبعض رجل برجل؛ لأن التفاخر و التعییر یقعان بالأنساب، فتلحق النقیصة بدنائة النسب فتعتبر فیه الکفاءة."

 (بدائع الصنائع ج۲ص ۳۱۹)

حدیثِ مبارک میں ہے:

«إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد».

(صحيح مسلم (2/ 754) 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (2/ 265):

" (قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لايجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لاتحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»".

Wednesday 24 July 2024

زکوٰۃ کن کودیناجائز

 اپنے اصول (والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع (اولاد، اور ان کی نسل یعنی پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ) کو اور اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کو زکات دینا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار مثلًا بھائی، بہن، چاچا، پھوپھی، ماموں خالہ وغیرہ اور ان کی اولاد  کو زکاۃ دینا جائز ہے (بشرطیکہ مستحقِ زکات ہوں)، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے؛ اس لیے کہ اس میں زکات کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے، اسی طرح بہو اور داماد کو بھی زکات دینا جائز ہے۔

 زکاۃ  اس مسلمان عاقل بالغ شخص(اپنے اصول و فروع زوجین کے علاوہ)کو دی جاسکتی ہے  جس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر  رقم نہ ہو، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکات لینا جائز ہے، اور اس کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے  ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس کو زکات دینا اور اس کے لیے زکات لینا جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 49):

"ومنها: أن لاتكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكًا من الفقير من كل وجه بل يكون صرفًا إلى نفسه من وجه".

غریب نابالغ ناسمجھ کوزکات دینا

 اگر کسی غریب آدمی کا نابالغ بچہ سمجھ دار ہو اور زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینا درست ہے۔ اور اگر نابالغ بچہ ناسمجھ ہو، مال پر قبضہ کرنا نہ جانتا ہو یا والد مال دار ہو اور بچے کا خرچہ خود اٹھاتا ہو تو اس صورت میں ایسے بچے کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوگا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 356):

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز."

وفي الرد:

"(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."

غریب نابالغ سمجھدار کوزکات دینا

 اگر کسی غریب آدمی کا نابالغ بچہ سمجھ دار ہو اور زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینا درست ہے۔ اور اگر نابالغ بچہ ناسمجھ ہو، مال پر قبضہ کرنا نہ جانتا ہو یا والد مال دار ہو اور بچے کا خرچہ خود اٹھاتا ہو تو اس صورت میں ایسے بچے کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوگا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 356):

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز."

وفي الرد:

"(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."

چچا اور پھوپی کو زکوٰۃ دینا

 اپنے اصول (والدین، دادا، نانا وغیرہ) وفروع (اولاد، ان کی نسل) کو  اور اسی طرح بیوی کو زکاۃ  دینا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار چاچا، چچازاد بھائی، پھوپھی اور ان کی اولاد اگر مستحقِ زکاۃ ہو تو ان کو زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے؛ اس لیے کہ اس میں زکاۃ کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔

ملحوظ رہے کہ زکاۃ  اس شخص کو دی جاسکتی ہے  جو  غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے  ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے

سوتیلی بیٹی کو زکوٰۃ دینا اور اس سے پردہ کا حکم

 1.  مذکورہ شخص  نے جب  اس لڑکی کی کفالت اپنے ذمہ لے لی  تو اس کفالت کی وجہ سے  مذکورہ لڑکی کے جو  واجبات اس شخص کے ذمے  لازم ہو گئے ان واجبات  کو  تو  زکات کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں،  البتہ اس کے علاوہ  اگر  زکات کی رقم دینا چاہے تو جائز ہو گا بشرطیکہ وہ اس کو اپنے ذاتی کاموں میں استعمال کرے۔

2.  اگر بیوی سے صحبت ہو گئی ہو تو بیوی کی بیٹی محرم بن جاتی ہے،  اور اس سے پردے  کا حکم نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 50):

"و يجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 30):

"(و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة ..."

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 129):

"(قوله: ولا إلى ولده وولد ولده وإن سفل) سواء كانوا من جهة الذكور أو الإناث و سواء كانوا صغارًا أو كبارًا؛ لأنه إن كان صغيرًا فنفقته على أبيه واجبة."

بھائی کو زکوٰۃ دینا

 بھائی اگر مستحقِ زکات ہو (یعنی اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر ضرورت سے زائد رقم یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنا سامان نہ ہو اور وہ سید/ہاشمی نہ ہو) تو اس کو رقم کا مالک بنا کر زکات دی جاسکتی ہے، بلکہ دوسروں کے مقابلہ میں مستحق بھائی کو زکات دینا افضل ہے، نیز قرابت داروں کو زکات دینے میں دھرا اجر ملتا ہے: ایک زکات ادا کرنے کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ البتہ زبان سے زکات کا لفظ کہہ کر دینا ضروری نہیں ہے، کسی اور عنوان مثلاً ہدیہ وغیرہ کہہ کر بھی زکات دے سکتے ہیں، بشرط یہ کہ دیتے وقت زکات کی نیت ہو۔ نیز زکات میں مستحق کو زکات کی رقم کا مالک بنانا ضروری ہے، اس لیے مستحق بھائی کو بتائے بغیر یا اس کی اجازت کے بغیر زکات کی رقم سے اس کے گھر کے اخراجات یا اور کوئی ضرورت پوری کرنے سے زکات ادا نہیں ہوگی۔

آپ بھائی کو زکات کا بتائے بغیر یوں دے سکتے ہیں کہ یہ رقم آپ کے لیے ہے، یا آپ کو ہدیہ ہے، یا آپ کے ماہانہ اخراجات و راشن وغیرہ کے لیے ہے، اس سے زکات ادا ہوجائے گی، پھر وہ جہاں چاہے صرف کرے۔

ملحوظ رہے کہ اپنی اولاد اور ان کی اولاد (پوتا پوتی، نواسا نواسی، نیچے تک) کو اور اپنے والدین اور ان کے والدین (دادا دادی، نانا نانی، اوپر تک) کو زکات دینا جائز نہیں ہے، نیز شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو زکات نہیں دے سکتی، اِن رشتوں کے علاوہ باقی سب مستحق رشتہ داروں کو زکات دی جاسکتی ہے۔

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:190، ط: دار الفكر):

والأفضل في الزكاة والفطر والنذر، الصرف أولًا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته، كذا في السراج الوهاج."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار ) (ج:2، ص:346، ط: دار الفكر-بيروت):

"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة."

وفيه أيضًا (ج:6، ص:733):

"(نوى الزكاة إلا أنه سماه قرضا جاز) في الأصح لأن العبرة للقلب لا للسان."

وفيه أيضًا (ج:2، ص:344):

"يشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره."

زکوۃ کی رقم سے گھر تعمیر کرانا

 اگر آپ    زکوۃ کے مستحق ہیں ،یعنی آپ کی ملکیت میں ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی  ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم یا مالِ تجارت نہیں ہے، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  سید ، ہاشمی ہیں   ، تو آ پ کا زکوۃ لینادرست ہے ،اور آپ اس رقم کے مالک بن جائیں گے ،اور پھر اپنے مال کو جہاں چاہیں خرچ کر سکتے ہیں ،لہذامکان  تعمیر کرنا بھی اس زکوۃ کے مال سے جائز ہوگا۔ 

ملحوظ رہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر رقم آپ کی ملکیت میں موجود ہونے کی صورت میں  آپ کے لیے مزید زکات لینے کی  اس وقت تک اجازت نہیں ہوگی جب تک رقم خرچ ہوکر نصاب سے کم نہ رہ جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."

(الباب السابع في المصارف ،ج:1،ص:187 ،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

در ر الحکام میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء."

(الفصل الاول فی بیان بعض القواعد المتعلقۃ باحکام الاملاک،ج:3،ص:201،ط:دار الجيل)

سودی رقم سے غیر مسلم کا علاج کرانا

  حرام مال اگر اصل مالک یا اس کی موت کی صورت میں اس کے ورثاء  کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں ثواب کی نیت کے بغیر  فقراء پر  صدقہ کرنا واجب  ہوتا ہے،  کافر فقیر کو بھی ایسا مال دے سکتے ہیں، تاہم مسلمان فقراء پر صدقہ اولی ہے۔

  غیر  مسلم شخص اگر محتاج ہو تو ایسی صورت میں سودی رقم اسے دے سکتے ہیں؛ تاکہ وہ اپنا علاج کرائے بشرطیکہ سودی رقم اصل مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو، پس جن افراد سے یا ادارے سے سود وصول کیا ہو اگر ان کو لوٹانا ممکن ہو تو اصل افراد کو واپس کرنا شرعًا ضروری ہوگا۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"بنک کی سودی رقم غریب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غیرمسلم کو دینا جائز ہے؟

الجواب:

دے سکتے ہیں، مگر بہتر نہیں ہے، حاجت مند مسلمانوں کا حق مارنے کے مثل ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب"۔

( کتاب الزکاة، بعنوان: زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیر مسلم کو سپرد کرنا اور غیر مسلم کو زکوۃ اور سود کی رقم دینا، ۷ / ۱۸۱)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق". ( ١٢ / ١٧٢)

 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه".(٥ / ٩٩)

فتاوی شامی میں ہے:

لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ اهـ.

( كتاب الحضر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٣٨٥، ط: دار الفكر)

منحة الخالق لابن العابدين میں ہے:

وَيَجِبُ عَلَيْهِ تَفْرِيغُ ذِمَّتِهِ بِرَدِّهِ إلَى أَرْبَابِهِ إنْ عُلِمُوا وَإِلَّا إلَى الْفُقَرَاءِ."

(منحة علي البحر، كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ٢ / ٢١١، ط: دار الكتاب الإسلامي )

زکوٰۃ کی رقم سے غریبوں میں راشن تقسیم کرنا

 جس طرح مستحق زکوۃ شخص کو زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اسی طرح زکوۃ کی رقم سے راشن خرید کر اس کو مالک بنایا جا سکتا ہے، ایسا کرنے سے زکوۃ ادا کرنے والے کی زکوۃ ادا ہو جائے گی۔ البتہ جتنی رقم کا راشن خریدا گیا اور مستحق کو مالک بناکر دیا گیا، اتنی رقم کی زکاۃ ادا ہوگی، راشن خرید کر لانے اور منتقل کرنے کا کرایہ، راشن پیکج بنانے کے لیے مزدوروں کی اجرت وغیرہ زکاۃ کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں ہوگا، اگر ایسا کیا گیا تو جتنی رقم کرایہ وغیرہ میں صرف ہوگی اتنی زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك)  خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم 

(قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه، ولا يخفى أنه يشترط كونه فقيرا، ولا حاجة إلى اشتراط فقر أبيه أيضا لأن الكلام في اليتيم ولا أبا له فافهم (قوله كما لو كساه) أي كما يجزئه لو كساه ."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:257،سعید)

زکوٰۃ کے پیسے سے غریبوں کے لیے آروپلانٹ لگانا

 زکاۃ کی ادائیگی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ زکاۃ کی رقم کسی فقیر مستحق کو مالک بنا کر اس کے ہاتھ میں وہ رقم دی جائے، لہذا کسی ایسے مصرف میں زکاۃ کی رقم لگانا جس سے فائدہ تو غریب مستحق اٹھا رہے ہوں، مگر وہ رقم ان کی ملکیت میں نہیں دی جارہی ہو، اس طرح صرف کرنے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی، گو یہ بہت ہی ثواب کا کام ہے۔

صورتِ مسئولہ میں پانی کا پلانٹ لگانے کے لیے زکاۃ کی رقم استعمال کرنا درست نہیں ہے، بلکہ وہ رقم کسی فقیر مستحق کے ہاتھ میں دینا ضروری ہے اس کے بغیر وہ رقم زکاۃ میں شمار نہیں ہوگی۔

 آپ R.O پلانٹ لگاکر  غریبوں کے لیے صاف پانی کا انتظام کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت ہی نیک جذبہ ہے، اور اس پر بہت اجر کی امید ہے، لہٰذا اگر آپ کی استطاعت ہے تو نفلی صدقات یا عطیات سے یہ کام کروالیجیے یا دیگر اَصحابِ خیر کو متوجہ کردیجیے۔

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

" لايجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".

(1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف، ط: رشیدیه)

بیٹے کو زکوٰۃ دینا

 والد کے لیے اپنی زکات اپنے محتاج بیٹے کو دینا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 188):

"و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."