https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 9 February 2024

امام کی توہین

الجواب وباللہ التوفیق منہ المستعان وعلیہ التکلان

 (١)

 امام موصوف میں اگر شرعاً موجب کراہت کوئی بات نہیں ہے اوروہ اوصاف امامت سے متصف ہیں تو بلاوجہ ان کو ہٹانا نہیں چاہیے، امام کو مقرر کرنے اور معزول کرنے کا اختیار کمیٹی مسجد کوہے۔انتظامیہ کمیٹی اگرامام سے مطمئن ہےاور بے اطمینانی کی کوئی شرعی وجہ بھی نہیں ہےمثلااگر امام قرآن مجید صحیح نہ پڑھتا ہو یا اس کا عقیدہ صحیح نہ ہو یا وہ  یا دیگر منکرات ومعاصی کا ارتکاب کرتا ہو تو ان وجوہ واسباب کی بنا پر اسے معزول کیا جاسکتا ہے

صرف اس وجہ سے معزول کرنا کہ وہ تراویح میں قرآن مجید نہیں سنا سکتے درست نہیں۔  اگر گستاخی  کرنے والے مقتدی امام سے ناراضگی کی وجہ دینی یا شرعی بتاتے ہیں، اور اس امام کے مقتدی زیادہ ہوں  تو صرف ایک، دو یا دو ،تین مقتدیوں کا اعتراض اور ناراضگی کا اعتبار نہیں ہوگا،  عموماً مقتدی کسی نہ کسی بات پر امام سے ناراض ہوتے رہتے ہیں حالاں کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاشرعی وجہ کے طعن و تشنیع کرنا گستاخی کرنا تراویح میں قرآن مجید نہ سنانے کی بناپر تنگ کرنا درست نہیں

تراویح کے لئے کسی دیگر حافظ کا انتظام کیا سکتا ہے 

۔(٢)کسی عام مسلمان کو بھی برا  کہنا، بہت بڑا گناہ ہے ،اورامام مسجد کی توہین سے تو گناہ کی سنگینی میں کس درجہ اضافہ ہوجاتا ہے!امام کی توہین کبیرہ گناہ ہے،لہذا جو لوگ  بھی اس حرکت میں مبتلا ہیں ،ان کو چاہیے کہ امام سے معافی کے خواستگار ہوں،اور اگرامام صاحب سے واقعی کوئی  معقول شکایت ہے تو ادب واحترام کے دایرہ میں ان کے سامنے پیش کی جایے اور شریعت کی روشنی میں اس کا ازالہ کیا جایے

(٣)

مقتدی  امام سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ملامت کے مستحق ہیں، تاہم بہرصورت  ناراض ہونے کے باجود اس امام کے پیچھے  مخالفت کرنے والے مقتدیوں نے جو نمازیں ادا کی ہیں وہ درست ہیں ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 865):
"(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة".

وفيه أيضاً (3/ 866):
"(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [الأنعام: 37]" . 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):
"(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم".
الفتاوى الهندية (1/ 87):
"رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط"

امام کی توہین

 صورتِ مسئولہ میں امام سے اگر بغض  اور ناراضگی کسی دینی وجہ سے ہو یعنی امام فاسق، فاجر یا لاپرواہ  ہو، یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، یا وہ سنتوں  کی رعایت نہ کرتا ہو    اور مقتدی اس وجہ سے اس سے ناراض ہیں تو ایسی ناراضگی کا اعتبار ہے  اور  ایسے امام کی امامت مکروہ ہوگی، اور اگر ناراضگی دنیاوی دشمنی یا مخالفت کی وجہ سے ہو  یا اس میں نفس کو دخل ہو تو  ایسی ناراضگی کا اعتبار نہیں ہے اور اس امام کی امامت بالکل درست ہے،  بلکہ اس صورت میں مقتدی  امام سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ملامت کے مستحق ہیں، تاہم بہرصورت  ناراض ہونے کے باجود اس امام کے پیچھے جو نمازیں ادا کرنادرست ہے اور ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔

نیز یہ ملحوظ رہے کہ  اگر  مقتدی امام کی ناراضگی کی وجہ دینی یا شرعی بتاتے ہیں، اور اس امام کے مقتدی زیادہ ہوں  تو صرف ایک، دو یا دو ،تین مقتدیوں کا اعتراض اور ناراضگی کا اعتبار نہیں ہوگا، نیز اگر اعتراض کرنےوالے زیادہ ہوں لیکن وہ جاہل اور دین سے ناواقف لوگ ہوں تو ان کا بھی اعتبار نہیں ہوگا، ہاں علم وفضل والے لوگ بھی ان کا ساتھ دیں تو پھر اس امام کی امامت مکروہ ہوگی، ورنہ عموماً مقتدی کسی نہ کسی بات پر امام سے ناراض ہوتے رہتے ہیں حالاں کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاوجہ طعن و تشنیع کرنا یا اس کو تنگ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 865):
"(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة".

وفيه أيضاً (3/ 866):
"(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [الأنعام: 37]" . 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):
"(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم".
الفتاوى الهندية (1/ 87):
"رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط"
.فقط واللہ اعلم

Thursday 8 February 2024

امام کو قرآن نہ سنانے کی بناپر پریشان کرنا

 


الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذاتی مفاد اور کسی  غرض سے کسی مسجد کے امام کو جس سے کوئی شرعی اختلاف نہیں ہے، الگ یا معزول نہیں کیا جا سکتا یہ بہت بری بات ہے کہ معمولی سے  اختلاف یا ذاتی مفاد کو امام پر یا امامت پر اتارا جائے اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں سے بچا جائے کہ یہ حرکت غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے، اگر واقعی امام صاحب میں کوئی کمی ہے، تو ان کو بصد ادب واحترام معروف وسہل انداز میں تمام احترامات کے ساتھ متوجہ کر دینا چاہئے۔ بغیر وجہ شرعی کے موجود ہ امام کو معزول اور الگ کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عمر و بن الحارث بن المصطلق قال: کان یقال أشد الناس عذابا یوم القیامۃ إثنان إمرأۃ عصت زوجہا، وإمام قوم وہم لہ کارہون، قال ہناد: قال جریر: قال منصور: فسألنا عن أمر الإمام فقیل لنا: إنما عني بہذا الأئمۃ الظلمۃ، فأما من أقام السنۃ، فإنما الإثم علیٰ من کرہہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من أم قوماً وہم لہ کارہون‘‘: ج۱، ص: ۶۶،رقم:۳۵۹)
ولوأم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ، أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً (إلیٰ قولہ) وإن ہو أحق لا، والکراہۃ علیہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
وفي جامع الفصولین بغض عالمًا أو فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔…(جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون في مسائل کلمات الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص266اولا ًتو کسی  ایک عام مسلمان کو برا  کہنا، شرعی اعتبار سے بہت بڑا گناہ ہے،پھر جب سامنے مسجد کا امام ہو ،اور اس کے بارے میں غلط الفاظ منہ سے نکالے جائیں ،تو گناہ کی سنگینی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے،امامت کا مرتبہ تو وہ مرتبہ ہے ،کہ جس پر انبیاء ،خلفاء راشدین،اللہ کے نیک وکار لوگ فائز تھے،ایسے مبارک منصب پر جو شخص موجود ہو،اس کے بارے میں بلا وجہ نازیبا زبان استعمال کرناگناہ ہے،لہذا جو بھی لوگ اس حرکت میں مبتلا ہیں ،ان کو چاہیے کہ فورا پہلے امام سے جاکر معافی مانگیں،جو بھی گلے شکوے ہیں ،ان کو بیٹھ کر دور کیا جائے ،اور پھر اللہ کے سامنے بھی توبہ واستغفار کرے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص جو امام کو برا بھلا کہے،اس کو گالیاں دے،تو ایسے شخص کی نماز اس امام کے پیچھے ہوجائے گی ،اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ 

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"أن ‌اسم ‌الإمامة يتناول ما ذكرناه، فالأنبياء عليهم السلام في أعلى رتبة الإمامة، ثم الخلفاء الراشدون بعد ذلك، ثم العلماء والقضاة العدول ومن ألزم الله تعالى الاقتداء بهم، ثم الإمامة في الصلاة ونحوها."

(باب القول في بسم الله الرحمن الرحيم، ج:١، ص:٨٣، ط:دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

" ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده".

(باب احكام المرتدين، ج:٥، ص:١٣٤، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوٰی مفتی محمود میں ہے:

"س:کیافرماتےہیں علمائے دین دریں مسئلہ کہ ایک آدمی کی امام مسجد سے کافی عرصہ سے بول چال نہیں ہے،وجہ یہ ہوئی کہ دونوں میں جھگڑا صرف دنیاداری پرہے،اورباقی لوگوں نے دونوں کومنانے کی کوشش کی لیکن صلح نہیں ہوسکی،نہ امام مسجد مانتاہے ،نہ مقتدی مانتاہے،گزارش یہ ہے کہ اگرمقتدی اس امام کے پیچھےنمازپڑھ لے تونماز ہوسکتی ہے یانہیں؟

ج:شخص ِمذکور اگرامام ِمذکور کی پیچھے نمازپڑھے گاتو نمازاداہوجائےگی۔"

(باب الامامۃ، ج:2، ص:208، ط:جمعیت پبلیکیشنز)