https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 22 August 2023

القصيدة الدمشقية لنزارقباني

هذي دمشقُ وهذي الكأسُ والرّاحُ إنّي أحبُّ وبعـضُ الحـبِّ ذبّاحُ أنا الدمشقيُّ لو شرّحتمُ جسدي لسـالَ منهُ عناقيـدٌ وتفـّاحُ و لو فتحـتُم شراييني بمديتكـم سمعتمُ في دمي أصواتَ من راحوا زراعةُ القلبِ تشفي بعضَ من عشقوا وما لقلـبي –إذا أحببـتُ- جـرّاحُ الا تزال بخير دار فاطمة فالنهد مستنفر و الكحل صبّاح ان النبيذ هنا نار معطرة فهل عيون نساء الشام أقداح مآذنُ الشّـامِ تبكـي إذ تعانقـني و للمـآذنِ كالأشجارِ أرواحُ للياسمـينِ حقـوقٌ في منازلنـا وقطّةُ البيتِ تغفو حيثُ ترتـاحُ طاحونةُ البنِّ جزءٌ من طفولتنـا فكيفَ أنسى؟ وعطرُ الهيلِ فوّاحُ هذا مكانُ "أبي المعتزِّ" منتظرٌ ووجهُ "فائزةٍ" حلوٌ و لمـاحُ هنا جذوري هنا قلبي هنا لغـتي فكيفَ أوضحُ؟ هل في العشقِ إيضاحُ؟ كم من دمشقيةٍ باعـت أسـاورَها حتّى أغازلها والشعـرُ مفتـاحُ أتيتُ يا شجرَ الصفصافِ معتذراً فهل تسامحُ هيفاءٌ ووضّـاحُ؟ خمسونَ عاماً وأجزائي مبعثرةٌ فوقَ المحيطِ وما في الأفقِ مصباحُ تقاذفتني بحـارٌ لا ضفـافَ لها وطاردتني شيـاطينٌ وأشبـاحُ أقاتلُ القبحَ في شعري وفي أدبي حتى يفتّـحَ نوّارٌ وقـدّاحُ ما للعروبـةِ تبدو مثلَ أرملةٍ؟ أليسَ في كتبِ التاريخِ أفراحُ؟ والشعرُ ماذا سيبقى من أصالتهِ؟ إذا تولاهُ نصَّـابٌ ومـدّاحُ؟ وكيفَ نكتبُ والأقفالُ في فمنا؟ وكلُّ ثانيـةٍ يأتيـك سـفّاحُ؟ حملت شعري على ظهري فأتعبني ماذا من الشعرِ يبقى حينَ يرتاحُ

مردوعورت کے غسل میں فرق نہیں

غسل میں اصولی طور پر تو ایک ہی فرض ہے یعنی پورے جسم میں جہاں تک تکلیف ومشقت کے بغیر پانی پہنچ سکے وہاں تک پانی پہنچانا، لیکن فقہاء کرام نے اسے آسان اور منضبط کرنے کے لیے غسل کے تین فرائض بیان کیے ہیں: ۱-منہ بھر کر کلی یا غرارہ کرنا۔ ۲-ناک کی نرم ہڈی تک پانی چڑھانا۔ ۳- پورے بدن پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے۔ نیز غسل کرنے سے قبل ہی چھوٹا بڑا استنجا کرلینا چاہیے ، یعنی چھوٹی بڑی دونوں شرم گاہوں کو دھولیاجائے، اگرچہ ان پر کوئی نجاست نہ لگی ہو، اور اگر نجاست لگی ہو تو اس نجاست کو بھی دھولیاجائے ، پھر اگر جسم پر کہیں اور کوئی نجاست جیسے منی وغیرہ لگی ہو تو اس کو پاک کردیاجائے ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مرد و عورت دونوں کے غسل میں تین ہی فرائض ہیں، لہٰذا عورت کے لیے غسل میں انگلیوں پر کپڑا لپیٹ کر اس کپڑے سے شرم گاہ کو صاف کرنے کو فرض قرار دینا اور یہ کہنا کہ عورت کے غسل میں چار فرائض ہوتے ہیں، درست نہیں ہے، ہاں عورت کے لیے شرم گاہ کے خارجی حصے کو بھی دھونا چاہیے؛ کیوں کہ یہاں پانی پہنچانے میں حرج نہیں ہے، اسی بات کو فقہاءِ کرام نے صراحتًا ذکر کردیا ہے، جیسے کہ ناف میں پانی ڈالنے اور انگوٹھی پہنی ہو تو اس کے نیچے پانی پہنچانے وغیرہ کی تاکید بھی فقہاءِ کرام نے کی ہے، لیکن یہ سب چیزیں مستقل فرائض نہیں ہیں۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 151): "(وفرض الغسل) أراد به ما يعم العملي، كما مر، وبالغسل المفروض، كما في الجوهرة، وظاهره عدم شرطية غسل فمه وأنفه في المسنون، كذا البحر، يعني عدم فرضيتها فيه وإلا فهما شرطان في تحصيل السنة (غسل) كل (فمه) ويكفي الشرب عباً؛ لأن المج ليس بشرط في الأصح (وأنفه) حتى ما تحت الدرن (و) باقي (بدنه) لكن في المغرب وغيره: البدن من المنكب إلى الألية، وحينئذ فالرأس والعنق واليد والرجل خارجة لغةً داخلة تبعاً شرعاً (لا دلكه) لأنه متمم، فيكون مستحباً لا شرطاً، خلافاً لمالك (ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرةً كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلداً؛ لما في {فاطهروا} [المائدة: 6] من المبالغة (وفرج خارج)؛ لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولاتدخل أصبعها في قبلها، به يفتي. (قوله: وفرض الغسل) الواو للاستئناف أو للعطف على قوله: أركان الوضوء، والفرض بمعنى المفروض. والغسل بالضم اسم من الاغتسال، وهو تمام غسل الجسد، واسم لما يغتسل به أيضاً، ومنه في حديث ميمونة: "فوضعت له غسلاً" مغرب، لكن قال النووي: إنه بالفتح أفصح وأشهر لغةً، والضم هو الذي تستعمله الفقهاء، بحر. (قوله: ما يعم العملي) أي ليشمل المضمضة والاستنشاق فإنهما ليسا قطعيين؛ لقول الشافعي بسنيتهما. اهـ. ح. (قوله: كما مر) أي في الوضوء، وقدمنا هناك بيانه. (قوله: وبالغسل المفروض) أي غسل الجنابة والحيض والنفاس سراج فأل للعهد. (قوله: يعني إلخ) مأخوذ من المنح. قال ط: والمراد بعدم الفرضية أن صحة الغسل المسنون لاتتوقف عليهما، وأنه لايحرم عليه تركهما. وظاهر كلامه أنهما إذا تركا لايكون آتياً بالغسل المسنون، وفيه نظر؛ لأنه من الجائز أن يقال: إنه أتى بسنة وترك سنةً، كما إذا تمضمض وترك الاستنشاق. اهـ. أقول: فيه أن الغسل في الاصطلاح غسل البدن، واسم البدن يقع على الظاهر والباطن إلا ما يتعذر إيصال الماء إليه أو يتعسر كما في البحر، فصار كل من المضمضة والاستنشاق جزءًا من مفهومه فلاتوجد حقيقة الغسل الشرعية بدونهما، ويدل عليه أنه في البدائع ذكر ركن الغسل وهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج، ثم قسم صفة الغسل إلى فرض وسنة ومستحب، فلو كانت حقيقة الغسل الفرض تخالف غيره لما صح تقسيم الغسل الذي ركنه ما ذكر إلى الأقسام الثلاثة، فيتعين كون المراد بعدم الفرضية هنا عدم الإثم كما هو المتبادر من تفسير الشارح لا عدم توقف الصحة عليهما، لكن في تعبيره بالشرطية نظراً لما علمت من ركنيتهما، فتدبر. (قوله: غسل كل فمه إلخ) عبر عن المضمضة والاستنشاق بالغسل لإفادة الاستيعاب أو للاختصار كما قدمه في الوضوء، ومر عليه الكلام، ولكن على الأول لا حاجة إلى زيادة كل. (قوله: ويكفي الشرب عباً) أي لا مصاً، فتح، وهو بالعين المهملة، والمراد به هنا الشرب بجميع الفم، وهذا هو المراد بما في الخلاصة، إن شرب على غير وجه السنة يخرج عن الجنابة وإلا فلا، وبما قيل: إن كان جاهلاً جاز وإن كان عالماً فلا: أي لأن الجاهل يعب، والعالم يشرب مصاً كما هو السنة".(قوله: لأن المج) أي طرح الماء من الفم ليس بشرط للمضمضة، خلافاً لما ذكره في الخلاصة، نعم هو الأحوط من حيث الخروج عن الخلاف، وبلعه إياه مكروه، كما في الحلية".

Monday 21 August 2023

تجدید نکاح

فقہاء نے لکھا ہے کہ ناواقف لوگوں کو چاہیے کہ وہ مہینہ میں ایک یا دو مرتبہ نکاح کی تجدید کرلیا کریں کہ غلطی میں ان سے کوئی کفریہ کلمہ سرزد نہ ہوگیا ہو۔ صرف احتیاط کی بنا پر نکاح کی تجدید کی گئی ہو تو نیا مہر متعین کرنا ضروری نہیں ہے، اور اس نفسِ نکاح سے( جب کہ مہر میں اضافہ مقصود نہ ہو ) مہر بھی لازم نہیں ہوگا۔ لہٰذا اگر اپنی منکوحہ سے دوبارہ نکاح کا مقصد احتیاطًا تجدیدِ نکاح ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ عامی شخص کو یہ کرلینا چاہیے، اور اس سے پہلے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسی طرح اگر پہلے خفیہ نکاح کیا گیا (گویہ شرعًا بہت ہی ناپسندیدہ ہے)، اور بعد میں اعلانیہ طور پر نکاح کیا جارہاہو، تو اس کی بھی شرعًا اجازت ہے، اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 113): "[تنبيه] في القنية: جدد للحلال نكاحاً بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطاً اهـ أي لو جدده لأجل الاحتياط لاتلزمه الزيادة بلا نزاع، كما في البزازية". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 42): " والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرةً أو مرتين؛ إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير".

Sunday 20 August 2023

آستین چڑھاکر پائجامہ یاپینٹ کی مہری موڑ کرنماز پڑھنا

شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے رکھنا بقصدِ تکبر حرام، اور بلاقصدِ تکبر مکروہِ تحریمی (ناجائز)ہے، اگر غیر ارادی طور پر کبھی شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹک جائے تو معاف ہے، لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا یا شلوار ہی ایسی بنانا کہ پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹکتا رہے یہ ہر گز جائز نہیں ہے، اور یہ متکبرین کی علامت ہے، اور جب یہ فعل ہی متکبرین کی علامت ہے تو پھر یہ کہہ کر ٹخنوں کو چھپانا کہ نیت میں تکبر نہیں تھا ، شرعاً درست نہیں ہے، اور ٹخنوں کو ڈھانکنا نماز اور غیر نماز ہر حال میں ممنوع ہے، اور نماز میں اس کی حرمت مزید شدید ہوجاتی ہے، لہذا ایسا لباس ہی نہ بنایا جائے جس میں ٹخنے ڈھکتے ہوں، فقہاءِ کرام نے ایسا لباس سلوانے کو مکروہ لکھا ہے جس میں مرد کے ٹخنے چھپ جاتے ہوں۔اور ایسا لباس ہونے کی صورت میں نماز شروع کرنے سے پہلےشلوار یا پینٹ وغیرہ کو اوپر سے موڑ لینا چاہیے، ورنہ کم ازکم نیچے سے موڑلے۔ اس طرح کرنے سے اس گناہ سے نجات مل جائے گی جو شلوار وغیرہ کو نماز کے اندر ایسے ہی چھوڑ دینے سے ہوتا۔ شلوار یا پینٹ پاؤں کی جانب سے موڑنے میں لباس کی ہیئت تبدیل ہونے سے جو کراہت آتی ہے وہ کراہتِ تنزیہی ہے، جب کہ ٹخنے ڈھانپنا مکروہ تحریمی (ناجائز) ہے۔لہٰذا اگر کسی کی شلوار وغیرہ لمبی ہو تو اسے اوپر یا نیچے کی جانب سے موڑ دینا چاہیے، کیوں کہ ٹخنے ڈھکنے کی کراہت تحریمی اور شدید ہے، جو حکم کے اعتبار سے ناجائز ہے، اس کےمقابلے میں شلوار یا پینٹ کو نیچے کی جانب سے فولڈ کرنے کی کراہت کم ہے، اس لیےشلوار یا پینٹ لمبی ہو تو نماز سے پہلے اسے فولڈ کرلینا چاہیے۔ "إن الله تعالی لایقبل صلاة رجل مسبل". (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء في إسبال الإزار، النسخة الهندیة۲/۵۶۵، بیت الأفکار رقم:۴۰۸۶) "عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ صلی الله علیه وسلم: ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار". (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب ما أسفل من الکعبین ففي النار،۲/۸۶۱، رقم:۵۵۵۹) "عن أبي ذر عن النبي صلی الله علیه وسلم قال: ثلاثة لایکلمهم الله یوم القیامة: المنان الذي لایعطي شیئاً إلامنّه، والمنفق سلعته بالحلف والفاجر، والمسبل إزاره". (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار، النسخة الهندیة۱/۷۱، بیت الأفکار رقم:۱۰۶) "وینبغي أن یکون الإزار فوق الکعبین ..." الخ (الفتاوى الهندیة، کتاب الکراهية، الباب التاسع في اللبس، زکریا۵/۳۳۳) ’’مرقاة المفا تیح‘‘: "ولایجوز الإسبال تحت الکعبین إن کان للخیلاء، وقد نص الشافعی علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء ؛ لدلالة ظواهر الأحادیث علیها ، فإن کان للخیلاء فهو ممنوع منع تحریم". (۸/۱۹۸، کتاب اللباس) 2- آستین چڑھا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر رکعت نکل جانے کے خوف سے آستین نیچے کیے بغیر جماعت میں شامل ہوگیا اور کہنیاں کھلی رہ گئیں تو نماز کے دوران عملِ کثیر کے بغیر آستین نیچے کرلینی چاہیے، اور اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ ایک ہی رکن میں دونوں آستینیں نیچے نہ کرے، بلکہ مختلف ارکان کی ادائیگی میں حتی الامکان کم سے کم عمل کے ذریعے نیچے کردے، تو عملِ قلیل کی وجہ سے نماز پر اثر نہیں پڑے گا۔ حاشية رد المحتار على الدر المختار - (1 / 640): "(قوله :كمشمر كم أو ذيل ) أي كما لو دخل في الصلاة وهو مشمر كمه أو ذيله وأشار بذلك إلى أن الكراهة لاتختص بالكف وهو في الصلاة، كما أفاده في شرح المنية، لكن قال في القنية: واختلف فيمن صلى وقد شمر كميه لعمل كان يعمله قبل الصلاة أو هيئته ذلك ا هـ ومثله ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراك الركعة مع الإمام، وإذا دخل في الصلاة كذلك، وقلنا بالكراهة، فهل الأفضل إرخاء كميه فيها بعمل قليل أو تركهما؟ لم أره، والأظهر الأول؛ بدليل قوله الآتي: ولو سقطت قلنسوته فإعادتها أفضل، تأمل