https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday, 20 March 2025

 

"وتثبت حرمة المصاهرة بالنكاح الصحيح دون الفاسد، كذا في محيط السرخسي. فلو تزوجها نكاحا فاسدا لا تحرم عليه أمها بمجرد العقد بل بالوطء هكذا في البحر الرائق. وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير."

(کتاب النکاح ، الباب الثالث فی بیان المحرمات ، القسم الثانی المحرمات بالصهریة  جلد ۱ ص : ۲۷۴ ط : دارالفکر

نومولود کے کان میں اذان کا طریقہ

 ۔نومود کے کان میں اذان دینا سنت ہے، یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس بارے میں قولی وفعلی دونوں طرح کی احادیثِ مبارکہ موجودہیں۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے:

''حضرت عبیداللہ بن ابی رافع اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن بن علی کی ولادت کے وقت ان کے کان میں اذان دیتے ہوئے دیکھا جس طرح نماز میں اذان دی جاتی ہے''۔

مظاہر حق شرح مشکاۃ المصابیح میں علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

" اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے کان میں اذان دینا سنت ہے ۔ مسند ابویعلی موصلی میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطریق مرفوع( یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ) نقل کیا ہے کہ  " جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان دے اور بائیں کان میں تکبیر کہے، تو اس کو "ام الصبیان" (سوکڑہ کی بیماری)سے ضرر نہیں پہنچے گا'' ۔

2۔ نومولود کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہناسنت ہے۔ اور اس کاطریقہ یہ ہے کہ بچے کوہاتھوں پراٹھاکرقبلہ رخ کھڑے ہوکردائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے اورحسبِ معمول "حی علی الصلاۃ" کہتے وقت دائیں طرف اور "حی علی الفلاح" کہتے وقت بائیں طرف منہ پھیراجائے۔

شرح السنۃ میں ہے:

"روي أن عمر بن عبد العزيز كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي". (11/273)

3۔ بچہ اور بچی اس حکم میں یکساں ہیں ۔ یعنی دونوں کے لیے حکم یہ ہے کہ دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی جائے

سورہ انشقاق کا سجدۂ تلاوت

 نماز میں آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کےفوراً بعد  سجدہ واجب ہوجاتا ہے، اور اسی وقت سجدہ کرنا چاہیے، اور آیتِ سجدہ تلات کرنے کے بعد  آگے مزید تین آیات پڑھ لیں اور سجدہ نہیں کیا تو یہ سجدہ قضا شمار ہوگا، اوراس کے لیے پھر نماز کے اندر ہی سجدہ تلاوت بھی کرنا لازم ہوگا، اور  تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو بھی لازم ہوگا۔

آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد  تین آیات سے پہلے اگر رکوع کرلیا تو  رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرنے سے سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا، امام اگر رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرے تو مقتدیوں کو بھی رکوع میں سجدہ تلاوت کرنے کی نیت کرنی ہوگی، ورنہ مقتدیوں کا سجدہ ادا نہیں ہوگا، اس لیے امام کو رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت نہیں کرنی چاہیے، اور اگر آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد آگے  تین آیات  پڑھنے سے پہلے رکوع کیا  اور اس میں نیت نہیں کی تو اس کے بعد نماز کے سجدہ سے امام اور مقتدی دونوں کا سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا۔

 لیکن آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد آگے مزید تین آیات تلاوت کرنے کے بعد رکوع کیا تو اس میں نیت سے بھی سجدہ تلاوت ادا نہیں ہوگا اور نہ ہی نماز کے سجدہ سے ادا ہوگا، یعنی  نماز کےرکوع میں نیت کے ساتھ اور سجدہ میں نیت کے بغیر سجدہ تلاوت ادا ہونے کے لیے  "فور" (جلدی) شرط ہے،  اور "فور"  کا مطلب ہے کہ آیتِ سجدہ کے بعد مزید تین آیات نہ پڑھے۔  تاہم اس صورت سے دو سورتیں مستثنیٰ ہیں، (1)سورۂ انشقاق (2) سورۂ بنی اسرائیل، ان دو سورتوں میں اگر سورۃ ختم کرکے بھی رکوع میں نیت کرلی تب بھی سجدہ تلاوت ادا ہوجاتا ہے، اس لیے کہ ان دونوں سورتوں میں سورت ختم ہونے سے چند آیات پہلے ہی آیت سجدہ ہے ، تو یہ "فور" کے حکم میں ہی ہے۔ 

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں مذکورہ امام  کا "سورۃ انشقاق" پڑھ کر سورت ختم کرکے  رکوع میں سجدۂ تلاوت کی نیت کرلینے سے امام کا سجدہ تلاوت تو ادا ہوجائے گا، البتہ مقتدیوں کے سجدہ تلاوت ادا ہونے کے لیے ان کا بھی نیت کرنا ضروری ہے، اس لیے امام کو چاہیے کہ یا مقتدیوں کو بھی بتادے، ورنہ اس طرح کا معمول نہ بنائے؛ تاکہ لوگوں کو تشویش نہ ہو۔

باقی جو سجدہ تلاوت نماز میں پڑھا جائے تو اس کا سجدہ نماز ہی میں ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، اس کے بعد اس کی قضا نہیں ہوتی، اس لیے  مقتدیوں سے جو سجدہ قضا ہوگئے ہیں ان پر توبہ واستغفار کریں اور ان نماز وں کی قضا لازم نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 109، 110، 111):
"(وهي على التراخي) على المختار ويكره تأخيرها تنزيهاً، ويكفيه أن يسجد عدد ما عليه بلا تعيين ويكون مؤدياً وتسقط بالحيض والردة (إن لم تكن صلويةً) فعلى الفور لصيرورتها جزءاً منها ويأثم بتأخيرها ويقضيها ما دام في حرمة الصلاة ولو بعد السلام، فتح  ... (ولو تلاها في الصلاة سجدها فيها لا خارجها)، لما مر. وفي البدائع: وإذا لم يسجد أثم فتلزمه التوبة ... (وتؤدى بركوع وسجود) غير ركوع الصلاة وسجودها (في الصلاة وكذا في خارجها ينوب عنها الركوع) في ظاهر المروي، بزازية (لها) أي للتلاوة (و) تؤدى (بركوع صلاة) إذا كان الركوع (على الفور من قراءة آية) أو آيتين وكذا الثلاث على الظاهر، كما في البحر (إن نواه) أي كون الركوع (لسجود) التلاوة على الراجح (و) تؤدى (بسجودها كذلك) أي على الفور (وإن لم ينو) بالإجماع، ولو نواها في ركوعه ولم ينوها المؤتم لم تجزه ويسجد إذا سلم الإمام ويعيد القعدة.

Sunday, 16 March 2025

سورہ ص کی آیت سجدہ

 مشہور اور رائج تو یہ ہے کہ ’’سورۂ ص‘‘کی اس آیت پر سجدہ کیا جاتا ہے، یعنی اگر کوئی مذکورہ آیت پڑھے یا سنے، تو اس پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہے۔

"قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَیَبْغِیْ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِیْلٌ مَّا هُمْ وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ وَ خَرَّ رَاكِعًا وَّ اَنَابَ."

(سورۃ ص، الاٰیة: 24)

البتہ یہ سجدہ کب کیاجائے گا؟ تو علامہ شامی رحمہ اللہ نے یہ ذکر کیا ہے کہ ’’سورۂ ص‘‘ کا سجدہ اس سے اگلی آیت پر  کیا جائے گا، یعنی 

"فَغَفَرْنَا لَـه،  ذٰلِكَ ۖ وَاِنَّ لَـه ، عِنْدَنَا لَزُلْفٰى وَحُسْنَ مَاٰبٍ."

(سورۃ ص، الاٰیة: 25)

پرسجدہ کیا جائے گا، اور علامہ شامی علیہ الرحمہ نے اس قول کو راجح اور اصح قرار دیا ہے، اس اختلاف کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آیتِ سجدہ کا اصل سبب مکمل آیت(مضمون) ہے، یعنی جس آیت پر متعلقہ مضمون مکمل ہوتا ہے،  سجدۂ پر اسی آیت پر کیا جائے گا، یعنی اگر کسی آیت میں سجدۂ تلاوت مذکورہ ہے، لیکن اصل مضمون اس آیت کے دو یا تین آیتوں کے بعد مکمل ہوتا ہے، تو آیتِ سجدہ کی تلاوت کرنے یا سننے کے بعد سجدۂ تلاوت کرنے کے بجائے  جب متعلقہ مضمون اختتام پذیر ہوگا،  تب سجدۂ تلاوت کرنا بہتر ہے، کیوں کہ   آیتِ سجدہ پڑھنے یا سنتے  ہی فی الفور سجدہ کرنا ضروری نہیں ہے، کچھ تاخیر سےسجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور مذکورہ آیتِ سجدہ کا مضمون بعد والی آیت پر ختم ہوتا ہے، اسی وجہ سے علامہ شامی علیہ الرحمہ نے’’سورۂ ص‘‘ میں   ’’آیت نمبر:25 ‘‘ پر سجدہ کرنے کو اولیٰ قرار دیا ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"و (‌ص) عند قوله: {فاستغفر ربه وخر راكعا وأناب}."

(کتاب الصلوٰۃ، الباب الثالث عشر في سجود التلاوة، ج:1، ص:132، ط:رشیدیة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي ص عند - ’’وحسن مآب‘‘ (ص: 25)- وهو أولى من قول الزيلعي عند - ’’وأناب‘‘ - لما نذكره .................. والظاهر أن هذا الاختلاف مبني على أن السبب تلاوة آية تامة كما هو ظاهر إطلاق المتون وأن المراد بالآية ما يشمل الآية والآيتين إذا كانت الثانية متعلقة بالآية التي ذكر فيها حرف السجدة، وهذا ينافي ما مر عن السراج من تصحيح وجوب السجود بقراءة حرف السجدة مع كلمة قبله أو بعده لا يقال ما في السراج بيان لموضع أصل الوجوب وما مر عن الإمداد بيان لموضع وجوب الأداء أو بيان لموضع السنة فيه. لأنا نقول إن الأداء لا يجب فور القراءة كما سيأتي وما مر في ترجيح مذهبنا من قولهم لأنها تكون قبل وجود سبب الوجوب ."

(کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوة، ج: 2، ص: 103،104، ط: سعید)