https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 2 December 2023

بالغ اولاد کانفقہ

 بلوغت کے بعد جب تک اولاد   کمانے کے قابل نہ ہو،  اور بیٹی کی جب تک شادی نہ ہوجائے ،ان کے نفقہ کی ذمہ داری شرعاً  والد پر ہی ہوتی ہے،لیکن  اگر نرینہ اولاد معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل بھی ہو تو بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد اس کی مناسب جگہ پر شادی کی فکر وکوشش کرنا تو والدین کی ذمہ داری بنتی ہے، لیکن شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ والدین کے ذمہ نہیں ہے، اس کا انتظام لڑکے کو خود کرنا ہوگا۔

لہٰذا والد  اور بیٹے دونوں کو چاہیے کہ کسبِ حلال کی بھرپور کوشش کریں اور بیٹے کو اپنی نگرانی میں ہر جائز اور حلال کمائی کرنے کا موقع فراہم کریں، تاہم جب تک کوئی ترتیب نہیں بن جاتی اور والد کی استطاعت بھی ہو تو والد کو چاہیے کہ بیٹے کی جائز ضروریات کا خرچہ خوش دلی سے اُٹھائیں،  یہ ان کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہوگا۔

اگر بیٹا خود مختاری کے ساتھ زیادہ بہتر کما سکتاہے تو والد پر اس کا خرچہ لازم نہیں ہوگا، ایسی صورت میں بیٹے کو چاہیے کہ مناسب تدبیر سے خود کفالتی کی طرف قدم اٹھالے، اور والد کے حقوق کا خیال بھی رکھتا رہے، نیز والد کی جائیداد چوں کہ والد کی ملکیت ہے، لہٰذا جب تک وہ حیات ہیں اولاد کو اس میں سے حصہ مانگنے کا حق نہیں ہوتا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة". (١/ ٥٦٢)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 612):

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن.

(قوله: لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال: جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل: أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله: يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى: {أو الطفل الذين لم يظهروا} [النور: 31] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - {واجعلنا للمتقين إماما} [الفرقان: 74]- ولاينافيه جمعه على أطفال أيضاً كما جمع إمام على أئمة أيضاً فافهم.... (قوله: كأنثى مطلقاً) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة ... (قوله: وزمن) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لايكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية".

ادھار پر زیادہ قیمت میں بیچنا

 اشیاء کی   خرید و فروخت میں اصل حکم نقد خریداری کی طرح ادھار پر خریدنا بھی جائز ہے ،اسی بناء پر نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق رکھنے میں بھی شرعا کوئی حرج نہیں ہے،بشرط یہ ہے کہ سودا کرتے وقت پیسوں کی ادائیگی کا وقت کے ساتھ  کسی ایک قیمت  کو(نقد وادھار کے  اعتبار سے) بھی متعین کر دیاجائے،لہذااگر سودا کرتے وقت نقد ہو یا ادھار کسی ایک متعین قیمت پر سودا ہوجائے  اور ادائیگی کا وقت بھی طے ہوجائے تو خریدار پر  اسی متعین مدت پر طے شدہ  قیمت ادا کرنا لازم ہوگی،سودے کےبعد خریدار چاہے جلد ادائیگی کرے یا  کسی مجبوری کی  وجہ سے تاخیر سے پیسے ادا کرے ،اُس پر وہی متعین قیمت ادا کرنا ہی  لازم ہوگی لہذا صورت مسئولہ میں پانچ سو روپے والی چھ مہینہ کے ادھار پر آٹھ سو روپے کی دینا درست ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول .......فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."

( کتاب البیوع  ، فصل فی شرائط الصحة فی البیوع جلد 5 ص: 158 ط: دارالکتب العلمیة)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام

"إذا عقد البيع على تأجيل الثمن إلى كذا يوما أو شهرا أو سنة أو إلى وقت معلوم عند العاقدين كيوم قاسم أو النيروز صح البيع.

يعني أن التأجيل إذا كان بالأيام أو الشهور أو السنين أو بطريق آخر فهو صحيح ما دام الأجل معلوما (بحر) وعلى هذا إذا باع إنسان من آخر متاعا وهو صحيح وسلمه إليه ثم توفي فليس لورثته أن يأخذوا الثمن من المشتري قبل حلول الأجل؛ لأن الأجل الذي هو حق المدين لا يبطل بوفاة الدائن علي أفندي وهذه المادة فرع للمادة."

(الکتاب البیوع ، الفصل الثاني في بيان المسائل المتعلقة بالبيع بالنسيئة والتأجيل جلد 1 ص: 228 ط: دارالجیل)

انسانی بالوں کی خریدوفروخت

 انسانی بالوں کی خریدوفروخت جائزنہیں ،اوراگرکسی نےخریدوفروخت کردی،تویہ معاملہ ختم کرناضروری ہے؛بالوں کے بدلے خریدی ہوئی چیزفقراء میں بغیرنیتِ ثواب صدقہ کردیں۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ میں ہے:

"شعر ‌الإنسان طاهر حيا أو ميتا، سواء أكان الشعر متصلا أم منفصلا، واستدلوا لطهارته بأن النبي صلى الله عليه وسلم ناول أبا طلحة شعره فقسمه بين الناس.واتفق الفقهاء على عدم جواز الانتفاع بشعر الآدمي بيعا واستعمالا؛ لأن الآدمي مكرم لقوله سبحانه وتعالى: {ولقد كرمنا بني آدم}.

فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهانا مبتذلا."  

(حرف الشين،102/26،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع. . . (ومنها) أن يكون مالا لأن البيع مبادلة المال بالمال، فلا ينعقد بيع الحر؛ لأنه ليس بمال."

(كتاب البيوع،‌‌فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه،١٣٨/٥،دار الكتب العلمية وغيرها)

ہدایہ کی شرح بنایہ میں ہے:

"وأما شرطه فأنواع: منها في العاقد، وهو أن يكون عاقلا مميزا، ومنها في الآلة، وهو أن يكون بلفظ الماضي، ومنها في المحل وهو ‌أن ‌يكون ‌مالا متقوما."

(كتاب البيوع،٣/٨،ط:دار الكتب العلمية)

دررالحکام میں ہے:

"(بطل بيع ما ليس بمال والبيع به) أي جعله ثمنا بإدخال الباء عليه (كالدم والريح والحر والميتة)...(وحكمه) أي حكم البيع الباطل (أن المبيع به لا يملك) أي لا يكون ملكا للمشتري؛ لأن الباطل لا يترتب عليه الحكم بخلاف الفاسد كما مر."

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،١٦٨/٢،ط:دار إحياء الكتب العربية)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب  الغصب ،3/61،ط:دارالفكر)

Friday 1 December 2023

پرانا سامان نیے سامان کے ساتھ بیچنا

 اگر کوئی شخص اپنی دکان میں رکھے ہوئے پرانے اسٹاک کو نئے اسٹاک کے ساتھ ملا کر بڑھی ہوئی قیمت کے ساتھ بیچتا ہے تو ایسا کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ ہر آدمی اپنی مملوکہ اشیاء کو اپنی مرضی کی مناسب قیمت پر فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے، بشرطیکہ اتنی زیادہ رقم میں فروخت نہ کرے جتنی رقم میں عام طور پر بازار میں نہ بیچا جاتا ہو۔

تاہم اگر پرانے اسٹاک کو حسبِ سابق کم قیمت پر ہی بیچا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

مجلۃالاحکام العدلیہ میں ہے:

"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي، سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها."

(الكتاب الأول في البيوع، ‌‌المقدمة: في بيان الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالبيوع، صفحہ:33، طبع: نور محمد)

سیکورٹی پر مکان یا پروپرٹی دینا یا لینا

 مالک مکان کا  کر ایہ دار سے سیکورٹی کے طور پر (ایڈوانس)  رقم وصول کرناشرعاً جائز ہے، اور یہ رقم فی نفسہ مالک کے پاس امانت ہوتی ہے، البتہ چوں کہ عرفاً مالک مکان یا دکان کو  اس رقم کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے؛ اس بنا پر  یہ رقم شرعاً مالک کے ذمے  قرض شمار  ہوگی، اور اس پر قرض والے اَحکام لاگو ہوں  گے۔باقی اگر مالک مکان کرایہ دارسے پیسے نہیں لیتا تو اس طرح کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ کرایہ نہ دینے کو ایڈوانس کی رقم کے ساتھ مشروط نہ کیا گیا ہو اگر یوں طے کیا گیا کہ کرایہ دار ایڈوانس دے گا تو کرایہ نہیں لیا جائے گا تو  یہ معاملہ سود کی اقسام میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔ 

واضح رہے کہ مکان کرائے پر لیتے وقت   جو سکیورٹی  (زر ضمانت) مالک مکان کو ادا کی جاتی ہے یہ تو شرعا قرض کے حکم میں ہوتی ہے ۔ رہائشی مکان کے بدلہ سکیورٹی (زر ضمانت)  کی تین ممکنہ صورتیں ہیں :

۱) مارکیٹ ریٹ کے مطابق مکان کرائے پر لیا جائے اور مالک مکان کے پاس سکیورٹی جمع کروائی جائے۔

۲) مالک مکان کو معروف سکیورٹی سے کچھ زیادہ سکیورٹی جمع کروائی جائے اور اس زیادہ سکیورٹی کی وجہ سے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے کم کرایا طے کیا جائے۔

۳) مالک مکان کو سکیورٹی جمع کروائی جائے اور کسی قسم کا کرایہ  طے نہ کیا جائے بلکہ اس سکیورٹی کے عوض رہائش پر مکان مل جائے۔

ان تین صورتوں میں سے پہلی صورت جائز ہے باقی دونوں صورتیں  نا جائز ہیں کیونکہ اخیر کی دونوں صورتوں میں سکیورٹی جو کہ قرض ہے اس کے بدلہ نفع کا حاصل کرنا پایا جارہا ہے (دوسری صورت میں یہ نفع کرائے میں کمی کی شکل میں ہے اور تیسری صورت میں بغیر کرائے کے مکان میں رہائش کی شکل میں ہے) اور قرض کے بدلہ نفع حاصل کرنا سود کے حکم میں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  سکیورٹی ادا  کر کے  بلا اجرت مکان رہائش  کے لیے لینا شرعا نا جائز ہے۔نیز  جن ایام میں مکان میں رہائش اختیار کی ان ایام کی  اجرت مکان میں رہنے والے پر اجرت مثل کے اعتبار سے واجب ہوگی کہ وہ مالک مکان کو اس  جیسے مکان کا کرایہ ادا کرے خواہ علیحدہ سے رقم دے کر کرایہ دے یا ایسی سکیورٹی والی رقم میں سے منہا کر کے دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."

(کتاب البیوع ، باب المرابحہ وا لتولیۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۶،ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية. (وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة."

(کتاب الاجارہ ، باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۰۹، ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما الإجارة ‌الفاسدة، وهي التي فاتها شرط من شروط الصحة فحكمها الأصلي هو ثبوت الملك للمؤاجر في أجر المثل لا في المسمى بمقابلة استيفاء المنافع المملوكة ملكا فاسدا؛ لأن المؤاجر لم يرض باستيفاء المنافع إلا ببدل."

(کتاب الاجارۃ، فصل فی حکم الاجارۃ ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۱۸، دار الکتب العلمی

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حمارا ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع."

(کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد ۶ ص :۶۳ ، ۶۴  ط : دارالفکر)

آپ کے مسائل اور ان کے حل  میں ہے:

"کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کا شرعی حکم

س… مالکِ مکان کا کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینا امانت ہے یا قرضہ ہے؟
ج… ہے تو امانت، لیکن اگر کرایہ دار کی طرف سے استعمال کی اجازت ہو  (جیسا کہ عرف یہی ہے) تو یہ قرضہ شمار ہوگا۔
س… مالکِ مکان ایک طرف کرایہ میں بھاری رقم لیتا ہے، پھر ایڈوانس کے نام کی رقم سے فائدہ اُٹھاتا ہے، پھر سال دو سال میں کرایہ میں اضافہ بھی کرتا ہے، تو کیا یہ صریح ظلم نہیں، اس مسئلے کا سرِ عام عدالت کے  واسطے سے، یا علمائے کرام کی تنبیہ کے ذریعے سے سدِ باب ضروری نہیں؟

ج… زَرِ ضمانت سے مقصد یہ ہے کہ کرایہ دار بسااوقات مکان کو نقصان پہنچادیتا ہے، بعض اوقات بجلی، گیس وغیرہ کے واجبات چھوڑ کر چلا جاتا ہے، جو مالکِ مکان کو ادا کرنے پڑتے ہیں، اس کے  لیے کرایہ دار سے زَرِ ضمانت رکھوایا جاتا ہے، ورنہ اگر پورا اعتماد ہو تو زَرِ ضمانت کی ضرورت نہ رہے۔"

(کرایہ دار سے لی ہوئی رقم کا شرعی حکم جلد ۷ ص:۱۶۷ ، ۱۶۸ ط: مکتبہ لدھیانوی)

Thursday 30 November 2023

شوہر انکار کرے اور بیوی کہتی ہے کہ طلاق دیدی

 فقہاء نے صراحتاًلکھا ہے کہ: اگرکسی عورت کو اس کا شوہر تین طلاقیں دے دے اور پھر انکارکرے تواس صورت میں یاعورت اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے اس صورت میں عورت کے حق میں فیصلہ کردیاجائے گااور شوہر کاانکار معتبر نہ ہوگا۔ اگر عورت کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو  شوہرسے حلف لیاجائے گا،اگرشوہرحلف سے انکار کردے تو بھی فیصلہ عورت کے حق میں ہوگا، اور اگر شوہر حلف اٹھاتاہے توظاہری فیصلہ اسی کے حق میں ہوگا،البتہ جب عورت کوتین طلاق کایقین ہوتوشوہرکواپنے اوپرقدرت نہ دے اور چھٹکارے کی کوئی صور ت بنائے۔شریعت کایہ مسئلہ صاف اورواضح ہے۔لہذا

۱۔اگر بیوی کے پاس گواہ موجودہوں یاشوہرنے تحریری طلاق دی ہوتواس کاانکار معتبر نہیں۔

۲۔اگر گواہ نہ ہوں اور شوہرحلف اٹھاتاہے تو ظاہری طورپراسی کے حق میں فیصلہ کیاجائے گا،اور اس صورت میں عورت بقدرامکان شوہرکواپنے اوپرقدت نہ دے،اگرشوہرزبردستی تعلقات قائم کرتاہے تواس کاگناہ شوہرپرہی ہوگا۔

۳۔قدرت نہ دینے کاحکم اس بناپرہے کہ عورت کویقین ہے کہ اس نے تین طلاقیں سنی ہیں، لیکن وہ شرعی ضابطے  کے مطابق گواہ نہیں رکھتی ،لہذا یہ نشو ز کی تعلیم نہیں، بلکہ دیانۃً چوں کہ جدائی ہوچکی ہے، اس لیے یہ حکم دیاگیاہے۔

۴۔جب ظاہری فیصلہ شوہرکے حق میں ہے توعدت نہیں گزار سکتی ،اس لیے کہ  ظاہراً نکاح برقراہے،اورجب تک عورت اس کے گھرمیں ہے تونان ونفقہ بھی شوہرپرہی ہے۔اور ظاہرہے کہ جب عدت نہیں کرسکتی توکسی اور سے نکاح بھی جائزنہیں۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’...اگرشوہراس (مطلقہ)کواپنے پاس رکھے گاتوہمیشہ نزاع اور شک وشبہ رہے گا، اور شوہرگناہ گارہوگا،اگرخدانخواستہ شوہرنہ طلاق کااقرار کرے ،نہ اب طلاق دے ،اور طلاق کے شرعی گواہ بھی موجود نہ ہوں، توایسی صورت میں عورت شوہرسے خلع کرے،کچھ دے دلاکررہائی حاصل کرے،جماعت اور برادری کے سمجھ دار دین دارحضرات شوہر کوسمجھاکر طلاق کااقراریاطلاق دینے یاخلع کرلینے پرآمادہ کریں، طلاق کااقرار یا طلاق حاصل کیے یاخلع کے بغیر عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی....ایک صورت یہ ہے کہ شوہرسے جبراً واکراہاً طلاق بائن کہلوائی جائے یہ بالکل آخری درجہ ہے‘‘۔(فتاویٰ رحیمیہ8/283،ط:دارالاشاعت)

معلوم ہواکہ شریعت نے عورت کوبے آسرانہیں چھوڑ ا، بلکہ ایسی صورتِ حال میں اس کے چھٹکارے کی کئی صورتیں موجودہیں

Tuesday 28 November 2023

امام کی وجہ سےفرقہ بندی ہو تو امامت درست ہے کہ نہیں

الجواب وباللہ التوفیق و منہ المستعان و علیہ التکلان

صاحب درمختار نے لکھا ہے کہ امامت کے مقاصد

 میں سے  یہ دو مقاصد ہیں اہم:

(۱) امام کے ذریعہ تمام نمازیوں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور اُلفت و محبت پیدا ہو۔

(۲) امام کے ذریعہ لوگ زیادہ سے زیادہ مسائل سیکھیں اور دینی معلومات حاصل کریں۔

اگر یہ دونوں مقاصد امام سے حاصل نہ ہو رہے ہوں اور انتشار پھیل رہاہوجیساکہ سوال میں درج ہے کہ محلہ میں دوگروپ بن چکے ہیں دن بہ دن انتشار بڑھ رہا ہے فسادتک کی نوبت آگئی تو واقعی امام کی وجہ سے نمازیوں میں دوگروپ بن گیے ہیں  تو بشرط صحت سوال امام صاحب کوخود ہی مستعفی ہوجانا چاہیے تھا ۔جب انتظامیہ نے امام کو برطرف کردیااس کے باوجودامام صاحب کا اصرار مناسب نہیں جس امام کی وجہ سے محلہ میں پارٹی بندی ہویافساد کی نوبت آجائے وہ امامت کے لائق نہیں اگر وہ خود سے استعفی نہیں دیتے تو مسجد کے متولی اور کمیٹی والوں کوچاہئے کہ موقعہ محل دیکھ کر خوش اسلوبی کے ساتھ اسے امامت سے برطرف کر دیں، تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ سب مصلیوں کا صحیح طور پر ادا ہوسکے اور مسلمانوں میں گروہ بندی نہ ہو۔

 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/

 865):

"(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة".

وفيه أيضاً (3/ 866):
"(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [الأنعام: 37]" . 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):
"(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم".
الفتاوى الهندية (1/ 87):
"رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط"

Monday 27 November 2023

کیا بیماری متعدی ہوتی ہیں


ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہ بیماری ایک سے دوسری کو لگتی، نہ (ہی) مرنے والے کی روح پرندے کی شکل میں دنیا میں آتی ہے، نہ کسی ستارے کی کوئی تاثیر ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔ (سنن ابی داؤد،حدیث نمبر:3912)
تشریح:
اس روایت میں زمانہ جاہلیت میں عربوں میں پائے جانے والے باطل عقیدوں اور توہمات کا رد کیا گیا ہے۔
لا عدوی:(بیماری ایک سے دوسری کو نہیں لگتی ہے۔)
اس حدیث مبارکہ میں ’’ لا عدوى ‘‘ فرما کر’’بیماری کے متعدی ہونے‘‘ کے نظریے کی نفی کی گئی ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زمانۂ جاہلیت میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ امراض خود طبعاً اور لازمًا متعدی ہوتے ہیں، اللہ کی قدرت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے، اس لیے بعض روایتوں میں اس کی نفی کی گئی ہے، اور جن روایات سے بیماریوں کے متعدی ہونے کا ثبوت ملتا ہے، ان کا منشا یہ ہے کہ اسباب کے درجہ میں مشیتِ خداوندی کے تحت متعدی ہونا بیماری کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس لیے سدِّ ذرائع کےطور پر آپ ﷺ نے مجذوم سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔
اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی مرض کے بذاتِ خود ہرحال میں متعدی ہونے کا اعتقاد نہیں رکھنا چاہیے، البتہ اسباب کے درجے میں احتیاط ضرور کرنی چاہیے، کیونکہ بعض بیماریاں عادۃ ً متعدی ہوتی ہیں، اس لیے ان بیماریوں سے بچنے کے لیے ہرممکن اقدامات کرنے چاہیے۔
ولا هامة:
۱) " ہامہ " کے اصل معنی "سر" کے ہیں، لیکن یہاں اس لفظ سے ایک خاص جانور مراد ہے جو عربوں کے گمان کے مطابق میت کی ہڈیوں سے پیدا ہو کر اڑتا ہے، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر کسی شخص کو قتل کر دیا جاتا ہے تو اس مقتول کے سر سے ایک جانور جس کو " ہامہ " کہتے ہیں باہر نکلتا ہے اور ہر وقت یہ فریاد کرتا رہتا ہے کہ مجھے پانی دو، پانی دو، اور وہ قاتل کے مارے جانے تک فریاد کرتا رہتا ہے۔
۲) بعض لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ خود مقتول کی روح اس جانور کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور فریاد کرتی ہے، تاکہ قاتل سے بدلہ لے سکے جب اس کو قاتل سے بدلہ مل جاتا ہے تو اڑ کر غائب ہو جاتا ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس اعتقاد کو بھی باطل قرار دیا اور فرمایا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
۳) بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ " ہامہ " سے مراد " الو" ہے کہ جب وہ کسی گھر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ گھر ویران ہو جاتا ہے، یا اس گھر کا کوئی فرد مر جاتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ بھی "طیرہ" یعنی پرندہ کے ذریعہ بدفالی لینے کے حکم میں داخل ہے جو ایک ممنوع چیز ہے، چنانچہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس عقیدہ کو باطل قرار دیا۔
ولا نوء:
نوء کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک ستارہ کا طلوع ہونا اور دوسرے کا غروب ہونا ہے۔ اہلِ عرب کا عقیدہ تھا کہ ان ستاروں کے طلوع ہونے اور غروب ہونے سے بارشیں ہوتی ہیں۔ شریعت نے اس کو مستر د کردیا اور بتادیا کہ بارش اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے ستاروں سے نہیں ہوتی۔
نہایہ میں لکھا ہے کہ نوء کی جمع انواء ہے جس کے معنی قمر اور چاند کی ان منازل کے ہیں جن کو "نچھتر" کہتے ہیں۔ چاند کی اٹھائیسں منازل ہیں۔اہل جاہلیت بارش کو انہیں منازل اور نچھتروں کی طرف منسوب کرتے تھے، ان کاخیال تھا کہ چاند یا کوئی ستارہ جب ان منازل میں سے فلاں منزل میں اتر آتا ہے تو یقینی طو ر پر بارش ہو جاتی ہے، گویا وہ لوگ ان منازل اور نچھتروں کو بارش کے لیے مؤثر حقیقی سمجھتے تھے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس عقیدے کو شرک قراردیا، لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ عقیدہ اس وقت شرک ہوگا، جب ان منازل کو بارش کے لیے مؤثر حقیقی سمجھا جائے، البتہ اگر منازل میں چاند کے آنے کو بارش کے نزول کا ایک ظاہری سبب سمجھا جائے، یعنی یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بارش برساتا ہے جب کہ چاند اپنی فلاں منزل میں آتا ہے اور وہ وقت علت کا درجہ نہیں رکھتا، بلکہ محض ایک ظاہری سبب کا درجہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس وقت سے پہلے یا اس کے بعد بارش برسائے اور اگر چاہے تو اس وقت بھی نہ برسائے تو یہ عقیدہ نہ کفر کے دائرے میں آئے گا اور نہ اس کو باطل کہا جائے گا۔
ولا صفر:
اس سے صفر کا مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے، زمانۂ جاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ اس مہینے میں آفات و بلائیں اور حوادث ومصائب کا نازل ہوتی ہیں، اس لیے اس ارشاد کے ذریعہ اس عقیدے کو باطل و بے اصل قرار دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داؤد: (رقم الحديث: 3912، 57/6، ط: دار الرسالة العالمية)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا عدوى، ولا هامة، ولا نوء ولا صفر" .

فتح الباري: (161/10، ط: دار المعرفة)
وفي طريق الجمع مسالك أخرى أحدها نفي العدوى جملة وحمل الأمر بالفرار من المجذوم على رعاية خاطر المجذوم لأنه إذا رأى الصحيح البدن السليم من الآفة تعظم مصيبته وتزداد حسرته ونحوه حديث لا تديموا النظر إلى المجذومين فإنه محمول على هذا المعنى ثانيها حمل الخطاب بالنفي والإثبات على حالتين مختلفتين فحيث جاء لا عدوى كان المخاطب بذلك من قوي يقينه وصح توكله بحيث يستطيع أن يدفع عن نفسه اعتقاد العدوى كما يستطيع أن يدفع التطير الذي يقع في نفس كل أحد لكن القوي اليقين لا يتأثر به وهذا مثل ما تدفع قوة الطبيعة العلة فتبطلها وعلى هذا يحمل حديث جابر في أكل المجذوم من القصعة وسائر ما ورد من جنسه وحيث جاء فر من المجذوم كان المخاطب بذلك من ضعف يقينه ولم يتمكن من تمام التوكل فلا يكون له قوة على دفع اعتقاد العدوى فأريد بذلك سد باب اعتقاد العدوى عنه بأن لا يباشر ما يكون سببا لإثباتها وقريب من هذا كراهيته صلى الله عليه وسلم الكي مع إذنه فيه كما تقدم تقريره وقد فعل هو صلى الله عليه وسلم كلا من الأمرين ليتأسى به كل من الطائفتين ۔۔۔ العمل بنفي العدوى أصلا ورأسا وحمل الأمر بالمجانبة على حسم المادة وسد الذريعة لئلا يحدث للمخالط شيء من ذلك فيظن أنه بسبب المخالطة فيثبت العدوى التي نفاها الشارع وإلى هذا القول ذهب أبو عبيد وتبعه جماعة فقال أبو عبيد ليس في قوله لا يورد ممرض على مصح إثبات العدوى بل لأن الصحاح لو مرضت بتقدير الله تعالى ربما وقع في نفس صاحبها أن ذلك من العدوى فيفتتن ويتشكك في ذلك فأمر باجتنابه قال وكان بعض الناس يذهب إلى أن الأمر بالاجتناب إنما هو للمخافة على الصحيح من ذوات العاهة قال وهذا شر ما حمل عليه الحديث لأن فيه إثبات العدوى التي نفاها الشارع ولكن وجه الحديث عندي ما ذكرته.

عمدة القاري: (247/21، ط: دار إحياء التراث العربي)
قوله: (ولا هامة) الهامة الرأس واسم طائر وهو المراد في الحديث، وذلك أنهم كانوا يتشاءمون بها وهي من طير الليل، وقيل: هي البومة، وقيل: كانت العرب تزعم أن روح القتيل الذي لا يدرك بثأره يصير هامة فيقول: اسقوني اسقوني، فإذا أدرك بثأره طارت، وقيل: كانوا يزعمون أن عظام الميت وقيل: روحه تصير هامة فتطير ويسمونه: الصدى، فنفاه الإسلام ونهاهم عنه.

مرقاة المفاتيح: (2895/7، ط: دار الفكر)
عن أبي هريرة - رضي الله عنه - (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: لا عدوى ولا هامة ولا نوء) : بفتح فسكون أي: طلوع نجم وغروب ما يقابله. أحدهما في المشرق والآخر بالمغرب، وكانوا يعتقدون أنه لا بد عنده من مطر أو ريح ينسبونه إلى الطالع أو الغارب، فنفى - صلى الله عليه وسلم - صحة ذلك. وقال شارح: النوء سقوط نجم من منازل القمر مع طلوع الصبح وهي ثمانية وعشرون نجما يسقط في كل ثلاث عشرة ليلة نجم منها في المغرب مع طلوع الفجر، ويطلع آخر مقابله في المشرق من ساعته. في النهاية: الأنواء منازل القمر، وكانت العرب تزعم أن عند كل نوء مطرا وينسبونه إليه فيقولون: مطرنا بنوء كذا، وإنما سمي نوءا لأنه إذا سقط الساقط منها بالمغرب، فالطالع بالمشرق ينوء نوءا أي ينهض ويطلع، وقيل: أراد بالنوء الغروب، وهو من الأضداد.
قال أبو عبيد: لم يسمع في النوء أنه السقوط إلا في هذا الموضع، وإنما غلظ النبي - صلى الله عليه وسلم - في أمر الأنواء لأن العرب كانت تنسب المطر إليها، فأما من جعل المطر من فعل الله وأراد بقوله: مطرنا بنوء كذا أي في وقت كذا، وهو هذا النوء الفلاني، فإن ذلك جائز أي: أن الله تعالى قد أجرى العادة أن يأتي المطر في هذه الأوقات ذكره الطيبي، والأظهر أن النهي على إطلاقه حسما لمادة فساد الاعتقاد، ولأنه لم يرد ما يدل على جوازه، وحاصل المعنى لا تقولوا: مطرنا بنوء كذا، بل قولوا: مطرنا بفضل الله تعالى.

عمدة القاري: (247/21، ط: دار إحياء التراث العربي)
قوله: (ولا صفر) كانت العرب تزعم أن في البطن حية يقال لها: الصفر، تصيب الإنسان إذا جاع وتؤذيه، وإنها تعدي فأبطل الإسلام ذلك، وقيل: أراد به النسيء الذي كانوا يفعلونه في الجاهلية وهو تأخير المحرم إلى صفر ويجعلون صفر هو الشهر الحرام، فأبطله الإسلام.

مظاہر حق: (318/4، ط: مكتبة العلم)

توضيحات شرح مشكوة: (610/6، ط: المكتبة العصرية