https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday, 2 January 2025

ماں کی زندگی کے خطرہ کے پیش نظر اسقاط حمل

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ فقہاءِ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ماں کے پیٹ میں بچے کی عمر ایک سو بیس دن تک پہنچ جائے -اور اسی مدت میں بچے میں روح پھونکی جاتی ہے - تو اسقاطِ حمل جائز نہیں ہے بلکہ اس حالت میں اسقاط حمل قطعا حرام ہے۔ کیونکہ یہ اس جان کا قتل سمجھا جائے گا جسے ناحق قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے ؛ اللہ رب العزت نے فرمایا :﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ﴾ یعنی: (اور تنگدستی کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور انہیں بھی)۔ [الأنعام: 151]، اور ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ]الإسراء: 33[۔ یعنی: (اور ناحق کسی جان کو قتل نہ کرو جس کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے)۔

اور اگر ماں کے پیٹ میں موجود بچہ ایک سو بیس دن کی عمر تک نہ پہنچا ہو تو اس صورت میں اسقاط حمل کے حکم میں فقہاءِ کرام کا اختلاف ہے:
کچھ علماء کرام نے اسے حرام کہا ہے اور یہ مالکیہ اور ظاہریہ کا معتمد علیہ مذہب ہے۔
کچھ علماء کرام نے کہا ہے کہ یہ مطلقا مکروہ ہے ، اور یہ بعض مالکیہ کی رائے ہے۔
اور بعض فقہاءِ اسلام نے کہا کہ جب کوئی عذر پایا جا رہا ہو تو یہ جائز ہے ، اور یہ بعض احناف اور شافعیہ کی رائے ہے۔
اس فتوی میں راجح اور مختار رائے یہ ہے کہ اسقاط حمل حرام ہے چاہے روح پھونکے جانے سے پہلے ہو یا بعد میں ہو، سوائے اس صورت کہ جب کوئی شرعی ضرورت پائی جا رہی ہو؛ اور عادل اور ثقہ معالج نے یہ کہا ہو کہ اگر بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں رہا تو ماں کی زندگی کو یا صحت کو خطرہ ہے تو ایسی صورت میں اس کا اسقاط حمل جائز ہے؛ یہ اس لئے کہ ماں کی مستحکم زندگی اور صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے بچے کی غیر مستحکم زندگی پر ترجیح دی جائے گی۔
مکہ مکرمہ میں رابطہ عالمِ اسلامی کی اسلامی فقہی کونسل نے قرار دیا ہے: اگر حمل ایک سو بیس دن تک پہنچ گیا ہو ، تو اس کواسقاط کرنا جائز نہیں ہے ، اگرچہ طبی تشخیص بتاتی ہوکہ اس کی خلقت صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی میڈیکل کمیٹی کی رپورٹ سے ثابت ہو جائے کہ حمل کا جاری رکھنا ماں کیلئے ایک یقینی خطرے کا باعث ہے تو اس صورت دو نقصانوں میں سے بڑے نقصان سے بچنے کیلئے اسقاط جائز ہو گا]۔
اس کی بنیاد پر مذکورہ سوال کے جواب میں ہم کہیں گے: اگر ڈاکٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہو کہ حمل کو جاری رکھنا حاملہ ماں کی صحت کے لیے خطرہ ہے اور یہ اسے شدید نقصان پہنچا سکتا ہے ، تو ایسی صورت میں اسقاط حمل جائز ہو گا ، اور شریعتِ اسلام میں اس سے کوئی ممانعت نہیں ہو گی۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

Tuesday, 31 December 2024

غیرمسلموں سے سود لین یادینا

 واضح رہے کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین نصِ قرآن واحادیثِ مبارکہ کی رو سے حرام ہے،  اسلام میں جس طرح سود دیناحرام و ناجائز ہے، اسی طرح سود لینابھی حرام و ناجائز ہے ، احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں،لہٰذا مسلمان خواہ دار الحرب میں ہو یا دار الاسلام میں،  سودی معاملہ مسلمان سے کرے یا غیر مسلم سے،  ہر حال میں ناجائز وحرام ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں غیر مسلموں سے  ایک یا  دو مہینے کی مدت تاخیر کرنے پر پانچ یا دس فیصد سود لینا جائز  نہیں ہے،چاہے اس رقم کو ہدیہ یا غرباء میں تقسیم کرنے ہی کی نیت کیوں نہ ہو، البتہ  اگر پہلے سودی معاملہ کیا گیا ہو اور رقم آگئی ہو تو  اگر کسی فرد سے لی ہو او وہ معلوم بھی ہو، تو اس کو لوٹانا شرعاً ضروری ہوگا، اور اگر اس شخص تک رقم پہنچانا دشوار ہو یا وہ معلوم نہ ہو ،تو کو بلا نیتِ ثواب سودی رقم کو  صدقہ کردے اور اپنے فعل پر توبہ واستغفار کرے۔

نیز اگر  کسٹمر سے ثمن كی وصوليابی ميں تاخیر کی وجہ سے دشواری پیش آرہی ہو، تو بائع  کو چاہیےکہ ادھار کی صورت میں اپنے مال کی قیمت بڑھاکر فروخت کرے اور جس قیمت پر فروخت کرے وہی قیمت وصول کرنا جائز ہوگا،تاخیر کی وجہ سے اس پر جرمانہ وصول کرنا ناجائز ہوگا۔

قرآنِ کریم میں باری تعالی کا ارشاد ہے :

"{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}."

ترجمہ:…’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔ [البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹-بیان القرآن]

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".

(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:1219،3،ط:داراحیاءالتراث العربی

Monday, 30 December 2024

کرسی پر نماز

 جو شخص بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابلِ برداشت درد کا غالب گمان ہو تو ان صورتوں میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

اسی طرح جو شخص فرض نماز میں مکمل قیام پر تو قادر نہیں، لیکن کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہے اور سجدہ بھی زمین پر کرسکتا ہے توایسے شخص کے لیے اُتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، اگر چہ کسی چیز کا سہارا لے کر کھڑا ہونا پڑے، اس کے بعد بقیہ نماز زمین پر بیٹھ کر پڑھنا چاہیے۔

اور اگر زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہیں تو ایسی صورت میں شروع ہی سے زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ اور اس صورت میں اس کی نماز اشاروں والی ہوتی ہے، اور اس کے لیے بیٹھنے کی کوئی خاص ہیئت متعین نہیں ہے، وہ جس طرح سہولت ہو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھ سکتا ہے، چاہے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے یا کرسی پر بیٹھ کر، البتہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے، لہذا جو لوگ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں تو زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کریں، اور اگر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے میں مشقت ہوتو وہ کرسی پر بیٹھ کر فرض نمازیں، وتر اور سنن سب پڑھ سکتے ہیں۔

اشارہ سے نماز پڑھنے والے بیٹھنے کی حالت میں معمول کے مطابق ہاتھ باندھیں، اور سجدہ میں رکوع کی بنسبت ذرا زیادہ جھکیں، تشہد بھی معمول کے مطابق کریں، اور اگر زمین پر بیٹھنے کی صورت میں تشہد میں دو زانو ہو کر بیٹھنا مشکل ہوتو جس طرح سہولت ہو  مثلاً چار زانو (آلتی پالتی مار کر)، یا پاؤں پھیلا کر جس طرح سہولت ہو بیٹھ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ جو شخص زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے قیام پر قدرت ہونے کے باوجود قیام فرض نہیں ہے، لہٰذا ایسا شخص کرسی پر یا زمین پر نماز ادا کر رہاہو تو اس کے لیے دونوں صورتیں جائز ہیں: قیام کی حالت میں قیام کرے اور بقیہ نماز بیٹھ کر ادا کرے یا مکمل نماز بیٹھ کر بغیر قیام کے ادا کرے، البتہ دوسری صورت یعنی مکمل نماز بیٹھ کر ادا کرنا ایسے شخص کے لیے زیادہ بہتر ہ