https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 15 June 2024

علی مشکل کشا کہنا

 مشکل کشا اصل میں فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مشکل مسائل کو حل کرنے والا، یہ لفظ عربی زبان کے لفظ 'حل المعضلات'  کا فارسی میں ترجمہ ہے، حل المعضلات یعنی مشکل مسائل کا حل کرنے والا ، یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لقب تھا؛ کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے جب بھی کوئی مشکل اور پیچیدہ مقدمہ لایا جاتا تو حضرت علی  رضی اللہ عنہ اس کو نہایت آسانی سے حل فرما دیتے، لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے یہ لفظ  اسی معنی میں استعمال کرنا صحیح ہے،  البتہ بعد میں اسی لفظ 'مشکل کشا'  کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عقیدت ومحبت میں غلو کرنے والے لوگوں نے یہ سمجھ لیا یا اپنا عقیدہ بنالیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہرزمانہ میں مشکل کشائی فرماتے ہیں اور یہاں تک غلو میں بڑھے کہ جس طرح مصائب میں اللہ پاک کو پکارا جاتا ہے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارنے لگے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ تشبہ بالشرک بلکہ شرک ہی ہے؛ کیوں  کہ مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ لہذاکسی غیر خدا (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے متعلق   'مشکل کشا' کا عقیدہ رکھنا  یا اس کو 'مشکل کشا' مانناناجائز اور حرام ہے۔  

قرآنِ مجید میں ہے:

"وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ." (يونس، 107)

ترجمہ: "اور اگر تم کو اللہ تعالی کوئی تکلیف پہنچادے تو بجز اس کے اور کوئی اس کا دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر  چاہیں مبذول فرمادیں اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والے ہیں۔"

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني وليس ذلك من التوسل المباح في شيء... وقد عدّه أناس من العلماء شركا."

(‌‌ج: 3، ص: 298،297، ط: ار الكتب العلمية - بيروت)

الإحكام في تمييز الفتاوى" میں ہے:

"قولُه صلى الله عليه وسلم: "أقضاكم عليّ.

وفي حاشيته: هذا ثناء عظيم، وتزكية كريمة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، لأفضلية معرفة علي رضي الله عنه بالقضاء وإقامة الحقوق والحدود في دين الله تعالى... وقد اشتهر أبو الحسن علي رضي الله عنه بالقضاء حتى صار يضرب به المثل في حل المعضلات وفك المغلقات، حتى قيل في كل مشكلة يستعصي حلها ويصعب كشف كنهها: "قضية ولا أبا حسن لها". يعنون أن علياً أبا الحسن رضي الله عنه وهو حلال المشكلات - قد يعجز عن حل تلك المشكلة التي عجزوا عنها لتوغلها في الصعوبة والإغلاق. ولهذا كان عمر رضي الله عنه وهو المحدث الملهم - يتعوذ من معضلة ليس لها أبو الحسن، وكان يقول؛ لولا علي لهلك عمر. ويقول: علي أقضانا."

(‌‌السؤال الرابع، ص: 47،46، ط: دار البشائر الإسلامية)




 

اولیاء اللہ سے مدد مانگنا

 اللہ کے علاوہ کسی سے مدد مانگنے کی دو صورتیں ہیں :

[۱]: اس کے بارے میں  یہ عقیدہ رکھنا کہ اس میں ذاتی طور پر قدرت و طاقت ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، یہ شرک اور کفر ہے، اسی طرح  کسی غیر خدا کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس کو خدا نے تمام اختیار دے دیے  ہیں اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے، ہر قسم کی مرادیں ہر جگہ سے اس سے مانگنی چاہییں، یا اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کوئی صفت کسی غیر اللہ میں ماننا یہ بھی شرک ہے جو  ناجائز  اور حرام ہے۔مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

[۲]: ظاہری استعانت کرنا، یعنی جو چیز عادتاً انسان کی قدرت میں ہو، اس کے بارے میں مدد مانگنا، مثلاً: روپیہ، پیسہ، کپڑا، وغیرہ دینا۔ یہ چیزیں اگر کسی سے مانگی جائیں تو یہ درست ہے۔ 

إن الناس قد أكثروا من دعاء غیر الله تعالى من الأولیاء: الأحیاء منهم والأموات، وغیرهم مثل: یا سیدي فلان أغثني! ولیس ذلك من التوسل المباح في شيء ․․․ وقد عدّه أناس من العلماء شركًا․

(روح المعاني: ۲/۱۲۸)

غیرمسلم مریض کی عیادت کرنا

 (۲) رواداری سے اظہار کے لیے غیرمسلم مریضوں کی عیادت کرنا، ان کے یہاں کسی کے انتقال پر تعزیت کرنا اسی طرح ان کی غیرمذہبی تقریبات میں شریک ہونے کی گنجائش ہے؛ لیکن خالص مذہبی پروگراموں میں شرکت کرنا بہرحال جائز نہیں ہے، حسن تدبیر سے معذرت کردینی چاہیے۔ دونوں مسئلوں کے لیے دیکھیں: امداد الفتاوی: ۴/ ۲۶۸، سوال: ۳۴۷، ۳۴۸، ۳۴۹)

پوجاکے لیے چندہ دینا

 دسہرہ اور پوجا ہندوووٴں کے خالص مذہبی تہوار ہیں، ان کے پروگراموں میں چندہ دینا کفر وشرک اور ناجائز کاموں میں تعاون کرنا ہے جو از روئے آیت کریمہ ”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ (المائدہ) جائز نہیں ہے۔


Thursday 13 June 2024

دوا کے نسخے پر میڈیکل اسٹور سے ڈاکٹر کا کمیشن لینا

 اگر مریض کو کسی قسم کا دھوکہ نہ دیا جاتا ہو ، اور نہ ہی ڈاکٹر ناقص کارکردگی والی ادویہ تجویز کرتا ہو ، اور اس بیماری کیلئے اس سے بہتر و عمدہ اور سستی کوئی دوسری دوا بھی موجود نہ ہو ، اسی طرح متعلقہ میڈیکل اسٹور سے دوائی کی خریداری یا لیبارٹری سے ٹیسٹ وغیرہ بنسبت دوسری جگہوں کے مہنگے دام نہ ہوں ، نیز ڈاکٹر کا کسی کمپنی کی ناقص کارکردگی والی ادویہ کو پاس کرنا ، محض اپنے ذاتی کمیشن اور فوائد کی بنا پر نہ ہو ، اور دیا جانے والا کمیشن بھی طے شدہ ہو ، تو اس صورت میں کسی ڈاکٹر کا ان تینوں امور پر طے شدہ کمیشن لینا اور کمپنی، میڈیکل اسٹور یا لیبارٹری والے کا اسے کمیشن دینا بلاشبہ جائز ہے ، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں

انسان اسی مٹی سے پیدا ہوتا ہے جہاں دفن ہوتاہے والی روایت

 صحیح روایات کا اہتمام کرنے والے مفسرین میں سے کسی نے بھی یہ بات نقل نہیں کی۔

تفسیر قرطبی میں اس حوالے سے دو تین روایتیں ہیں، فرماتے ہیں:
وَرَوَى أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: (مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا وَقَدْ ذُرَّ عَلَيْهِ مِنْ تُرَابِ حُفْرَتِهِ) أَخْرَجَهُ أَبُو نُعَيْمٍ الْحَافِظُ فِي بَابِ ابْنِ سِيرِينَ، وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَوْنٍ لَمْ نَكْتُبْهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَاصِمٍ النَّبِيلِ، وَهُوَ أَحَدُ الثِّقَاتِ الْأَعْلَامِ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ. وَقَدْ مَضَى هَذَا الْمَعْنَى مُبَيَّنًا فِي سُورَةِ (الْأَنْعَامِ)(٧) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ. وَقَالَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ: إِذَا وَقَعَتِ النُّطْفَةُ فِي الرَّحِمِ انْطَلَقَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِالرَّحِمِ فَأَخَذَ مِنْ تُرَابِ الْمَكَانِ الَّذِي يُدْفَنُ فِيهِ فَيَذُرُّهُ عَلَى النُّطْفَةِ فَيَخْلُقُ اللَّهُ النَّسَمَةَ مِنَ النُّطْفَةِ وَمِنَ التُّرَابِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى:" مِنْها خَلَقْناكُمْ وَفِيها نُعِيدُكُمْ وَمِنْها نُخْرِجُكُمْ تارَةً أُخْرى [٢٠: ٥٥]".
قرطبی نے یہاں تین روایات کا حوالہ دیا ہے:
پہلی روایت ابی ہریرۃ:
حلیۃ الأولیاء کے حوالے سے:
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء (2/ 280)
حدثنا القاضي محمد بن إسحاق بن إبراهيم الأهوازي قال: ثنا محمد بن نعيم، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا ابن عون، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مولود إلا وقد ذر عليه من تراب حفرته» قال أبو عاصم: ما تجد لأبي بكر، وعمر رضي الله تعالى عنهما فضيلة مثل هذه لأن طينتهما من طينة رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا حديث غريب من حديث ابن عون عن محمد، لم نكتبه إلا من حديث أبي عاصم النبيل عنه، وهو أحد الثقات الأعلام من أهل البصرة-
اس سند میں محمد بن إسحاق نامی راوی وضاع(حدیث گھڑنے والا) ہے۔(لسان الميزان(ج6ص553)
یہ روایت مصنف عبد الرزاق میں بھی ہے
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 516)
6533 - عن الأسلمي قال: أخبرني نوح بن أبي بلال، عن أبي سليمان الهذلي، عن أبي هريرة قال: «ما من مولود يولد إلا بعث الله ملكا فأخذ من الأرض ترابا فجعله على مقطع سرته فكان فيه شفاؤه، وكان قبره في موضع أخذ التراب منه»
لیکن اس کی سند بھی مشکوک ہے۔

دوسری روایت عطاء الخراسانی والی:
ایک تو یہ بلاسند ہے، اگر سند ملے بھی تو عطا الخراسانی صغار تابعین میں سے ہیں، ان کی بات ایسے غیبی امور سے متعلق قابل اعتماد نہیں۔ واللہ اعلم۔
تیسری روایت ابن مسعود:
تفسير القرطبي (6/ 387)
وقد روى أبو نعيم الحافظ في كتابه عن مرة عن ابن مسعود أن الملك الموكل بالرحم يأخذ النطفة فيضعها على كفه ثم يقول: يا رب مخلقة أو غير مخلقة؟ فإن قال مخلقة قال: يا رب ما الرزق ما الأثر ما الأجل؟ فيقول: انظر في أم الكتاب فينظر في اللوح
المحفوظ فيجد فيه رزقه وأثره وأجله وعمله ويأخذ التراب الذي يدفن في بقعته ويعجن به نطفته فذلك قوله تعالى:" منها خلقناكم وفيها نعيدكم"
قرطبی نے یہ روایت امام ابو نعیم کے حوالے سے بیان کی ہے، لیکن ابو نعیم کے ہاں یہ روایت مل نہیں سکی۔

عن أبي سعيد أن النبي صلى الله عليه وسلم مر بالمدينة فرأى جماعة يحفرون قبراً فسأل عنه فقالوا‏:‏ حبشي قدم فمات‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم‏:‏

‏"‏لا إله إلا الله سيق من أرضه وسمائه إلى التربة التي خلق منها‏"‏‏.‏

رواه البزار وفيه عبد الله والد علي بن المديني وهو ضعيف‏.‏

4227- وعن أبي الدرداء قال‏:‏ مر بنا النبي صلى الله ونحن نحفر قبراً فقال‏:‏

‏"‏ما تصنعون‏؟‏‏"‏‏.‏ فقلنا‏:‏ نحفر قبراً لهذا الأسود فقال‏:‏ ‏"‏جاءت به منيته إلى تربته‏"‏‏.‏ قال أبو أسامة تدرون‏:‏ يا أهل الكوفة لم حدثتكم بهذا الحديث‏؟‏ لأن أبا بكر وعمر خلقا من تربة رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏

رواه الطبراني في الأوسط وفيه الأحوص بن حكيم وثقه العجلي وضعفه الجمهور‏.‏

4228- وعن ابن عمر أن حبشياً دفن بالمدينة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏

‏"‏دفن بالطينة التي خلق منها‏"‏‏.‏

رواه الطبراني في الكبير وفيه عبد الله بن عيسى الخزاز وهو ضعيف‏.‏

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد)


لنور الدين الهيثمي 

عصراورفجرکےبعد سجدۂ تلاوت

 ۔نماز فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے تک اور عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے تک  سجدہ تلاوت کی ادائیگی درست ہے۔البتہ عین طلوع اور عین غروب کے اوقات میں سجدہ تلاوت جائز نہیں، الا یہ کہ اسی وقت آیتِ سجدہ کی تلاوت کی تو اس سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی اجازت ہوگی۔''فتاوی ہندیہ'' میں ہے:

''( الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها ) ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة: إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب''۔(2/257)

نیز نماز فجر اور عصر کے بعد فرائض کی قضادرست ہے ،نوافل پڑھنامکروہ ہے،لہذا فرائض کی قضا کے دوران اگر سجدہ سہو لازم ہوجائے تو جس طرح قضا نماز درست ہے سجدہ سہو بھی درست ہے۔

Wednesday 12 June 2024

میاں بیوی کاجماعت سے نماز پڑھنا

 بلاعذر  مسجد میں جماعت سے نماز چھوڑ  کر گھر پر نماز پڑھنا مکروہ ہے،  اگر کبھی کسی عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے تو کوشش کرنی چاہیے کہ کسی قریبی مسجد میں جماعت سے ادا کرلے، بہرحال اگر کسی عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے تو گھر میں جماعت کی جاسکتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صلح کرانے تشریف لے گئے تھے، واپسی پر مسجد کی جماعت نکل گئی تو آپ ﷺ نے گھر والوں کو جمع کرکے گھر میں جماعت سے نماز ادا فرمائی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اگر جماعت چھوٹ جاتی تھی تو وہ یا انفرادی طور پر نماز ادا کرتے یا دوسری مسجد میں جاکر جماعت کی نماز میں شریک ہوجاتے تھے۔

تاہم گھر والوں کو جماعت سے نماز پڑھاتے ہوئے  بیوی کو اپنے برابر میں کھڑا نہ کرے،  بلکہ کچھ  پیچھے ہو یعنی  شوہر کے قدم سے بیوی کاقدم پیچھے ہونا چاہیے، پچھلی صف میں بھی کھڑی ہوسکتی ہے۔

لما في الشامیة:

(قوله: وخصه الزيلعي ... الخ) ... وقال: المرأة إذا صلت مع زوجها في البیت، إن کان قد مها حذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتهما بالجماعة، و إن کان قدماها خلف قدم الزوج إلا أنها طویلة تقع رأس المرأة في السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتهما؛ لأن العبرة للقدم". ( ج 1 ، ص 567) فقط

محاذات کامسئلہ

 مرد اور عورت کے ایک ساتھ  نماز پڑھنے سے مراد اگر یہ ہو کہ نماز پڑھتے ہوئے مرداور عورت دونوں ایک ہی ساتھ صف میں کھڑے ہوں، تو یہ مسئلہ اصطلاح میں ”محاذات“ کا مسئلہ کہلاتا ہے، اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے:

اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی ، وہ شرائط یہ ہیں :

(1)   وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی  ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔

(2)  دونوں نماز میں ہوں، یعنی  ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔

(3)  مرد کی پنڈلی، ٹخنہ  یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔

(4)  یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔

(5)  یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔

(6)  دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی  مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔

(7)  تحریمہ دونوں کی ایک ہو،  یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا  کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔

(8)  عورت میں  نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں،  یعنی  عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں  نہ ہو۔

(9)   مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔

(10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو،  یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا  ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔

(11)  مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو  پھر بھی عورت  مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔

(12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔

  اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں ( دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد  ہوجائے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:

(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل  الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ)

 (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی)

(شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید

سونے چاندی کے دانت یاخول چڑھوانا

 دانتوں پر چاندی یا سونے کا خول بلا ضرورت چڑھانا مکروہ ہے، لیکن اگر ضرورت کی وجہ سے چڑھائے جائیں تو مکروہ نہیں، اور بہر صورت چڑھانے کے بعد یہ خول وضو اور غسل کے جواز پر اثر انداز نہیں ہوتے۔‘‘

(کتاب الطہارت، دوسرا باب انسان اور اس کے عوارض، فصلِ چہارم وضو غسل اور تیمم، ج:2، ص:319، ط:دار الاِشاعت)

 فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’الجواب حامداً ومصلیاً:

اگر بغیر خول چڑھائے دانت کا قائم رہنا دشوار ہو تو چاندی کا چڑھالینا درست ہے، غسل کے وقت اس کو اتارنے سے معذوری ہو تو بغیر اتارے بھی غسل درست ہو جائے گا، نماز بھی درست ہو جائے گی۔‘‘

(کتاب الطہارت، باب الغسل، فصل اول فرائضِ غسل کے بیان میں، ج:5، ص:82، ط:ادارۃ الفاروق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف به يفتى. وقيل إن صلبا منع، وهو الأصح۔"

(کتاب الطہارۃ،فرض الغسل،  ج:1، ص:154، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"‌الأصل ‌وجوب ‌الغسل إلا أنه سقط للحرج."

(كتاب الطہارۃ،فرض الغسل، ج:1، ص:153، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"(لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة)."

 (كتاب الطہارۃ،فرض الغسل،ج:1، ص:152، ط:سعید)



عبد المصطفیٰ نام رکھنا

 اللہ تعالی کے پسندیدہ نام ”عبد اللہ اور عبد الرحمن“ ہیں،ان ناموں کے پسندیدہ ہونے کی وجہ ان ناموں میں اللہ کے ذاتی نام ”اللہ“ اور اللہ کے صفاتی نام ”الرحمن“ کی طرف ”عبد “کی اضافت کا ہونا ہے،دراصل اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی طرف سے عبدیت کا اظہار پسند ہے اور ان ناموں کے ذریعے اظہارِ عبدیت علیٰ وجہ الکمال ہوتاہے۔ اسی وجہ سے اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی طرف عبد کی اضافت کرکے نام رکھنا جائز نہیں ہے ،مثلاً: عبد الرسول، عبد النبی، عبد الحسین، عبد المصطفیٰ، عبد الحجر وغیرہ۔ 

اگر اس میں"عبد" سے مراد بندہ ہو تو یہ نام شرکیہ ہوں گے، اور اگر تاویل کی جائے  کہ عبد سے خادم وغیرہ مراد ہوں تب بھی شبہ تو موجود ہی ہے؛ لہذ ا  عبد النبی نام رکھنا درست نہیں ہے، اس کو تبدیل کرکے انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ یا نیک مسلمان مردوں کے ناموں پر نام  پر رکھے جائیں یا ایسا نام رکھیں جس کے معنی اچھے ہوں

کیاایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے

:ایمان جو کفر کے مقابل ہے اس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی؛ کیونکہ کمی کی صورت میں وہ شرعاً ایمان ہی نہیں کہلائے گا۔ اہل علم نے ایمان میں کمی و زیادتی کی جو بحث کی ہے اس کا تعلق اس معنی (ایمان بمقابل کفر) سے نہیں ہے؛ بلکہ ایمان کے تقاضہ کے مطابق

 احکام شرعیہ پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے دل میں جو نور پیدا ہو اور احکام شرعیہ کی اطاعت کرنے سے اعمال صالحہ میں روز بروز جو اضافہ ہوتا ہے اور مخالفت کرنے کی صورت میں جو گناہ کا صدور ہوتا ہے اس کو ایمان میں کمی زیادتی کہا گیا ہے۔ اور یہ صورت حال حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان میں بھی پائی جاتی ہے۔ اہل علم نے اس کے علاوہ بھی دوسرے معانی بیان کئے ہیں۔

 وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا لما أن تصدیق القلب أمر باطني لا بد لہ من علامۃ، فمن صدق بقلبہ ولم یقر بلسانہ فہو مؤمن عند اللّٰہ تعالیٰ وإن لم یکن مؤمنا في أحکام الدنیا۔ (أبو حنیفہ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”بحث في أن الإیمان ہو التصدیق والإقرار“: ص: ۳۴۱)

(أَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ إِیْمَانًاصلے ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ہ۳۷۱) (سورۃ آل عمران، آیۃ: ۳۷۱)

قالوا: ولا تظہر المغایرۃ بین قول أصحاب الحدیث وبین سائر أہل السنۃ، لأن امتثال الأوامر واجتناب الزواجر من کمال الإیمان إتفاقاً لا من ماہیتہ فالنزاع لفظي لا علی حقیقۃ، وکذلک اختلافہم في نقصان الإیمان وزیادتہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ”کتاب الإیمان: الفصل الأول“: ج ۱، ص: ۶۰۱)

وقوف عرفات کاوقت

 وقوفِ عرفہ کا وقت ٩ذوالحج کو زوال آفتاب سے  غروبِ آفتاب تک کا ہے،اس دوران حاجی کے لیے  عرفات کی  حدود کے  اندر رہناواجب ہے ،اگر کوئی حاجی غروبِ آفتاب سے پہلےعرفات کے حدود سے نکل جائے تو ترکِ واجب کی وجہ سے اس پردم واجب ہو گا،ہاں اگر دوبارہ واپس  آکر غروبِ آفتاب تک رہے گاتودم ساقط ہوجائے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما القدر الواجب من الوقوف: فمن حين تزول الشمس إلى أن تغرب فهذا القدر من الوقوف واجب عندنا...وإن جاوزها قبل الغروب فعليه دم عندنا لتركه الواجب فيجب عليه الدم كما لو ترك غيره من الواجبات."

(كتاب الحج،فصل طواف الزيارة،ج،2، ص 127، ط:دارالکتب العلمیة)

یزید بن معاویہ کے بارے میں علماء دیوبند کاموقف

 مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: '' یزید مومن تھا، بسبب قتل کے فاسق ہوا ، کفر کا حال  معلوم نہیں، کافر کہنا جائز نہیں کہ وہ عقیدہ قلب پر موقوف ہے''۔ (رشیدیہ، ص: 38)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں: '' ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے، کیوں کہ اگر لعنت جائز ہے تو نہ کرنے میں حرج نہیں ؛ اس لیے کہ لعنت نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت نہ مستحب ،محض مباح ہے''۔ (ص: 39)
یزید کے متعلق اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق پر تھے، یزید حق پر نہ تھا،ان امور میں تعمق  (گہرائی میں جانے ) سے بچنا بہتر ہے؛  اس لیے کہ  قرآن کریم کا ارشاد ہے :﴿ تِلْکَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُوْنَ﴾ [البقرة: 141]

ترجمہ: یہ جماعت گزرچکی، ان کے لیے وہ جو انہوں نے کیا، اور تمہارے لیے وہ جو تم نے کیا، اور تم سے نہیں پوچھا جائے اس کے بارے میں جو وہ عمل کرتے تھے۔

اور آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے :  « من حسن إسلام المرء ترکه ما لا یعنیه».

ترجمہ: آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے ہے کہ وہ لایعنی (فضول) کو چھوڑ دے۔ مزید تفصیل کے لیے حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمہ اللہ کی کتاب''شہیدکربلااور یزید'' نیز مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی کتاب ''شہیدِ کربلا'' کا مطالعہ فرمائیں

داڑھی کی توھین کرنا

 داڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور شعائرِ اسلام میں سے ہے، اس کی گستاخی کرنا اور مذاق اڑانا  دراصل سنت اور شعائرِ اسلام کامذاق اڑانا ہے جو کفر تک پہنچادینے والا عمل ہے، اور پھر اگر رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم کی ریش مبارک کا مذاق اڑائے تو یہ مزید بد بختی اور شقاوت کی علامت ہے ؛ اس لیے ایساکرنے والے کو سچی توبہ اور نکاح کی تجدید کا حکم دیا جائے گا۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ  )

نوٹ :  داڑھی کی توہین کے حوالے سے یہ عمومی مسئلہ بیان کیا گیاہے، اس کی بنیاد پر کسی خاص فرد کو نشانہ نہ بنایا جائے جب تک کسی مستند دارالافتاء سے اس کے بارے میں معلومات حاصل نہ کرلیں

نعت کو گانے کے اندازپرپڑھنااورسننا

 گانے کے طرز پر نعت پڑھنا اور سننا منع ہے، اس سے یہ مراد  نہیں کہ عربی اوزان اور عربی بحور پر اشعار یا نعت پڑھنا منع ہے، بلکہ مطلب یہ ہے  کہ جان بوجھ کر اپنے ارادہ و اختیار سے کسی معروف گانے کے ہم وزن قافیہ، حمدیہ و نعتیہ اشعار بناکر گانے کی طرز پر پڑھنا جس سے عام لوگوں کا ذہن اس گانے کی طرف جائے، یا لہجے میں فنِّ موسیقی کے قواعد کی رعایت رکھتے ہوئے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اشعار پڑھنا حمد و نعت کی بے ادبی اورا س کی شان کے خلاف ہے، اور چوں کہ ایساکرنے میں فاسق لوگوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے، اس لیے ایسا کرنا اوربھی زیادہ قبیح ہے، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر آواز کو خوبصورت بناتے ہوئے کسی گانے کی طرز بن جائے یا اس کے مشابہ ہوجائے تو یہ فی نفسہ جائز ہے، لیکن مشابہت سے بچنا بھی بہتر ہے، معجم اوسط طبرانی کی ایک حدیث (نمبر ۷۲۲۳) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو گانے کی دھن پر پڑھنے سے منع فرمایا اور ایسا کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے، اس حدیث سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ نعت کو (جوکہ ایک عبادت ہے) گانے کے انداز پر نہیں پڑھنا چاہیے۔

البتہ حمد و نعت کے اشعار پڑھنے میں  خوش آوازی اور اچھی آواز پیدا کرنے کے لیے آواز میں مناسب اتار چڑھاؤ، ترنم، آواز کو باریک کرنا اور لہرانا وغیرہ امور شرعاً مباح ہیں، ان میں کچھ حرج نہیں، صحابہ کرام نے جو عربی اشعار پڑھے ہیں وہ گانے کے طرز پر نہیں پڑھے، ان حضرات سے اس چیز کا  گمان بھی نہیں ہوسکتا، وہ حضرات اپنے طبعی اور فطری انداز اور طرز پر اشعار پڑھاکرتے تھے، گو ترنم سے پڑھنا بھی ان حضرات سے ثابت ہے، لیکن ان کے اشعار میں نہ کوئی موسیقی ہوتی تھی اور نہ کوئی ساز وغیرہ، اب وہ اشعار عربی بحور پر ہوں اس میں کوئی  حرج  نہیں ہے۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"فأما ما ابتدعه الصوفية اليوم في الإدمان على سماع الأغاني بالآلات المطربة من الشبابات و الطار و المعازف و الأوتار فحرام".

(تفسیر القرطبی، ج:14، ص:40، س:لقمان، ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)

البحرالرائق میں ہے:

"في المعراج: الملاهي نوعان: محرم وهو الآلات المطربة من غير الغناء كالمزمار سواء كان من عود أو قصب كالشبابة أو غيره كالعود والطنبور لما روى أبو أمامة أنه عليه الصلاة والسلام قال «إن الله بعثني رحمة للعالمين وأمرني بمحق المعازف والمزامير» ولأنه مطرب مصد عن ذكر الله تعالى".

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (7/ 88)

Tuesday 11 June 2024

بہوپرساس کی خدمت لازم ہے کہ نہیں

  میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت  اور ہم دردی و  ایثار  کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے  اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر  یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار اور ہم دردی سے چلتا ہے،  کچھ چیزیں  بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں  دونوں کی ایک  دوسرے پر لازم ہیں۔

لہذا عورت کے ذمہ ساس کی خدمت  اگرچہ شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُس کے شوہر کی ماں ہے، جس طرح اَپنی ماں کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کی ماں کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔

لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور اس پر اس ظلم جبر کرنا درست نہیں ہے،(بلکہ خود شوہر پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے)  یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:

’’جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی‘‘۔ (بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب: 31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)

فقط 

تحلیل کے لیے نکاح

 اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے اس کا نکاح  کسی دوسرے شخص سے اس شرط پر کرائے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے گا، ایسا کرنا مکروہ تحریمی (ناجائز) ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے والے اور جو شخص ایسا کروا رہا ہے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور وہ کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے ، نکاح کے بعد دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرے اور اس کے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ اسے اتفاقی طور پر طلاق دےدے تو وہ بیوی پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔

مسند أحمد  (8/ 266)
' عن أبي هريرة قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحل والمحلل له'.
' ( وكره ) التزوج للثاني ( تحريماً )؛ لحديث: لعن المحلل والمحلل له، ( بشرط التحليل )، كتزوجتك على أن أحللك، ( وإن حلت للأول )؛ لصحة النكاح وبطلان الشرط، فلا يجبر على الطلاق'۔ (شامی، كتاب الطلاق، باب الرجعة ۳/ ۴۱۵ ط:سعيد)

خداکو ظالم کہنا

 واضح   رہے  کہ قرآن ِ مجید میں اللہ  تعالی نے اپنی  ذات سے صراحتًا  ظلم کی نفی کی ہے، جیسے کہ  سورۂ  نساء میں  ہے: 

"بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہ کریں گے۔"

(سورۃ النساء، رقم الآیۃ:40، ترجمہ:بیان القرآن)

اور جس صفت کی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذات سے نفی کی ہے، اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا کفر ہے۔

بصورتِ  مسئولہ جو شخص اپنے ہوش وحواس میں اللہ تعالیٰ کی طرف صفتِ ظلم کی نسبت کرتے ہوئے "ظلم خدا کا" کہے تو وہ شخص  دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس  پر  لازم ہے کہ وہ تجدیدِ ایمان کرے اور صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے، اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح بھی لازم  ہے۔

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"نِسْبَةُ الظُّلْمِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَأَثَرُهَا فِي الرِّدَّةِ : اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ نِسْبَةَ الظُّلْمِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى مِنْ مُوجِبَاتِ الْحُكْمِ بِالرِّدَّةِ فَلَوْ قَال شَخْصٌ لِغَيْرِهِ : لاَ تَتْرُكِ الصَّلاَةَ فَإِنّ اللَّهَ تَعَالَى يُؤَاخِذُكَ فَقَال : لَوْ آخَذَنِي اللَّهُ بِهَا مَعَ مَا بِي مِنَ الْمَرَضِ وَالشِّدَّةِ ظَلَمَنِي ، فَإِنَّهُ يَكُونُ مُرْتَدًّا ."

(المادة:ظلم، ج:29، ص:175، ط:اميرحمزه كتب خانه)

الفتاوى الهندية میں ہے:

"قال أبو حفص (رحمه الله تعالى): من نسب الله تعالى إلى الجور فقد كفر، كذا في الفصول العمادية".

(مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق بالإيمان والإسلام، ج:2، ص:259، ط:مكتبه رشيديه)

تکفیر مسلم

 کسی بھی مسلمان پربغیرکسی شرعی دلیل کے کافرہونے کاحکم لگانا،اس کوکھیل بنالیناسخت گناہ اورحرام ہے،ایمان کے لئے بھی خطرناک ہے،اس سے آدمی کااپنادین وایمان سلامت نہیں رہتا،لہذا دوسرے مسلمانوں پرکفرکاحکم لگانے والے شخص کواپنے دین وایمان کی فکرکرنی چاہیئے،اپنی حرکات سے بازآکرتوبہ تائب ہوناچاہیے،ایسے شخص کوحکمت وتدبیرکے ساتھ سمجھایاجائے ،اگر اپنی ان حرکات سے بازنہ آئے تواس سے قطع تعلق کرنادرست ہے۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)

دوسری روایت میں ہے:

''حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا''۔

(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )

جے شری رام یاوندے ماترم کہنا

 جس شخص نے جان بوجھ کر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیا جس سے کفر لازم آتا ہےتو اس پر تجدید ایمان بھی لازم ہے ۔  اگرغلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے (مثلاً کہنا کچھ اور چاہ رہاہو اور زبان سے کفریہ جملہ نکل جائے) تو اس کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا،لہذا اس صورت میں ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی۔ البتہ احتیاطاً استغفار کرلینا چاہیے۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ نعرہ  اگر جان بوجھ کر لگایا گیا تھا  تو یہ کلمہ کفر ہے  مذکورہ شخص  پر  تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح ضروری ہے۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومن تکلم بها مخطئًا أو مکرهًا لایکفر عند الکل".

(باب المرتد جلد 4 ص: 224 ط: سعید)

و فیہ ایضاً: 

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".

قال ابن عابدین رحمه الله:

قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها  عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ".

(باب المرتد جلد 4 ص: 224 ط: سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:کسی ہندوکو"رام رام"کرنےیا لینے سے کفر عائد ہوجاتا ہے؟یا"جے رام"کرنے سے؟

"جواب:اسلامی شعائر"السلام علیکم "ہے،غیر اسلامی شعائر کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے،پھر اگر وہ غیر کا شعار ہوتو اس کو اختیار کرنا معصیت ہے،اگر مذہبی شعار ہو تو کفر تک پہنچ جانے کا خطرہ ہے۔"

(ج:19،ص:96،ط:زیر نگرانی دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

انبیاء اور صحابہ کی توھین کرنا

 حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات میں سے کسی  کی شان میں گستاخی کرنا،سب وشتم کرنا  موجبِ کفر  ہے؛کیوں کہ انبیاء علیہم السلام کی نبوت نصوص قطعیہ سے ثابت ہے،اسی طرح  حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین  کی پوری جماعت  (مجموع من حیث  المجموع )  کی صحابیت کا انکارکرنا،یاحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی صحابیت کا انکاکرنایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی براءت کا انکارکرنا بھی کفر ہے ؛کیوں کہ جماعتِ  صحابہ کرام رضوان  اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ   کی صحابیت  ، اسی  طرح  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت   نصِ قطعی سے ثابت ہے، جب کہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین   کی صحابیت چوں کہ  اخبار آحاد سے ثابت ہے اس وجہ سے   ان میں سے کسی ایک  کے حق میں گستاخی  کفر نہیں، تاہم انتہائی سنگین گناہ   اور فسق فجور کا ارتکاب ہے،لیکن اگر کوئی شخص   صحابہ کرام رضی  اللہ عنہم  کی شان میں گستاخی  کو حلال یا کارثواب سمجھتاہو یا صحا بہ کرام  رضی اللہ عنہم کے کفر کا اعتقاد رکھتاہو تو ایسا  شخص بالاجماع کافرہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا یہ کہنا کہ   " گستاخ رسولﷺ کافر اور واجب القتل ہے،اور گستاخ صحابی صرف فاسق فاجر اور گمراہ ہے " درست نہیں بلکہ اس میں  تفصیل ہے جو اوپر کے سطور میں لکھ دی گئی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا." (البقرة: 137)

ترجمہ:" سواگر وہ  بھی اسی طریق سے ایمان لے آئیں  جس طریق سے تم (اہلِ اسلام) ایمان لائے ہو تب تو وہ بھی راہِ حق پر لگ جائیں گے۔"(از بیان القرآن)

جامع الاحادیث میں ہے:

(ج:20، ص:368، رقم الحدیث :2363، ط:حسن عباس زک"‌من ‌سب ‌نبيا فاقتلوه ومن سب أصحابى فاضربوه."ی)

تنبیہ الولاۃ والحکام میں ہے:

"والحاصل أن الحكم بالكفر علي ساب الشيخين أو غيرهما من الصحابة مطلقا قول ضعيف لا ينبغي الإفتاء به ولا التعويل عليه لما علمته من النقول المعتبرة."

( الحكم بالكفر علي ساب الشيخين أو غيرهما من الصحابة مطلقا قول ضعيف، ص:195، ط:مركز البحوث الإسلامية، )

وفیہ ایضاً:

"هذا وقد رأيت في هذه المسئلة رسالة لخاتمة العلماء الراسخين شيخ القراء والفقهاء والمحدثين سيدي منلا علي القارى رحمه الله تعالي مال فيها إلي ما ذكرته فلا بأس بتلخيص حاصلها،وذلك حيث قال : ....

وأما من سب أحدا من الصحابة فهو فاسق ومبتدع بالإجماع إلا إذا اعتقد أنه مباح أو يترتب عليه ثواب كما عليه بعض الشيعة او اعتقد كفر الصحابة فإنه كافر بالإجماع، فإذا سب أحد منهم فينظر فإن كان معه قرائن حالية علي ما تقدم من الكفريات فكافر وإلا ففاسق..."

(شهادة أهل الأهواء، ص:200،، ط:مركز البحوث الإسلامية، مردان)

اپنے آپ کو کافر کہنا

 شوھرنے اگرکہاکہ میں" کافر ہوں ،میں نہیں مانتا اللہ کو "تو اس کی وجہ سے کہنے والادائرہ اسلام سے خارج ہوچکا میاں بیوی کا نکاح ختم ہوچکا۔ شوہر پر تجدید ایمان ضروری ہے ۔نیز اگر تجدید ایمان کے بعدمیاں بیوی دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کر کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"مسلم قال: أنا ملحد يكفر، ولو قال: ما علمت أنه كفر لا يعذر بهذا.....وفي اليتيمة سألت والدي عن رجل قال: أنا فرعون، أو إبليس فحينئذ يكفر كذا في التتارخانية."

(كتاب السير،الباب التاسع في احكام المرتدين جلد 2 ص: 279 ط:

الٹی ناقض وضو ہے کہ نہیں

 اگر کسی شخص کو قے ہو اور اس میں کھانا  یا پانی یا پت گرے تو اگر منہ بھر   کر قے ہوئی ہو تو وضو ٹوٹ گیا اور اگر منہ بھر  کر نہیں ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔ منہ بھر کر قے ہونے کا مطلب ہےکہ منہ میں مشکل سے رکے۔

اگر قے میں صرف بلغم گرا تو وضو نہیں ٹوٹا،  چاہے بلغم جتنا بھی ہو،منہ بھر ہو یا نہ ہو،سب کا ایک حکم ہے۔

اگر قے میں خون گرے تو اگر پتلا اور بہنے والا ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا، چاہے کم ہو یا زیادہ،منہ بھر ہو یا نہیں ہو،اور اگر خون جمے ہوئے  ٹکڑوں کی صورت میں ہو اور منہ بھر ہو تو وضو ٹوٹ جاے گا اور اگر کم ہو تو نہیں ٹوٹے گا۔

اگر تھوڑی تھوڑی کرکے کئی دفعہ قے ہوئی، لیکن سب ملا کر اتنی ہےکہ اگر ایک دفعہ میں ہوتی تو منہ بھر جاتا تو  دیکھا جائے گا کہ اگر ایک ہی متلی مسلسل باقی رہی اور تھوڑی تھوڑی قے ہوتی رہی تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر ایک ہی متلی مسلسل نہیں رہی، بلکہ پہلی دفعہ کی متلی ختم ہوگئی اور طبیعت ٹھیک ہو گئی پھر دوبارہ متلی شروع ہوئی اور تھوری قے ہو گئی،پھر جب متلی ختم ہو گئی تو تیسری دفعہ پھر متلی شروع ہوکر قے ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔

"ينقض الوضوء قىء ملأفاه بأن يضبط بتكلف من مرة اي صفراء او علق أي سوداء؛وأما العلق النازل من الرأس فغير ناقض او طعام أو ماء اذا اوصل الي معدته وان لم يستقر، وهو نجس مغلظ ولو من صبي ساعة ارتضاعه هو الصحيح لمخالطة النجاسة، ذكره الحلبي.

ولو هو في المرىء فلا نقض اتفاقا كقىء حية أو دود كثير لطهارته في نفسه،كماء فم النائم فانه طاهر مطلقا به يفتی، بخلاف ماء فم الميت فانه نجس كقيء عين خمر أو بول وان لم ينقض لقلته لنجاسته بالأصالة لا بالمجاورة لاينقضه قيء من بلغم علي المعتمد(أصلا) الا المخلوط بطعام فيعتبر الغالب،ولو استويا فكل على حدة. وينقضه دم مائع من جوف أو فم (غلب على بزاق) حكما للغالب( أو ساواه) احتياطاً. لاينقضه المغلوب بالبزاق والقيح كالدم والاختلاط بالمخاط كالبزاق.

ويجمع متفرق القيء و يجعل كقيء واحد لاتحاد السبب وهو الغيثان عند محمد رحمه الله وهو الأصح؛ لأن الأصل إضافة الأحكام إلى أسبابها إلا لمانع، كما بسط في الكافي".

(رد المحتار على الدرالمختار) (حاشية ابن عابدين) (ج: ا/ص ٢٩٣۔٢٨٩


فقد اختلف العلماء في اعتبار القيء ناقضا للوضوء أو غير ناقض على قولين:

الأول: أنه لا ينقض الوضوء قل أو كثر، وبه قال المالكية والشافعية، وأحمد في رواية. وعللوا ذلك بأن الأصل هو عدم النقض، فمن ادعى خلافه فعليه الدليل، وأنه لا يوجد دليل صحيح يوجب نقض الوضوء بالقيء، وما ورد من الأحاديث في ذلك فهو ضعيف، ولأن القيء خارج من غير السبيلين، فلا يعتبر ناقضا، بخلاف الخارج من السبيلين كالبول والغائط.

القول الثاني: أن القيء الكثير ينقض الوضوء دون القليل، وبه قال الحنفية، والحنابلة في المشهور من المذهب، واختلفوا في تحديد الكثير، فمنهم من قال: يحدد ذلك بالعرف، ومنهم من قال: هو ما بلغ ملء الفم.

قال ابن قدامة في المغني: بعد قول الخرقي (والقيء الفاحش، والدم الفاحش...الخ):
(وإنما ينتقض الوضوء بالكثير من ذلك دون اليسير... ولنا ما روى أبو الدرداء: أن النبي صلى الله عليه وسلم قاء فتوضأ، فلقيت ثوبان في مسجد دمشق فذكرت له ذلك، فقال ثوبان: صدق، أنا صببت له وضوءه. رواه الأثرم والترمذي، وقال: هذا أصح شيء في هذا الباب).

كما اعتبر الحنفية القيء ملء الفم ناقضا للوضوء.

والراجح - والله أعلم - أن القيء لا ينقض الوضوء ولو كان كثيرا، لأن حديث: أبي الدرداء قد ضعفه كثير من أهل العلم، وعلى افتراض صحة إسناده فإن مدلوله مجرد فعل، ومجرد الفعل لا يدل على الوجوب لأنه خال من الأمر. انظر الشرح الممتع على زاد المستقنع (1/225) للشيخ ابن عثيمين.