https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday, 26 December 2024

جتناچندہ کیاہے اس کانصف سفیر کی اجرت رکھنا


جواب

        کسی ادارے کی سفیر کی حیثیت اجیر کی ہوتی ہے اور عقد اجارہ میں ضروری ہے کہ اجرت متعین ہو۔ صورت مسؤلہ میں کمیشن پر چندہ اکٹھا کرنا تین وجوہ سے درست نہیں:

           پہلی وجہ یہ ہے کہ اس میں سفیر کی اجرت مجہول ہوتی ہےجب کہ اجارہ کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ اجیر کی اجرت معلوم ہو،لہذا اجرت کی جہالت کی بنا پر یہ معاملہ جائز نہیں۔

          دوسری وجہ یہ ہے کہ اس عقد میں منفعت بھی مجہول ہے،کیونکہ اگر اس کا کام لوگوں سے چندہ وصول کرنا ہے تووہ  اس کے اختیار میں نہیں،اس کا کام تو محض لوگوں کو چندہ کی ترغیب دینا ہے ،لہذا یہ اجارہ ایسے عمل پر ہوا جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔اور اگر اجارہ اس پر منعقد ہوا کہ وہ لوگوں کو چندہ کی ترغیب دیا کرے تو اس صورت میں بھی یہ واضح نہیں کہ اس کام میں کتنا وقت خرچ کرے گا ،نیز کن کن مواقع پر لوگوں کو ترغیب دےگا۔

            تیسری وجہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں سفیر کی تنخواہ چندہ سے مقرر کی جاتی ہے اور فقہاےکرام کی آراء کے مطابق جو چیز اجیر کے عمل سے حاصل ہوتی ہو،اسے اجرت میں مقرر کرنا جائز نہیں۔

لہذا کسی دینی مدرسہ کے سفیر کی یا مہتمم کی تنخواہ چندہ کی رقم سے بطور کمیشن مقرر کرنا جائز نہیں ۔جائز صورت یہ ہے کہ معین تنخواہ مقرر کی جائے ۔

 

وشرطها:كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛لأن جهالتهما تفضي الى المنازعة۔(الدر المختار على صدر رد المحتار:كتاب الإجارة،ج:9،ص:7)

(تفسد الأجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد،فكل ما أفسد البيع،يفسدها)كجهالة مأجور أوأجرة۔(الدر المختار على صدر رد المحتار:كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة:ج:9،ص:64)

محاذات

 مرد اور عورت کے ایک ساتھ  نماز پڑھنے سے مراد اگر یہ ہو کہ نماز پڑھتے ہوئے مرداور عورت دونوں ایک ہی ساتھ صف میں کھڑے ہوں، تو یہ مسئلہ اصطلاح میں ”محاذات“ کا مسئلہ کہلاتا ہے، اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے:

اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی ، وہ شرائط یہ ہیں :

(1)   وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی  ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔

(2)  دونوں نماز میں ہوں، یعنی  ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔

(3)  مرد کی پنڈلی، ٹخنہ  یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔

(4)  یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔

(5)  یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔

(6)  دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی  مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔

(7)  تحریمہ دونوں کی ایک ہو،  یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا  کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔

(8)  عورت میں  نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں،  یعنی  عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں  نہ ہو۔

(9)   مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔

(10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو،  یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا  ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔

(11)  مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو  پھر بھی عورت  مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔

(12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔

  اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں ( دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد  ہوجائے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:

(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل  الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ)

 (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی)

(شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید) 


Wednesday, 25 December 2024

سلام میں مغفرتہ کا اضافہ کرنا

 سلام کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ   "السَّلَامُ عَلَیکُم و رحمة اللّٰه  و بركاته"  کہا جائے اور جواب ان الفاظ سے دیا جائے "وَعَلَیکُمُ السَّلَام و رحمة اللّٰه  و بركاته"۔ اگر  سلام میں "السلام علیکم ورحمۃ اللہ "  یا  صرف "السلام علیکم " پر اکتفا کیا جائے تب بھی درست ہے، مزید اضافہ کرنا یعنی لفظ" مغفرتہ " جیسے الفاظ نہیں   بڑھانا چاہیے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"طریق سلام اور اس کا جواب 

سوال:- ایک شخص کہتا ہے "السلام علیکم " دوسرا شخص جواب میں کہتا ہے "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ و مغفرتہ" ،  کیا یہ جواب درست ہے؟  اس کا کہیں سے ثبوت ملتا ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً ومصلیاً!

افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والا اس طرح سلام کرے " السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" اور جواب دینے والا "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ "کہے۔ اس سے زیادہ کوئی لفظ بڑھانا جیسے’’ومغفرته‘‘مناسب نہیں، اگرچہ بعض روایات میں لفظ ’’ومغفرته‘‘ سلام کے ساتھ وارد ہوا ہے،  جیسا کہ مشکوٰۃ ج:1، ص:398، میں ہے، مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا  ہے کہ سلام کی انتہا ’’وبركاته‘‘ ہے۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

حررہٗ العبد محمودگنگوہی عفااللہ عنہ معین مفتی مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور "

المنتقى شرح الموطإ میں ہے:

"(ص) : (عَنْ مَالِكٍ عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ أَنَّهُ قَالَ: كُنْت جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، ثُمَّ زَادَ شَيْئًا مَعَ ذَلِكَ أَيْضًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَ هُوَ يَوْمَئِذٍ قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ مَنْ هَذَا قَالُوا: هَذَا الْيَمَانِيُّ الَّذِي يَغْشَاك فَعَرَّفُوهُ إيَّاهُ، قَالَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إنَّ السَّلَامَ انْتَهَى إلَى الْبَرَكَةِ).

(ش) : قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - إنَّ السَّلَامَ انْتَهَى إلَى الْبَرَكَةِ يُرِيدُ أَنَّهُ لَا يَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ فِيهِ، وَإِنَّمَا هِيَ ثَلَاثَةُ أَلْفَاظٍ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَمَنْ اقْتَصَرَ عَلَى بَعْضِهَا أَجْزَأَهُ وَمَنْ اسْتَوْعَبَهَا فَقَدْ بَلَغَ الْغَايَةَ مِنْهُ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَزِيدَ عَلَيْهَا.

وَقَدْ قَالَ الْقَاضِي أَبُو مُحَمَّدٍ: أَكْثَرُ مَا يَنْتَهِي السَّلَامُ إلَى الْبَرَكَةِ يُرِيدُ أَنْ لَا يُزَادَ عَلَى ذَلِكَ، وَيَقْتَضِي ذَلِكَ أَنْ لَا يُغَيَّرَ اللَّفْظُ وَهَذَا فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِابْتِدَاءِ السَّلَامِ أَوْ رَدِّهِ وَأَمَّا الدُّعَاءُ فَلَا غَايَةَ لَهُ إلَّا الْمُعْتَادُ الَّذِي يَلِيقُ بِكُلِّ طَائِفَةٍ مِنْ النَّاسِ وَبِاَللَّهِ التَّوْفِيقُ."  

(كتاب الجامع، العمل فى السلام، ج:7، ص:280، ط:مطبعة السعادة) 

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"والأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، و المجيب كذلك يرد، ولاينبغي أن يزاد على البركات شيء، قال ابن عباس - رضي الله عنهما - لكل شيء منتهى ومنتهى السلام البركات، كذا في المحيط. "

(كتاب الكراهية، الباب السابع فى السلام، ج:5، ص:325، ط:مكتبه رشيديه)