https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 9 April 2022

صفات باری تعالی

صفاتِ فعلیہ: یہ وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے متعلق ہوتی ہیں؛ اگر وہ چاہے تو انہیں کر لے اور اگر چاہے تو نہ کرے۔ اس کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ: یہ وہ صفات ہیں جو اپنے موصوف کے ساتھ قائم و لازم نھیں ہوتی ہیں، یا یہ وہ صفات ہیں جو ذات سے الگ ہوتی ہیں، جیسے عرش پر مستوی ہونا، آسمانِ دنیا پر نزول فرمانا، آنا، رضا، محبت وغیرہ۔ فعلی صفات جس شے سے متعلق ہوتی ہیں اس سے تعلق کے اعتبار سے ان کی دو قسمیں ہیں: 1۔ متعدی صفات: وہ فعلی صفات جو دوسرے تک متعدی ہوتی ہیں جیسے خلق (پیدا کرنا)، رزق (روزی دینا)، إحياء (زندہ کرنا)، إماتة (موت دینا) اور تدبیر کی دیگر انواع۔ 2۔ لازمی صفات: وہ فعلی صفات جو ذاتِ الٰہی سے متعلق ہوں، جیسے کلام، نزول، اور استواء علی العرش وغیرہ۔ بعض اوقات ایک ہی صفت دو مختلف اعتبارات سے ذاتی اور فعلی دونوں ہوتی ہے، جیسے صفتِ کلام ہے۔ چنانچہ یہ اپنے اصل کے اعتبار سے ذاتی صفت ہے، اس لیے کہ اللہ تعالی ہمیشہ سے متکلم ہے۔ اور آحادِ کلام کے اعتبارسے یہ ایک فعلی صفت ہے کیوں کہ کلام کا تعلق اللہ کی مشیت سے ہے۔ وہ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ فعلی صفات کی ایک اور اعتبار سے بھی دو قسمیں بنتی ہیں۔ 1۔ صفاتِ فعلیہ خبریہ: یہ وہ صفات ہیں جو صرف نقلی دلیل (یعنی کتاب و سنت) سے ثابت ہوتی ہیں،اور اگر ان کے بارے میں نص نہ آئی ہوتی تو عقل کے ذریعے ان تک رہنمائی پانا اور ان کی معرفت حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ تاہم اس کے باوجود عقل ان کی نفی نہیں کرتی۔ جیسے استواء، نزول، مجیء (آنا) وغیرہ۔ 2۔ صفاتِ فعلیہ عقلیہ: یہ وہ صفات ہیں جن کا ادراک عقل کے ذریعے ممکن ہے اور ان سے متعلق نص بھی آئی ہو۔ اگر ان کے بارے میں نص نہ آتی تب بھی عقل کے ذریعے ان کا ادراک ہوجاتا۔ جیسے خلق، احياء ، اماتہ اور رزق۔ محققین نے وضاحت کی ہے کہ فعلی صفات نوع کے اعتبار سے قدیم اور آحاد کے اعتبار سے حادث ہیں۔

Thursday 7 April 2022

استصحاب

دلیل کے ذریعہ کوئی حکم پہلے سے ثابت ہو اور کوئی صریح دلیل اس حکم کے آئندہ باقی رہنے پر موجود ہواور نہ اس حکم کے ختم ہو جانےپرایسی صورت میں اس حکم کو باقی اور مسلسل قرار دینے کا نام استصحاب ہے، خواہ ماضی کے حکم کو حال میں یا حال کے حکم کو مستقبل میں یا ماضی میں موجود سمجھا جائے۔ اس کی پانچ قسمیں جو حکم شرعی پہلے سے ثابت ہو جب تک اس میں تبدیلی کی کوئی دلیل نہ آجائے ، اس کے باقی رہنے کا حکم لاگایا جائے، جیسے نکاح صحیح کے ذریعہ جب مردو عورت ایک دوسرے کے لیے حلال ہو گئے، تو جب تک نکاح کے ختم ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو وہ ایک دوسرے کی لیے حلال ہی رہیں گے۔ (2)بعض احکام وہ ہیں جو عقل اور شریعت دونوں ہی کے ثبوت و استمرار کا تقاضا کرتے ہیں، مثلا کسی شخص نے دوسرے سے قرض لیا یا ادھار سامان خریدا، تو جب تک دین ادا نہ کر دے یا دوسرا فریق بری نہ کر دے، اس وقت تک اس کی ذمہ داری باقی رہے گی۔ (3) کوئی حکم عام ہو تو جب تک تخصیص پر کوئی دلیل نہ آجائے وہ عام رہے گا، اسی طرح جب کوئی نص وارد ہو تو جب تک دلیل نسخ نہ آجائے وہ حکم باقی رہے گا۔ ان تینوں صورتوں کے معتبر ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ (4) جب تک کسی امر کے بارے میں نص وارد نہ ہو اس وقت تک وہ جائز شمار کیا جائے، انسان اسی وقت مکلف ہوگا ، جب اس کو کسی حکم کا مکلف قرار دینے پر نص موجود ہو۔ (5) اختلافی مسئلہ میں اتفاقی مسئلہ کے حکم کو باقی رکھا جائے، جیسے ایک شخص نے تیمم کیا اور نماز شروع کردی ، تو اگر پانی نظر آنے سے پہلے اس نے اپنی نماز پوری کرلی تو بالاتفاق نماز پوری ہوجائے گی اور اگر نماز کے ختم ہونے سے پہلے پانی نظر آجائے تو اس صورت میں اختلاف ہے ، اس اختلافی صورت میں پانی نظر آنے سے پہلے والے حکم کو باقی رکھا جائے یہ بھی استصحاب کی ایک قسم ہے، جس کو استصحاب اجماع کہتے ہیں، استصحاب حكم الإباحة الأصلية للأشياء التي لم يرد دليل على تحريمها، ومعنى هذا أن المقرر عند جمهور الأصوليين، بعد ورود الشرع: هو أن الأصل في الأشياء النافعة التي لم يرد فيها من الشرع حكم معين هو الإباحة، كما أن الأصل في الأشياء الضارة هو الحرمة. استصحاب العموم إلى أن يرد تخصيص أو استصحاب النص إلى أن يرد نسخ. استصحاب ما دل العقل والشرع على ثبوته ودوامه، وقد عبر عنه ابن القيم باستصحاب الوصف المثبت للحكم حتى يثبت خلافه كالملك، عند وجود سببه، وهو العقد أو الوراثة، أو غيرهما من أسباب الملك. استصحاب الحكم الأصلي المعلوم بالعقل في الأحكام الشرعية أى انتفاء الأحكام السمعية في حقنا قبل ورود الشرع، كالحكم ببراءة الذمة من التكاليف الشرعية حتى يوجد دليل شرعى يدل على التكليف ويسمى هذا بالبراءة الأصلية. استصحاب حكم ثابت بالإجماع في محل الخلاف بين العلماء مثاله: إجماع الفقهاء على صحة الصلاة عند فقد الماء، فإذا أتم المتيمم الصلاة قبل رؤية الماء صحت الصلاة، وأما إذا رأى الماء في أثناء الصلاة فهل تبطل الصلاة أم لا. قال الشافعي ومالك، لا تبطل الصلاة لأن الإجماع منعقد على صحتها قبل رؤية الماء، فيستصحب حال الإجماع إلى أن يدل دليل على أن رؤية الماء مبطلة (اصول الفقہ الاسلامی لوہبہ الزحیلی )

Tuesday 5 April 2022

تراویح میں قرآن کتنی جلدی پڑھ سکتے ہیں

تراویح میں قرآن پاک صرف اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ پڑھنا درست ہے کہ قرآن کریم کے کلمات اور حروف سب صحیح طور پر ادا ہوں، نہ کوئی کلمہ یا حرف غلط ادا ہو اور نہ پڑھنے میں کٹے ، نیز تجوید کے ضروری قواعد کی رعایت بھی پائی جائے، اس قدر تیز پڑھنا کہ کلمات صاف سمجھ میں نہ آئیں اور حروف کٹ جائیں یا تجوید کے ضروری قواعد کی بھی رعایت نہ ہو، درست نہیں۔ ویجتنب المنکرات: ھذرمة القراء ة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۹۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔