https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 1 October 2021

محرمات ابدیہ

 تمام اصول (یعنی والدہ، دادی، نانی وغیرہ اوپر تک) اور فروع( یعنی بیٹی، پوتی، نواسی وغیرہ نیچے تک) محارم ہیں، اسی طرح بہن اور بہن کی اولاد( یعنی بہن کی بیٹی، پوتی،نواسی وغیرہ)، اسی طرح بھائی کی اولاد( بیٹی، پوتی، نواسی وغیرہ) ، پھوپھی اور خالہ بھی محارم میں شامل ہیں،اسی طرح بیوی کی ماں (خوش دامن) اور اس کی دادی،نانی وغیرہ، بیوی کی بیٹی (جو کسی اور شوہر سے ہو اور آپ کے زیرِ کفالت ہو ) جب کہ بیوی سے صحبت کی ہو، والد کی منکوحہ (جس کو ہمارے عرف میں سوتیلی ماں کہا جاتا ہے) اور بیٹے کی منکوحہ (بہو) بھی محارم میں سے ہیں، یہی تمام رشتے اگر رضاعی ہوں تو ان کا بھی یہی حکم ہے۔

" (حرم) على المتزوج ذكرا كان أو أنثى نكاح (أصله وفروعه) علا أو نزل (وبنت أخيه وأخته وبنتها) ولو من زنى (وعمته وخالته) فهذه السبعة مذكورة في آية: {حرمت عليكم أمهاتكم} [النساء: 23]،  ويدخل عمة جده وجدته وخالتهما الاشقاء وغيرهن وأما عمة عمة أمه وخالة خالة أبيه حلال كبنت عمه وعمته وخاله وخالته، لقوله تعالى:{وأحل لكم ما وراء ذلكم} [النساء: 24] (و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة وأم زوجته) وجداتها مطلقاً بمجرد العقد الصحيح (وإن لم توطأ) الزوجة لما تقرر أن وطئ الامهات يحرم البنات، ونكاح البنات يحرم الامهات، ويدخل بنات الربيبة والربيب.
وفي الكشاف: واللمس ونحوه كالدخول عند أبي حنيفة، وأقره المصنف (وزوجة أصله وفرعه مطلقاً) ولو بعيداً دخل بها أو لا، وأما بنت زوجة أبيه أو ابنه فحلال (و) حرم (الكل) مما مر تحريمه نسبا ومصاهرة (رضاعا) إلا ما استثني في بابه.[الدر مع الرد : ٣/ ٢٨-٣١]
ف

Thursday 30 September 2021

فون پر نکاح کرنے کاحکم

 


نکاح کے وقت عاقدین اور گواہوں کامجلس نکاح میں ہونا ضروری ہے، اور یہ ٹیلیفون پر ممکن نہیں اس لیے ٹیلیفون پر نکاح جائز نہیں۔ در مختار میں ہے: ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین وإن طال کمخیرة۔ (الدر المختار مع الشامي: 4/76، ط زکریا دیوبند) البتہ اگر وہ شخص ٹیلیفون پر کسی کو اپنا وکیل بنادے کہ وہ اس کی طرف سے فلاں لڑکی کے نکاح کو قبول کرلے پھر یہاں مجلس نکاح منعقد کی جائے اور قاضی صاحب یا لڑکی کے والد وغیرہ جو بھی نکاح پڑھائیں وہ کہیں کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے کیا اور وکیل کہے کہ میں نے اس لڑکی کو فلاں کے نکاح میں قبول کیا، پس اس سے نکاح منعقد ہوجائے گا اور صحیح ہوجائے گا۔

Wednesday 29 September 2021

مولاناکلیم صدیقی کی گرفتاری اورآسام میں سرکاری آتنک واد کے خلاف احتجاج

 جلگاؤں(پریس ریلیز): جلگاوں شہر میں کلکٹر آفس پر بڑے پیمانے پر تمام دینی ملی ،سیاسی تحریکوں اور سماجی تنظیموں نے متحد ہوکر مولانا مفتی محمد ہارون ندوی صاحب کی قیادت میں "مولک ادھیکار منچ" کے پرچم تلے جمعیۃ علماء ہند ، جماعت اسلامی، وحدت اسلامی، ایس آئی او ،آئی وائی ایف ، کل جماعتی مشن، تبلیغی جماعت، سنی دعوت اسلامی ،اہل سنت اور سیاسی پارٹیوں میں کانگریس ، راشٹر وادی، سماجوادی ، ایم آئی ایم ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا جیسی مختلف جماعتوں اور فعال و مستعد اہلیان جلگاوں نے اتحاد کے ساتھ داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی کی غیر قانونی گرفتاری، یوگی تانا شاہی اور گھٹیا نیچ سیاسی ہتھکنڈوں کی جم کر مخالفت کی ۔اور مولانا کی رہائی کا بنا شرط مطالبہ رکھا گیا ،ساتھ ہی آسام میں 800 مکانات منہدم کردینے اور پولیس کی جانب سے حالیہ بربریت جس میں گولیوں سے دو سے تین لوگوں کی جان گئی سنگھی فوٹوگرافر کا لاش پر کودنا اس سرکاری آتنک واد کی بھی جم کر مذمت کی۔ ساتھ ہی ان پولیس والوں پر 302 مرڈر کا کیس درج کرنے کا مطالبہ کیا ۔ تمام تنظیموں ،تحریکوں اور پارٹیوں کے ذمہ داران نے تفصیلی بیان بھی کیا - اور ملک میں پھیلائی جارہی نفرت ، گودی میڈیا کا آتنک ، سرکاری دہشتگردی ، مندر اور مسجد کے نام پر گھٹیا سیاست اور ۔یوپی الیکشن کے گھٹیا منصوبوں کے تذکرے کے ساتھ ملت اور مسلمان نوجوانوں کو ہوش کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی نصیحت کی ۔اور حکومت کو بھی خبردار کیا کہ نفرتوں کی سیاست بند کرو ، منافرت ، فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے جیسا گھٹیا کام حکومت بند کرے۔حکومت اپنی کمیوں اور کوتاہیوں سےعوام کی نظریں ہٹانے کی خاطر انہیں غیر ضروری معاملات میں الجھا رہی ہے ۔یہ حکومت کا انتہائی گھٹیا عمل ہے ۔ایک حکومت اپنی اقلیت اور اس کے علماء کو اپنے نشانے پر رکھ کر انہیں یر قسم کی ایذاء و تکالیف پہنچارہی ہے ۔غم وغصہ کے باوجود عوام نے انتہائی سنجیدہ اور پر امن مظاہرہ کا پیغام دیا۔اور حکومت کے سامنے اپنی بات دو ٹوک انداز میں رکھی۔ احتجاج بارش اور طوفان کے باوجود صبح 11 سے لیکر دوپہر 3 بجے تک کامیابی کے پرجوش نعروں کے ساتھ چلتا رہا۔ تین بجے ایک وفد جس کے صدر مولانا مفتی محمد ہارون ندوی ، اور کوآرڈی نیٹر مفتی عتیق الرحمان ، مفتی خالد ، مزمل ندوی، محترم فاروق شیخ اور اقبال منیار نے ضلع ادھیکاری ، کلکٹر ابھیجیت راوت کو ہزاروں دستخط کے ساتھ مطالبات کا میمورنڈم دیا ۔کلکٹر صاحب نے یقین دلایا کہ آپ کے جذبات اور مطالبات کو سرکار تک پہنچایا جائے گا۔ اس احتجاجی شاندار ، کامیاب آندولن میں علمائے کرام نے اکیلے ایک تنہا پر ہونے والے ظلم کا متحد ہوکر مقابلہ کرنے کی نصیحت اور اہلیان جلگاوں نے بھی اعلان کیا کہ ہم اپنے علماء کے شانہ بشانہ ، قدم بقدم ساتھ رہیں گے، محترم فاروق شیخ صاحب، محترم عبدالکریم سالار صاحب ، محترم اعجاز ملک صاحب، ایاز علی، ڈاکٹر جاوید ، محترم سہیل سر ڈاکٹر راغیب ، فیروز ملتانی ، فہیم پٹیل ، زکی پٹیل ، سبیان ، اشفاق ، تابش ، ڈاکٹر شاکر، زیان جاگیردار، قاری عقیل، مولانا عبدالرحمان ملی، قاری مشتاق ، مولانا اختر ندوی ، مولانا اعجاز ندوی، ظفر بھائی پینچ، حافظ قاسم ، وسیم محبوب، حافظ اسامہ، حافظ صفی ، عمرفاروق، غرض کہ شہر کے تمام درد مند دل ، متحرک اور غیور نوجوان بڑی کثیر تعداد میں اس پروگرام میں موجود رہے۔ محترم مفتی عتیق الرحمان صاحب خطاب آخر صدر مولانا مفتی محمد ہارون ندوی صاحب کے پر مغز، بیباک خطاب کے ساتھ مفتی خالد صاحب کی دعا پر احتجاج دوپہر تین بجے ختم ہوا۔

Monday 27 September 2021

جامعہ نگر:مسلمانوں نے مندرکوبلڈرمافیا سے بچالیا

 نئی دہلی: جامعہ نگر کے مسلم باشندوں کے ایک متعلقہ گروہ کی جانب سے ایک تیز قانونی اقدام نے دہلی ہائی کورٹ کے ذریعہ علاقے میں ایک پرانے مندر کے احاطے کو پہنچنے والے نقصان کو روکنا یقینی بنایا ہے۔ مندر کے ساتھ والی دھرم شالا کا ایک حصہ حال ہی میں شرپسندوں نے مسمار کر دیا تھا۔

عدالت نے گزشتہ ہفتے اس وقت قدم اٹھایا جب جامعہ نگر 206 وارڈ کمیٹی نے اس سے رجوع کیا اور علاقے کے واحد مندر کی تجاوزات اور انہدام کو اجاگر کیا ، جس میں جوہری فارم میں واقع دھرم شالہ بھی شامل ہے۔

پریشان درخواست گزار ، جو کہ نور نگر ایکسٹینشن کالونی میں رہتے ہیں نے عدالت کو بتایا کہ دھرم شالہ کا ایک حصہ راتوں رات مسمار کر دیا گیا تھا اور پوری زمین کو برابر کر دیا گیا تھا تاکہ شرپسندوں/بلڈروں کی طرف سے اس پر قبضہ کیا جا سکے۔

اس علاقے کے لے آؤٹ پلان کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں مندر کے احاطے کو واضح طور پر نشان زد کیا گیا تھا ۔فوز العظیم کی سربراہی میں کمیٹی نے الزام لگایا کہ اس کے ایک حصے کو ایک عمارت کھڑی کرنے اور فلیٹ بیچنے کے لیے مسمار کیا گیا تھا۔ نہ صرف بلڈر کا یہ عمل غیر قانونی تھا ، بلکہ اس کا مقصد علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر کے پیسہ کمانا تھا ، درخواست میں متنبہ کیا گیا ، عدالت پر زور دیا گیا کہ وہ میونسپل کارپوریشن اور دہلی پولیس کو اس کی حفاظت کے لیے ہدایت دے۔

نور نگر ایک بہت بڑا علاقہ ہے جس میں گھنی مسلم آبادی ہے اور غیر مسلموں کے چند گھر (40-50 خاندان)۔ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ دونوں کمیونٹیز برسوں سے یہاں محبت ، پیار اور بھائی چارے کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ تاہم ، بلڈر/شرپسند دونوں برادریوں کے درمیان بھائی چارے اور ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مقامی لوگوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے پولیس اور جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن کے عہدیداروں کو تجاوزات اور غیر قانونی مسمار کرنے کے حوالے سے بار بار کالیں کی تھیں ، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، جس سے انہیں عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔

جب بنچ نے دھرم شالا کے منہدم ہونے کے بارے میں پوچھا تو کارپوریشن نے واضح کیا کہ اس نے کوئی مسمار نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ جب جائیداد کا معائنہ کیا گیا تو کوئی تعمیراتی سرگرمی نہیں ملی۔ تاہم ، چونکہ یہ مسئلہ امن و امان اور علاقے کے تحفظ سے متعلق تھا ، اس لیے اس نے پولیس کو خبر کی گئی ہے ۔

پولیس نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مندر کے احاطے میں کوئی تعمیر نہ ہو اور اسے محفوظ رکھا جائے گا۔ پولیس اور کارپوریشن دونوں کو ان کی یقین دہانی کا پابند کرتے ہوئے ، عدالت نے انہیں حکم دیا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ علاقے میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور "لے آؤٹ پلان میں مندر کے طور پر دکھایا گیا علاقہ ایک مندر کے طور پر محفوظ اور برقرار ہے۔

بیف کا شبہ مسلمانوں کی دوکانوں کوبند کرادیاگیا

 بھوپال : مدھیہ پردیش کے ضلع کھرگون میں بیف کے شبہ پر ہندو تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے مسلمانوں کے کاروبار اور دکانوں کو بند کرادیا۔ شرپسندوں کی جانب سے بعض دکانوں میں توڑپھوڑ بھی کی گئی اور اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے گئے۔ اس واقعہ کا ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا ہے جس میں ہجوم پر قابو پانے کیلئے پولیس کو لاٹھی چارج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ بیف کے شبہ میں تین افراد کو گرفتار کیا گیا اور انہیں عدالتی تحویل میں دیدیا گیا۔ اس واقعہ میں ایک آٹو رکشہ کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔

Sunday 26 September 2021

انسانیت کے لباس میں خونی درندے

 نازش ہما قاسمی

کہا جاتا ہے کہ انسانوں کے سینے میں دل ہوتا ہے، جو کسی کی تکلیف اور مصیبت کو دیکھ کر کڑھتا ہے، اس میں ایسے جذبات ہوتے ہیں جو اس کو جانوروں اور وحشی درندوں سے الگ اور ممتاز بناتا ہے۔ لیکن اگر دنیا میں ظلم و جور اور جبر و تشدد کی تاریخ کو کھنگالا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان صفات رذیلہ کے حامل افراد کے سینے میں دل نہیں بلکہ پتھر ہوتا ہے جو ہر قسم کے جذبات سے عاری ہوا کرتے ہیں۔ اگر ان کے سینوں میں دھڑکنے والا دل موجود ہوتا تو پھر کیسے کسی معصوم کو موت کی نیند سلاکر خود خواب خرگوش کا مزہ لیتے۔ کسی بوڑھے پر گولیوں کی بوچھار کرکے آرام دہ بستروں پر آرام کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان افراد کے سینوں میں دل ہے لیکن وہ انسانیت کے جذبات اور محبت و مروت کی مٹھاس سے عاری ہیں۔ ان کے سینوں میں نفرت و عداوت، بغض و عناد اور کینہ و تکبر اس حد تک سما چکا ہے کہ وہ اچھے اور برے کی تمیز بھول جاتے ہیں۔ وہ انسانیت کے بجائے وحشیانہ طرز زندگی اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اجتماعی عصمت دری کے واقعات ہوں یا پھر ماب لنچنگ کی خون ریز داستانیں یا پھر معصوموں پر گولیوں کی بوچھار کرنے والے حادثات ان تمام میں یہ بات مشترک ہیں کہ ان کے انجام دینے والوں کی ذہنی تربیت پیار و محبت کے ماحول میں نہیں بلکہ نفرت و عداوت کے ماحول میں ہوئی ہے۔ ابتدا سے ہی انہیں نفرت کرنا اور تشدد پھیلانا سکھایا جاتا ہے۔ یہ جس گروہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان تمام کی منزل نفرت اور وحشیانہ پن ہے۔ اب تو حد ہوگئی کہ ہر کوئی دوسرے پر فوقیت لینے کی دوڑ میں ہے۔ اجتماعی عصمت دری کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنونی اور ہوس پرست بھیڑئے معصوموں کی عزت سے کھیلنے تک اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ تو ان کے کلی نما جسم کو اس طرح مسلتے ہیں جیسے کانٹوں میں گلاب کو مسل دیا جائے، جس کا ہر ہر جز سرخ اور زخمی ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان حادثات کی شکار معصوم بچیاں بہت جلد زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ ان خونی درندوں میں یہ وحشیانہ پن اسی نفرت کا نتیجہ ہے جو انہیں سکھائی جاتی ہے اور جس کی انہیں تعلیم دی جاتی ہے۔ انسان کی نشو و نما اگر نفرت بھرے ماحول میں ہو اور اس میں انسانیت کی مٹھاس کے بجائے نفرت کا زہر گھولا جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ظاہری دنیا میں اس نے کیا کمالات حاصل کئے ہیں یا کس پیشہ اور شعبہ سے تعلق رکھتا ہے۔

آسام اس کی زندہ مثال ہے جہاں بے گھر معصوموں پر گولیوں کی بوچھار کردی گئی جس کے نتیجہ میں موت تک کے واقعات پیش آئے ہیں۔ پولس کی ذمہ داری عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشہ سے جڑے بعض افراد انسانیت کی تعلیم سے مکمل طور پر بے بہرہ اور نابلد ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات وردی میں ملبوس انسان وہ کالے کارنامے کرجاتے ہیں جو دوسروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات ہے کہ صحافت جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ صحافی جسے معاشرہ میں سچائی اور انصاف پر مبنی واقعات و حادثات کو بیان کرنا ہوتا ہے، اگر وہ انسان کے مردہ جسم پر ناچنے لگے اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو تو آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے یہ آرہے ہیں۔ درحقیقت یہ وہی لوگ ہیں جن کی نشو و نما نفرت کے ماحول میں ہوئی ہے۔ جن کی بنیادی تعلیم اور انتہائی تعلیم ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں انسانیت نہیں بلکہ نفرت سکھائی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی لاش پر چڑھ کر ناچے، یہ تو ان آدم خور لوگوں کی بستی کے رہائشی اور مکین نہیں ہے جہاں ایک انسان دوسرے انسان کو کھاجاتا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ نام نہاد مہذب سماج کا حصہ ہیں اور ان کی رہائش تہذیب و ثقافت کی عکاس بھی ہوسکتی ہے لیکن ان کے دل نفرت میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ ان سے انسانیت والے کام سرزد نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ خونی بھیڑئے ہیں جو ہمیشہ اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کبھی کبھار ان کے کالے کرتوت عوام الناس کے حلقوں میں پہنچ جاتے ہیں جبکہ بیشتر اوقات ان کے جرائم پردہ خفا میں رہ جاتے ہیں کیونکہ چہار جانب نفرت کے سوداگر اور انسان نما درندے بیٹھے ہیں جو ایک دوسرے کے معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دجالی میڈیا کے معاون ہیں یہ جرنلزم کی آڑ میں ٹیررازم پھیلاتے ہیں صاف و شفاف اور منصف و غیر جانبدار میڈیا جمہوریت کا ستون ہے لیکن یہ لوگ جمہوریت کو کھوکھلا کرنے والے افراد ہیں جمہوریت کا ستون بننے کے بجائے اپنے اعمال و افعال سے اس ستون کو منہدم کرچکے ہیں اور یہ فرقہ پرست گودی میڈیا کی پیداوار نفرت کے سوداگر اپنے مذہبی تعلیمات سے بھی دور ہیں اور دجالی میڈیا کے آلہ کار بن کر اپنی ہندوازم کی عظیم تعلیمات و سنسکرتی جس میں انہیں زور دے کر کہاگیا ہے کہ انسانیت پر دیا کرو دیالو بنو ہنسا کا راستہ نہ چنو اہنسا کے پجاری بنو، ان سبھی کو پس پشت ڈال کر اپنے مذہب کا بھی مذاق اڑارہے ہیں اور ہنسا و تشدد کا راستہ اپنا کر مجبور و بے کس مسلمانوں کی لاشوں پر کود کر جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہوئے جمہوریت کے جنازے پر کود رہے ہیں۔


نازی حکومت سے آسام کوبچائیں. ایس ڈی پی آئی کا ملک گیرمظاہرہ

 نئی دہلی:سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI)نے آسام کے ضلع دارنگ، سیپاجھار، گوروکوٹھی گائوں میں پولیس اور ریاست کے گٹھ جوڑ کے ذریعے مظاہرین پر وحشیانہ حملوں اور ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے دہلی سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے ۔ نئی دہلی میں ہوئے احتجاجی مظاہرے میں پارٹی قومی صدر ایم کے فیضی ، قومی نائب صدوراڈوکیٹ شرف الدین احمد، شیخ دہلان باقوی، قومی جنرل سکریٹریان عبدالمجید کے ایچ، الیاس محمد تمبے، قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی ، تمل ناڈو ریاستی صدر نیلائی مبارک، کرناٹک ریاستی صدر عبدالحنان، کیرلا ریاستی صدر عبدالمجید فیضی، راجستھان ریاستی صدر محمد رضوان خان، قومی ورکنگ کمیٹی اراکین ریاض فرنگی پیٹ، عبدالستار، ڈاکٹر عواد شریف، محترمہ یاسمین فاروقی اور دیگر لیڈران شریک رہے ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے آسام پولیس کے ایکشن کو غیر انسانی اور سفاکانہ بتایا ۔آسام پولیس نے ایک ہجوم پر فائرنگ کی جو اس زمین سے زبردستی بے دخلی کے خلاف احتجاج کررہا تھا جہاں وہ کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت بنگلہ دیش سے 'تجاوزات'اور 'غیر قانونی تارکین وطن کا الزام لگاتے ہوئے مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ بے دخلی مہم کی وجہ سے800سے زائدخاندانوں پر مشتمل 5000سے زائد افراد کو بے گھر کردیا ہے۔ موجودہ وبائی صورتحال میں متبادل سہولیات کا بندوبست کیے بغیر غریب شہریوں کو زمین سے بے دخل کرنا ظلم ہے۔ حکومت جس کو لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا چاہیے وہ مذہب کے نام پر ان کو پولرائز کرنے اور انہیں قتل کرنے میں مصروف ہے۔ بی جے پی حکومت کے2016میں اقتدار میں آنے کے بعد سے علاقے کے لوگوں کو بار بار ہراساں کیا جاتا رہا ہے ، ا س علاقے میں رہنے والے زیادہ تر کاشتکار ہیں اور ان کے معاش کے ذرائع پر حملہ کیا جارہا ہے۔ بیشتر نے زمین پر قبضہ کرلیا تھا کیونکہ وہ بے زمین ہیں اور اپنی زمین خریدنے کے متحمل نہیں ہیں۔ وزیر اعلی ڈاکٹر ہیمنت بسواس شرما متاثرین کو تسلی دینے کے بجائے ٹوئیٹ کے ذریعے پولیس کی بربریت کی تعریف کرتے ہوئے اور لوگوں کو بے دخل کرنے اور ایک مسجد کو مسمار کرنے کی تصاویر پوسٹ کرکے ظلم کا جشن منارہے تھے۔ ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے اس بات کی طر ف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی انتہا جو کہ انتہائی دائیں بازو کے ہندوتوا فاشسٹوں نے عام لوگوں میں داخل کی ہے، ایک فوٹوگرافر کی اس وائرل ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے ، جو پولیس کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد زمین پر بے حرکت زمین پر پڑے مظاہرین کو لات ماررہا ہے ۔ کوئی بھی انسان سوائے سنگھیوں کے اتنے ظالم اور سفاک نہیں ہوسکتے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے آسام حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ہندوستانی شہریوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے نام سے نکالنے سے باز رہے، صرف اس لیے کہ ا ن کا مذہب اسلام ہے اور ریاست میں مسلمانوں کے خلاف مظالم بند کرے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ بے دخل کیے گئے لوگوں کی فوری طور پر بحالی کی جائے اور فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو معقول معاوضہ دیا جائے ۔