https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 18 May 2024

موبائل میں بغیر وضو قرآن مجید پڑھنا

 موبائل میں قرآنِ مجید انسٹال کرنا اور موبائل میں دیکھ کر قرآنِ مجید پڑھنا جائز ہے، چوں کہ قرآنِ کریم کو دیکھ کر ہاتھ لگائے بغیر زبانی تلاوت کرنا جائز ہے، اس لیے موبائل فون میں دیکھ کر بے وضو قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا بھی جائز ہے، اگر اسکرین پر قرآن کریم کھلا ہوا ہو تو بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا بھی جائز ہے، البتہ اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، کیوں کہ جس وقت قرآنِ کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے۔

خلاصة الفتاویٰ،( 104/1):

"ولایکره للمحدث قراءة القرآن عن ظهر القلب". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 173):

"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرز أو بصرة به يفتى، وحل قلبه بعود.

Friday 17 May 2024

اسقاط حمل کے جواز کی صورت

 حمل ضائع کرنے کے بارے میں شرعی اصول یہ ہے  کہ اگر  حمل  چار  ماہ  سے  کم کا ہو،  اور  ماہر ڈاکٹر  یہ   کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے  ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت اس حمل کاتحمل نہیں کرپاۓ گی،  تو ان  جیسےاعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے    پہلے  (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی، البتہ چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائزنہیں ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی خاتون کے بہت زیادہ کمزور ہونے کی وجہ سےماں یابچےکی جان جانے کا اندیشہ ہو، اور ڈاکٹر کی رائے کے مطابق اسقاطِ حمل ضروری ہو، تو مذکورہ  اعذار کی بناء پر   حمل  میں روح پڑجانے سے پہلے پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)  حمل  کو ساقط کرناجائزہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ویکره أن تسعی لإسقاط حملها، وجاز لعذر حیث لایتصور.... (قوله: ویکره الخ) أي مطلقًا قبل التصور و بعد علی ما اختاره في الخانیة کما قد مناه قبیل الا ستبراء، وقال: إلا أنّها لاتأثم إثم القتل. (قوله: وجاز لعذر) کالمرضعة إذا ظهربه الحبل وانقطع لبنها ولیس لأب الصبي ما یستأجر به الظئر وخاف هلاك الولد، قالوا: یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق له عضو، وقدروا تلك المدة بمائة وعشرین یوماً، وجاز؛ لأنّه لیس بآدمي، وفیه صیانة الآدمي، خانیة."

(كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره، فصل في البيع، فرع يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس، ج:6  ص:429 ط: سعید)

مکروہ اوقات میں نماز جنازہ پڑھنا

  ان  اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے، خواہ فرض نماز ہو یا نفل، ادا نماز ہو یاقضا۔  ان تین اوقات میں پڑھی گئی نفل نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ اداہوجائے گی، اور فرض یا واجب نماز پڑھی تو اس کااعادہ لازم ہوگا (سوائے وقتی نمازِ عصر کے کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے شروع کی اور اسی دوران سورج غروب ہوگیاتو کراہت کے ساتھ اداہوجائے گی اور اتنی تاخیر کرناگناہ ہے)۔

اوقاتِ ممنوعہ درج ذیل ہیں:

1۔عین طلوع کا وقت۔ 

2۔نصف  النہاریعنی استوائے شمس کے وقت ۔

3۔عین غروب کے وقت۔

"( وكره ) تحريماً... ( صلاة ) مطلقاً ( ولو ) قضاءً أو واجبةً أو نفلًا أو ( على جنازة وسجدة تلاوة وسهو ) ( مع شروق ) ( واستواء ) ... ( وغروب ، إلا عصر يومه ) فلايكره فعله لأدائه كما وجب". (ردالمحتار، 1/370. دارالفکر


فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع.كذا في الخلاصة هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه."

(كتاب الصلوة، الباب الاول في مواقيت الصلوة، الفصل الثالث في بيان الاوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، ٥٢/١، ط:رشيدية)



Tuesday 14 May 2024

سن بلوغ

 لڑکی کی بلوغت کی کم سے کم عمر نو سال ہے، نو سال پورے ہونے کے بعد جب بھی بلوغت کی کوئی علامت (حیض آنا یا حمل ٹھہرنا وغیرہ) لڑکی میں ظاہر ہوجائے تو وہ بالغ سمجھی جائے گی، لیکن اگر پندرہ سال عمر پوری ہونے کے باوجود کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو پھر پندرہ سال مکمل ہوتے ہی لڑکی بالغ شمار کی جائے گی اور اس پر بلوغت والے تمام احکام نافذ ہوجائیں گے۔ خاندان، قوم، علاقہ اور موسم کے اختلاف کی وجہ سے لڑکی کی بلوغت کی عمر مختلف ہوسکتی ہے، یعنی نو سے پندرہ سال کے دوران کسی بھی عمر میں وہ بلوغت کو پہنچ سکتی ہے، کوئی ایک ضابطہ سب کے لیے نہیں ہے. البتہ پندرہ سال پورے ہونے کے بعد وہ بہرصورت بالغ سمجھی جائے گی۔

قال ابن قدامة في المغني: (وأما السن فإن البلوغ به في الغلام والجارية بخمس عشرة سنة). انتهى
وقال الشافعي في الأم: (ليس على الصبي حج حتى يبلغ الغلام الحلم، والجارية المحيض في أي سن بلغاها، أو استكملا خمس عشرة سنة). انتهى
قال في كنز الدقائق: (ويفتى بالبلوغ فيهما -أي الذكر والأنثى- بخمس عشرة سنة، وهذا عند أبي يوسف ومحمد -يرحمهما الله- وهو قول الشافعي ورواية عن أبي حنيفة) انتهى
وذهب المالكية إلى أن سن البلوغ عند عدم وجود باقي العلامات هو ثمانية عشر عاما، قال خليل في مختصره: (والصبي لبلوغه بثماني عشرة، أوالحلم، أو الحيض أو الحمل أو الإنبات). انتهى
وذهب أبو حنيفة في الرواية الأخرى إلى أن بلوغ الذكر والأنثى عند عدم وجود العلامات، هو ثماني عشرة سنة للغلام وسبع عشرة سنة للجارية، كما ذكره عنه صاحب كنز الدقائق.
والراجح هو القول الأول -كما ذكرنا- وعليه، فإن من بلغ هذا السن عاقلا يكون مكلفا مسؤولا عن كل ما يصدر منه من أقوال وأفعال، والحكمة في ذلك، ذكرها السيوطي في الأشباه والنظائر فقال: (والحكمة في تعليق التكليف بخمس عشرة سنة: أن عندها بلوغ النكاح وهيجان الشهوة والتوقان، وتتسع معها الشهوات في الأكل والتبسط ودواعي ذلك، ويدعوه إلى ارتكاب ما لا ينبغي، ولا يحجزه عن ذلك ويرد النفس عن جماحها إلا رابطة التقوى وتشديد المواثيق عليه والوعيد، وكان ذلك قد كمل عقله واشتد أسره وقوته، فاقتضت الحكمة الإلهية توجه التكليف إليه، لقوة الدواعي الشهوانية، والصوارف العقلية، واحتمال القوة للعقوبات علىالمخالفة). انتهى

فقہاءِ کرام کی عبارات سے معلوم ہوتاہے کہ لڑکے کے لیے بلوغت کی کم ازکم عمر  12 سال اور لڑکی کے لیے بلوغت کی عمر کم ازکم 9سال ہے، اس عمر میں اگر بالغ ہونے کی علامات (لڑکے میں احتلام، انزال، یا اس کے جماع کرنے سے بیوی کا حاملہ ہونا، اور لڑکی میں احتلام،حیض یا استقرار حمل) ظاہر ہوجائیں تو انہیں بالغ سمجھاجائے گا۔ اور اگر یہ علامات ظاہر نہ ہوں یہاں تک کہ قمری اعتبار سے دونوں پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں اور سولہواں سال شروع ہوجائے تو بلوغت کا حکم  خود ثابت ہوجائے گا۔

اس تفصیل سے یہ معلوم ہواکہ اگر لڑکا اور لڑکی  مذکورہ ادنیٰ مدتِ بلوغ سے پہلے بالغ ہونے کادعویٰ کریں تو ان کا دعویٰ معتبر نہیں سمجھا جائے گا، 9 سال سے پہلے بچی کو آنے والا خون بیماری کا خون کہلائے گا، اسی طرح اگر کوئی بچہ 9سال کی عمر میں منی کے خروج کا دعویٰ کرتاہے تو اس دعوی کو قابل قبول قرار نہیں دیاجائے گا اور اس عمرمیں یہ شریعت کے اَحکام کا مکلف نہیں بنے گا۔  جیساکہ "دررالحکام "کی عبارت میں صراحت ہے۔حوالہ جات درج ذیل ہیں :

دررالحکام شرح مجلة الأحکام میں ہے :

"(مبدأ سنّ البلوغ في الرجل اثنتا عشرة سنةً، وفي المرأة تسع سنوات، ومنتهاه في كليهما خمس عشرة سنةً. وإذا أكمل الرجل اثنتي عشرة سنةً ولم يبلغ يقال له: "المراهق"، وإذا أكملت المرأة تسعًا ولم تبلغ يقال لها: "المراهقة" إلى أن يبلغا) إن أقل سنّ يمكن أن يحتلم فيها الذكور ويبلغوا هي اثنتا عشرة سنةً، والإناث تسع سنوات، و منتهى السن في الاثنين خمس عشرة سنةً عند الإمامين، وعليه فمتى أتم الذكر الثانية عشرة من عمره يمكن أن تظهر عليه آثار البلوغ المذكورة في المادة الآنفة؛ لأنه قد شوهدت علامة البلوغ في هذه السن، ولقد كان عبد الله بن عمرو بن العاص أصغر من أبيه باثنتي عشرة سنةً فقط، كذلك يمكن أن تظهر آثار البلوغ على الأنثى متى اكتملت السنة التاسعة من عمرها؛ لأن البنت أسرع بلوغًا من الغلام ... الصغير الذي لم يدرك مبدأ سن البلوغ إذا ادعى البلوغ لايقبل منه )...مثلًا لو قال غلام لم يكمل الثانية عشرة: إنه بالغ، فلايقبل ذلك منه، كما أنه لايقبل قول بنت لم تتم التاسعة: بأنها بالغة، كما لو كانت في الخامسة من عمرها، ولو جاءها الدم لايعتبر حيضًا، ( الطحطاوي) ؛ لأن ظاهر الحال يكذبها، وفي هذه الصورة لاتجوز معاملاتهما كالبيع والشراء والقسمة. ( رد المحتار، العناية ). وتطلق الدعوى، كما ذكر في كتاب الدعوى، على طلب الحق لدى الحاكم. لكن الدعوى في هذه المادة لم تكن بهذا المعنى، وعليه فلو بين بلوغه في حضور غير الحاكم فلا حكم له، ويبقى محجورًا كالأول". (2/633،634، دارالکتب العلمیة، بیروت)


تین طلاق کے بعد عدت

 صورت ِ مسئولہ میں تین مرتبہ "طلاق دیتا ہوں " کہنے سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،نکاح ختم ہوچکا ہے ،دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ،بیوی عدت (تین حیض ) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل له حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها".

( کتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة،ج:1،ص:473،دارالفكر)

تحفۃ الفقہاء میں ہے :

"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة۔۔۔۔۔وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل".

(کتاب الطلاق،باب العدۃ،ج:2،ص:245،دارالکتب العلمیۃ)

Monday 13 May 2024

سجدۂ تلاوت کے لیے وضو لازم ہے

  جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے  قولی اور فعلی دونوں طرح کی روایات منقول ہیں تو قولی روایت راجح ہوگی۔

اور اگر ہم ابن عمررضی اللہ عنہما کے مسلک کو مان بھی لیں  کہ ان کے ہاں بغیر وضو سجدۂ تلاوت کرنا درست تھا تو  یہ صرف ان ہی کا مسلک ہے، باقی  کسی صحابی رضی اللہ عنہ  کا یہ مسلک نہیں ہے،  اسی طرح ائمہ  اربعہ متبوعین کے ہاں بھی سجدۂ تلاوت کے لیے طہارت شرط ہے۔ ہاں  امام شعبی  اس  کے قائل ہیں کہ سجدہ تلاوت کے لیے طہارت شرط نہیں ہے، لہٰذا تفردات پر عمل کرنےکےبجائے  جملہ صحابہ کرام کے قول  پر عمل کرنا لازم ہے اور مشہور مذہب کو چھوڑنا نہ عقل کاتقاضا ہے اور نہ شرع کا،بلکہ اِبن عمر رضی اللہ عنہما سے اس فعل کا معارض قول بھی موجود ہے ،جو کہ راجح مذہب ہے،لہٰذااسی کےمطابق عمل کیاجائے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"ولا خلاف في أن سجود القرآن يحتاج إلى ما تحتاج إليه الصلاة من طهارة حدث ونجس ، ونية ، واستقبال قبلة ، ووقت . إلا ما ذكر البخاري عن ابن عمر أنه كان يسجد على غير طهارة . وذكره ابن المنذر عن الشعبي."

(تفسير القرطبي، (9 / 438) .

امام نووی رحمہ اللہ  "المجموع شرح المھذب" میں  تحریر فرماتے ہیں:

"و حكم سجود التلاوة حكم صلاة النافلة يفتقر إلى الطهارة و الستارة واستقبال القبلة لأنها صلاة في الحقيقة."