https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 29 September 2023

ابن خفاجةأندلسي

أَمُقامُ وَصلٍ أَم مَقامُ فِراقِ فَالقُضبُ بَينَ تَصافُحٍ وَعِناقِ خَفّاقَةٌ ما بَينَ نَوحِ حَمامَةٍ هَتَفَت وَدَمعِ غَمامَةٍ مُهراقِ عَبِثَت بِهِنَّ يَدُ النُعامى سَحرَةً فَوَضَعنَ أَعناقاً عَلى أَعناقِ أَكسَبنَني خُلقَ الوَفاءِ وَرُبَّما أَذكَرنَني بِمَواقِفِ العُشّاقِ ضَمّاً وَلَثماً وَاِستِطابَةَ نَفحَةٍ وَخُفوقَ أَحشاءٍ وَفَيضَ مَآقِ فَلَوَ اِنَّ سَرحَةَ بَطنِ وادٍ بِاللِوى حَيَّيتُها تُصغي إِلى مُشتاقي لَنَثَرتُ بِالجَرعاءِ عِقدَ مَدامِعي فَفَضَضتُ خَتمَ الصَبرِ عَن أَغلاقي وَأَرَقتُ فَضلَ صُبابَةٍ لِصَبابَةٍ فَرَقَعتُ ما أَخلَقتُ مِن أَخلاقي فَإِلَيكِ يا نَفسَ الصَبا فَلَطالَما أَذكى نَداكَ حَرارَةَ الأَشواقِ ها إِنَّ بي لَمَماً يُؤَرِّقُ ناظِري أَلَماً فَهَل مِن نافِثٍ أَو راقِ سِر وادِعاً لا تَستَطِر قَلباً هَفا بِجَناحِ شَوقٍ رِشتَهُ خَفّاقِ وَإِذا طَرَقتَ جَنابَ قُرطُبَةٍ فَقِف فَكَفاكَ مِن ناسٍ وَمِن آفاقِ وَاِلثُم يَدَ اِبنِ أَبي الخِصالِ عَنِ العُلى مُتَشَكِّراً وَاِضمُمهُ ضَمَّ عِناقِ وَاِفتُق بِناديهِ التَحِيَّةَ زَهرَةً نَفّاحَةً تُغني عَنِ اِستِنشاقِ كَالشَمسِ يَومَ الدَجنِ تَندى مُجتَنى ظِلٍّ وَتَحسُنُ مُجتَلى إِشراقِ وَاِهزُز بِها مِن مِعطَفَيهِ فَإِنَّما شَعشَعتَها كَأساً بِيُمنى ساقِ وَالنورُ يَرقُمُ مِن بِساطِ بَسيطَةٍ وَالغَيمُ يَنشُرُ مِن جَناحِ رِواقِ وَسِمِ الحَمامَةِ أَن تُجيبَ تَغَنِّياً عَن مَنطِقٍ ماضٍ يُلَبّي باقِ مُتَرَكِّبٍ عَن نَفحَةٍ في لَفحَةٍ وَكَفاكَ مِن كاسٍ هُناكَ دِهاقِ وَخِطابِ بِرٍّ نابَ عَنهُ سِفارَةً إِنَ الخِطابَ عَلى البُعادِ تَلاقِ تَندى عَلى كَبِدي لَدونَةُ مَنطِقٍ فَتَفي بِحُرِّ تَرائِبٍ وَتَراقِ فَهُناكَ أَروَعُ مِلءُ رَوعِ المُجتَلي يَقظانُ موثَقُ عِقدَةِ الميثاقِ هَزَجَت بِهِ هَزجَ الحَمامِ مَحامِدٌ حَمَلَت حُلاهُ مَحمَلَ الأَطواقِ لَدنُ الحَواشي لَو أَطَلَّ غَمامَةً لَخَلا مِنَ الإِرعادِ وَالإِبراقِ شَرُفَت بِهِ فُقَرُ الثَناءِ وَرُبَّما تَتَشَرَّفُ الأَطواقُ بِالأَعناقِ جُمَّ العُلى مَسَحَت بِهِ كَفُّ العُلى عَن حُرِّ وَجهِ مُطَهَّمٍ سَبّاقِ يُزهى بِأَعلاقِ المَعالي حِليَةً إِنَّ المَعالي أَنفُسَ الأَعلاقِ طالَت بِهِ رُمحَ السِماكِ يَراعَةٌ تَستَضعِفُ الجَوزاءَ شَدَّ نِطاقِ ماخَطَّ مِن غُرَرِ الحِسانِ وَضاءَةً حَتّى اِستَمَدَّ لَها مِنَ الأَحداقِ مُغرىً بِأَغراضٍ تَهولُ بَراعَةً وَرَفيفِ أَلفاظٍ تَشوقُ رِقاقِ تَهفو بِهِ طَوراً قُدامى بارِقٍ فيها وَآوِنَةً جَناحُ بُراقِ أَقسَمتُ لَو أَخَذَ الهِلالُ كَمالَهُ عَنهُ لَتَمَّ تَمامَ غَيرِ مَحاقِ وَكَفاكَ مِن غُصنٍ لِسَطرِ بَلاغَةٍ مُتَناسِقِ الأَثمارِ وَالأَوراقِ مُستَبدِعٌ حُسناً فَمِن مَعنىً لَهُ حُرٍّ وَمِن لَفظٍ رَقيقِ رَواقِ مُتَوَلِّدٌ عَن خاطِرٍ مُتَوَقِّدٌ لَهَباً وَطَبعٍ سَلسَلٍ دَفّاقِ لَو كانَ يُرهَفُ صارِماً لَهَزَزتُهُ في ماءِ إِفرِندٍ لَهُ رَقراقِ

سجدے کی حالت میں مقتدی کا امام سے آگے ہونا

نماز میں امام سے آگے بڑھ جانا مفسدِ صلاة ہے اور آگے بڑھ جانے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سے آگے بڑھ جائے ،اگر مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سے آگے نہیں بڑھتی ہے تو اگر چہ سجدے میں مقتدی کا سر امام کے سینے کے برابر چلا جائے بلکہ اس سے بھی آگے چلا جائے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ویقف الواحد ․․أي ․محاذیامساویاً لیمین امامہ علی المذہب ،ولا عبرة بالرأس بل بالقدم(درمختار) فلو حاذاہ بالقدم ووقع سجودہ مقدماً علیہ لکون المقتدي أطول من امامہ لا یضر،ومعنی المحاذاةبالقدم :المحاذاة بعقبہ․(شامی:۲/۳۰۷،۳۰۸ط:زکریا دیوبند) واضح رہے کہ اگر مقتدی ایک سے زائد ہوں تو بلا ضرورت ان کا امام کے قریب کھڑاہونا مکروہ ہوگا ،ایسی صورت میں ان کو چاہیے کہ امام کے پیچھے کھڑے ہوں۔

مسجد میں لگے شیشے میں عکس سے نماز میں کوئی خلل واقع ہوگا کہ نہیں

مسجد کی کھڑکی میں لگے ہوئے شیشوں کے سامنے اگر نمازی کا عکس نظر آتا ہے، تو نماز ہوجائے گی، کراہت نہیں ہوگی؛ کیوں کہ عکس تصویر کے حکم میں نہیں ہے۔ ہاں! البتہ اگر اس کی وجہ سے نمازی کی توجہ ہٹ جاتی ہے، یک سوئی اور خشوع وخضوع میں خلل واقع ہوتا ہے تو ایسی صورت میں شیشے کے سامنے نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس صورت میں نماز پڑھتے وقت شیشے پر کپڑا وغیرہ ڈال کر نماز پڑھ لیاکریں۔ فتاوی شامی میں ہے: "(ولا بأس بنقشه خلا محرابه) فإنه يكره لأنه يلهي المصلي. (قوله: لأنه يلهي المصلي) أي فيخل بخشوعه من النظر إلى موضع سجوده ونحوه، وقد صرح في البدائع في مستحبات الصلاة أنه ينبغي الخشوع فيها، ويكون منتهى بصره إلى موضع سجوده إلخ وكذا صرح في الأشباه أن الخشوع في الصلاة مستحب. والظاهر من هذا أن الكراهة هنا تنزيهية، فافهم". (مطلب في أحكام المسجد، ج:1، ص:658، ط: ايج ايم سعيد)

Thursday 28 September 2023

والد کی سگی خالہ سے نکاح درست نہیں

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے محرماتِ نکاح کی مکمل فہرست بیان کی ہے۔ سورہ النساء میں ارشاد ہے کہ: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا. وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا. تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں، اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں)، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں، اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (جنگی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ النساء، 4: 23-24 مذکورہ دونوں آیات میں بیان کردہ محرماتِ نکاح تین طرح کی عورتیں ہیں: (1) محرماتِ نسب: ماں (حقیقی ماں یا سوتیلی ماں، اسی طرح دادی یا نانی) بیٹی (اسی طرح پوتی یا نواسی) بہن (حقیقی بہن، ماں شریک بہن، باپ شریک بہن) پھوپھی (والد کی بہن خواہ سگی ہوں یا سوتیلی) خالہ (ماں کی بہن خواہ سگی ہوں یا سوتیلی نيز والد كى خاله ياوالده كى خاله اس حرمت ميں شامل ہیں) بھتیجی (بھائی کی بیٹی خواہ سگی ہوں یا سوتیلی) بھانجی (بہن کی بیٹی خواہ سگی ہوں یا سوتیلی) (2) محرماتِ رضاعت: جو رشتے نسب کے سبب حرمت والے قرار پاتے ہیں وہ رضاعت (دودھ پینے) کی وجہ سے بھی محرم بن جاتے ہیں۔ رضاعی ماں، رضاعی بیٹی، رضاعی بہن، رضاعی پھوپھی، رضاعی خالہ، رضاعی بھتیجی اور رضاعی بھانجی سے بھی نکاح نہیں ہوسکتا ہے بشرطیکہ دودھ چھڑانے کی مدت (اڑھائی سال) سے پہلے دودھ پلایا گیا ہو۔ (3) حرمتِ مصاہرت: بیوی کی ماں (ساس) بیوی کی پہلے شوہر سے بیٹی، لیکن ضروری ہے کہ بیوی سے صحبت کرچکا ہو۔ بیٹے کی بیوی (بہو) (یعنی اگر بیٹا اپنی بیوی کو طلاق دیدے یا مر جائے تو باپ بیٹے کی بیوی سے شادی نہیں کرسکتا)۔ دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا۔ (اسی طرح خالہ اور اسکی بھانجی، پھوپھی اور اسکی بھتیجی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنامنع ہے)۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے نکاح میں موجود عام عورت سے بھی نکاح حرام ہے۔ درج بالا محرمات میں سے کچھ حرمتیں دائمی ہیں اور کچھ عارضی‘ جیسے بیوی کے انتقال یا طلاق کے بعد بیوی کی بہن (سالی)، اسکی خالہ، اسکی بھانجی، اسکی پھوپھی یا اسکی بھتیجی سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔ چاچی اور ممانی اگر درج بالا محرمات میں سے کسی محرم رشتے میں نہیں ہیں تو محرم نہیں ہیں، ماموں یا چچا کے انتقال یا ان کے طلاق دینے کے بعد ممانی اور چاچی کے ساتھ نکاح کیا جاسکتا ہے۔خالة الأب من المحارم لقول الله تعالى: {حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاتُكُمْ} [النساء:23] وهذا يشمل كل خالة للإنسان سواء الخالة المباشرة أو من فوقها من خالات الأب أو خالات الأم. فتاوی عالمگیری میں ہے : "(الباب الثالث في بيان المحرمات) وهي تسعة أقسام: ( القسم الأول: المحرمات بالنسب) وهن الأمهات والبنات والأخوات والعمات والخالات وبنات الأخ وبنات الأخت، فهن محرمات نكاحاً ووطئاً ودواعيه على التأبيد، فالأمهات: أم الرجل وجداته من قبل أبيه وأمه وإن علون، وأما البنات فبنته الصلبية وبنات ابنه وبنته وإن سفلن، وأما الأخوات فالأخت لأب وأم والأخت لأم، وكذا بنات الأخ والأخت وإن سفلن، وأما العمات فثلاث: عمة لأب وأم وعمة لأب وعمة لأم، وكذا عمات أبيه وعمات أجداده وعمات أمه وعمات جداته وإن علون، وأما عمة العمة فإنه ينظر إن كانت العمة القربى عمة لأب وأم أو لأب فعمة العمة حرام، وإن كانت القربى عمة لأم فعمة العمة لاتحرم، وأما الخالات فخالته لأب وأم وخالته لأب وخالته لأم وخالات آبائه وأمهاته، وأما خالة الخالة فإن كانت الخالة القربى خالة لأب وأم أو لأم فخالتها تحرم عليه، ، هكذا في محيط السرخسي". (6/454

Tuesday 26 September 2023

والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا

اگر والدہ کسی شرعی وجہ کے بغیر طلاق کا مطالبہ کریں تو ان کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے اور بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے، البتہ اگر بیوی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرتی ہو، ان کی گستاخی کرتی ہواور بدگوئی اور بے رخی سے پیش آتی ہو اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آتی ہو تو پھر ان کے مطالبہ پر طلاق دینے کی گنجائش ہوگی،ور اگر بیوی میں ایسی کوئی بات نہیں تو اس صورت میں والدین کی بات ماننا لازم نہیں ہے؛ اس لیے کہ حلال کاموں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ بات طلاق دینا ہے؛ لہٰذا حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے، نیز جس طرح اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اسی طرح اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : "س… والدین اگر بیٹے سے کہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور بیٹے کی نظر میں اس کی بیوی صحیح ہے، حق پر ہے، طلاق دینا اس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے، تو اس صورت میں بیٹے کو کیا کرنا چاہیے؟ کیوں کہ ایک حدیثِ پاک ہے جس کا قریب یہ مفہوم ہے کہ ”والدین کی نافرمانی نہ کرو، گو وہ تمہیں بیوی کو طلاق دینے کو بھی کہیں“ تو اس صورتِ حال میں بیٹے کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟ ج… حدیثِ پاک کا منشا یہ ہے کہ بیٹے کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری میں سخت سے سخت آزمائش کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے، حتیٰ کہ بیوی بچوں سے جدا ہونے اور گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی۔ اس کے ساتھ ماں باپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بے انصافی اور بے جا ضد سے کام نہ لیں۔ اگر والدین اپنی اس ذمہ داری کو محسوس نہ کریں اور صریح ظلم پر اُتر آئیں تو ان کی اطاعت واجب نہ ہوگی، بلکہ جائز بھی نہ ہوگی۔ آپ کے سوال کی یہی صورت ہے اور حدیثِ پاک اس صورت سے متعلق نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔" (آپ کے مسائل اور ان کا حل) نیز حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کا اپنے بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دینا یقینًا کسی معقول وجہ کی بنا پر ہوگا، ورنہ ایک جلیل القدر صحابی کبھی ظلم کا حکم نہ دیتے اور خود آپ ﷺ ان کی موافقت میں تائیدی حکم نہ فرماتے۔ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 132): "عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله".