https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 24 September 2022

شیئرز کی خریدوفروخت

شیئرز کی خرید وفروخت یاا سٹاک ایکسچینج کا کاروبار بنیادی طور پر جائز ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں تین طرح سے نفع ملتا ہے جس کی وضاحت درج ذیل ہے: پہلی صورت یہ ہے کہ آپ کسی کمپنی کے حصص خرید لیں اور سال کے اختتام پر ان حصص پر کمپنی نفع دے۔ یہ نفع دینا بہرحال کمپنی پر فرض نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی پوزیشن اور پرفارمنس دیکھ کر وہ اپنے نفع میں حصہ داروں کو شامل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس پہلی صورت میں نفع کی شرح بینکوں کے نفع کی طرح فکسڈ یا متعین نہیں ہوتی ہے۔ سو اس میں تو کوئی قباحت نہیں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ آپ نے ایک شرح سے حصص خریدے اور کچھ وقت کے بعد انکا ریٹ بڑھ گیا اور آپ نے وہی حصص بیچ کر نفع کمالیا، تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بعینہ تجارت کی ہی شکل ہے۔ یہی دو صورتیں جائز ہیں۔ تیسری شکل جو آج کل عام اور تمام امراض کی جڑ ہے، وہ سٹے بازی ہے۔ اس میں اصل لین دین کی بجائے، زبانی کلامی سودے ہوتے ہیں، اور دن بھر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ دن کے اختتام پر بیٹھ کر حساب کر لیا جاتا ہے کہ کس نے کتنا کھویا اور کتنا پایا ہے۔ یہی صورت چھوٹے سرمایہ داروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس طرح کی سودے بازی میں سارا نقصان چھوٹے سرمایہ کاروں کا ہوتا ہے۔ لہٰذا سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے صرف اسی بینک یا ادارہ کے حصص خریدے جائیں جو اسلامی اصولوں پر کاروبار کرتا ہو۔ اس صورت میں نفع و نقصان دونوں کا امکان رہتا ہے۔ اگر کوئی کمپنی شراب,بینک یاسودی کاروبار کرتا ہی، تو اس میں سرمایہ کاری اور اس پر متعین منافع حاصل کرنا، سود کھانے کے مترادف ہے۔ جو کہ کسی مسلمان کے لیے کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ لہذااسٹاک مارکیٹ, یاشیئربازار میں درج ذیل شرائط کے ساتھ پیسہ لگاسکتے ہیں : 1۔۔ جس کمپنی یا ادارہ کے حصص (شیئرز) کی خرید وفروخت کی جارہی ہو واقعۃً وہ کمپنی یا ادارہ موجود ہو، یعنی اس کے ماتحت کوئی جائیداد، کارخانہ، مل، فیکٹری یا کوئی اور چلتا کاروبار موجود ہو، اور اگر کمپنی یا ادارہ کے تحت مذکورہ اشیاء نہ ہوں یا کمپنی یا ادارہ سرے سے موجود ہی نہ ہو ، صرف اس کا نام ہو اور اس کے شیئرز بازار میں اس لیے چھوڑے گئے ہوں کہ اس پر پہلے سے زیادہ رقم حاصل کی جائے اور منافع حاصل کیے جائیں تو ایسی کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت جائز نہیں، کیوں کہ ہر شیئر کے مقابل میں جمع شدہ روپے کی رسید ہے، کوئی جائیداد یا ایسا مال نہیں جس پر منافع لے کر فروخت کیا جاسکے۔ 2۔۔ کمپنی کا کل یا کم از کم غالب سرمایہ جائز اور حلال ہو۔ الف : یعنی جس موجود کمپنی اور جاری کاروبار یا کارخانہ کے حصص (شیئرز) خریدوفروخت کیے جارہے ہوں اس کا سرمایہ جائز اور حلال ہو، رشوت، چوری،غصب، خیانت،سود، جوئے اور سٹہ پر حاصل شدہ رقم نہ ہو ، لہذا سودی ادارے جیسے بینک یا انشورنس کمپنی وغیرہ کے شیئرز کی خرید وفرخت جائز نہیں ہے۔ ب : کمپنی کے شرکاء میں سودی کاروبار کرنے والے یا کسی اور ناجائز اور حرام کاروبار کرنے والے اداروں یا افراد کی رقم شامل نہ ہو۔ 3۔۔ کمپنی یا ادارہ کا کاروبار جائز اور حلال ہو ۔ الف : یعنی کمپنی یا ادارہ کے کاروبار کے طریقہ کے درست ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کمپنی یا ادارہ کا کاروبار بھی جائز ہو، مثلاً شرعی شراکت اور شرعی مضاربت کی بنیاد پر کاروبار ہو ، اگر کاروبار ناجائز ہو گا تو اس کمپنی کے شیئرز کی خرید وفروخت جائز نہیں ہوگی۔ ب : اور کمپنی کا کاوربار حلال اور جائز اشیاء کا ہو ، مثلاً شراب، جان دار کی تصاویر ، ٹی وی، وی سی آر اور ویڈیو فلم سینما وغیرہ کے کاروبار والی کمپنیوں کے شیئرز کی خرید وفرخت بھی ناجائز ہے۔ 4۔۔ شیئرز کی خرید وفرخت میں شرائط بیع کی پابندی کرنا۔ یعنی مذکورہ کمپنی یا ادارہ کے شیئرز کی خریدوفروخت بیع وتجارت کے شرعی اصولوں کے مطابق ہو مثلاً آدمی جن شئیرز کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے اس پر شرعی طریقہ سے قابض ہو اور دوسروں کو تسلیم اور حوالہ کرنے پر بھی قادر ہو۔ واضح رہے کہ شیئرز میں قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے صرف زبانی وعدہ کافی نہیں ہے، نام رجسٹرڈ یا الاٹ ہونا ضروری ہے، اس سے پہلے صرف زبانی وعدہ یا غیر رجسٹرڈ شیئرز کی خرید وفروخت باقاعدہ فزیکلی طور پر ڈیلیوری ملنے سے پہلے ناجائز ہے، البتہ یہ درست ہے کہ شیئرز پہلے بائع کے نام رجسٹرڈ ہوں اور بائع اس کی قیمت بھی ادا کردے اور اس کے پاس ڈیلیوری آجائے ، اس کے بعد اس کی خریدوفروخت جائز ہوگی، یا شیئرز وصول کرلیے ہیں، لیکن ابھی تک قیمت ادا نہیں کی تو اس صورت میں بھی مذکورہ شیئرز کو فروخت کرکے نفع لینا جائز ہے، کیوں کہ مبیع پر قبضہ ثابت ہے۔ 5۔۔ منافع کی کل رقم کو تمام حصہ داروں کے درمیان شیئرز کے مطابق تقسیم کرنا۔ مثلاً کمپنی میں جو منافع ہوا ہے اسے تمام حصہ داروں میں ان کے شیئرز کے مطابق تقسیم کردیا جائے، لیکن اگر کوئی کمپنی مستقبل کے ممکنہ خطرہ سے نمٹنے کے لیے منافع میں سے مثلاً ٪20 فیصد اپنے لیے مخصوص کرتی ہے اور 80 فیصد منافع کو حصہ داروں میں تقسیم کرتی ہے تو اس کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت ناجائز اور حرام ہے؛ کیوں کہ یہ کمپنی شرعی شراکت کے خلاف ناجا ئز کاروبار کرتی ہے۔ (ماخوذ از جواہر الفتاوی، م؛ مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب، 3/258، ط؛ اسلامی کتب خانہ)

Friday 23 September 2022

احمد مخيمر

أحمد مخيمر هو شاعر مصري ولد عام 1914 وتوفى عام 1978، وقد عاش 64 عاما، من أعماله «شعر القاهرة هو شاعر معاصر ولد بمحافظة الشرقية، وتخرج في دار العلوم وتدرج في المناصب حتى أصبح رئيسًا للجنة القراءة في الهيئة العامة للكتاب. أهم أعماله عدل ديوان «الغابة المنسية» ديوان «في ظلال القمر» ديوان «أسماء الله» كان شاعرا متميزا بين كوكبة الشعراء التي التمعت أسماؤها في ختام ثلاثينيات القرن الماضي، وكان عضوا بارزا في جماعة أبوللو الشعرية، والتي تعد واحدة من أكبر حركات التجديد في الشعر العربي الحديث، وكان من نجوم هذه الجماعة إبراهيم ناجي، علي محمود طه، محمود حسن إسماعيل، محمود أبو الوفا، أحمد فتحي طاهر، وغيرهم. ولكن كان من بين كل هؤلاء الشاعر أحمد مخيمر، أكثرهم ميلا ً من حيث الطبع والنزوع الفلسفي والفكر والتأمل، مما سيجعله يتجه إلى كتابه (لزوميات مخيمر) على نهج لزوميات أبي العلاء المعري. وطني وَصِبَايَ وَأَحْلامي ... وطَـني وهَوَايَ وأيَّـامي ورِضـا أُمِّي وحَنـانُ أبي... وخُطَى وَلَدِي عندَ اللَّعِبِ يخطُو برجاءٍ بَسَّامِ هَتَفَ التـاريخُ به فصَحَـا... ومَضَى وَثـْبـًا ومَشَى مَرَحا حمَلَتْ يَدُهُ شُعَلَ النَّصْرِ... وبَـدَا غَـدُهُ أمَـلَ الدَّهْـرِ يستقبِلُ موكِبَهُ فَرَحا... ويُحَيِّي مَجدَ الأَهـرامِ في فترة الخمسينيات غنى عبد الحليم حافظ من كلمات الشاعر أحمد مخيمر وألحان محمد الموجي أقبل الصباح وفي بداية السبعينيات اتصل عبد الحليم حافظ بالشاعر أحمد مخيمر وطلب منه قصيدة يغنيها فأعطاه من ديوانه الغابة المنسية المطبوع سنة 1965 قصيدة يامالكا قلبي ويوم 5 أبريل عام 1973 غنى عبد الحليم حافظ في حفلته قصيدة رسالة من تحت الماء كلمات نزار قباني وألحان محمد الموجي وغنى أيضا قصيدة يامالكا قلبي كلمات أحمد مخيمر وألحان لحن محمد الموجي كما غنى حاول تفتكرني كلمات محمد حمزة وألحان بليغ حمدي وقبل أن يغني عبد الحليم حافظ قصيدة يامالكا قلبي قدم محمد الموجي الذي سعد وسلم على عبد الحليم وبعده صعدت أنغام ابنة محمد الموجي التي تبلغ من العمر وقتها 16 سنة مع أختها غنوة التي تبلغ من العمر 12 سنة وقدمتا لعبد الحليم بوكيه ورد فقبلهما عبد الحليم فصاح الجمهور فقال عبد الحليم: دول ولاد الموجي والله ثم قدمهما للجمهور. نسبت قصيدة يامالكا قلبي بالخطأ للأمير السعودي عبد الله الفيصل فرفع الشاعر أحمد مخيمر دعوى وحكمت المحكمة لصالحه مع تعويض 41 جنيها وتم الاتفاق على نسب القصيدة لشاعرها أحمد مخيمر وحق الطبع الميكانيكى يعنى الشرائط الصوتية وتم تصحيح الأوضاع في عام 1976 وأكد اتحاد كتاب مصر ومجمع اللغة العربية أن قصيدة يامالكا قلبي للشاعر أحمد مخيمر وليست للأمير عبد الله الفيصل ويذكر أن الفنانة نجاح سلام غنت أيضا هذه القصيدة ولكن بمقاطع أخرى.. من أشعار الشاعر أحمد مخيمر نذكر قصيدته بنت المعز القاهرة: بنت المعز القاهرة... حتى الصباح ساهرة جميلة رقيقة... نبيلة مسامرة ممتلئ ترابها... بالنفحات العاطرة كأنما قد خلطوه... بالورود الناضرة شامخة لا تنحني... كبراً صبور قادرة كم هزمت ممالكً... وكم طوت جبابرة في كل شبر فوقها... ذكرى تطل سافرة تحكي لنا تاريخ مجد.. أو تقص نادرة مدينتي مهما قسا... قلب الزمان صابرة فيها من الأهرام حب... الكبرياء الآمرة فيها ذكاء شعبهاعلى... الليالي الماكرة قلت لها إنكِ يا... مدينتي لا لصايرة أخشى على هذا الجمال... فالليالي غادرة فلملمت رداءها كبراً... وقالت آمرة كم ظالم قد مر بي... وما أزال القاهرة أيضا الشاعر أحمد مخيمر ناجى رمضان بقوله: أنت في الدهر غرة وعلى الأرض سلام وفي السماء دعاء وتسبي ليلة القدر عندهم فرحة العمر تدانت على سناها السماء في انتظار لنورها كل ليل يتمنى الهدى ويدعو الرجاء وتعيش الأرواح في فلق الأشواق حتى يباح فيها اللقاء فإذا الكون فرحة تغمر الخلق إليه تبتل الأتقياء وإذا الأرض في سلام وأمن وإذا الفجر نشوة وصفاء وكأني أرى الملائكة الأبرار فيها وحولها الأنبياء نزلوا فوقها من الملأ الأعلى فأين الشقاء والأشقياء؟ في الثمانينيات كتب الشاعر طاهر أبو فاشا في جريدة الأهرام: أحمد مخيمر شاعر يذكرنا بأبي تمام في شعره ويذكرنا بأحمد شوقي في مسرحه والكلام كثير عن أحمد مخيمر من خلال شهادات وأقلام فاروق شوشة والعوضي الوكيل وبيومي مدكور وثروت أباظة إلا أن المؤسف هو أن كثيرا من تلاميذه الذين استفادوا من موهبته الطاغية وعلمه وفنه جحدوه في حياته الخاصة فلم يتذكره في كبره إلا قليل منهم وفي عام 1978 توفى الشاعر أحمد مخيمر فرحمة الله على روحه.