https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 7 November 2020

 مفتی رشیداحمدمالپوری رحمہ اللہ

ڈاکٹرمفتی محمدعامرالصمدانی 

قاضئ شریعت دارالقضاء

 آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ علی گڑھ


حضرت مولانامفتی رشید احمد مالپوری رحمہ اللہ میوات کے ممتازعلماء وفقہاء کے سرخیل ,اپنے وقت کے جید ومستند عالم تھے,ان کے والد گرامی حضرت مولاناعبداللہ مالپوری قدس سرہ  بھی  میوات میں اپنے وقت کے بے نظیر و جید عالم دین باکمال مناظرومصلح اور میوات کے محسنین میں سے تھے وہ موضع دھیرنکی یا دھیرنکا میں پیداہوئے تقریبا بیس باییس سال کی عمر میں میوات کے ایک بزرگ سے 'رسالۂ بے نمازاں' سن کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور 'سین' کے بجائے عبداللہ نام رکھا مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں ابتدائ عربی فارسی پڑھی ڈابھیل میں علامہ انور شاہ کشمیری کی خدمت میں شرف تلمذ حاصل کیامشہور مفسر قرآن مولاناعبیداللہ سندھی کے شاگرد رشید مولانا احمد علی کی خدمت میں لاہور گئےدارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوکرمیوات میں اصلاح المسلمین کابیڑااٹھایا .گوت پال کی رسوم باطلہ کے خلاف آوازاٹھائی ,جبکہ میوات کے مسلم معاشرہ میں گوت بچاکرہندوانہ طرزپرشادی کرناضروری سمجھاجاتاتھا اور اس کے خلاف  اٹھنے والی  ہرآواز کے خلاف پوری میو قوم  متحد ہوجاتی تھی ایسے وقت اس جاہلانہ طریق کے خلاف بات کرناجوئے شیرلانے سے کم نہ تھا 

میرے والد صاحب مرحوم ان کی خداترسی للہیت اور مناظروں کا ذکراکثرفرماتے تھے . ایک مرتبہ فریق مخالف مولاناعبداللہ سے حوالہ دینے کے باوجود باربار مطالبہ کرتے رہے اس پر آپ نے فرمایا:"لایوچھورا اینٹ البحرے"مراد یہ تھاکہ یہ لاتوں کے یار باتوں سے نہیں مانیں گےاور اس کے لئے بحررائق کے محاذی "اینٹ البحر"کی اصطلاح فی الفور وضع کردی والد صاحب فرماتے تھے کہ میں نے انہیں اونٹ پر سواری کرتے بارہادیکھاتھا.بہرکیف مفتی صاحب انہی کے فرزندرشید تھے. میل کھیڑلا کے سالانہ اجلاس میں اکثر ان کی شرکت ہوتی تھی .میں نے دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا میں ہی پہلی بارانہیں دیکھا تھا.میری طالبعلمی کازمانہ تھا,مدرسہ میں ششماہی یاسالانہ امتحانات چل رہے تھے.مفتی صاحب کی شہرت علمی اورتفوق سے نہ صرف ہم لوگ واقف تھے بلکہ  ممتحن ہونے کی وجہ سے ان کےنام سےسہمے ہوئے بھی تھے.ان کاقیام کتب خانہ میں رکھاگیاتھا,مولاناعلی محمد صاحب (ہرواڑی )مرحوم نے میری ڈیوٹی لگائی کہ کتب خانہ میں کتابوں کوترتیب سے صاف کرکے لگادوں.مفتی رشیداحمد صاحب یہاں قیام کریں گے اور ہدایہ اولین کاامتحان لیں گے.میں نے کتابیں ترتیب سے لگائیں .اس وقت کتب خانہ مولاناعلی محمدصاحب رحمہ اللہ( ہرواڑی) کےحجرے سے متصل قدیم بلڈنگ میں تھا اس کے نیچے اناج کاگودام ہواکرتاتھا.مدرسہ کی وہ سب سے قدیم عمارت تھی اس میں نیچے مطبخ ,گودام پولی,اوراوپردفترنظامت واہتمام تھا.جس میں اکثرحضرت مولانامحمدعثمان روپڑاکا مدظلہ  بیٹھتے تھے.کبھی کبھی مہتمم صاحب رحمہ اللہ  بھی تشریف فرماہوتے تھے.مفتی رشید صاحب نے ہماراہدایہ اولین کا امتحان لیا. ہدایہ اولین مولاناسعیدالرحمان بستوی پڑھایاکرتے تھے وہ اسی سال دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوکرآئے تھے.عربی زبان وادب سے انہیں خصوصی دلچسی تھی.مولاناوحیدالزماں کیرانوی علیہ الرحمہ کے خاص شاگرد تھے.مجھ پر ان کی خصوصی شفقت وعنایات تھیں.عطیۃ الابراشی کی ایک افسانوی کتاب بھی انہوں نے مجھے خاص طورپر پڑھائی تھی.وہ ہدایہ کی عربیت کے بہت مداح اوراردوشروحات کے مخالف بلکہ متنفر تھے,متن پرخاص توجہ دیتے لمبی چوڑی تقریرات سے گریز کرتے خدامعلوم حیات ہیں یاحیات جاویدکے زیرسایہ ابدی نیند سوگئے,حل عبارت پر توجہ مرکوز رکھتے تھے.مفتی صاحب نے کتاب الطہارۃ سے عبارت پڑھنے کا حکم دیا کسی سے صرف عبارت پڑھوائی کسی سے ترجمہ کرایا میں نے اپنی باری پرعبارت پڑھی ترجمہ کیا .میں آج بھی اس عبارت کو نہیں بھولتاجواب سے تقریبا تیس سال پہلے میری زبان پرایسی آئی کہ بھلائے نہیں بھلتی چونکہ اس کاتعلق وضوسے ہے اس لئے اب بھی اکثرزبان پر آجاتی ہے .عبارت یہ تھی: والوعیدلعدم رؤیتہ سنۃ.مفتی صاحب نے فرمایا اس کا ترجمہ کرومطلب بتاؤ.میں نے بین السطور حواشی کی مدد سے اس کاترجمہ اور مطلب بتایا,فرمایارؤیتہ میں ضمیر کامرجع کیا ہے؟میں نے عرض کیا الثلاث.,پھرجلدی سے حاشیہ پڑھنے کے بعد مطلب بتایاکہ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے,سوال یہ ہے کہ  اگر کسی نے تین مرتبہ سے زیادہ یاکم اعضاء وضوکودھویاتویہ بھی جائزہے, البتہ تین مرتبہ دھونے کوسنت نہ سمجھناخلاف سنت ہونے کی بنا پرگناہ ہے  حدیث میں اس پر وعید بھی آئی ہے.اور عبارت کا ترجمہ یہ ہے:وعید تین مرتبہ اعضاء وضودھونے کو سنت  نہ سمجھنے کی بناپر ہے.مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مفتی صاحب نے پچاس اعلی ترین نمبرات میں سے مجھے 51نمبرات سے نوازا.تب سے یہ عبارت ذہن میں ایسی رچ بس گئ کہ نوک زبان رہتی ہے. اس کے بعدمفتی صاحب سے تقریب بہرملاقات کا سلسلہ  اللہ کی طرف سے ایسا مقررہواکہ جب بھی علی گڑھ سے میوات جاناہوتا اکثرملاقات کے لئے میں حاضرہوجاتا.ایک مرتبہ میں مدرسہ عبدیہ ہتھین میں حاضرہواتوخیریت معلوم کرنے بعد پوچھاپچانکامیں تمہاری سسرال کس خاندان میں ہے.؟میں نے تفصیل بتائی توفرمایامیری بھی سسرال پچانکامیں ہے.پھرکئ نام ذکرکئے .ان کے برادرخوردمولانانورالدین مرحوم سے بھی اکثرملاقات ہوتی تھی.مدرسہ کے کتب خانہ میں تذکرہ علماء پنجاب مطبوعہ لاہور میں نے مطالعہ کے لئے لی تومولانانے دریافت کیا پنجاب ہی کے علماء کا تذکرہ کیوں آپ پڑھ رہے ہیں ؟میں نے بتایاکہ علی گڑ مسلم یونیورسٹی سے مجھے یہ ریسرچ کا موضوع ملا ہے:'مشرقی پنجاب کا عربی زبان وادب میں حصہ,ایک تنقیدی مطالعہ 1947تک'اس لئے اس کامطالعہ کررہاہوں .مفتی صاحب سے میں نے ان کے والد گرامی سے متعلق دریافت کیاکہ عربی زبان میں بھی ان کی کوئی تصنیف ہے؟فرمایانہیں.

مفتی صاحب کے چھوٹے بھائی مولانابشیراحمد راشد الامینی  علیہ الرحمہ میرے والد محترم  مولانا رحیم بخش رحمہ اللہ (متوفی 28مئ 2005)کے ہم جماعت تھے.ان سے بھی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا میں اکثر شرف نیاز ہوتارہتاتھا.ایک مرتبہ مہتمم صاحب حضرت مولانا محمدقاسم نوراللہ مرقدہ نے وفاق میوات کے نام سے ایک تنظیم بنائی اس کا پہلا اجلاس میل کھیڑلا میں ہوا مدعووین میں سبھی مشاہیر وسرکردہ علما ء میوات تھے :ان میں مفتی رشید احمد مالپوری ,مولانابشیراحمد راشدالامینی ,مولامحمدقاسم شیرپنجاب,مفتی جمال الدین الوری رحمہم اللہ ,وغیرہ قابل ذکرہیں.

اب انہیں ڈھونڈوچراغ رخ زیبا لے کر.

میرے ذمہ استقبالیہ میں مہمانان گرامی کے نام پتے درج کرنے اور مہمان خانہ تک پہنچانے کی خدمت سپرد تھی,اس لئے سبھی سے تعارف ہوگیاتھا.

مفتی صاحب ان دنوں بھی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا کے کتب خانہ ہی میں منہمک نظر آئے. مفتی رشید احمد کوجوبات عام علماء میوات سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کا تبحرعلمی زہد وتدین اور انہماک کتب تھا.مدرسہ عبدیہ ہتھین میں ان کا کتب خانہ نایاب ونادرذخیرۂ کتب پر مشتمل ہے.فقہ وفتاوی کی زیادہ ترمعروف ومتداول کتابیں وہاں موجود ہیں.انہوں نے مدرسے کی تعمیرات پرکبھی زورنہیں دیالیکن کتابوں کے بارے میں ان کا رویہ بالکل مختلف تھا.مالپوری میں ان کاذاتی ذخیرۂ کتب اور بھی عظیم الشان ہے.اس جلالت علمی کے باوجود ان کی سادگی بے نفسی وبے نیازی قابل دید تھی.مالپوری میں انہیں اس نہایت سادگی میں دیکھ کردل کوجلاء ملتی تھی,مدرسہ عبدیہ ہتھین ہمارے زمانے میل کھیڑلاہی کی طرح تعلیمی اعتبارسے مشہورومعروف ادارہ تھا.لیکن اساتذہ وطلباء کے مابین ایک حادثہ پیش آگیابڑی جماعت کے طلباء نے ایک استاذ کی شان میں گستاخی کردی اس کے بعد سے ہی مفتی صاحب مرحوم نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پرمزیدزوردینے کا عہد کیااور عربی کے طلباء کے بجائے تجوید و قرأت اور مکتب کی تعلیم کوترجیح دی.

1989میں جب میراداخلہ دارالعلوم دیوبند میں ہواتووہاں طلباء میوات کی انجمن اصلاح البیان کی الماری میں انجمن کے اصول و ضوابط پرمشتمل ایک کتابچہ چلا آتاتھاجومفتی رشید احمد مالپوری علیہ الرحمہ نے اپنے ہاتھ سے کتابت کیاتھا.ہم اراکین انجمن اسے احتیاط سے محفوظات قدیمہ میں رکھتے تھے.خدامعلوم وہ تحریراب محفوظ ہے یانہیں!

میں نے انہیں حضرت مولانامسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی رحمہ اللہ کی خدمت میں ان دنوں دیکھا تھا جب میں دارالعلوم دیوبند میں درجۂ ششم کا طالب علم تھا.یہ 1989کا واقعہ ہے.اس کے بعد میں نے بھی حضرت مسیح الامت کی خدمت میں دیوبند سے گاہے گاہے جانا شروع کردیا,حضرت کوچندخطوط بھی لکھے آپ کے جوابی گرامی نامے آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں.

مجھے یہ جان کرسخت افسوس ہواکہ حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کو حضرت مسیح الامت سے خلافت نہیں ملی.جبکہ مفتی صاحب سالہاسال آپ کی خدمت میں باریاب رہے.اوربالآخر جامعہ  اشرفیہ لاہور کے استاذ حدیث حضرت مولاناوکیل خان شیروانی رحمہ اللہ (متوفی 2016)نے خلافت دی جواپنے والد مولانا عبدالجلیل خان شروانی رحمہ اللہ کے واسطے سےحضرت تھانوی کے سلسلۂ بیعت وارشادکے رکن رکین تھے.

 مفتی رشید احمد علیہ الرحمہ عرصۂ دراز سے صاحب فراش تھے,عالمی وباکوروناوائرس کے سال 2020میں جن مقتدرعلمی دینی اور ملی شخصیات نے وفات پائی ان میں ایک نام مفتی رشید احمد نوراللہ مرقدہ کا بھی ہے.

افسوس آج جبکہ میں یہ تحریر سپرد قرطاس کررہاہوں بروز جمعرات بتاریخ 5نومبر2020مطابق 15ربیع الاول1442ھ بوقت 3بجے سہ پہرہمارے چچاجان مولاناعبداللہ کاشفی بن الحاج چندرخاں کا طویل علالت کے بعد سنگار میوات میں انتقال ہوگیا.مرحوم 40سال سے زیادہ عرصہ تک گوڑیانی ضلع ریواڑی وعلاقۂ جھججر ہریانہ میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے.

مولاناعبداللہ مالپوری رحمہ اللہ کے زہدوتقوی اورشہرت دوام کی بناپرہی ان کا نام عبداللہ رکھاگیاتھا رحمہ اللہ رحمۃ.

حوادث اور تھے پران کاجانا

عجب اک سانحہ ساہوگیاہے

اب میوات کی سنگلاخ سرزمین سے ایسے صاحب تقوی وطہارت بے لوث و بے نفس بزرگ عالم دین کی نشونماکے آثارناممکن تو نہیں البتہ مفقودضرورنظر آتے ہیں.حضرت مولانا محمدقاسم نوراللہ مرقدہ مہتمم دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا کی وفات کے بعد مفتی صاحب کی وفات علاقۂ میوات کے لئے سب سے بڑا سانحہ ہے.

مقدور ہوتو خاک سے پوچھوں کہ او لئیم

تونے وہ گنجہائے گرامایہ کیا کیئے

***

Monday 2 November 2020

سیرت نبوی میں مزاح وظرافت کے واقعات


 

        حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی , آپ نے فرمایا: میں تمہیں سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا , سائل نے عرض کیا : میں اونٹنی کے بچے کا کیاکروں گا ؟ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟

 (عن أنس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رجلاً استحمل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقةٍ فقال ما اصنع بولد الناقةِ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہل تلد الابل الا النوق (مشکوٰة ص۴۱۶)

                 یہاں نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی سواری طلب کرنے پر آپ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایاتو سائل کو تعجب ہوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اوراونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔

               

                (حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے دوکان والے)(مشکوٰة ص۴۱۶)

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس سے ”اے دو کان والے“ کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طورپر تھا۔  ظرافت کا یہ انداز  ہمارے عرف میں بھی رائج ہے ,مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضگی کا اظہار اس انداز میں کیاجاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دوکانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالانکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔

                عن انسٍ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لامرأةٍ عجوزٍ انہ لاتدخل الجنة عجوزٌ فقالت مالہن وکانت تقرء القرآن فقال لہا ما تقرئین القرآن اِنَّا انشئناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا(مشکوٰة ص۴۱۶)

                (حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ نے ایک ضعیفہ سے فرمایاکہ: 'بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی' وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی اس نے عرض کیا بوڑھی کے لئے کیا چیز دخولِ جنت سے مانع ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ہم جنتی عورتوں کو پیدا کریں گے پس ہم ان کو کنواری بنادیں گے۔)

                ایک اور روایت میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اس صحابیہ عورت نے جو بوڑھی تھیں آپ سے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی اس پر آپ نے مزاحاً فرمایا کہ:' بڑھیا تو جنت میں داخل نہیں ہوگی'، یہ سن کر بڑھیا کو بڑا رنج ہوا اور روتے ہوئے واپس چلی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاکر اس عورت کو کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ”اِنَّا انشئناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح اس واقعہ میں بھی مبنی برحق تھا مگرآپ نے ایک سچی بات کو مزاحیہ انداز میں بیان کرکے امت کو یہ تعلیم دی کہ کبھی کبھار مذاق اور دل لگی بھی کرلینی چاہئے۔

                 حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک بدوی صحابی زاہر بن حرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ دیہاتی اشیاء بطور ہدیہ لایا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپسی پر انہیں  کچھ شہری اشیاء ہدیتہ عنایت فرماتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے زاہر ہمارا باہر کا گماشتہ ہے اور ہم اس کے شہر کے گماشتہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم زاہر سے بڑی محبت فرماتے تھے ویسے زاہر ایک بدصورت آدمی تھے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے تو زاہر کو اپنا سامان بیچتے ہوئے پایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیچھے سے اپنے ساتھ اس طرح چمٹالیا کہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے بغلوں کے نیچے سے لیجاکر اس کی آنکھوں پر رکھ دئیے تاکہ وہ پہچان نہ پائے , زاہر نے کہا کہ کون ہے؟ چھوڑ مجھے۔ (پھر اس نے کوشش کرکے) مڑ کر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا (اور پہچانتے ہی) اپنی پیٹھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہٴ مبارک سے مزید چمٹانے لگا ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ صدا بلند کرنے لگے کہ ارے کوئی اس غلام کا خریدار ہے؟ اس پر زاہر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول بخدا آپ مجھے کھوٹا سکّہ پائیں گے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک کھوٹا سکّہ نہیں ہو۔ (مشکوٰة ص۴۱۶) 

                عن عوف بن مالک الاشجعی قال اتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی غزوة تبوک وہو فی قبةٍ من ادمٍ فسلمت فردّ علیّ وقال فقلت أکلی یا رسول اللّٰہ قال کلّک فدخلت (مشکوٰة ص۴۱۷)

                (حضرت عوف بن مالک اشجعی سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ غزوئہ تبوک کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرماتھے میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے جواب دیا اور فرمایا کہ اندر آجاؤ میں نے (مزاح کے طور پر) عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں پورا اندر داخل ہوجاؤں؟ تو آپ نے فرمایا ہاں پورے داخل ہوجاؤ، چنانچہ میں داخل ہوگیا)

                اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے اسقدر بے تکلف تھے کہ صحابہ بھی آپ سے مزاح کرلیا کرتے تھے۔

                ایک انصاری صحابیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا جا جلدی سے اپنے خاوند کے پاس اس کی آنکھوں میں سفیدی ہے وہ ایک دم گھبراکرخاوند کے پاس پہنچی تو خاوند نے پوچھا کیا مصیبت ہے؟ اس طرح گھبراکر دوڑی کیوں چلی آئی؟ اس نے کہا کہ مجھے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ تمہاری آنکھوں میں سفیدی ہے اس نے کہاٹھیک ہے مگر سیاہی بھی تو ہے تب اسے اندازہ ہوا کہ یہ مزاح تھا اور ہنس کر خوش ہوئی اور فخر محسوس کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے اس قدر بے تکلف ہوئے کہ میرے ساتھ مزاح فرمایا (لطائف علمیہ ص۱۰) اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کے بہت سے واقعات کتب احادیث میں موجود ہیں جو مزاح کے سنتِ مستحبہ ہونے پر دال ہیں۔ لیکن یہ تمام واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ مزاح سچائی پر مبنی ہونا چاہئے اوراس میں ایذاء رسانی اور دل شکنی کا پہلو نہ ہو بلکہ مخاطب کی دلجوئی اورنشاط آوری مقصود ہونی چاہئے۔

ایک مرتبہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں کھجوریں کھائی گئیں۔ آپ نے ازراہ مزاح گھٹلیاں سیدنا علیؓ کے سامنے رکھ دیں اور فرمایا کہ ساری کھجوریں تم کھا گئے؟ علیؓ نے فرمایا کہ میں نے تو کھجور گھٹلیوں سمیت نہیں کھائیں (جبکہ آپ تو گھٹلیاں بھی  کھا چکے ہیں)۔ (متفق علیہ) 

                حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ سے بھی مزاح کے بے شمار واقعات مروی ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق، فاروق اعظم اور علی مرتضیٰ ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے اس طرح چلے جارہے تھے کہ حضرت علی بیچ میں تھے اور دونوں حضرات دونوں طرف۔ حضرت علی ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ پستہ قد تھے، حضرت عمر نے مزاحاً فرمایا: ”علیٌّ بیننا کالنون فی لنا“ یعنی علی ہم دونوں کے بیچ میں ایسے ہیں جیسے ”لنا“ کے درمیان نون ہے یعنی لنا کے ایک طرف کا لام اور دوسری طرف کا الف لمبے اور درمیان میں نون پستہ قد ہے اس طرح ہم دونوں طویل القامت اور بیچ میں علی پستہ قامت ہیں۔ اس پر حضرت علینے برجستہ جواب دیا: ”لولا کنت بینکما لکنتما لا“ یعنی ”اگر میں تمہارے درمیان نہ ہوتا تو تم لا ہوجاتے اور کچھ بھی نہ رہتے“ کیونکہ لنا کے بیچ سے نون ہٹادیاجائے تو وہ ”لا“ رہ جاتا ہے