https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 15 February 2025

عفو درگذر


دوسروں کے قصور اور ان کی غلطیاں معاف کر دینا یہ خدا کی صفت ہے۔ یہی صفت خدا اپنے بندوں میں بھی پسندکرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے یوں ذکر کیا ہے کہ ’’پس معاف کردو اور درگزر کرو کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے، اور اللہ تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘۔ (النور:22)، آیت مبارکہ میں اللہ نے دوسروں کے قصور معاف کر دینے پر ابھارا ہے اور اس کیلئے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ معاف کر دینے والے کو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت نبی کریمﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے کہ’’تم مخلوق پر رحم کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا اور تم لوگوں کو معاف کر دو اللہ تمہیں معاف کر دے گا‘‘۔ (مسند احمد:7041)، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآنِ مجید میں مومنوں کو انفاق پر ابھارا گیا ہے اور انفاق کرنے والوں سے کئی گنا کرکے واپس لوٹانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اب جو جتنا لوگوں کو معاف کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف کریں گے۔ 

اللہ تعالیٰ کے اسما الحسنی میں سے ایک نام ’’العفو‘‘ ہے، اس کا مطلب ہے درگزر کرنے والا اور یہ صفت خدا کی مخلوق میں سے جس میں بھی ہوگی اللہ تعالیٰ اسے پسند کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’(وہ) لوگوں کو معاف کردینے والے (ہوتے ہیں۔) اور اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (آلِ عمران: 134)۔اوپر خدا کی جس صفت العفو کا ذکر ہوا وہی الفاظ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہلِ ایمان کیلئے ذکر کیے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو دوسروں کے قصور اور غلطیاں معاف کر دینے والے بہت پسند ہیں۔ جب خدا اپنی تمام تر عظمت و جلال کے باوجود انسانوں کو معاف کر دیتا ہے۔ ہر وہ شخص جو خدا سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار ہے اُسے چاہیے کہ پہلے خود دسروں کو معاف کرے کہ جو معاف کرے گا، وہ معاف کر دیا جائے گا۔

معاف کرنا سنت ِ رسول ﷺ

نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی عفو و درگزر، رحم و کرم، محبت و شفقت سے عبارت ہے اور اس کی گواہی خود قرآن نے اور آپ ﷺ کے ساتھیوں نے دی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر آپ ﷺ کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی عنایت اور رحمت سے آپﷺ ان کے لیے نرم خو ہیں، اگر آپﷺ کج خلق اور سخت مزاج ہوتے تو یہ (لوگ جو آپ کے گرد جمع ہوئے ہیں) آپﷺ کے پاس سے ہٹ جاتے۔ (آلِ عمران: 159)، ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ’’تم میں سے ایک رسول آیا ہے جس پر تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کا خواہاں ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔ (التوبہ:128)

اُم المومنین حضرت عا ئشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ’’آپ ﷺ نے کبھی کسی غلام، لونڈی، عورت، بچہ یا خادم کو نہیں مارا، سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے اور کبھی آپﷺ نے اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا لیکن اگر کوئی حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم ﷺاسے برداشت نہیں کرتے اور اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے۔ (مسلم: 2328)

آپ ﷺ نے مکہ والوں کو معاف کردیا، طائف والوں کو معاف کردیا، حضرت عائشہ صدیقہؓ پر جھوٹا الزام لگانے والوں کو معاف کردیا۔ ’’بلاشبہ رسول اللہﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے‘‘۔ (الاحزاب) 

اگر کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور زیادتی کا بدلہ لینا چاہے تو شریعت نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ لیکن وہ بدلہ بھی اتنا ہی ہونا چاہے جتنا ظلم کیا گیا ہو۔ البتہ اس بدلے کو بھی قرآن نے ایک طرح سے برائی ہی کہا ہے۔ اس کے برعکس جو معاف کردینے کو ترجیح دیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کرنے والا قرار دیا ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’برائی کا اسی مقدار میں برائی سے بدلہ دیا جائے لیکن جو معاف کر دے اور اصلاح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے‘‘ (الشوری:40)۔ 

حضرت انسؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ’’جب بندہ حساب کیلئے میدان حشر میں کھڑا ہوگا تو ایک منادی آواز دے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ کھڑا ہو جائے اور جنت میں داخل ہو جائے، کوئی کھڑا نہ ہوگا پھر دوبارہ اعلان کیا جائے گا،فرشتہ کہے گا یہ وہ افراد ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے تھے پس ایسے ہزاروں لوگ کھڑے ہو جائیں گے اوربغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے‘‘ (طبرانی:55)۔ 

ابو ہریرہؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں جس میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاکہ  ’’حضرت موسیؑ نے رب سے پوچھا آپ کے بندوں میں سے آپ کے نزدیک سب سے معزز کون ہیں تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا جو بدلے کی طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے‘‘۔ (شعب الایمان: 7974)

معاف کرنا عزت میں اضافے کا باعث

اگر کوئی کسی کو معاف کر دیتا ہے تو یقینا ً اس سے ضائع شدہ حقوق واپس نہیں آتے لیکن دلوں سے نفرت، کینہ، بغض اور دشمنی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ انتقام لینے کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، باہمی تعلقات میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔

ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا عمل ہی دراصل تمام افرادِ معاشرہ کو درپیش انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔معافی کی صفت اپنانے سے انسان خود بھی پرسکون، چین و اطمینان میں رہتا ہے اور معاشرے میں بھی ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ جو طاقت رکھنے کے باوجود لوگوں کی زیادتیوں و مظالم کو معاف کر دے تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’معاف کرنے والے کی اللہ عزت بڑھا دیتے ہیں۔ (مسلم:2588)، 

Friday, 14 February 2025

بہنوں کو میراث سے محروم کرنا

 والدین کے ترکہ میں  نرینہ اولاد کی طرح بیٹیوں کا بھی شرعی حق اور حصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا  قبضہ کرلینا اور بہنوں کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور گناہ ِ کبیرہ ہے، بہنوں کو ان کا حق اور  حصہ  اس دنیا میں دینا لازم اور ضروری ہے، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، احادیثِ مبارکہ  میں اس بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعاریة 254/1 ط: قدیمی)

ترجمہ: حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه".

(باب الوصایا، الفصل الثالث 1 / 266  ط: قدیمی)

ترجمہ :حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

مرقاة المفاتيح  میں ہے:  

"وقيل: الكبيرة ما أوعد عليه الشارع بخصوصه، وقيل: ما عين له حد، وقيل: النسبة إضافية، فقد يكون الذنب كبيرة بالنسبة لما دونه، صغيرة بالنسبة إلى ما فوقه"

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، كتاب الإيمان، باب الكبائر و علامات النفاق1/ 121 ط: دار الفكر)

تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:   

" الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط". (كتاب الدعوى 7 / 505 ط :سعید)

مشترکہ کاروبار میں نفع کی تقسیم

 باہمی رضامندی سے نفع کا جو تناسب شرکاء طے کرلیں درست ہے۔ چونکہ کاروبای ذمہ داری آپ کے ذمہ ہے، اس لیے آپ اپنے لیے نفع کا جو بھی تناسب طے کرنا چاہیں کرسکتے ہیں، البتہ آپ کے شریک کے ذمہ کاروباری سرگرمی نہیں ہے، اس لیے ان کے لیے نفع کا تناسب ان كے سرمایہ کے تناسب کے برابر یا اس سے کم طے کیا جاسکتا ہے، اس سے زائد طے کرنا درست نہیں۔ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر منافع تقسیم کرتے وقت مشترکہ سرمایہ سے جتنا سامان خریدا گیا ہے، ان سب کی قیمت لگائی جائے گی اور اس میں راس المال کو الگ کیا جائے گا اور اس سے زائد رقم کو طے شدہ تناسب سے تقسیم کیا جائے گا۔

مثال کے طور پر آپ کا کتابوں کا کاروبار ہے، آپ نے اس کاروبار میں ایک شخص کو شریک کیا ہوا ہے، نفع کا تناسب آدھا آدھا طے کیا ہے، آپ کی دکان میں 5 لاکھ روپے کی کتابیں موجود ہیں جس میں سے ڈھائی لاکھ روپے آپ کے ہیں اور باقی ڈھائی لاکھ روپے آپ کے شریک کے ہیں۔ ایک سال میں چارلاکھ روپےکی کتابیں فروخت ہوئی اور اس میں آپ کو 6 لاکھ روپے کا منافع ہواتو اس میں5 لاکھ روپے کو الگ کیا جائےگا۔ اس لیے کہ یہ آپ کا مشترکہ سرمایہ ہے اور ایک لاکھ روپے آپ کے اور آپ کے شریک کے درمیان آدھے آدھےتقسیم ہوں گے۔ اس لیے کہ یہ آپ کا مشترکہ نفع ہے۔
حوالہ جات
"المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما."
(مجلة الأحكام العدلية (ص: 264)نور محمد)
"(قوله: ومع التفاضل في المال دون الربح) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح، وقوله وعكسه: أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/312 ط:دار الفکر بیروت) (
"وإن شرطا العمل على أحدهما، فإن شرطاه على الذي شرطا له فضل الربح؛ جاز، والربح بينهما على الشرط فيستحق ربح رأس ماله بماله والفضل بعمله، وإن شرطاه على أقلهما ربحا لم يجز؛ لأن الذي شرطا له الزيادة ليس له في الزيادة مال.ولا عمل ولا ضمان؛ وقد بينا أن الربح لا يستحق إلا بأحد هذه الأشياء الثلاثة"
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع6/63 ط:دارالکتب العلمیۃ)
"وعندنا " شركة العقد تصح باعتبار الوكالة، وتوكيل كل واحد منهما صاحبه بالشراء، على أن يكون المشترى بينهما نصفين أو أثلاثا، صحيح. فكذلك الشركة التي تتضمن ذلك إلا أن في هذا العقد لا يصح التفاضل في اشتراط الربح بعد التساوي في ملك المشتري؛ لأن الذي يشترط له الزيادة ليس له في نصيب صاحبه رأس مال ولا عمل ولا ضمان. فاشتراط جزء من ذلك الربح له يكون ربح ما لم يضمن، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن ذلك، فإن أراد التفاوت في الربح فينبغي أن يشترط التفاوت في ملك المشترى؛ بأن يكون لأحدهما الثلث، وللآخر الثلثان؛ حتى يكون لكل واحد منهما الربح بقدر ملكه. وهذه الشركة " عندنا " تجوز عنانا ومفاوضة."
المبسوط للسرخسي11/154 ط:دار المعرفۃ) (
"وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط،"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/312 ط:دار الفکر بیروت) (
" (وتفسد باشتراط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لقطع الشركة كما مر لا لأنه شرط لعدم فسادها بالشرط، وظاهره بطلان الشرط لا الشركة بحر ومصنف. قلت: صرح صدر الشريعة وابن الكمال بفساد الشركة ويكون الربح على قدر المال….. وبيان القطع أن اشتراط عشرة دراهم مثلا من الربح لأحدهما يستلزم اشتراط جميع الربح له على تقدير أن لا يظهر ربح إلا العشرة، والشركة تقتضي الاشتراك في الربح وذلك يقطعها فتخرج إلى القرض أو البضاعة كما في الفتح."
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/316 ط:دار الفکر بیروت)

مشترکہ کاروبار میں سے ذاتی اخراجات منھا کرنا

 شراکت داری کے دوران شرکاء بھائیوں  نے باہمی رضامندی سے جو ذاتی نوعیت کے اخراجات (  بچوں کی شادی، حج  وغیرہ)  باہمی رضامندی سے  کیے تھے، مشترکہ کاروبار کی  تقسیم کے وقت ان اخراجات کو  حساب میں  شامل نہیں کیا جائے گا، البتہ مشترکہ کاروبار سے جو مکان بنایا گیا ہے، اگر وہ سب کے  لیے بنایا گیا ہے، تو یہ مشترکہ مکان ہوگا، اور اگر بنانے والے نے اپنے  لیے بنایا تھا، تو اس کا شمار ہوگا۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے:

"(سئل) في إخوة خمسة سعيهم وكسبهم واحد وعائلتهم واحدة حصلوا بسعيهم وكسبهم أموالا فهل تكون الأموال المذكورة مشتركة بينهم أخماسا؟

(الجواب) : ما حصله الإخوة الخمسة بسعيهم وكسبهم يكون بينهم أخماسا ."

( كتاب الشركة، شركة العنان، ١ / ٩٤، ط: دار المعرفة)

Tuesday, 11 February 2025

شب برات کی فضیلت

 شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت“کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔تقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“

دوسری حدیث میں ہے”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔“

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟

ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:

۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لیے ایصالِ  ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔

۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔

۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔

بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔

فإن ليلة النصف من شعبان قد ورد في فضلها عدة أحاديث، منها ما هو صالح للاحتجاج، ومنها ما هو ضعيف لا يحتج به . فمما هو صالح للاحتجاج ما رواه البيهقي في شعب الإيمان عن أبي ثعلبة الخشني رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان ليلة النصف من شعبان اطلع الله إلى خلقه، فيغفر للمؤمنين، ويملي للكافرين، ويدع أهل الحقد بحقدهم حتى يدعوه" ورواه الطبراني، وحسنه الألباني- رحمه الله- في صحيح الجامع برقم 771. وعن أبي موسى رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه، إلا لمشرك أو مشاحن" رواه ابن ماجه، وابن حبان عن معاذ بن جبل رضي الله عنه.
هذا، وقد قال عطاء بن يسار: ما من ليلة بعد ليلة القدر أفضل من ليلة النصف من شعبان، يتنزل الله تبارك وتعالى إلى السماء الدنيا، فيغفر لعباده كلهم، إلا لمشرك أو مشاجر أو قاطع رحم.
فينبغي على العبد أن يتحلى بالطاعات التي تؤهله لمغفرة الرحمن، وأن يبتعد عن المعاصي والذنوب التي تحجبه عن هذه المغفرة. ومن هذه الذنوب: الشرك بالله، فإنه مانع من كل خير. ومنها الشحناء والحقد على المسلمين، وهو يمنع المغفرة في أكثر أوقات المغفرة والرحمة. فعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تفتح أبواب الجنة يوم الاثنين والخميس فيغفر الله لكل عبد لا يشرك بالله شيئا، إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء فيقول: أنظروا هذين حتى يصطلحا". رواه مسلم. فأفضل الأعمال بعد الإيمان بالله سلامة الصدر من أنواع الشحناء كلها.
ولم يثبت في تخصيص هذه الليلة بصلاة معينة، أو دعاء معين، شيء عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عن أحد من أصحابه، وأول ظهور لذلك كان من بعض التابعين. قال ابن رجب في لطائف المعارف: ( وليلة النصف من شعبان كان التابعون من أهل الشام كخالد بن معدان، ومكحول، ولقمان بن عامر وغيرهم، يعظمونها ويجتهدون فيها في العبادة، وعنهم أخذ الناس فضلها وتعظيمها. وقد قيل: إنه بلغهم في ذلك آثار إسرائيلية، فلما اشتهر ذلك عنهم في البلدان اختلف الناس في ذلك فمنهم من قبله منهم ووافقهم على تعظيمها، منهم طائفة من عباد أهل البصرة وغيرهم، وأنكر ذلك أكثر العلماء من أهل الحجاز).
وقال ابن تيمية رحمه الله: ( وأما ليلة النصف من شعبان ففيها فضل، وكان في السلف من يصلي فيها، لكن الاجتماع فيها لإحيائها في المساجد بدعة).
وقال الشافعي رحمه الله: بلغنا أن الدعاء يستجاب في خمس ليال: ليلة الجمعة، والعيدين، وأول رجب ونصف شعبان.
وأما صيام يوم النصف من شعبان فيسن على أنه من الأيام البيض الثلاثة، وهي: الثالث عشر، والرابع عشر، والخامس عشر، لا على أنه يوم النصف من شعبان، فإن حديث الصيام فيه لا يصلح للاحتجاج، بل هو حديث موضوع، وهو قوله (إذا كان ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلتها وصوموا

Monday, 10 February 2025

أحاديث الرسول عن النساء

 : قال أبو هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: (مَن كانَ يُؤْمِنُ باللَّهِ واليَومِ الآخِرِ، فلا يُؤْذِي جارَهُ، واسْتَوْصُوا بالنِّساءِ خَيْرًا، فإنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِن ضِلَعٍ، وإنَّ أعْوَجَ شيءٍ في الضِّلَعِ أعْلاهُ، فإنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وإنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أعْوَجَ، فاسْتَوْصُوا بالنِّساءِ خَيْرًا).[١] رُوِي عن المقدام بن معد يكرب الكندي، عن رسول الله صلى الله عليه وسلّم أنّه قال: (إنَّ اللهَ يُوصِيكُم بالنساءِ خيرًا، إنَّ اللهَ يُوصِيكُم بالنساءِ خيرًا، فإنهنَّ أمهاتُكم وبناتُكم وخالاتُكم، إنَّ الرجلَ من أهلِ الكتابِ يتزوجُ المرأةَ وما تُعلَّقُ يداها الخيطَ، فما يرغبُ واحدٌ منهما عن صاحبِه حتّى يموتا هَرمًا).[٢] عن أبيّ بن كعب، أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلّم قال: (ألا واستَوْصُوا بالنِّساءِ خَيرًا؛ فإنَّهُنَّ عَوَانٍ عندَكُم، ليس تَمْلِكون مِنهُنَّ شيئًا غيرَ ذلكَ، إلَّا أنْ يأتِينَ بفاحشةٍ مُبَيِّنةٍ، فإنْ فَعَلْنَ فاهجُروهُنَّ في المَضاجعِ، واضرِبوهُنَّ ضربًا غيرَ مُبَرِّحٍ، فإنْ أَطَعْنَكُم فلا تَبْغوا عليهِنَّ سبيلًا. ألَا إنَّ لكُم على نسائِكُم حقًّا، ولهُنَّ عليكُم حقًّا؛ فأمَّا حقُّكُم على نسائِكُم فلا يُوطِئْنَ فُرُشَكُم مَن تَكرَهون، ولا يَأْذَنَّ في بُيوتِكُم لمَن تَكرَهون، ألَا وإنَّ حقَّهُنَّ عليكُم أنْ تُحْسِنوا إليهِنَّ في كِسْوَتِهِنَّ وطَعامِهِنَّ).[٣] (اللَّهمَّ إنِّي أُحرِّجُ حقَّ الضَّعيفَيْنِ: اليتيمِ، والمرأةِ).[٤] أحاديث في المرأة الصالحة ممّا روي عن الرسول صلى الله عليه وسلم في المرأة الصالحة وصفاتها: (الدُّنيا كلُّها متاعٌ، وخيرُ متاعِ الدنيا المرأةُ الصالحةُ).[٥] (أربعٌ مِن السَّعادةِ: المرأةُ الصَّالحةُ، والمسكَنُ الواسعُ، والجارُ الصَّالحُ، والمركَبُ الهنيءُ، وأربعٌ مِن الشَّقاوةِ: الجارُ السَّوءُ، والمرأةُ السَّوءُ، والمسكَنُ الضَّيِّقُ، والمركَبُ السَّوءُ).[٦] (قيل يا رسولَ اللهِ، أيُّ النساءِ خيرٌ؟ قال: التي تسرُّهُ إذا نَظَرَ، وتُطيعُهُ إذا أمرَ، ولا تُخالفُه في نفسِها ولا في مالِهِ بما يكرهُ).[٧] أحاديث عن تطيّب المرأة قال عليه الصلاة والسلام عن تطيب المرأة: (أيُّما امرأةٍ استعطَرَت فمرَّت علَى قومٍ ليجِدوا من ريحِها؛ فَهيَ زانيةٌ).[٨] عن زينب الثقفية امرأة عبد الله بن مسعود عن الرسول عليه الصلاة والسلام: (إذا خرجتْ إحْداكنَّ إلى المسجدِ، فلا تقْرَبنَّ طِيبًا)،[٩] حديث عن لباس المرأة المسلمة رُوِي عن السيدة عائشة رضي الله عنها، قولها عن رسول الله عليه الصلاة والسلام بخصوص لباس المرأة المسلمة: (إنَّ أسماءَ بنتَ أبي بكرٍ أُخْتَها دَخَلَتْ على النبيِّ في لِباسٍ رقيقٍ يَشِفُّ عن جسمِها فأعرض النبيُّ عنها وقال: يا أسماءُ إن المرأةَ إذا بلغتِ المَحِيضَ لم يَصْلُحْ أن يُرَى منها إلا هذا وهذا وأشار إلى وجهِه وكَفَّيْهِ).[١٠] حال النساء في آخر الزمن عن عبد الله بن عمرو عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنّه قال: (سيكونُ في آخِرِ أمَّتي رجالٌ يركَبونَ على سُروجٍ كأشباهِ الرِّحالِ، ينزِلونَ على أبوابِ المساجدِ؛ نساؤُهم كاسياتٌ عارياتٌ على رؤوسِهنَّ كأسنمةِ البُخْتِ العِجافِ، الْعَنُوهُنَّ فإنَّهنَّ ملعوناتٌ، لو كان وراءَكم أمَّةٌ مِن الأممِ خدَمهنَّ نساؤُكم كما خدَمكم نساءُ الأممِ قبْلَكم).[١١] أحاديث عن اختيار الزوجة بيّن الرسول الكريم أن اختيار الزوجة يكون لإيمانها ودينها قبل أي شيء، ومن ذلك: (تُنْكَحُ المَرْأَةُ لأرْبَعٍ: لِمالِها ولِحَسَبِها وجَمالِها ولِدِينِها، فاظْفَرْ بذاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَداكَ).[١٢] (يا رسولَ اللَّهِ، أيَّ المالِ نتَّخذُ؟ فَقالَ: ليتَّخِذْ أحدُكُم قَلبًا شاكرًا، ولِسانًا ذاكرًا وزَوجةً مُؤْمِنَةً تعينُ أحدَكُم علَى أمرِ الآخِرةِ).[١٣] (تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً في عَهْدِ رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَلَقِيتُ النبيَّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَ: يا جَابِرُ تَزَوَّجْتَ؟ قُلتُ: نَعَمْ، قالَ: بكْرٌ، أَمْ ثَيِّبٌ؟ قُلتُ: ثَيِّبٌ، قالَ: فَهَلَّا بكْرًا تُلَاعِبُهَا؟ قُلتُ: يا رَسولَ اللهِ، : إنَّ لي أَخَوَاتٍ، فَخَشِيتُ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنِي وبيْنَهُنَّ، قالَ: فَذَاكَ إذَنْ، إنَّ المَرْأَةَ تُنْكَحُ علَى دِينِهَا، وَمَالِهَا، وَجَمَالِهَا، فَعَلَيْكَ بذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ).[١٤] أحاديث عن اختيار الزوج بيّن النبي -صلّى الله عليه وسلّم- أنّ للفتاة الحقّ في أن اختيار شريك حياتها بنفسها، فليس لأحدٍ أن يفرض عليها زوجاً ما لم تقبل به، فقد ورد أن فتاةً قدمت إلى عائشة رضي الله عنها، فأخبرتها أنّ أباها أجبرها على الزواج بابن أخيه، وهي له كارهة، فأجلستها عائشة -رضي الله عنها- إلى حين قدوم رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، فلمّا جاء أخبرتاه بما حصل، فدعا رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- والد الفتاة، وأخبره أن يجعل الأمر إليها، فقالت الفتاة: (قد أجَزتُ ما صنَعَ أبي، ولَكِن أردتُ أن تعلَمَ النِّساءُ أن ليسَ للآباءِ منَ الأمرِ شيءٌ)،[١٥] ومما قيل في ذلك أيضاً: (الأيمُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها، والبكرُ تُستأذنُ، وإذنُها صماتُها وفي روايةٍ الثيبُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها).[١٦] قال عليه أفضل الصلاة والسلام: (إذا أتاكُمْ مَنْ ترضونَ خُلُقَهُ ودينَهُ فزوِّجُوهُ، إنْ لا تفعلُوا تكُنْ فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ).[١٧] أحاديث في غيرة النساء روى مسلم عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها في غيرة النساء: (أنَّ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ خَرَجَ مِن عِندِهَا لَيْلًا، قالَتْ: فَغِرْتُ عليه، فَجَاءَ فَرَأَى ما أَصْنَعُ، فَقالَ: ما لَكِ؟ يا عَائِشَةُ أَغِرْتِ؟ فَقُلتُ: وَما لي لا يَغَارُ مِثْلِي علَى مِثْلِكَ؟ فَقالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: أَقَدْ جَاءَكِ شيطَانُكِ قالَتْ: يا رَسولَ اللهِ، أَوْ مَعِيَ شيطَانٌ؟ قالَ: نَعَمْ قُلتُ: وَمع كُلِّ إنْسَانٍ؟ قالَ: نَعَمْ قُلتُ: وَمعكَ؟ يا رَسولَ اللهِ، قالَ: نَعَمْ، وَلَكِنْ رَبِّي أَعَانَنِي عليه حتَّى أَسْلَمَ).[١٨] عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها، قالت: (ما غِرْتُ علَى أحَدٍ مِن نِسَاءِ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، ما غِرْتُ علَى خَدِيجَةَ، وما رَأَيْتُهَا، ولَكِنْ كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُكْثِرُ ذِكْرَهَا، ورُبَّما ذَبَحَ الشَّاةَ ثُمَّ يُقَطِّعُهَا أعْضَاءً، ثُمَّ يَبْعَثُهَا في صَدَائِقِ خَدِيجَةَ، فَرُبَّما قُلتُ له: كَأنَّهُ لَمْ يَكُنْ في الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إلَّا خَدِيجَةُ، فيَقولُ إنَّهَا كَانَتْ، وكَانَتْ، وكانَ لي منها ولَدٌ).[١٩] أحاديث في حقوق الزوجة وواجباتها عندما سُئِل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حقّ الزوجةِ على الزوج، قال: (أن تُطعمها إذا طَعِمتْ، وتكسُوها إذا اكْتَسيتَ، ولا تُقبّحْ، ولا تَهْجُرْ إلا في البيتِ).[٢٠] عن سعد بن أبي وقاص، قال: (عَادَنِي رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في حَجَّةِ الوَدَاعِ، مِن شَكْوَى أشْفَيْتُ منه علَى المَوْتِ، فَقُلتُ: يا رَسولَ اللَّهِ، بَلَغَ بي ما تَرَى مِنَ الوَجَعِ، وأَنَا ذُو مَالٍ، ولَا يَرِثُنِي إلَّا ابْنَةٌ لي واحِدَةٌ، أفَأَتَصَدَّقُ بثُلُثَيْ مَالِي؟ قالَ: لا قُلتُ: فَبِشَطْرِهِ؟ قالَ: الثُّلُثُ كَثِيرٌ، إنَّكَ أنْ تَذَرَ ورَثَتَكَ أغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِن أنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وإنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بهَا وجْهَ اللَّهِ إلَّا أُجِرْتَ، حتَّى ما تَجْعَلُ في فِي امْرَأَتِكَ).[٢١] عن عبد الله بن عمر أنَّهُ سَمِعَ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، يقولُ: (كُلُّكُمْ رَاعٍ ومَسْؤولٌ عن رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وهو مَسْئُولٌ عن رَعِيَّتِهِ، والرَّجُلُ في أهْلِهِ رَاعٍ وهو مَسْئُولٌ عن رَعِيَّتِهِ، والمَرْأَةُ في بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وهي مَسْئُولَةٌ عن رَعِيَّتِهَا، والخَادِمُ في مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وهو مَسْئُولٌ عن رَعِيَّتِهِ).[٢٢] (خيرُ النِّساءِ امرأةٌ إذا نظرتَ إليها سرَّتكَ، وإذا أمرتَها أطاعتْكَ، وإذا غِبتَ عنها حفِظتْكَ في نفسِها ومالِكَ، ثمَّ قرأَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ هذِهِ الآيةَ الرِّجالُ قوَّامونَ علَى النِّساءِ إلى آخرِها).[٢٣] قال الرسول الكريم صلى الله عليه وسلم: (فإني لو أَمرتُ شيئًا أن يسجدَ لشيءٍ ؛ لأمَرتُ المرأةَ أن تسجُدَ لزوجِها، والذي نفسي بيدِه، لا تُؤدِّي المرأةُ حقَّ ربِّها حتى تُؤَدِّيَ حقَّ زوجِها).[٢٤] قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إذا دعا الرجلُ امرأتَهُ إلى فراشِهِ فأَبَتْ، فبات غضبانَ عليها، لعنتها الملائكةُ حتى تُصبحَ).[٢٥] عن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إنْ كَرِهَ منها خُلُقًا رَضِيَ منها آخَرَ، أَوْ قالَ: غَيْرَهُ).[٢٦] (إنّ المرأةَ خُلِقتْ من ضلعٍ، وإنَّك إن تُرِدْ إقامةَ الضلعِ تكسرُها، فدارِها تعِشْ بها).[٢٧] قال رسول الله: (لو تعلمُ المرأةُ حقَّ الزوْجِ، لم تَقْعُدْ ما حضَرَ غدَاؤُهُ وعَشَاؤُهُ؛ حتى يفرَغَ منه).[٢٨] (أكملُ المؤمنين إيمانًا أحسنُهم خُلقًا، وخيارُكم خيارُكم لنسائهم).[٢٩] (فَاتَّقُوا اللهَ في النِّسَاءِ، فإنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بأَمَانِ اللهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بكَلِمَةِ اللهِ، وَلَكُمْ عليهنَّ أَنْ لا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فإنْ فَعَلْنَ ذلكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غيرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ علَيْكُم رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بالمَعروفِ).[٣٠]


من غش فليس منا

 من غشَّنا فليس منَّا ، و المكرُ والخِداعُ في النَّارِ

الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع
الصفحة أو الرقم: 6408 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

التخريج : أخرجه ابن حبان (5559)، والطبراني (10/169) (10234)، وأبو نعيم في ((حلية الأولياء)) (4/189)


الأمانةُ من مَحاسِنِ الأخْلاقِ، والتَّعامُلُ في التِّجارَةِ والأُمورِ المادِّيَّةِ يَستلزِمُ الأمانَةَ؛ حتى تتِمَّ الأُمورُ والتَّعامُلاتُ بين الناسِ بلا مُنازَعاتٍ، وعلى العَكْسِ مِن ذلك؛ فإنَّ الغِشَّ والخِداعَ يَجلِبُ على المجتَمَعِ الوَيْلاتِ مع البَغْضاءِ والتَّشاحُنِ بين الناسِ.
وفي هذا الحديثِ يقولُ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: "مَنْ غَشَّنا فليس مِنَّا"، أي: مَنْ خَدَعَنا بأيِّ صورةٍ، فليس على هَدْيِ الإسلامِ، وأنَّ الغشاشَ على خَطَرٍ عَظيمٍ، وليس على طريقَةِ النَّبيِّ صلَّى الله عليه وسلَّم وسُنَّتِه، وهذا زَجْرٌ شديدٌ من النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، وفيه تَهْديدٌ لِمَن تَمادَى في الغِشِّ.
"والمَكْرُ والخِداعُ في النارِ" وهما من أنْواعِ الغِشِّ أيضًا، والمَعْنى: أنَّهما يُؤَدِّيانِ بصاحِبِهما إلى النارِ؛ لأنَّ الداعيَ إليه الْحِرْصُ على الدُّنْيا، والرَّغْبَةُ فيها، وَذَلِكَ يَجُرُّ إلى النارِ؛ لأنَّه لا يكونُ تَقيًّا وَلا خائِفًا للهِ؛ ولأنَّه إذا مَكَرَ غَدَرَ، وإذا غَدَرَ خَدَعَ، وكُلُّ خَلَّةٍ جانَبَتِ التُّقَى، فهي في النارِ".
وفي الحديثِ: التَّغليظُ في أَمْرِ الغِشِّ والخِداعِ، والتَّحْذيرُ من عاقِبَتِه .

Sunday, 9 February 2025

ساس سے زنا سے حرمت مصاہرت

 حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا سے بھی ثابت ہوجاتی ہے، لہٰذا اگر کوئی مرد اپنی ساس کے ساتھ زنا کرلے تو حرمت مصاہرت  ثابت ہونے کی وجہ سے اس مرد کے لیے اپنی بیوی سے نکاح کا رشتہ  ختم ہوجائے گا اور وہ  اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی، واپس رشتہ قائم ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ البتہ عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح تب جائز ہوگا جب شوہر اپنی زبان سے کوئی لفظ کہہ کر بیوی کو نکاح سے نکال دے، مثلاً یوں کہہ دے کہ میں نے تمہیں اپنے نکاح سے نکال دیا، یا میں نے طلاق دی، وغیرہ۔ لہذا ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ فوراً اپنی بیوی کو نکاح سے خارج کردے اور آئندہ اس سے تعلق نہ رکھے۔ نیز مرد کا یہ کہنا کہ ساس نے زبردستی یہ کام کروایا غلط ہے، عذر گناہ بدتر از گناہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لايمنع الحرارة(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقًا."

( کتاب النکاح، ج:3 ،ص:33، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير."

(کتاب النکاح، القسم الثاني المحرمات بالصهریة،  274\1،  ط: دارالفکر)