1:اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے اصول وفروع میں سے کسی کہ ساتھ جماع یا دواعی جماع کرلے، یا شوہر کے اصول وفروع میں سے کوئی مرد اس کی بیوی کے ساتھ جماع یا داوعی جماع کرلے، تو ایسی صورت میں ان دونوں مرد وعورت جنہوں نے یہ فعل (جماع یا دواعی جماع) کیا ہے، کے درمیان حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، اور دونوں کے اصول وفروع ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائیں گے، تاہم جس عورت کے ساتھ یہ فعل ہوا ہے اس کے شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ شوہر کو اس واقعے کی سچائی کا غالب گمان ہو اور وہ اس کی تصدیق کرے، یا پھر اس واقعے کے وقوع کی شرعی گواہان گواہی دے دیں، لہٰذا اگر شوہر کو اس واقعے کا علم نہ ہو، یا وہ علم ہونے کے بعد اس کی تصدیق نہ کرے اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے شرعی گواہان بھی نہ ہوں، تو صرف شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی، یعنی شوہر اگر اس واقعے کے بعد بھی اپنی بیوی کو علیٰحدہ نہ کرے، تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا اور شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے شوہر کی تصدیق یا شرعی شہادت، اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس طرح کے دعوے میں شوہر کی حق تلفی ہے، لہٰذا شریعت نے اس کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے یہ شرط عائد کی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں چونکہ سسر اور شوہر عورت کی بات کا انکار کر رہے ہیں، لہذا شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، میاں بیوی کا نکاح برقرار رہے گا۔
2:میاں بیوی کا نکاح محض حرمتِ مصاہرت کے ثابت ہوجانے سے نہیں ٹوٹتا، بلکہ شوہر کا بیوی کو طلاق دینا یا قاضی کا دونوں میں تفریق کرانا ضروری ہے۔
3:اگر بیوی کے پاس اس معاملہ پر کوئی شرعی گواہ موجود ہو تو بیوی عدالت میں اس بات کو ثابت کرکے عدالت سے تنسیخِ نکاح کروا سکتی ہے، البتہ اگر عورت کے پاس کوئی شرعی گواہ موجود نہ ہو اور شوہر طلاق یا خلع دینے پر بھی راضی نہ ہو تو پھر عورت عدالت کے ذریعہ اپنا نکاح ختم نہیں کراسکتی ہے۔
4:نیزحرمتِ مصاہرت اس وقت ثابت ہوگی جب شوہر بیوی کی بات کی تصدیق کرےگا، اگر شوہر بیوی کی بات کی تصدیق نہیں کرے گاتو پھر حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، اور اس صورت میں بیوی کا شوہر کےساتھ رہنا جائز ہوگا، البتہ اگر عورت شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی توبیوی شوہر سے طلاق یا خلع لے لے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. "
(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:32، ط:دار الفکر)
وفیه أیضًا:
"وعلمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه."
(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:305، ط:دار الفکر)
وفیه أیضًا:
"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة."
(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:37، ط:دار الفکر)
حرمت مصاہرت کے ثبوت کے بعد عورت حرام ہو جاتی ہے،نکاح سے نکلتی نہیں ہے۔لہذا حرام شدہ عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی جب تک متارکت نہ ہو جائے۔متارکت کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے یہ کہہ دے:"میں نے تجھے چھوڑدیاہے "یا پھر طلاق دیدے۔ اگر شوہر ایسا نہ کرے تو پھر قاضی دونوں کے درمیان تفریق کر دے۔حرمت مصاہرت کی وجہ سے بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے، متارکت کے بعد کسی دوسری جگہ نکاح کر لینے کے بعد بھی اس سے اب دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا۔متارکت کے بعد بیوی پر عدت گزارنا بھی ضروری ہو گی اور عدت کے دوران شو ہر پر نفقہ بھی واجب ہو گا۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمه الله تعا لى: وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة. ( رد المحتار:3/ 37)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى : وهذه الثلاثة محرمة على التأبيد. ( رد المحتار:3/ 28)
قال العلامة الكاساني رحمه الله تعالى: وكذلك الفرقة بغير طلاق إذا كانت من قبله فلها النفقة والسكنى سواء كانت بسبب مباح كخيار البلوغ أو بسبب محظور كالردة ووطء أمها أو ابنتها أو تقبيلهما بشهوة بعد أن يكون بعد الدخول بها لقيام السبب وهو حق الحبس للزوج عليها بسبب النكاح. (بدائع الصنائع:16/4 )
No comments:
Post a Comment