https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 3 December 2021

قرآن مجید کی جھوٹی قسم کھانا

 قسم کھانے کی دو صورتیں ہیں:

  1.  ماضی میں ہونے والے کسی کام یا واقعہ کے متعلق قسم کھانا
  2. مستقبل میں کسی کام کی قسم کھا لینا

صورت اول کی مزید دو قسمیں ہیں: (1) وہ قسم جو لاعلمی یا غلط فہمی کی وجہ سے کھائی گئی ہو‘ یعنی انسان ماضی کے کسی واقعہ کے متعلق غلط فہمی کی بنیاد پر قسم کھائے کہ فلاں کام ایسے ہوا تھا، لیکن حقیقت میں ویسا نہ ہو۔ اِسے یمینِ لَغْو یعنی غلط فہمی کی قسم کہا جاتا ہے اور اس پر نا گناہ ہے اور اس کا کوئی کفارہ ہے۔ (2) ماضی میں ہونے والے کسی کام کے متعلق قسم کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی گزرے ہوئے واقعہ کے متعلق جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوئے قسم کھائے، یہ یمینِ غَموس یعنی جھوٹی قسم کہلاتی ہے۔ یمینِ غموس حرام ہے، اس کا کوئی مالی کفارہ تو نہیں، البتہ اس پر توبہ و استغفار لازم ہے اور آئندہ ایسا کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

مستقبل کے کسی معاملے کے متعلق کھائی گئی قسم یمینِ منعقدہ کہلاتی ہے، ایسی قسم توڑنا منع ہے اور توڑنے کی صورت میں قسم کھانے والے پر کفارہ لازم آتا ہے۔ اس کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو یا غلام میسر نہ ہو تو پھر دس مسکینوں کو دو وقت کا پیٹ بھر درمیانے درجے کا کھانا کھلانا، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو پھر دس مسکینوں کو اوسط درجے کا لباس فراہم کرنا ہے۔ اگر تینوں میں سے کسی صورت کو بھی اختیار کرنے کی مالی استطاعت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھنا ہے۔

صورتِ مسئلہ میں جس شخص نے قسم اٹھائی ہے اسے اپنی صفائی دینے یا سچائی ثابت کرنے کیلئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ قسم کسی بات کے انکار کرنے کے لیے کھائی جاتی ہے ناکہ اپنا دعویٰ ثابت کرنے لے لیے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے، ایک مقام حضرموت سے اور دوسرا کندہ سے۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! اس شخص (کندی) نے میرے باپ کی طرف سے ملی ہوئی زمین کو مجھ سے چھین لیا، کندی نے کہا وہ میری زمین ہے اور میرے تصرف میں ہے میں اس میں زراعت کرتا ہوں، اس شخص کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَلَکَ يَمِينُهُ قَالَ: يَا رَسُولَ ﷲِ إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَی مَا حَلَفَ عَلَيْهِ. وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْئٍ فَقَالَ لَيْسَ لَکَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِکَ فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ. فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ، لَمَّا أَدْبَرَ أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَی مَالِهِ لِيَاْکُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ ﷲَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ.

پھر اس (کندی) شخص کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! یہ جھوٹا ہے، جھوٹ پر قسم اٹھا لے گا، یہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔ جب کندی قسم کھانے کے لیے مڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس شخص نے اس کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو اللہ سے جب ملاقات کرے گا اور وہ اس سے ناراض ہو گا۔

  1. مسلم، الصحيح، كتاب الإيمان، باب وعيد من اقتطع حق المسلم بيمين فاجرة بالنار، 1: 123، الرقم: 139
  2. ابو داؤد، السنن، كتاب الأيمان والنذور، باب فيمن حلف يمينا ليقتطع بها مالا لأحد، 3: 221، الرقم: 3245

مذکورہ بالا تصریح سے ثابت ہوا کہ مدعی ثبوت پیش کرتا ہے، اگر اس کے جواب میں مدعیٰ علیہ کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو اپنی صفائی کے لیے قسم یا حلف دیتا ہے۔

قسم قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر کھائی جائے، قرآنِ مجید سر پر رکھ کر کھائی جائے یا بغیر قرآن اٹھائے کھائی جائے، قسم یکساں ہی رہتی ہے۔ قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھنا یا قرآنِ مجید سر پر رکھنا محض اپنی قسم کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ کوئی شخص قرآنِ مجید سر پر رکھ کر صحیح بات کہے یا بغیر قرآن کو اٹھائے سچ کہے‘ برابر ہے، تاہم قرآنِ مجید سر پر رکھ کر یا قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانا‘ گناہ کی سنگینی کو بڑھا دیتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قسم کھاتے ہوئے قرآنِ مجید سر پر رکھنا یا قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھنا‘ اپنی قسم اہمیت جتانے کے لئے کیا جاتا ہے، اسی طرح کسی سے قسم لیتے ہوئے اس کے سر پر قرآنِ مجید رکھنا یا قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھوانا اسے ڈرانے کے لیے ہوتا ہے تاکہ وہ جھوٹی قسم نہ کھائے۔

انسانی بالوں کو دفنانا مستحب ہے

 سر یا داڑھی کے بال انسانی جسم کا حصہ ہونے کی وجہ سے قابلِ احترام ہیں،  نیز اجنبی مرد کے لیے عورت کے ٹوٹے ہوئے بالوں کو دیکھنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے سر میں کنگھی کرتے ہوئے عورتوں کے جو بال گر جائیں انہیں کسی جگہ دفنا دینا  چاہیے، اگر دفنانا مشکل ہو تو کسی کپڑے وغیرہ میں ڈال کر ایسی جگہ ڈال دیے جائیں  جہاں کسی اجنبی کی نظر نہ پڑے ۔

 نیز مردوں کو بھی ناخن اور بال وغیرہ کسی زمین میں دفنا دینا مستحب ہے، اگر دفنانے کی سہولت نہ ہو تو ایسی جگہ مٹی میں ڈال دیے جائیں جہاں گندگی اور ناپاکی نہیں ہو.
قال العلامة الحصکفي رحمه الله تعالی: "و کل عضو لا یجوز النظر إلیه قبل الانفصال، لا یجوز بعده و لا بعد الموت، کشعر عانة و شعر رأسها". ( الشامیة ٦ / ٣٧١ ) 

Thursday 2 December 2021

کھڑے ہوکر وضوکرنا

 بیٹھ کر وضو کرنامستحب اور آداب وضو میں سے ہے کھڑے ہو کر بھی وضو کرنا جائز ہے وضو ہو جاتا ہے۔

والجلوس فی مکان مرتفع.

(نور الايضاح,صفحہ44)

وضو کے لیے اونچی جگہ بیٹھنا مستحب ہے۔

افضل یہ ہے کہ بیٹھ کر وضو کیا جائے۔البتہ

کسی اونچی جگہ قبلہ رو بیٹھ کر وضو کرنا آداب میں سے ہے یعنی: اس کی رعایت میں ثواب ہے اور رعایت نہ کرنے پر کوئی گناہ، ملامت یا مذمت نہیں ہے، قال في الدر مع الرد کتاب الطہارة: ۱/۲۴۸، ۲۵۰، ۲۵۱، ط: مکتبہ زکریا دیوبند): ومن آدابہ․․․ استقبال القبلة، ․․․ والجلوس في مکان مرتفع․․․ إھ وقال في مراقي الفلاح (مع حاشیة الطحطاوي ص: ۷۵، ط دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان): وہي جمع أدب وعرف بأنہ وضع الأشیاء موضعہا وقیل: الخصلة الحمیدة،وقیل: الورع، وفي شرح الہدایة: ہو ما فعلہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم مرة أو مرتین ولم یواظب علیہ وحکمہ الثواب بفعلہ وعدم اللوم علی ترکہ إھ وانظر حاشیة الطحطاوي أیضًا۔

Wednesday 1 December 2021

غیرعالم دین کادرس قرآن دینا

 ”درسِ قرآن“ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرنے کا نام ہے اور علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی کو بیان کیا جائے‘ اس کے احکام کی حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے۔ نیز مرادِ خداوندی کو متعین کیا جائے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ ”علم تفسیر“ کے اس توضیحی عنوان میں علم تفسیر کی حقیقت‘ نزاکت اور اس کے حصول کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو بہت ہی مختصر اور سادہ الفاظ میں تعبیر کیا گیا ہے‘ اس عنوان کی تفصیلات اور علمی ابحاث میں جائے بغیر یوں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم‘ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ اس کی ترجمانی اور تفصیل وتوضیح کے لئے ایسی لیاقت اور اہلیت درکار ہے‘ جو اس کلام کی عظمت کے شایانِ شان ہو‘ ورنہ معمولی لغزش غلط ترجمانی کا مرتکب بناکر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے باغیوں میں شمار کروا دے گی اور تفسیر قرآن ودرس قرآن کا شوق دنیا وآخرت کی نجات وفلاح کی بجائے ہلاکت وبربادی کا ذریعہ بن جائے گا۔اسی خطرہ کے پیش نظر علماء کرام فرماتے ہیں اور دنیا کا عام اصول بھی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی علم وفن ایسا نہیں جو اس تک پہنچنے والے متعین راستوں اور واسطوں کے بغیر حاصل ہوتا ہو‘ یہی اصول قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے والوں کے بھی پیش نظر ہونا چاہئے‘ اگر کوئی انسان اس اصول اور ضابطہ سے ہٹ کر خدا کی کتاب کو تختہٴ مشق بناتا ہے تو ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ ظلم وناانصافی ہے‘ بلکہ خود انسان اپنے اوپر بھی ظلم کرنے والا بن جاتا ہے۔ اسی عظیم خطرہ کی بنا پر علماء امت کے ایک طبقہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نبوی ارشادات سے آگے کوئی بھی لفظ زبان سے نکالا ہی نہ جائے‘ کیونکہ قرآن فہمی اور قرآن بیانی میں غلطی سرزد ہونے کی بناء پر انسان ان تمام وعیدات کا مصداق بن جاتا ہے‘ جو قرآن بیانی میں اپنی رائے اور مذاق ومزاج کی آلودگی شامل کرنے والوں کی بابت وارد ہوئی ہیں‘ لیکن علامہ جلال الدین سیوطی  (م‘۹۱۱ھ) فرماتے ہیں کہ جمہور علمأ امت کی رائے کے مطابق قرآنی اعجاز کے اسرار ورموز کو سمجھنے کے لئے مطلوبہ استعداد اور صلاحیت کے حاملین کے لئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنا جائز ہے اور یہ استعداد وصلاحیت علوم وفنون کی تقریباً ۱۵/ پندرہ گھاٹیاں سر کرنے کے بعد پیدا ہوتی ہے‘ جن میں لغت ‘ صرف‘ نحو‘ اشتقاق‘ معانی‘ بیان‘ بدیع‘ قرآء ات‘ اصول الدین‘ اصول فقہ‘ فقہ‘ حدیث‘ علم اسباب نزول‘ علم ناسخ ومنسوخ اور نور بصیرت ووہبی علم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ علوم وفنون چونکہ ہمارے ہاں درسِ نظامی کے درسی نصاب میں شامل ہیں اسی بنیاد پر کہا جاتاہے کہ درسِ قرآن دینے والے کے لئے کم از کم درسِ نظامی کا فاضل ہونا ضروری ہے‘ کیونکہ جس آدمی نے اپنی زندگی کے آٹھ‘ دس سال ان علوم وفنون کے سائے میں گزارے ہوں اسے ان علوم میں اعلیٰ درجہ کا کمال اور مہارت اگر حاصل نہ بھی ہو تو کچھ نہ کچھ مناسبت تو ضرور حاصل ہوجاتی ہے اور اس سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ درس نظامی کے فاضل کو اعجاز قرآن کے بیان کرنے میں اپنی علمی بے مائیگی کا احساس دامن گیر رہے گا اور وہ اپنی طرف سے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے اور الفاظ قرآنی میں مراد خداوندی متعین کرنے میں جاہلانہ بے باکی اور جرأت سے کم از کم محفوظ رہے گا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مستند عالم دین جو بات اور جتنی بات کہے گا وہ سلف صالحین پر اعتماد اور استناد کی روشنی میں کہے گا اور یہ تفسیر قرآن کا اہم بنیادی اصول ہے کہ تفسیر قرآن کا بار گراں اٹھانے والا اپنی طرف سے الفاظ وتعبیرات اور مراد ومعانی منتخب کرنے کی بجائے اسلاف پر اعتماد کرتے ہوئے ان ہی کے ارشادات کو سامنے رکھے‘ یعنی نبی اکرم ا کے اقوال وافعال‘ آپ ا کے صحابہ کرام  کے فرامین اور آراء کو تفسیر بیان کرتے ہوئے اساس وبنیاد سمجھے پھرحضور ا کے اسوہٴ حسنہ اور صحابہ کرام  کے طرز فکر وعمل پر کار بند رہنے والے فقہاء ملت اور علمأ حق کے عقائد واعمال اور اخلاق وعادات کو اپنا سرمایہ اور مأخذ سمجھے‘ اگر کوئی مفسر قرآن یا مدرس قرآن اس اصول سے پہلو تہی کرتے ہوئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے کی ٹھان لے اور درس قرآن کے نام پر کتاب الٰہی کو تحتہٴ مشق بنائے تو ہم تک قرآن اور دین کی تشریحات پہچانے والے واسطوں اور ذریعوں کا کہنا ہے کہ وہ ناجائز کررہا ہے‘ اس کا یہ عمل ‘ دین یا قرآن کی خدمت نہیں‘ بلکہ امت میں فتنہ اور گمراہی کا ذریعہ ہے پھر ستم بالائے ستم یہ کہ یہ مفسر یا مدرس اپنے اعمال ونظریات کی وجہ سے سلف بیزاری اور الحاد سے متہم ہوچکا ہو۔ اگر ایسے شخص کو کتاب اللہ کا مفسر بناکر بٹھا دیا جائے اور مرادِ الٰہی کا ترجمان قرار دیا جائے تو پھر مسلمانوں کے عقائد ونظریات اور دینیات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ چنانچہ حافظ جلال الدین سیوطی  نے ”الاتقان فی علوم القرآن“ میں امام ابوطالب الطبری کے حوالہ سے مفسر کے آداب کے ضمن میں مفسر کے لئے ضروری شرائط کا تذکرہ یوں فرمایا ہے:

”اعلم ان من شرطہ صحة الاعتقاد اولاً ‘ولزوم سنة الدین فان من کان مغموصاً علیہ فی دینہ لایؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین ثم لایؤتمن فی الدین علی الاخبار عن عالم فکیف یؤتمن فی الاخبار عن اسرار اللہ تعالیٰ ‘ولانہ لایؤمن ان کان متہماً بالالحاد ان یبغی الفتنة ویغر الناس بلیّہ وخداعہ کدأب الباطنیة وغلاة الرافضة․․․ الخ“۔(الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی النوع:۷۸‘ج:۲۰ ص:۱۷۶‘ ط:سہیل اکیڈمی لاہور)
ترجمہ:․․․”جاننا چاہئے کہ مفسر کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے تو اس کا عقیدہ صحیح ہو‘ دوسرے وہ سنت دین کا پابند ہو‘ کیونکہ جو شخص دین میں مخدوش ہو‘ کسی دنیوی معاملہ میں بھی اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا‘ پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے‘ اس میں بھی وہ لائق اعتماد نہیں تو اسرار الٰہی کی خبر دینے میں کس طرح لائق اعتماد ہوگا‘ نیز ایسے شخص پر اگر الحاد کی تہمت ہو تو اس کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ تفسیر بیانی کے ذریعہ فتنہ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکاری سے گمراہ کرے‘ جیساکہ فرقہٴ باطنیہ اور غالی رافضیوں کا طریقہ ٴ کار ہے“۔
مزید برآں جو شخص نظریاتی وفکری طور پر زیغ وضلال کا شکار ہو‘ عملی اعتبار سے بدعت وکجروی اور بے راہ روی کا علمبردار ہو اور روحانی لحاظ سے تکبر وغرور‘ نفس پرستی اور حب جاہ وحب مال کے علاوہ نفسانی خواہشات سے دوچار ہو تو حضرت لدھیانوی شہید کے بقول ایسا شخص جو تفسیر لکھے اور بیان کرے گا وہ قرآن کریم کی تفسیر نہیں ہوگی‘ بلکہ اس کے بدعت آلودذہن کا بخار اور بیمار دل کا تعفن ہوگا‘ ایسے فکری وروحانی مریضوں کے لئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنا یا درسِ قرآن دینا تو کجا‘ علمأ تفسیر کے بقول قرآن فہمی کی کوشش کرنا بھی حرام ہے‘ کیونکہ ان لوگوں کی بیمار ذہنیت اور نفسانی خواہش کے غلبہ کی وجہ سے انہیں ہر ہر موقع پر اپنی بیماری اور نفسانیت کا عکس نظر آئے گا اور اپنے فاسد افکار وخیالات ‘ خود ساختہ تعبیرات وتشریحات کو عوام الناس کے سامنے قرآنی طشت میں رکھ کر پیش کرے گا اور لوگ اس کی جہالت کو علم‘ اس کی فاسد آراء کو قرآن کی تفسیر خیال کرتے ہوئے اسے اپنا پیشوا اور مقتدیٰ کے درجہ پر بٹھا لیں گے‘ اس طرح معاشرہ میں ضلالت وگمراہی کا طوفان برپا ہوجائے گا‘ چنانچہ ”الاتقان“ میں امام زرکشی کی ”البرہان“ کے حوالہ سے مذکور ہے جو پورے سوالنامہ کے جواب کے لئے بھی کافی ہے:
”اعلم انہ لایحصل للناظر فہم معانی الوحی ولایظہر لہ اسرارہ وفی قلبہ بدعة او کبر او ہوی اوحب الدنیا او ہو مصر علی ذنب او غیر متحقق بالایمان او ضعیف التحقیق او یعتمد علی قول مفسر لیس عندہ علم او راجح الی معقولہ وہذہ کلہا حجب وموانع بعضہا آکد من بعض ․․․ الخ“۔ (الاتقان للسیوطی:نوع:۷۸‘ ۲/۱۷۶‘ ط:لاہور)
ترجمہ:․․․”جاننا چاہئے کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے پر وحی کے معانی ظاہر نہیں ہوتے اور اس پر وحی کے اسرار نہیں کھلتے‘ جبکہ اس کے دل میں بدعت ہو‘ یا تکبر ہو‘ یا اپنی ذاتی خواہش ہو‘ دنیا کی محبت ہو یا وہ گناہ پر اصرار کرنے والا ہو‘ یا اس کا ایمان پختہ نہ ہو یا اس میں تحقیق کا مادہ کمزور ہو‘ یا وہ کسی ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو علم سے کوراہو‘ یا وہ قرآن کریم کی تفسیر میں عقل کے گھوڑے دوڑاتاہو‘ یہ تمام چیزیں فہم قرآن سے حجاب اور مانع ہیں‘ ان میں بعض دوسری بعض سے زیادہ قوی ہیں“۔
الغرض جو شخص کسی بھی طور پر یعنی علمی‘ عملی‘ فکری واعتقادی‘ نیز دین ودیانت کے لحاظ سے قرآن کریم کی تفہیم وتشریح کا اہل اور حقدار نہ ہو‘ اگر وہ اس منصب پر بیٹھ کر تفسیر قرآن کے نام پر رائے زنی کرے گا تو وہ نہ صرف یہ کہ حرام کا مرتکب ہوگا‘ بلکہ ان تمام وعیدات کا مصداق ومستحق بھی ہوگا جو حضور ا نے ”رائے وتخمین“ کے ذریعہ تفسیر کرنے والوں کے بارے میں فرمائی ہیں‘ جن میں سرفہرست یہ ارشاد گرامی ہے:
”جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے بغیر علم کے قرآن میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنائے“۔ (مشکوٰة:۳۵)

قرآنی آیات اوراحادیث پر مشتمل میسیج ڈیلیٹ کرنا جائز ہے یا نہیں

 دین کی نشرو اشاعت، تذکیر اور نصیحت کی غرض سے آیاتِ قرانیہ، احادیثِ مبارکہ، اور دینی پیغام بھیجنا فی نفسہ جائز ہے، تاہم اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا  نہایت ضروری ہے:

(۱) مذکورہ پیغامات معتبر اور مستند ہوں، کیوں کہ آج کل دین کے نام پر لاشعوری  میں لوگ غلط باتیں بھی پھیلاتے رہتے ہیں، اس لیے تحقیق اور تسلی کے بغیر مذکورہ  پیغامات نہ بھیجے جائیں، خاص کر  جب وہ قرآنِ مجید یا حدیثِ مبارکہ کی طرف منسوب ہوں۔

(۲) قرآن مجید کی آیات کو اس کے   عربی رسم الخط  (رسمِ عثمانی ) میں لکھاجائَے، اس لیے کہ قرآنِ کریم کی کتابت میں  رسمِ عثمانی (جوکہ عام قرآن کا رسم الخط ہے) کی اتباع واجب ہے، لہذا کسی اور رسم الخط میں قرآنی آیت لکھ کر  پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے، البتہ ترجمہ لکھ کر بھیجا جاسکتا ہے۔

          نیز میسج میں قرآنِ  کریم، احادیثِ مبارکہ، اور اسلامی کلمات موصول ہوں تو ان کو پڑھنے کے بعد یا ان سے نصیحت حاصل کرنے کے بعد  اگر ان کومٹانے (ڈیلیٹ) کرنے کی ضرورت درپیش ہو  تو اس کو مٹانے  میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،  اس لیے کہ فقہاءِ کرام نے  ضرورت کی صورت میں  کاغذ پر سے قرآنی آیات اور احادیث  کو مٹانے کی اجازت دی ہے، لہذا اس طرح کے پیغامات کو ڈیلیٹ کرنے کی بطریقِ اولیٰ گنجائش ہے۔

آپ نے جو روایت ذکر کی ہے، ان الفاظ کے ساتھ حدیث نہیں ملی، البتہ بعض میں روایات میں  قیامت کے  قریب قرآنِ مجید کے اٹھائے جانے کا ذکر ہے، اس کا مصداق یہ ہے کہ قرآنِ مجید اللہ تعالی کے حکم اور منشا سے  لوگوں کے سینوں اور مصاحف سے اٹھالیا جائے گا۔

باقی اس طرح کے پیغامات  اگر صحیح اور مستند ہوں تو  بہتر یہ ہے کہ انہیں پڑھنے سے پہلے ختم نہ کیا جائے، اس لیے کہ اس میں صورۃً اعراض پایا جاتا ہے، لہذا بلاعذر پڑھنے سے پہلے سے ختم (ڈیلیٹ) نہیں کرنا چاہیے۔

        حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كذب علي متعمداً، فليتبوأ مقعده من النار»". 

(صحیح مسلم ،1 / 10، باب في التحذير من الكذب على رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

مصنف عبد الرزاق الصنعانی میں ہے:

"عن الثوري، عن أبيه، عن المسيب بن رافع، عن شداد بن معقل، قال الثوري: وحدثني عبد العزيز بن رفيع، عن شداد، أن ابن مسعود قال: «لينتزعن هذا القرآن من بين أظهركم»، قال: قلت: يا أبا عبد الرحمن، كيف ينتزع وقد أثبتناه في صدورنا وأثبتناه في مصاحفنا؟ قال: "يسري عليه في ليلة فلايبقى في قلب عبد منه ولا مصحف منه شيء، ويصبح الناس فقراء كالبهائم، ثم قرأ عبد الله: {ولئن شئنا لنذهبن بالذي أوحينا إليك ثم لا تجد لك به علينا وكيلاً} [الإسراء: 86] ".

(3 / 362، رقم الحدیث: 5980،  باب تعاھد القرآن ونسیانہ، ط: المکتب الاسلامی ، بیروت)

     الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"وقال ابن فارس: الذي نقوله: إن الخط توقيفي لقوله تعالى: {علم بالقلم علم الأنسان ما لم يعلم} {ن والقلم وما يسطرون} وإن هذه الحروف داخلة في الأسماء التي علم الله آدم. وقد ورد في أمر أبي جاد ومبتدأ الكتابة أخبار كثيرة ليس هذا محلها وقد بسطتها في تأليف مفرد. فصل : القاعدة العربية أن اللفظ يكتب بحروف هجائية مع مراعاة الابتداء والوقوف عليه وقد مهد النحاة له أصولا وقواعد وقد خالفها في بعض الحروف خط المصحف الإمام، وقال أشهب: سئل مالك: هل يكتب المصحف على ما أحدثه الناس من الهجاء؟ فقال: لا إلا على الكتبة الأولى رواه الداني في المقنع، ثم قال ولا مخالف له من علماء الأمة، وقال في موضع آخر: سئل مالك عن الحروف في القرآن الواو والألف، أترى أن يغير من المصحف إذا وجد فيه كذلك؟ قال: لا، قال أبو عمرو: يعني الواو والألف والمزيدتين في الرسم المعدومتين في اللفظ  نحو الواو في "أولوا"،وقال الإمام أحمد: يحرم مخالفة مصحف الإمام في واو أو ياء أو ألف أو غير  ذلك وقال البيهقي في شعب الإيمان: من كتب مصحفا فينبغي أن يحافظ على الهجاء الذي كتبوا به هذه المصاحف، ولا يخالفهم فيه ولا يغير مما كتبوه شيئا فإنهم كانوا أكثر علما وأصدق قلبا ولسانا وأعظم أمانة منا فلا ينبغي أن يظن بأنفسنا استدراكاً عليهم". (4 / 168، النوع السادس والسبعون: فی مرسوم الخط وآداب کتابتہ ، ط: مجلس العلمی، ہند)

      فتاوی شامی میں ہے:

"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي". (6 / 422، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

      فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو محا لوحاً كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز". (5 / 322، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،ط: رشیدیہ

عورت کامردڈاکٹرسے علاج کرانا

 علاج کی غرض سے عورت کا خواتین یا مرد ڈاکٹر کے پاس جانا جائز ہے، البتہ مرد ڈاکٹر کے سامنے پردہ کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اور اگر خواتین کے علاج یا آپریشن کے لیے خاتون ڈاکٹر میسر ہو تو اس صورت میں مرد ڈاکٹر سے علاج معا لجہ یا آپریشن کروانے کے لیے ستر کھولنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں اگر علاج یا آپریشن کے لیے ستر کھولنا ناگزیر ہو تو خاتون ڈاکٹر سے علاج یا آپریشن کروانا ضروری ہوگا، اورخاتون ڈاکٹر کے سامنے بقدرِ ضرورت ستر کھولنے کی اجازت ہوگی۔

البتہ اگر کسی جگہ خواتین ڈاکٹر موجود نہ ہوں یا موجود تو ہوں، لیکن وہ  ماہر نہ ہوں  اور مرد ڈاکٹر سے علاج معالجہ یا سرجری کروانا ناگزیرہو تو ضرورت کے بقدر مرد ڈاکٹر کے سامنے بھی  جسم کا وہ حصہ کھولنے کی  گنجائش ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب کہ آپ کے علاج کے لیے کوئی ماہر خاتون ڈاکٹر دست یاب نہیں ہے تو آپ اپنے بازو اور دانتوں کا کسی ماہر مرد ڈاکٹر سے علاج کرواسکتی ہیں ، شرعاً اس کی گنجائش ہے۔

الفتاوى الهندية (5/ 330):
"ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ... امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لايحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان"
.

مسجد میں بھیک مانگنا

 وا ضح رہے کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو  اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو  کم جمع کرے یا زیادہ۔

اس کے علاوہ مسجد میں بھیک مانگنے کی صورت میں مسجد کے بہت سے آداب کی خلاف ورزی بھی لازم آتی ہے، مثلاً: مسجد میں شور و شغب ہونا، نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہونا، نمازیوں کی گردنیں پھلانگنا وغیرہ۔اس لیے  مسجد میں بھیک مانگنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی چاہیے  کہ  جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں، ایسے افراد کو بھیک نہ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ تاہم اگر کسی نے چندہ دے دیا تو یہ گناہ اور ناجائز نہیں ہے۔ 

اور اگر کوئی شخص انتہائی مجبور ہو تو اس  کے لیے کچھ شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں سوال کرلینے کی گنجائش ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔ (2) کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً گردن پھلانگنا وغیرہ (3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے (4) چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر  کسی کو عار نہ دلائی جائے۔ تاہم بہتر  یہی ہے کہ بوقتِ ضرورت بھی چندہ مسجد سے باہر  کیا جائے، اور ضرورت پر مسجد میں صرف اعلان کرلیا جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164):
"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.

(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم".

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

 ایصالِ ثواب  یا برکت کے حصول کے لیے قرآن خوانی جائز ہے، بشرطیکہ  اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھا جائے:

اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میّت کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔

دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ: ’’بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!‘‘

سوم:… یہ کہ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میّت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لیے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لیے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے  لیے جمع کرنا مکروہ ہے۔ (فتاویٰ بزازیہ)(آپ کے مسائل اور ان کاحل4/429،مکتبہ لدھیانوی)

چہارم:...  قرآن خوانی کے لیے کوئی دن خاص کرکے (مثلاً سوئم، چہلم وغیرہ) اس کا التزام نہ کیا جائے، اگر خاص دن کا التزام کیا جائے تو بھی درست نہیں ہوگا۔

لہٰذا اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی جائے، اور  اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ اگر اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں یا  وہاں موجود لوگ مل کر قرآن خوانی کرلیں، یا اگر کوئی پڑھنے والا دست یاب نہ ہو تو جو پڑھنا جانتے ہیں ان سے پڑھوا لیا جائے  اور اس پر اجرت کا لین دین نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے عوض میں دعوت کا التزام کیا جائے  تو  یہ جائز ہے۔ لیکن  جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو وہاں اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 56):
" فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ".

مسبوق کے سامنے سے گزر نا

 اگر  امام کے  سامنے  سترہ رکھا ہوا ہو تو امام کا سترہ تمام مقتدیوں (چاہے مدرک ہوں یا مسبوق) کے لیے بھی کافی ہوگا،لہذا اگر کوئی شخص نماز کے دوران مقتدیوں  کی صف کے آگے سے گزرنا چاہے تو گزر سکتا ہے، اس سے وہ گناہ گار نہیں ہو گا، لیکن امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق جب اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مقتدی کے حکم میں نہیں ہوتا، بلکہ منفرد کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق کے آگے سے سترے کے بغیر گزرنا جائز نہیں ہے،  چاہے امام کے آگے سترہ رکھا ہوا ہو یا نہیں۔

رد المحتار  (فتاوی شامی)  کی عبارت (حوالہ) کا خلاصہ بھی یہی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 638):

’’ (وكفت سترة الإمام) للكل.

(قوله: للكل) أي للمقتدين به كلهم؛ وعليه فلو مر مار في قبلة الصف في المسجد الصغير لم يكره إذا كان للإمام سترة وظاهر التعميم شمول المسبوق وبه صرح القهستاني، وظاهره الاكتفاء بها ولو بعد فراغ إمامه، وإلا فما فائدته؟ وقد يقال: فائدته التنبيه على أنه كالمدرك لايطلب منه نصب سترة قبل الدخول في الصلاة وإن كان يلزم أن يصير منفردا بلا سترة بعد سلام إمامه لأن العبرة لوقت الشروع وهو وقته كان مستترًا بسترة إمامه، تأمل.‘‘

Tuesday 30 November 2021

تعویذ کی شرعی حیثیت

 حضرت عبد اللہ  بن عمرو رضی اﷲ عنہما، "اللہ  تعالی کی قدرت وکبریائی پر مشتمل کلماتِ تعوذ اپنے سمجھ دار بچوں کو یاد کراتے تھےاور جو بچہ سمجھ دار نہ ہوتا تھا اُس کے گلے میں وہ کلمات لکھ کرتعویذ کی شکل میں ڈال دیتے تھے"۔

یہی تعویذ کی حقیقت  ہے۔اُن کے اِس عمل سے یہ معلوم ہوا کہ  ﷲ تعالیٰ کی عظمت پر مشتمل پر اثر کلمات  کاتعویذ میں استعمال جائز ہے۔ البتہ جو افراد مسنون دعائیں اور حفاظت کے اوراد وغیرہ خود پڑھ سکتے ہوں ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ تعویذ کے بجائے وہ خود پڑھنے کا اہتمام کریں۔

باقی حدیث میں جن تعویذ کے استعمال کرنے کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد وہ تعویذ ہیں جن میں شرکیہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہوں یا  اس کے مؤثر بالذات ہونے کا عقیدہ رکھاجاتا ہو یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم منتر اس میں ہوں۔

فقہاءِ کرام نے نصوص میں غور و فکر کرکے  تعویذات اور عملیات کے ذریعے علاج کرنے کو  چند شرائط کے ساتھ جائز  قرار دیا ہے :

(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ،  (۴)  عملیات کرنے ولا علاج سے واقف اور  ماہر ہو، فریب نہ کرتا ہو۔

 لہذا    ایسے تعویذ اور عملیات جو آیات  قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ یا کلمات صحیحہ پر مشتمل ہوں  ان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے؛ کیوں کہ اس کی حقیقت ایک جائز تدبیر سے زیادہ کچھ نہیں,  اور جن تعویذوں میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثر حقیقی  سمجھا جائے تو ان کا استعمال  شرعاً جائز نہیں ہے۔ 

مصنف ابن أبي شيبة (5/ 44):
"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا فزع أحدكم في نومه فليقل: «بسم الله، أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وسوء عقابه، ومن شر عباده، ومن شر الشياطين وأن يحضرون». فكان عبد الله يعلمها ولده من أدرك منهم، ومن لم يدرك كتبها وعلقها عليه".
الصحیح لمسلم:
" عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله! كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى مالم يكن فيه شرك»".(4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا بأس بالرقی مالم یکن فیه شرك، ط:دار إحیاء التراث العربي)
سنن الترمذی:
"عن أبي سعيد الخدري قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فنزلنا بقوم، فسألناهم القرى فلم يقرونا، فلدغ سيدهم، فأتونا فقالوا: هل فيكم من يرقي من العقرب؟ قلت: نعم أنا، ولكن لا أرقيه حتى تعطونا غنماً، قالوا: فإنا نعطيكم ثلاثين شاةً، فقبلنا فقرأت عليه: الحمد لله سبع مرات، فبرأ وقبضنا الغنم، قال: فعرض في أنفسنا منها شيء، فقلنا: لا تعجلوا حتى تأتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما قدمنا عليه ذكرت له الذي صنعت، قال: «وما علمت أنها رقية؟ اقبضوا الغنم واضربوا لي معكم بسهم» : هذا حديث حسن صحيح".( 2/26 باب ما جاء  في أخذ الأجر علی التعویذ، ط: قدیمی)
وفیه أیضاً:
"عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوذ الحسن والحسين يقول: «أعيذكما بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة، ومن كل عين لامة» ، ويقول: «هكذا كان إبراهيم يعوذ إسحاق وإسماعيل». حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا يزيد بن هارون، وعبد الرزاق، عن سفيان، عن منصور، نحوه بمعناه،: هذا حديث حسن صحيح". (2/26 باب ما جاء  في الرقیة من العین، ط: قدیمی)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:
"وأما ما كان من الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذاً أو رقيةً أو نشرةً، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع؛ لاحتمال الشرك فيها".(7 / 2880، رقم الحدیث:4553، الفصل الثاني، کتاب الطب والرقی، ط: دارالفکر بیروت)
وفیه أیضاً:
"(أو تعلقت تميمة) : أي: أخذتها علاقة، والمراد من التميمة ما كان من تمائم الجاهلية ورقاها، فإن القسم الذي اختص بأسماء الله تعالى وكلماته غير داخل في جملته، بل هو مستحب مرجو البركة، عرف ذلك من أصل السنة، وقيل: يمنع إذا كان هناك نوع قدح في التوكل، ويؤيده صنيع ابن مسعود -رضي الله عنه - على ما تقدم، والله أعلم".(7 / 2881، رقم الحدیث:4553، الفصل الثاني، کتاب الطب والرقی، ط: دارالفکر بیروت)
فتاوی شامی:
"[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.
(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، وليس كذلك! إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من  الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة، وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمة فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى.وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه». قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار". (6 / 363، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید

انسانی اعضاء کا عطیہ کرنا

 کسی انسانی عضو کا  (خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا)   دوسرے انسان کے جسم میں استعمال (معاوضہ کے ساتھ ہو یابغیرمعاوضہ کے) مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر  جائز نہیں ہے:

(1) اس مقصد کے لیے انسانی  جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے جو کہ مثلہ ہے، اور مثلہ شریعت میں جائز  نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے: 

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جُيُوشَهُ قَالَ: «اخْرُجُوا بِسْمِ اللَّهِ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، لَاتَغْدِرُوا، وَلاتَغُلُّوا، وَلاتُمَثِّلُوا، وَلاتَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ، وَلا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ»."

(مسند احمد،3/218، ط؛دارالحدیث بیروت)

(2) کسی زندہ حیوان (جس میں انسان بھی شامل ہے) کے جسم سے اگر کوئی جز  الگ کردیا جائے وہ  مردار اور ناپاک کے حکم میں ہوجاتا ہے،جیساکہ حدیثِ مبارک میں ہے: 

"عَنْ أَبِي وَاقِدٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ»."

(ابو داؤد،2/48، ح؛2858، ط؛رحمانیہ)   

عضو کی پیوند کاری کی وجہ سے پوری عمر ایک ناپاک چیز سے جسمِ انسانی ملوث رہے گا۔

(3) کسی چیز کو ہبہ کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے یہ شرط ہے وہ شے  مال ہو، اور دینے  والے کی ملک ہو، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے۔ جیساکہ "فتاوی عا لمگیری" میں ہے:

"وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ، فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ حَتَّى لَوْ كَانَ عَبْدًا أَوْ مُكَاتَبًا أَوْ مُدَبَّرًا أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مَنْ فِي رَقَبَتِهِ شَيْءٌ مِنْ الرِّقِّ أَوْ كَانَ صَغِيرًا أَوْ مَجْنُونًا أَوْ لَا يَكُونُ مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ لَا يَصِحُّ، هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ. وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْمَوْهُوبِ فَأَنْوَاعٌ، مِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا وَقْتَ الْهِبَةِ فَلَا يَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَوْجُودٍ وَقْتَ الْعَقْدِ ... ومِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَالًا مُتَقَوِّمًا فَلَا تَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا كَالْحُرِّ وَالْمَيْتَةِ وَالدَّمِ وَصَيْدِ الْحَرَمِ وَالْخِنْزِيرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، وَلَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُطْلَقٍ كَأُمِّ الْوَلَدِ وَالْمُدَبَّرِ الْمُطْلَقِ وَالْمُكَاتَبِ، وَلَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُتَقَوِّمٍ كَالْخَمْرِ، كَذَا فِي الْبَدَائع."

 (4 / 374، کتاب الھبہ، ط؛رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وَشَرَائِطُهَا: كَوْنُ الْمُوصِي أَهْلًا لِلتَّمْلِيكِ) فَلَمْ تَجُزْ مِنْ صَغِيرٍ وَمَجْنُونٍ وَمُكَاتَبٍ إلَّا إذَا أَضَافَ لِعِتْقِهِ كَمَا سَيَجِيءُ (وَعَدَمُ اسْتِغْرَاقِهِ بِالدَّيْنِ) لِتَقَدُّمِهِ عَلَى الْوَصِيَّةِ كَمَا سَيَجِيءُ (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى لَهُ حَيًّا وَقْتَهَا) تَحْقِيقًا أَوْ تَقْدِيرًا لِيَشْمَلَ الْحَمْلَ الْمُوصَى لَهُ فَافْهَمْهُ فَإِنَّ بِهِ يَسْقُطُ إيرَادُ الشُّرُنْبُلَالِيُّ (وَ) كَوْنُهُ (غَيْرَ وَارِثٍ) وَقْتَ الْمَوْتِ (وَلَا قَاتِلٍ) وَهَلْ يُشْتَرَطُ كَوْنُهُ مَعْلُومًا. قُلْت: نَعَمْ كَمَا ذَكَرَهُ ابْنُ سُلْطَانٍ وَغَيْرُهُ فِي الْبَابِ الْآتِي (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى بِهِ قَابِلًا لِلتَّمَلُّكِ بَعْدَ مَوْتِ الْمُوصِي)."

 (6/649، کتاب الوصایا،سعید)

 انسان کو اپنے اعضاء میں حقِ منفعت تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اموال و منافع پر انسان کو حقِ مالکانہ حاصل نہ ہو  انسان  ان اموال یا منا فع کی مالیت کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔

(4) انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں  اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو  ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو،   جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وَأَمَّا حُكْمُهَا فَوُجُوبُ الْحِفْظِ عَلَى الْمُودَعِ وَصَيْرُورَةُ الْمَالِ أَمَانَةً فِي يَدِهِ وَوُجُوبُ أَدَائِهِ عِنْدَ طَلَبِ مَالِكِهِ، كَذَا فِي الشُّمُنِّيِّ".

 (4/338، کتاب الودیعہ، ط؛رشیدیہ)

(5) انسان قابلِ احترام اور مکرم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو  اس کے بدن سے  الگ کرکے  دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علاج ومعالجہ  اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، چناچہ شرح سیر الکبیر میں ہے:

"وَالْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ. فَكَمَا يَحْرُمُ التَّدَاوِي بِشَيْءٍ مِنْ الْآدَمِيِّ الْحَيِّ إكْرَامًا لَهُ فَكَذَلِكَ لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِعَظْمِ الْمَيِّتِ. قَالَ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ»".

( شرح السیر الکبیر(1 /89)

 نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر علاج کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح کسی مردہ انسان کے عضو سے بھی علاج کرنا جائز نہیں ہے۔ جیساکہ "فتاوی ہندیہ " میں ہے:

"الِانْتِفَاعُ بِأَجْزَاءِ الْآدَمِيِّ لَمْ يَجُزْ، قِيلَ: لِلنَّجَاسَةِ، وَقِيلَ: لِلْكَرَامَةِ، هُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ".

(5 / 354، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، ط: رشیدیہ)

      یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیش ِ نظر ہے، تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرم ومحترم بنایا ہے لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔

(6)  اگر انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا جائے تو یہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑا خطرہ اورتباہی  کا ذریعہ بنےگا، کیوں کہ موجودہ زمانہ کے حالات و ماحول اورمعاشرہ میں پھیلی ہوئی بددیانتی کو دیکھتے ہوئے کوئی بعیدنہیں کہ لوگ اعضاءکی منتقلی کے جواز کے فتووں کا بے جا استعمال کرتے ہوئے اسے باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے دیں اوران ہی اعضاءکو اپنا ذریعۂ معاش بنالیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:

1..بازار میں دیگر اشیاء کی طرح انسانی اعضاء کی بھی علانیہ ورنہ خفیہ خرید و فروخت شروع ہوجائےگی، جو بلاشبہ انسانی شرافت  کے خلاف  اورناجائز ہے۔

2..غربت زدہ لوگ  اپنا اور بچوں کاپیٹ پالنے  کے لیے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے  اپنے اعضاء فروخت کرناشروع کردیں گے۔

3.. مُردوں کی بے حرمتی اوراُن کے ساتھ  ظالمانہ رویّہ شروع ہوجائے گا،  بالخصوص لاوارث مُردےاپنے بہت سے اعضاء سے محروم ہوکر دنیا سے جایا کریں گے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ مال و دلت کے لالچی اور پُجاری مدفون لاشوں کو اکھاڑکر اپنی ہوس پوری کرنے لگیں،جیسا کہ مختلف ذرائع سے سننے میں آتا رہتا ہے۔

4.. خدا نخواستہ یہ معاملہ بڑھتا رہا تو صرف اپنی موت مرنے والوں تک ہی یہ سلسلہ محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس کام کے لیے  بہت سے معصوم انسانوں کے قتل کا بازار گرم ہوجانا اور اس مقصد  کے لیے اغوا کا شروع ہونا ممکن ہے جو پورے انسانی معاشرے کی تباہی کا اعلان ہے۔

            مذکورہ بالا  دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ تحریر فرماتے ہیں:

” انسان کے اعضاء و اجزاء انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہیں جن میں وہ مالکانہ تصرفات کرسکے، اسی لیے ایک انسان اپنی جان یا اپنے اعضاء و جوارح کو نہ بیچ سکتا ہےنہ کسی کو ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے،اور نہ ان چیزوں کو اپنے اختیار سے ہلاک و ضائع کرسکتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے اصول میں تو خود کشی کرنا اور اپنی جان یا اعضاء رضاکارانہ طور پر یا بقیمت کسی کو دے دینا قطعی طور حرام ہی ہے جس پر قرآن و سنت کی نصوصِ صریحہ موجود ہیں، تقریباً دنیا کے ہر مذہب و ملت اور عام حکومتوں کے قوانین میں اس کی گنجائش نہیں، اس لیے کسی زندہ انسان کا کوئی عضو کاٹ کر دوسرے انسان میں لگادینا اس کی رضامندی سے بھی جائز نہیں ۔۔۔ شریعتِ اسلام نے صرف زندہ انسان کے کارآمد اعضاء ہی کا نہیں بلکہ قطع شدہ بے کار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے، اور مردہ انسان کے کسی عضو کی قطع و برید کو بھی ناجائز کہا ہے، اور اس معاملہ میں کسی کی اجازت اور رضامندی سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی، اور اس میں مسلم و کافر سب کا حکم یکساں ہے؛ کیوں کہ یہ انسانیت کا حق ہےجو سب میں برابر ہے۔تکریمِ انسانی کو شریعتِ اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال کسی کو انسان کے اعضاء و اجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح یہ مخدومِ کائنات اور اس کے اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر ہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاؤں اور دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ائمہ اربعہ اور پوری امت کے فقہاء متفق ہیں، اور نہ صرف شریعتِ اسلام بلکہ شرائعِ سابقہ اور تقریباً ہر مذہب و ملت میں یہی قانون ہے"۔   

(انسانی اعضاء کی پیوندکاری، ص: ۳۶، مصدقہ مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ)

         مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ انسانی اعضاء کا استعمال کسی  حال میں جائز نہیں ہے، لہذا انسان کا اپنے اعضا کو ڈونیٹ کرنا جائز نہیں ہے

بیوی کے نان نفقہ کی تعریف اور اس کی مقدار

 نان نفقہ سے مراد وہ خرچہ ہے جو کہ شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو فراہم کرے، اس میں اس کا کھانا پینا، رہائش، اور کپڑوں کی ضروریات شامل ہیں۔ اور اس کی مقدار کی تعیین دونوں کے عرف پر ہے، شرعاً کوئی مقدار مقرر نہیں ، بلکہ متوسط اعتبار سے خرچ کرنا شوہر پر لازم ہے۔ یہ اس وجہ سے لازم ہے کہ بیوی اس  کے لیے اس کے گھر میں  ہے۔

شامی 2/897 باب النفقہ:

"أنها جزاءاً لاحتباس، وکل محبوس لمنفعة غیره یلزمه نفقته کمفتي وقاضٍ ووصي" . ( الدر المختار مع الشامي ۵ ؍ ۲۸۱-۲۸۲)

"تجب علی الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمیة والفقیرة والغنیة دخل بها أو لم یدخل، کبیرةً کانت المرأة أو صغیرةً، یجامع مثلها، کذا في فتاویٰ قاضي خان. سواء کانت حرةً أو مکاتبةً، کذا في الجوهرة النیرة". ( الفتاویٰ الهندیة، کتاب الطلاق / الباب التاسع عشر في النفقات ، الفصل الأول ۱ ؍ ۵۴۴) 

Monday 29 November 2021

عشرکی حیثیت و مقدار

 واضح رہے کہ زمین سے جو غلہ نکلتا ہے اس کا عشر ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، البتہ زمین کی اس پیداوار میں عشر  واجب ہوتا ہے جس سے آمدنی حاصل کرنا یا  پیداوار سے فائدہ اٹھانا مقصود ہو، اور اسی نیت سے اس کو لگایا جائے، اور جو اشیاء خود ہی بغیر قصد کے تبعاً حاصل ہوجائیں ان میں عشر لازم نہیں ہوتا۔

''بدائع الصنائع ''  میں ہے:

"ومنها: أن يكون الخارج من الأرض مما يقصد بزراعته نماء الأرض وتستغل الأرض به عادةً، فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب الفارسي؛ لأن هذه الأشياء لا تستنمى بها الأرض ولا تستغل بها عادة؛ لأن الأرض لا تنمو بها، بل تفسد، فلم تكن نماء الأرض، حتى قالوا في الأرض: إذا اتخذها مقصبةً وفي شجره الخلاف، التي تقطع في كل ثلاث سنين، أو أربع سنين أنه يجب فيها العشر؛ لأن ذلك غلة وافرة". (2 / 58، فصل الشرائط المحلیة ط: سعید)

عشر کے باب میں کوئی حد مقرر نہیں ہے،  پیداوار کم ہو یا زیادہ، دونوں صورتوں میں پیداوار پر عشر لازم ہو گا۔ پھر اگر وہ زمین سال کے اکثر حصے میں قدرتی آبی وسائل (بارش، ندی، چشمہ وغیرہ) سے سیراب کی جائے تو اس میں عشر یعنی کل پیداوار کا دسواں حصہ واجب ہو گا، اور اگر وہ زمین مصنوعی آب رسانی کے آلات و وسائل مثلاً: ٹیوب ویل یا خریدے ہوئے پانی سے سیراب کی جائے تو اس میں نصف عشر یعنی کل پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہو گا۔

نیز واضح رہے کہ کھیتی کی تیاری میں جو اخراجات ہوتے ہیں، مثلاً: آب رسانی، مزدوری، کھاد وغیرہ انہیں آمدنی سے منہا نہیں کیا جائے گا، بلکہ مجموعی پیداوار میں سے عشر نکالنا ضروری ہو گا۔

عشر کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ  کا مصرف ہے، یعنی جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار ضروریاتِ اصلیہ سے زائد مال یا سامان نہیں ہے، ایسے شخص کو عشر دیا جا سکتا ہے۔

اگر حکومت کا کوئی ایسا ادارہ ہے جو عشر کو امانت کے ساتھ متذکرہ بالا مصرف تک پہنچا دے تو اس ادارے کو عشر دیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو حکومت کو عشر دینا بھی جائز نہیں

حدیث قرطاس

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا واقعہ ہے ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم آپ کے پاس جمع تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،لکھنے کے لئے لائیں میں تحریر کیے دیتا ہوںتا کہ آپ کو یاد رہے،حاضرین میں سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم شدیدبیمار ہیں ،تکلیف بڑھ گئی ہے ، ایسے عالم یہ زحمت کیوں اٹھائیں؟وحی الٰہی تو آپ پہنچا چکے ہیں اوردین مکمل ہو چکا ہے ،اس خیال کا اظہار دوسرے صحابہ سے کیا،کہا آپ تکلیف میں ہیں ، حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ ''ہمیں قرآن و سنت ہی کافی ہے۔''سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی بات پر حاضرین میں اختلا ف ہو جاتا ہے،بعض صحابہ آپ کی موافقت کرتے ہیں ،بعض مخالفت ،کاغذ قلم دے دیا جائے ،رہنے دیجئے،دے دیا جائے ،رہنے دیجئے تکرار کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔

سیدنا عمرکی رائے سے اختلاف کرنے والے کہنے لگے،اَہَجَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم،کیوں نہیں دیتے آپ کی گفتگو کسی مریض کی طرح بے معنی تو ہر گز نہیں،اتنے میں نبی کریم کی آواز آتی ہے کاغذ قلم رہنے دیجئے،آپ یہاں سے اٹھ جائیں،مجھے تنہا ئی چاہیے۔تفصیل ملاحظہ ہو۔
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لَمَّا حُضِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَفِی البَیْتِ رِجَالٌ فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، قَالَ: ہَلُمَّ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَلَبَہُ الْوَجَعُ وَعِنْدَکُمُ القُرْآنُ فَحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ، وَاخْتَلَفَ أَہْلُ البَیْتِ وَاخْتَصَمُوا، فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ: قَرِّبُوا یَکْتُبْ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ، وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَکْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلاَفَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُومُوا عَنِّی .
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت ہوا تو اس وقت گھرمیں کچھ صحابہ موجودتھے ، ایک سیّدنا عمر بن خطاب بھی تھے ، آپ نے فرمایا: قلم کاغذ لائیں ،میں تحریر کر دوں ، جس کے بعد آپ ہر گز نہ بھولوگے ۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں ہیں اور قرآن موجود ہے ، لہٰذا ہمیں قرآن و حدیث ہی کافی ہے ۔ گھر میں موجود صحابہ نے اس میں اختلاف کیا اور بحث مباحثہ ہونے لگا ، کچھ کہہ رہے تھے کہ (قلم کاغذ)دیں ، آپ تحریر فرما دیں ،جس کے بعد آپ ہر گز نہیں بھولیں گے ،کچھ کہہ رہے تھے،رہنے دیجئے آپ تکلیف میں ہیں۔اختلاف شدت اختیار کر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے پاس سے اُٹھ جائیں۔ ''
(صحیح البخاری :7366، صحیح مسلم :1637)
2 ایک روایت ہے :
ائْتُونِی بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاۃِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاۃِ - أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ أَبَدًا ، فَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَہْجُرُ .
'' ہڈی اوردوات یا تختی اوردوات لائیں ،میں تحریر کر دیتا ہوںتاکہ اس کے بعد آپ نہ بھولیں ،صحابہ نے کہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض موت میں تکلیف کی شدت سے تو ہر گز نہیں کہہ رہے۔''
(صحیح البخاری :4431، صحیح مسلم :1637)
3 سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جمعرات کا دن کتنا پریشان کن تھا،آپ روتے ہوئے فرما رہے تھے:
اشتد برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجعہ، فقال: ائتونی أکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدہ أبدا، فتنازعوا ولا ینبغی عند نبی تنازع، فقالوا: ما شأنہ، أہجر استفہموہ؟ فذہبوا یردون علیہ، فقال: دعونی، فالذی أنا فیہ خیر مما تدعونی إلیہ .
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرمرض موت کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تھی،آپ نے فرمایا:میرے پاس کچھ لاؤ میں تحریر کر دیتا ہوں ،جس کے بعد کبھی نہیں بھولو گے،صحابہ نے آپس میں اختلاف کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں باہمی اختلاف مناسب نہیں تھا،صحابہ کہنے لگے ؛آپ کو کیا معاملہ درپیش ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات شدت تکلیف کی بنا پر تو ہر گز نہیں ہے،اس بات کو کیوں نہیں سمجھتے،صحابہ آپ کو باربار لکھنے کا کہہ رہے تھے،تو فرمایا؛''مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں ،آپ جو مجھے لکھنے کا کہہ رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ نہ لکھنا ہی بہتر ہے۔''
(صحیح البخاري : 4431، صحیح مسلم : 1637)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض موت میں شدت تکلیف سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی طرح سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی بیان کر رہے ہیں،اسی بنا پر سیدنا عمر نے اجتہادا کہہ دیا تھاکہ ہمارے لئے قرآن و حدیث کافی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی رائے کو درست سمجھا تب ہی صحابہ کے اصرار کے با وجود نہیں لکھا۔
لفظ ہَجَرَ کی تحقیق :
ہَجَرَ کا مطلب ہے ''شدت بخار میں بے معنی گفتگو ۔''صحابہ کرام نے اس کی انکار و نفی کی ہے،اَہَجَرَ میںہمزہ استفہام انکاری کاہے،ہَجَرَ فعل ماضی ہے بعض روایات میں بغیر ہمزہ کے ہَجَرَ اور یَہْجُرُ کے الفاظ ہیں،یہاں بھی ہمزہ محذوف ہے ،کلام عرب میں اس طرح کے محذوفات عام ہیں۔
حدیث میںفَقَالُوْا مَالَہ، اَہَجَرَ جمع کا صیغہ صراحت کرتا ہے کہ یہ الفاظ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے نہیں بل کہ دوسرے صحابہ کے ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کر رہے تھے، ان کا منشا یہ تھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدت بخار کی حالت میں بے معنی گفتگو نہیں بل کہ شعور و احساس کے ساتھ کلام فرما رہے ہیں، لہٰذا اس حدیث میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی تنقیص کا کوئی پہلو نہیں بل کہ یہ حدیث ان کی عظمت کا استعارہ ہے،کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موافقت فرمائی اور لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا، صحیح بخاری(114)کے الفاظ ہیں:
قوموا عنی، ولا ینبغی عندی التنازع
''یہاں سے اٹھ جائیں ،میری موجودگی میں اختلاف مناسب نہیں۔''
صحیح بخاری (4431)صحیح مسلم (1637)میں ہے،نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دعونی، فالذی أنا فیہ خیر مما تدعونی إلیہ .
''مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں ،میں سمجھتا ہوںنہ لکھنا ہی بہتر ہے۔''
موافقات عمربن خطاب رضی اللہ عنہ :
قرآن و حدیث میں موافقات عمررضی اللہ عنہ کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں،بیسیوں مقامات ہیں ،جہاں سیدنا عمررضی اللہ عنہ رائے دیتے ہیں اور اسے شریعت کا درجہ مل جاتا ہے،سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ یاد ہو گا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف فرما تھے کہ اچانک اٹھ کر چلے گئے ،کافی دیر تک واپس نہ آئے تو صحابہ کو پریشانی لاحق ہوئی کہ کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچا ئے،چنانچہ وہ آپ کو ڈھونڈنے کے لئے نکلے،سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کوڈھونڈ لیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں تھے ،آپ نے اپنا جوتا انہیں دیااور ساتھ پیغام دیا کہ جو بھی کلمہ گو راستے میں ملے اسے جنت کی بشارت دیں ،سیدنا ابو ہریرہ نکلے سب سے پہلے جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ،انہیں جنت کی خوش خبری سنائی تو انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ کو زور سے ہاتھ مارا وہ زمین پر گر گئے اور رسول اللہ کی طرف بھاگے ،سیدنا عمربھی ان کے پیچھے ہو لئے، سیدنا ابو رہریرہ نے نبی کریم سے شکایت کی تو آپ نے سیدنا عمر سے پوچھا :
یَا عُمَرُ، مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ، بِأَبِی أَنْتَ، وَأُمِّی، أَبَعَثْتَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ بِنَعْلَیْکَ، مَنْ لَقِیَ یَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا قَلْبُہُ بَشَّرَہُ بِالْجَنَّۃِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّی أَخْشَی أَنْ یَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَیْہَا، فَخَلِّہِمْ یَعْمَلُونَ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَخَلِّہِمْ .
''عمر !ایسا کیوں کیا؟کہا آقا میرے ماں باپ آپ پہ قربان ،کیا آپ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام دے کر بھیجا تھا کہ جو کلمہ گو ملے اسے جنت کی خوش خبری دو۔؟فرمایا ،جی ہاں! تو سیدنا عمرکہنے لگے کہ آقا ایسا نہ کیجئے،مجھے ڈر ہے کہ لوگ اسی پر تکیہ کر لیں گے،ایسے ہی چلنے دیںتا کہ یہ لوگ عمل کرتے رہیں،تو نبی کریم نے فرمایا: ایسے ہی چلنے دیں۔''
(صحیح مسلم : ح ،31 )
دیکھئے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام رساں کو مارا بھی ہے،مگر جب اپنا موقف سامنے رکھا تو نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم ان سے موافقت کر لیتے ہیں، جب کہ حدیث قرطاس میں تو سیدنا عمرصحابہ کے سامنے اپنا خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ نبی شدید تکلیف میں ہیں لہذا آپ کو یہ زحمت نہیں دینی چاہئے، بعض صحابہ اختلاف کرتے ہیں بعض اتفاق، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمروغیرہ کی موافقت کر دی جیسا کہ حدیث سے عیاں ہے۔ ،اللہ تعالی نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو فہم ثاقب اور بصیرت تامہ سے نوازا تھا،آپ
نے یہ بات اپنے اجتہاد سے کہی تھی ساتھ دلیل بھی دی۔حافظ نووی a(631۔676ھ)لکھتے ہیں؛
وَأَمَّا کَلَامُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَدِ اتَّفَقَ الْعُلَمَاء ُ الْمُتَکَلِّمُونَ فِی شَرْحِ الْحَدِیثِ عَلَی أَنَّہُ مِنْ دَلَائِلِ فِقْہِ عُمَرَ وَفَضَائِلِہِ وَدَقِیقِ نَظَرِہِ .
''شارحین حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حدیث سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی بصیرت،فقاہت دین اور دقت نظری پر دلالت کناں ہے۔''(شرح صحیح مسلم : 90/11 )
کیا اختلاف صحابہ خلافت لکھنے میں مانع ہوا؟
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
إِنَّ الرَّزِیَّۃَ کُلَّ الرَّزِیَّۃِ مَا حَالَ بَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ أَنْ یَکْتُبَ لَہُمْ ذٰلِکَ الکِتَابَ مِنَ اخْتِلاَفِہِمْ وَلَغَطِہِمْ .
''بہت بڑی مصیبت تب واقع ہوئی جب صحابہ میں اختلاف اور شورہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔''(صحیح البخاری :7366، صحیح مسلم :1637)
یہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اجتہادی خطا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ صحابہ کے اختلاف کی وجہ سے نہیں بل کہ خود ہی ترک کر دیاتھا،اس سے چند دن پہلے بھی ایسا ہی واقعہ پیش آچکا تھا آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ابوبکر اورعبد الرحمن بن ابی بکر کو بلائیں میں خلافت کا لکھ دیتا ہوں ،پھرارادہ ترک کر دیا فرمایا :
وَیَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُوْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ .
''خلافت کے لئے ابوبکر کے علاوہ نام آئے گا تواللہ تعالیٰ اور مومن انکار کردیں گے۔''
(مسند الامام أحمد :144/6، صحیح مسلم :2387)
یہاں تو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،سیدہ عائشہ ہیں ،لکھنے سے روکنے والا کوئی نہیں مگر آپ ارادہ ترک کر رہے ہیں،کیوں؟جس بنا پر یہاں ارادہ ترک کیااسی بنا پر اس موقعہ پر بھی ترک کر دیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
إِنَّ النَّبِیَّ - صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - تَرَکَ کِتَابَۃَ الْکِتَابِ بِاخْتِیَارِہِ، فَلَمْ یَکُنْ فِی ذَلِکَ نِزَاعٌ، وَلَوِ اسْتَمَرَّ عَلَی إِرَادَۃِ الْکِتَابِ مَا قَدِرَ أَحَدٌ أَنْ یَمْنَعَہُ.
''اس میں تواختلاف ہی نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا،اگر آپ لکھنا چاہتے تو کس کی مجال تھی کہ آپ کو روکے۔''
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ : 317/6 )
نیز فرماتے ہیں:
ولا فی شَیْء ٍ مِنَ الْحَدِیثِ الْمَعْرُوفِ عِنْدَ أَہْلِ النَّقْلِ أَنَّہُ جَعَلَ عَلِیًّا خَلِیفَۃً. کَمَا فِی الْأَحَادِیثِ الصَّحِیحَۃِ مَا یَدُلُّ عَلَی خِلَافَۃِ أَبِی بَکْرٍ. ثُمَّ یَدَّعُونَ مَعَ ہَذَا أَنَّہُ کَانَ قَدْ نَصَّ عَلَی خِلَافَۃِ عَلِیٍّ نَصًّا جَلِیًّا قَاطِعًا لِلْعُذْرِ، فَإِنْ کَانَ قَدْ فَعَلَ ذَلِکَ فَقَدْ أَغْنَی عَنِ الْکِتَابِ، وَإِنْ کَانَ الَّذِینَ سَمِعُوا ذَلِکَ لَا یُطِیعُونَہُ فَہُمْ أَیْضًا لَا یُطِیعُونَ الْکِتَابَ. 
''کسی صحیح حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل پر نص موجود نہیں ،جب کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر صحیح ثابت نصوص موجود ہیں، شیعہ کا دعوی ہے کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم عل
یرضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل پر قطعی نص قائم کر چکے تھے،اگر ایسا ہی تھا تو لکھنے کی ضرورت کیا تھی؟روافض جو سن کر نہیں مان رہے ،لکھا ہوا مان لیتے؟
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ :318/6 )
عبد اللہ بن عباس مصیبت کسے کہتے ہیں ؟
ابن عباس رضی اللہ عنہ خلافت صدیق اکبررضی اللہ عنہ میں شک و انکارکو بڑی مصیبت قرار دے رہے ہیں ،کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تحریر فرما دیتے توگمراہ اور ظالم لوگوں کے لئے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
یَقْتَضِی أَنَّ ہَذَا الْحَائِلَ کَانَ رَزِیَّۃً، وَہُوَ رَزِیَّۃٌ فِی حَقِّ مَنْ شَکَّ فِی خِلَافَۃِ الصِّدِّیقِ، أَوِ اشْتَبَہَ عَلَیْہِ الْأَمْرُ؛ فَإِنَّہُ لَوْ کَانَ ہُنَاکَ کِتَابٌ لَزَالَ ہَذَا الشَّکُّ، فَأَمَّا مَنْ عَلِمَ أَنَّ خِلَافَتَہُ حَقٌّ فَلَا رَزِیَّۃَ فِی حَقِّہِ، وَلِلَّہِ الْحَمْد .
''سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے کلام سے ظاہر ہے کہ وہ خلافت صدیق رضی اللہ عنہ میں شک و انکار کو بڑی مصیبت اور ہلاکت قرار دے رہے ہیں،کیوں کہ اگرخلافت لکھی ہوئی ہوتی توشک دور ہو جاتا،جو سیدنا ابو بکرکی خلافت کو حق سمجھتا ہے ،اس کے لئے کوئی مصیبت نہیں۔''
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ : 25/6 )
سیدنا عبد اللہ بن عباس یہ بات اس وقت فرمایا کرتے تھے جب شیعہ جیسے گمراہ جنم لے چکے تھے،تو آپ خلافت صدیق کے انکار کو امت کی بربادی قرار دے رہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی رضی اللہ عنہ لکھنا چاہتے تھے؟
بعض کہتے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ خلافت وامامت کے اوّل حقدار تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت وامامت لکھ کر دینا چاہتے تھے ، لیکن سیّدنا عمروغیرہ نے لکھنے نہیں دی ،ہم کہتے ہیں کہ آپ اس حدیث کابغور مطالعہ کریں، اس میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت وامامت لکھنا چاہتے تھے حافظ ابنِ کثیرلکھتے ہیں :
وَہٰذَا الْحَدِیْثُ مِمَّا قَدْ توَّہم بِہٖ بَعْضُ الْأَغْبِیَاءِ مِنْ أَہْلِ الْبِدَعِ مِنَ الشِّیعَۃِ وَغَیْرِہِمْ کُلِّ مُدَّعٍ أَنَّہُ کَانَ یُرِیدُ أَنْ یَکْتُبَ فِی ذٰلِکَ الکتاب ما یرمون إِلَیْہِ مِنْ مَقَالَاتِہِمْ، وَہٰذَا ہُوَ التَّمَسُّکُ بِالْمُتَشَابِہٖ.وَتَرْکُ الْمُحْکَمِ وَأَہْلُ السُّنَّۃِ یَأْخُذُونَ بِالْمُحْکَمِ.وَیَرُدُّونَ مَا تَشَابَہَ إِلَیْہِ، وَہٰذِہِ طَرِیقَۃُ الرَّاسِخِینَ فِی الْعِلْمِ کَمَا وَصَفَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی کِتَابِہٖ، وَہٰذَا الْمَوْضِعُ مِمَّا زَلَّ فِیہِ أَقْدَامُ کَثِیرٍ مِنْ أَہْلِ الضَّلَالَاتِ، وَأَمَّا أَہْلُ السُّنَّۃِ فَلَیْسَ لَہُمْ مَذْہَبٌ إِلَّا اتِّبَاعُ الْحَقِّ یَدُورُونَ مَعَہُ کَیْفَمَا دَارَ، وَہٰذَا الَّذِی کَانَ یُرِیدُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَنْ یَّکْتُبَہُ قَدْ جَاء َ فِی اَلاْئَحَادِیثِ الصَّحِیْحَۃِ التَّصْرِیحُ بِکَشْفِ الْمُرَادِ مِنْہُ۔۔۔۔۔۔
''اس حدیث سے اہلِ بدعت ، روافض وغیرہ کے بعض کندذہن لوگوں نے وہم کھایا ہے ۔ ان میں سے ہرشخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آپ ہمارا مدعا لکھنا چاہتے تھے ، یہ لوگ متشابہ کو لیتے ہیں اور محکم کو چھوڑ تے ہیں،جبکہ اہل سنت محکم کو لیتے اور متشابہ کو چھوڑتے ہیں، راسخ علماکا یہی طریقہ ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، یہاںاکثر لوگ گمراہ ہو گئے ہیں ۔ اہل سنت کا تو مذہب ہی حق کی پیروی ہے ، حق ہی ان کا دائرہ کا ر ہے،نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم جو لکھنے کا ارادہ فرما رہے تھے ، صحیح احادیث میں اس کی وضاحت آگئی ہے ۔'' (البدایۃوالنہایۃ :227/5۔228)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا کیا چاہتے تھے؟
سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قلم کاغذ کیوں منگوایا،کیا لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے ؟یقینا خلافت ابوبکرلکھنے کا ارادہ تھا، صحیح احادیث حقیقت آشکارا کرتی ہیں :
حدیث نمبر1:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
لَمَّا کَانَ وَجَعُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ، قَالَ: ادْعُوا لِی أَبَا بَکْرٍ وَابْنَہُ، فَلْیَکْتُبْ لِکَیْلَا یَطْمَعَ فِی أَمْرِ أَبِی بَکْرٍ طَامِعٌ، وَلَا یَتَمَنَّی مُتَمَنٍّ ، ثُمَّ قَالَ: یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ مَرَّتَیْنِ۔۔۔۔۔۔،قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَأَبَی اللّٰہُ وَالْمُسْلِمُونَ .
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا: ابوبکر اور ان کے فرزندعبدالرحمن کو بلائیں، وہ لکھ لیں تاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پرکوئی حریص نہ رہے، پھر دو مرتبہ فرمایا ،اللہ تعالیٰ اور مسلمان کسی دوسرے کی خلافت تسلیم نہیں کریںگے۔۔۔۔۔۔ سیّدہ عائشہ فرماتی ہیں:چنانچہ اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں نے میرے باپ کے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کیا ۔''
(مسند الامام أحمد :106/6،وسندہ، حسنٌ )
حدیث نمبر2
سیّدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مرض الموت میں فرمایاتھا :
أُدْعِی لِی أَبَا بَکْرٍ، أَبَاکِ، وَأَخَاکِ، حَتَّی أَکْتُبَ کِتَابًا، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَتَمَنَّی مُتَمَنٍّ وَیَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلَی، وَیَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُوْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ .
'' اپنے والدابوبکر اور بھائی عبدالرحمن کو بلائیں تاکہ میں تحریر کردوں ،میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ کوئی خلافت کا متمنی کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور مومن ابوبکر کے علاوہ انکار کردیں گے۔''(مسند الامام أحمد :144/6، صحیح مسلم :2387)
حدیث نمبر3:
سیّدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا:
لَقَدْ ہَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ وَابْنِہٖ فَأَعْہَدَ، أَنْ یَقُولَ: القَائِلُونَ أَوْ یَتَمَنَّی المُتَمَنُّونَ ـ
''میں نے ارادہ کیا ہے کہ ابوبکر اور آپ کے فرزندعبد الرحمن کی طرف پیغام بھیجوں ، اور (خلافت کی)وصیت کردوں ، تاکہ کوئی خلافت کا دعوی کر ے نہ تمنا ۔''(صحیح البخاری:7217)
یہ احادیث واضح پتادے رہی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا ، پھر ترک کردیا ، اس لیے کہ جب خلافت کے لیے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ نام آئے گا تو اللہ تعالیٰ اور مومن انکار کردیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
دین کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ خلافت وامامت اللہ کی طرف سے منصوص ہو ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے اوّل حقدار ہوں، پوری کی پوری امت اس کے خلاف متفق ہوجائے ،عقل کیا کہتی ہے ؟ اس پر سہاگہ یہ کہ سیّدناعلی نے اپنی پوری زندگی اس بات کا کبھی اظہار نہیں کیا کہ میں خلیفہ بلافصل ہوں ، لیکن مجھے میرے حق سے محروم کردیا گیا ہے ۔ کوئی دلیل ہے جو پیش کی جاسکے ؟ مان لیا جائے کہ سیّدنا علی نے اپنے حق کے لیے اعلانِ جنگ نہیں کیا ، امت کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے ، لیکن اپنے دور ِ خلافت میں اس بات کے اظہار میں کیا رکاوٹ تھی ؟راوی قصہ سیّدنا عبداللہ بن عباس جنہوں نے پریشانی کا اظہار بھی کیا ہے ، ان سے بھی یہ کہنا ثابت نہیں کہ سیّدنا علیرضی اللہ عنہ سے زیادتی ہوئی ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خلافت لکھنا چاہتے تھے ، لیکن لکھ نہ سکے وغیرہ۔نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھ نہیں سکے تھے توفرماہی دیتے کہ میرے بعد علی خلیفہ بلافصل ہیں کچھ مانع تھا ؟بلکہ سیّدنا عبداللہ بن عباس،سیّدنا عمرکی فضیلت کے معترف تھے اور آپ کی خلافت کو برحق تسلیم کرتے تھے ۔فرماتے ہیں:
دَخَلْتُ عَلَی عُمَرَ حِینَ طُعِنَ فَقُلْتُ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ یَا أَمِیرَ الْمُوْمِنِینَ، أَسْلَمْتَ حِینَ کَفَرَ النَّاسُ، وَجَاہَدْتَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ خَذَلَہُ النَّاسُ، وَقُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْکَ رَاضٍ، وَلَمْ یَخْتَلِفْ فِی خِلَافِتِکَ اثْنَانِ، وَقُتِلْتَ شَہِیدًا ۔۔۔
'' سیّدناعمررضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو میں نے ان کے پاس آکرکہا:امیرالمومنین! جنت مبارک ہو!جب لوگوں نے اسلام کاانکار کیا تو آپ نے قبول کیا ، آپ نے اس وقت نبی کریم کا ساتھ دیا جب لوگوں نے آپ کوبے یار و مدد گا رچھوڑ دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ سے راضی تھے ۔ آپ کی خلافت میںدوانسانوںنے بھی اختلاف نہیں کیا اور اب آپ منصب شہادت پر فائز ہونے والے ہیں۔''
(المستدرک للحاکم :92/3، وصححہ ابن حبان :6891، وسندہ، صحیحٌ)
نیز دیکھیں:(صحیح البخاری:3692)
کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ وصی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟
اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ سیّدناعلی خودکو خلافت کا زیادہ حقدارسمجھتے ہوں یا آپ نے فرمایا ہو کہ میں وصی رسول ہوں ، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
1 سیّدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں:
اِنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، خَرَجَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی وَجَعِہِ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ، فَقَالَ النَّاسُ: یَا أَبَا حَسَنٍ، " کَیْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللّٰہِ بَارِئًا "، فَأَخَذَ بِیَدِہٖ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ فَقَالَ لَہُ: أَنْتَ وَاللّٰہِ بَعْدَ ثَلاَثٍ عَبْدُ العَصَا، وَإِنِّی وَاللّٰہِ لَأَرَی رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَوْفَ یُتَوَفَّی مِنْ وَجَعِہِ ہٰذَا، إِنِّی لَأَعْرِفُ وُجُوہَ بَنِی عَبْدِ المُطَّلِبِ عِنْدَ المَوْتِ، اذْہَبْ بِنَا إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلْنَسْأَلْہُ فِیمَنْ ہٰذَا الأَمْرُ، إِنْ کَانَ فِینَا عَلِمْنَا ذٰلِکَ، وَإِنْ کَانَ فِی غَیْرِنَا عَلِمْنَاہُ، فَأَوْصَی بِنَا، فَقَالَ عَلِیٌّ: إِنَّا وَاللّٰہِ لَئِنْ سَأَلْنَاہَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَنَاہَا لاَ یُعْطِینَاہَا النَّاسُ بَعْدَہُ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ لاَ أَسْأَلُہَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
'' سیّدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس آئے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض موت کا واقعہ ہے ،صحابہ کرام نے پوچھا:ابو الحسن!رسول اللہ کی طبیعت کیسی ہے؟ کہا:الحمد اللہ!کافی بہتر ہے، پھر سیّدنا عباس بن عبدالمطلب نے سیّدنا علی کا ہاتھ تھام کر فرمایا:اللہ کی قسم!تین دن بعد آپ محکوم ہو جائیں گے،اللہ کی قسم!مجھے آثار نظر آرہے ہیں کہ نبی کریم اس مرض سے جانبرنہیں ہو سکیں گے،مجھے خوب شناخت ہے کہ وفات کے وقت بنی عبد المطلب کے چہرے کیسے ہو تے ہیں،ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور پوچھنا چاہئے کہ خلافت کسے ملے گی؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے ، اگر کوئی دوسرا ہے تو بھی پتا چل جائے اور اس کے بارے میں ہمیں وصیت فرما دیں، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کی قسم!اب اگر پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تولوگ ہمیں کبھی خلافت نہیں دیں گے، میں تونہیں پوچھوں گا۔ ''
(صحیح البخاری :4447)
2 سیّدناابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا:
ہَلْ عِنْدَکُمْ کِتَابٌ؟ قَالَ: " لاَ، إِلَّا کِتَابُ اللّٰہِ، أَوْ فَہْمٌ أُعْطِیَہُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ، أَوْ مَا فِی ہٰذِہِ الصَّحِیفَۃِ. قَالَ: قُلْتُ: فَمَا فِی ہٰذِہِ الصَّحِیفَۃِ؟ قَالَ: العَقْلُ، وَفَکَاکُ الأَسِیرِ، وَلاَ یُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ .
''کیا آپ کے پاس کو ئی خاص تحریر ہے ؟ فرمایا ، نہیں ، صرف کتاب اللہ کا فہم اور یہ صحیفہ ہے ۔ میں نے پوچھا: اس صحیفہ میں کیا ہے ؟ فرمایا:دیت ، قیدیوں کی آزادی اور یہ کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے(کے مسائل ہیں)۔''
(صحیح البخاری :111)
ثابت ہوا کہ سیّدنا علی وصی رسول نہیں تھے ، نہ ہی خودکو خلیفہ بلافصل سمجھتے تھے ، بلکہ آپ نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت وامامت کی بیعت کررکھی تھی ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہa(م:٧٢٨ھ)لکھتے ہیں: 
وَمَنْ تَوَہَّمَ أَنَّ ہٰذَا الْکِتَابَ کَانَ بِخِلَافَۃِ عَلِیٍّ فَہُوَ ضَالٌّ بِاتِّفَاقِ (عَامَّۃِ النَّاسِ)عُلَمَاء ِ السُّنَّۃِ وَالشِّیعَۃِ، أَمَّا أَہْلُ السُّنَّۃِ فَمُتَّفِقُونَ عَلَی تَفْضِیلِ أَبِی بَکْرٍ وَتَقْدِیمِہِ. وَأَمَّا الشِّیعَۃُ الْقَائِلُونَ بِأَنَّ عَلِیًّا کَانَ ہُوَ الْمُسْتَحِقَّ لِلْإِمَامَۃِ، فَیَقُولُونَ: إِنَّہُ قَدْ نَصَّ عَلَی إِمَامَتِہٖ قَبْلَ ذٰلِکَ نَصًّا جَلِیًّا ظَاہِرًا مَعْرُوفًا، وَحِینَئِذٍ فَلَمْ یَکُنْ یَحْتَاجُ إِلَی کِتَابٍ. 
''جویہ سمجھتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی رضی اللہ عنہ لکھنا چاہتے تھے، سنی وشیعہ علما کے ہاں بالاتفاق گمراہ ہے ۔اہل سنت سیّدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی تفضیل وتقدیم پر متفق ہیں، جبکہ شیعہ کا نظریہ ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ہی امامت کے مستحق تھے ، وہ کہتے ہیں کہ ان کی امامت پر نص جلی ہے ،چنانچہ کسی تحریر کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ''
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ :135/3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا تھا نہ کہ سیّدنا عمررضی اللہ عنہ وغیرہ کی وجہ سے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے روکنے سے تبلیغِ دین سے نہ رکے ، توصحابہ کے روکنے سے کیسے رُک سکتے تھے؟ بھلا صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغِ دین سے کیوں روکتے؟ وہ توآپ کے معاون ومددگار تھے ۔ 
ع دل صاحب ادراک سے انصاف طلب ہے۔
حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ ؟
قول عمرحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ میں کتاب اللہ سے مراد حکم اللہ ہے،وہ احکام الہٰی جو قرآن و حدیث کی صورت میں لکھے جا چکے ہیں، قرآن کے ذکر سے حدیث پر التزامی دلالت ہو ہی جاتی ہے، سیدنا عمرکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر ترس آیا تب یہ بات کہہ دی چوں کہ آپ کا مرض موت شدت اختیا ر کر چکا تھا، آپ کے مد نظر یہ بات تھی کہ دین کی تکمیل ہو گئی ہے(الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ )''آج ہم نے تمہارا دین مکمل کر دیا۔''نازل ہو چکی ہے،قرآن کریم میں (مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْء ٍ )''ہم نے کتا ب میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔'' اور (تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْء ٍ )''قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے۔''جیسے فرامین الہٰیہ موجود ہیں،قرآن کا بیان حدیث کی صورت میں موجود ہے،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھنے کی تکلیف دینا مناسب نہیں،بس اتنی سی بات تھی،جسے یار لوگوں نے افسانہ بنا دیا ،ویسے جو قرآن و حدیث کو محرف و مبدل سمجھتے ہیں انہیں فرمان عمرحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ کیسے ہضم ہو سکتا ہے؟
حافظ ذہبی رحمہ اللہ(٦٧٣۔٧٤٨ھ)لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا أَرَادَ عُمَرُ التَّخْفِیفَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حِینَ رَآہُ شَدِیدَ الْوَجَعِ، لِعِلْمِہِ أَنَّ اللَّہَ قَدْ أَکْمَلَ دِینَنَا، وَلَوْ کَانَ ذَلِکَ الْکِتَابُ وَاجِبًا لَکَتَبَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہُمْ، وَلَمَا أَخَلَّ بِہِ .
''سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف میں دیکھا اسی لیے تخفیف کا ارادہ فرمایا کہ آپ جانتے تھے دین مکمل ہو چکاہے،خلافت تحریر کرنا واجب ہوتی تو نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم اسے ضرور لکھ دیتے،کبھی ترک نہ کرتے۔''
(تاریخ الاسلام:813/1،ت:بشار سیر اعلام النبلائ338/2)
تنبیہ :
اگر کوئی بد باطن یہ کہے کہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی لکھنا چاہتے تھے،جوصحابہ کی وجہ سے نہ لکھ سکے ،تو اس کی بات صریح باطل ہے،اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وصیتیں فرمائی تھیں،خلافت علی بلا فصل کے بارے میں لکھ نہیں سکے تھے تو بیان کر دیتے ،پھریہ واقعہ جمعرات کا ہے،جب کہ نبی کریم کی وفات سوموار کو ہوئی،یعنی اس واقعہ کے تین دن بعد تک زندہ رہے خلافت علی کیوں نہ لکھ دی یا کم از کم وصیت ہی فرما دیتے۔
الحاصل :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے چوتھے برحق خلیفہ ہیں،اس پر امت محمدیہ کا اجماع ہے۔خلفائے راشدین کی ترتیب اس دور میں زبان زد عام تھی،کسی کو انکار تھا نہ اشتباہ ،بل کہ خوئے تسلم و رضا تھی،جب گمراہ اور اہل ہوا جنم لیتے ہیں تو اپنے ساتھ خلافت صدیق و فاروق پر سوالات اٹھانے کی بدعت لاتے ہیں،اس گمراہ کن نظریے پر دلائل تراشے جاتے ہیں ،قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کا فتنہ سر اٹھاتا ہے،آل یہود کا اخاذ ذہن اس حقیقت سے واقف تھا کہ اسلام اور مسلمان کے درمیان سے اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ گرا دیا جائے تو اسلام کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ گرے گی،اسی لئے اس ذہن کو عام کیا گیا کہ نعوذ با للہ صحابہ کرام yنبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد گمراہ ہو گئے تھے ،صحابہ کے خلاف بد چلن لو گوں کی بد زبانی اسی ذہنیت کا شاخسانہ ہے،اس کے لئے کیا کیا بہانے تراشے جاتے ہیں ،آپ حدیث قرطاس سے اندازہ لگا لیجئے ،جو سیدنا عمرکی عظمت و جلالت پردال ہے ،مگر اسے افسانہ بنا دیا گیا ،اس کی بنیاد پر سیدنا عمرکے خلاف زبان درازی کی مشق جاری رہتی ہے اور کوشش رہتی ہے کہ اسلام سے اہل اسلام کو دورکر دیا جائے ،نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ،خدا غارت کرے کس درجہ ظالم ہیں یہ لوگ۔مگر ان کی تما م کوششیں بے سود ہیں،اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار اہل سنت ابھی زندہ ہیں۔حافظ احمد بن عمر بن ابراہیم قرطبی کا قولِ فیصل ملاحظہ ہو:
وَقَدْ أَکْثَرَ الشِّیْعَۃُ وَالرَّوَافِضُ مِنَ الاْئَحَادِیْثِ الْبَاطِلَۃِ وَالْکَاذِبَۃِ ، وَاخْتَرَعُوْا نُصُوْصًا عَلٰی اِسْتِخْلَافِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا ، وَادَّعُوْا أَنَّھَا تَوَاتَرَتْ عِنْدَھُمْ ، وَھٰذَا کُلُّہ، کِذْبٌ مُرَکَّبٌ ، وَلَوْ کَانَ شَیْءٌ مِنْ ذٰلِکَ صَحِیْحًا أَوْ مَعْرُوْفًا عِنْدَ الصَّحَابَۃِ یَوْمَ السَّقِیْفَۃِ لَذَکَرُوْہ، ، وَلَرَجَعُوْا إِلَیْہِ ، وَلَذَکَرَہ، عَلِیٌّ مُحْتَجًّا لِنَفْسِہٖ ، وَلَمَّا حَلَّ أَنْ یَّسْکُتَ عَنْ مِّثْلِ ذٰلِکَ بِوَجْہٍ ، فَإِنَّہ، حَقُّ اللّٰہِ ، وَحَقُّ نَبِیِّہِ وَحَقُّہ، ، وَحَقُّ الْمُسْلِمِیْنَ ، ثُمَّ مَا یُعْلَمُ مِنْ عَظِیْمِ عِلْمِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ، وَصَلاَبَتِہِ فِی الدِّیْنِ ، وَشُجَاعَتِہِ یَقْتَضِیْ ، اِلاَّ یَتَّقِیْ أَحَدًا فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ ،کَمَا لَمْ یَتَّقِ مُعَاوِیَۃَ ، وَأَھْلَ الشَّامِ حِیْنَ خَالَفُوْہ، ، ثُمَّ إِنَّہُ لَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ وَلَّی الْمُسْلِمُوْنَ بِاِجْتِھَادِھِمْ عَلِیًّا ، وَلَمْ یُذْکَرْ ھُوَ وَلَا أَحَدٌ مِّنْھُمْ نَصًّا فِیْ ذٰلِکَ ، فَعُلِمَ قَطْعًا کِذْبُ مَنِ ادَّعَاہ، ، وَما التَّوْفِیْقُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ .
''شیعہ اور رافضیوں نے بہت سی باطل اور جھوٹی احادیث بیان کی ہیں اور اس قسم کی نصوص گھڑ لی ہیں ،جن میں بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا تھااوران کے متعلق دعوی کیا کہ یہ درجہ تواتر کو پہنچی ہیں۔یہ سب جھوٹ کا مرکب ہے ۔ اگر اس بارے میں کوئی بات بھی صحیح ہوتی یا سقیفہ والے دن صحابہ کرام کے ہاں معروف ہوتی تووہ اس کو ذکر کرتے اوروہ علی کی طرف رجوع کرتے اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ اسے اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ، نیز ان کے لیے اس طرح کی بات سے خاموش ہوجانا کسی طرح جائز نہ ہوتا ،کیونکہ یہ اللہ ، اس کے رسول اور خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور تمام مسلمانوں کا حق تھا ۔پھر سیدنا علی کی عظمت ِ علم اور دین میں پختگی بھی معلوم ہے اور آپ کی شجاعت بھی اس بات کی متقاضی تھی کہ آپ اللہ کے دین کے بارے میں کسی سے نہ ڈرتے ، جیسا کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ڈرے تھے ، نیز اہلِ شام سے بھی نہیں ڈرتے تھے ، جب انہوں نے آپ کی مخالفت کی تھی ۔ پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیاگیا تو مسلمانوں نے اپنے اجتہاد سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنالیا تھا ، آپ نے خود اور نہ ہی کسی صحابی نے اس بارے میں کوئی نص ذکر کی ۔ چنانچہ قطعی طور پر معلوم ہوگیا ہے کہ اس دعویٰ کا مدعی جھوٹا ہے ۔وما التّوفیق إلّا من عند اللّٰہ۔''
(المفہم لما اشکل من تلخیص صحیح مسلم :557/4)
سیدنا علی کی طرف منسوب کتاب نہج البلاغۃ(ص:٣٦٦،٣٦٧)میں لکھا ہے:
إِنَّہ، بَایَعَنِیَ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ عَلٰی مَابَایَعُوْہُمْ عَلَیْہِ ، فَلَمْ یَکُنْ لِلشَّاہِدِ أَنْ یَّخْتَارَ وَلاَ لِلْغَائِبِ أَنْ یَّرُدَّ ، وَإِنَّمَاالشُّوْرٰی لِلْمُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ ، فَإِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی رَجُلٍ وَسَمُّوْہ، إِمَامًا کَانَ ذٰلِکَ لِلّٰہِ رِضًی ، فَإِنْ خَرَجَ مِنْ أَمْرِہِمْ خَارِجٌ بِطِعْنٍ أَوْ بِدْعَۃٍ رُدُّوْہ، إِلٰی مَا خَرَجَ مِنْہ، ، فَإِنْ أَبٰی قَاتِلُوْہ، عَلٰی اِتِّبَاعِہٖ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَوَلاَّہُ اللّٰہُ مَا تَوَلّٰی .
''میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے، جنہوں نے سیدنا ابوبکر،سیدنا عمر اور سیدنا عثمان کی بیعت کی تھی،جس کے متعلق حاضر شخص من مانی نہیں کر سکتا اور غائب رد نہیں کر سکتا،مجلس شوریٰ صرف مہاجرین و انصار پر مشتمل ہے،اگر وہ کسی کی امامت پراتفاق کر لیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی شامل ہے،اگر کوئی شخص کسی طعن اور بدعت کی بنیاد پر خروج کرنا چاہے تو اسے واپس پلٹایا جائے گا،اگر نہ مانے تو قتل کیا جائے گا،کیونکہ وہ مسلمانوں کے راستے سے انحراف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو اسی طرف پھیر دے گا جس کی طرف وہ پھرنا چاہتا ہے۔'