اگر امام کے سامنے سترہ رکھا ہوا ہو تو امام کا سترہ تمام مقتدیوں (چاہے مدرک ہوں یا مسبوق) کے لیے بھی کافی ہوگا،لہذا اگر کوئی شخص نماز کے دوران مقتدیوں کی صف کے آگے سے گزرنا چاہے تو گزر سکتا ہے، اس سے وہ گناہ گار نہیں ہو گا، لیکن امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق جب اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مقتدی کے حکم میں نہیں ہوتا، بلکہ منفرد کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق کے آگے سے سترے کے بغیر گزرنا جائز نہیں ہے، چاہے امام کے آگے سترہ رکھا ہوا ہو یا نہیں۔
رد المحتار (فتاوی شامی) کی عبارت (حوالہ) کا خلاصہ بھی یہی ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 638):
’’ (وكفت سترة الإمام) للكل.
(قوله: للكل) أي للمقتدين به كلهم؛ وعليه فلو مر مار في قبلة الصف في المسجد الصغير لم يكره إذا كان للإمام سترة وظاهر التعميم شمول المسبوق وبه صرح القهستاني، وظاهره الاكتفاء بها ولو بعد فراغ إمامه، وإلا فما فائدته؟ وقد يقال: فائدته التنبيه على أنه كالمدرك لايطلب منه نصب سترة قبل الدخول في الصلاة وإن كان يلزم أن يصير منفردا بلا سترة بعد سلام إمامه لأن العبرة لوقت الشروع وهو وقته كان مستترًا بسترة إمامه، تأمل.‘‘
No comments:
Post a Comment