https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 10 June 2023

سخت مجبوری میں بینک سے لون لینا

سودی قرض لینا بنصِّ قطعی حرام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے، لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے (مشکوة : ۲۴۴) البتہ اگر کوئی حد درجہ مجبوری ہو کہ اس کے بغیر گذر بسر کا کوئی نظم نہ ہو اور بغیر سود کے قرض کا ملنا دشوار ہو ایسا شخص اگر بقدرِ ضرورت جس سے گذر بسر ہوسکے سودی قرض لے لے تو علماء نے اس کی گنجائش دی ہے۔ یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح کما فی الأشباہ لہذا اگر کرایہ کے مکان میں رہنے کی صورت میں سخت دشواری کا سامنا ہوتو ایسی صورت میں اگر بقدرِ ضرورت ہوم لون لے لیں تو ممکن ہے کہ وبال نہ ہو ؛لیکن حتی الوسع کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اس کی ضرورت پیش نہ آئے «. وفي إجابته، أكد الشيخ محمد عبدالسميع، أمين الفتوى بدار الإفتاء المصرية، إن الاقتراض لشراء منزل ليس حراما بل جائز، موضحا أنه عند اقتراض مبلغ من البنك لشراء منزل فكأن ما حدث هو توسط للسلع، فالمنزل توسط بين الشخص وبين البنك، وإذا توسطت السلعة انتفى الربا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق جنرل سکریٹری(صدرمسلم پرسنل لاء بورڈ) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ موجودہ دور میں سود کے بغیر قرض حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایسی صورت میں شریعت میں معقول سود کے ساتھ قرض لینے کی گنجائش ہے، لیکن شریعت کی روشنی میں اس کا مزید جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں انہوں نے اپنی رائے پیش کی.ان کے نزدیک بینک سے مکان کے لئے ہوم لون لیناجائزہے.

قیمت سے زیادہ کابل بنانا

کسی کمپنی یا شخص کا ملازم جو کمپنی یا شخص کے لیے کوئی چیز خریدتا ہے تو اس ملازم کی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے، اور وکالت کی بنیاد امانت پر ہوتی ہے، چنانچہ وکیل اپنے موکل کے لیے جو چیز جتنے روپے کی خریدے گا اتنے ہی پیسے اپنے موکل سے لے سکتا ہے، اس سے زیادہ پیسے بتاکر لینا جھوٹ اور خیانت پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، ملازم کو تو اپنے کام کی تنخواہ ملتی ہے، اس لیے اس کا تو ویسے بھی کمیشن یا اجرت لینے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے، لیکن اگر اسے اپنی تنخواہ کم لگتی ہو تو وہ مالک سے پہلے سے طے کرلے کہ میں اگر باہر سے یہ سامان لینے جاؤں گا تو اتنا کرایہ یا اجرت لوں گا، ایسا کرنا جائز ہے، لیکن بغیر کچھ طے کیے زیادہ بل بنواکر دھوکے اور جھوٹ کے ذریعہ سے زیادہ پیسے وصول کرنا جائز نہیں ہے اوردوکان دار کا زیادہ کا بل بناکر دینا بھی ناجائز ہے۔ چوں کہ ملازم کا زیادہ بل بنواکر زیادہ پیسے لینا ناجائز اور گناہ کا کام ہے، اس لیے دکان دار کا اس کے لیے اصل بل سے زیادہ کا بل بناکر اس کو دینا بھی ناجائز اور گناہ کا کام ہے، کیوں کہ یہ گناہ کے کام میں معاونت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگر دکان دار اصل مقدار سے زیادہ پیسوں کا بل بناکر ملازم کو دیتا ہے تو اس سے اس کی کمائی تو حرام نہیں ہوگی، لیکن چوں کہ یہ گناہ کے کام میں معاونت ہے، اس لیے ایسا کرنے سے دکان دار گناہ گار بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ بھی ہوگا، لہٰذا اسے اس طرح کے کاموں سے بچنا چاہیے۔ درر الحکام في شرح مجلة الأحکاممیں ہے: "(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". (الکتاب الحادي عشر: الوکالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل

Friday 9 June 2023

نماز میں قرأت کی واجبی مقدار

نماز میں سورہٴ فاتحہ کے علاوہ قراء ت کی واجبی مقدار چھوٹی تین آیات یا ایک بڑی آیت ہے، اور ایک بڑی آیت سے مراد ہے جو چھوٹی تین آیات جیسے ثُمَّ نَظَرَ․ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ․ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ․ کے بقدر ہو یعنی کم ازکم اس میں تیس حروف ہوں، جیسا کہ درمختار میں ہے: وضم أقصر سورة کالکوثر أو ما قام مقامھا وھو ثلاث آیات قصار نحو ثُمَّ نَظَرَ․ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ․ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ․ وکذا لو کانت الآیة أو الآیتان تعدل ثلاثًا قصارًا، وفي الشامیة: وھی ثلاثون حرفاً، فلو قرأ آیة طویلة قدر ثلاثین حرفا یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات،

عورتوں کاقبرستان جاناکیساہے

عورتوں کے قبرستان میں جانے سے اگر غم تازہ ہو اور وہ بلند آواز سے روئیں تو ان کے لیے قبرستان جانا گناہ ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے جو قبرستان جائیں تاکہ غم تازہ ہو ۔نیز چوں کہ ان میں صبر کم ہوتا ہے، اس لیے گھر ہی سے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔ اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ جزع فزع نہ کرے، اور جوان عورت کے لیے تذکرہ موت و آخرت کی نیت سے جانے میں بھی کراہت ہے۔ البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210): "(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد

قبرستان میں قرآن لیجاکر تلاوت کرنا

مختار قول کے مطابق قبرستان میں قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت بلاکسی کراہت جائز ہے، ولا یکرہ الجلوس للقراء ة علے القبر فی المختار (نور الایضاح مع المراقی وحاشیة الطحطاوی ص: ۱۱۱، ۱۲۳)، وأخذ من ذلک جواز القراء ة علی القبر والمسألة ذات خلاف، قال الإمام: تکرہ لأن أہلہا جیفة ولم یصح فیہا شیء عندہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال محمد: تستحب الورود الآثار وہو المذہب المختار کما صرحوا بہ في کتاب الاستحسان (حاشیة الطحطاوی علی المراقي ص: ۶۲۱ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)، نیز شامی (۳: ۱۵۶، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) دیکھیں۔ (۲) قرآن پاک یا سیپارہ قبرستان میں لے جاکر تلاوت کرنا بھی جائز ہے، البتہ ایصالِ ثواب کے لیے کسی خاص طریقہ کو لازم وضروری نہ سمجھا جائے۔ اور اگر کسی علاقہ میں ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ لازم وضروری سمجھا جاتا ہو تو وہاں اس سے احتراز کیا جائے۔