https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 8 January 2023

مسبوق سجدۂ سہو میں امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے

مسبوق کو اگر یاد ہو کہ اس کے ذمہ کچھ رکعات باقی ہیں اس کے باوجود وہ سجدہ سہو سے پہلے والے سلام پر امام کے ساتھ سلام پھیر دے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، نئے سرے سے نماز ادا کرنا لازم ہوگا۔ لیکن اگر اس نے بھولے سے امام کے ساتھ سلام پھیر دیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی اور نہ ہی اس سلام کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوگا؛ کیوں کہ مسبوق سجدہ سہو کے سلام کے وقت مقتدی ہے اور مقتدی کے سہو کی وجہ سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، البتہ اپنی بقیہ نماز پوری کرتے ہوئے کوئی سہو ہوجائے تو سجدہ سہو واجب ہوگا۔نیز مذکورہ صورت میں اگرمقتدی امام کی معیت میں سلام پھیرے تواس پر سجدہ سہو نہیں ہوگا، لیکن امام کے بعدپھیرے اگر چہ بھولے سے پھیرےتو اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا المسبوق إنما يتابع الإمام في السهو دون السلام بل ينتظر الإمام حتی يسلم فيسجد فيتابعه في سجود السهو لا في سلامه وإن سلم فإن کان عامدا تفسد صلاته وإن کان ساهيا لا تفسد ولا سهو عليه لأنه مقتد وسهو المقتدي باطل فإذا سجد الإمام للسهو يتابعه في السجود ويتابعه في التشهد ولا يسلم إذا سلم الإمام لأن السلام للخروج عن الصلاۃ وقد بقي عليه أرکان الصلاة علاؤ الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 1: 176، بيروت: دار الکتاب العربي ابن نجيم، البحر الرائق، 2: 108، بيروت: دار المعرفة

آٹاادھارلے کرلوٹانا

آٹا، چینی اور اس طرح کی دیگر اشیاء جن کی لین دین ناپ کر یا تول کر ہوتی ہے، جن کو اشیاء ربویہ بھی کہا جاتا ہے ان کی بیع ( خرید و فروخت ) میں تو یہ بات لازم ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو، ادھار نہ ہو، ورنہ سود لازم آئے گا اور اگر دونوں طرف سے جنس ایک ہو تو برابری ہونا بھی لازم ہے، البتہ قرض کے طور پر جو لین دین ہوتا ہے اس میں ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری نہیں ہے ، بلکہ اس میں ادھار جائز ہے۔ لہذا اگرایک گھر والے ضرورت پڑنے پر دوسرے گھر والوں سے آٹا، چینی وغیرہ بطور قرض لیتے ہوں اور بعد میں اتنی ہی مقدار لوٹا دیتے ہوں تو چوں کہ یہ قرض کا معاملہ ہے؛ اس لیے اس میں ادھار جائز ہے، یہ خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ہے، چنانچہ جس طرح رقم بطورِ قرض لے کر کچھ عرصے بعد واپس کرنا درست ہے، اسی طرح ان اشیاء کو بطورِ قرض لے کر کچھ مدت بعد لوٹانا درست ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اشیاء بسااوقات اتنی کم ہوتی ہیں کہ کیل اوروزن کے تحت نہیں آتیں، اس وجہ سے بھی پڑوس میں ان کا لین دین جائز ہے۔فقط واللہ اعلم فتاویٰ شامی میں ہے: '' فصل في القرض: (هو) لغةً: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعاً: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه، وهو أخصر من قوله: (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه، (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس، (مثلي) خرج القيمي، (لآخر ليرد مثله) خرج نحو: وديعة وهبة.(وصح) القرض (في مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك ۔۔۔ (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً فصح استقراض جوز وبيض) وكاغد عدداً (ولحم) وزناً وخبز وزناً وعدداً كما سيجيء ۔۔۔ (قوله: في مثلي) كالمكيل والموزون والمعدود المتقارب كالجوز والبيض''. (کتاب البیوع، باب المرابحۃ و التولیۃ، فصل فی القرض، ج:۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۷ ،ط:سعید) فتاویٰ عالمگیری میں ہے: '' ويجوز القرض فيما هو من ذوات الأمثال كالمكيل والموزون، والعددي المتقارب كالبيض، ولا يجوز فيما ليس من ذوات الأمثال كالحيوان والثياب، والعدديات المتفاوتة''۔(کتاب البیوع، الباب التاسع عشر فی القرض و الاستقراض، ج: ۳ ؍ ۲۰۱ ، ۲۰۲ ،ط: رشیدیة

رباالفضل, رباالنسیۃ

ربوا کی دو قسم ہیں(1)ربا النسیہ (2) ربا الفضل ربا النسیہ کی مثال(1) کوئی شخص کسی کو کسی میعاد پر قرض دے اور اس پر کچھ ماہواری رقم مقرر کرلے، پھر جب میعاد پر وہ روپیہ مدیون سے ادا نہ ہو تو قرض خواہ کا اصل میں کچھ اور بڑھا کر مہلت دینا (2)اور کبھی سود کو اصل میں جمع کرکے پھر اس پر سود لگادینا۔ دوسری قسم ربا الفضل یہ ہے کہ گیہوں یا جو یا کوئی ایسی چیز جو قدر اور جنس میں برابر ہوں، ان کو ان کے بدلے میں کمی بیشی یا ادھارکے ساتھ بیچنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلائل: القرآن الکریم: (آل عمران، الآیۃ: 130) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo الدر المختار: (172/5، ط: دار الفکر) (وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر)المعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء (وإن عدما) بكسر الدال من باب علم ابن مالك (حلا) كهروي بمرويين لعدم العلة فبقي على أصل الإباحة (وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل وحرم النساء) ولو مع التساوي موسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (172/22، ط:دار السلاسل) ربا الفضل.۔۔۔وعرفه الحنفية بأنه فضل خال عن عوض بمعيار شرعي مشروط لأحد المتعاقدين في المعاوضة. ٢ - ربا النسيئة. . . وهو: فضل الحلول على الأجل، وفضل العين على الدين في المكيلين أو الموزونين عند اختلاف الجنس، أو في غير المكيلين أو الموزونين عند اتحاد الجنس