https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 27 January 2024

فسخ نکاح بوجہ عدم ادائیگی نفقہ

 حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الانفاق  ففی مجموع الامیر ما نصہ : ان منعھا   نفقۃ الحال فلہا القیام فان لم   یثبت عسرہ  انفق او طلق  و الا طلق علیہ  ، قال محشیہ : قولہ   والا طلق علیہ ای   طلق علیہ الحاکم من غیر تلوم…..الی ان قال: وان تطوع بالنفقۃ قریب اواجنبی فقال ابن القاسم:لہا ان تفارق  لان الفراق قد وجب لہا،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لہا لان سبب الفراق  ہو عدم النفقۃ   قد انتہی وہو الذی   تقضیہ المدونۃ  کما قال ابن المناصب   ، انظر الحطاب، انتہی."

(حیلہ ناجزہ ص: 73،فصل  فی حکم زوجۃ المتعنت)

Tuesday 23 January 2024

مذی کپڑوں پر لگ جائے تو کیسے پاک کریں

 مذی ناپاک ہے، نجاستِ غلیظہ ہے، کپڑے اور بدن پر لگنے سے  کپڑا اور بدن ناپاک ہوجاتا ہے، اگر مذی کپڑے پر لگ جائے اور اس کی مقدار  ایک درہم  (5.94 مربع سینٹی میٹر) سے کم ہو اور  اس کو دھوئے بغیر نماز پڑھ لی ہو تو نماز ہوجائے گی، (اگرچہ اس مقدار میں بھی نجاست کو دھو لیناچاہیے) اور اگر اس کی مقدار ایک درہم سے زیادہ ہو تو  نماز ادا نہیں ہوگی۔

اور اس کو پاک کرنے کے لیے تین مرتبہ اچھی طرح دھویا جائے اور ہر مرتبہ دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑا جائے کہ پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں، اس طرح تین مرتبہ دھونے سے وہ پاک ہوجائے گا، البتہ اگر اس کو  بہتے پانی یا تالاب  یا زیادہ پانی میں یا کسی اور جگہ اچھی طرح دھویا جائے، اور اس پر خوب پانی بہایا جائے کہ نجاست کا اثر دور ہوجائے تووہ کپڑا پاک ہوجاتا ہے، اگر  چہ اسے تین مرتبہ نچوڑا نہ  گیا ہو

فتاویٰ شامی میں ہے:

"( وعفا ) الشارع ( عن قدر درهم ) وإن كره تحريماً، فيجب غسله وما دونه تنزيهاً فيسن، وفوقه مبطل ( وهو مثقال ) عشرون قيراطاً ( في ) نجس ( كثيف ) له جرم ( وعرض مقعر الكف ) وهو داخل مفاصل أصابع اليد ( في رقيق من مغلظة كعذرة ) آدمي وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ". (1/316،ط:بیروت)

وفيه أيضًا:

"لَوْ غُسِلَ فِي غَدِيرٍ أَوْ صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ كَثِيرٌ، أَوْ جَرَى عَلَيْهِ الْمَاءُ طَهُرَ مُطْلَقًا بِلَا شَرْطِ عَصْرٍ وَتَجْفِيفٍ وَتَكْرَارِ غَمْسٍ هُوَ الْمُخْتَارُ".

(1/333، باب الأنجاس، ط: سعید)

Monday 22 January 2024

شب زفاف کا اسلامی طریقہ

 شب زفاف میں پہلی ملاقات کے وقت ابتداءً دو رکعت شکرانہ کی نماز پڑھیں، مرد آگے کھڑا رہے عورت پیچھے،نماز کے بعد خیر وبرکت، مودت ومحبت، آپسی میل ملاپ کی دعا کریں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ایک باکرہ عورت سے نکاح کیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے پسند نہ کرے اور دشمن تصور کرے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا محبت اللہ کی طرف سے ہے اور دشمنی شیطان کافعل ہے، جب عورت تیرے گھر میں آوے تو تو اس سے کہہ کہ تیرے پیچھے کھڑی ہوکر دو رکعت نماز پڑھے، اور تو یہ دعا پڑھ: اللھُمَّ بَارِکْ لِي فِي أَھْلِی، وَبَارِکْ لَأہْلِيوٴ فِيَّ، اللھُمَّ ارْزُقْنِي مِنْھُمْ وَارْزُقْھُمْ مِنِّی، اللھُمَّ اجْمَعَ بَیْنَنَا إذَا جَمَعْتَ فِيْ خَیْرٍ وَفَرِّقْ بَیْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ إِلَی خَیْرٍ․ اس کے بعد بیوی کی پیشانی کے بال پکڑکر یہ دعا پڑھے۔ اللّٰہُمَّ اِنِّيْ أَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہَا وَخَیْرِ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ․ شوہر تلطف ومحبت سے پیش آئے، اپنا سکہ اور رعب جمانے کی فکر نہ کرے، اور ہرطرح اس کی دلجوئی کرے کہ عورت کو مکمل سکون اور قلبی راحت حاصل ہو اور ایک دوسرے میں انسیت پیدا ہو۔ جب مباشرت کا ارادہ کرے تو مباشرت سے پہلے عورت کو مانوس کرے، بوس وکنار ملاعبت وغیرہ جس طرح ہوسکے اسے بھی مباشرت کے لیے تیار کرے، اور اس بات کا ہرمباشرت کے وقت خیال رکھے فوراً ہی صحبت شروع نہ کردے اور بوقت صحبت اس بات کا خیال رکھے کہ عورت کی بھی شکم سیری ہوجائے، انزال کے بعد فوراً جدا نہ ہوجائے، اسی حالت پر رہے اورعورت کی خواہش پوری ہونے کا انتظار کرے، ورنہ عورت کی طبیعت پر اس سے بڑا بار پیدا ہوگا اور بسا اوقات اس کا خیال نہ کرنے سے آپس میں نفرت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے جو کبھی جدائیگی کا سبب بن جاتی ہے۔ غنیة الطالبین میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: ویستحب لہا الملاعبة لہا قبل الجماع والانتظار لہا بعد قضاء حاجتہ حتی تقضي حاجتہا فإن ترک ذلک مضرة علیہا ربما أفضی إلی البغضاء والمفارقة (غنیة الطالبین: ۹۸) جب صحبت کرنے کا ارادہ کرے تو اولاً بسم اللہ پڑھے اور یہ دعا پڑھے: اللَّھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، بوقت صحبت قبلہ کی طرف رخ نہ کرے، سر ڈھانک لے اور جتنا ہوسکے پردے کے ساتھ صحبت کرے کسی کے سامنے حتی کہ بالکل ناسمجھ بچے کے سامنے بھی صحبت نہ کرے اور بوقت صحبت بقدر ضرورت ستر کھولے، انزال کے وقت دل میں یہ دعا پڑھے: اللَّھُمَّ لَا تَجْعَلْ لِلشَّیْطَانِ فِیمَا رَزَقْتنَا نَصِیبًا۔ صحبت کے بعد یہ دعا پرھے: الْحَمْدُ لِلّٰہ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہ ُ نَسَبًا وَصِھْرًا․ شب زفاف اور صحبت کے سلسلے کی آپس کی جو باتیں پوشیدہ ہوں کسی سے ان کا تذکرہ نہ کرے یہ بے حیائی اور بے مروتی کی بات ہے۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ: ۴/ ۲۸۶ تا ۲۸۹ بحوالہ غنیة الطالبین مترجم: ۹۷ تا ۱۰۰ فصل فی آداب النکاح)

مسبوق اپنی نماز کیسے پوری کرے

  نماز میں ثناء پڑھنا سنت ہے، اگر کوئی شخص امام کے نماز شروع کرنے کے بعد آکر نماز میں شامل ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع کردی ہو تو وہ ثناء نہ پڑھے، اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع نہیں کی، یا امام نے قراءت شروع کردی، لیکن  سری نماز ہونے کی وجہ سے بلند آواز سے نہیں، جیسا کہ ظہر اور عصر  کی نماز میں تو  بعد میں شامل ہونے والا ثناء پڑھ کر شامل ہوجائے۔ اور اگر کوئی رکعت چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہو اور سب سے پہلے ثناء پڑھے۔ 

جماعت میں ایک یا زائد رکعت کے چھوٹ جانے اور اسے اداکرنے کے بارے میں تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

دو رکعت والی فرض نماز (فجر) میں اگر ایک رکعت چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق سلام پھیرے  بغیرے کھڑا ہوجائے اور سب سے پہلے ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اور اگر فجر کی دوسری رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہوا ہو تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مکمل دو رکعت ایسے ہی ادا کرنی ہوں گی جیسے انفرادی پڑھتے ہوئے ادا کرنی ہوتی ہیں۔

تین رکعت والی فرض نماز (مثلاً مغرب) کی نماز میں اگر ایک رکعت چھوٹ جائے تو اسی مذکورہ طریقے پر اسے ادا کرے جو طریقہ دو رکعت والی نماز کے بارے میں بیان کیا گیا، اور اگر تین رکعت والی نماز میں دو رکعت چھوٹ گئیں تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات پڑھ کر دوبارہ کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اور اگر مغرب کی تیسری رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہو تو امام کے سلام کے بعد پوری تین رکعت اسی ترتیب سے ادا کرنی ہوں گی جس طرح انفرادی طور پر ادا کی جاتی ہیں۔

چار رکعت والی فرض نماز (ظہر، عصر، عشاء) میں اگر ایک رکعت چھوٹ گئی تو اسے اوپر بیان کردہ طریقہ پر ہی پڑھے، اگر چار رکعت والی نماز میں دو رکعتیں چھوٹ گئیں تو  امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرنے کے بعد قعدہ میں نہ بیٹھے، بلکہ سیدھا کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔

چار رکعت والی نماز میں اگر تین رکعتیں چھوٹ جائیں تو ان کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات پڑھ کر دوبارہ کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرنے کے بعد قعدہ میں نہ بیٹھے، بلکہ


سیدھا کھڑا ہوجائے ، پھر بسم اللہ اور سورہ فاتحہ پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جس کی امام کے ساتھ شامل ہونے کی صورت میں کچھ رکعتیں چھوٹ گئی ہوں تو چھوٹی ہوئی رکعتوں میں قرأت کرتے ہوئے ان رکعتوں کو ابتدائی رکعت تصور کرے گا اور  قعدہ میں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے میں ان رکعتوں کو آخر کی رکعتیں مان کر اس حساب سے قعدہ کرے گا، یعنی اگر ایک یا دو رکعتیں چھوٹی ہوں تو ان کو ابتدائی رکعتیں مان کر دونوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد بھی مزید قرأت کرے گا اور تین رکعتیں چھوٹنے کی صورت میں تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد مزید قرأت نہیں کرے گا، جب کہ تین رکعت والی نماز میں ایک یا دو رکعت چھوٹنے کی صورت میں ان رکعتوں کو قعدہ کے اعتبار سے دوسری اور تیسری رکعت مان کر دونوں میں قعدہ میں بیٹھے گا، چار رکعت والی نماز میں اگر ایک، یا تین رکعتیں چھوٹ جائیں تو پہلی رکعت کو قعدہ کے اعتبار سے دوسری رکعت مان کر اس میں قعدہ کریں گے،اور تیسری کو چوتھی مان کر اس میں قعدہ کرے گا۔ 

الفتاوى الهنديةمیں ہے:

’’(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لايأتي بالثناء. كذا في الخلاصة. هو الصحيح، كذا في التجنيس. وهو الأصح، هكذا في الوجيز للكردري. سواء كان قريباً أو بعيداً أو لايسمع لصممه، هكذا في الخلاصة. فإذا قام إلى قضاء ما سبق يأتي بالثناء ويتعوذ للقراءة، كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة والظهيرية‘‘. (١/ ٩٠)

الدر المختارمیں ہے:

''ويقضي أول صلاته في حق قراءة، وآخرها في حق تشهد؛ فمدرك ركعة من غير فجر يأتي بركعتين بفاتحة وسورة وتشهد بينهما، وبرابعة الرباعي بفاتحة فقط، ولايقعد قبلها.''

و في الرد:

'' وفي الفيض عن المستصفى: لو أدركه في ركعة الرباعي يقضي ركعتين بفاتحة وسورة، ثم يتشهد، ثم يأتي بالثالثة بفاتحة خاصة عند أبي حنيفة. وقالا: ركعة بفاتحة وسورة وتشهد، ثم ركعتين أولاهما بفاتحة وسورة، وثانيتهما بفاتحة خاصة اهـ. وظاهر كلامهم اعتماد قول محمد''. (1/ 596، ط: سعید )