https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 10 May 2025

بہو سے ناجائز تعلقات پر حرمت مصاہرت

 اگرکسی  شخص نےاپنی بہو  کواس طور پر چھواہے کہ اس میں حرمت مصاہرت کو ثابت کرنے والی تمام شرائط پائی جاتی ہیں تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت قائم ہوگئی، اور   بہو اپنے شوہر پر حرام ہوگئی۔اب اس کاا پنےشوہر کے ساتھ میاں بیوی کی حیثیت سے  اکھٹے رہنا جائز نہیں، اس کے بعد  شوہر پرزبانی متارکت یا طلاق دینا بھی  ضروری ہے،اس کے بعد عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔عدت کے دوران شوہر کے گھر پردہ کے ساتھ علیحدہ رہنا، کھانا،پینا جائز ہے۔اور اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں یا شوہر بیوی کے دعوی کی تصدیق نہ کرے تو پھر حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة."

(کتاب النکاح،ج3،ص37،ط؛سعید)

Thursday, 8 May 2025

چچایاتایازادبہن بھائی کا نکاح

 شوہر کے فوت ہونے کے بعد دیورسے نکاح جائز ہے اور بیٹے کا نکاح دیور کی بیٹی سے مطلقا جائز ہے، شوہر کے انتقال سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"انتفاء محلية المرأة للنكاح شرعا بأسباب تسعة: الأول المحرمات بالنسب: وهن فروعه وأصوله وفروع أبويه وإن نزلوا وفروع أجداده وجداته إذا انفصلوا ببطن واحد. الثاني المحرمات بالمصاهرة: وهن فروع نسائه المدخول بهن وأصولهن وحلائل فروعه وحلائل أصوله، والثالث المحرمات بالرضاع وأنواعهن كالنسب، والرابع حرمة الجمع بين المحارم وحرمة الجمع بين الأجنبيات كالجمع بين الخمس، والخامس حرمة التقديم وهو تقديم الحرة على الأمة جعله في النهاية والمحيط قسما على حدة وأدخله الزيلعي في حرمة الجمع، فقال: وحرمة الجمع بين الحرة والأمة والحرة متقدمة وهو الأنسب، والسادس المحرمة لحق الغير كمنكوحة الغير ومعتدته والحامل بثابت النسب، والسابع المحرمة لعدم دين سماوي كالمجوسية والمشتركة، والثامن المحرمة للتنافي كنكاح السيدة مملوكها، والتاسع لم يذكره الزيلعي وكثير وهو المحرمة بالطلقات الثلاث ذكره في المحيط والنهاية".

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات في النكاح، ج:3، ص:98، ط:دارالکتاب الاسلامی)

مسجد یامدرسہ کا بینک کھلوانا

 بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے ،البتہ اگر  مسجد کی رقم سنبھالنے میں مشکلات ہوں تو   ضرورت کی بناء پرصرف کرنٹ اکاؤنٹ کھولنے کی گنجائش ہے۔

درر الحکام میں ہے :

"لأن الثابت بالضرورة ‌يتقدر ‌بقدرها".

(باب الاعتکاف،ج:1،ص:213،داراحیاء الکتب العربیۃ)

Wednesday, 7 May 2025

حاجی پر عید والی قربانی

 حجِ قران یا حجِ تمتع کرنے کی صورت میں دمِ شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ، یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے، یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں،عید والی قربانی کا حج والی  قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ حاجی کے لیے عید والی قربانی واجب ہونے یا نہ ہونے کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر حاجی شرعی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر مسافر حاجی بھی اپنی خوشی سے عید والی قربانی کرے گا تو اس پر ثواب ملے گا، لیکن لازم نہیں ہے۔  اور اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا واجب ہوگی۔

نوٹ: اگر حاجی ایام حج میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ مکہ میں قیام کی نیت سے ٹھہرے اور  8 ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہونے سے پہلے  پندرہ دن مکمل ہو رہے ہوں تو یہ حاجی عید کے دنوں میں مقیم شمار ہوگا، اور صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں اس پر دمِ شکر کے علاوہ عید کی  قربانی بھی واجب ہوگی۔ لیکن اگر  منیٰ روانہ ہونے سے پہلے مکہ میں پندرہ دن پورے نہ ہورہے ہوں تو اقامت کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، لہٰذا یہ حاجی مقیم نہیں کہلائے گا ، بلکہ مسافر شمار ہوگا، چنانچہ اس حاجی پر  دمِ شکر کے علاوہ عید کی قربانی واجب نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 174)

'' قال أصحابنا: إنه دم نسك وجب شكراً ؛ لما وفق للجمع بين النسكين بسفر واحد''۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 63)

''ومنها: الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان، بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص، والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية، فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه، وفيه من الحرج ما لا يخفى، أو احتاج إلى ترك السفر، وفيه ضرر، فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب، بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها، فكان جميع الأوقات وقتاً لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال، فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر ؛ لأنها تجب وجوباً موسعاً كالزكاة، وهو الصحيح.

وعند بعضهم وإن كانت تتوقف بيوم الفطر لكنها تتأدى بكل مال، فلا يكون في الوجوب عليه حرج، وذكر في الأصل وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر، فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا''۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 125)

Monday, 5 May 2025

دیوربھابی کاپردہ

 بھابھی نامحرم ہے، اور    جو حکم دیگر نامحرموں سے پردہ کا ہے وہی  حکم دیور/جیٹھ اور بھابھی کا بھی ہے،   نبی کریم ﷺ سے جب دیور (وغیرہ) سے پردہ کا حکم دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے  دیور کو موت سے تعبیر فرمایا۔ (صحیح مسلم، باب التحریم الخلوۃ بالاجنبیہ والدخول، ج: ۷، ص: ۷، ط: دار الجیل بیروت  وغیرھا من کتب الاحادیث)

یعنی موت سے جتنا ڈر ہوتا ہے اتنا ہی دیور اور جیٹھ وغیرہ سے  بھی ہے، خصوصاً جب کہ رہائش بھی ساتھ ہی ہو، ایسے مواقع پر پردہ کاحکم ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ مزید احتیاط کا متقاضی ہوجاتا ہے۔

البتہ  مشترکہ خاندانی نظام میں عورت کے لیے  پردے کی  صورت یہ ہے کہ کوئی بڑی چادر جس سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہو  اوڑھ کر گھر کے کام کاج کرلے۔  بلا ضرورت دیور سے بات چیت نہ کی جائے۔  اگر کبھی کوئی ضروری بات یا کام ہو تو  آواز میں لچک پیدا کیے بغیر پردہ میں رہ کر ضرورت کی حد تک بات کی جائے۔   خلوت میں یا  پاس بیٹھنے  کی  یا ہنسی مذاق  کرنے کی  شرعاً اجازت   نہیں۔  نیزکبھی سارے گھر والے اکٹھے کھانے پر یا ویسے بھی  بیٹھے  ہوں تو خواتین کو چاہیے کہ ایک طرف اور مرد ایک طرف رہیں، تاکہ اختلاط نہ ہو۔

مشترکہ رہائش کی صورت میں گھر کے نامحرم مرد بھی اس کا اہتمام کریں کہ گھر میں داخل ہوتے وقت بغیر اطلاع کے نہ داخل ہوں، بلکہ بتا کر یا کم ازکم کھنکار کر داخل ہوں، تاکہ کسی قسم کی بے پردگی نادانستگی میں بھی نہ ہو۔  فقط

کیڑے مکوڑے اناج یاپانی میں گرگیے تواس پانی کاحکم

 آٹا، گندم یا کسی دوسرے اناج میں اگر صرف کیڑوں کا مادّہ جالے کی طرح پیدا ہوا، ابھی تک جاندار کیڑے نہیں ہوئے تو مع اس جالہ کے آٹا وغیرہ استعمال کرنا شرعاً درست ہے، اگر جاندار کیڑے پیدا ہوگئے تو پھر کیڑوں سمیت آٹا وغیرہ کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے۔ (بہشتی زیور: ۹/۱۰۴، طبی جوہر، ط:اختری) (۲،۳) جن کیڑوں اور حشرات الارض میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا مثلاً چیونٹی، مچھر،چھوٹی چھپکلی ان کے پانی وغیرہ میں گر کر پھول پھٹ جانے سے پانی وغیرہ ناپاک نہیں ہوتا ہے، وضو او رغسل میں اس طرح کے پانی کا استعمال شرعاً جائز ہے؛ لیکن چوں کہ کیڑے مکوڑوں (خواہ ان میں بہتا ہوا خون ہو یا نہ ہو) کاکھانا بہرحال جائز نہیں؛ اس لیے ان کے سالن میں پک جانے کی صورت میں سالن کا کھانا جائز نہ ہوگا، اسی طرح پانی میں پھول پھٹ کر گھل مل جانے کی صورت میں اس پانی کا پینا بھی جائز نہیں ہے۔ وذکر الکرخی عن أصحابنا أنّ کل ما لایفسد الماء لایفسد غیر الماء وہکذا روی ہشام عنہم، وہذا أشبہ بالفقہ، ویستوي الجواب بین المتفسّخ وغیرہ فی طہارة الماء ونجاستہ إلاّ أنہ یکرہ شرب المائع الذي تفسّخ فیہ؛ لأنہ لایخلو عن أجزاء مایحرم أکلہ الخ (بدائع الصنائع: ۱/۲۳۲، ط:زکریا) نیز دیکھیں: بہشتی زیور اختری (۹/۱۰۳ تا ۱۰۵، بہ عنوان: حیوان کا بیان)

حرام اشیاء سے دوا بنانا

 قوله: ( اختلف في التداوي بالمحرم ) ففي النهاية عن الذخيرة: يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر، وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم كما رواه البخاري: أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس، فقال: لو عرف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء وبالبول أيضًا إن علم فيه شفاء لا بأس به لكن لم ينقل، وهذا لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع ا هـ من البحر . وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة واشتراط صاحب النهاية العلم لاينافيه اشتراط مَن بعده الشفاء، ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لا للتداوي محمول على المظنون، وإلا فجوازه باليقين اتفاق كما صرح به في المصفى اهـ 

 أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدل لقول الإمام لكن قد علمت: أن قول الأطباء لا يحصل به العلم، و الظاهر: أن التجربة يحصل به العلم،  والظاهر: أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم ۔ تأمل.

قوله: ( وظاهر المذهب المنع ) محمول على المظنون كما علمته، قوله ( لكن نقل المصنف الخ ) مفعول نقل قوله وقيل يرخص الخ والاستدراك على إطلاق المنح وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك،ونص ما في الحاوي القدسي إذا سال الدم من أنف إنسان ولا ينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلايرخص له ما فيه وقيل يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى ا هـ 

 قوله: ( ولم يعلم دواء آخر ) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي إلا أنه يفاد في قوله كما رخص الخ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط.قال: ونقل الحموي: أن لحم الخنزير لايجوز التداوي به وإن تعين والله تعالى أعلم."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الطهارة، باب المياه، مطلب  في التداوي بالمحرم (1/ 210)،ط. سعيد)