https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 10 September 2022

نمازجنازہ میں سورۂ فاتحہ کاپڑھناصرف جائزہے یاسنت وواجب ہے

جنازہ کی نماز صورت کے اعتبار سے تو نماز ہے، لیکن حقیقت میں دعا ہے؛ اس لیے جنازہ کی نماز میں قرأت کرنا مشروع نہیں ہے، اسی وجہ سے فقہاء نے جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ قرأت کی نیت سے پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، البتہ سورہ فاتحہ چوں کہ دعا ئیہ مضمون پر مشتمل ہے؛ اس لیے اگر کوئی جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ کو دعا کی نیت سے پڑھے تو یہ جائز ہے۔ "عن أبي سعید المقبري عن أبیه أنه سأل أبا هریرة: کیف تصلي علی الجنازة؟ فقال: أبو هریرة: أنا لعمر الله أخبرك، أتبعها من أهلها، فإذا وضعت کبرت وحمدت الله وصلیت علی نبیه، ثم أقول: اللّٰهم عبدك وابن عبدك وابن أمتك کان یشهد أن لا إله إلا أنت وأن محمداً عبدك ورسولك، وأنت أعلم به، اللّٰهم إن کان محسناً فزد في إحسانه، وإن کان مسیئًا فتجاوز عنه سيئاته، اللّٰهم لاتحرمنا أجره ولاتفتنا بعده". (مصنف ابن أبي شیبه، الجنائز، مایبدأ في التکبیرة الأولیٰ في الصلاة علیه الخ ، مؤسسة علوم القرآن ۷/۲۵۲، ۳/۲۹۵، رقم: ۱۱۴۹۵، مصنف عبد الرزاق، الجنائز، باب القراء ة والدعاء في الصلاة علی المیت المجلس العلمي ۳/۴۸۸، حدیث: ۶۴۲۵) "عن نافع أن ابن عمر کان لایقرء في الصلاة علی الجنازة". (مصنف ابن أبي شیبه، کتاب الجنائز ، من قال: لیس علی الجنازة قراء ة، مؤسسة علوم القرآن ۷/۲۵۸، ۳/۲۹۸، رقم: ۱۱۵۲۲) "أن ابن مسعود قال: إن النبی صلی الله علیه وسلم لم یوقت فیها قولاً ولا قراء ة". (المغني ابن قدامة بیروت ۲/۱۸۰) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 209): "(وسنتها) ثلاثة (التحميد والثناء والدعاء فيها) ذكره الزاهدي. (قوله: التحميد والثناء) كذا في البحر عن المحيط، ومقتضى قول الشارح: "ثلاثة"، أن الثناء غير التحميد مع أنه فيما يأتي فسر الثناء بقوله: "سبحانك اللهم وبحمدك"، فعلم أن المراد بهما واحد على ما يأتي بيانه، فكان عليه أن يذكر الثالث: الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 213): "(ولا قراءة ولا تشهد فيها) وعين الشافعي الفاتحة في الأولى. وعندنا تجوز بنية الدعاء، وتكره بنية القراءة لعدم ثبوتها فيها عنه عليه الصلاة والسلام. (قوله: وعين الشافعي الفاتحة) وبه قال أحمد؛ لأن ابن عباس صلى على جنازة فجهر بالفاتحة، وقال: عمدًا فعلت؛ ليعلم أنها سنة. ومذهبنا قول عمر وابنه وعلي وأبي هريرة، وبه قال مالك كما في شرح المنية (قوله: بنية الدعاء) والظاهر أنها حينئذ تقوم مقام الثناء على ظاهر الرواية من أنه يسن بعد الأولى التحميد (قوله: وتكره بنية القراءة) في البحر عن التجنيس والمحيط: لايجوز لأنها محل الدعاء دون القراءة اهـ ومثله في الولوالجية والتتارخانية. وظاهره أن الكراهة تحريمية، وقول القنية: لو قرأ فيها الفاتحة جاز أي لو قرأها بنية الدعاء ليوافق ما ذكره غيره، أو أراد بالجواز الصحة، على أن كلام القنية لا يعمل به إذا عارضه غيره، فقول الشرنبلالي في رسالته: "إنه نص على جواز قراءتها"، فيه نظر ظاهر لما علمته، وقوله: "وقول منلا على القارئ أيضًا يستحب قراءتها بنية الدعاء خروجًا من خلاف الإمام الشافعي" فيه نظر أيضًا؛ لأنها لاتصح عنده إلا بنية القرآن، وليس له أن يقرأها بنية القراءة، ويرتكب مكروه مذهبه ليراعي مذهب غيره كما مر تقريره أول الكتاب". جن صحابہ سے سورۂ فاتحہ پڑھنا ثابت ہے ان روایات کاجواب یہ ہے کہ محدثین کے نزدیک اصول ہے کہ جہاں دویایااس سے زیادہ روایات کے مضمون میں تعارض ہوجائے توان میں جس حدتک تطبیق ممکن ہوکرنی چاہئیے ،تاکہ دونوں حدیثوں پرعمل ہوسکے،اس اصول کوسامنے رکھتے ہوئے احناف کےبیان کردہ مفہوم اورمعنی لینے سےدونوں حدیثوں پرعمل ہوجاتاہےاورہ وہ مفہوم یہ ہے کہ نمازہ جنازہ کامقصداللہ تعالی کی حمدوثناء،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردرود اورمیت کے لئے دعاہے اوریہ حمدوثناء سورة الفاتحہ میں موجود ہےاس لئے اگرکوئی شخص سورة الفاتحہ حمدوثناء کی نیت سے پڑھتاہے تواس میں کوئی حرج نہیں۔چناچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نمازہ جنازہ میں سورة فاتحہ حمدوثناء کی نیت سے پڑھی تھی ،نہ کہ فی نفسہ اس سورت کے نمازہ جنازہ میں معین ہونے کے،اس پر ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے جب نمازہ جنازہ کاطریقہ پوچھاگیاتوانہوں یہی معروف اورمروج طریقہ بتلایااس میں فاتحہ پڑھنے کاذکرنہیں کیا،اگرسورة فاتحہ پڑھناضروری ہوتاتوحضرت ابوہریرہ رضی اللہ ضروراس کاتذکرہ فرماتے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر،حضرت علی ،عبداللہ بن عمر،فضالہ بن عبید،ابوہریرہ،جابربن عبداللہ وغیرہم رضی اللہ تعالی عنہم ان سب کے بارے میں آتاہے کہ وہ نمازہ جنازہ میں قراء ت فاتحہ نہیں فرمایاکرتے تھے،جبکہ ان میں سے اکثریت اجلہ صحابہ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکے اساتذہ پرمشتمل ہے اوریہ کیسے ہوسکتاہے کہ ان کے فعل اورقول میں تضادہو،اس لئے لازمی طورپریہی معنی مراد لینا پڑے گاکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکامقصدفاتحہ سے حمدوثناء اوردعاء تھی ۔ تیسری دلیل یہ ہےکہ قاسم بن محمد،سالم بن عبداللہ،ابن المسیب،ربیعہ،عطاء بن ابی رباح اوریحی بن سعیدجیسے جبال علم جواہل مدینہ کے فقہاء میں سے ہیں ان کے بارے میں بھی یہی منقول ہے کہ وہ نمازہ جنازہ میں قراء ت نہیں کرتے تھے ،اگرابن عباس رضی اللہ عنہماکے قول سے بعینہ فاتحہ کی سنت مرادلی جائے تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اتنامشہوراورعام مسئلہ ان فقہاء سے مخفی رہ گیاہو اور عدم علم کی وجہ سے سورة فاتحہ نمازہ جنازہ میں نہ پڑھتے ہوں ،یقینی طورپران کاسورة فاتحہ کانہ پڑھنااس کی دلیل ہے کہ قول ابن عباس کاوہ مطلب نہیں جوبعض حضرات لیتے ہیں۔ حوالہ جات موطأ مالك لمالك بن أنس (ج 2 / ص 319): ”عن سعيد بن أبي سعيد المقبري عن أبيه أنه سأل أبا هريرة كيف تصلي على الجنازة؟فقال أبو هريرة: أنا لعمر الله أخبرك أتبعها من أهلها فإذا وضعت كبرت وحمدت الله وصليت على نبيه ثم أقول: اللهم إنه عبدك وابن عبدك وابن أمتك كان يشهد أن لا إله إلا أنت وأن محمدا عبدك ورسولك وأنت أعلم به اللهم إن كان محسنا فزد في إحسانه وإن كان مسيئا فتجاوز عن سيئاته اللهم لا تحرمنا أجره ولا تفتنا بعده۔ “ موطأ مالك لمالك بن أنس (ج 2 / ص 320): "عن مالك عن نافع أن عبد الله بن عمر كان لا يقرأ في الصلاة على الجنازة." المدونة الكبرى (ج 1 / ص 174): ”عن داود بن قيس أن زيد بن أسلم حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في الصلاة على الميت:أخلصوه بالدعاء ( بن وهب ) عن رجال من أهل العلم عن عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن عمر وعبيد بن فضالة وأبي هريرة وجابر بن عبد الله ووائلة بن الأسقع والقاسم وسالم بن عبد الله وبن المسيب وربيعة وعطاء ويحيى بن سعيد أنهم لم يكونوا يقرؤون في الصلاة على الميت. “