https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 19 September 2020

طلاق غضبان کا حکم

 


طلاق غضبان

غضب کی تعریف 

یہ غضب، یغضب غضباً سے مصدر ہے۔کہا جاتا ہے رجل غضبان اور امرأة غضبی۔ یہ رضا کی ضد ہے۔(لسان العرب:٥؍٣٦٦٢)

مطلقاًیہ غصہ اور اشتعال کے لیے بولا جاتا ہے۔ 

جرجانی کہتے ہیں:

’’الغضب تغیر یحصل عند غلیان دم القلب لیحصل عنه التشف للصدر‘‘(التعریفات:ص١٦٢)

’’دل کے خون کے کھولنے کی وجہ سے جو تغیر ہوتا ہے اس کوغضب کہتے ہیں تاکہ دل کو تسلی ہو سکے۔‘‘

غصے کی حالتیں

غصے کی تین حالتوں کا تذکرہ کیا گیاہے:

1۔یہ کہ انسان پر غصہ کی ابتدائی حالت طاری ہو جہاں پر اس کی عقل میں فتور نہ آئے اورجو وہ کہہ رہا ہو اس کو بخوبی جانتاہو۔ ایسی حالت میں دی گئی طلاق بغیر کسی اشکال کے واقع ہوجائے گی اور وہ اپنے اقوال کا مکلف ہوگا۔(جامع العلوم والحکم:ص١٤٨)

2۔ایسا غصہ جس میں انسان حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور متکلم کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔ 

ابن قیم فرماتے ہیں:

’’وذلك أنه لم یعلم صدور الطلاق منه فهو شبه مایکون بالنائم والمجنون ونحوهم‘‘(إغاثة اللهفان فی حکم طلاق الغضبان:ص٣٩)

’’چونکہ وہ طلاق کے صدور کے متعلق نہیں جانتا ہوتا لہٰذا وہ بھی سوئے ہوئے اور پاگل وغیرہ کے مشابہ تصور ہوگا۔‘‘

3۔غصے کی تیسری حالت یہ ہے کہ انسان پر شدید غصہ تو طاری ہو، لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ ہوش و حواس ہی کھو بیٹھا ہو۔ اس حالت میں دی گئی طلاق کی تنفیذ اور عدم تنفیذ میں علما کے مابین اختلاف ہے۔(ایضاً)

غصے کے حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کے بارے میں دو قسم کی آرا ہیں:

1۔اَحناف اور بعض حنابلہ کا موقف ہے کہ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق شمار نہیں ہوگی۔(حاشیہ ابن عابدین:٢؍٤٢٧)

2۔مالکیہ اور حنابلہ کا خیال ہے کہ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی اور اس کا اعتبار کیا جائے گا۔(حاشیہ الشرح الکبیر:٢؍٣٦٦)

فریق اوّل کے دلائل

احناف اور ان کے مؤیدین نے درج ذیل ادلہ سے استدلال کیا ہے:

1۔حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«لا طلاق ولا عتاق في غلاق»(سنن ابوداؤد:٢١٩٣) ’’ زبردستی کی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘

اور زبردستی غصے کو بھی شامل ہے، کیونکہ اس میں رائے پر بندش لگ جاتی ہے۔

2۔فرمان باری تعالی ہے:’’لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْۤ اَيْمَانِكُمْ ‘‘(البقرہ:225)

’’اللہ تعالیٰ تمہیں ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں۔‘‘

ابن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: 

’’لغو الیمین أن تحلف وأنت غضبان‘‘(بیہقی2؍450)

’’لغو قسم یہ ہے کہ آپ غصے کی حالت میں قسم اٹھائیں۔‘‘

اسی پر قیاس کرتے ہوئے غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کو بھی طلاق شمار نہیں کیا جائے گا۔(طلاق الغضبان: ص٣٢)

3۔فرمان الٰہی ہے:’’وَ اِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ‘‘(الاعراف:200)

’’اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیجئے۔‘‘

متکلم شدید غصے کی حالت میں شیطان کے بہکانے سے طلاق یا اس طرح کے دیگر الفاظ غیر ارادی طور پر بول دیتا ہے۔ لہٰذا یسی حالت میں اس پر طلاق احکام مترتب نہیں ہوں گے۔(طلاق الغضبان:ص٣٥)

رسول اکرمﷺنے فرمایا: «إن الغضب من الشیطان»(سنن ابوداؤد: ٤٧٨٤) ’’غصہ شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘

4۔عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«لا نذر في غضب و کفارته کفارة یمین»(سنن نسائی:٣٨٤٢) ’’غصے کی حالت میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔‘‘

خدا تعالیٰ نے اپنی نذروں کو پورا کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ تو جب حالت غضب میں مانی گئی نذر میں رخصت موجود ہے تو طلاق میں یہ رخصت کیوں باقی نہ رکھی جائے۔(طلاق الغضبان:ص٤١)

5۔حدیث ابوبکرہ: «لا یقض القاض بین اثنین وهو غضبان»(سنن ابن ماجہ:٢٣١٦)

’’قاضی غصے کی حالت میں دو لوگوں کے مابین فیصلہ نہ کرے۔‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ غصہ علم و ارادہ پر اثر انداز ہوتا ہے اور درست فیصلہ کرنے میں مانع ہوتا ہے۔ تو ایسی حالت میں دی گئی طلاق بھی معتبر نہیں ہو گی۔(طلاق الغضبان:ص٤٣)

(vi) نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کا وقوع نہیں ہوتا کیونکہ متکلم کا طلاق دینے کا ارادہ نہیں ہوتا، یاد رہے کہ غصے کی حالت نشے سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔(طلاق الغضبان: ص٤٥)

مذکورہ دلائل کا جائزہ

1۔اس سلسلہ میں حضرت عائشہ کی بیان کردہ حدیث اس نزاع سے خارج ہے، کیونکہ اس سے مراد زبردستی ہے۔ اور زبردستی محض غصے کانام نہیں ہے۔ امام ابن قیم فرماتے ہیں: ’’الغلاق انسداد باب العلم والقصد علیه‘‘(تہذیب السنن:٦/١٨٧)

’’غلاق علم و ارادہ کے دروازہ کو بند کرتا ہے۔‘‘

لہٰذا یہ غصے کی دوسری حالت کو شامل ہے۔ جس میں بالاتفاق طلاق واقع نہیں ہوتی۔

2۔حضرت ابن عباسؓ کی طرف منسوب تفسیر صحیح نہیں ہے۔

ابن رجب فرماتے ہیں: ’’لا یصح إسناده‘‘(جامع العلوم والحکم:ص١٤٩)

’’اس کی سند صحیح نہیں ہے۔‘‘ 

اور اسی آیت کی تفسیر میں آپ سے دیگر اقوال بھی بیان کیے گئے ہیں۔جیسا کہ ابن ابی حاتم نے تفسیر ابن کثیر(١/٢٦٨) میں سعید بن جبیر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ ’’لغو قسم وہ ہے جس میں آپ ایسی چیز کو حرام قرار دیں جو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دی ہو۔‘‘

ابن رجب فرماتے ہیں:

’’صح عن غیر واحد من الصحابة أنهم أفتوا أن یمین الغضبان منعقدة وفیها الکفارة‘‘(جامع العلوم والحکم: ص١٤٩)

’’دیگر بہت سے صحابہ کرام نے فتویٰ دیا کہ غصے کی حالت میں اٹھائی گئی قسم کا انعقاد ہوگا اور اس(کو پورا نہ کرنے ) پرکفارہ ہوگا۔‘‘

3۔یہ کہنا کہ غصہ کی حالت میں انسان شیطان کی اکسانے پر بول رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پرحکم مرتب نہ ہوگا۔ تو ایسا کہنا کسی طور بھی درست نہیں ہے، کیونکہ زیادہ تر گناہوں اور بُرائیوں کا ظہور تو شیطان کی اکساہٹ اور وساوس ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھراس کا مطلب تو یہ ہے کہ شیطان کے اکسانے پرکیے جانے والے کسی بھی عمل پر احکام مرتب نہ ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ سراسر خام خیالی ہے۔

4۔حضرت عمران بن حصین کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہے۔

5۔’’ابوبکرہ کی حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے قاضی کو حالت غصہ میں فیصلہ نہ کرنے کا پابند کیا ہے۔ یہ قاضی کے مکلف ٹھہرتا ہے پھر یہ بھی ہے کہ قاضی نے تو اپنے علاوہ کسی اور کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے جب کہ طلاق دینے والا خود ا اپنا فیصلہ کر رہا ہوتا ہے اس لیے طلاق دینے والے کو قاضی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا‘‘

6۔اس حالت کو نشہ پر قیاس کرنادرست نہیں ہے۔ کیونکہ نشہ میں تو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور اسے پتہ نہیں ہوتا وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اور یہ غصہ کی دوسری حالت ہے۔ ایسی حالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ‘‘(النساء : ٤٣)

’’اے ایمان والو جب تم نشہ میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ۔ جب تک کہ اپنی بات سمجھنے نہ لگو۔‘‘

فریق ثانی کے دلائل

مالکیہ اور حنابلہ نے درج ذیل دلائل کو سامنے رکھا ہے:

1۔خولہ بنت ثعلبہ اوس بن ثابت کی اہلیہ تھیں،ایک روز ان دونوں میں جھگڑا ہو گیا تو اوس بن ثابت نے غصے سے ظہار کرڈالا۔حضرت خولہ یشانی کی حالت میں حضور نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور تمام ماجرا کہا تو اللہ تعالیٰ نے آیت ظہار نازل فرمائیں۔ پھررسول اللہﷺان کو ظہار کے کفارہ کا حکم دیا۔(سنن ابن ماجہ:٢٠٦٣)

2۔اوس بن ثابت نے غصے کی حالت میں ظہار کرنے کے باوجود اس کا کفارہ ادا کیا۔ طلاق بھی ظہار ہی کی طرح ہے۔(جامع العلوم:ص١٤٩)

ابن رجب جامع میں فرماتے ہیں: 

’’اوس بن ثابت نے غصے کی حالت میں ظہار کیا تھاپھر بھی رسول اللہﷺنے ظہار کو طلاق شمار کیا اور ان کی بیوی کو ان پر حرام قرار دیا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ظہار کا کفارہ لازم کیا تو آپﷺ نے اوس بن ثابت کو کفارہ سے بری قرار نہیں دیا۔‘‘(ص:١٤٩)

ان احادیث پر یہ اعتراض وارد کیا جاسکتا ہے کہ یہ غصے کی ابتدائی حالت سے متعلق ہے اور اس سے غصے کی پہلی قسم مراد ہے۔اس کے جواب میں عرض ہے کہ یہ حدیث مطلق طور پر عمومی غضب سے متعلق ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تفصیل نہیں اور احتمالی جگہ پر تفصیل کو چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو عموم پر محمول کیا جائے۔ اس میں اگرچہ غصہ کی تینوں حالتیں اور ہر غصے کی حالت میں دی گئی طلاق لازم ہوگی۔ لیکن اجماع امت سے وہ حالت اس سے نکل گئی جب غصہ انتہاء کو پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح اس حدیث میں دوسری دونوں قسمیں شامل ہوں گی۔


3۔مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین طلاقیں دے دی ہیں۔ تو ابن عباس نے فرمایا: میں اپنے آپ میں اس قدر جرأت نہیں پاتاکہ تیرے لیے وہ حلال کردوں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کردیاہے۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔(دارقطنی:٤/١٣)

4۔حسن کا قول ہے:سُنی طلاق یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں ایک طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو۔ ایسی صورت میں اس کے بعد تیسرے حیض تک اسے اختیار حاصل ہوگا کہ وہ رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔اگر آدمی نے غصے میں طلاق دی ہے تو تین حیض یا تین مہینے میں اس کا غصہ کافور ہو سکتا ہے۔(جامع العلوم والحکم: ص ١٤٩)

5۔قاعدہ فقہیہ ہے:

’’دلالة الأقوال تختلف بها دلالة الأقول في قبول دعوی ما یوافقها ورد ما یخالفها وتترتب علیها الأحکام بمجردها‘‘(القواعد لابن رجب: ص٣٢٢)

’’دعویٰ کو قبول کرنے میں احوال کی حالت اقوال سے مختلف ہوتی ہے۔ ۔احوال پر احکام مرتب ہوں گے چاہے اقوال احوال کے مخالف ہوں یا موافق۔‘‘

ابن رجب فرماتے ہیں: اس قاعدہ سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑائی جھگڑے اور غصے کی حالت میں دی گئی طلاق شمار ہوگی اور کسی کا یہ دعویٰ کہ طلاق کارادہ نہ تھا، قابل قبول نہ ہوگا۔

مغنی لابن قدامہ میں ہے:

’’والغضب ههنا یدل علی قصد الطلاق فیقوم مقامه‘‘(8 ؍450)

’’یہاں پر غصہ ارادہ طلاق پر دلالت کرتا ہے، لہٰذا اس کو اس کے مقام پر محمول کیا جائے گا۔‘‘

راجح موقف

سابقہ مبحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ مالکیہ، حنابلہ اور ان کے مؤیدین کا موقف راجح ہے، کہ غصہ کی حالت میں طلاق کا وقوع ہوجائے گا اور اس کی ترجیح درج ذیل امور کی وجہ سے ہے:

1۔دلائل کی قوت۔

2۔مسئلے پر مکمل گرفت اور وضاحت۔

3۔مخالفین کے دلائل کا ضعف۔

4۔قاعدہ ہے:

’’أن الأصل فی الأبضاع التحریم فالواجب التثبت في مرها والتنبه لها‘‘

خلاصہ:

فقہاء، محدثین، مفسرین اور اصولیین کی آراء کو نقل کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

1۔مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔

2۔اورایسے غصے کی حالت میں طلاق، جس میں انسان اپنے ہوش و حواس میں ہوتا ہے، طلاق واقع ہو جائے گی۔البتہ اسلام اور دنیا بھر کا قانون شدید غصہ کی حالت کو پاگل

 

پن اور جنون قرار دیتا ہے اور مجنوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا فقہ غصہ کی تین حالتیں بیان کرتے ہیں :


أحدها أن يحصل له مبادی الغضب بحيث لايتغيرعقله ويعلم مايقول ويقصده وهذالااشکال فيه.


الثانی أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لاريب أنه لاينفذ شئی من اقواله.


الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر کالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله.


پہلی یہ کہ ابتدائی حال ہو، عقل میں تبدیلی نہ آئے اور آدمی جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کا ارادہ ہے اس میں اشکال نہیں کہ طلاق ہو جائے گی۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ غصہ انتہا کو پہنچ جائے اسے پتہ نہ چلے کہ کیا کہتا ہے اور کیا ارادہ ہے اس صورت میں بلاشبہ ا س کا کوئی محل نافذ نہ ہو گا۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ہو کہ انسان پاگل کی طرح نہ ہو جائے یہ قابل غور ہے دلائل کی روشنی میں اس صورت میں بھی اس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوگا۔

(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421)


مايزيل العقل فلايشعرصاحبه بماقال وهذالايقع طلاقه بلانزاع.


مايکون فی مبادية بحيث لايمنع صاحبه من تصورمايقول وقصده فهذايقع طلاقه.


أن يستحکم ويشتد به فلا يزيل عقله بالکلية ولکن يحول بينه و بين نيته بحيث يندم علی ما فرط منه اذا زال فهذا محل نظر و عدم الوقوع فی هذه الحالة قوی متجه.


ایک یہ کہ غصہ اتنا زیادہ ہوکہ عقل انسانی قائم نہ رہے اورپتہ ہی نہ ہوکہ اس نے کیا کہا اس صورت میں بلا اختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔


دوسراغصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ پوری طرح سمجھتا ہے اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔


تیسرا درمیانہ درجہ کا غصہ ہے جو سخت ہوتا ہے اور وہ انسان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے مگر انسانی عقل قائم رہتی ہے لیکن دل کی نیت و ارادہ کے بغیر محض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے، وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا رہا ہوتا پھر طلاق سرزد ہونے کے بعد نادم ہوتا ہے۔ افسوس کرتا ہے۔ یہ صورت غور طلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہوگی۔


(ابن قيم، زاد المعاد، 5 : 215، مؤسسة الرسالة، مکتبة المنار، بيروت الکويت، سن اشاعت، 1407ه)


علامہ شامی مزید فرماتے ہیں :


الجنون فنون.


(جنون کئی قسم کاہوتاہے)


(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دار لفکر للطباعة والنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه)


معلوم ہواجو شدید غصہ میں ہو وہ ایک قسم کے وقتی مرض میں مبتلاہوتا ہے، قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے :


ولَاعَلَی الْمَرِيْضِ حَرَجٌ.


’’اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے‘‘۔


النور، 24 : 61


مفسرین کرام اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :


فالحرج مرفوع عنهم فی هذا.


’’جو مریض لوگ ہیں مرض کی حالت میں ان سے حرج و تنگی اور گرفت اٹھالی گئی ہے‘‘۔


عبدالرحمن بن محمد، تفسير الثعالبی، 3 : 127، مؤسسه الأعلمی للمطبوعات بيروت

قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دارالشعب، القاهره

أبو محمد عبدالحق بن غالب عطية الأندلسی، المحرر الوجيز فی تفسير الکتاب العزيز، 4 : 195، دار الکتب العلمية، لبنان، سن اشاعت 1413ه

مزید علامہ قرطبی بیان کرتے ہیں :


فبينت هذه الاٰية انّه لا حرج علی المعذورين.


اس آیت مبارکہ نے بیان کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔


قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دار الشعب، القاهره


دوسری آیت کریمہ ہے :


وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ.


’’اس (اﷲ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی‘‘۔


الحج، 22 : 78


امام ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاصّ الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ، ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’حرج کا مطلب ہے تنگی۔‘‘


ان کے شاگرد مجاہد فرماتے ہیں :


ويحتجّ به فی کل ما اختلف فيه من الحوادث ان ما ادی الی الضيق فهو منفی وما اوجب التوسعة فهو اولٰی.


’’اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جا سکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی و آسانی پیدا کرے وہی بہتر  ہے۔‘‘


آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔


جصاصّ، احکام القرآن، 3 : 251، طبع لاهور


امام رازی فرماتے ہیں :


الضيق ’’تنگی‘‘


امام رازی، تفسير الکبير، 23 : 73، طبع طهران


امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں :


ضيق بتکليف مايشتد القيام به عليکم.


’’تنگی، ایسی تکلیف کا حکم دیکر جس پر قائم رہنا تم پر سخت ہو‘‘۔

ب

بیضاوی, انوار التنزيل و اسرار التأويل، 2 : 50، ط

 مصر 

محمود آلوسی، روح المعانی، 17، 190، طبع تهران. ايران


حدیث پاک میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :


رفع القلم عن ثلاثة عن المجنون المغلوب علی عقله وعن النائم حتی يستيقظ وعن الصبی حتی يحتلم.


’’تین قسم کے لوگوں پرقانون لاگو نہیں ہوتا مجنوں جس کی عقل پر غصہ غالب ہو، سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔‘‘


حاکم، المستدرک، 2 : 68، رقم 2351، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه


ابن حبان، الصحيح، 1 : 356، رقم 143، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1414ه


ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 348، رقم 3048، ، المکتب الاسلامی، بيروت، سن اشاعت1390ه


نسائی، السنن الکبری، 4 : 323، رقم 7343، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه


ابو داؤد، السنن، 4 : 140، رقم 4401، دار الفکر


دار قطنی، السنن، 3 : 138، رقم 173، دار المعرفة، بيروت، سن اشاعت 1386ه


هندی، کنز العمال، 4 : 98، رقم 10309، دارالکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1419ه


سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :


رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی يستيقظ وعن الغلام حتی يحتلم وعن المجنون حتی يفيق.


’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک سمجھدار نہ ہو جائے۔‘‘


ابن حبان، الصحيح، 1 : 355، رقم 142، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1414ه


ابوداؤد، السنن، 4 : 141، رقم 4403، دارالفکر


ييهقی، السنن الکبری، 3 : 83، رقم 4868، مکتبة دار الباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1414ه


امام نسائی اور ابن ماجہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنھا کی روایت کو چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ بیان کیا ہے :


رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی يستيقظ وعن الصغيرحتی يکبروعن المجنون حتی يعقل أويفيق.


’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے، چھوٹا (بچہ) جب تک بڑا (بالغ) نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک عقل مند یعنی سمجھدار نہ ہو جائے۔‘‘


نسائی، السنن الکبری، 4 : 323، رقم 7343، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه


ابن ماجه، السنن، 1 : 658، رقم 2041، دارالفکر، بيروت


حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :


لا طلاق و لاعتاق فی اغلاق.


’’شدید غصہ میں نہ طلاق ہے نہ ہی غلام آزاد کرنا‘‘۔


حاکم، المستدرک، 2 : 216، رقم 2802، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه


ابوداؤد، السنن، 1 : 258، رقم 2193، دار الفکر


ابن ماجه، السنن، 1 : 660، رقم 2046، دار الفکر، بيروت


بيهقی، السنن، 7 : 357، رقم 14874، مکتبة دار الباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1414ه


دار قطنی، السنن، 4 : 36، رقم 99، دار المعرفة، بيروت، سن اشاعت 1386ه


ابن ابی شيبه، المصنف، 4 : 73، رقم 18038، مکتبة الرشد الرياض، سن اشاعت 1409ه


أبو يعلی، المسند، 7 : 421، رقم 4444، دار المأمون للتراث دمشق، سن اشاعت 1404ه


احمد بن حنبل، المسند، 6 : 276، رقم 26403، مؤسسة قرطبه، مصر


شاميين، المسند، 1 : 287، رقم 500، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1405ه


علامہ عینی’’عمدۃ القاری‘‘میں اور عبداﷲ بن یوسف الزیلعی’’نصب الرایہ (شرح ھدایہ)‘‘میں لکھتے ہیں :


قال أبوداؤد’’الغلاق أظنّه الغضب‘‘


امام ابوداؤد نے کہا’’میرے خیال میں اغلاق کا معنی غصہ ہے۔‘‘


عينی، عمدة القاری، 20 : 250، دار احياء التراث العربي، بيروت


عبداﷲ بن يوسف، نصب الراية، 3 : 223، دارالحديث، مصر، سن اشاعت 1357ه


محمد بن ابی بکرایوب الزرعی المعروف بابن القیم الجوزی الدمشقی متوفی 157ھ بھی اغلاق کامعنی’’غصہ‘‘ہی بیان کرتے ہیں ۔


محمدبن ابی بکر، زادالمعاد، 5 : 214، مؤسسةالرسالة مکتبةالمنار، بيروت الکويت، سن اشاعت1407ه


ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :


کل طلاق جائزالاطلاق المعتوه.


’’ہر طلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے۔‘‘


ابن انی شيبه، المصنف، 4 : 72، رقم17912، 17914، مکتبة الرشدالرياض، سن اشاعت1409ه


عبدالرزاق، المصنف، 6 : 409، رقم11415، المکتب الاسلامی، بيروت


علی بن جعد، المسند، 1 : 120، رقم742، مؤسسةنادر، بيروت، سن اشاعت1410ه


کل طلاق جائزالاطلاق المعتوه والمغلوب علی عقله.


’’ہرطلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے جس کی عقل پرغصہ غالب ہو۔‘‘


ترمذی، السنن، 3 : 496، رقم1191، داراحياء التراث العربي، بيروت


هندی، کنزالعمال، 9 : 278، 27771، دارالکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت1419ه


فقہائے کرام کے نزدیک شدیدغصہ میں دی جانے والی طلاق کی حیثیت درج ذیل ہے۔


أراد بالجنون من فی عقله اختلال، فيدخل المعتوه وأحسن الأقوال فی الفرق بينهماأن المعتوه هوالقليل الفهم المختلط الکلام الفاسدالتدبيرلکن لايضرب ولايشتم بخلاف الجنون ويدخل المبرسم والمغمی عليه والمدهوش.


جنون (پاگل پن) کامطلب ہے کسی کی عقل میں خرابی وخلل آنا، اس میں معتوہ شامل ہے، دونوں میں فرق کرنے میں بہترین قول یہ ہے کہ معتوہ کامطلب ہے کم فہم، جس کی گفتگومیں غلط اورصحیح خلط ملط ہولیکن معتوہ(مغلوب الغضب)نہ مارتاہے نہ گالی گلوچ بکتاہے، بخلاف مجنوں (پاگل)کے اس میں سرسام والا، بیہوش اور مدہوش داخل ہیں ۔


ابن نجيم الحنفی، البحرالرائق، 3 : 268، دارالمعرفة، بيروت


فالذی ينبغی التعويل عليه فی المدهوش ونحوه اناطةالحکم بغلبةالخلل فی أقواله وأفعاله الخارجةعن عادته، وکذايقال فيمن اختلّ عقله لکبرأولمريض أولمصيبةفاجأ ته فمادام فی حال غلبةالخلل فی الاقوال والافعال لاتعتبراقواله وان کان يعلمهاويريدهالأن هذه المعرفةوالارادةغيرمعتبرةلعدم حصولهاعن ادراک صحيح کمالاتعتبرمن الصبی العاقل.


مدہوش وغیرہ کی قابل اعتماد بات یہ ہے کہ اس صورت میں حکم شرعی کا مدار اس کے اقوال وافعال میں عادت سے ہٹ کر اور اس کے خلاف بیہودگی و خرابی پائی جانے سے ہے یوں جس کی عقل میں بڑھاپے، بیماری اور کسی اچانک مصیبت کی بنا پر خلل آجائے تو اس کے اقوال و افعال جب تک یہ کیفیت غالب رہے گی، اس کی باتوں کا اعتبار نہ ہو گا ۔اگرچہ ان کو جانتا ہو اور ان کا ارادہ کرے کہ یہ جاننااور ارادہ کرنا معتبر نہیں اس لیے کہ ادراک صحیح سے حاصل نہیں ہوا جیسے عقلمند بچے کی بات کا اعتبار نہیں ۔


ابن عابدين، ردالمحتار، 3: 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه


عالمگيری 1: 353، طبع کوئته


الکاسانی، بدائع الصنائع، 3: 100


هدايه مع فتح القدير، 3: 343، طبع سکهر


عبدالرحمن الجزری ’’الفقه علی المذاهب الاربعة‘‘


ميں لکھتے ہيں


والتحقيق عندالحنفيةأن الغضبان الذی يخرجه غضبه عن طبيعته و عادته بحيث يغلب الهذيان علی أقواله وأفعاله فان طلاقه لايقع، وان کان يعلم مايقول ويقصده لأنه يکون فی حالةيتغيرفيهاادراکه، فلايکون قصده مبنياعلی ادراک صحيح، فيکون کالمجنون، لان المجنون لايلزم أن يکون دائمافی حالةلايعلم معهامايقول : فقديتکلم فی کثيرمن الأحيان بکلام معقول، ثم لم يلبث أن يهذی.


’’حنفیہ کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ وہ غصہ والاشخص جسے اس کاغصہ اس کی طبیعت اورعادت سے اس طرح باہرکردے کہ اس کی باتوں اوراس کے کاموں پربے مقصدیت غالب آجائے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی، اگرچہ وہ جانتاہوکہ وہ کیاکہہ رہاہے اورارادہ سے ہی کہتاہوکیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتاہے کہ جس میں اس کاادراک یعنی سوجھ بوجھ میں تغیر اور تبدیلی آجاتی ہے لہٰذا اس کا قصد و ارادہ صحیح شعور و صحیح ادراک پر مبنی نہیں ہوتا، پس وہ (مجنوں و دیوانہ تو نہیں ہوتا لیکن وقتی طور پر) مجنوں کی طرح ہو جاتا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ مجنوں ہمیشہ ویسی حالت میں رہے کہ جو کہے اسے اس کاپتہ نہ ہو بلکہ بعض اوقات میں وہ معقول (عقل مندوں کی طرح) باتیں کرتا ہے، پھر اوٹ پٹانگ مارنا شروع کر دیتا ہے۔


عبد الرحمن الجزيری، کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 4: 294-295، دار احياء التراث العربی، بيروت. لبنان

پروفیسرمحمدیاسین مظہرصدیقی رحمۃ اللہ علیہ

 پروفیسرمحمدیاسین مظہر صدیقی،نامورسیرت نگاراور مؤرخ اتر پردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری کے گاؤں "گولا" میں 26 دسمبر سنہ 1944ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی، بعد ازاں روایتی دینی تعلیم کے لیے لکھنؤ کے دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے اور 1959ء میں وہاں سے عالمیت اور فضیلت مکمل کی۔ 1960ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضلِ ادب کیا۔ 1962ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے ہائر سکینڈری کا امتحان پاس کیا، پھر اسی یونیورسٹی سے 1965ء میں بی-اے اور 1966ء میں بی-ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔


بعد ازاں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے 1968ء میں ایم-اے تاریخ، 1969ء میں ایم-فل اور 1975ء میں تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان تینوں اداروں کی نسبت سے ڈاکٹر موصوف ندوی، جامعی اور علیگ تھے۔ جن اساتذہ کرام انھوں نے فیض پایا ان میں ہندوستان کی نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔ ان میں سے مولانا سیدابو الحسن علی ندوی، پروفیسرخلیق احمد نظامی، اسحاق سندھیلوی، عبد الحفیظ بلیاوی، عبد الوحید قریشی، غلام محمد قاسمی، مجاہد حسین زیدی اورمولانا سیدمحمد رابع حسنی ندوی شامل ہیں۔ .
موصوف کے زمانۂ طالب علمی میں عربی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ عالم وادیب عبدالعزیزالمیمنی علی گڑھ میں عربی کے استاذ تھے مرحوم ان کے واقعات برسرتذکرہ سنایاکرتے تھے.
تدریسی زندگی :
ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کے تدریسی سفر کا آغاز سنہ 1970ء سے ہوا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ تعینات ہوئے۔ 1977ء میں ان کا تقرر اسی شعبہ میں بطور لیکچرار کے ہوا۔ 1983ء میں سید حامد صاحب ان کو علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے "ادارہ علوم اسلامیہ" میں لے آئے، 1991ء میں پروفیسر بنائے گئے۔ 1997ء سے 2000ء تک بطور ڈائریکٹر ادارہ علوم اسلامیہ فرائض سر انجام دیئے۔ 2001ء میں علوم اسلامیہ کے ذیلی ادارہ "شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل" کے ڈائریکٹر بھی بنا دیئے گئے۔ 31 دسمبر 2006ء میں ادارہ علوم اسلامیہ سے سبکدوش ہو گئے تاہم شاہ ولی اللہ ریسرچ سیل کے ڈائریکٹر کے طور پر تقریباً دس سال کام کیا۔ اس دوران انھوں نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مختلف پہلوؤں 2000ء سے 2010ء تک قومی و بین الاقوامی سیمینار منعقد کروائے اور 18 کے قریب چھوٹی بڑی کتب منصۂ شہور پر آئیں۔

تصانیف :
نبی اکرم ﷺ اور خواتین ایک سماجی مطالعہ(ہفتہ 17 مئی 2014ء)
سیرت النبی ﷺگوشہ نسواں
عہد نبوی ﷺ کا نظام حکومت(اتوار 01 جون 2014ء)ناشر : ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ/صفحات: 138
عہد نبوی میں تنظیم حکومت وریاست
حکومت و ریاست سیرت النبی
خلافت اموی خلافت راشدہ کے پس منظر میں(اتوار 22 مئی 2016ء)ناشر : مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھنجن، یو پی/صفحات: 265
۔تاریخ اسلام
بنو ہاشم اور بنو امیہ کے معاشرتی تعلقات(ہفتہ 01 اپریل 2017ء)ناشر : مکتبہ قاسم العلوم، لاہور/صفحات: 187
تاریخ عرب
رسول اکرم ﷺ کی رضاعی مائیں(اتوار 09 اپریل 2017ء)ناشر : مکتبہ قاسم العلوم، لاہور
/صفحات: 170

مزید مطالعہ۔۔۔خاندان نبوی6#5542مصنف : ڈاکٹر محمد یسین مظہر صدیقی مشاہدات : 5261حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، شخصیت و حکمت کا ایک تعارف(اتوار 28 مئی 2017ء)ناشر : شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل، ادارہ علوم اسلامیہ، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ صفحات: 48

شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی (1703-1762)
شاہ ولی اللہ دہلوی  کی قرآنی خدمات(پیر 28 اگست 2017ء)ناشر : ادارہ علوم اسلامیہ علی گڑھ/صفحات: 216
خطبات سرگودھا سیرت نبوی ﷺ کا عہد مکی(اتوار 04 فروری 2018ء)ناشر : شعبہ علوم اسلامیہ یونیورسٹی آف سرگودھا/صفحات: 307
رسول اکرمﷺ کی رضاعی مائیں(ہفتہ 27 جنوری 2018ء)ناشر : مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھنجن، یو پی/صفحات: 177
۔سیرت النبی ﷺخاندان نبوی
سر سید اور علو م اسلامیہ(بدھ 25 اپریل 2018ء)ناشر : ادارہ علوم اسلامیہ علی گڑھ
صفحات: 334

وفات:15 ستمبر 2020ء کو بوقت 12بجے دن .

Tuesday 15 September 2020

مشاجرات صحابہ اور اہل سنت والجماعت کا موقف

 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان پیش آنے والے اختلافات و حروب کو مشاجراتِ صحابہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اہل السنہ و الجماعہ کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ حسنِ ظن رکھا جائے، ان پر کسی قسم کا طعن نہ کیا جائے،کیوں کہ صحابہ کرام کے جن دو فریقوں میں اختلافات ہوئے، اس کی بنیاد اجتہاد تھا، جن دو جماعتوں کے درمیان جنگ ہوئی ان میں سے ہر ایک فریق اپنے آپ کو حق پر اور فریقِ مخالف  کو باغی سمجھتا تھا، اور باغیوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے قرآنی طریقہ پر عمل پیرا ہوا۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور اپنے اجتہاد میں مصیب تھے، جب کہ ان کے مد مقابل  اجتہادی چوک کا شکار ہوئے، تاہم فریقین میں سے کسی ایک کا بھی مقصد دنیاوی اغراض نہ تھے، جس کے نتیجہ میں دونوں ہی عند اللہ ماجور ہوں گے، ان شاء اللہ!

باقی مشاجرات کے معاملے میں سکوت اختیار کرنا چاہیے، بحث مباحثہ،  لعن طعن کرنا بزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ممنوع ہے۔

"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے:

"عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :"إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا، وإذا ذكرت النجوم فأمسكوا، وإذا ذكر القدر فأمسكوا )". ( ٢ / ٩٦ )

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جب میرے اصحاب کا ( یعنی ان کے  باہمی اختلافات وغیرہ کا ) ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب ستاروں کا ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب تقدیر کا ذکر چھڑے تو رک جاؤ، ( یعنی اس میں زیادہ غور و خوض اور بحث و مباحثہ نہ کرو)۔

فتح الباري لابن حجرمیں ہے:

"واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن علی أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك، ولو عرف المحق منهم؛ لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب إلا عن اجتهاد، وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد، بل ثبت أنه يؤجر أجراً واحداً، وأن المصيب يؤجر أجرين". (کتاب الفتن باب إذا التقیٰ المسلمان، ١٣ / ٤٣ )

ترجمہ: اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بنا پر ان میں کسی ایک صحابی پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے،  اگرچہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف موقفِ حق تھا ؛ کیوں کہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناپر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے، بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا، اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا۔

بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني شرح الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيبانيمیں ہے:

"( قال النووي:) ... واعلم أن الدماء التي جرت بين الصحابة رضي الله عنهم ليست بداخلة في هذا الوعيد، و مذهب أهل السنة و الحق: إحسان الظن بهم و الإمساك عما شجر بينهم و تأويل قتالهم، و أنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية و لا محض الدنيا، بل اعتقد كل فريق أنه المحق و مخالفه باغ، فوجب عليه قتاله ليرجع إلي امر الله، و كان بعضهم مصيباً و بغضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ؛ لأنه لاجتهاد، و المجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه، وكان علي رضي الله عنه هو المحق المصيب في تلك الحروب، هذا مذهب أهل السنة، وكانت القضايا مشتبهةً حتى أن جماعة من الصحابة تحيروا فيها فاعتزلوا الطائفتين و لم يقاتلوا و لم يتيقنوا الصواب، ثم تأخروا عن مساعدتهم، و الله اعلم". ( باب إحسان النية علي الخير و مضاعفة الاجر بسبب ذلك و ما جاء بسبب العزم و الهم، ١٩ / ٧ ، ط: دار إحياء التراث العربي، بيروت)

ترجمہ: اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحبِ رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے؛ تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے؛کیوں کہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد سے گر خطا سرزد ہوجائے تو اس پر گناہ نہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے، یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا۔