https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 2 April 2022

In the failed marriage not giving divorce is cruelty

The Kerala High Court on Tuesday said a spouse refusing to give divorce on mutual consent, despite being convinced that the marriage has failed, amounts to cruelty. “No one can force another to continue in a legal relationship if it deteriorates beyond repair,” observed a division bench of the court. It issued the order on a petition filed by a 32-year-old woman from Pathanamthitta against the order of the Nedumangad family court that granted divorce. Her husband, realising that he could not move forward with the marriage, had approached the family court for divorce on the ground of cruelty. He cited the woman’s constant and recurring quarrelsome attitude as the ground for divorce. The woman, in her plea, denied any sort of misbehaviour from her side. However, she admitted the husband had failed to offer care and emotional support when it was required, including during pregnancy. Citing that the couple has been living separate since 2017, the court upheld the family court’s order to grant divorce.

Tuesday 29 March 2022

فضائل میں ضعیف حدیث قبول کرنے کے شرائط

فضائل میں بعض محدثین نے ضعیف روایات کو قبول کیا ہے۔ ان میں حافظ ابن حجر، امام نووی وغیرہ قابل ذکر ہیں اور جن محدثین نے فضائل میں ضعیف احادیث کو قبول کیا ہے انہوں نے بھی اس کی چند شرائط مرتب کی ہیں۔ اگر ضعیف حدیث ان شرائط پر پوری اترے گی تو وہ ضعیف حدیث فضائل میں قابل قبول ہوگی ورنہ اسے رد کر دیا جائے گا۔ وہ شرائط ملاحظہ ہوں: 1 ﴿ان یکون الضعف غیر شدید فیخرج من الفرد من الکذابین، ولمھمین بالکذب،، ومن فحش غلطہ (وقد نقل السخاوی الاتفاق علی ھذا الشرط) ﴾ ترجمہ: (اس کا ضعف شدید نہ ہو، یعنی اس میں منفرد کاذبین، متھم بالکذب اور فحش غلطیاں کرنے والے نہ ہوں ( امام سخاوی نے اس شرط پر محدثیں کا اتفاق لکھا ہے۔)) 2 ﴿ان یکون الضعیف مردجا تحت اصل عام فیخرج ما یخترع بحیث لا یکون لہ اصل معمول بہ اصلاً﴾ ترجمہ: (وہ حدیث کسی معمول بہ اور ثابت شدہ اصل کے ضمن میں آتی ہو اس سے اختراع خارج ہو جائی گی جن کی کوئی اصل نہیں۔) 3 ﴿ان لا یعتقد عند العمل بہ ثبوتہ لئلا ینسب الی النبی ﷺ بل یعتقد الاحتیاط﴾ ترجمہ: (عمل کرتے ہوئے اس پر نبی ﷺ کی سنت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے بلکہ احتیاط کی نیت سے عمل کیا جائے۔) (تیسر مصطلح الحدیث ص۸۱) 4 ﴿ان لا یعارض حدیثا صحیحا﴾ ترجمہ: (کسی صحیح حدیث کی متعرض نہ ہو۔) اس کے علاوہ حافظ ابن حجر a نے ایک اور شرط بیان کی ہے: 5 ﴿ان لا یشنھر ذلک لئلا یعمل المرء بحدیث ضعیف فیرع ما لیس یشرع، او یراہ بعض الجھال فظن انہ سنة صحیحة﴾(الحدیث الضعیف، وحکم الاحتجاج ص۲۷۳،۲۷۴) ترجمہ: (اس کو مشہور نہ کیا جائے یہاں تک کہ لوگ اس کو شریعت سمجھ کر اس پر عمل کریں ، حالانکہ وہ شریعت نہیں ہے اور بعض جاہل یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ یہ سنت صحیح ہے۔ ) ان شرائط میں سے پہلی شرط پر محدثین کا اتفاق ہے کہ اس میں ضعف شدید نہ ہو، اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ ضعیف حدیث کسی ایسی صحیح حدیث کے تحت آتی ہو یعنی کوئی ایسا عمل جو صحیح حدیث سے ثابت ہو اور اس عمل کی ترغیب دینے کے لیے اس بارے میں ضعیف حدیث کو بیان کیا جائے مگر بعض لوگوں نے اس ضعیف حدیث میں اس عمل کے بارے میں جو تفصیلی حکم موجود ہے اس کو بھی بیان کرنا شروع کر دیا اور اس کی مثال امام شاطبی نے اعتصام میں بیان کی کہ: ﴿اذا جاء ترغیب فی صلاة لیلة النصف من شعبان فقد عضدہ اصل الترغیب فی صلاة النافلة وما اثبہ تلک ولیس کما توھموا لان الاصل اذا ثبت لا یلزم اثباتہ فی التفصیل حتی یثبت التفصیل بلیل صحیح ثم ینظر بعد ذلک فی احادیث الترغیب الترھیب بالنسبة الی ذلک العمل الخاص بالدلیل الصحیح﴾ (اعتصام ، جلد۱، ص ۱۸۱) ترجمہ: (پندرھویں شعبان کی رات میں نماز کی ترغیب کے بارے میں جو موجود ہے اس میں شک نہیں کہ اس کی اصل بنیاد نوافل کی ترغیب کے بارے میں ہے اور اس کی اصل بنیاد (نوافل کی ترغیب) تو ثابت ہے۔ مگر یہ لازم نہیں ہے کہ اس میں جو تفصیل (شعبان کی رات میں شب بیداری ) بیان ہوئی ہے وہ بھی ثابت ہو جیسا کہ بعض کو اس سے وہم ہوا ہے۔ کیونکہ تفصیل دلیل صحیح سے ثابت ہوتی ہے ، پھر یہی دیکھا جاتا ہے کہ احادیث ترغیب و ترھیب میں جو خاص عمل بیان کیا گیا ہے اس پر کوئی دلیل صحیح موجود ہے۔) امام شاطبی کے قول سے یہی بات واضح ہے کہ فضائل میں فقط ان احادیث کا بیان کرنا صحیح ہے جس میں کسی ایسے عمل کی ترغیب ہو جو صحیح حدیث سے ثابت ہو مگر اس ضعیف حدیث میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کو بیان نہ کیا جائے۔ کیونکہ ضعیف حدیث میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ اگر دلیل صحیح سے ثابت ہوگی تو اس کو قبول کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر ہم تیسری شرط پر غور کریں تو اس میں یہ موجود ہے کہ اس پر عمل سنت سمجھ کے نہ کیا جائے۔

Monday 28 March 2022

بیماری سے شفاء کاوظیفہ

بیماری کا علاج جیسے دوا سے ہوتاہے اسی طرح مسنون دعاؤں اور کلمات سے بھی اللہ تعالیٰ بیماریوں کو ٹالتے ہیں، آپ علاج کے لیے درج ذیل امور پر عمل کیجیے: 1- حسبِ استطاعت کثرت سے صدقہ کیجیے؛ کیوں کہ صدقہ کرنا بہترین علاج ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کیا کرو، صدقہ بیماری کو دور کرتا ہے؛ اس لیے حسبِ توفیق صدقہ ادا کرتے رہیں۔ جامع الأحاديث (11/ 277): ''تصدقوا وداووا مرضاكم بالصدقة؛ فإن الصدقة تدفع عن الأعراض والأمراض، وهي زيادة في أعمالكم وحسناتكم''. (البيهقي في شعب الإيمان عن ابن عمر) ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ دو اور اپنے مریضوں کا صدقے کے ذریعے علاج کرو ؛ اس لیے کہ صدقہ پریشانیوں اور بیماریوں کو دور کرتاہے اور وہ تمہارے اعمال اور نیکوں میں اضافے کا سبب ہے۔ 2- روزانہ صبح نہار منہ سات دانے مدینہ منورہ کی عجوہ کھجور کھائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیماری بہت جلد ختم ہوجائے گی۔ حدیث شریف میں ہے: ''عن سعد قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من تصبّح بسبع تمرات عجوة لم يضره ذلك اليوم سم ولا سحر. متفق عليه. وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن في عجوة العالية شفاء، وإنها ترياق أول البكرة. رواه مسلم.'' ترجمہ:حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص صبح کے وقت عجوہ (کھجور) کے سات دانے کھائے اس دن اسے نہ تو زہر نقصان پہنچائے گا نہ ہی جادو۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک عالیہ (مدینہ منورہ کی بالائی جانب) کی عجوہ (کھجور) میں شفا ہے، اور اسے نہار منہ کھانا "تریاق" (زہرکا علاج) ہے۔ (مسلم) 3- مسنون دعاؤں کی کوئی مستند کتاب (مثلاً: مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب کی کتاب "مسنون دعائیں") خرید لیجیے، اور اس سے صبح وشام حفاظت کی دعائیں اور بیماری وغیرہ کی دعائیں پڑھنے کا اہتمام کریں۔ 4- "یا سلام" کا کثرت سے ورد کریں، امید ہے اللہ پاک جلد صحت سے نوازیں گے۔ 5- درج ذیل اذکار صبح و شام سات سات مرتبہ پابندی سے یقین کے ساتھ پڑھ کر دونوں ہاتھوں میں تھتکار کر سر سے پیر تک اپنے پورے جسم پر پھیردیں ان شاء اللہ ہر قسم کےسحر، آسیب اور نظرِ بد کے اثراتِ بد سے حفاظت رہے گی: درود شریف، سورہ فاتحہ، آیۃ الکرسی، سورہ الم نشرح، سورہ کافرون، سورہ اخلاص، سورہ فلق، سورہ ناس اور درود شریف 6- درج ذیل دعا صبح و شام پڑھنے کا اہتمام کریں: " أَعُوْذُ بِوَجْهِ اللهِ الْعَظِيْمِ الَّذِيْ لَيْسَ شَيْءٌ أَعْظَمَ مِنْهُ، وَبِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ الَّتِيْ لَايُجَاوِزُهُنَّ بَـرٌّ وَّلَا فَاجِرٌ، وَبِأَسْمَآءِ اللهِ الْحُسْنىٰ كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ۔ " اس کے علاوہ پنج وقتہ باجماعت نمازوں کا اہتمام کریں اور ہمیشہ باوضو رہنے کی کوشش کریں

ناخن کاٹنے کا مستحب طریقہ

صحیح یہی ہے کہ ناخن کاٹنے کا کوئی طریقہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ مستحب یہ ہے کہ پہلے دائیں ہاتھ کے ناخن کاٹے جائیں پھر بائیں ہاتھ کے۔اور دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرنا چاہیے۔ جہاں تک بات ہے کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کرنے کی، تو علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دائیں ہاتھ کے مکمل ناخن پہلے کاٹنے چاہییں، پھر بائیں ہاتھ کے مکمل ناخن۔ حافظ ابن حجر، ابن دقیق العید، علامہ سیوطی اور علامہ ابن عابدین رحمہم اللہ جیسے محققین نے یہی لکھا ہے کہ ناخن کاٹنے کا سنت طریقہ ثابت نہیں ہے، لہٰذا کسی طریقے سے بھی کاٹ سکتے ہیں، تاہم بہتر طریقہ وہ ہے جو اوپر لکھا گیا۔ قال الحصکفي: "وفي شرح الغزاویة: روي أنه صلی اللّٰة علیه وسلم بدأ بمسبحته الیمنی إلی الخنصر، ثم بخنصر الیسری إلی الإبهام، وختم بإبهام الیمنی. و ذکر له الغزالي في الإحیاء وجهاً وجیهاً ... قلتُ: وفي المواهب اللدنیة: قال الحافظ ابن حجر: إنه یستحب کیفما احتاج إلیه، ولم یثبت في کیفیته شيء، ولا في تعیین یوم له عن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم". قال ابن عابدین: "(قوله: قلتُ الخ) وکذا قال السیوطي، وقد أنکر الإمام ابن دقیق العید جمیع هذه الأبیات، وقال: لا تعتبر هیئة مخصوصة، وهذا لا أصل له في الشریعة، ولایجوز اعتقاد استحبابه؛ لأن الاستحباب حکم شرعي لا بد له من دلیل". (الدر المختار مع رد المحتار: ۶/۴۰۶، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: دار الفکر، بیروت) "قال النووي: ویستحب أن یبدأ بالید الیمنی، ثم الیسری، ثم الرجل الیمنی، ثم الیسری. قال الغزالی في الإحیاء: یبدأ بمسبحة الیمنی، ثم الوسطی، ثم البنصر، ثم الخنصر، ثم خنصر الیسری إلی إبهام الیمنی، وذکر فیه حدیثاً وکلاماً لا أوثر ذکره، والمقصود أن الذي ذکره الغزالي لابأس به إلا في تاخیر إبهام الیمنی، فلا یقبل قوله فیه؛ بل یقدم الیمنی بکمالها، ثم یشرع في الیسری، وأما الحدیث الذي ذکره، فباطل لا أصل له". (المجموع شرح المهذب: ۱/۲۸۳، ط: دار الفکر، بیروت)