https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 27 May 2021

طبیہ کالج اے ایم یو علی گڑھ کی آن لائن طبی خدمات جاری

 علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی فیکلٹی آف یونانی میڈیسن کے شعبہ جراحت نے مختلف امراض میں مبتلا افراد کے لیے آن لائن اور ٹیلی کنسلٹیشن خدمات کا آغاز کیا ہے۔ شعبہ نے ای این ٹی، آپتھلمالوجی اور جنرل سرجری میں بھی آن لائن طبی مشاورت کی سہولت شروع کی ہے، جس سے عام مریضوں کو کافی راحت ملے گی۔ شعبہ کے ڈاکٹر اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق کام کے ایام میں پیر سے سنیچر تک صبح گیارہ بجے سے دوپہر ایک بجے تک آن لائن طبی مشاورت کے لیے دستیاب رہیں گے۔جراحت شعبہ کے چیئرمین پروفیسر اقبال عزیز (ایم بی بی ایس، ایم ایس جنرل سرجری) کی جانب سے جاری نظام الاوقات کے مطابق وہ خود منگل اور جمعہ کو فون نمبر 8527468191/ 9897008768 ،اور ای میل آئی ڈی waseemahmad32@yahoo.com پر مریضوں کے لیے دستیاب رہیں گے۔ پروفیسر تفسیر علی (بی یو ایم ایس، ایم ایس جراحت) بدھ اور سنیچر کو فون نمبر 7017474312 ، اور ای میل : tafseerali@gmail.com کے ذریعہ مریضوں کی طبی مشورہ دیں گے۔ اسی طرح ڈاکٹر وسیم احمد (بی یو ایم ایس، ایم ایس جراحت) سے ای میل آئی ڈی : waseemahmad32@yahoo.comکے ذریعہ پیر اور جمعرات کو رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آپتھلمالوجی اور ای این ٹی سے متعلق مریض پیر اور جمعہ کو ڈاکٹر راحیدہ ہلال (بی یو ایم ایس، ایم ایس جراحت) سے فون نمبر 9997606097 اور ای میل آئی ڈی : rahidahilal@gmail.com پر رابطہ کرسکتے ہیں، جب کہ ای این ٹی میں جدیدطبی مشاورت کے لیے ڈاکٹر یاسمین عزیز (ایم بی بی ایس، ایم ایس ای این ٹی) منگل اور جمعرات کو فون نمبر : 9837165138 ، اور ای میل آئی ڈی : yasmeenaziz1972@gmail.com پر دستیاب رہیں گی۔ان کے علاوہ آپتھلمالوجی میں جدید طبی مشاورت کے لیے ڈاکٹر نیہا تیاگی (ایم بی بی ایس، ایم ایس) سے بدھ اور سنیچر کو فون نمبر: 7011557367، اور ای میل آئی ڈی : nehakgmc08@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

مسجدالجمیل کی شہادت

 اترپردیش کے کھتولی، ضلع مظفرنگر کی مسجد الجمیل کو مقامی حکام کے ذریعہ شہید کئے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کارگزار جنرل سکریٹری، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) نے کہا کہ ''ابھی ضلع بارہ بنکی کی مسجد غریب نوازکا زخم مندمل نہیں ہوا تھا کہ کھتولی ضلع مظفرنگر کی مسجد الجمیل بھی شہید کردی گئی۔''

مولانا رحمانی نے کہاکہ اور مقامی پولیس نے بغیر کسی تحقیق کے اِس کو سرکاری زمین بتاکر مسجد شہید کردی، حالانکہ یہ زمین وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے اور متولی کے پاس اس کے کاغذات بھی موجو د ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ قانونی کاروائی کے سلسلہ میں صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے، اور اترپردیش گورنمنٹ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یہ زمین متولی کے حوالہ کردے، اور جن پولیس عہدہ داروں نے اس غیر قانونی حرکت کا ارتکاب کیا ہے، ان کو معطل کرکے قرار واقعی سزا دی جائے، نیز انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ مسجدوں کے کاغذات بنوائیں اور ان کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کریں؛ تاکہ فرقہ پرست، متعصب اور فرض ناشناس قسم کے پولیس افسروں سے مسجدوں کی حفاظت ہو۔




Wednesday 26 May 2021

لکشدیپ میں زہرگھولنے کی کوشش

 نئی دہلی،24؍ مئی (ایس او نیوز؍پر یس ریلیز) پاپولرفرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے اپنے ایک حالیہ بیان میں ملک کی جمہوری طاقتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر مرکزی حکومت کے ان اقدامات کی مزاحمت کریں جن کی وجہ سے جزیرہ لکشدیپ کے باشندگان کی مذہبی، ثقافتی و لسانی شناخت اور شہری حقوق خطرے میں پڑ گئی ہے۔

پرفل پٹیل کے یونین ٹیریٹری کے مرکزی ایڈمنسٹریٹر کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سے لکشدیپ میں جو قواعد و اصلاحات فروغ پا رہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک اور عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔ بی جے پی رہنما اور مودی کے قریبی ساتھی پرفل پٹیل کی تقرری غلط ارادوں کے ساتھ لیا گیا ایک سیاسی فیصلہ ہے اور یہ اس قاعدے کے خلاف بھی ہے جس کے تحت ایک یونین ٹیریٹری ایڈمنسٹریٹر کے لئے آئی اے ایس افسر ہونا ضروری ہے۔ ان کے زیر انتظام اپنائے جا رہے آمرانہ طریقوں کے نہ صرف جزیرے کے باشندوں کی روزمرہ کی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جو ان کی منفرد ثقافت و روایات کو برباد کردیں گے، بلکہ اس سے پورے جزیرے کے نظام حیات اور ماحولیات کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ بیف پر پابندی اور اسکولوں کے مِڈڈے میل کے مینو سے بیف کو ہٹانے کا ظالمانہ فیصلہ مسلم اکثریتی آبادی کے بھگواکرن کے سنگھ پریوار کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
تقریباً سال بھر سے یہ جزیرہ کووڈ فری رہا ہے۔ لیکن پرفل پٹیل نے عوام کی شدید مخالفت کے باوجود کووڈ کے نئے ضوابط کو نافذ کر دیا۔ جس کے بعد سے یہ وبا یہاں تیزی سے پھیلنے لگی۔ اس نئے پروٹوکال کی مخالفت میں جو لوگ بھی آگے آئے انہیں سنگین مقدمات کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ابھی لکشدیپ میں ظالمانہ غنڈہ ایکٹ بھی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ لکشدیپ ملک کے سب سے پرامن ٹیریٹریز میں سے ایک ہے جہاں جرائم اور قیدیوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ اسے جزیرے میں اٹھ سکنے والی ہر سیاسی مخالفت کی آواز کے خلاف ظالمانہ کاروائیوں کا پیش خیمہ سمجھنا چاہئے۔
لکشدیپ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ریگولیشن غیرجمہوری و غلط طریقے سے جزیرے کے باشندوں پر زمین کی ملکیت اور استعمال پر پابندی عائد کرتاہے، جبکہ ترقی کے نام پر حکومت کو کسی بھی زمین کو اپنے قبضے میں لینے کا پورا اختیار دیتا ہے۔ حکومت اب بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کوسٹل ریگولیشن زون کے قواعد کے نام پر اُن چھپروں کو توڑ رہی ہے جسے مچھوارے اپنی کشتیاں کھڑی کرنے اور ذخیرہ کے مقصد سے استعمال کرتے تھے۔ یہ لوگوں کے روزگار پر حملہ ہے۔ یاد رہے کہ جزیرے کے باشندوں کی اکثریت کی روزی روٹی ماہی گیری پر منحصر ہے۔ وہیں سیاحتی و دیگر حکومتی شعبوں کی جانب سے سیکڑوں عارضی مزدوروں کو کام سے نکال دیا گیا ہے۔ جزیرے کے لوگوں پر ایسے عجیب و غریب قوانین اور پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جو پورے ملک میں کہیں نافذ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، لکشدیپ پنچایت ریگولیشن کے ڈرافٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ دو سے زیادہ بچوں والے لوگ لوکل باڈی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔
لکشدیپ صرف ہماری چھٹیوں کی سیروسیاحت کا ایک مرکز نہیں ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر وہ کچھ لوگوں کا گھر بھی ہے جنہیں وہ تمام یکساں حقوق حاصل ہیں جو ملک کے ہر شہری کو حاصل ہیں۔ ساتھ ہی انہیں درج فہرست قبائل کے طور پر خصوصی حقوق بھی حاصل ہیں۔ ان کی اپنی مذہبی، ثقافتی و لسانی پہچان ہے۔ ان کے شہری حقوق سلب کرنے اور ان کی منفرد پہچان کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش فسطائیت ہے۔ پاپولر فرنٹ ملک کی تمام جمہوری طاقتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر لکشدیپ کے باشندوں کے خلاف ہندوتوا ظالمانہ اقدامات کی مزاحمت کریں۔ 

Tuesday 25 May 2021

تین ہزار نفوس پرمشتمل گاؤں میں جمعہ

   السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں

چلی،میوات ہریانہ میں ۵۰۰ سے زائد  مکانات اور  تین ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ایک گاؤں ہے

 جس میں پکی اور بہترین سڑکیں ہیں

بجلی لائٹ بھی ہے

پانی بھی الحمد للّٰہ اچھا ہے


۳ مساجد  اور الحمدللہ ایک مدرسہ بھی ہے جہاں پنج وقتہ نماز  ہوتی ہے


۸ کلاس تک اسکول بھی ہے


۲٤/۲۵   دکانیں بھی ہیں 


 الحمدللہ گاؤں میں ڈاکٹر بھی موجود ہے

اور گاؤں کا ایک مستقل قبرستان بھی ہے

اور گاؤں میں روز مرہ کی ضروریات کا سامان بھی مل جاتا ہے


(یاد رہے کہ  اس گاؤں علاوہ اسی گاؤں کا ایک نگلہ  (محلہ) بھی ہے (جو اسی چلی گاؤں کا خاص خاندان اور پریوار ہے) گاؤں کے جنگل میں واقع ہے جس میں تقریباً ساڑھے پانچ سو سے زائد لوگوں کی آبادی ہے اس نگلہ میں ۲ مساجد بھی ہیں


اس نگلے کو ملاکر گاؤں کی کل آبادی ۳۵۰۰ سے زائد ہے


اس گاؤں  پہلے سے جمعہ نہیں ہوتا تھا مگرابھی فی الحال موجودہ لوک ڈاؤن اور کرونا وائرس کی وجہ سے کسی بڑے گاؤں قصبہ یا شہر میں نماز جمعہ کے لئے نا جانے کی وجہ سے ہم نے اپنے اسی گاؤں میں گزشتہ عید اور نماز جمعہ شروع کردیا ہے

  تو کیا اس گاؤں میں نماز جمعہ اور عیدین درست ہے یا نہیں

؟؟


جب کہ ہمارے علاقے میں اس سے چھوٹے گاؤں میں بھی نماز جمعہ ہورہی ہے

برائے مہربانی مفصل و مدلل جواب مرحمت فرمائیں


المستفتی محمد جابر چلی



الجواب وباللہ التوفیق


حنفیہ کے نزدیک جوازِ  جمعہ کے لیے مصر

 یا فنائے مصر کا ہونا یا قریہ کبیرہ (بڑا گاؤں) کا ہونا شرط ہے، قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو، اس گاؤں میں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں، اس گاؤں میں ڈاک خانہ، ہسپتال، اور قاضی مقرر ہو۔ اور جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں، اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا جائز نہیں۔


إعلاء السنن  میں ہے:


"عن علي أنه قال: لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر". (ج: 8، ص1، إدارة القرآن)


 فتاوی شامی میں ہے:


"وعبارة القستاني: تقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كما في المضمرات". (كتاب الصلاة، باب الجمعة ۲/ ۱۳۸ ط:سعيد)


            بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی آبادی تین یا چار ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے، لہذا اس میں جمعہ ادا کرنا صحیح ہوگا۔


            امداد الفتاوی میں ہے:


’’اور کبیرہ اور صغیرہ میں مابہ الفرق اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگا اور عرف کے تتبع سے معلوم ہوا کہ حکامِ وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں، چار ہزار آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں‘‘۔ (امداد الفتاوی ۱/ ۴۱۸ ط:دارالعلوم)


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:


’’محققین کی تحقیق یہ ہے کہ جو قریہ مثل چھوٹے قصبہ کے ہو مثلاً تین چار ہزار آدمی اس میں آباد ہوں وہ قریہ کبیرہ ہے اور جو اس سے کم ہو وہ چھوٹا ہے‘‘۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند ۱/ ۲۹۴ ط:دارالاشاعت)


الصنائع،ج۱،ص:۵۸۵


(۲) فتح القدیر،ج۲،ص:۴۷


لاجمعۃ ولاتشریق ولاصلاۃ الفطر ولا أضحی إلا فی مصر جامع أو فی مدینۃ عظیمۃ(۱)


علامہ شامی ردالمحتار میں تحریر کرتے ہیں:


قولہ وفی القہستانی……تائید للمتن وعبارۃ القہستانی تقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیھا أسواق قال أبو القاسم ھذا بخلاف…… وفیما ذکرنا إشارۃ الیٰ أنہ لاتجوز فی الصغیرۃ التی لیس فیھا قاض ومنبر خطیب (۲)


اور علامہ کاسانی ؒبدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:


أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعۃ وشرط صحۃ أدائھا عند أصحابنا حتی لا تجب الجمعۃ الا علیٰ أھل المصر ومن کان ساکنا فی توابعہ…… فلا تجب علی أھل القریٰ التی لیست من توابع المصر ولا یصح أداء الجمعۃ فیھا (۳)


اور جہاں کے لوگوں پر نماز جمعہ وعیدین واجب نہ ہو اور لوگ ادا کرتے ہیں تو ان کو منع کرنا چاہئے کیوں کہ ایسے گاؤں میں نماز جمعہ وعیدین مکروہ تحریمی ہے۔درمختار میں ہے:


وفی القنیۃ:صلاۃ العیدین فی القریٰ تکرہ تحریما أی لاشتغال بما لایصح لأن المصر شرط الصحۃ (۴)


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہر کس کو کہتے ہیں: فقہاء نے شہر کی مختلف تعریفیں کی ہیں مثلا شہروہ ہے


(۱) فتح القدیر،ج۲،ص:۴۹


(۲) ردالمحتار،ج۳،ص:۷


(۳)بدائع الصنائع،ج۱،ص:۵۸۳


(۴)ردالمحتار ج۲،ص:۱۶۷


جہاں ہر قسم کے پیشے موجود ہوں، جہاں ہر دن ایک بچہ پیدا ہوتا ہو اور ایک آدمی مرتا ہو، وہ جگہ جس کی آبادی کا شمار مشکل ہو، وہ جگہ جو دس ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل ہو (۱) اسی طرح بڑے گاؤں کی تمیز کیسے ہوگی یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جواہرالفقہ میں دونوں کے فرق کو اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ بڑا گاؤں وہ ہے جہاں مسلم وغیرمسلم وغیرہ ملاکر تقریباً تین ہزار افراد بستے ہوں ورنہ وہ چھوٹا گاؤں ہے اور اہل افریقہ اس طرح فرق کرتے ہیں کہ بڑا گاؤں وہ ہے جہاں کورٹ کچہری ہو اور اس کے اطراف میں تین ہزار افراد ہوں، لہذا ایسی جگہ میں نماز جمعہ وعیدین جائز ہے ورنہ نہیں (۲)


مفتی محمدسلمان منصورپوری دامت برکاتہم لکھتے ہیں:


 کتاب النوازل ص289 جلد 5

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر واقعۃً مذکورہ بستی کی آبادی ۳؍۴؍ ہزار کے درمیان ہے او روہاں ضروریاتِ زندگی بآسانی مہیا ہوجاتی ہیں تو ایسی جگہ نماز جمعہ پڑھنے میں شرعاً مضائقہ نہیں ہے، یہ بستی قریہ کبیرہ کے حکم میں ہوگی۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۸؍۶۴-۶۷ ڈابھیل، بہشتی زیور اختری ۱۱؍۸۰، فتاویٰ دارالعلوم ۵؍۶۶، امداد الفتاویٰ ۱؍۶۷۲)

عن الحسن ومحمد رحمہما اللّٰہ أنہما قالا: الجمعۃ في الأمصار۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۴؍۴۶ رقم: ۵۱۰۱)

ویشترط لصحتہا سبعۃ أشیاء الأول: المصر، ما لایسع أکبر مساجدہ أہلہ المکلفین بہا وعلیہ فتویٰ أکثر (در مختار) عن أبي حنیفۃ أنہ بلدۃ کبیرۃ فیہا سکک و أسواق، ولہا رساتیق، وفیہا وال یقدرعلی انصاف المظلوم من الظالم بحشمتہ و علمہ أو علم غیرہ یرجع الناس إلیہ فمما یقع من الحادث وہذا ہو الأصح۔ (شامي / باب الجمعۃ ۲؍۱۳۷ کراچی، ۳؍۶-۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۲؍۱۰؍۱۴۱۴ھ

الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ


لہذا بشرط صحت سوال اس بستی میں  جو تین ہزار سے زیادہ نفوس پرمشتمل ہے روزہ مرہ ضروریات کاسامان بھی مل جاتا ہے 25,24دوکانیں ہیں. اس میں جمعہ قائم کرنا  درست ہے. فقط واللہ اعلم بالصواب

محمد عامرالصمدانی 

10شوال المکرم 1442ھ مطابق 24مئی 2021

قاضئ شریعت آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ دارالقضاء علی گڑھ.