https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 18 November 2022

بلی کی خرید و فروخت جائز ہے کہ نہیں

بلی کی خرید و فروخت مطلقاً جائز ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 68): ’’لكن في الخانية: بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذا السنور، وسباع الوحش والطير جائز معلماً أو غير معلم‘‘. الفتاوى الهندية (3/ 114): ’’بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والطير جائز عندنا معلماً كان أو لم يكن، كذا في فتاوى قاضي خان‘‘. الفتاوى الهندية (3/ 114): ’’وبيع الكلب غير المعلم يجوز إذا كان قابلاً للتعليم وإلا فلا، وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي‘

Monday 14 November 2022

عید الاضحٰی کے دن سب سے پہلے کلیجی کھاناسنت ہے کہ نہیں

حدیث مبارک میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺقربانی کے جانور میں سے ابتداءً کلیجی تناول فرماتے تھے، لہذا اتباع کی نیت سے اس پر عمل کرسکتے ہیں، البتہ کلیجی نہ ملے تو قربانی کے گوشت سے کھانے کا آغاز کرنے سے بھی استحباب حاصل ہوجائے گا۔ السنن الکبری للبیهقي: "عَن بُرَيْدَةَ رَضيَ الله عنه قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ لَمْ يَخْرُجْ حَتَّى يَأْكُلَ شَيْئًا، وَإِذَا كَانَ الْأَضْحَى لَمْ يَأْكُلْ شَيْئًا حَتَّى يَرْجِعَ، وَكَانَ إِذَا رَجَعَ أَكَلَ مِنْ كَبِدِ أُضْحِيَتِه". (السنن الكبرى للبيهقي، كتاب صلاة العيدين، باب يترك الأكل يوم النحر حتى يرجع: ٣/ ۴۰١) ترجمہ :حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ عیدالفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پیے بغیر نہیں نکلتے تھے، اور عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور میں سے ابتدا کلیجی تناول فرمانے سے کرتے تھے۔ "فمن كانت له أضحية، فقد اتفق الفقهاء على أنه يسنّ له تأخير الفطر يوم النحر، والإمساك عن الأكل ليفطر على كبد أضحيته؛ لما ورد عن بريدة -رضي الله تعالى عنه- قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم لايخرج يوم الفطر حتى يفطر، ولايطعم يوم الأضحى حتى يصلي، وفي رواية: ولايأكل يوم النحر حتى يذبح، ولأن في الأضحى شرعت الأضحية والأكل منها، فاستحب أن يكون الفطر على شيء منها". (الموسوعة الفقهیة الکوتیة، ج:45، صفحة:341)

نبئ کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے کلیجی کھائی تھی کہ نہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ کی کلیجی تناول فرمانا لما جاء فی صحیح المسلم: " روی عن سلمۃ ابن الاکوع رضی اللہ عنہ... وَإِذَا بِلَالٌ نَحَرَ نَاقَةً مِنَ الْإِبِلِ الَّذِي اسْتَنْقَذْتُ مِنَ الْقَوْمِ ، وَإِذَا هُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا ...". ( صحيح المسلم ، كتاب الجهاد والسير ، باب غزوة ذي قَرَد: ٣/ ١۴٣٨ رقم الحدیث: ١٨۰٧) ترجمہ : حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضرت بلالؓ نے ان اونٹوں میں سےجو میں نے لٹیروں سے چھینے تھے(چھڑائے تھے) ایک اونٹ کو ذبح کیا، اور اس کی کلیجی اور کوہان کو رسول اللہ کے لئے بھونا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عید الاضحی کے دن قربانی کے جانور کی کلیجی سے ابتدا فرمانا: وفی السنن الکبری للبیہقی: "عَن بُرَيْدَةَ رَضيَ الله عنه قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ لَمْ يَخْرُجْ حَتَّى يَأْكُلَ شَيْئًا , وَإِذَا كَانَ الْأَضْحَى لَمْ يَأْكُلْ شَيْئًا حَتَّى يَرْجِعَ , وَكَانَ إِذَا رَجَعَ أَكَلَ مِنْ كَبِدِ أُضْحِيَتِه " . (السنن الكبرى للبيهقي ، كتاب صلاة العيدين ، باب يترك الأكل يوم النحر حتى يرجع: ٣/ ۴۰١) ترجمہ : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ عیدالفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پئے بغیر نہیں نکلتے تھے، اور عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے،اور آپ قربانی کے جانور میں سے ابتداء کلیجی تناول فرمانے سے کرتے تھے۔ نے اس کے ذکر پر اقتصار بھی کیا ہے، تو اگرکلیجی کا احتمال قوی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ (بطن الشاة)کےسلسلہ میں دو روایات ہیں : ۱ ۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کی روایت : عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ : « أَشْهَدُ لَكُنْتُ أَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَ الشَّاةِ ، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ » . صحيح مسلم حديث 357 (1/ 274) عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: « كُنْتُ أَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَ الشَّاةِ، وَقَدْ تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ ، فَيَأْكُلُ مِنْهُ ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ، وَلَا يَتَوَضَّأُ » . السنن الكبرى للنسائي ، حديث 6627 (6/ 230) . عَنْ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ذَبَحْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةً « فَأَمَرَنِي فَقَلَيْتُ لَهُ مِنْ بَطْنِهَا ، فَأَكَلَ مِنْهُ ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى ، وَلَمْ يَتَوَضَّأْ » . مسند أحمد 23868 . ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اس بات کی قسم کھاتا ہوں کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بکری کا پیٹ ( یعنی پیٹ کے اندر کی چیزیں مثلا دل ،کلیجی وغیرہ) بھونتا تھا ، آپ اس سے کھا تے تھے ، پھر نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے اور وضو نہ کرتے ۔ شراح حدیث کے اقوال : عن أبي رافع قوله : ((بطن الشاة)) يعني الكبد وما معها من القلب وغيرهما. شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (3/ 765) (لقد كنت أشوي لرَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بطن الشَّاة، ثمَّ صلى وَلم يتَوَضَّأ ) المُرَاد بِبَطْنِهَا مَا فِي الْبَطن من الكبد وَغَيره. كشف المشكل من حديث الصحيحين (4/ 33) (عَنْ أَبِي رَافِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : أَشْهَدُ لَكُنْتُ أَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَ الشَّاةِ ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ ) وَقَوْلُهُ ( بَطْنَ الشَّاةِ ) يَعْنِي الْكَبِدَ وَمَا مَعَهُ مِنْ حَشْوِهَا ، وَفِي الْكَلَامِ حَذْفٌ تَقْدِيرُهُ : أَشْوِي بَطْنَ الشاة فيأكل منه ثم يصلي ولايتوضأ ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ . شرح النووي على مسلم (4/ 46) ( بَطْنَ الشَّاةِ ) : يَعْنِي الْكَبِدَ وَالطِّحَالَ وَمَا مَعَهُمَا مِنَ الْقَلْبِ وَغَيْرِهِمَا . مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 369) ۲ ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت : 384 - عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فُلَانَةَ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ: " دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي بَطْنٌ مُعَلَّقٌ فَقَالَ: لَوْ طَبَخْتِ لَنَا مِنْ هَذَا الْبَطْنِ كَذَا وَكَذَا. قَالَتْ: فَصَنَعْنَاهُ فَأَكَلَ , وَلَمْ يَتَوَضَّأْ " شرح معاني الآثار (1/ 65) ترجمہ : حضرت محمد بن منکدر تابعی فرماتے ہیں کہ : میں ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ : ہمارے پاس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے یہاں بکری کے پیٹ کا حصہ لٹکا ہوا تھا ، آپ نے فرمایا : اگر اس میں سے ہمارے لئے پکا دو تو کتنا اچھا ہو ( ہم کھالیں ) چنانچہ ہم نے اسے پکا دیا ، آپ نے اسے کھایا ۔ قال العيني في : "نخب الأفكار" (2/ 26) : وأراد "بالبطن" ما يحتوي عليه البطن من الأحشاء. الخلاصہ : ۱ ۔مضمون بالا میں پیش کردہ روایات کی روشنی میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلیجی تناول فرمانامتعدد روایات سے ثابت ہے ، چاہے وہ کلیجی اونٹ کی ہو یا بکری کی ، اس لئے مفتی موصوف کا اس کی نفی کرنا درست نہیں ہے ، جبکہ ان کے پاس نفی کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے ۔ ۲ ۔کلیجی کھانے کی نفی کرنے کی جو تعلیل مفتی موصوف نے پیش کی یعنی : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نفیس الطبع ہونا ، خوشبو پسند کرنا ، اور ہر قسم کی بدبو سے احتراز کرنا ، یہ بات اجمالاتومسلّم ہے ، لیکن تفصیل میں جاتے ہوئے اس کی بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلا دلیل کسی چیز کی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کی نسبت کرنا ، روایات کے باب میں بے احتیاطی کی مانند ہے ۔ ۳ ۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ ہم حسن وقبح یا صواب وخطا کا کوئی معیار اپنے طور پر مقرر کر کے ، اس خود ساختہ معیار پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قیاس کرنے کی کوشش کریں ، بلکہ اس باب میں استناد واعتمادصحیح روایات اور اقوال سلف پرہی ہوگا ۔