https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 3 February 2023

ناپاک کپڑوں کو واشنگ مشین میں دھونے کا طریقہ

ناپاک کپڑے پاک کرنےکا اصل طریقہ تو یہ ہے کہ انہیں تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ اچھی طرح (حتیٰ الوسع) نچوڑ لیا جائے،لیکن اگر واشنگ مشین میں کپڑے دھونے ہوں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دھوئے جانے والے کپڑے اگر پاک اور ناپاک دونوں طرح کے ہوں تو ان کے دھونے کے تین طریقے ہیں:ایک یہ کہ جن کپڑوں کے بارے میں یقین ہے کہ یہ پاک ہیں انہیں پہلے دھولیا جائے، اور اس کے بعد ناپاک اور مشکوک کپڑوں کو دھولیا جائے ۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو کپڑے ناپاک ہیں ان میں ناپاک جگہ کو پہلے الگ سے تین مرتبہ اچھی طرح دھوکر اور نچوڑ کر یا ناپاک حصے کو جاری پانی یا کثیر پانی میں دھو کر پاک کرلیاجائے ، پھر تمام پاک کپڑوں کو واشنگ مشین میں دھولیا جائے، اس صورت میں دوبارہ واشنگ مشین میں تین مرتبہ دھونا یا بہت زیادہ پانی بہانا ضروری نہیں ہوگا۔تیسرا طریقہ یہ ہے کہ پاک اور ناپاک کپڑے سب ایک ساتھ دھولیے جائیں اور کھنگالتے وقت تمام کپڑوں کو تین بار پانی میں ڈال کر نچوڑ لیا جائے یا تمام کپڑوں کو واشنگ مشین میں اچھی طرح دھو لیا جائے، پھر اِسپینر مشین (یعنی مشین کا وہ حصہ جس میں کپڑا ڈال کر گھمانے سے کپڑے اچھی طرح نچوڑ جاتے ہیں، اور کچھ حد تک خشک بھی ہوجاتے ہیں) میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے، اور اِسپینر کے اوپر صاف پانی کا پائپ لگاکر اتنی دیر چلایا جائے کہ گندے پانی کی جگہ صاف پانی نیچے پائپ سے آنا شروع ہوجائے، تو یہ کپڑے پاک ہوجائیں گے، ہاتھ سے نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 161) "و" يطهر محل النجاسة "غير المرئية بغسلها ثلاثاً" وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، "والعصر كل مرة" تقديراً لغلبة. یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة''۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 331) '' (و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار. ۔۔۔ أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: " وتجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق''. فقط

مولانامحمداسحاق شیخ الحدیث رحمہ اللہ

حضرت مولانا محمد اسحاق محدث میواتی علیہ الرحمہ سے مجھے باقاعدہ شرف تلمذ حاصل نہیں البتہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں آپ بحیثت ممتحن تشریف لاتے تھے آپ نے ایک مرتبہ میل کھیڑ لا میں ہماری جماعت کاششماہی امتحان لیا,کافیہ آپ کی مشہورتھی, کافیہ سب سے پہلے اسباب منع صرف پوچھے اس کے بعد کہاقطامی کیاہے منصرف یاغیرمنصرف ؟مجھے یاد نہیں میں نے کیاجواب دیاتھا دیاالبتہ مجھے یہ ضرور یاد ہے اس وقت میرے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ مدرسہ والے کیسے عجیب لوگ ہیں جو ہم جیسے ہیچمدان کے لئے امام النحو کوکیوں ممتحن کی حیثیت سے دعوت دی اس سے توخود مدرسہ بدنامی ہوگی. حضرت کاانداز امتحان میں یہ تھاکہ سوال کے بعدجواب نہ دینے پرخود جواب دیتے اور پھراس کی طویل تقریر بیان فرماتے یہی اندازاستاذی حضرت مولامحمدایوب قدس سرہ (والد ماجد حضرت مولانا محمد قاسم رحمہ بانی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کاتھا )یہ امتحان کئ گھنٹے چلا یہ غالباً 1987 کاواقعہ ہے. میں اسی سال دارالعلوم بساؤ ضلع جھنجھنوں راجستھان سے نحومیر میر صرف میر ابتدائی کتب عربی پڑھ کر نیانیا مدرسہ میل آیاتھا. اس کے بعددوسری ملاقات کے لئے میں خود نوح آپ کی خدمت اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ" مشرقی پنجاب کا عربی زبان وادب میں حصہ " پرمواد جمع کرہاتھا. مجھے معلوم ہوا کہ آپ عربی میں شاعری کرتے ہیں. حضرت مولانا عبدالمنان ناٹولوی دھلوی کے کے قصائد عربی مجموعہ میں نے اپنے حضرت مولانا دین محمد رحمہ اللہ سابق ا مام جامع مدن گیردہلی سے حضرت مولانا حبیب الرحمن گھاسیڑوی رحمہ اللہ

Thursday 2 February 2023

موبائل میں قرآن مجید پڑھنا

موبائل میں دیکھ کر قرآنِ مجید پڑھنا جائز ہے۔ چوں کہ قرآنِ کریم کو دیکھ کر ہاتھ لگائے بغیر زبانی تلاوت کرنا جائز ہے، اس لیے موبائل فون میں دیکھ کر بے وضو قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا جائز ہے، اگر اسکرین پر قرآن کریم کھلا ہوا ہو تو بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا بھی جائز ہے، البتہ اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، کیوں کہ جس وقت قرآنِ کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے۔ "ولایکره للمحدث قراءة القرآن عن ظهر القلب". (خلاصة الفتاویٰ، ج:۱ ؍ ۱۰۴ ) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 173): "(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرز أو بصرة به يفتى، وحل قلبه بعود. (قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازاً، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لايحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لايكره مسه كما في حيض، القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل.... (قوله: غير مشرز) أي غير مخيط به، وهو تفسير للمتجافي قال في المغرب: مصحف مشرز أجزاؤه مشدود بعضها إلى بعض من الشيرازة وليست بعربية اهـ فالمراد بالغلاف ما كان منفصلاً كالخريطة وهي الكيس ونحوها؛ لأن المتصل بالمصحف منه حتى يدخل في بيعه بلا ذكر. وقيل: المراد به الجلد المشرز، وصححه في المحيط والكافي، وصحح الأول في الهداية وكثير من الكتب، وزاد في السراج: أن عليه الفتوى. وفي البحر: أنه أقرب إلى التعظيم. قال: والخلاف فيه جار في الكم أيضاً. ففي المحيط: لايكره عند الجمهور، واختاره في الكافي معللاً بأن المس اسم للمباشرة باليد بلا حائل. وفي الهداية: أنه يكره هو الصحيح؛ لأنه تابع له، وعزاه في الخلاصة إلى عامة المشايخ، فهو معارض لما في المحيط فكان هو أولى. اهـ. أقول: بل هو ظاهر الرواية كما في الخانية، والتقييد بالكم اتفاقي فإنه لايجوز مسه ببعض ثياب البدن غير الكم كما في الفتح عن الفتاوى. وفيه قال لي بعض الإخوان: أيجوز بالمنديل الموضوع على العنق؟ قلت: لاأعلم فيه نقلاً. والذي يظهر أنه إذا تحرك طرفه بحركته لايجوز وإلا جاز، لاعتبارهم إياه تبعاً له كبدنه في الأول دون الثاني فيما لو صلى وعليه عمامة بطرفها الملقى نجاسة مانعة، وأقره في النهر والبحر. (قوله: أو بصرة) راجع للدرهم، والمراد بالصرة ما كانت من غير ثيابه التابعة له. (قوله: وحل قلبه بعود) أي تقليب أوراق المصحف بعود ونحوه لعدم صدق المس عليه".

اٹیچ باتھ روم میں وضوکرنااور دعائیں نہ پڑھنا

مشترکہ غسل خانہ اوربیت الخلا جس میں داخل ہونےکے لیے ایک ہی دروازہ ہوتاہے اور قضائے حاجت کی جگہ اور غسل کی جگہ کے درمیان کوئی دیوار یا آڑ نہیں ہوتی، اس قسم کے غسل خانوں میں وضو کے شروع اور درمیان کی دعائیں زبان سے پڑھنا منع ہے؛ کیوں کہ درمیان میں آڑ نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیت الخلا میں پڑھنا شمارہوگا، اوربیت الخلا میں اَذکار پڑھنے سے شریعت نے منع کیا ہے، ایسی جگہ دل ہی دل میں زبان کو حرکت دیے بغیر پڑھنے کی اجازت ہے۔ البتہ اگر غسل خانہ اور بیت الخلا دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہیں، دونوں کے درمیان کوئی دیوار یا پردہ حائل ہے اور غسل خانے میں گندگی بھی نہیں ہے تو اس صورت میں وضو کی دعائیں زبان سے پڑھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اٹیچڈ باتھ روم (جس میں بیت الخلا کی جگہ بھی ساتھ ہی ہو) میں بلاضرورت گفتگو کرنا بھی مکروہ ہے، لہٰذا اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ سنن ابی داؤد میں ہے: "عن هلال بن عیاض، قال: حدثني أبوسعید قال: سمعت رسول الله ﷺ یقول: لایخرج الرجلان یضربان الغائط، كاشفین عن عورتهما یتحدثان؛ فإنّ اللہ عزّ و جلّ یمقت علی ذلك." (كتاب الطهارة، باب كراهية الكلام عند الخلاء، 1/14، ط: رحمانیه لاهور) یعنی حضرت ابوسعید روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں نکلتے دو شخص قضاءِ حاجت کے لیے اس حال میں کہ وہ ستر کھولے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان پر غصہ ہوتے ہیں۔ وفیه أیضًا: "عن ابن عمر قال: مر رجل على النبي ﷺ و هو یبول فسلّم علیه، فلم یردّ علیه. قال أبوداؤد: و روي عن ابن عمر و غیره: أنّ النبي ﷺ تیمّم، ثمّ ردّ علی الرجل السلام." (كتاب الطهارة، باب في الرجل یرد السلام و هو یبول، 1/14، ط: رحمانیه لاهور) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قضاءِ حاجت فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے سلام کیا، آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیمم کرکے اس کے سلام کا جواب دیا۔ الفتاوی الشامية، (1/ 156): "ويستحب أن لا يتكلم بكلام مطلقاً، أما كلام الناس؛ فلكراهته حال الكشف، وأما الدعاء؛ فلأنه في مصب المستعمل ومحل الأقذار والأوحال"اهـ.

Sunday 29 January 2023

ایک بالشت سے چھوٹی مسواک کااستعمال

مسواک کا ایک بالشت کی مقدار لمبی ہونا محض مندوب ومستحب ہے، واجب وضروری نہیں، نیز یہ لمبائی ابتدائے استعمال میں مطلوب ہے، استعمال کے نتیجے میں اگر مسواک چھوٹی ہوجائے تو یہ خلاف مستحب بھی نہیں۔ الغرض اگر کسی کی مسواک ایک بالشت سے کم ہے تو اس کا استعمال بھی شرعاً درست ہے، ناجائز نہیں ہے۔ ونُدِبَ إمساکہ بِیُمناہ کونہ․․․ فی غلظ الخنصر وطول شبر․․․ الظاہر أنہ في ابتداء استعمالہ فلا یضر نقصہ بعد ذلک بالقطع منہ لتسویتہ الخ (درمختار مع الشامی: ۱/۲۳۴، ط: زکریا)

مسواک کامسنون طریقہ, مقدار

مسواک کرنا سنت ہے، اور اس کے بہت سے فضائل احادیث میں وارد ہیں، مسواک میں مستحب یہ ہے کہ اس کی لمبائی ایک بالشت اور چوڑائی چھوٹی انگلی کی موٹائی کے برابر ہو ، استعمال کے بعد چھوٹی ہوجائے تو ایک مشت ہونے کے بعد چھوڑ دے، اور مسواک کو دائیں ہاتھ میں پکڑنا مستحب ہے اور پکڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسواک کو ہاتھ کی انگلیوں اور انگوٹھے کے پوروں سے اس طرح پکڑا جائے کہ چھوٹی انگلی(چھنگلی) اور انگوٹھا نیچے کی جانب رہے اور بقیہ انگلیاں اُوپر کی طرف ہوں، اور انگوٹھے کو مسواک کے برش والے حصے کی جانب رکھے اور چھنگلی کی پشت کو دوسری جانب کے آخر میں اوردوسری انگلیاں ان کے درمیان میں اُوپر کی جانب رہیں۔(ہندیہ1/7) مسواک کرنے کی کیفیت یہ ہے کہ دانتوں اور تالو پر مسواک کی جائے اور داہنی طرف کے دانتوں سے ابتدا ہو، اس کی صورت یہ ہے کہ پہلے مسواک اوپر کے جبڑے میں داہنی طرف کی جائے، پھر اوپر کی بائیں جانب، اس کے بعد نیچے کے جبڑے میں داہنی طرف اور پھر بائیں طرف کرنا چاہیے۔(کبیری)، اور بعض علماءنے یہ طریقہ لکھا ہے کہ :پہلے دائیں جانب اوپر نیچے مسواک کرے، پھر بائیں جانب اوپر نیچے، پھر ان دانتوں پر مسواک کرے جو داہنی اور بائیں جانب کے درمیان ہیں(شرح السنۃ)، اور کم از کم تین مرتبہ اوپر اور تین مرتبہ نیچے، تین بار پانی لے کر مسواک کی جائے۔ مسواک چوڑائی میں یعنی دائیں سے بائیں طرف کرنی چاہیے، طول (لمبائی) میں مسواک کرنا بہتر نہیں، اس لیے کہ اس سے مسوڑھوں کے زخمی ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے، بعض حضرات فرماتے ہیں دونوں طرح کرسکتے ہیں، ان دونوں میں تطبیق یوں دی گئی ہے کہ دانتوں میں چوڑائی میں کی جائے اور زبان پر لمبائی میں کی جائے۔(شامی۔1/114) ’حجۃ اللّٰہ البالغہ‘‘ میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے لکھا ہے کہ آدمی کے لیے مناسب ہے کہ مسواک کو منہ کی انتہائی اور آخری حصوں تک پہنچائے؛ تاکہ سینہ اور حلق کا بلغم ختم ہوجائے۔ اور خوب اچھی طرح مسواک کرنے سے قلاح جو منہ کی ایک بیماری ہے دو رہوجاتی ہے، آواز صاف اور منہ کی بو عمدہ ہوجاتی ہے۔(1/310)۔