https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 24 June 2023

نابالغ کی طرف سے قربانی کرنا

اگر کوئی اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے از خود قربانی کرنا چاہے تو نفلی طور پر کرسکتا ہے۔ اور جس طرح بالغ افراد نفلی قربانی یا ایصالِ ثواب کی قربانی یا عقیقے کا حصہ واجب قربانی کے حصوں کے ساتھ بڑے جانور میں شامل کرسکتے ہیں، اسی طرح نابالغ بچے کی طرف سے نفلی قربانی کا حصہ اس کا ولی بالغ افراد کے ساتھ جانور کے حصوں میں شامل کرسکتا ہے۔ لہذا چھوٹے بچوں کےنام کی نفلی قربانی کرنا جائز ہے. البحر الرائق شرح كنز الدقائق (8/ 198): "وقوله: عن نفسه" لأنه أصل في الوجوب عليه وقوله: "لا عن طفله" يعني لايجب عليه عن أولاده الصغار؛ لأنها عبادة محضة بخلاف صدقة الفطر والأول ظاهر الرواية. وإن كان للصغير مال يضحي عنه أبوه من ماله أو وصيه من ماله عند أبي حنيفة ... وفي الكافي الأصح أنه لايجب ذلك وليس للأب أن يفعله من مال الصغير". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 316): "(ويضحي عن ولده الصغير من ماله) صححه في الهداية (وقيل: لا) صححه في الكافي. قال: وليس للأب أن يفعله من مال طفله، ورجحه ابن الشحنة. قلت: وهو المعتمد لما في متن مواهب الرحمن من أنه أصح ما يفتى به. وعلله في البرهان بأنه إن كان المقصود الإتلاف فالأب لا يملكه في مال ولده كالعتق أو التصدق باللحم فمال الصبي لايحتمل صدقة التطوع، وعزاه للمبسوط فليحفظ

Thursday 22 June 2023

اولاد کے مابین ہبہ میں برابری

بسم اللہ الرحمن الرحیم اپنی ایک زمین فروخت کرنے کا ارادہ ہے ،تین صاحب زادیاں ہیں جو ماشاءاللہ خوش حال گھر بار والی ہیں اور ایک صاحب زادے ہیں ،میری خدمت وہی کرتے ہیں ،جن کی مالی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ،مکتب پڑھاتے ہیں ، اس سے پہلے میں سب کو سات سات لاکھ روپے برابر دے چکا ہوں ۔ کیا اس فروخت ہونے والی زمین میں سے سب کو مساوی حصہ دینا ضروری ہے ۔ شریعت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں ،جزاکم اللہ خیرا ۔ الجواب وباللہ التوفیق ومنہ المستعان ہبہ میں اولاد کے درمیان میں مساوات (برابری) سے کام لینا مستحب ہے؛البتہ اگر کسی بیٹے یابیٹی کو کسی خاص سبب سے مثلا اس کے دیندارہونے یا زیادہ ضرورت مند ہونے کی وجہ سے کچھ زائد دیدیں جبکہ اس سے مقصود دوسری اولاد کو نقصان پہونچانا نہ ہوتو شرعاًبحثیت مالک آپ کو یہ اختیار حاصل ہے ہبہ کی یہ صورت تفاضل بسبب خاص جائز ہے اس پرآپ گناہ گار نہیں ہوں گے "وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»". (مشکاة المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)و لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 9]. وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 9].واما (وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض. وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة. عمدة القاري: (کتاب الھبۃ، 146/13، ط: دار إحياء التراث العربي) يجوز التَّفَاضُل إِن كَانَ لَهُ سَبَب، كاحتياح الْوَلَد لزمانته أَو دينه أَو نَحْو ذَلِك. وَقَالَ أَبُو يُوسُف: تجب التَّسْوِيَة إِن قصد بالتفضيل الْإِضْرَار، وَذهب الْجُمْهُور إِلَى أَن التَّسْوِيَة مُسْتَحبَّة، فَإِن فضل بَعْضًا صَحَّ وَكره، وحملوا الْأَمر على النّدب وَالنَّهْي على التَّنْزِيه.

Tuesday 20 June 2023

ذوالحج کے ابتدائی ایام روزے

ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام بڑی فضیلت کے حامل ہیں، بعض مفسرین نے قرآنِ کریم کی سورہ فجر کی آیت کریمہ {ولیالٍ عشر} کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت میں جن دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے، اس سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان ایام میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان دنوں کی عبادت کی بہت زیادہ فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے، چاہے یہ عبادات ذکر و اذکار کی صورت میں ہوں، یا قیام اللیل کی صورت میں یا روزوں کی صورت میں۔ احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی ایام میں ہردن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اجر رکھتا ہے، اور بطورِ خاص یومِ عرفہ (9 ذوالحجہ)کے روزے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس دن کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اس سلسلہ کی احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں: ترمذی شریف میں ہے: "عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَيْئٍ." (باب ما جاء في العمل في أيام العشر، 3/130 ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے گئے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کیے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اگر ان دس دنوں کے علاوہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں! تب بھی اِن ہی اَیام کا عمل زیادہ محبوب ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان و مال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیاتو یہ افضل ہے)۔ وفیه أیضاً: "عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ." ( باب ما جاء في فضل صوم يوم عرفة ،3/124 ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) ترجمہ: حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے۔ وفیه أیضاً: "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ کُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْر." (باب ما جاء في العمل في أيام العشر، 3/131 ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔

کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی

اگر قربانی کے جانور کا کان ایک تہائی یا اس سے کم کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر ایک تہائی سے زائد کٹا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: "وفي الجامع: أنه إذا کان ذهب الثلث أو أقلّ جاز، و إن کان أکثر لایجوز، و الصحیح أنّ الثلث وما دونه قلیل، وما زاد علیه کثیر، وعلیه الفتوی." (ج:5، ص:298۔ط:رشیدیه فتاوی ہندیہ میں ہے: "وَلَوْ ذَهَبَ بَعْضُ هَذِهِ الْأَعْضَاءِ دُونَ بَعْضٍ مِنْ الْأُذُنِ وَالْأَلْيَةِ وَالذَّنَبِ وَالْعَيْنِ ذَكَرَ فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ إنْ كَانَ الذَّاهِبُ كَثِيرًا يَمْنَعُ جَوَازَ التَّضْحِيَةِ، وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا لَا يَمْنَعُ، وَاخْتَلَفَ أَصْحَابُنَا بَيْنَ الْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ فَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ -رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - أَرْبَعُ رِوَايَاتٍ، وَرَوَى مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - عَنْهُ فِي الْأَصْلِ وَفِي الْجَامِعِ أَنَّهُ إذَا كَانَ ذَهَبَ الثُّلُثُ أَوْ أَقَلُّ جَازَ، وَإِنْ كَانَ أَكْثَرَ لَا يَجُوزُ، وَالصَّحِيحُ أَنَّ الثُّلُثَ وَمَا دُونَهُ قَلِيلٌ وَمَا زَادَ عَلَيْهِ كَثِيرٌ، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.... وَسُئِلَ عَمْرُو بْنُ الْحَافِظِ عَنْ الْأُضْحِيَّةِ إذَا كَانَ الذَّاهِبُ مِنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْ الْأُذُنَيْنِ السُّدُسَ هَلْ يُجْمَعُ حَتَّى يَكُونَ مَانِعًا عَلَى قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ -رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - قِيَاسًا عَلَى النَّجَاسَاتِ فِي الْبَدَنِ أَمْ لَا يُجْمَعُ كَمَا فِي الْخُرُوقِ فِي الْخُفَّيْنِ؟ . قَالَ: لَا يُجْمَعُ". ( كتاب الاضحية، الْبَابُ الْخَامِسُ فِي بَيَانِ مَحَلِّ إقَامَةِ الْوَاجِبِ، ۵ / ۲۹۸، ط: دار الفكر)

ذوالحج کا چاند دیکھ کر بال وناخن وغیرہ نہ کاٹنا

جوشخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو اس کے لیےذی الحجہ کاچاند ہوجانے کے بعد بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب اور باعثِ ثواب امر ہے،داڑھی تراشنا بہرحال مکروہ تحریمی ہے, چناں چہ حدیث شریف میں ہے: '' حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ ذی الحجہ کا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ نہ لے ''۔(صحیح مسلم ) یہ ممانعت تنزیہی ہے ، لہذا عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کٹوانا مستحب ہے، اور اس کے خلاف عمل کرنا ترکِ اولیٰ ہے، یعنی اگر کسی نے ذوالحجہ شروع ہوجانے کے بعد قربانی سے پہلے بال یا ناخن کاٹ لیے تو اس کا یہ عمل ناجائز یا گناہ نہیں ہوگا، بلکہ خلافِ اولیٰ کہلائے گا۔ اور اگر کوئی عذر ہو یا بال اور ناخن بہت بڑھ چکے ہوں تو ان کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صحيح مسلم (3/ 1565) 'سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئاً»۔' سنن النسائي (7/ 211) 'عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي»۔' مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1081) ' قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص. قال ابن حجر: ومن زعم أن المعنى هنا التشبه بالحجاج غلطوه بأنه يلزم عليه طلب الإمساك عن نحو الطيب ولا قائل به اهـ.وهو غلط فاحش من قائله ؛ لأن التشبه لا يلزم من جميع الوجوه، وقد وجه توجيهاً حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر داڑھی کاٹنا بہرحال مکروہ تحریمی ہے

Sunday 18 June 2023

حالت احرام میں بال ٹوٹنا

اگر بال محرم کے فعل کے بغیر خود بخود گر جائیں تو کچھ لازم نہیں،اور اگر بال محرم کے ایسے فعل سے گریں جس کا اس کو شریعت کی جانب سے حکم دیا گیا ہو ، جیسے نماز کے لئے وضو کرنے کاحکم دیا گیا ہے اور وضو کے دوران بال ٹوٹ جائیں تو تین بال گر جائیں تو ایک مٹھی گندم صدقہ کرنا ہو گا ۔ اگر تین سے زائد بال گریں تو صدقہ فطر کی مقدار خیرات کرے یعنی پونے دوسیر گیہوں یاآٹایااس کی قیمت.جب تک بالوں کی تعداد چوتھائی سر تک نہ پہنچے. اور اگر بیماری کے سبب یا اَزخود بال گریں تو اس صورت میں کوئی کفارہ نہیں "اما اذا سقط بفعل المامور به کالوضوء، ففی ثلاث شعرات کف واحدۃ من طعام." (غنیة الناسک: 256 ط ادارۃ القران) "وكذلك إذا حلق ‌ربع ‌رأسه أو ثلثه يجب عليه الدم ولو حلق دون الربع فعليه الصدقة كذا في شرح الطحاوي.وإذا حلق ربع لحيته فصاعدا فعليه دم، وإن كان أقل من الربع فصدقة كذا في السراج الوهاج."(فتاوی الهندية:243/1،ط:دارالفكر مناسك (ملاعلي قاری ) میں ہے: "لا یخفی أ ن الشعر اذا سقط بنفسه لامحذور فيه ولا محظور لاحتمال قلعه قبل احرامه وسقوطه بغير قلعه." (167،باب الجنایات ،مطبعۃ الترقی الماجدیہ بمکۃ) غنیة الناسک ميں هے : "اما اذا سقط بفعل المامور به کالوضوء، ففی ثلاث شعرات کف واحدۃ من طعام." (256 ط ادارۃ القران) فتاوی ہندیہ میں ہے : "وكذلك إذا حلق ‌ربع ‌رأسه أو ثلثه يجب عليه الدم ولو حلق دون الربع فعليه الصدقة كذا في شرح الطحاوي.وإذا حلق ربع لحيته فصاعدا فعليه دم، وإن كان أقل من الربع فصدقة كذا في السراج الوهاج."