https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 6 August 2022

سوتیلی بیٹی کوشہوت سے چھونے سے حرمت مصاہرت

حدیث شریف میں مروی ہے: "عن حجاج، عن أبي هانئ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نظر إلى فرج امرأة، لم تحل له أمها، ولا ابنتها»". (مصنف ابن أبي شيبة، کتاب النکاح، باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، رقم الحدیث: 16235، ج:3، ص:480، ط: مکتبة الرشد) ترجمہ:حضرت ابو ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی عورت کی شرم گاہ کو دیکھے اس پر اس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائیں گی۔ ایک اور حدیث میں ہے: "عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن أم الحكم، أنه قال: قال رجل: يا رسول الله، إني زنيت بامرأة في الجاهلية وابنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لاأرى ذلك، ولايصلح ذلك: أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها على ما اطلعت عليه منها". (مصنف عبد الرزاق، کتاب الطلاق، باب الرجل يزني بأخت امرأته، رقم الحدیث: 12784، ج:7، ص:201، ط: المجلس العلمی) ترجمہ: حضرت عبدالرحمن بن ام الحکم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں زمانہ جاہلیت میں ایک عورت سے زنا کرچکا ہوں، کیا میں اب اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ: میں اس کو جائز نہیں سمجھتا اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ تو ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بیٹی کے جسم کے ان حصوں کو تو دیکھ چکا ہے جو حصے تو بیوی کے دیکھے گا۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: "وتثبت حرمة المصاهرة بالنكاح الصحيح دون الفاسد، كذا في محيط السرخسي. فلو تزوجها نكاحا فاسدًا لاتحرم عليه أمها بمجرد العقد بل بالوطء هكذا في البحر الرائق. وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير." اگر کوئی شخص اپنی سوتیلی بیٹی (یعنی اپنی بیوی کی بیٹی) کے ساتھ جسمانی تعلق (صحبت)قائم کرلیتا ہے تو شرعا اس لڑکی کی ماں (یعنی اپنی بیوی )اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہےاور شوہر پر ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے متارکت بالقول کرلے یعنی زبان سے یہ کہے کہ”میں نے تمہیں چھوڑدیا،تمہیں آزاد کیا وغیرہ۔ نیز واضح رہے کہ حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لیے جسمانی تعلق (یعنی صحبت) کاقائم ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کوئی شخص کسی عورت کو حائل کے بغیر شہوت سے چھوتا ہے تو اس لڑکی کے اصول (والدہ وغیرہ) و فروع (بیٹی وغیرہ) اُس مرد پر درج ذیل شرائط کے ساتھ حرام ہوجاتے ہیں : 1.وہ عورت جسے شہوت سے چھویا گیا ہو وہ مشتہاۃ (قابلِ شہوت) ہو، یعنی کم از کم نو سال کی ہو ۔ 2.مس (چھونے) کے وقت یا نظر (شرم گاہ کی طرف دیکھنے) کے وقت شہوت پائی جائے ۔ 3.چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور بیمار اور بوڑھے مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ دل میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔ 4.شہوت کے ساتھ چھونا اس طور پر ہو کہ درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو اور اگر درمیان میں کوئی کپڑا حائل ہوتو اتناباریک ہوکہ جسم کی حرارت پہنچنے سے مانع نہ ہو۔ 5.شہوت کے ساتھ چھونے، بوسہ دینے یا شرم گاہ کو دیکھنے کی وجہ سے انزال نہ ہوا ہو ، اگر مذکورہ صورتوں میں انزال ہوجائے تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔ لہذا اگر مذکورہ شخص اپنی سوتیلی بیٹی (اپنی بیوی کی بیٹی) کو اس قسم کے چھونے کااقرار کرتاہے اور مذکورہ شرائط پائی جاتی ہیں تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: "وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت.وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة. سواء كان بنكاح أو ملك أو فجور عندنا، كذا في الملتقط. قال أصحابنا: الربيبة وغيرها في ذلك سواء هكذا في الذخيرة." (کتاب النکاح،الباب الثالث فی المحرمات،ج۱،ص۲۷۴،ط؛دار الفکر) الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے: "وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا. (قوله: وبحرمة المصاهرة إلخ) قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أو لم يشتبه عليه. اهـ. (قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ. وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها. وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم." (کتاب النکاح،ج۳،ص۳۷،ط؛سعید) (كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ج:1، ص:274، ط: مکتبہ رشیدیہ)

Tuesday 2 August 2022

تیمورکے معنی

’’تیمور ‘‘ ایک معروف بادشاہ کانام ہے، اس کے یہ چند معانی ہیں: لوہا،یا فولاد اورخوددار.یہ بہادری کے معنی میں بھی کنایتاََ استعمال ہوتا ہے؛ اس لیے شرعاََ یہ نام رکھنا درست ہے۔ قاموس معانی الاسماء میں ہے: "اسم علم مذكر مغولي، معناه: الحديد. اشتهر به تيمورلنك، أي تيمور الأعرج. ولفظه التركي: تِمور. اصل اسم تَيمور: مغولي"