https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 15 July 2021

زناسے حاملہ لڑکی کاغیرزانی سے نکاح

 اگر کسی لڑکی سے نادانی میں زنا ہوگیا (العیاذ باللہ) تو اسے صدقِ دل سے توبہ کرنا چاہیے، نیز زانیہ کا نکاح زانی کے علاوہ کسی اور مرد سے بھی جائز ہے، البتہ اگر زنا کی وجہ سے حمل ٹھہر جائے اور زانی کے علاوہ کسی اور سے اس کا نکاح ہو تو  شوہر کے لیے اس وقت تک ہم بستری کی اجازت نہیں ہے جب تک وضع حمل (بچہ) نہ ہو جائے۔

"لاتجب العدة علی الزانیة". (الفتاوی الهندية، 526-1)

"وإن حرم وطؤها و دواعیه حتی تضع ... لو نکح الزاني حل له وطؤها اتفاقاً". (الشامیة، 141-4)

چنانچہ  فتاویٰ عالمگیری میں مذکور ہے:

"وقال ابو حنيفه ومحمد يجوز ان يتزوج امراة حاملا من الزنا ولايطاها حتيٰ تضع،وقال ابو يوسف لا يصح،والفتویٰ علی قولهما ،کذا فی المحيط،وفی مجموع النوازل:اذا تزوج امراۃ قد زنیٰ هو بها فظهر بها حبل فالنكاح جائز عند الكل‘وله ان يطاها عند الكل ‘وتستحق النفقة عند الكل ‘كذا في الذخيرة "انتهي

گجرات میں لاقانونیت کا جنگل راج

 گجرات کی کالول تحصیل ضلع پنچ محل میں گؤ رکشکوں کے ذریعہ معمر شخص محمد حنیف ابراہیم پٹیل کی ظالمانہ پٹائی کے بعد پیدا شدہ صورت حال میں پولس مسلمانوں کے گھروں میں گھس گئی، مارپیٹ کی۔سوسے زائد مردو خواتین جیل میں بند، مقامی لوگوں نے انصاف کی فریاد کے لیے جمعیۃ علماء ہند کو خط لکھا ہے۔

نئی دہلی۔14/جولائی: جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے گجرات کے وزیر اعلی وجے روپانی کو خط لکھ کرکالول ضلع پنچ محل میں رونما ہوئے واقعات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار کیے گئے بے قصور مردو خواتین کو بلاتاخیر رہا کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر جس طرح پولس عملہ نے زیادتی کی ہے، اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔مولانا مدنی نے اس سلسلے میں پولس اعلی افسران کو ہدایت دینے کی بھی اپیل کی ہے کہ وہ وہاں کی مسلم اقلیت کے تشویش کو فوری طور سے ایڈریس کرے۔

واضح ہو کہ گزشتہ ہفتہ گائے گوشت لے جانے کی ایک افواہ کی بنیاد پر گؤ رکشک (بجرنگ دل) کے کارکنان نے معمر شخص محمد حنیف ابراہیم پٹیل کی بے رحمی سے پٹائی کی اور ان کو پولس کے حوالے کردیا اور پھر شہر کے امن و امان کو بگاڑتے ہوئے ۱۰/جولائی کو سو افراد پر مشتمل ایک ریلی نکالی، جس میں اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے، پولس نے ان کے جلوس کو اجازت دی اور ان کے کہنے پر تین نوجوانوں کو تھانہ طلب کیا، تھانے میں پولس کی موجودگی میں بجرنگ دل کارکنان نے ان نوجوانوں کو مارنا شروع کردیا۔ مقامی مسلمانوں نے پولس تھانہ پہنچ کر ان نوجوانوں کو رہا کرنے کی اپیل کی، جس کی وجہ سے پولس اور مقامی لوگوں میں تصادم کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ بعد میں پولس نے ا س کا بدلہ لیتے ہوئے کالول تحصیل میں گھروں میں گھس کر عورتوں او ربچوں سے مار پیٹ کی، یہاں تک کہ عدت گزار رہی خواتین کے ساتھ بھی مار پیٹ کی اور جبرا ان کو پولس اسٹیشن اٹھا کر لے گئی، ایک اپاہج شخص کو سات بار بے رحمی سے پیٹا گیا، پولس نے فحش کلمات کہے اور کھلم کھلا خواتین کو گالیاں دیں، حاملہ عورتوں پر زیادتی کی،خواتین کے سامنے کھلے میں کھڑ ے ہو کر پیشاب کیا، عورتوں کے کپڑے پھاڑ دیے۔مقامی لوگوں کی رپورٹ کے مطابق پولس نے عورتوں پر جنسی حملے بھی کئے اور ان کے مردوں کو 'باولے' اور'نامرد' کہا اور ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کیے۔

بعد میں ایک سو دس لوگوں کو گرفتار کرکے نذر زنداں کردیا گیا جن میں کئی خواتین یہاں تک کہ دودھ پیتا ایک سال کا بچہ بھی شامل ہے، گرفتاری سے متعلق سارے قوانین کو توڑتے ہوئے خواتین کو رات کے وقت گرفتار کیا گیا۔ ان تمام واقعات کو لکھ کر مقامی مسلمانوں کے ایک وفد نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کو خط ارسال کیا ہے اور ان سے انصاف دلانے کی درخواست کی ہے، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا مدنی نے ان کا خط موصول ہوتے ہی گجرات کے وزیر اعلی کو خط لکھا ہے اور ریاستی جمعیۃ علماء گجرات کو ہدایت دی ہے کہ ان معاملا ت پر نگاہ رکھیں اور بے قصور افراد کو انصاف دلانے میں ہر ممکن مدد کریں۔اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے کالول کے مقامی مسلمانوں سے فون پر بات چیت کی ہے اور ان کو صبر کی تلقین اور امن و امان بنائے رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔

Tuesday 13 July 2021

مزنیہ کی سوتیلی بیٹی سے نکاح کاحکم


سوال

ایک شخص نے معاذاللہ کسی عورت سے زنا کرلیا، اس عورت کی ایک سوتیلی بیٹی ہے، اب اس زانی شخص کے لیے اس عورت کی سوتیلی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

زانی کے لیے مزنیہ عورت کی سوتیلی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس لڑکی نے مزنیہ عورت کاد ودھ نہ پیا ہو۔

حوالہ جات

الدر المختار (3/ 32)

( و ) حرم أيضا بالصهرية ( أصل مزنيته ) أراد بالزنى الوطء الحرام ( و ) أصل ( ممسوسته بشهوة ) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة ( وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها ) المدور ( الداخل ) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه ( وفروعهن) مطلقا.

رد المحتار (3/ 32)

قوله ( وحرم أيضا بالصهرية أصل مزيته ) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع: حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال.

Monday 12 July 2021

نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا

 نوافل کھڑے ہوکر پڑھنا اور بیٹھ کر پڑھنا دونوں درست ہے، لیکن بیٹھ کر نفل پڑھنے کی بجائے  کھڑے ہوکر پڑھنے میں دوگنا ثواب ہے، یعنی جتنا ثواب کھڑے ہو کرنوافل  پڑھنے والے کو ملتا  ہے ،  بیٹھ کر پڑھنے والے کو اس کا آدھا ثواب ملتا ہے

کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

صلاة الرجل قاعدا نصف الصلاة.

بیٹھ کر نماز ادا کرنا آدھی نماز ہے۔

(المختصر قدوری شريف)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم تہجد میں وتر کے بعد کی دو نفلیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا پورا ثواب ملتا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسروں کو بیٹھ کر نفل نماز پڑھنے میں آدھا ثواب ملتا ہے کذا في الدر والرد (کتاب الصلاة باب الوتر والنوافل: ۲/۴۸۴، ۴۸۵، ط: مکتبہ زکریا دیوبند) ہاں اگر کوئی شخص اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت سے بیٹھ کر پڑھے گا تو اس کو دو ثواب ملیں گے: نفلوں کا آدھا اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علیحدہ، اور ہوسکتا ہے کہ یہ مجموعہ کھڑے ہوکر نفل پڑھنے کے ثواب سے زیادہ ہوجائے کذا قال الإمام الکنکوہی رحمہ اللہ تعالی (تحفة الألمعي: ۲/۳۲۷، ۳۲۸)۔ 

بیری کادرخت کاٹنا

 بیر کا درخت کسی کی ملکیت ہو تو بوقتِ ضرورت اسے کاٹ سکتے ہیں، ایک حدیث شریف میں بیری کے درخت کے کاٹنے پر جو وعید آئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن حبیش کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے الٹے سر دوزخ میں ڈالے گا ۔

 اس حدیث سے متعلق بذل المجہود میں یہ وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص حدود حرم میں بیری کا درخت کاٹے گا اس کے لیے یہ وعید ہے، بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں مدینہ کی بیری کا درخت مراد ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جنگل میں وہ بیری کا درخت مراد ہے جس کے سائے میں مسافر اور جانور راحت پاتے ہیں، اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو کسی دوسرے شخص کا بیری کا درخت ازراہِ ظلم وزیادتی کاٹ ڈالے۔لہذا اپنی ملکیت میں جو بیری کا درخت ہو اسے اپنی ضرورت کے لیے کاٹنا جائز ہے۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (13/ 627):
(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع سدرةً صوب الله رأسه في النار") (1) وفي نسخة: سئل أبو داود عن معنى هذا الحديث، قال: معناه: من قطع سدرة في فلاة يستظل بها ابن السبيل والبهائم عبثًا وظلمًا بغير حق يكون فيها، صوّب الله رأسه في النار، أي: نكّسه.
وقال البيهقي في "سننه": قال أبو ثور: سألت أبا عبد الله الشافعي عن قطع السدرة، قال: لا بأس به، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: اغسلوه بماء وسدر، وقيل: أراد به سدرة مكة لأنها حرم، وقيل: سدرة المدينة،نهى عن قطعها فيكون أنسًا وظلالًا لمن يهاجر إليها، قال: وقرأت في كتاب أبي سليمان الخطابي أن المزني سئل عن هذا فقال: وجهه أن يكون صلى الله عليه وسلم سئل عمن هجم على قطع سدر لقوم أو ليتيم أو لمن حرم الله أن يقطع عليه [فتحامل عليه] بقطعه فاستحق ما قاله، فتكون المسألة سبقت السامع، فسمع الجواب ولم يسمع السؤال، ونظيره

زکوۃ اور صدقات واجبہ کا مصرف

 صدقاتِ واجبہ جیسے زکوٰة وغیرہ غیر مسلم کو دینا جائز نہیں؛ البتہ صدقاتِ نافلہ غیر مسلم کو دے سکتے ہیں لیکن مسلمان کو دینا اولیٰ و بہتر ہے اور احادیث میں صدقہ کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں ، ایک حدیث میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ گناہ کو بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔(ترمذی)ایک دوسری حدیث میں ہے :حضرت ا بو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پوشیدہ صدقہ اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے ۔ (بیہقی ) (ولا) تدفع (إلی ذمی) لحدیث معاذ (وجاز) دفع (غیرہا وغیر العشر) والخراج (إلیہ) أی الذمی ولو واجبا کنذر وکفارة وفطرةخلافا للثانی وبقولہ یفتی حاوی القدسی وأما الحربی ولو مستأمنا فجمیع الصدقات لا تجوز لہ اتفاقا بحر عن الغایة وغیرہا، لکن جزم الزیلعی بجواز التطوع لہ.( رد المحتار

Sunday 11 July 2021

یوم الترویہ یعنی 8ذوالحج

 آٹھویں ذی الحجہ کو یوم الترویہ کہا جاتا ہے۔

ترویہ کے لغوی معنی

اس کے لغوی معنی سیراب کرنے اور پانی فراہم کرنے کے ہیں اسے یوم النقلہبھی کہتے ہیں کیونکہ اس دن حجاج منی کی طرف کوچ کرتے ہیں۔

وجہ تسمیہ

خواب میں ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ اپنے فرزند اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کریں۔ اس حکم کی صورت یہ ہوئی کہ ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کی شب میں انھوں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ نے اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ صبح کو اٹھے تو سوچ میں پڑ گئے (کہ کیا یہ حکم خداوندی تھا) صبح سے شام تک اسی سوچ میں رہے کہ یہ خواب رحمانی ہے یا شیطانی، اسی لیے ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو یوم الترویہ (سوچ کا دن) کہا جاتا ہے۔

وجہ آخر

دوسری وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قدیم زمانے میں جب حجاج آٹھ ذی الحجہ کو منی جاتے تھے تو وہاں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوتی تھی، چنانچہ منی روانگی سے قبل مکہ سے زمزم کا پانی بھر لیتے تھے اور پھر منی جاتے تھے۔ چنانچہ اس دن کا نام یوم الترویہ (پانی بھرنے کا دن) پڑ گیا۔

عقیقہ کب کیاجائے

 کسی کو جب اللہ تعالیٰ بچے سے نوازے تو ولادت کے ساتویں روز یا چودہویں یا اکیسویں دن، اگر ان دونوں میں نہ ہوسکے تو عمر بھر جب بھی موقع میسر آئے (ساتویں دن کی رعایت کے سات) بچہ کی طرف سے اللہ کے نام جانور ذبح کرنے کا نام شریعت میں ”عقیقہ“ ہے، عقیقہ سنت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ فرمایا تھا، ایک حدیث میں ہے کہ ”عقیقہ“ کی برکت سے بچہ کے اوپر سے بلائیں ٹلتی ہیں، اگر لڑکا پیدا ہو تو دو بکرے (یا بڑے جانور میں دو حصے) اور لڑکی پیدا ہو تو ایک بکرا (یا بڑے جانوروں میں ایک حصہ) ذبح کرنا مستحب ہے۔ ”عقیقہ“ کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے جس طرح بہ طور قربانی جانور ذبح کیا جاتا ہے اسی طرح عقیقہ میں بھی ذبح کیا جائے گا، عقیقہ میں بھی انھیں جانور کو ذبح کرنا درست ہے جنھیں قربانی میں ذبح کرنا درست ہے، یعنی اونٹ، گائے، بھینس، بکری، بھیڑ اور دنبہ، عقیقے کا سب سے اچھا وقت پیدائش سے ساتویں دن ہے، پھر چودہویں پھر اکیسویں، اگر ان دونوں میں بھی نہ کرسکے تو عمر بھر میں کسی بھی دن عقیقہ کیا جاسکتا ہے؛ البتہ بہتر ہے جب بھی عقیقہ کیا جائے پیدائش سے ساتویں دن کا لحاظ کیا جائے ”عن ابن عباس أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عقّ عن الحسن والحسین کبشًا کبشًا” (ابوداود، رقم: ۲۸۴۱) ثم إن الترمذي أجاز بہا إلی یوم أحدے وعشرین، قلت بل یجوز إلی أن یموت لما رأیت في بعض الروایات أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم عقّ عن نفسہ بنفسہ (فیض الباري: ۴/ ۳۳۷، کتاب العقیقة، ط: اشرفی)

المستدرک  میں ہے: 

’’عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ". ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم(4/ 266) رقم الحدیث: 7595،  کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)

اعلاء السنن میں ہے:

’’ أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘. (17/117، باب العقیقہ، ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.(6/ 336، کتاب الاضحیۃ، ط: سعید)

نوٹ: عقیقہ کے ساتھ یہ بھی مسنون ہے کہ اس دن بچے کا کوئی مناسب اسلامی نام رکھا جائے ، نیز اس کے سر کا بال صاف کئے جائیں  اور ان بالوں کے وزن کے برابر سونا چاندی صدقہ کیا جائے۔