https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 11 July 2021

عقیقہ کب کیاجائے

 کسی کو جب اللہ تعالیٰ بچے سے نوازے تو ولادت کے ساتویں روز یا چودہویں یا اکیسویں دن، اگر ان دونوں میں نہ ہوسکے تو عمر بھر جب بھی موقع میسر آئے (ساتویں دن کی رعایت کے سات) بچہ کی طرف سے اللہ کے نام جانور ذبح کرنے کا نام شریعت میں ”عقیقہ“ ہے، عقیقہ سنت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ فرمایا تھا، ایک حدیث میں ہے کہ ”عقیقہ“ کی برکت سے بچہ کے اوپر سے بلائیں ٹلتی ہیں، اگر لڑکا پیدا ہو تو دو بکرے (یا بڑے جانور میں دو حصے) اور لڑکی پیدا ہو تو ایک بکرا (یا بڑے جانوروں میں ایک حصہ) ذبح کرنا مستحب ہے۔ ”عقیقہ“ کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے جس طرح بہ طور قربانی جانور ذبح کیا جاتا ہے اسی طرح عقیقہ میں بھی ذبح کیا جائے گا، عقیقہ میں بھی انھیں جانور کو ذبح کرنا درست ہے جنھیں قربانی میں ذبح کرنا درست ہے، یعنی اونٹ، گائے، بھینس، بکری، بھیڑ اور دنبہ، عقیقے کا سب سے اچھا وقت پیدائش سے ساتویں دن ہے، پھر چودہویں پھر اکیسویں، اگر ان دونوں میں بھی نہ کرسکے تو عمر بھر میں کسی بھی دن عقیقہ کیا جاسکتا ہے؛ البتہ بہتر ہے جب بھی عقیقہ کیا جائے پیدائش سے ساتویں دن کا لحاظ کیا جائے ”عن ابن عباس أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عقّ عن الحسن والحسین کبشًا کبشًا” (ابوداود، رقم: ۲۸۴۱) ثم إن الترمذي أجاز بہا إلی یوم أحدے وعشرین، قلت بل یجوز إلی أن یموت لما رأیت في بعض الروایات أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم عقّ عن نفسہ بنفسہ (فیض الباري: ۴/ ۳۳۷، کتاب العقیقة، ط: اشرفی)

المستدرک  میں ہے: 

’’عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ". ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم(4/ 266) رقم الحدیث: 7595،  کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)

اعلاء السنن میں ہے:

’’ أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘. (17/117، باب العقیقہ، ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.(6/ 336، کتاب الاضحیۃ، ط: سعید)

نوٹ: عقیقہ کے ساتھ یہ بھی مسنون ہے کہ اس دن بچے کا کوئی مناسب اسلامی نام رکھا جائے ، نیز اس کے سر کا بال صاف کئے جائیں  اور ان بالوں کے وزن کے برابر سونا چاندی صدقہ کیا جائے۔

No comments:

Post a Comment