https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 22 October 2020

اسلام میں توہین رسالت کی سزا

 اسلام میں دیگرمذاہب کی محترم شخصیات کی توہین  نہ کرنے اور ان کی بے ادبی نہ کرنے کی باربار تلقین کی وجہ یہی ہے کہ اس سے باہمی استہزاء واہانت کا دروازہ کھلتا ہے فرمایا:.ولاتبسوالذین یدعون من دون اللہ فیسب اللہ عدوا بغیرعلم

(القرآن)

جن کویہ لوگ اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں تم ان کو برا نہ کہوپھروہ جواباََ .دشمنی میں اپنی لاعلمی سے اللہ کو براکہیں گے

ا نَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينََ

(سورۃ الاحزاب ۔آیت57)

: ترجمہ

 بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صل اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور اخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔


:نیز اللہ فرماتا ہے 


﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اﷲِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (التوبہ:61

: ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کو جو لوگ ایذا دیتے

ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔


:اللہ مزید فرماتا ہے 


﴿وَاِنْ نَکَثُوْا أَیْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْا آئِمَّةَ الْکُفْرِِ اِنَّهُمْ لَا أَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ﴾ (التوبہ :12

ترجمہ:اگر یہ لوگ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے لیڈروں سے قتال کرو اس لئے کہ ان کی قسمیں (قابل اعتبار) نہیں ہیں تاکہ یہ (اپنی شرارتوں اور توہین آمیز خاکے بنانے سے) باز آجائیں۔


ابن کثیر﴿وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ﴾کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :


أی عابوه وانتقصوه ومن هاهنا أخذ قتل من سب الرسول صلوات اﷲ وسلامه علیه أو من طعن فی دین الاسلام او ذکره بتنقص (ابن کثیر:3؍359، بتحقیق عبدالرزاق مهدی

ترجمہ:یعنی تمہارے دین میں عیب لگائیں اور تنقیص کریں۔ یہاں سے ہی یہ بات اخذ کی گئی ہے کہ جو شخص رسول اللہﷺ کو گالی دے یا دین اسلام میںطعن کرے یا اس کا ذکر تنقیص کے ساتھ کرے تو اسے قتل کردیاجائے۔

  :بخاری شریف میں ہے

قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَايَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَنَا فَأَتَاهُ فَقَالَ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ فَقَالَ ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ فَيُقَالُ رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ قَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي السِّلَاحَ فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَقَتَلُوهُ ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ

(صحیح بخاری باب الرہن)

 ترجمہ: حضرت عمروبن العاص روایت کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے سنا کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون کھڑا ہوگا کعب بن اشرف کیلئے کیونکہ اس نے اللہ اور اسکے رسول کو تکلیفیں دی ہیں تو محمد بن مسلمہ اٹھ کھڑے ہوےاورپھر جا کر اس کو قتل کردیا۔اور پھر حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے اس کو قتل کردیا۔


اس حدیث کے ذیل میں فتح الباری نے لکھا ہے کہ یہاں اللہ اور اس کے رسول کو اذیت  سے مراد یہ ہے کہ اس نے اپنے اشعار کے ذریعے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دی تھیں اور مشرکوں کی مدد کی تھی۔ حضرت عمرو سے روایت ہے کہ یہ کعب بن اشرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور قریش کومسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا۔ یہ یہودی نبی صل اللہ علیہ وسلم کو اور انکے واسطے سے اللہ کو اذیت دیتا تھا تو نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا اعلان کیا اور محمد بن مسلمہ نے اس کو قتل کرکے حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی اطلاع دے دی۔



بعث رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم الیٰ ابی رافع الیھودی رجالا من الانصاروامر علیھم عبد اللہ بن عتیق وکان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم و یعین علیہ ۔ ترجمہ: رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کیلئے چند انصار کا انتخاب فرمایا ، جن کا امیر عبد اللہ بن عتیق مقرر کیا ۔یہ ابو رافع نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کی مدد کرتا تھا۔

(صحیح بخاری)




عن انس بن مالک ان النبی صل اللہ علیہ وسلم دخل مکہ یوم الفتح و علی راسہ المغفر فلما نزعہ جاء رجل فقال ابن خطل متعلق باستار الکعبہ فقال اقتلہ۔

(صحیح بخاری

قال ابن تیمیہ فی الصارم المسلول وانہ کان یقول الشعر یھجو بہ رسول اللہ ویامرجاریتہ ان تغنیابہفھذا لہ ثلاث جرائم مبیحۃ الدم، قتل النفس ، والردۃ ، الھجاء۔(الصارم۔صفحہ 135) امر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بقتل القینتین(اسمھما قریبہ و قرتنا)

 (اصح السیر ۔صفحہ 266) 

ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک پر خود پہنا ہوا تھا۔جب آپ نے خود اتارا تو ایک آدمی اس وقت حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردو ں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو قتل کردو۔

(صحیح بخاری)

علامہ ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کہہ کر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے کیلئے کہا کرتا تھا،تو اسکے تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح الدم قرار پایا ، اول ارتداد دوسرا قتل اور تیسرا حضور صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی.

اسلام میں دیگرمذاہب کے کسی بھی مذہبی نشان, اشیاء,اورشخصیات کی توہین کی اجازت نہیں. اس کے ساتھ ہی کسی بھی پیغمبرکی توہین گستاخی یاتنقیص بھی ناقابل معافی جرم ہے.جس کی سزا توبہ کے باوجود بھی قتل ہے.

آجکل فرانس میں آزادئ اظہار کے نام پر نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بناکر آزادئ اظہار کی جوتشریح کی جارہی ہے اس نے سبھی کوورطۂ حیرت میں  ڈال رکھا ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کسی بھی مسلمان کے لئے ناقابل برداشت اور انتہائی اشتعال انگیز عمل ہے. اس گھناؤنی حرکت سے تنگ آکر جب کوئی باغیرت اپنے جوش وجذبہ پرقابونہ رکھتے ہوئے انتہائی قدم اٹھالیتا ہے تویہ نام نہاد مہذب سماج مل کر بیک زبان شورشرابہ کرتااور اسے اسلامی دہشت گردی کانام دیتا ہے حالاں کہ اس کے ساتھ ہی آزادئ اظہار کی حدود وثغوربھی متعین کرناضروری ہیں.سب سے پہلے ان لوگوں کوروکنا بھی ضروری ہے جوبلاوجہ پیغمبر اسلام کی توہین کرکے مسلمانوں کو اشتعال دلاتے اور امن عالم کو خطرہ میں ڈالتے ہیں .

:گستاخ رسول کاحکم

اگرچہ اہانت رسول ایک ناقابل معافی جرم ہے لیکن قانون کواپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے انفرادی طورپرامت مسلمہ کے کسی شخص کے  ذریعہ گستاخ رسول کوسزادینے کی اجازت نہیں بلکہ اس کے لئے حکمراں طبقہ گستاخ رسول کو سزادلانے کی کوشش کرے.اور عدلیہ یاحکومت اس پر کارروائی کرے گی.لیکن مسلم ممالک کی بے حسی کہیئے کہ آج تک کسی نے عالمی طورپرفرانس کے چارلی ہیبڈوجریدے کویہ بات سمجھانے کی کوشش نہیں کی.اور وہ اپنی گستاخانہ کارٹون دکھانے میں اپنے ملک وملت اور آزادئ اظہارکی  خدمت عظیمہ سمجھ کرلگا ہوا ہے.صدرفرانس نے اپنی دوغلی پالیسی جاری رکھتے ہوئے اس جریدے کے کام کوسراہا ہے اور اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو اسلامی دہشت گردی قرار دیا ہےمسلم امہ کا یہ فریضۂ منصبی ہے کہ سبھی مسلم ممالک متحد ہوکر یواین او میں توہین رسالت کاقانون  عالمی طورپرمنظور کرائیں.

اہانت رسول کی سزا پرپوری امت مسلمہ متحد ہے کہ گستاخ رسول کو  کیفرکردارتک پہنچاناضروری ہے  خواہ وہ توبہ کرلے.اگرکوئی  غیرمسلم توہین رسالت کامرتکب ہوالیکن گرفتاری کے بعد اس نے توبہ کرلی اور اسلام قبول کرلیاتب بھی اس کو سزاءََ قتل کیاجائے گاالبتہ اس کے حلقہ بگوش اسلام ہونےکی وجہ سے اس کی تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ بحیثیت مسلمان کی جائے گی.

:محقق ابن ہمام علیہ الرحمہ

«کل من أبغض رسول الله ﷺ بقلبه کان مرتدًا فالساب بطریق أولى ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاط القتل.... وإن سبّ سکران ولا یعفی عنه»

فتح القدیرجلد 5صفحہ332)
''ہر وہ شخص جو دل میں رسول ﷺ سے بغض رکھے، وہ مرتد ہے اور آپ کو سب و شتم کرنے والا تو بدرجہ اولیٰ مرتد ہے اسےقتل کیا جائے گا۔ قتل کے ساقط کرنے میں اسکی توبہ قبول نہیں۔ اگرچہ حالت ِنشہ میں کلمۂ گستاخی بکا ہو ، جب بھی معافی نہیں دی جائے گی۔''
2. علامہ زین الدین ابن نجیم علیہ الرحمہ
«کل کافر فتوبته مقبولة في الدنیا والآخرة إلا جماعة الکافر بسب النبي وبسبّ الشیخین أو إحداهما.... لا تصح الردة السکران إلا الردة بسب النبي ولا یعفی عنه.... وإذا مات أو قتل لم یدفن في مقابر المسلمین، ولا أهل ملته وإنما یلقی في حفیرة کالکلب»

الأشباہ والنظائر:158,159)
''ہر قسم کے کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے، مگر ایسے کفار جنہوں نے حضورﷺ  یاشیخین میں سے کسی کو گالی دی تو اُس کی توبہ قبول نہیں۔ ایسے ہی نشہ کی حالت میں ارتداد کو صحیح نہ مانا جائے گا مگر حضورﷺ کی اہانت حالتِ نشہ میں بھی کی جائے تو اُسے معافی نہیں دی جائے گی۔ جب وہ شخص مرجائے تو اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں، نہ ہی اہل ملت (یہودی نصرانی) کے گورستان میں بلکہ اسے کتے کی طرح کسی گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔''
3. امام ابن بزار علیہ الرحمہ
«إذا سبّ الرسول ﷺ أو واحد من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حد واجب فلا یسقط بالتوبة ولا یتصور فیه خلاف لأحد لأنه حق تتعلق به حق العبد فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین وکحد القذف لا یزول بالتوبة»

رسائل ابن عابدین 2/327
''جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اہانت کرے یا انبیا میں سے کسی نبی کی گستاخی کرے تو اسےبطورِ حد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، خواہ وہ تائب ہوکر آئے یا گرفتار ہونے کے بعد تائب ہو اور اس پر شہادت مل جائے تو وہ زندیق کی طرح ہے۔اس لیے کہ اس پر حد واجب ہے اور وہ توبہ سے ساقط نہیں ہوگی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ یہ ایسا حق ہے جو حق عبد کےساتھ متعلق ہے، جو بقیہ حقوق کی طرح توبہ سے ساقط نہیں ہوتا جیسے حد ِقذف بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔''
4. علامہ علاء الدین حصکفی علیہ الرحمہ
«الکافر بسبّ النبي من الأنبیاء لا تقبل توبته مطلقًا ومن شكّ في عذابه و کفره کفر»

درمختار6/356
''کسی نبی کی اہانت کرنے والا شخص ایسا کافر ہے جسے مطلقاً کوئی معافی نہیں دی جائے گی، جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ خود کافر ہے۔''
5. علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ
«واعلم انه قد اجتمعت الأمة علی أن الاستخفاف بنبینا وبأي نبي کان من الأنبیاء کفر، سواء فعله فاعل ذلك استحلالا أم فعله معتقدًا بحرمته لیس بین العلماء خلاف في ذلك، والقصد للسب وعدم القصد سواء إذ لا یعذر أحد في الکفر بالجهالة ولا بدعوی زلل اللسان إذا کان عقله في فطرته سلیما»

روح البیان3/394
''تمام علماے اُمت کااجماع ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ ہوں یا کوئی اور نبی علیہ السلام ان کی ہر قسم کی تنقیص و اہانت کفر ہے، اس کا قائل اسے جائز سمجھ کر کرے یا حرام سمجھ کر، قصداً گستاخی کرے یا بلا قصد، ہر طرح اس پر کفر کافتویٰ ہے۔ شانِ نبوت کی گستاخی میں لا علمی اور جہالت کا عذر نہیں سنا جائے گا، حتیٰ کہ سبقت ِلسانی کا عذر بھی قابل قبول نہیں، اس لیے کہ عقل سلیم کو ایسی غلطی سے بچنا ضروری ہے۔''
6. علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی علیہ الرحمہ
«ولا خلاف بین المسلمین أن من قصد النبي ﷺ بذلك فهو ممن ینتحل الإسلام أنه مرتد فهو یستحق القتل»

احکام القرآن3/112
''تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص نےنبی کریم ﷺ کی اہانت اور ایذا رسانی کا قصد کیا وہ مسلمان کہلاتا ہو تو بھی وہ مرتد مستحق قتل ہے۔''
ذمی شاتم رسول کا حکم
جو شخص کافر ہو اور اسلامی سلطنت میں رہتا ہوں، ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اسے حکومت تحفظ فراہم کرتی ہے، مگر جب وہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہو تو اس کا عہد ختم ہوجاتا ہے اور اس کی سزا بھی قتل ہے۔
7. امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ
علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فإن الذمي إذا سبه لا یستتاب بلا تردد فإنه یقتل لکفره الأصلي کما یقتل الأسیر الحربی»

الصارم المسلول260
''اگر کوئی ذمی نبی کریمﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کردیں گے کیونکہ اسے اس کے کفر اصلی کی سبب قتل کیا جائے گا جیسے حربی کافر کو قتل کیا جاتا ہے۔''
8. امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ
''میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضورﷺ کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی، اگر وہ ان کے معتقدات سے خارج ہے جیسے اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت یہ یہود و نصاریٰ کا عقیدہ ہے، جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔''

فتح القدیرجلد5/303
9. علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ
«فلو أعلن بشتمه أو إعتاده قُتل ولو امرأة وبه یفتٰی الیوم»

ردالمحتارجلد6/301
''جب ذمی علانیہ حضورﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے قتل کیا جائے گا، اگرچہ عورت ہی ہو او راسی پر فتویٰ ہے۔''
حرفِ آخر
قاضی عیاض مالکی اور علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ ،دونوں نے امام ابوسلیمان خطابیؒ کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھا:
«لا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتله»
''میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی نے شاتم رسول کے قتل میں اختلاف کیا ہو۔''
علامہ ابن تیمیہؒ مزید لکھتے ہیں:
«إن الساب إن کان مسلما فإنه یکفرویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الأئمة الأربعة وغیرهم»

الصارم المسلول ص24
''بے شک حضور نبی کریمﷺ کو سب و شتم کرنے والا اگرچہ مسلمان ہی کہلاتا ہو، وہ کافر ہوجائے گا۔ ائمہ اربعہ اور دیگر کے نزدیک اِسےبلا اختلاف سزاءََ قتل کیا جائے گا۔''

شیخ الاسلام تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد العلیم بن عبد السلام الحرانی الدمشقی المعروف بابن تیمیہ نے اپنی مشہور " کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول" میں نقل فرمایاہے:

 «ان من سب النبی صلی الله علیه وسلم من مسلم او کافر فانه یجب قتله، هذا مذهب علیه عامة اهل العلم۔ قال ابن المنذر: أجمع عوام أهل العلم علی أن حد من سب النبی صلی الله علیه وسلم : القتل ، وممن قاله مالک واللیث واحمد واسحق وهو مذهب الشافعی ، وقد حکیابوبکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی صلی الله علیه وسلم القتل».1

ترجمہ : عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو شخص خواہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو براکہتاہے اس کاقتل  شرعا واجب ہے۔ ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب وستم کرے، اس کی حد قتل ہے اور اسی بات کو امام مالک، امام لیث، امام احمد، امام اسحاق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے.اور ابوبکر فارسی نے اصحابِ شافعی سے اس پرمسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد قتل ہے۔

«وقال محمد بن سحنون: اجمع العلماء علی ان شاتم النبی صلی الله علیه وسلم والمُتَنَقِّص له کافر، والوعید جاء علیه بعذاب الله له وحکمه عند الامة القتل، ومن شک فی کفره وعذابه کفر۔» 2

محمد بن سحنون نے فرمایا: علماء کا اجماع ہے کہ شاتم رسول اور آپ کی توہین وتنقیصِ  کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کے لیے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم ،قتل ہے۔ اور جو آدمی اس شخص کے کفر اور عذاب کے بارے میں شک و شبہ کرے گا وہ بھی کافر ہو گا۔

مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات  واضح ہوگئی کہ باجماعِ امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تنقیص  کفر ہے اور اسے سزاءََ قتل کرنا واجب ہے۔ اور آخرت میں اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور جو اس کے کفر  اورمستحقِ عذاب ہونے میں شک کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا؛ کیوں کہ اس نے ایک کافر کے کفر میں شبہ کیا ہے۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےابن سحنون سے مزید نقل کیا ہے :« ان الساب ان کان مسلما فانه یکفر ویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الائمة الأربعة وغیرهم۔»3

اگر براکہنے  والا مسلمان ہے تو وہ کافر ہوجائے گا اور بلا اختلاف سزاءََ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اور یہ ائمہ اربعہ وغیرہ کا مذہب ہے۔

اور امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ:«قال احمد بن حنبل: سمعت ابا عبد الله یقول :کل من شتم النبی صلی اللّٰه علیه وسلم او تنقصه مسلما کان أوکافرا فعلیه القتل، وأری أن یقتل و لایستتاب.»4

جوبھی خواہ مسلمان ہو یا کافر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے اس کاقتل واجب ہے ۔اور میری رائے یہ ہے کہ اس کو توبہ کرنے کے لیے  مہلت نہیں دی جائے گی بلکہ فوراً ہی سزاءََقتل کردیا جائے گا۔

"الدرالمختار "میں ہے: وفی الاشباه ولا تصح ردة السکران الا الردة بسب النبی صلی الله علیه وسلم فانه یقتل ولا یعفی عنه۔» 5

"اشباہ " میں ہے کہ نشہ میں مست آدمی کی ردّت کا اعتبار نہیں ہے ،البتہ اگر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے مرتد ہوجاتاہے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس گناہ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

امام احمد رحمہ اللہ اور "اشباہ "کی عبارات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ توہین رسالت کا جرم  قابل معافی نہیں  اور اس کی شرعی سزا قتل ہے. لیکن یہ کسی بھی فردواحد کا کام نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے.

اور جو  شخص حالت ارتدادپر بدستور قائم رہتاہے یا بار بارمرتد ہوتا رہتاہے اس کو فوراً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ "فتاوی شامی" میں ہے:

«وعن ابن عمر وعلی: لا تقبل توبة من تکر رت ردته کالزندیق، وهو قول مالک واحمد واللیث، وعن ابی یوسف لو فعل ذلک مراراً یقتل غیلة۔» 6

حضرت عبد اللہ بن عمراورحضرت علی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ متعددبارمرتدہونے والے کی توبہ قابل قبول نہیں، جیساکہ زندیق کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور یہ امام مالک، احمد اورلیث کا مذہب ہے، امام ابویوسف سے مروی ہے کہ اگر کوئی مرتد ہونے کا جرم بابار کرے تواسے سزاءََ حیلہ سے بے خبری میں قتل کردیا جائے۔

اسی طرح "در مختار " میں ہے:  «وکل مسلم إرتد فتوبته مقبولة إلا جماعة من تکررت ردته علی ما مر۔ والکافر بسب نبی من الانبیاء فانه یقتل حدا ً ولا تقبل توبته مطلقاً۔» 7

ہر وہ مسلم جو نعوذ باللہ مرتد ہوجاتاہے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے ، مگر وہ جماعت جس کا ارتداد مکرربار بار ہوتا ہو، ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اور جو آدمی انبیاء میں سے کسی نبی کو براکہنے یاگالی دینے کی وجہ سے کافر ہوجائے اس کو قتل کر دیاجائے گا اور اس کی توبہ کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جائے گی۔

ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ  توہین رسالت اتنا بڑا جرم ہے کہ بہ فرض محال اگر کوئی نشہ میں مست آدمی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہے گا یا آپ کی توہین و تحقیر کرے گا تو اسے سزاءََ قتل کردیا جائے گا۔

1۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول،لتقی الدین ابن تیمیه-المتوفی ۷۲۸ھ المسئلة الاولی : ۳،۴ ط: نشر السنة  ملتان ۔  2۔ المرجع السابق۔ ۳،۴  ۔3۔الصارم المسلول - ۳،۴۔   4۔المرجع السابق․ ص:۴

5۔الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۲۴․ ط:سعید کراچی۔     6 ۔رد المحتارعلی الدرالمختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-مطلب مایشک فی انه ردة لایحکم بها - ۴۲۲۵۔ ط:سعید کراچی۔  7۔ الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۳۱،۲۳۲، ط:سعید۔کراچی۔8۔ رد المحتارعلی الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۳۷․ط:سعید ،کراچی۔   9۔ الد رالمختار -کتاب الحدود-باب التعزیر-۴۶۴․ط: ایچ ،ایم ،سعید کراچی۔