https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 15 November 2025

طلاق غضبان کا حکم


جواب:

۔ فقہاء غصہ کی تین حالتیں بیان کرتے ہیں :

  1. أحدها أن يحصل له مبادی الغضب بحيث لايتغيرعقله ويعلم مايقول ويقصده وهذالااشکال فيه.

  2. الثانی أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لاريب أنه لاينفذ شئی من اقواله.

  3. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر کالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله.

  1. پہلی یہ کہ ابتدائی حال ہو، عقل میں تبدیلی نہ آئے اور آدمی جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کا ارادہ ہے اس میں اشکال نہیں کہ طلاق ہو جائے گی۔
  2. دوسرا درجہ یہ ہے کہ غصہ انتہا کو پہنچ جائے اسے پتہ نہ چلے کہ کیا کہتا ہے اور کیا ارادہ ہے اس صورت میں بلاشبہ ا س کا کوئی محل نافذ نہ ہو گا۔
  3. تیسرا درجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ہو کہ انسان پاگل کی طرح نہ ہو جائے یہ قابل غور ہے دلائل کی روشنی میں اس صورت میں بھی اس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوگا۔

(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه)

  1. مايزيل العقل فلايشعرصاحبه بماقال وهذالايقع طلاقه بلانزاع.
  2. مايکون فی مبادية بحيث لايمنع صاحبه من تصورمايقول وقصده فهذايقع طلاقه.
  3. أن يستحکم ويشتد به فلا يزيل عقله بالکلية ولکن يحول بينه و بين نيته بحيث يندم علی ما فرط منه اذا زال فهذا محل نظر و عدم الوقوع فی هذه الحالة قوی متجه.

  1. ایک یہ کہ غصہ اتنا زیادہ ہوکہ عقل انسانی قائم نہ رہے اورپتہ ہی نہ ہوکہ اس نے کیا کہا اس صورت میں بلا اختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔
  2. دوسرا غصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ پوری طرح سمجھتا ہے اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔
  3. تیسرا درمیانہ درجہ کا غصہ ہے جو سخت ہوتا ہے اور وہ انسان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے مگر انسانی عقل قائم رہتی ہے لیکن دل کی نیت و ارادہ کے بغیر محض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے، وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا رہا ہوتا پھر طلاق سرزد ہونے کے بعد نادم ہوتا ہے۔ افسوس کرتا ہے۔ یہ صورت غور طلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہوگی۔

(ابن قيم، زاد المعاد، 5 : 215، مؤسسة الرسالة، مکتبة المنار، بيروت الکويت، سن اشاعت، 1407ه)

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں :

الجنون فنون.

(جنون کئی قسم کاہوتاہے)

(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دار لفکر للطباعة والنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه)

معلوم ہوا جو شدید غصہ میں ہو وہ ایک قسم کے وقتی مرض میں مبتلا ہوتا ہے، قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے :

ولَاعَلَی الْمَرِيْضِ حَرَجٌ.

’’اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے‘‘۔

النور، 24 : 61

مفسرین کرام اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

فالحرج مرفوع عنهم فی هذا.

’’جو مریض لوگ ہیں مرض کی حالت میں ان سے حرج و تنگی اور گرفت اٹھالی گئی ہے‘‘۔

  1. عبدالرحمن بن محمد، تفسير الثعالبی، 3 : 127، مؤسسه الأعلمی للمطبوعات بيروت
  2. قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دارالشعب، القاهره
  3. أبو محمد عبدالحق بن غالب عطية الأندلسی، المحرر الوجيز فی تفسير الکتاب العزيز، 4 : 195، دار الکتب العلمية، لبنان، سن اشاعت 1413ه

مزید علامہ قرطبی بیان کرتے ہیں :

فبينت هذه الاٰية انّه لا حرج علی المعذورين.

اس آیت مبارکہ نے بیان کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔

قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دار الشعب، القاهره

دوسری آیت کریمہ ہے :

وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ.

’’اس (اﷲ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی‘‘۔

الحج، 22 : 78

امام ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاصّ الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں، ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’حرج کا مطلب ہے تنگی۔‘‘

ان کے شاگرد مجاہد فرماتے ہیں :

ويحتجّ به فی کل ما اختلف فيه من الحوادث ان ما ادی الی الضيق فهو منفی وما اوجب التوسعة فهو اولٰی.

’’اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جا سکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی و آسانی پیدا کرے وہی بہتر  ہے۔‘‘

آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔

جصاصّ، احکام القرآن، 3 : 251، طبع لاهور

امام رازی فرماتے ہیں :

الضيق

’’تنگی‘‘

امام رازی، تفسير الکبير، 23 : 73، طبع طهران

امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں :

ضيق بتکليف مايشتد القيام به عليکم.

’’تنگی، ایسی تکلیف کا حکم دیکر جس پر قائم رہنا تم پر سخت ہو‘‘۔

يضاوی، انوار التنزيل و اسرار التأويل، 2 : 50، طبع مصر
محمود آلوسی، روح المعانی، 17، 190، طبع تهران. ايران

حدیث پاک میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

رفع القلم عن ثلاثة عن المجنون المغلوب علی عقله وعن النائم حتی يستيقظ وعن الصبی حتی يحتلم.

’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا مجنوں جس کی عقل پر غصہ غالب ہو، سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 2 : 68، رقم 2351، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه

2. ابن حبان، الصحيح، 1 : 356، رقم 143، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1414ه

3. ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 348، رقم 3048، ، المکتب الاسلامی، بيروت، سن اشاعت1390ه

4. نسائی، السنن الکبری، 4 : 323، رقم 7343، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه

5. ابو داؤد، السنن، 4 : 140، رقم 4401، دار الفکر

6. دار قطنی، السنن، 3 : 138، رقم 173، دار المعرفة، بيروت، سن اشاعت 1386ه

7. هندی، کنز العمال، 4 : 98، رقم 10309، دارالکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1419ه

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :