https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 6 August 2021

پروین کمار سے عبدالصمد تک کاسفر

 تقریباً 32 سالہ شخص ہائی وے پر پیدل چل رہا تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں انڈیا کا پرچم اور ساتھ میں ایک ٹرالی بیگ بھی تھا۔ کبھی ہلکی پھُہار تو کبھی تیز بارش کے درمیان بھی اس کے قدم رک نہیں رہے تھے۔

گذشتہ دنوں یہ مناظر انڈین ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ اور انڈین دارالحکومت دلی کے درمیان کئی لوگوں نے جگہ جگہ دیکھے۔ لوگ تجسس میں تھے کہ آخر اس شخص کا مقصد کیا ہے؟

بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سماجی سطح پر زیادتی کا شکار ایک شخص ہے، جس کا نام ہے پروین کمار۔ پروین سے کچھ عرصہ قبل اترپردیش پولیس کے انسداد دہشت گردی کے محکمے کے اہلکاروں نے مذہب تبدیل کرنے کے معاملے میں پوچھ گچھ کی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پروین کا نام دلی میں واقع اسلامک دعویٰ سینٹر نامی ادارے میں مذہب تبدیل کرنے والے ایک شخص کے طور پر درج تھا، جس نے اسلام قبول کر کے اپنا نام پروین کمار سے بدل کر عبد الصمد رکھ لیا ہے۔

حالانکہ اہلکاروں نے ایک ہفتہ پوچھ گچھ کے بعد پروین کو کلین چٹ دے دی تھی اور انھیں گھر واپس بھیج دیا تھا لیکن اس کے بعد پروین کے ساتھ جو ہوا وہ حیران کن ہے۔

پروین کمار نے بتایا 'انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے مجھے کلین چٹ دے دی تھی اور میں 30 جون کو اپنے گھر واپس آ گیا تھا، لیکن گاؤں میں کئی لوگ میرے ساتھ عجیب سلوک کرنے لگے۔ میرے گھر کی دیوار پر دہشت گرد لکھ دیا گیا۔ ایک بار ایک کاغذ میرے گھر میں پھینکا گیا جس پر لکھا تھا کہ تم پاکستانی دہشتگرد ہو، پاکستان واپس چلے جاؤ۔'

سہارن پور پولیس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پروین کو کلین چٹ دے دی گئی تھی۔

بی بی سی سے گفتگو میں سہارن پور ضلعے کے پولیس اہلکار بینو سنگھ نے بتایا 'انسداد دہشت گردی کے اہلکار پروین کو پوچھ تاچھ کے لیے لے گئے تھے۔ وہاں سے انھیں کلین چٹ دی گئی ہے۔ باقی تفصیلات اہلکاروں کے پاس ہیں۔ میری معلومات بس اتنی ہیں کہ انھیں کلین چٹ دے دی گئی ہے۔'

Shahbaz Anwar/BBC پروین کے بقول ان کی گھر کی دیوار پر دہشت گرد لکھ دیا گیا

انسداد دہشت گردی کی جانچ کی تفصیل

دراصل دلی میں واقع اسلامک دعویٰ سینٹر سے وابستہ عمر گوتم اور جہانگیر عالم پر جبری طور پر مذہب تبدیل کرانے کا الزام تھا۔ اہلکاروں کے مطابق جانچ میں معلوم ہوا کہ مذہب بدلنے والے افراد میں پروین کمار کا نام بھی شامل تھا۔

انھیں پروین کے نام کے ساتھ ایک سرٹیفیکیٹ بھی موصول ہوا جس پر ان کی تصویر بھی تھی۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس سرٹیفکیٹ میں درج تھا کہ پروین کمار نے مذہب تبدیل کر کے اپنا نام عبد الصمد رکھ لیا ہے۔

پروین کمار سے عبد الصمد بننے کا سفر

اس بارے میں پروین کہتے ہیں 'یہ سرٹیفیکیٹ میرا ہی تھا۔ میں ان دنوں ڈپریشن کا شکار تھا اور مجھے سکون چاہیے تھا۔ اس لیے میں 19 نومبر 2019 کو گھر چھوڑ کر نکل گیا تھا۔۔۔ میں نے اس بارے میں اپنے والدین کو بتایا نہ ہی اپنی اہلیہ کو۔۔۔ اور اپنا موبائل فون بھی بند کر دیا تھا۔'

انھوں نے بتایا 'مجھے انٹرنیٹ سے اسلامک دعویٰ سینٹر کا پتا ملا تھا اور میں دلی پہنچا تو ابتدائی چند روز وہیں رہا۔ وہاں قرآن سے لے کر ہندو وید کی کتابیں بھی رکھی ہوئی تھیں اور میں اپنی مرضی سے وہاں گیا تھا۔ دو روز بعد میری ملاقات عمر گوتم اور جہانگیر عالم سے ہوئی۔ میں نے کچھ کتابوں پر غور کیا اور پھر پروین کمار سے عبد الصمد بن گیا۔'

اس گفتگو کے دوران پروین کمار اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے وہاں گئے تھے، کسی نے انھیں وہاں بلایا نہیں تھا۔

اس درمیان وہ بار بار یہ بھی دہراتے ہیں کہ ان دنوں وہ ڈپریشن کا شکار تھے اور انھوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا کسی نے انھیں کوئی لالچ دیا تھا نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کی زبردستی کی گئی تھی۔

Shahbaz Anwar/BBC میرٹھ سے دو سو کلومیٹر دور عدالت عظمیٰ تک کا سفر پروین نے پیدل طے کیا

'مجھے انصاف چاہیے'

پروین کمار پیشے سے ٹیچر ہیں۔ انھوں نے انصاف کے مطالبے کے ساتھ سہارنپور سے 27 جولائی کو یہ سفر شروع کیا تھا جو گذشتہ اتوار یعنی ایک اگست کو ختم ہوا۔

اس پیدل سفر کو پروین نے 'سماجی انصاف کے سفر' کا نام دیا ہے۔ لیکن آخر ان کے ساتھ ناانصافی کیا ہوئی؟

اس بارے میں وہ کہتے ہیں 'انسداد دہشت گردی کے اہل کاروں نے پہلی مرتبہ مجھ سے 21 جون کو میرے گھر پر پوچھ تاچھ کی تھی۔ یہ اہلکار 24 جون تک میرے گھر پر ہی پوچھ تاچھ کرتے رہے۔ اس کے بعد مجھے لکھنؤ لے جایا گیا جہاں مجھ سے 29 جون تک پوچھ تاچھ ہوئی۔'

پروین نے آگے بتایا 'اہلکاروں نے مجھ سے بیرون ممالک سے آنے والی معاشی مدد اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے سے متعلق سوالات کیے، مجھ سے کئی گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی جاتی تھی، لیکن بعد میں مجھے کلین چٹ دے کر واپس گھر بھیج دیا گیا۔'

گا ؤ ں میں پروین کے بارے میں افواہی ں پھیلنے لگیں

پروین کمار گھر تو لوٹ آئے لیکن یہاں سے ان کی مزید پریشانیاں شروع ہوئیں۔ بقول پروین کمار جس دن ان سے سوال جواب شروع ہوئے تھے، یعنی 21 جون، اسی دن سے گاؤں میں ان کے بارے میں افواہیں پھیلنے لگیں۔

پروین نے بتایا 'میں ایک قوم پرست شخص ہوں، شاعر ہوں، ٹیچر ہوں، مصنف بھی ہوں۔ لیکن 12 جولائی کی رات کو جب میرے گھر کی دیواروں پر دہشت گرد لکھ دیا گیا، پاکستان چلے جانے کی باتیں لکھ کر پرچہ میرے گھر میں پھینکا گیا تو میں بہت رویا۔ دل میں خیال آیا کہ خودکشی کر لوں۔'

ان کا کہنا تھا 'لیکن پھر میں نے سوچا کہ میں انصاف حاصل کروں گا۔۔۔ سماجی زیادتی کے خلاف انصاف۔ یہی سوچ کر میں نے 27 جولائی سے سماجی انصاف کا سفر شروع کیا تھا۔ ضلعی مجسڑیٹ کے دفتر میں اپنا خط سونپنے کے بعد میں 200 کلومیٹر دور واقع دلی کی سپریم کورٹ پہنچنے کے لیے وہاں سے پیدل ہی نکل پڑا اور اتوار کو میں دلی پہنچا۔'

'میں ان دنوں ڈپریشن کا شکار تھا'

پروین کمار نے اس روز کے بارے میں بتایا جب وہ نومبر 2019 میں اپنے گھر سے نکل پڑے تھے، 'میں جب گھر سے نکلا تو کافی پریشان تھا، مجھے سکون چاہیے تھا، اس کے بعد میں اسلامک دعویٰ سینٹر پہنچا۔ میں کچھ دن کاشی جا کر بھی رہا۔ میں اپنی مرضی سے عبدالصمد بنا۔'

ان کا کہنا تھا 'چند لوگوں نے میرا علاج کرایا تو میں ٹھیک بھی ہو گیا۔ جنوری 2020 کو جب میں گھر واپس آیا تو گھر والے مجھے دیکھ کر خوش ہو گئے۔ انھوں نے مجھ سے میرے لاپتہ ہونے کے بارے میں ہوچھا تو میں نے انھیں سچ بتا دیا۔'

پروین کمار کے عبد الصمد بننے کے بارے میں رشتہ داروں کو پتا چلا تو انھوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔ پروین سے جب پوچھا جاتا ہے کہ اب وہ پروین کمار ہیں یا عبد الصمد تو وہ کہتے ہیں 'میں ان دنوں ڈپریشن میں تھا اور اب بھی جب بھی مجھے موقع ملتا ہے میں مراقبے میں جاتا ہوں۔ بس اب میں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔'

جب انھیں کچھ واضح جواب دینے کے لیے کہا جاتا ہے تو پروین اس سے گریز کرتے ہیں۔

وہ بار بار دہراتے ہیں کہ وہ ان دنوں ڈپریشن میں تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس ڈپریشن کی وجہ کیا تھی۔

گاؤں میں ان کے بھائی کی راشن کی دکان تھی۔ گاؤں والوں کو شک ہوا کہ ان کی وجہ سے کچھ لوگوں کے راشن کارڈ مسترد ہو گئے ہیں۔ یہیں سے رنجش شروع ہوئی اور پروین سمیت ان کے بھائی اور خاندان کے چند دیگر افراد کے خلاف پولیس رپورٹ درج کرا دی گئی۔

پروین نے بتایا 'ان لوگوں نے میرے بھائی پر جھوٹا الزام لگایا تھا۔ جس دوران جھگڑا ہوا، میں ہریدوار میں مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ میں اس پورے معاملے میں سازش کا شکار ہو گیا۔'

پروین نے مقابلے کا امتحان تو پاس کر لیا لیکن انھیں بتایا گیا کہ پولیس رپورٹ میں ان کا نام درج ہونے کے سبب انھیں سرکاری نوکری تب تک نہیں مل پائے گی جب تک اس معاملے سے ان کا نام صاف نہیں ہو جاتا۔

پروین نے کہا 'میں نے 2020 میں مقابلے کا امتحان پاس کیا تھا۔ بہت طویل عرصے کی سخت محنت کے بعد مجھے یہ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ لیکن اتنی محنت کے باوجود میں کامیاب نہیں ہو سکا کیوں کہ میرے خلاف مقدمہ چل رہا تھا۔'

پروین گاؤں کے کچھ لوگوں کو لے کر ان افراد کے پاس گئے جنھوں نے ان کے خلاف یہ معاملہ درج کرایا تھا۔ لیکن ان لوگوں نے معاملہ ختم کرنے سے انکار کر دیا۔

پروین اور ان کے خاندان کے خلاف معاملہ درج کروانے والوں میں گاؤں کے نریندر تاراچند بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ابھی تک اس کیس کو لڑ رہے ہیں۔

پروین نے بتایا 'میں اسی دن سے ڈپریشن کی زد میں آگیا۔ مجھے لگنے لگا کہ میں جتنی بھی محنت کر لوں، کامیاب نہیں ہو سکوں گا۔ تبھی سے مجھے سکون کی تلاش رہنے لگی تھی۔'

پروین 'یوگی' اور 'مودی' پر کتابیں بھی لکھ چکے ہیں

پروین کہتے ہیں 'میرے اندر قوم پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ میں جس وقت مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا، انھی دنوں چوہدری کلیرام کالج میں پڑھا بھی رہا تھا۔ میں مصنف ہوں، میں نے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے 2016 میں 'نمو گاتھا' اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر مختلف کتتابیں شائع کروائیں ہیں۔ دو مزید کتابیں لکھی ہیں، لیکن ابھی ان کا نام نہیں بتا سکتا۔'

ان دنوں پروین ایک شوگر مل میں کین ڈیولیپمنٹ سُپروائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

گاؤں کے لوگوں کے پروین کے بارے میں خیالات

پروین کے بارے میں ان کے گاؤں کے دوست اور ساتھ میں کالج میں پڑھانے والے دیگر ٹیچرز اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

ان کے ایک ساتھی ہیمانشو نے بی بی سی کو بتایا 'پروین اور میں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کا مزاج بہت اچھا ہے۔ ہم دونوں نے مقابلے کا امتحان ساتھ دیا تھا، پروین پاس ہو گیا اور میں رہ گیا۔ پروین کچھ عرصے کے لیے گھر سے لاپتہ ہو گیا تھا۔ جب انسداد دہشت گردی کی ٹیم اس کے گھر تفتیش کے لیے پہنچی تو ہمیں بہت حیرانی ہوئی۔ پروین مجھ سے ہمیشہ اپنی پڑھائی لکھائی کے بارے میں ہی بات کرتا تھا۔'

ایک اور دوست جانی نے بھی بتایا کہ پروین سماجی زیادتیوں کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔

انھوں نے کہا 'گذشتہ کچھ عرصے میں میری پروین سے زیادہ ملاقات نہیں ہو سکی۔ ہم دونوں نے ساتھ بی اے کیا تھا۔ پروین نے ہمیشہ گاؤں کا نام روشن کیا ہے۔ میں ان کا ہمسایہ بھی ہوں۔'

جانی کے خیال میں پروین کا انصاف کے لیے کیا جانے والا پیدل سفر صحیح قدم ہے۔

پروین کے ایک اور ساتھی پورن سنگھ نے بتایا 'ہم نے پروین کے اس سفر کے بارے میں خبروں میں ہی دیکھا ہے۔ قریب دو برس قبل پروین ہمارے ساتھ پڑھاتے تھے۔ انھوں نے امتحان پاس کیا تھا۔ وہ ایک مختلف شخصیت کے مالک اور بہت ہونہار شخص ہیں۔ ان کے ذاتی معاملات کے بارے میں میری ان سے کبھی بات نہیں ہوئی۔ ان کا ایک ہی خواب تھا کہ انھیں مقابلے کا امتحان پاس کرنا ہے۔'

پروین کے گاؤں کے پردھان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں کسی کو پروین سے کوئی شکایت نہیں۔ اس کے علاوہ ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں پروین کے گھر کی دیوار پر دہشت گرد لکھے جانے یا ان کے گھر میں کچھ لکھ کر پھینکے جانے کے بارے میں کوئی علم نہیں۔

انھوں نے کہا 'گاؤں میں کسی کی پروین سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ویسے اگر اس کے ساتھ کچھ ہوا، اس بارے میں انھیں پہلے گاؤں کے چند ذمہ دار لوگوں کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کرنا چاہیے تھا۔'

پروین کمار کا خاندان میڈیا کے سوالات سے پریشان ہے اور کچھ کہنا نہیں چاہتا۔

پروین کے مطابق انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کی پوچھ گچھ کے بعد سے آئے دن ان کے گاؤں میں میڈیا کے آنے اور ان کے سوالات سے ان کا خاندان بہت پریشان ہو چکا ہے۔ ان کے والد کاشتکار ہیں۔ ان کے علاوہ پروین کی اہلیہ اور دو بچے بھی ہیں۔ ایک بھائی اور بہن بھی ہیں جن کی شادی ہو چکی ہے۔

ان کے والد گاؤں کے پردھان رہ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ جب دیوار پر دہشت گرد لکھا گیا تو اسے صاف کرانے والے وہی تھے۔

پروین کمار کا انصاف کے لیے پیدل سفر یکم اگست کو دلی میں واقع عدالت عظمیٰ پہنچ کر ختم ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں 'میں نے سماجی زیادتی سے تنگ آ کر یہ پیدل سفر شروع کیا تھا۔ میں جلد ہی سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کروں گا تاکہ کوئی اور اس قسم کی زیادتی کا شکار نہ ہو۔ ان کے ساتھ ناانصافی یا زیادتی نہ ہو۔'

(بی بی سی سے ماخوذ)

خطبہ کےدوران امام کا مقتدیوں پرتنبیہ کرنا

 دورانِ خطبہ (خواہ جمعہ کا خطبہ ہو، یا نکاح عیدین کا خطبہ ہو)    سامعین کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور کسی بھی طرح کے کلام یا لایعنی امر سے منع کیا گیا ہے، یہاں تک کہ دو خطبوں کے درمیان ذکر بھی دل ہی دل میں کرنا  چاہیے، زبان سے نہیں کرنا  چاہیے،  اور خطبے کے دوران کوئی بات چیت کرے یا کنکریوں سے کھیلے تو بھی دیگر سامعین کو دورانِ خطبہ جمعہ نصیحت نہیں کرنی چاہیے، تاہم مذکورہ حکم سے امام وخطیب مستثنی ہیں، لہذا خطیب دورانِ خطبہ  یا دوخطبوں کے درمیان بوقتِ  ضرورت امربالمعروف وغیرہ پر مشتمل کلام  (جیسے مقتدی حضرات کو لایعنی امور سے منع کرنا وغیرہ)کرسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أن كل ما حرم في الصلاة حرم في الخطبة؛ فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف إلا من الخطيب لأن الأمر بالمعروف منها بلا فرق بين قريب وبعيد في الأصح ولا يرد تحذير من خيف هلاكه لأنه يجب لحق آدمي وهو محتاج إليه، والإنصات لحقه تعالى، ومبناه على المسامحة والأصح أنه لا بأس، بأن يشير برأسه أو يده عند رؤية منكر، وكذا الاستماع لسائر الخطب كخطبة نكاح وختم وعيد على المعتمد." 

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:1، ص:545، ط:ايج ايم سعيد)

حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

"والتکلم به من غير الامام حرام." 

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:1، ص:552، ط:قديمى كتب خانه)

قرآن میں علم اور علماء کی فضیلت

 سورہ آل عمران میں فرمایا


{شَھِدَ اللٰہُ اَنَّہ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَالْمَلَائِکَۃُ وَاُولُواالْعِلْمِ} ’’اللہ ‘ فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے ساتھ فرشتوں اور پھر اہل علم کاذکرفرمایا۔امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں علم کی فضیلت اورعلماء کی عظمت کاذکرہے ۔ اگر علماء سے زیادہ کوئی معزز ہوتا تواس کانام بھی فرشتوں کے ساتھ لیا جاتا۔ اسی طرح سورہ طٰہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا

{وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً} کہ اپنے رب سے علم میں اضافہ کی دعا کرو۔

گویاعلم اتنی اہمیت والی چیز ہے کہ جس میں اضافہ کیلئے مانگنے کا نبی کریم جیسی ہستی کوحکم دیاجا رہاہے ۔اگر اس سے زیادہ اہمیت والی کوئی چیز ہوتی تو اس کے مانگنے کا حکم بھی دیا جاتا۔(قرطبی) سورہ عنکبوت میں فرمایا {وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُھَا اِلَّا الْعَالِمُوْنَ} ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان فرما رہے ہیں انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔

مزید ارشاد ہوا: {بَلْ ھُوَ اٰیٰتٔ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْعِلْمَ} بلکہ یہ قرآن تو روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں ‘ہماری آیتوں کا منکر بجز ظالموں کے اور کوئی نہیں۔

سورہ فاطر میں فرمایا: {اِنَّمَایَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰؤُا} اہل علم نے کہا یہ آیت علماء کی شان بیان کرتی ہے اور اس امتیاز کو حاصل کرنے کیلئے اللہ سے تقوی اور خشیت ضروری ہے۔ یاد رکھو کہ علم محض جان لینے کانام نہیں، خشیت و تقویٰ کا نام ہے۔ عالم وہ ہے جو رب سے تنہائی میں ڈرے اور اس میں رغبت رکھے اور اس کی ناراضگی سے بچے ۔ سورہ زمر میں فرمایا: پوچھو بھلا علماء اور جہلاء برابر ہوسکتے ہیں؟ حالانکہ نصیحت تو عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں ۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اپیل

 آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان شادی کو شریعت کے خلاف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کی شادیاں بدقسمتی ہیں۔ معلومات کے مطابق اے آئی ایم پی ایل بی نے اس سلسلے میں مسلم خاندانوں سے اپیل کی ہے۔ اے آئی ایم پی ایل بی کے قائم مقام جنرل سیکرٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک دستاویز جاری کی جس میں مسلمان والدین ، ​​سرپرستوں ، مساجد اور مدارس کے نمائندوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ایسی بین مذہبی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔

مولانا رحمانی کے مطابق اسلام مسلمانوں اور مشرک غیر مسلموں کے درمیان شادی کی اجازت نہیں دیتا۔ کہا کہ اگرچہ یہ معاشرے کی نظر میں جائز نظر آتا ہے ، لیکن شریعت کی نظر میں اسے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پرسنل لاء بورڈ کی ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا رحمانی نے کہا کہ غیر مسلموں کے ساتھ مل کر کام نہ کرنے ، مذہبی تعلیم اور والدین کی پرورش کی وجہ سے کئی بین مذہبی شادیاں ہو رہی ہیں۔

اس طرح کے بہت سے معاملات سامنے آئے ہیں ، جب مسلم لڑکیوں کو غیر مسلموں سے شادی کے بعد کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس وجہ سے ، ہم نے والدین ، ​​سرپرستوں اور معاشرے کے ذمہ دار لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ہوشیار ہو کر نوجوانوں اور لڑکیوں کی مدد کریں۔

بورڈ نے 7 نکات کے ذریعے مسلم کمیونٹی سے اپیل کی ہے اور مشورہ دیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کے موبائل فون پر نظر رکھیں۔ بچوں خصوصا لڑکیوں کو شریک تعلیمی سکولوں میں نہ ڈالیں۔ اس تسلسل میں مساجد کے اماموں سے کہا گیا ہے کہ وہ شادی کے بارے میں مذہبی تعلیم دینے کے لیے مسلم کمیونٹی کے اندر بڑے پیمانے پر اجتماعات منعقد کریں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے ہونے والے مبینہ نقصان کی وضاحت کریں۔

اے آئی ایم پی ایل بی نے لکھا ہے ، "عام طور پر جب اس طرح کی شادیاں ہوتی ہیں ، نام کے ساتھ ایک نوٹس شادی رجسٹریشن آفس کے باہر چسپاں کیا جاتا ہے۔ پرسنل لاء بورڈ نے مذہبی تنظیموں ، سماجی کارکنوں ، مدرسوں کے اساتذہ اور دیگر ذمہ دار شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسے نوجوانوں کے گھروں میں جائیں اور انہیں سمجھائیں۔

مسلم کانکاح مشرکہ سے جائزنہیں

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ  نے مسلمانوں کے لیے رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے سلسلہ میں خود احکامات نازل فرمائے ہیں، اور رشتہ کرنے کی شرائط میں سے پہلی شرط اسلام بیان فرمائی ہے، چناں چہ مسلمان مردوں پر مشرک خواتین کو اور مسلمان عورتوں پر غیرمسلم مردوں کو حرام قرار دیاہے، ان کے درمیان باہمی نکاح کو بھی حرام قرار کردیا ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ ﴾(الممتحنة: ١٠)ترجمہ: " نہ وہ (مسلمان عورتیں) ان (کافر مردوں) کے لیے حلال ہیں، اور نہ ہی وہ (کافر) ان (مسلمان عورتوں) کے لیے حلال ہیں"۔ اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہے: ﴿وَلَا تَنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكَٰتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍۢ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُواْ ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍۢ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُوْلَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى ٱلنَّارِ ۖ وَٱللَّهُ يَدْعُوٓاْ إِلَى ٱلْجَنَّةِ وَٱلْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِۦ ۖ وَيُبَيِّنُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴾(البقرة: ٢٢١) ترجمہ: "اور تم مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، اور مؤمنہ باندی زیادہ بہتر ہے مشرکہ عورت سے اگرچہ وہ (مشرکہ عورت) تمہیں پسند کیوں نہ ہو، اور تم (مسلمان عورتوں کا) نکاح نہ کراؤ مشرک مردوں سے یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، اور مؤمن غلام زیادہ بہتر ہے مشرک سے اگرچہ وہ (مشرک) تمہیں پسند کیوں نہ ہو، یہ (کفار) جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف بلاتے ہیں اپنے حکم سے، اور اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں"۔

ان آیات سے واضح طورپر معلوم ہوا کہ مسلمان اورغیرمسلموں کانکاح جائز نہیں، اورایک مسلمان کے لیے اس قدر کافی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے حرام قراردیا ہے۔

قرآن وسنت سے تقلید کاثبوت

 (الف) فَاسْئَلُوْآ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ اس آیت میں لوگوں کو حکم ہے کہ جو شرعی حکم تم کو معلوم نہ ہو اس کو اہل علم سے معلوم کرکے اس پر عمل کرو۔ اسی کا نام تقلید ہے۔

(ب) أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ اس آیت میں حکم ہے کہ جو لوگ ہدایت پر ہیں (یعنی انبیائے سابقین علیہم الصلاة والتسلیم) ان کی اقتدا اور پیروی کرو۔

(ج) يااَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ اس آیت میں اہل علم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، ان مسائل میں جو قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں ہیں۔

(د) وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلَی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْھُمْ اگر یہ لوگ اس امر کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولو الامر کے حوالہ کرتے تو جو لوگ اہل فقہ اور اہل استنباط ہیں وہ سمجھ کر ان کو بتلادیتے۔ اس آیت سے بھی ائمہ مجتہدین کی اتباع کا ثبوت ملتا ہے۔

(ھ) وَجَعَلْنَاھُمْ اَئِمَّةً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا ان تمام آیات میں اتباع و تقلید کی تاکید فرمائی گئی ہے اور ان سے تقلید مطلق کا ثبوت ہوتا ہے۔

 

اب ایسی چند احادیث لکھی جاتی ہیں جن سے تقلید شخصی کا ثبوت ہوتا ہے۔

(الف) عن حذیفة -رضي اللہ عنہ- قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إني لا أدري ما بقائي فیکم فاقتدوا بالذین من بعدي أبي بکر و عمر-رضي اللہ عنھما-

(ب) قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: أصحابي کالنجوم فبأیھم اقتدیتم اھتدیتم (مشکوٰة: ص554)

(ج) عن ماذ بن جبل -رضي اللہ عنہ- أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما بعثہ إلی الیمن قال: کیف تقضي إذا عرض علیک قضاء قال: أقضي بکتاب اللہ، قال: فإن لم تجد في کتاب اللہ؟ قال بسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فإن لم تجد في سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال: أجتھد برأیي ولا آلو، فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صدرہ وقال: الحمد للہ الذي وفق رسولّ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما یرضی۔ (أبوداوٴد: ص149، مشکوٰة: ص324)

(د) إن أھل المدینة سألوا ابن عباس -رضي اللہ عنھما- عن امرأة طافت ثم حاضت قال لھم: تنفر قالوا: لا نأخذ بقولک وندع قول زید. (بخاري: ۱/۲۳۷) اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ اہل مدینہ حضرت زید -رضی اللہ عنہ- کی تقلید شخصی کرتے تھے۔

(ھ) عن عمر بن الخطاب -رضي اللہ عنہ- قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: سألت ربّي عن اختلاف أصحابي من بعد فأوحی إلي یا محمد إن أصحابک عندي بمنزلة النجوم في السماء بعضھا أقوی من بعض ولکل نور فمن أخذ بشيء مماھم علیہ من اختلافھم فھو عندي علی ہدی. (مشکوٰة: ص554) اس حدیث میں خود اللہ تبارک و تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ صحابہ کرام کے اختلافی مسائل میں جو کوئی کسی صحابی کی تقلید کرلے گا وہ میرے نزدیک حق پر ہوگا۔ ان تمام احادیث سے قولی یا فعلی طور پر تقلید شخصی کا وجوب معلوم ہوتا ہے۔

 

واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہٴ کرام جہاں جہاں تشریف لے گئے وہاں اُن کی تقلید کی گئی اوران کے بعد ان کے شاگردوں کی پھر ائمہ اربعہ کا زمانہ آیا تو جب اہل زمانہ نے ان کو علوم قرآن و حدیث میں سب سے زیادہ فائق اور قابل اعتماد پایا اور ان کو اسلاف کے تمام تر علوم کا جامع پایا تو ان کی تقلید کی، انھوں نے قرآن وحدیث سے مسائل کے استنباط کے لیے اصول و قواعد مرتب کیے اور ایسے مسائل کا استنباط کیا جو قرآن وحدیث میں صراحتاً مذکور نہیں ہیں اور واضح رہے کہ ائمہ اربعہ کے مقلدین ان کی تقلید صرف استنباطی مسائل، اور ایسے مسائل ہی میں کرتے ہیں جو قرون اولیٰ صحابہٴ کرام -رضی اللہ عنہم- کے زمانہ سے اختلافی چلے آرہے ہیں، ان مسائل میں کوئی کسی کی تقلید نہیں کرتا جو قرآن وحدیث میں صراحتاً مذکور ہیں، جن میں کسی قسم کے اجمال و احتمال کی گنجائش نہیں ہے۔

Thursday 5 August 2021

کیاہرشخص درس قرآن دے سکتا ہے

 قرآنِ کریم کا درس دینے کا مطلب قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کی تفسیر کرنا، اور علمِ تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی کو بیان کیا جائے،  اس کے احکام کی حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے،  نیز مرادِ خداوندی کو متعین کیا جائے۔اس کی ترجمانی اور تفصیل وتوضیح کے لیے ایسی لیاقت اور اہلیت درکار ہے جو اس کلام کی عظمت کے شایانِ شان ہو، ورنہ معمولی لغزش غلط ترجمانی کا مرتکب بناکر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں میں شمار کروا دے گی اور اس میں رائے زنی کرنے والا احادیث میں وارد وعیدوں کا مستحق ہو گا۔

حدیث شریف میں آتا ہے:

مشكاة المصابيح (1/ 79):
"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار».

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنی رائے سے قرآن میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنائے۔

لہذا قرآن کریم کے درس کو اتنا آسان اور سہل قرار دینا کہ ہر کس و نا کس اس کو بیان کرنا شروع کر دے، درست نہیں، بلکہ اس کے لیے علوم کا ذخیرہ حاصل کرنا اور اس پر پوری دسترس کا ہونا ضروری ہے۔جمہور علماءِ امت کی رائے کے مطابق تفسیرِ قرآن بیان کرنا صرف مطلوبہ استعداد اور صلاحیت کے حامل شخص کے لیے ہی جائز ہے اور یہ صلاحیت تقریباً پندرہ علوم حاصل کرنے کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے، جن میں لغت، صرف، نحو، اشتقاق،  معانی، بیان، بدیع، قراء ات، اصول الدین، اصول فقہ، فقہ، حدیث، علمِ اسبابِ نزول، علمِ ناسخ ومنسوخ اور نورِ بصیرت ووہبی علم وغیرہ شامل ہیں۔

حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ  نے ”الاتقان فی علوم القرآن“ میں امام ابوطالب الطبری کے حوالہ سے مفسر کے آداب کے ضمن میں مفسر کے لیے ضروری شرائط کا تذکرہ یوں فرمایا ہے:

الإتقان في علوم القرآن (4/ 200):
"وقال الإمام أبو طالب الطبري في أوائل تفسيره: القول في أدوات المفسر: اعلم أن من شرطه صحة الاعتقاد أولاً، ولزوم سنة الدين، فإن من كان مغموصاً عليه في دينه لا يؤتمن على الدنيا فكيف على الدين، ثم لا يؤتمن من الدين على الإخبار عن عالم، فكيف يؤتمن في الإخبار عن أسرار الله تعالى؛ ولأنه لا يؤمن إن كان متهماً بالإلحاد أن يبغي الفتنة ويغر الناس بليه وخداعه".

یعنی جاننا چاہیے  کہ مفسر کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے تو اس کا عقیدہ صحیح ہو، دوسرے وہ سنتِ دین کا پابند ہو، کیوں کہ جو شخص دین میں مخدوش ہو، کسی دنیوی معاملہ میں بھی اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا، پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے، اس میں بھی وہ لائق اعتماد نہیں تو اسرارِ الٰہی کی خبر دینے میں کس طرح لائق اعتماد ہوگا، نیز ایسے شخص پر اگر الحاد کی تہمت ہو تو اس کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ تفسیر بیانی کے ذریعہ فتنہ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکاری سے گم راہ کرے۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہو گئی کہ درسِ قرآن کا اہل ہر شخص نہیں ہے، بلکہ مطلوبہ استعداد کا حامل شخص ہی درسِ قرآن  اور قرآن کی تفسیر بیان کر سکتا ہے۔

شریعت میں میاں بیوی کے حقوق

 شریعتِ مطہرہ میں میاں بیوی کے باہمی حقوق کو بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور  دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کے بہت تاکید کی گئی ہے، اس بارے میں چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

شوہر کے حقوق: 

احادیث مبارکہ میں جو عورت شوہر کے نافرمانی کرے ایسی عورت کے بارے میں   سخت وعیدیں آئی ہیں، اور جو عورت شوہر کی فرماں برداری  اور اطاعت کرے اس کی بڑی فضیلت  بیان  کی گئی ہے۔

         حدیث مبارک میں ہے:"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح»".(مشکاۃ المصابیح، 2/280،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے، اور پھر شوہر (اس انکار کی وجہ سے) رات بھر غصہ کی حالت میں رہے  تو فرشتہ اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے  رہتے ہیں۔

(مظاہر حق، 3/358، ط؛  دارالاشاعت)

         ایک اور حدیث مبارک میں ہے:"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ  وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔(مظاہر حق، 3/366، ط؛  دارالاشاعت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي  أبواب الجنة شاءت» . رواه أبو نعيم في الحلية".(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ:  حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔(مظاہر حق، 3/366، ط: دارالاشاعت)

 بیو ی کے حقوق:   

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں عورتوں کے حقوق بھی  بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ، شوہر پر  عورت کے حقوق ادا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

         ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ [النساء: 19]

ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے  کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔(ازبیان القرآن)

         حدیث مبارک میں ہے:"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".(مشکاۃ المصابیح، 2/282،  باب عشرۃ النساء، ط؛ قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔(مظاہر حق، 3/370، ط؛  دارالاشاعت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ:رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں۔(مظاہر حق، 3/365، ط؛  دارالاشاعت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يفرك مؤمن مؤمنةً إن كره منها خلقاً رضي منها آخر» . رواه مسلم".(مشکاۃ المصابیح، 2/280،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے،  اگر  اس کی نظر میں اس عورت کی کوئی  خصلت وعادت ناپسندیدہ ہوگی  تو  کوئی دوسری خصلت وعادت پسندیدہ بھی ہوگی۔ (مظاہر حق، 3/354، ط: دارالاشاعت)

         خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہیے  کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے سے بالاتر سمجھے،  اس کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا  اور آخرت کی بھلائی  اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے،  اور شوہر کو چاہیے کہ  وہ اپنی بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے،  اس  کی قدر اور اس سے محبت  کرے، اگر اس سے غلطی ہوجائے تو چشم پوشی  سے کام لے، صبروتحمل اور دانش مندی سے اس کی  اصلاح کی کوشش کرے،  اپنی استطاعت کی حد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے

طلاق کے لیے گواہ ضروری نہیں

 حدیث میں ہے الطلاق لمن اخذ بالساق طلاق کا اختیار شوہر کو ہے نیز نکاح سے پہلے لڑکے لڑکی دونوں با اختیار تھے لیکن جب ایجاب و قبول کے ذریعہ دونوں رشتہ نکاح میں بندھ گئے تو اللہ تعالی نے نکاح کی ڈور مرد کے ہاتھ میں دے دی اب اسے رکھنے ختم کرنے کا اختیار مرد کو حاصل ہوگیا قرآن پاک میں بیدہ عُقدة النکاح کے ذریعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ اللہ تعالی کا قانون ہے جو شخص قانون الٰہی کو مانتاہے وہ مسلمان کہلاتا ہے یہ ہماری عقل کا بنایا ہوا نہیں ہے کہ عقل انسانی میں آنا ضروری ہو۔ نیز جو شخص اللہ تعالی ہی کو نہیں مانتا تو اگر قانون کو نہ مانے تو تعجب کیا۔ نشہ کی حالت میں بھی طلاق پڑ جاتی ہے حدیث میں ہے ثلاث جدہن جد وہز لہن جدٌ۔ عدت کے سلسلے میں جو بات لکھی ہے اس کا بھی جواب یہی ہے کہ یہ اللہ تعالی کا بنایا ہوا قانون ہے لہٰذا یہ قانون کیوں بنایا اس کی جوابدہی ہمارے ذمہ نہیں ہے۔

تفسیرالقرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: {وأشهدوا} أمر بالإشهاد على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعاً. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى: {وأشهدوا إذا تبايعتم} [البقرة: 282] . وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألايقع بينهما التجاحد، وألايتهم في إمساكها، ولئلايموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية". (18 / 157، سورۃ الطلاق، ط؛ الھیۃ المصریۃ العامہ لکتاب

Wednesday 4 August 2021

ترک رفع یدین کے دلائل

 واضح رہے کہ صحیح  احادیث صرف وہی نہیں ہیں جو امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں  ذکر کی ہیں، بلکہ امام بخاری نے  اپنی شرائط اور فقہی ذوق کے مطابق صحیح احادیث میں سے انتخاب کرکے اپنی کتاب میں ان کو ذکر کیا ہے، (حدیث اور تاریخ پر امام بخاری رحمہ اللہ کی دیگر کتابیں بھی ہیں، ان میں بہت سی مزید روایات خود امام بخاری رحمہ اللہ نے جمع کی ہیں۔) صحیح بخاری میں سات ہزار  اور کچھ احادیث ہیں، جن کے بارے میں  خود  امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو  چھ لاکھ احادیث میں سے انتخاب کرکے لیا ہے،  ابراہیم بن معقل رحمہ اللہ ان سے روایت کرتے ہیں: امام بخاری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں صرف وہی احادیث ذکر کی ہیں جو صحیح ہوں اور بہت سی  صحیح  احادیث کو طوالت کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ہے،   نیز خود امام بخاری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جو صحیح احادیث میں نے ذکر نہیں کیں وہ ان سے زیادہ ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے،  لہذا صحیح حدیث کا مدار یہ نہیں ہے کہ وہ صحیح  بخاری میں موجود ہو، ہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے  اپنی سخت شرائط کے ساتھ صحیح احادیث میں سے منتخب کرکے  ان میں سے چند کا انتخاب کیا ہے۔

صحیح احادیث پر مشتمل دیگر کتابیں اور مجموعے بھی موجود ہیں، امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب بھی صحیح ہے، لیکن امام مسلم رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہر وہ حدیث جو صحیح ہو وہ میں نے اپنی کتاب میں ذکر نہیں کی ہے۔ موطا امام مالک رحمہ اللہ میں بھی صحیح احادیث ہیں، صحیح ابن حبان وغیرہ بھی صحیح ہیں۔ اسی طرح کتب ستہ اور احادیث کی دیگر کتابوں میں بھی صحیح احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ  یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے ہے کہ احادیث کی صرف دو ہی قسمیں صحیح اورضعیف نہیں ؛بلکہ اس کی متعدد اقسام ،مثلاً: صحیح  لذاتہ،صحیح لغیرہ ؛حسن لذاتہ،حسن لغیرہ ، ضعیف، موضوع وغیرہ وغیرہ ، پھر ضعیف کی بھی بہت سی قسمیں ہیں، اور عمل اور استدلال کے اعتبار سے بھی ان میں فرقِ مراتب  ہوتا  ہے، مثلاً حدیث صحیح کی پانچ شرطیں ہیں:

۱:․․․سند کا اتصال۲:․․․راویوں کی عدالت۳:․․․ضبط ۴:․․․شذوذ ۵:․․․علتِ قادحہ سے محفوظ ہونا۔
حدیثِ حسن بھی انہیں صفات کی حامل ہوتی ہے، البتہ اس کے کسی راوی میں ضبط کے اعتبار سے معمولی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدیث نہ تو صحیح کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ضعیف میں شمار ہوتی ہے بلکہ وہ حدیث "حسن" شمار ہوتی ہے۔ اور حسن کی ایک قسم وہ ضعیف ہے جو تعدد طرق کی وجہ سے قوت پاکر حسن بن جاتی ہے اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں اور جو حدیث اس سے بھی کم درجہ کی  ہو وہ ضعیف کہلاتی ہے، جس کے مراتب مختلف ہوتے ہیں، سب سے کم  موضوع ہے جو  من گھڑت  ہوتی ہیں۔
صحیح اور حسن کے تو قابلِ استدلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ جمیع ابوابِ دین میں ان سے استدلال کیا جاتا ہے، البتہ ضعیف کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کی رائے یہ ہے کہ احکام یعنی حلال وحرام کے باب میں تو ضعیف کو حجت نہیں بنایا جاسکتا ہے، (بشرطے کہ اسے تلقی بالقبول حاصل نہ ہو، اور اس کے متابع اور شواہد موجود نہ ہوں) البتہ فضائلِ اعمال میں،ترغیب وترہیب، قصص، مغازی وغیرہ میں  چند شرائط کے ساتھ اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے چوں کہ التزام کررکھا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف ان ہی راوایات کو جگہ دیں گے ؛ جوان قسموں میں سے اول درجے کی ہوں گی۔ بقیہ قسمیں بخاری اورمسلم میں جگہ نہیں پاسکیں ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیثیں منکرہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل شروع میں ذکر ہوئی، بلکہ  محدثین کو جو روایات پہنچیں؛ان کو انہوں نے جانچا ،ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جتنے لوگ اس روایت کو نقل کرنے میں واسطہ بنتے؛ ان کے احوالِ زندگی،ان کے قوتِ حفظ ،مہارت ،ضبط اور عدالت وغیرہ کو جانچنے کے بعد اس حدیث پر صحیح ،حسن ،صحیح لغیرہ یا حسن لغیرہ اورضعیف وغیرہ کا حکم لگادیا۔ اگر روایت سب سے اعلی درجہ کی ہوتی ہے؛ تو اس کو صحیح کہہ دیتے، اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی نظر آتی تو اس کو حسن وغیرہ کہہ دیتے،بعض مرتبہ تمام شرائط پائی جاتیں؛مگر اس کو محض اپنے خاص ذوق(علۃ خفیہ) کی وجہ سے چھوڑ دیتے۔ ہاں! اگر اس روایت کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ جھوٹی ہے تو اس کو منکراور موضوع قرار دیتے اوراسے اپنی کتابوں میں نقل ہی نہ کرتے ۔ موضوعا ت کی کتابیں الگ سے لکھی گئی ہیں؛تاکہ کسی موضوع روایت کے بارے میں تحقیق کرنی ہوتو اس کتاب میں اس کی تفصیل مل جائے گی۔

اسی طرح صحت کی شرائط کے لحاظ میں بھی محدثین کے اذواق مختلف ہوئے ہیں، بعض ائمہ اس حوالے سے متشدد ہیں، چناں چہ جمہور کے ہاں بعض روایات صحت کے درجے کو پہنچتی ہیں لیکن وہ انہیں بھی صحت کا درجہ نہیں دیتے۔ حوالہ جات جواب کے آخر میں ملاحظہ ہوں!

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد  آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

’’ رفع یدین‘‘ دو لفظوں کا مجموعہ ہے، ’’رفع‘‘ کا مطلب ہے اٹھانا اور ’’یدین‘‘ کا مطلب ہے دونوں ہاتھ، چنانچہ ’’رفع یدین ‘‘ کا مطلب ہوا  ’’دونوں ہاتھوں کو اٹھانا‘‘، رفع یدین سے مراد نماز کی حالت میں تکبیر کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھانا ہے، وتر اور عیدین کی نماز کے علاوہ عام نمازوں میں  صرف تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہی رفعِ یدین کرنا مسنون ہے، اور یہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے مختلف فیہ ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بعض صحابہ کرام رفع یدین کرتے تھے اوربعض نہیں کرتے تھے۔اسی وجہ سے مجتہدینِ امت میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہواہے،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ترکِ رفع یدین والی روایات کوراجح قراردیاہے،کئی اکابر صحابہ کرام کامعمول ترکِ رفع کاتھا، اوریہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری عمل ہے۔ احناف کے نزدیک  ترکِ رفع یدین ہی  سنت ہے۔

تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفعِ یدین نہ کرنے کے دلائل درج ذیل ہیں:

1۔۔  "حدّثنا إسحاق، حدثنا ابن إدریس قال: سمعت یزید بن أبي زیاد عن ابن أبي لیلی عن البراء قال: رأیت رسول  الله صلی  الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه ثم لم یرفعهما". (مسند أبي یعلی الموصلي ۲/ ۱۵۳، حدیث: ۱۶۸۸، طحاوي شریف ۱/ ۱۳۲، جدید برقم: ۱۳۱۳، أبوداؤد، ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۹)
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جس وقت نماز شروع فرمائی تھی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، اس کے بعد پھر اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔
2۔۔   "عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود". (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔
3۔۔  "عن المغیرة قال: قلت لإبراهيم: حدیث وائل أنه رأی النبي صلی الله علیه وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع، فقال:إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك". (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، برقم: ۱۳۱۸)    
ترجمہ: حضرت مغیرہؒ نے حضرت امام ابراہیم نخعیؒ سے حضرت وائل ابن حجرؒ کی حدیث ذکر فرمائی کہ حضرت وائل بن حجرؒ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس پر ابراہیم نخعیؒ نے مغیرہ سے کہا کہ اگر وائل بن حجرؓ نے حضور ﷺ کو اس طرح رفع یدین کرتے ہوئے ایک مرتبہ دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ نے حضور کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (کیوں کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ مدینہ کے رہائشی نہ تھے، بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد چند دن مدینہ منورہ میں رہ کر اسلامی تعلیمات سیکھ کر تشریف لے گئے تھے، جب کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سفر وحضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے والے، آپ ﷺ کے خادمِ خاص بھی تھے، اور لسانِ نبوت سے علم وفضل کی سند بھی حاصل کرچکے تھے، اور آپ ﷺ نے امت کو ان کی پیروی کا حکم بھی دیا ہے، نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ان سے علم حاصل کرتے تھے اور فتویٰ لیتے تھے، حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر اور اصحابِ فضل وعلم صحابہ کرام نے ان کے کمالِ علم کی تعریف فرمائی۔)
4۔۔   "عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول  الله صلی  الله علیه وسلم فقال: مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلاة". (صحیح مسلم  ۱/  ۱۸۱)
ترجمہ : حضرت جابر بن سمرہ رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی  اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف تشریف لاکر فرمایا : مجھے کیا ہوگیا کہ میں تم لوگوں کو نماز کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، گویا کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ بے چینی میں گھوڑے اپنی دم کو اوپر اٹھا اٹھا کر ہلاتے ہیں، تم نماز کے اندر ایسا ہرگز مت کیا کرو، نماز میں سکون اختیار کرو۔
5۔۔ "عن  علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول  الله صلی  الله علیه وسلم، فصلی فلم یرفع یدیه إلا في أول مرة". ( جامع الترمذي  ۱/ ۵۹، جدید برقم: ۲۵۷، أبوداؤد شریف ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تم آگاہ ہوجاؤ! بے شک میں تم کو حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاکر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اول تکبیر میں اٹھایا پھر پوری نماز میں نہیں اٹھایا۔
6۔۔  " عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألاَ أصلّي بکم صلاة رسول  الله صلی الله علیه وسلم قال:  فصلی فلم یرفع یدیه إلا مرةً واحدةً". (سنن النساائي  ۱/ ۱۲۰، جدید رقم: ۱۰۵۹، أبوداؤد قدیم ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸، ترمذي قدیم    ۱/ ۵۹، جدید رقم: ۲۵۷)
ترجمہ: حضرت علقمہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ آگاہ ہوجاؤ! میں تمہیں حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کی نمازپڑھ کر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف ایک مرتبہ اٹھایا پھر نہیں اٹھایا۔

اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے، اور صحابہ تابعین تبع تابعین اور بے شمار محدثین اور علماء نے اس حدیث شریف کو اختیار فرمایا، اور یہی امام سفیان ثوری (جلیل القدر محدث) اور اہلِ کوفہ نے کہا  ہے۔
"قال أبو عیسیٰ: حدیث ابن مسعود حدیث حسن، وبه یقول غیر واحد من أهل العلم من أصحاب النبي والتابعین، وهو قول سفیان وأهل الکوفة". ( جامع الترمذي  ۱/ ۵۹، )
7۔۔  "عن علقمة عن عبد الله بن مسعود قال: صلیت خلف النبي صلی  الله علیه وسلم، وأبي بکر وعمرفلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة." (السنن الکبری للبیهقي ۲/ ۸۰، ۲/ ۷۹، نسخه جدید دارالفکر بیروت ۲/ ۳۹۳ برقم: ۲۵۸۶)    
ترجمہ: حضرت علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعودؓ نے فرمایا: میں نے حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی ہے ان میں سے کسی نے اپنے ہاتھوں کو تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھایا۔ (معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما جو باتفاقِ امت سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ہیں، اور دنیا و آخرت میں آپ ﷺ کے مصاحب ہیں، صحابہ کرام میں سب سے اَعلم ہیں انہوں نے حضور ﷺ کی نماز سے سنت اسی کو سمجھا کہ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہ کیا جائے۔ آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل بھی بحوالہ آرہاہے کہ وہ بھی تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہیں کرتے تھے، گویا خلفاءِ راشدین مہدیین رضی اللہ عنہم کا عمل ترکِ رفع یدین ہے، اور آپ ﷺ نے ہمیں خلفاءِ راشدین کا طریقہ اختیار کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے، اگر حضور ﷺ سے رفعِ یدین کے بارے میں صریح روایت نہ بھی منقول ہوتی اور خلفاءِ راشدین کا عمل اسی طرح ہوتا تو بھی یہ ترکِ رفع کے سنت ہونے کی کافی دلیل تھی، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے حوالے سے کوئی بات بلادلیل نہ کہتے تھے نہ عمل کرتے تھے۔)
8۔۔   "عن إبراهيم عن الأسود قال: رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیه في أول تکبیرة، ثم لایعود، قال: ورأیت إبراهيم والشعبی یفعلان ذلك". (طحاوي شریف ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۴ برقم: ۱۳۲۹)
ترجمہ: امام نخعیؒ، حضرت اسود بن یزیدؒ سے نقل فرماتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں صرف شروع کی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد کسی میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اور راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم اور عامر شعبی کو بھی ایسا ہی کیا کرتے دیکھا۔
9۔۔  "عن عاصم بن کلیب الجرمي عن أبیه قال: رأیت علی بن أبي طالب رفع یدیه في التکبیرة الأولی من الصلاة المکتوبة ولم یرفعهما فیما سوی ذلك". (مؤطا إمام محمد/ ۹۲) 

ترجمہ: عاصم بن کلیب اپنے والد کلب جرمی سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت علی رضی  اللہ عنہ کو دیکھا کہ فرض نماز میں صرف تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھاتے تھے، اور اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔
10۔۔  "عن مجاهد قال: صلّیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیه إلا في التکبیرة الأولی من الصلاة، فهذا ابن عمر قد رأی النبي صلی  الله علیه وسلم یرفع، ثمَّ قد ترک هو الرفع بعد النبي صلی  الله علیه وسلم فلایکون ذلك إلا وقد ثبت عنده نسخ ما قدرأی النبي صلی  الله علیه وسلم فعله وقامت الحجة علیه بذلك". (طحاوي شریف  ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۲ برقم: ۱۳۲۳)
ترجمہ: حضرت امام مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی  اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ دونوں ہاتھوں کو نماز کی صرف پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے، اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھاتے تھے، تو یہ حضرت ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اور پھر انہوں نے خود حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ہاتھ اٹھانا ترک کردیا، اور ان کا ہاتھ اٹھانا ترک کرنا ہو نہیں سکتا، الاّ یہ کہ ان کے نزدیک حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے رفع یدین کا عمل یقینا منسوخ ہوچکا ہے، اور ان کے نزدیک رفع یدین کے منسوخ ہونے پر حجت قائم ہوچکی ہے۔

جواب کے تمہیدی مضامین کے حوالہ جات:

ثمرات النظر في علم الأثر (ص: 137):
" أما قَول البُخَارِيّ لم أخرج فِي هَذَا الْكتاب إِلَّا صَحِيحا وَمَا تركت من الصَّحِيح أَكثر، وَقَوله مَا أدخلت فِي كتابي الْجَامِع إِلَّا مَا صَحَّ فَهُوَ كَلَام صَحِيح إِخْبَار عَن نَفسه أَنه تحري الصَّحِيح فِي نظره".

الإمام البخاري وكتابه الجامع الصحيح (ص: 39):
"تصريحه بذلك في نصوص كثيرة نقلت عنه تقدم ذكر بعضها في السبب الباعث له على تأليفه وفي التنويه بمدى عنايته في تأليفه ومن ذلك غير ما تقدم ما نقله الإسماعيلي عنه أنه قال: "لم أخرج هذا الكتاب إلا صحيحا وما تركت من الصحيح أكثر". وروى إبراهيم بن معقل عنه أنه قال: "ما أدخلت في كتابي الجامع إلا ما صح وتركت من الصحيح حتى لايطول"…

الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي (2/ 185):
"حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرْبَنْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْفَضْلِ الْمُفَسِّرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ الرَّيْحَانِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ رَسَايَنَ الْبُخَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيَّ، يَقُولُ: «صَنَّفْتُ كِتَابِي» الصِّحَاحُ «بِسِتَّ عَشْرَةَ سَنَةً خَرَّجْتُهُ مِنْ سِتِّمِائَةِ أَلْفِ حَدِيثٍ وَجَعَلْتُهُ حُجَّةً فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»".

النكت على مقدمة ابن الصلاح (2/ 308):
" أن الضعيف لايحتج به في العقائد والأحكام، ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك، كالقصص وفضائل الأعمال، والترغيب والترهيب، ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل، وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال : " إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال." 
 فتح المغيث (1/ 289):
"قد حكى النووي في عدة من تصانيفه إجماع أهل الحديث وغيرهم على العمل به في الفضائل ونحوها خاصةً، فهذه ثلاثة مذاهب

Tuesday 3 August 2021

جمہوریت بچانے کے لئے یوپی سے یوگی راج کاخاتمہ ضروری

 نئی دہلی،مسلم مجلس کے قومی صدر پروفیسر ڈاکٹر بصیر احمد خاں نے کہا ہے کہ آل انڈیا مسلم مجلس نے فیصلہ کیا ہے کہ آنے الے یوپی اسمبلی الیکشن میں وہ بڑی پارٹیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرکے حصہ لے گی یہ اطلاع انہوں نے آج یہاں جاری ریلیز میں دی ہے مسٹر بصیر احمد خاں جو اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبا یونین کے سابق صدر رہ چکے ہیں، نے ایک بیان میں کہا کہ یوپی میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اپوزیشن کا اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ مختلف محاذ بناکر یا اکیلے لڑکر اسے ہرانا مشکل ہوگا بلکہ اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مسلم مجلس چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے کسی بھی محاذ میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی ہم ایسے کسی بھی کارواں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو چونکہ ہار کا ڈر ستارہا ہے لہذا وہ اپنے مخالف ووٹوں کی تقسیم کرانے کی پالیسی پر کام کر رہی ہے۔ لہذا نادان دوستوں اور ہمیں دوست نما دشمنوں کو پہچاننا ہوگا۔ بی جے پی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام بیروزگاری، مہنگائی، بد انتظامی اور لاقانونیت کی مار جھیل رہے ہیں، گنگا کے کنارے کو رونا سے مرنے والوں کی لاشیں نکلنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کسان مہینوں سے دھرنے دے رہے ہیں لیکن سرکار گونگی بہری ہوگئی ہے۔ سیاست دانوں، میڈیا، دانشوروں اور ججوں تک کی جاسوسی کرائی جارہی ہے۔ بے قصور لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں، انکاؤنٹر کی دھمکی دی جارہی ہے لہذا ملک میں جمہوریت کو بچانے اور قانون کا راج قائم کرنے کے لئے اور عوام کو بیروزگاری اور مہنگائی سے چھٹکارا دلانے کے لئے یوپی کو یوگی مُکت کرنا ضرورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم مجلس یوپی کی بیس اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑے گی اور اپنے بانی ڈاکٹر فریدی مرحوم کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے جمہوریت نواز، کسان اور نوجوان حامی پارٹیوں سے انتخابی سمجھوتہ کرے گی۔ ماضی میں مسلم مجلس کے وزیر یوپی اور مرکز کی مخلوط حکومتوں میں شامل رہ چکے ہیں۔ لہٰذا مسلم مجلس اسی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ آخری فیصلہ ہمارا پارلیمنٹری بورڈ کرے گا۔

سالگرہ منانااوراس کی مبارک باد دینا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، حضرات صحابہٴ کرام وتابعین سے ائمہ اربعہ سے، بزرگان دین سے جنم دن یا سالگرہ منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، یہ غیرقوموں کا طریقہ ہے۔ ہم مسلمانوں کو غیروں کا طریقہ اپنانا جائزنہیں، نہ ہی اس موقعہ پر مبارکباد دینا درست ہے۔ ہمیں اسلامی طریقہ پر زندگی گذارنا چاہیے، غیروں کے طریقوں کو اختیار نہ کرنا چاہیے۔ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہ (القرآن)

محرم اورعزاداری کی توہین

 لکھنو: آل انڈیا شیعہ حسینی کونسل کے صدر معروف دانشور اور عالم دین علی ناصر سعید عبقاتی عرف آغا روحی نے اتر پردیش کے بدلتے منظر نامے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور ریاست میں قیامِ امن کے لیے متعین کئے گئے افسران ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے، تو ملک کے امن پسند اور جمہوریت میں یقین رکھنے والے لوگوں کے کئے مسائل مزید ابتر و پیچیدہ ہوجائیں گے۔

روح الملت کے مطابق کورونا کی گائڈ لائن کے نام پر اتر پردیش کے ڈی جی پی کے تحریری بیان اور ہدایت نامے نے صرف اہل تشیع حضرات کے جذبات کو ہی مشتعل و مجروح نہیں کیا ہے بلکہ محرم کی تقدیس اور کربلا کی روح پر بھی ضرب کاری کی ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کے ڈائرکٹر جنرل پولس کی زبان اور طرز تحریر نے ان تمام لوگوں کو مایوس کیا ہے جو ملک اور بالخصوص اتر پردیش میں شیعہ سنی اور ہندو مسلم اتحاد کے حامی ہیں۔ اور اس اتحاد و اتفاق کے لیے اپنے جائز حقوق جذبوں اور خواہشوں کی قربانیاں بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ 

واضح رہے کہ اتر پردیش کے ڈی جی پی کی جانب سے کورونا کے نام پر جاری کی گئی اڈوائزری میں محرم کے دوران ادا کیے جانے والے عوامل کے تعلق سے جو کچھ تحریر کیا گیا تھا، اس کو لے کر علماء کرام اور عوام کی جانب سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ کچھ علماء نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈی جی پی کو معافی مانگنی چاہئے جبکہ کچھ لوگوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ آئندہ الیکشن میں مفاد حاصل کرنےکے لئے حکومت اپنی پرانی حکمت عملی کی طرف لوٹ رہی ہے اور ڈی جی پی کا یہ ہدایت نامہ اسی منصوبہ بند حکمت عملی کا ایک شاخسانہ ہے۔ 

Monday 2 August 2021

استغفارکے فوائداورسیدالاستغفار

 استغفار کے فوائد:

٭استغفار کرنے سے انسان کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں جن کو انسان شمار بھی نہیں کر سکتا،لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس ان گناہوں کا پورا پورا ریکارڈ ہوتا ہے،جبکہ انسان بھول جاتا ہے۔
٭ظاہراً وباطناً خضوع وخشوع کا حصول ،کیونکہ جب انسان دل سے عاجزی کا اظہار کرتا ہے تب جا کر وہ توبہ کرتا ہے۔
٭نبی کریمﷺ کی اقتداء اور پیروی،کیونکہ نبی کریمﷺ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔
٭گناہوں سے بچنے اور اطاعت کرنے میں کوتاہی کا اعتراف،کیونکہ جب انسان اپنی کوتاہی کا اعتراف کر لیتا ہے تب وہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرتا ہے اورنیک اعمال کر کے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کوشش کرتا ہے۔
٭استغفار دل کی سلامتی اور صفائی کا ذریعہ ہے۔کیونکہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((ان العبد اذا أخطا خطیئۃ نکتت فی قلبہ نکتۃ سوداء ،فان ھو نزع واستغفر وتاب،صقل قلبہ))[رواہ الترمذی]
’’جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے،اگر انسان اس گناہ کو چھوڑ دے اور اس پر توبہ واستغفار کرے تو اس کے دل کودھو کر چمکا دیا جاتا ہے۔‘‘
سید الاستغفار:

حضرت شداد بن اوس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص یقین کامل کے ساتھ صبح کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا ،اگر اسی دن شام سے پہلے پہلے مر گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا،اسی طرح جو شخص یقین کامل کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا ،اگر اسی رات صبح سے پہلے پہلے مر گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔سید الاستغفار یہ ہے:
((اللھم أنت ربی لاالہ الا أنت،خلقتنی وأنا عبدک ،وأنا علی عھدک ووعدک مااستطعت،أعوذبک من شر ما صنعت ، أبوء لک بنعمتک علی وأبوء بذنبی ،فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا أنت))[رواہ مسلم]

’’اے اللہ تو ہی میرا رب ہے ، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں،تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوںجس قدرطاقت رکھتا ہوں،میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوںاور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔‘‘

درود شریف کب پڑھ سکتے ہیں اور کب نہیں پڑھنا چاہیے

 سات جگہوں پر درود شریف پڑھنامکروہ ہے، ان کے علاوہ ہر جگہ، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر وقت (با وضو اور بے وضو بھی) پڑھ سکتے ہیں، اور بہت ہی خیر وبرکت کا باعث ہے۔

وہ سات جگہیں درج ذیل ہیں: 

(۱)  ہم بستری کے وقت۔ (۲) پیشاب وپاخانہ کرتے وقت۔ (۳) کسی چیز کے بیچنے کے ارادے سے کسی کو دکھانے کے وقت (تاکہ اس سے سامنے والے کو چیز کی عمدگی معلوم ہو)۔ (۴)  ٹھوکر لگتے وقت۔ (۵)  تعجب کے وقت۔(۶)  ذبح کرتے وقت۔ (۷)  چھینک آنے پر۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 518):
"تكره الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم في سبعة مواضع: الجماع، وحاجة الإنسان، وشهرة المبيع والعثرة، والتعجب، والذبح، والعطاس على خلاف في الثلاثة الأخيرة شرح الدلائل، ونص على الثلاثة عندنا في الشرعة فقال: ولا يذكره عند العطاس، ولا عند ذبح الذبيحة، ولا عند التعجب".

درودشریف کے فضائل

 درود شریف کے فضائل

- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا)
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ [ مسلم : ۴۰۸]
- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ) [ صحیح الجامع : ۶۳۵۹ ]
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘
- درود شریف کثرت سے پڑھا جائے تو پریشانیوں سے نجات ملتی ہے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ جتنا چاہو۔ میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّک یعنی جتنازیادہ سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذًا تُکْفٰی ہَمَّکَ ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ایک روایت ہے میں ہے :إِذَنْ یَکْفِیْکَ اﷲُ ہَمَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِتب تمھیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے بچا لے گا۔‘‘ [ ترمذی : ۲۴۵۷ ، وصححہ الالبانی ]
روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب وہی ہو گا جو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا تھا ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً)
’’ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔‘‘
[رواہ الترمذی وابن حبان وابو یعلی وغیرہم]