https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 5 August 2021

طلاق کے لیے گواہ ضروری نہیں

 حدیث میں ہے الطلاق لمن اخذ بالساق طلاق کا اختیار شوہر کو ہے نیز نکاح سے پہلے لڑکے لڑکی دونوں با اختیار تھے لیکن جب ایجاب و قبول کے ذریعہ دونوں رشتہ نکاح میں بندھ گئے تو اللہ تعالی نے نکاح کی ڈور مرد کے ہاتھ میں دے دی اب اسے رکھنے ختم کرنے کا اختیار مرد کو حاصل ہوگیا قرآن پاک میں بیدہ عُقدة النکاح کے ذریعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ اللہ تعالی کا قانون ہے جو شخص قانون الٰہی کو مانتاہے وہ مسلمان کہلاتا ہے یہ ہماری عقل کا بنایا ہوا نہیں ہے کہ عقل انسانی میں آنا ضروری ہو۔ نیز جو شخص اللہ تعالی ہی کو نہیں مانتا تو اگر قانون کو نہ مانے تو تعجب کیا۔ نشہ کی حالت میں بھی طلاق پڑ جاتی ہے حدیث میں ہے ثلاث جدہن جد وہز لہن جدٌ۔ عدت کے سلسلے میں جو بات لکھی ہے اس کا بھی جواب یہی ہے کہ یہ اللہ تعالی کا بنایا ہوا قانون ہے لہٰذا یہ قانون کیوں بنایا اس کی جوابدہی ہمارے ذمہ نہیں ہے۔

تفسیرالقرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: {وأشهدوا} أمر بالإشهاد على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعاً. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى: {وأشهدوا إذا تبايعتم} [البقرة: 282] . وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألايقع بينهما التجاحد، وألايتهم في إمساكها، ولئلايموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية". (18 / 157، سورۃ الطلاق، ط؛ الھیۃ المصریۃ العامہ لکتاب

No comments:

Post a Comment