https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 2 November 2024

مسجد میں دعوت کاکھانا کھلانا

 واضح ہو کہ مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی  ہے، مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے؛ کیوں کہ مسجد اس طرح کے کاموں کے لیے نہیں ہے، البتہ صرف مسافر اور معتکف کے لیے بوجہ ضرورت مسجد میں کھانے، پینے اور سونے کی گنجائش ہے، اسی طرح اگر کبھی چھوٹی موٹی چیز (مثلًا کھجور یا پانی وغیرہ) کھانے کی نوبت آجائے تو معتکف اور مسافر کے علاوہ عام آدمی بھی اعتکاف کی نیت کر کے کھا پی سکتا ہے، لیکن اگر معتکفین یا مسافر لوگوں کے علاوہ عام لوگوں کے لیے کسی بھی عنوان سے کوئی دعوت کرنی ہو تو اس دعوت کا انعقاد مسجد کی حدود سے باہر کسی جگہ کرنا چاہیے، مساجد میں بلاضرورت کھانے کی دعوتوں کا انعقاد کرنا درست نہیں ہے، نیز یہ بات بھی مشاہدہ میں کثرت سے آتی رہتی ہے کہ مساجد میں دعوت کے انعقاد سے مسجد کے دیگر آداب کی بھی بہت زیادہ خلاف ورزی ہوتی ہے اور دعوتوں کے دوران لوگ شور و غوغا، ہنسی مذاق اور لایعنی گفتگو کر کے مسجد کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں، البتہ اگر مسجد میں معتکفین یا مسافر لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا گیا ہو اور کوئی شخص جو نہ تو معتکف ہو اور نہ مسافر ہو وہ اس کھانے میں شریک ہونا چاہے تو اسے چاہیے کہ مسجد میں اعتکاف کی نیت سے داخل ہو کر یا داخل ہونے کے بعد اعتکاف کی نیت کر کے کچھ نماز اور ذکر اللہ میں مشغول ہونے کے بعد، پھر کھانے میں شریک ہوجائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 661)

’’ وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب.

(قوله: وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء، فتاوى هندية.‘‘

الفتاوى الهندية (5/ 321):

’’ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية. ‘‘

Tuesday, 29 October 2024

الکوحل والے پرفیوم

 الکحل کی متعدد قسمیں ہیں:

(1) ایک وہ جو منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور کی شراب سےحاصل کی گئی ہو،  یہ بالاتفاق ناپاک  وحرام ہے، اس کا استعمال اور اس کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔

(2) دوسری  وہ جو مذکورہ  بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کی گئی ہو، اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت جائز ہے بشر ط یہ کہ نشہ آور نہ ہو۔

(3)آج کل الکحل کی ایک تیسری قسم بھی ہے، یعنی وہ کیمیکل سے بنایا جاتا ہے، اس کا شراب وغیرہ سے تعلق نہیں ہے۔

عام طور پر ادویات ، پرفیوم اور دیگر مرکبات  میں جو الکحل استعمال ہوتی ہے وہ مذکورہ  اشیاء اربعہ یعنی  انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے،یا کیمیکل سے بنایا جاتا ہے، لہذا  کسی چیز  کے بارے میں جب تک  تحقیق سے ثابت  نہ ہوجائے کہ اس  میں  پہلی قسم (منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور کی شراب )سے حاصل شدہ الکحل ہے، اس وقت تک اس کے استعمال کو  ناجائز اور حرام نہیں کہہ سکتے۔

موجودہ دور میں جو الکوحل پرفیومزمیں  استعمال ہوتی ہے، وہ انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے، یہ نجس نہیں، بلکہ پاک ہے۔ لہذا ان پرفیوم کا استعمال بھی جائز ہے اور نماز بھی ہوجاتی ہے، تاہم جس پرفیوم میں انگور یا کھجور سے کشیدہ الکحل شامل کیا گیا ہو، اس کا استعمال  ناجائز ہے، اور ایسا پرفیوم لگانے سے جسم یا کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ممنوعہ ’’الکحل‘‘  کے شامل ہونے کا شک ہو تو احتیاط بہترہے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع".

(کتاب الاشربۃ ،حکم الکحول المسکرۃ،ج:3،ص:408،دارالعلوم)