https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 29 June 2024

خون سے تعویذ لکھنا

  خون سے تعویذ لکھنا خصوصاً جب کہ اُن میں اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے اسماء ہوں یا آیات قرانیہ ہوں  ناجائز وحرام ہے؛ کیوں کہ خون نجس ہے اور اِس سے تعویذ لکھنے میں اُن اسماء کی توہین وبے حرمتی لازم آتی ہے۔ البتہ  اگر  جان جانے کا خطرہ ہو اور دیگر علاج معالجہ سے شفا نہ ملے، اور صحت یابی کی اس کے علاوہ کوئی اور ممکنہ صورت نہ رہے تو فقہاء کرام نے اس کی گنجائش دی ہے، تاہم اس رخصت پر عمل کرنے کے بجائے وہ آدمی  عزیمت پر عمل کرکے مرجائے تو یہ افضل ہے۔ نیز  خون سے تعویذ لکھے بغیر کوئی علاج کی صورت نہ ہونا بغیر دلیل کے قابل قبول نہیں ہوگا۔ (مستفاد فتاوی محمودیہ ۲۰/۶۶)

حاشية ابن عابدين - (1 / 210):
’’ونص ما في الحاوي القدسي إذا سال الدم من أنف إنسان ولاينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلايرخص له ما فيه، وقيل: يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى ا هـ‘‘.

نماز فجر کے بعد مصافحہ کا التزام

 نمازِ فجر کے بعد یا دیگر نمازوں کے بعد سلام ومصافحہ کا التزام کرنا شریعت میں ثابت نہیں ہے، بلکہ  نماز کے بعد سلام و مصافحہ کا التزام کرنا اور نہ کرنے والے کو غلط سمجھنا بدعت میں شامل ہے؛ اس لیے یہ طریقہ کار درست نہیں ۔البتہ اگر کبھی کبھار نماز کے بعد بوقتِ ملاقات بغیر التزام کے سلام ومصافحہ ہوتو مضائقہ نہیں ۔ (کفایت المفتی ، 9/107-امدادالفتاوی 5/268)

فتاوی شامی میں ہے :

"ونقل في تبيين المحارم عن الملتقط: أنه تكره المصافحة بعد أداء الصلاة بكل حال؛ لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم ما صافحوا بعد أداء الصلاة ولأنها من سنن الروافض، ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعية أنها بدعة مكروهة لا أصل لها في الشرع، وإنه ينبه فاعلها أولاً ويعزر ثانياً، ثم قال: وقال ابن الحاج من المالكية في المدخل: إنها من البدع، وموضع المصافحة في الشرع إنما هو عند لقاء المسلم لأخيه لا في أدبار الصلوات فحيث وضعها الشرع يضعها فينهي عن ذلك ويزجر فاعله لما أتى به من خلاف السنة اهـ ثم أطال في ذلك فراجعه". (6/382) فقط

غیر مفتی کامسئلہ بتانا

 مسائلِ شرعیہ   بتلانے میں لوگوں کی راہ نمائی کرنا جہاں نہایت عظیم الشان کام اور باعثِ اجر و ثواب ہے  وہیں نہایت نازک معاملہ بھی ہے،اس لیے کہ مسائل بتانے والے کی حیثیت اللہ اور بندوں کے درمیان واسطے کی ہے ، اگر وہ صحیح مسئلہ بتاۓ گا تو اجر و ثواب کا مستحق ہوگا، اور اگر خدا نخواستہ غلط مسئلہ بتاۓ گا تو اس کا وبال اور گناہ بھی اسی کے ذمے ہوگا،اس لیے مسائل بتانے میں نہایت ہی  احتیاط لازم ہےاور جب تک مسئلہ  مکمل طور پرمعلوم نہ  ہو اس وقت تک مسئلہ نہیں بتانا چاہیے،اسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ صرف فقہ کی ابتدائی چندکتابیں پڑھ لینے سے مسائل کا مکمل علم اور ان  میں  مہارت حاصل نہیں ہوجاتی ،بلکہ    مسائل  میں مہارت کے لیے جہاں فقہ کے  قدیم وجدید مآخذ کا وسیع وعمیق مطالعہ ضروری ہے،  وہیں اس سے زیادہ مستند وماہر مفتیانِ کرام کی سرپرستی اور تربیت ضروری ہے، شرعی  مسائل میں ایسے  بہت  سے امور  ہیں جن کا ادراک  ممارست اور مسلسل تجربے کا تقاضہ کرتا ہے، اور ان امور کی انجام دہی کسی  مستند دارالافتاء  سے  وابستہ مفتی ہی  کرسکتاہے، لہذا مذکورہ شخص اگر  واقعتاً پختہ عالم ہے اور اس کے علاقے میں اور کوئی دوسرا شخص  دین کا  صحیح علم رکھنے والا موجود نہیں ہے  تو   غیر مفتی عالم بوقتِ ضرورت اس شرط کے ساتھ  مسئلہ  آگے بیان  کرسکتا ہے کہ جب اسے مسئلے سے متعلق مکمل طور پر  علی وجہ البصیرت یقینی اور صحیح  علم ہو یا   اہلِ حق کی کسی مستند  کتاب میں  مسئلہ دیکھا ہو یااہل ِحق کے کسی مستندمفتی صاحب سے مسئلہ معلوم کیا ہو  اور مسئلہ اچھی طرح سمجھ بھی چکا ہو  یا جواب کی تصدیق  کسی مستند مفتی یا دار الافتاء سے کرچکا ہو،اور وہ  مسئلہ قرآن و سنت اور شریعت کے بالکل  سو فیصد مطابق ہو ،اس میں شرک و بدعت کی کسی قسم کی آمیزش نہ ہو ، اہل ِ سنت والجماعت کے طریقے سے  سرِ مو منحرف نہ ہواور پھر مسئلہ بعینہ آگے نقل کرے،اور   ساتھ  ہی  اس سائل کو کسی مستند مفتی  یا مستند عالمِ دین سے رجوع کا مشورہ بھی دیا جاۓ، یا مسئلہ بتانے سے پہلے کسی مستند اور پختہ کار مفتی سے اس مسئلے کی تصدیق کروالی جاۓ کہ سائل کے اس سوال کے جواب میں فلاں  فتویٰ بطورِ جواب درست ہوگا یا نہیں ؟،غیر عالم شخص کا مستقل یہ  معمول بنالینا کہ لوگوں کے مسائل سن کر ان کے جوابات دے ، اس میں خطا  کا غالب امکان ہے، لہٰذا مستند مفتی یا   پختہ عالم کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو مستقل مسائل نہیں بتانے چاہییں، اور جو مسائل سمجھ نہ آئیں یا ان میں اشتباہ ہو، ان کا جواب نہیں دینا چاہیے، بلکہ کسی مستند دار الافتاء یا مفتی صاحب سے رجوع کرکے عوام الناس کی راہ نمائی کرنی چاہیے۔

قرآن مجید میں ارشادِباری تعالی ہے:

" فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ."

ترجمہ:"سو اگر تم کو علم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ دیکھو."

(بیان القرآن،45/6،ط:میر محمد)

سنن ابو داؤد میں ہے:

"فإنما ‌شفاء ‌العي السؤال."

ترجمہ:"لا علمی کا علاج  سوال ہی ہے."

(کتاب الطهارۃ،باب في المجروح یتیمم،201/1،رقم:336،ط:بشری

پرندےرکھنے سے مصیبت دور ہوتی ہے ؟

  کو جو خیر ملتی ہے یا مصیبت پہنچتی ہے، وہ اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتی ہے، احاديثِ  مباركہ ميں اگرچہ بعض پرندوں اور  جانوروں كو باعثِ خير و بركت كہا گيا ہے، جیسے بكری اور مرغ، اسی طرح  جہاد  کی نیت سے پالا گیا گھوڑا بھی باعثِ  خیر  ہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ جانور یا پرندے مصیبتیں ٹالنے والے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ معصوم بچوں، نیک لوگوں، یا بے زبان جانوروں وپرندوں کی وجہ سے بعض اوقات انسان پر اُس کے اعمال کے سبب آئی مصیبتوں وبلاؤں کو ٹال دیتے ہیں، جیسا کہ استسقاء (طلبِ باراں) کی نماز کے لیے جاتے ہوئے بچوں، بوڑھوں اور بے ضرر جانوروں کو بھی ساتھ لے جانے کا حکم ہے، لیکن یہ چیزیں بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو ٹالنے یا بدلنے والی نہیں ہیں، بلکہ خیر و شر اللہ کی جانب سے ہے اور شر سے بچانے والی ذات بھی اللہ رب العزت کی ہے، خواہ بغیر کسی سبب کے بچائے یا دعا، صدقات اور نیک اعمال کے  وسیلے سے بچائے۔

لہٰذااس عقیدے کے ساتھ گھر میں پرندوں  یا جانوروں کو پالنا کہ یہ ہم پر آنے والی مصیبتوں کو ٹال دیں گے یا اپنے اوپر لے کر ہماری حفاظت کریں گے، جائز نہیں  ہے، اس سے احتراز لازم ہے۔ البتہ مذکورہ عقیدہ رکھے بغیر ویسے ہی، یا گھر میں برکت کے حصول کے لیے  جانور یا پرندے پالنا  جائز ہے، بشرط یہ کہ ان کے دانہ، پانی  اور  صفائی ستھرائی کا بروقت انتظام کیا جائے اور  ان کو بھوکا پیاسا نہ رکھا جائے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ، نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه".

(ج:5:ص:2291، رقم: 5850، دار ابن کثير اليمامة بيروت)

فتح الباری میں ہے:

"إن في الحديث دلالةً على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه لقول النبي صلى الله عليه وسلم".

(ج:10، ص:584، ط:دار المعرفة بيروت)

عورت ک مایک پر تقریر کرنا

 ضرورت کے وقت عورت کے لیے اجنبی مرد سے بات کرنا، اسی طرح کوئی دینی مسئلہ یا حدیث وغیرہ بیان کرنا اگرچہ جائز ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہا سے ثابت ہے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ ضرورت واقعی ہو یعنی کوئی دوسرا مرد مسئلہ بتلانے والا نہ ہو  اور نہ اپنی کسی محرم خاتون کے توسط سے معلوم کیا جاسکتا ہو، اور اس مسئلہ کی دینی اعتبار سے فوری ضرورت وغیرہ بھی ہو، لیکن عورتوں کا جلسوں وغیرہ محافل میں اتنی بلند آواز سے بیان کرنا کہ آواز باہر مردوں تک بھی پہنچتی ہو جائز نہیں ہے ، کیوں کہ عورتوں کا جلسوں میں بلند آواز سے بیان کرنا ضرورت میں داخل نہیں ہے،لہٰذا اجنبی مردوں کے سامنے عورتوں کا اپنی آواز ظاہر کرنے میں بہرحال خوفِ فتنہ ہے، اس لیے شرعًا اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں  عورتوں کے لیے اذان دینا ممنوع ہے، اسی طرح عورتوں کو بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے، بلکہ جماعت کی نماز میں شریک ہونے کی صورت سے امام کو آواز سے تسبیح پڑھ کر لقمہ دینے کی بھی اجازت نہیں ہے، نیز دیگر تسبیحات و تذکیر و تہلیل وغیرہ  بھی  پست آواز سے کہنے کا حکم ہے؛ لہٰذا عورتوں  کے لیے جلسوں وغیرہ  میں ساؤنڈ  سسٹم کے ذریعہ بلند آواز سے بیان کرنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، بلکہ جلسوں وغیرہ میں شرکت کے  لیے عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا ہی شرعًا درست نہیں ہے۔

احکام القرآن میں ہے:

وقَوْله تَعَالَى: { وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ } رَوَى أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : ( هُوَ الْخَلْخَالُ ) ، وَكَذَلِكَ قَالَ مُجَاهِدٌ : ( إنَّمَا نُهِيت أَنْ تَضْرِبَ بِرِجْلَيْهَا لِيُسْمَعَ صَوْتُ الْخَلْخَالِ ) وَذَلِكَ قَوْلُهُ : { لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ } .
قَالَ أَبُو بَكْرٍ : قَدْ عُقِلَ مِنْ مَعْنَى اللَّفْظِ النَّهْيُ عَنْ إبْدَاءِ الزِّينَةِ وَإِظْهَارِهَا لِوُرُودِ النَّصِّ فِي النَّهْيِ عَنْ إسْمَاعِ صَوْتِهَا ؛ إذْ كَانَ إظْهَارُ الزِّينَةِ أَوْلَى بِالنَّهْيِ مِمَّا يُعْلَمُ بِهِ الزِّينَةُ ، فَإِذَا لَمْ يَجُزْ بِأَخْفَى الْوَجْهَيْنِ لَمْ يَجُزْ بِأَظْهَرِهِمَا ؛ وَهَذَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّةِ الْقَوْلِ بِالْقِيَاسِ عَلَى الْمَعَانِي الَّتِي قَدْ عَلَّقَ الْأَحْكَامَ بِهَا ، وَقَدْ تَكُونُ تِلْكَ الْمَعَانِي تَارَةً جَلِيَّةً بِدَلَالَةِ فَحْوَى الْخِطَابِ عَلَيْهَا وَتَارَةً خَفِيَّةً يُحْتَاجُ إلَى الِاسْتِدْلَالِ عَلَيْهَا بِأُصُولٍ أُخَرَ سِوَاهَا .
وَفِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ مَنْهِيَّةٌ عَنْ رَفْعِ صَوْتِهَا بِالْكَلَامِ بِحَيْثُ يَسْمَعُ ذَلِكَ الْأَجَانِبُ ؛ إذْ كَانَ صَوْتُهَا أَقْرَبَ إلَى الْفِتْنَةِ مِنْ صَوْتِ خَلْخَالِهَا ؛ وَلِذَلِكَ كَرِهَ أَصْحَابُنَا أَذَانَ النِّسَاءِ ؛ لِأَنَّهُ يُحْتَاجُ فِيهِ إلَى رَفْعِ الصَّوْتِ وَالْمَرْأَةُ مَنْهِيَّةٌ عَنْ ذَلِكَ ، وَهُوَ يَدُلُّ أَيْضًا عَلَى حَظْرِ النَّظَرِ إلَى وَجْهِهَا لِلشَّهْوَةِ ؛ إذْ كَانَ ذَلِكَ أَقْرَبَ إلَى الرِّيبَةِ وَأَوْلَى بِالْفِتْنَةِ."

 (احکام القرآن للجصاص، ج:3، ص:465، ط:مکتبة رشیدیة


فتاوی شامی میں ہے:

"وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح.

(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلايحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولاتلبي جهرًا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة." (1 / 406)


کھانے کے بعد تلوں سے ہاتھ صاف کرنا

 کھاناکھانے کے بعد ہاتھوں کو پاؤں کے تلووں  سے پونچھنے سے  متعلق حضر ت عمررضی اللہ عنہ کا  ایک  اثر ملتا  ہے ، لہذا کھاناکھانے کے بعد پاؤں کے تلووں سے  ہاتھ  پونچھنا درست ہے  ۔

کنز العمال میں ہے :

"عن السائب بن يزيد قال: ربما تعشيت عند عمر بن الخطاب فيأكل الخبز واللحم ثم يمسح يده على قدمه ثم يقول: هذا منديل عمر وآل عمر."

(فضائل الفاروق رضي الله عنه12/625ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ :"سائب بن یزید   فرماتے ہیں :بسااوقات میں  حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے پاس  رات کاکھانا کھایا وہ روٹی اور گوشت کھاتے ، پھر اپنا ہاتھ   پاؤں پر   صاف کرلیتے اور فرماتے یہ عمر اور آل عمر کا رومال ہے ۔"

کافر،زندیق،ملحد،مرتد،کی تعریف

 "کافر"وہ شخص ہےجودین اسلام کو ظاہراً وباطناً ماننے والانہ ہو۔  "زندیق"  وہ شخص ہے جوزبان سےتومسلمان ہونےکااقرارکررہاہو لیکن احکامِ اسلام کی باطل تاویل کرتاہو۔  "مرتد" وہ شخص ہےکہ اپنی مرضی اوررضامندی سےاسلام قبول کرنےکےبعداسلام سے پھرجائے۔

  ” ملحد“ لغوی تعریف کے اعتبار سےتو کفر کی تمام اقسام کو شامل ہے اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سےاس شخص کو کہا جاتا ہے جو   بظاہر تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، لیکن ضروریات دین میں سے کسی امر کی ایسی تعبیر وتشریح کرتا ہے جو صحابہ وتابعین نیز اجماع امت کے خلاف ہو  ۔ اور" منافق " اس کو کہا جاتا ہے جو  زبان سے تو دین حق کا  اقرار کرتا ہے، مگر دل سے  اس کا منکر ہو۔  ( فتاوی شامی، ج: ۴، ص: ۳۴۱ ومابعد، ط: سعید) ۔

توسل کی حقیقت

 توسل کی دو قسمیں ہیں: 1) توسل بالاعمال یعنی اپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے یوں دعا کرنا کہ اے اللہ! فلاں عمل کی برکت سے میری فلاں حاجت پوری فرما. یہ صورت بالاتفاق وبلااختلاف جائز ہے اور اس کی دلیل وہ مشہور اور صحیح حدیث ہے جس میں تین افراد ایک غار  میں پھنس گئے تھے اور تینوں نے اپنے نیک عمل کے وسیلے سے دعا کی تو اللہ تعالی نے اس مصیبت سے انہیں نجات عطا فرمائی. (بخاری 1 /  493 قدیمی) 2) توسل بالذوات یعنی کسی نبی، صحابی یا کسی ولی سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر دعا کرنا. یہ صورت بھی جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، چناچہ قرآن کریم کی آیت سے ثابت ہے کہ بنوقریظہ اور بنونضیر کے یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ کے وسیلے سے فتح ونصرت کی دعا کیا کرتے تھے. (البقرۃ:89)خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا ومہاجرین کے توسل سے دعا فرماتے تھے. (مشکوۃ : 2 / 447 قدیمی) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ قحط سالی کے سال حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو اس وقت حیات تھے) کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے. ( نیل الاوطار : 4 / 8 طبع مصر) البتہ کسی نبی یا ولی سے حاجت مانگنا شرک ہے، اور ان کی قبر پر جاکر ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی علما کے نزدیک مختلف فیہا مسئلہ ہے اور اس سے اجتناب کرنا لازم ہے. (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی کتاب "اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم" اور فتاوی بینات کی جلد دوم) مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات کا حاصل یہ ہوا کہ توسل بالاعمال اور توسل بالذوات دونوں علمائے دیوبند سمیت جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، قرآن کریم واحادیث مبارکہ اور کتبِ فقہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، علمائے دیوبند کی کتاب المہند علی المفند میں بھی واضح طور پر یہی عقیدہ مذکور ہے، لہذا توسل کا کلی طور پر انکار یا نبی اور ولی میں فرق کرنا درست نہیں، البتہ یہ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ واجب یا ضروری نہیں، توسل کا انکار کیے بغیر بلاوسیلہ دعا مانگنا بھی جائز ہے.

Friday 28 June 2024

جمعہ کی ایک رکعت ملی

 اگر کوئی جمعہ کی نماز میں تاخیر سے پہنچا جس کی وجہ سے امام صاحب ایک رکعت پڑھاچکے تھے اور دوسری رکعت چل رہی ہو تو اسے چاہیے کہ عام نمازوں کی طرح امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی ایک رکعت پوری کرلے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 157):

(ومن أدركها في تشهد أو سجود سهو) على القول به فيها (يتمها جمعة) خلافا لمحمد (كما) يتم (في العيد) اتفاقا كما في عيد الفتح لكن في السراج أنه عند محمد لم يصر مدركا له (وينوي جمعة لا ظهرا) اتفاقا فلو نوى الظهر لم يصح اقتداؤه ثم الظاهر أنه لا فرق بين المسافر وغيره نهر بحتا
(قوله: ومن أدركها) أي الجمعة (قوله أو سجود سهو) ولو في تشهده ط (قوله: على القول به فيها) أي على القول بفعله في الجمعة. والمختار عند المتأخرين أن لايسجد للسهو في الجمعة والعيدين لتوهم الزيادة من الجهال كذا في السراج وغيره بحر وليس المراد عدم جوازه بل الأولى تركه كي لا يقع الناس في فتنة أبو السعود عن العزمية ومثله في الإيضاح لابن كمال (قوله: يتمها جمعة) وهو مخير في القراءة إن شاء جهر وإن شاء خافت بحر (قوله: خلافا لمحمد) حيث قال: إن أدرك معه ركوع الركعة الثانية بنى عليها الجمعة، وإن أدرك فيما بعد ذلك بنى عليها الظهر لأنه جمعة من وجه وظهر من وجه لفوات بعض الشرائط في حقه فيصلي أربعا اعتبارا للظهر ويقعد لا محالة على رأس الركعتين اعتبارا للجمعة ويقرأ في الأخريين لاحتمال النفلية. ولهما أنه مدرك للجمعة في هذه الحالة حتى تشترط له نية الجمعة وهي ركعتان، ولا وجه لما ذكر لأنهما مختلفان لايبنى أحدهما على تحريمة الآخر كذا في الهداية (قوله: لكن في السراج إلخ) أقول: ما في السراج ذكره في عيد الظهيرية عن بعض المشايخ ثم ذكر عن بعضهم أنه يصير مدركا بلا خلاف، وقال: وهو الصحيح (قوله: اتفاقًا) لما علمت أنها عند محمد ليست ظهرا من كل وجه.

Thursday 27 June 2024

دووطن اصلی میں نمازکا حکم

 اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی سے بیوی، بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہیں مستقل  طور پر  اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، اور پہلی جگہ پر دوبارہ منتقل ہونے کا ارادہ نہ ہو  تو اس کا پہلا وطنِ اصلی ختم ہوجاتا ہے،  اور دوسری جگہ اس کا وطنِ اصلی بن جاتا ہے، اور  اگر پہلی جگہ  پر بھی موسم کے لحاظ سے آکر رہنے کا ارادہ ہو یا  وطنِ اصلی سے  اہل وعیال کو تو دوسری جگہ  منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے رہائش کا تعلق ختم نہ کیا ہوتو دونوں  جگہیں اس کی وطنِ اصلی شمار ہوں گی ، جب بھی  وہاں جائے گا تو مقیم ہوگا اور جب یہاں آئے گا تب بھی مقیم ہوگااگر چہ یہ اقامت پندرہ دن سے کم ہی کیوں نہ ہو ، البتہ  درمیان کے راستے میں مسافر ہوگا۔

،، زید کے بیوی بچے علی گڑھ مقیم ہیں اور زید نے علی گڑھ میں بھی رہنے کا ارادہ کرلیا ہے تو علی گڑھ بھی زید کے لئے وطن اصلی کی حثیت رکھے گا۔ اب اگر زید علی گڑھ دو چار دنوں کے لیے آتا ہے تو قصر کے بجائے اتمام کرے گا؟

فتاوی شامی  میں ہے:

(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله)    إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله،  وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته، وما صوره الزيلعي رده في البحر (من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر. وفي الخانية: إن كان بين الفناء والمصر أقل من غلوة وليس بينهما مزرعة يشترط مجاوزته وإلا فلا (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) من أقصر أيام السنة ولا يشترط سفر كل يوم إلى الليل بل إلى الزوال ولا اعتبار بالفراسخ على المذهب (بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة) حتى لو أسرع فوصل في يومين قصر؛ ولو لموضع طريقان أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني. (صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: «إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعا۔

(الدر المختار۔ ج:۲‘ص:۱۳۲ باب صلاة المسافر۔ط: سعید)

دوران عدت نکاح

 صورتِ مسئولہ میں عدّت کے دوران کیا ہوا نکاح شرعی طور پر منعقد ہی نہیں ہوا .البتہ  اپنی بیوی کو طلاق مغلظہ  دینے کے بعد سالی سے نکاح منعقد ہوگیا بشرطیکہ وہ منکوحہ غیر نہ ہو .طلاق مغلظہ دینے کے بعد دوران عدت سابقہ بیوی سے کیا ہوا نکاح از رُوئے شرع سرے سے منعقدہی نہیں ہوا۔ لہذا دونوں  کے درمیان تفریق لازمی ہے 

لقول الله تعالى: { ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله } . ولأن العدة إنما اعتبرت لمعرفة براءة الرحم لئلا يفضي إلى اختلاط المياه، وامتزاج الأنساب. وإن تزوجت فالنكاح باطل، لأنها ممنوعة من النكاح لحق الزوج الأول، فكان نكاحا باطلا، كما لو تزوجت وهي في نكاحه، ويجب أن يفرق بينه وبينها. انتهى.

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌للرجل ‌أن ‌يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع."

(كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرما،القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير،280/1دار الفكر بيروت)


Sunday 23 June 2024

عیدین میں تکبیرات چھوٹنے پرنماز کیسے پوری کریں

 جو شخص عیدین کی نماز میں امام کے تکبیرات زوائد کہنے کے بعد شامل ہو اور اس کی پہلی رکعت کی تکبیرات چھوٹ گئی ہوں تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کہنے کے فوراً بعد تکبیراتِ زوائد کہہ لے، اگرچہ امام قرأت شروع کر چکا ہو، اور اگر امام رکوع میں ہو تو اگر تکبیراتِ زوائد کہہ کر رکوع   ملنے کی امید ہو تو تکبیراتِ زوائد کہہ کر رکوع میں جائے ورنہ رکوع میں جاکر تکبیرات زوائد کہہ لے۔

اگر عیدین کی نماز میں کسی کی پہلی رکعت چھوٹ جائے تو وہ امام کے سلام کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثناء، اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر تین تکبیرات زوائد کہہ کر رکوع کرے، اور بقیہ نماز پوری کرے۔ فتویٰ اسی پر ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ وغیرہ نے یہی طریقہ لکھاہے۔

البتہ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ نے عیدین کی نماز کی ایک رکعت نکل جانے کی صورت میں  اسی ترتیب پر ادا کرنے کی اجازت لکھی ہے جس ترتیب پر عام نماز ادا کی جاتی ہے، یعنی پہلے ثناء پڑھے، پھر تکبیرات اور پھر تعوذ وتسمیہ پھر تلاوت۔ لہٰذا اگر کسی شخص نے اس ترتیب کے مطابق چھوٹی گئی رکعت ادا کرلی تو اس کی گنجائش ہوگی۔

الفتاوى الهندية (1/ 151)

"قال محمد - رحمه الله تعالى - في الكبير: ولو أن رجلاً دخل مع الإمام في صلاة العيد في الركعة الأولى بعدما كبر الإمام تكبير ابن عباس - رضي الله تعالى عنهما - ست تكبيرات، فدخل معه وهو في القراءة والرجل يرى تكبيرات ابن مسعود - رضي الله عنهما - فإنه يكبر برأي نفسه في هذه الركعة حال ما يقرأ الإمام، وفي الركعة الثانية يتبع رأي الإمام، كذا في التتارخانية. ولو انتهى رجل إلى الإمام في الركوع في العيدين فإنه يكبر للافتتاح قائماً، فإن أمكنه أن يأتي بالتكبيرات ويدرك الركوع فعل، ويكبر على رأي نفسه، وإن لم يمكنه ركع واشتغل بالتكبيرات عند أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، هكذا في السراج الوهاج. ولا يرفع يديه إذا أتى بتكبيرات العيد في الركوع، كذا في الكافي، ولو رفع الإمام رأسه بعدما أدى بعض التكبيرات فإنه يرفع رأسه ويتابع الإمام وتسقط عنه التكبيرات الباقية، كذا في السراج الوهاج. ولو أدركه في القومة لا يقضي فيها؛ لأنه يقضي الركعة الأولى مع التكبيرات"۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 173)

"(ولو أدرك) المؤتم (الإمام في القيام)  بعدما كبر (كبر) في الحال برأي نفسه؛ لأنه مسبوق، ولو سبق بركعة يقرأ ثم يكبر؛ لئلا يتوالى التكبير، (فلو لم يكبر حتى ركع الإمام قبل أن يكبر) المؤتم (لا يكبر) في القيام (و) لكن (يركع ويكبر في الركوع) على الصحيح؛ لأن للركوع حكم القيام فالإتيان بالواجب أولى من المسنون۔