https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 27 June 2024

دووطن اصلی میں نمازکا حکم

 اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی سے بیوی، بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہیں مستقل  طور پر  اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، اور پہلی جگہ پر دوبارہ منتقل ہونے کا ارادہ نہ ہو  تو اس کا پہلا وطنِ اصلی ختم ہوجاتا ہے،  اور دوسری جگہ اس کا وطنِ اصلی بن جاتا ہے، اور  اگر پہلی جگہ  پر بھی موسم کے لحاظ سے آکر رہنے کا ارادہ ہو یا  وطنِ اصلی سے  اہل وعیال کو تو دوسری جگہ  منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے رہائش کا تعلق ختم نہ کیا ہوتو دونوں  جگہیں اس کی وطنِ اصلی شمار ہوں گی ، جب بھی  وہاں جائے گا تو مقیم ہوگا اور جب یہاں آئے گا تب بھی مقیم ہوگااگر چہ یہ اقامت پندرہ دن سے کم ہی کیوں نہ ہو ، البتہ  درمیان کے راستے میں مسافر ہوگا۔

،، زید کے بیوی بچے علی گڑھ مقیم ہیں اور زید نے علی گڑھ میں بھی رہنے کا ارادہ کرلیا ہے تو علی گڑھ بھی زید کے لئے وطن اصلی کی حثیت رکھے گا۔ اب اگر زید علی گڑھ دو چار دنوں کے لیے آتا ہے تو قصر کے بجائے اتمام کرے گا؟

فتاوی شامی  میں ہے:

(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله)    إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله،  وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته، وما صوره الزيلعي رده في البحر (من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر. وفي الخانية: إن كان بين الفناء والمصر أقل من غلوة وليس بينهما مزرعة يشترط مجاوزته وإلا فلا (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) من أقصر أيام السنة ولا يشترط سفر كل يوم إلى الليل بل إلى الزوال ولا اعتبار بالفراسخ على المذهب (بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة) حتى لو أسرع فوصل في يومين قصر؛ ولو لموضع طريقان أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني. (صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: «إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعا۔

(الدر المختار۔ ج:۲‘ص:۱۳۲ باب صلاة المسافر۔ط: سعید)

No comments:

Post a Comment