https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 20 July 2024

ایمان ویقین

  ایمان و یقین اور ایمان و عقائد میں کوئی تضاد نہیں ہےبلکہ یہ قریب المفہوم الفاظ ہیں،فقہاء کا معمول یہ ہوتاہے کہ پہلے ایمان کو بیان کرتے ہیں اس کے بعدعقائد کا ذکر کرتےہیں، اور ایمان و یقین سے بھی یہی مطلوب ہوتاہےکہ جن جیزوں پر ہم ایمان لائے ہیں اورجوہمارے عقائد ہیں ان میں پختگی ضروری ہے،لہٰذا  دونوں لفظوں  کا مفہوم قریب قریب ہے۔

(وبالآخرۃ ھم یوقنون )یقین کا مقابل شک و تردد ہے ،اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ آخرت کی زندگی کی محض تصدیق کرنا مقصود  کو پورا نہیں کرتا،بلکہ اس کا ایسا یقین رکھناضروری ہے جیسے کوئی چیزآنکھوں کے سامنے ہو۔

(معار ف القرآن )

لہٰذااتنا یقین بنانا فرض ہے کہ جو بندہ کو اللہ کے احکامات پر کھڑا کرے ،اور اللہ کے وعدوں اور وعیدوں میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔

گروی مکان لینا اور اس رہایش اختیارکرنا

 واضح رہے کہ گروی "رہن"  کا  شرعی  حکم یہ  ہے کہ  ضرورت  کی  وجہ  سے کسی قرض کے  مقابلے میں "رہن" لینا اور دینا درست ہے، لیکن رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک  ہی کی  ملک  میں  رہتی ہے،  اور  مرتہن  (جس کے پاس چیز گروی رکھی ہو) کے لیے شرعاً اس کے استعمال اور اس سے نفع  کمانے  کی اجازت نہیں ہوتی، اگر رہن میں رکھی ہوئی چیز کو مرتہن نے استعمال کرلیا  یا زیادہ قیمت میں فروخت  کیا تو اُس چیز سے نفع حاصل کرنا  سود کے زمرے میں آئے گا؛ کیوں کہ رہن قرض کے بدلے ہوتا ہے اور قرض دے کر مقروض سے نفع حاصل کرنا سود ہے۔

لہذا  گروی پر مکان لینا دینا درست ہے، لیکن گروی میں لیا ہوا مکان سے نفع اٹھانا جائز نہیں۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار (5/ 166):
’’لايحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم، 
 قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة وما في المعتبرات على الحكم.
ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً‘‘. 
  ’’وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّهَمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاه لَمَا اَعْطَاه الْدَّرَاهمَ وَهذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَهوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ‘‘. (الدر المختار مع ردالمحتار، ج۵/ ص۳۱۱) 
فقط

ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں نوکری کرنا

 شرعا  ہر وہ نوکری جائز ہےجو اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ ہو،اور ہر وہ نوکری ناجائز ہے جس میں ناجائز امور سر انجام دیے جاتے ہیں،جس میں دوسروں کا مال ناحق زبردستی ان سے وصول کیا جاتا ہو،ان پر مالی جرمانہ عائد کیا جاتا ہو،لوگوں پر ظلم کیا جاتا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :ایک دوسرے کا مال نا حق ناکھاؤ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ نوکری میں لوگوں کا مال زبردستی ان کے اکاؤنٹ سے نہ نکالا جائے ،اور ٹیکس کی ادائے گی میں تاخیر کرنے کی صورت میں ان پر اضافی چارجز نہ لگائے جائیں،اور اس طرح کے علاوہ دیگر خلاف شرع امور کا ارتکاب نہ کیا جائے تو یہ نوکری کرنا جائز ہوگا،بصورتِ دیگر اس سے اجتناب لازمی ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(سورة البقرة،188)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال...لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي."

(باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال، ج:4، ص:61، ط:سعید)


كرايہ پرلی ہوئی زمین کسی اور کو کرایہ پر دینا

 اجارہ پر لی ہوئی زمین کا آگے کسی اور کو اجارہ پر دینا  چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1:  مستاجر(کرایہ دار)کسی ایسے شخص کو زمين کرایہ پر نہ دے، جس کے کام سے اِس زمين میں نقصان ہو۔

2: زمين کا کرایہ، اصل کرایہ سے زیادہ نہ لے، ورنہ زیادتی اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، البته اگر دوسرا کرایہ پہلے والے کی جنس میں سے نہ ہو، مثلا پہلا کرایہ روپیہ میں ہو اور آگے کرایہ پر دیتے ہوئے کسی اور چیز پر کرایہ مقرر ہوا، یا کرایہ دار نے اس کرایہ کی زمين میں کچھ اضافی کام  کرایا ہو، تو ایسی صورت میں  وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر دوسرے کو کرایہ پر دے سکتا ہے۔

3: کرایہ دار اپنے لیے متعین پیداوار طے نہ کرے، یا تو اپنی زمین اجرت پر   دے دے اور اجرت طے کرلیں،  یا پیداوار میں فیصد کے اعتبار سے اپنا حصہ مقرر کریں۔

الدر المختار میں ہے:

"(و) بشرط (الشركة في الخارج)۔۔۔ 

و في الرد تحته: ثم فرع على الأخير بقوله (فتبطل إن شرط لأحدهما قفزان مسماة أو ما يخرج من موضع معين أو رفع)".

(‌‌كتاب المزارعة، ج:6، ص:276، ط:سعید)

المحیط البرھانی میں ہے:

"قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لايتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأنّ الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لاتطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله".

(‌‌كتاب الإجارات، ‌‌الفصل السابع في إجارة المستأجر، ج:7، ص:429، ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

Friday 19 July 2024

ادھار خریدکرنفع میں بیچنا

 ادھار پر گھر خریدنے کے بعد  قیمت کی ادائیگی سے  پہلے خریدار کے لیے آگے نفع کے  ساتھ   بیچنا جائز ہے، اس میں شرعًا کوئی ممانعت نہیں ہے،البتہ اس پر قیمت کی بقیہ رقم ادا کر دینا لازم ہے۔

ہدایہ میں ہے:

"ويجوز بيع العقار قبل القبض عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمه الله."

(كتاب البيوع،‌‌‌‌باب المرابحة والتولية،فصل ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه، ج:3، ص:59، ط:دار احياء التراث العربي بيروت لبنان) 

بیع عینہ

بیع العینہ: سودی خریدو فروخت کی ایک شکل بیع العینہ (Buy Back) ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ فروخت کنندہ ایک چیز ادھار بیچ کر دوباہ کم قیمت پر نقد خریدلیتا ہے یا نقد خریدکر دوبارہ اسی شخص کوادھارزائد قیمت پر بیچ دیتا ہے۔

 آج کل اس کی جو صورت رائج ہے کہ کسی کو قرض کی ضرورت ہو اور وہ قرض لینے آئے اور اسے قرض کی جگہ کوئی اور چیز دی جائے اور پھر وہی چیز اس سے دوبارہ خرید لی جائے، یا وہ تیسرے فرد کو بیچے اور تیسرا فرد پھر پہلے فرد کو بیچ دے، یا خریدار سے یہ کہا جائے کہ اس چیز کو فروخت کر کے اپنی ضرورت پوری کر لو اور مقصود وہ چیزخریدنا نہ ہو، بلکہ اضافے کے بدلے قرض کا لین دین مقصود ہو تو اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’بیعِ عینہ‘‘ کہتے ہیں جو کہ ناجائز ہے اور سود خوری کا ہی ایک راستہ ہے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے، جیسا کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ جب تک تم بیع عینہ کرتے رہوگے اور جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہوگے اور زراعت میں گم ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دوگے تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔

"عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إذا تبايعتهم العينة، و أخذتم أذناب البقر، و رضيتم بالزرع، و تركتم الجهاد، سلط الله عليكم الذلة، لاينزعه حتي ترجعوا إلی دينكم."

(سنن أبي داود، كتاب البيوع،باب في النهي عن العينة، رقم الحديث:3462)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط، وعن أبي يوسف: العينة جائزة مأجور من عمل بها، كذا في مختار الفتاوى هندية. وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال - عليه الصلاة والسلام - «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم»."

(رد المحتار علی الدر المختار،كتاب البيوع، باب الصرف، 273/5، ط:سعید)

رقم منتقلی پر اجرت وصول

 پیسہ منتقل کرنے کے بدلے جو  رقم وصول کی جاتی ہے وہ سروس چارجز ہونے کی بناء پر سود کے زمرے میں نہیں آتی،البتہ  سروس چارجز کی جو  رقم لی جاتی ہے وہ اصل ر قم سے علیحدہ کر کے دی جائے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولو استأجر رجلا ينقد له الدراهم كل ألف بكذا أو استأجره على كل شهر بكذا ينقد له فهو جائز؛ لأن في الفصل الأول استأجره على عمل معلوم ببدل معلوم والاستئجار على ذلك متعارف بين الناس، وهو الأصل في عقد الإجارة، وفي الفصل الثاني عقد على منافع في مدة معلومة ببدل معلوم ليقيم بتلك المنافع عملا مقصودا"

(کتاب الشروط، ج:30، ص:204، ط:دارالفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: للطحان) أي لمسألة قفيز الطحان، وهي كما في البزازية أن يستأجر رجلا ليحمل له طعاما أو يطحنه بقفيز منه فالإجارة فاسدة، ويجب أجر المثل لا يتجاوز به المسمى"

(کتاب البیوع، باب الصرف، مطلب مسائل فی المقاصۃ، ج:5، ص:280، ط:ایچ ایم سعید کمپنی)

صف یاچٹائی پاک کرنے کاطریقہ

 نجاست سے کسی چیز کو پاک کرنے میں اصل نجاست کا ازالہ (زائل کرنا) ہے، اور مختلف اشیاء میں نجاست کے ازالے کے مختلف طریقے فقہاءِ کرام نے لکھے ہیں، نیز جس طرح نجاست کی پاکی پانی سے ہوتی ہے اسی طرح دیگر مائع اشیاء سے بھی اگر نجاست زائل ہوجائے تو اس چیز کی پاکی کا حکم لگایا جاتاہے۔

بصورتِ مسئولہ جو چیزیں نچوڑنےکےقابل نہیں ہیں یانچوڑنےسےخراب ہوجاتی ہیں، جیسےصف، چٹائی، قالین وغیرہ تو انہیں پاک کرنےکا طریقہ  یہ ہے کہ ان کے  ناپاک حصہ پر تین مرتبہ خوب پانی بہایا جائے،  اور ہر مرتبہ دھوکر اتنی دیر چھوڑ دیا جائے کہ پانی کے قطرے گرنا بند ہوجائیں،  نیز پانی بہانےکےبعد پوری طرح سکھانا ضروری نہیں ہے، تین مرتبہ ایسا کرنےسےپاک ہوجائےگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات والتجفيف في كل مرة؛ لأن للتجفيف أثرا في استخراج النجاسة وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس. هكذا في التبيين.

(الفصل الاول،ج:1،ص:42،ط:مکتبہ رشیدیہ)

پلاسٹک کی شیٹس پاک کرنے کاطریقہ

 پلاسٹک کی شیٹیں جو فرش پر بچھائی جاتی ہیں وہ چوں کہ اپنے اندر نجاست کو جذب نہیں کرتی ہیں اور کھردری بھی نہی ہوتیں کہ نجاست کے اجزاء ان میں باقی رہ جائیں؛ اس لیے ناپاک ہونے کی صورت میں ان کو پانی سے دھونا شرط نہیں ہے، پلاسٹک کی شیٹ پر لگنے والی ناپاکی اگر ٹھوس ہو اور لگنے کے بعد خشک ہو چکی ہو تو اسے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے کھرچ کر گیلے کپڑے سے پونچھ لیا جائے جس سے نجاست کے اثرات ختم ہوجائیں، اور اگر نجاست مائع (بہنے والی) ہو، مثلاً پیشاب وغیرہ  اور لگنے کے بعد خشک ہو چکی ہو تو اسے صرف گیلے کپڑے سے پونچھ لینا کافی ہے، اور اگر نجاست  خشک نہ ہوئی ہو بلکہ تر ہو  (چاہے ٹھوس ہو یا مائع ہو) تو اسے کپڑے  سے پونچ لینا (جس سے نجاست کا اثر ختم ہوجائے) کافی ہے، چاہے کپڑا گیلا ہو یا خشک ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 310):

’’( و) يطهر (صقيل) لا مسام له (كمرآة) وظفر وعظم وزجاج وآنية مدهونة أو خراطي وصفائح فضة غير منقوشة بمسح يزول به أثرها مطلقاً، به يفتى.

 (قوله: صقيل) احترز به عن نحو الحديد إذا كان عليه صدأ أو منقوشاً، وبقوله: " لا مسام له " عن الثوب الثقيل، فإن له مساماً، ح عن البحر. (قوله: وآنية مدهونة) أي: كالزبدية الصينية، حلية. (قوله: أو خراطي) بفتح الخاء المعجمة والراء المشددة بعدها ألف وكسر الطاء المهملة آخره ياء مشددة نسبة إلى الخراط، وهو خشب يخرطه الخراط فيصير صقيلاً كالمرآة ح (قوله: بمسح) متعلق بيطهر، وإنما اكتفى بالمسح؛ لأن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا يقتلون الكفار بسيوفهم ثم يمسحونها ويصلون معها؛ ولأنه لا تتداخله النجاسة، وما على ظهره يزول بالمسح بحر. (قوله: مطلقاً) أي: سواء أصابه نجس له جرم أو لا، رطباً كان أو يابساً على المختار للفتوى، شرنبلالية عن البرهان.

قال في الحلية: والذي يظهر أنها لو يابسة ذات جرم تطهر بالحت والمسح بما فيه بلل ظاهر من خرقة أو غيرها حتى يذهب أثرها مع عينها، ولو يابسة ليست بذات جرم كالبول والخمر فبالمسح بما ذكرناه لا غير، ولو رطبة ذات جرم أو لا فبالمسح بخرقة مبتلة أو لا‘

بچوں کے کھلونے والے نوٹ کی خریدوفروخت

  جو دکان دار اپنی دکان میں  بچوں کے کھیلنے کے نقلی نوٹ  بیچتے ہیں ان کی حیثیت کرنسی کی نہیں ہوتی بلکہ ان کی حیثیت کھلونے کی ہوتی ہےلہذا ان نوٹوں کی خرید و فروخت اس اعتبارسے جائز ہے تاہم ان نوٹوں  پر  جاندار کی تصویر ہوتی ہے،تصویر کی وجہ سے اگرچہ  ان نوٹوں کی خریدوفروخت ناجائز نہیں ہے کیونکہ تصویر مقصود نہیں ہوتی تاہم اس میں تصویر کی اشاعت ضرور ہے اس لیے بنانے والے اور بیچنے والوں اورخریدنے والوں سب ہی اس کی حوصلہ شکنی کرناچاہیے۔

الأشباه والنظائر لابن نجيم میں ہے:

"القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها  كما علمت في التروك. وذكر قاضي خان في فتاواه: إن بيع العصير ممن يتخذه خمراً إن قصد به التجارة فلايحرم، وإن قصد به لأجل التخمير حرم، وكذا غرس الكرم على هذا (انتهى) . وعلى هذا عصير العنب بقصد الخلية أو الخمرية."

(القاعدہ الثانیہ ص:۲۳،ط : دار الکتب العلمیۃ بیروت )

بیع تولیہ کی تعریف

 کسی  چیز کو اس  کی قیمتِ  خرید  پر  نفع کے بغیر فروخت کرنا اصطلاحِ  فقہ میں "بیعِ تولیہ"  کہلاتا ہے۔

التعریفات للجرجانی میں ہے:

"التولية: هي بيع المشتري بثمنه بلا فضل."

( باب التاء، ص: ٧١، ط: دار الكتب العلمية)

ڈالرکے بدلے روپے لینے کا حکم

 امریکہ سے ڈالر بھیج کر اس کے بدلے میں  روپے وصول کرنے کا معاملہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ حوالہ کرنے والا  اپنی اجرت الگ سے مقرر کرے ،کسٹمرز کی دی ہوئی رقم میں سے اجرت کی کٹوتی نہ کرے، نیز مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہی وہ ریٹ دے،  مارکیٹ ریٹ سے کم یا زیادہ  طے کر کے لین دین کرنا جائز نہیں ہے۔

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض، 1/ 500، ط: قديمي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض،  5/ 166، ط: سعید)

شراب کے گودام میں باربر داری کی نوکری کرنا

 شرعا گناہ کی طرح گناہ کے کسی کام میں تعاون کرنا اور اس کو ذریعہ  آمدنی بنانا حرام ہے۔لہذا شراب کی خرید و فروخت کی طرح شراب کے گودام میں کام کرنا بھی گناہ کے کام میں تعاون کرنے کی وجہ سے حرام ہے۔

سنن أبي داود ميں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعن الله الخمر، وشاربها، وساقيها، وبايعها، ومبتاعها، وعاصرها، ومعتصرها، وحاملها، والمحمولة إليه."

(کتاب الأشربۃ، باب العصیر للخمر، ج:3، ص:366، المطبعۃ الأنصاریۃ دہلی ہند)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"إذا استأجر رجلا ليحمل له ‌خمرا فله الأجر في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا أجر له."

(کتاب الإجارۃ، الباب السادس في مسائل الشیوع في الإجارۃ، ج:6 ،ص: 449، دارالفکر بیروت)

المبسوط  للسرخسی میں ہے:

"كذلك لو أن ذميا استأجر مسلما يحمل له خمرا فهو على هذا عند أبي يوسف ومحمد رحمهم الله لا يجوزان العقد؛ لأن الخمر يحمل للشرب وهو معصية والاستئجار على المعصية لا تجوز والأصل فيه قوله صلى الله عليه وسلم «لعن الله في الخمر عشرا» وذكر في الجملة حاملها والمحمولة إليه وأبو حنيفة رحمه الله يقول يجوز الاستئجار وهو قول الشافعي رحمه الله؛ لأنه لا يتعين عليه حمل الخمر فلو كلفه بأن يحمل عليه مثل ذلك فلا يستوجب الأجر، ولأن حمل الخمر قد يكون للإراقة وللصب في الخل ليتخلل فهو نظير ما لو استأجره ليحمل ميتة، وذلك صحيح فهذا مثله إلا أنهما يفرقان فيقولان الميتة تحمل عادة للطرح وإماطة الأذى. فأما الخمر يحمل عادة للشرب والمعصية."

(کتاب الإجارات، باب الإجارۃالفاسدۃ، 16 /37، دارالمعرفة بیروت)

وکیل بالشراء کامؤکل سے اضافی رقم لینا

 جب    کوئی شخص  مذکورہ شخص سے کوئی چیز منگواتا ہے تو اس صورت میں مذکورہ شخص کی حیثیت وکیل بالشراء(خریداری کے وکیل) کی ہوگی اور وکیل  امین کے حکم میں ہوتا ہے ،لہذا اس صورت میں کم قیمت پر ایگزاسٹ فین  خرید کر مؤکل سے زیادہ قیمت لینا جائز نہیں ہوگا،ہاں اگر پہلے سے طے کرے کہ میں سامان منگوانے کی اتنی اجرت لوں گا اور دینے والا اس پر راضی ہو تو سامان لانے  کی اجرت لے سکتاہے،یا الیکٹریشن پہلے یہ کہے کہ میں لاؤں گا لیکن اکیس سو روپے قیمت لوں گا تو درست ہو گا۔

شرح المجلۃ میں ہے: 

"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(كتاب الوكالة،الباب الثالث في بيان احكام الوكالة ، المادة 1463، ج:3، ص:561، ط:دارالجيل)

كباڑے کا کاروبار

 ہر وہ مال (چیز) جو  متقوَّم یعنی اس کی اپنی مالی حیثیت ہو اور شرعاًقابل ِ انتفاع ہو اور جائز ہو،اس کی خرید وفروخت کرنا  جائز ہے،لہذا  سکریپ یعنی کباڑ کا  کاروبارجائز ہے، بشرطیکہ اس میں چوری کے مال کی خریدوفروخت نہ ہو  اور خیانت ودھوکہ سے صاف ہو ،اور کسی قسم کی غیر شرعی چیز کا کاروبار نہ ہو ،مثلاًٹی وی ،آلات ِمعصیت یعنی گانے باجے کے آلات وغیرہ کا کام نہ کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرعا: (مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب وميتة ودم.

(قوله: مرغوب فيه) أي ما من شأنه أن ترغب إليه النفس وهو المال؛ ولذا احترز به الشارح عن التراب والميتة والدم فإنها ليست بمال، فرجع إلى قول الكنز والملتقى: مبادلة المال بالمال؛ ولذا فسر الشارح كلام الملتقى في شرحه بقوله: أي تمليك شيء مرغوب فيه بشيء مرغوب فيه، فقد تساوى التعريفان فافهم، نعم زاد في الكنز بالتراضي."

(کتاب البیوع، ج:4،ص:502،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"فإن المتقوم هو المال المباح الانتفاع به شرعا."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،مطلب فی تعریف المال،ج:5،ص:50،ط:سعید)

کنز العمال میں ہے:

"من اشترى سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد شرك في عارها وإثمها."

(کتاب البیوع،من قسم الاقوال،الباب الاول:فی الکسب،الفصل الاول:فی فضائل الکسب الحلال،ج:4،ص:13،رقم الحدیث:9258،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(کتاب الغصب،ج:6،ص:200،ط:سعید)

اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ کاروبارکرنا

 اسلام نے عام حالات میں اگرچہ غیر مسلموں کے ساتھ کاروباری لین دین معاملات کی اجازت دی ہے اور خود آپﷺ نے بھی غیرمسلموں(اہل یہود) سے کاروبار کیاہے، تاہم ایسے غیرمسلم جو مسلمانوں سے کمائے ہوئے پیسوں سے مسلمانوں ہی پر حملہ آور ہوتے ہیں  یا مسلمانوں کا پیسہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کرکے ان کی  بیخ کنی کا اردہ کرکے سازش کرتے  ہیں،اور اپنی  اقتصاد کو مضبوط کرکے مسلمانوں کےخلاف اپنی شان شوکت کا اظہار  کرتے ہیں، تو  ازروئے شرع ایسے غیرمسلموں سے کاروبار کرنایا کوئی معاملہ کرنا یا ان کی کمپنی سےکسی بھی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہے،تاکہ اس سازش کے ذریعے مسلمانوں کی  بیخ کنی میں ان کے معاون نہ بن جائے۔

صحيح مسلم   میں ہے:

"عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع."

(باب المساقاة والمزارعة، ج:3، ص:1186، ط: دارإحياء التراث العربى)

المبسوط للسرخسي میں ہے؛

"ولا يمنع التجار من حمل التجارات إليهم إلا الكراع والسلاح والحديد لأنهم أهل حرب وإن كانوا موادعين ألا ترى أنهم بعد مضي المدة يعودون حربا للمسلمين ولا يمنع التجار من دخول دار الحرب بالتجارات ما خلا الكراع والسلاح فإنهم يتقوون بذلك على قتال المسلمين فيمنعون من حمله إليهم وكذلك الحديد فإنه أصل السلاح قال الله تعالى {وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ} [الحديد: 25]."

(باب صلح الملوك والمودعة، ج:10، ص:151، ط:دارالفكر للنشروالتوزيع)

کتوں کی تجارت

 کتے سے متعلق شریعتِ مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ جس کتے کو پالنا جائز ہو اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے اور جس کو پالنا جائز نہیں اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں، اور کتے کو پالنے کی اجازت شکار کے لیے ہے یا گھر اور کھیتی کی حفاظت کے لیے ہے؛ لہذا جو کتا مذکورہ امور کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو اس کی خرید و فروخت جائز ہے ورنہ نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌بيع ‌الكلب المعلم عندنا جائز وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والطير جائز عندنا معلما كان أو لم يكن كذا في فتاوى قاضي خان.وبيع الكلب غير المعلم يجوز إذا كان قابلا للتعليم وإلا فلا، وهو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."

(کتاب البیوع،الباب التاسع فیما یجوز بیعہ ومالا یجوز بیعہ،ج:3،ص:114،دارالفکر)

قسطوں پر مکان یا پلاٹ خریدنا

 قسطوں پر اشیاء کی خرید و فروخت  کے صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ اور رعایت کرنا ضروری ہے :

قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار، اور ایک شرط یہ بھی ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی بھی عنوان سے اس میں اضافہ وصول نہ کیا جائے ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر قسطوں پر پلاٹ ، فلیٹ ، مکان یا دیگر اشیاء کی خریدو فروخت میں  مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو یہ بیع درست ہو گی ،اور اگر ان شرائط کی رعایت نہ رکھی جائے، تو  اس طرح خرید وفروخت  کرنا درست نہیں ہو گا۔

"مجمع الأنهر شرح ملتقي الأبهر "میں ہے :

"ویصح البیع بثمن مال مؤجل لإطلاق قوله تعالیٰ: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾."

(كتاب البيوع ،ج:3 ،ص:13، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

مجلۃ  الأحكام العدليه ميں هے :

"البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح…… یلزم أن تکون المدة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط."

(كتاب البيوع،ج:1،ص:127، رقم المادة: ۲۴۵، ط: مکتبة الإتحاد دیوبند)

مبسوط للسرخسی میں ہے :

"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا، وبالنقدکذا، أو قال إلی شھر بکذا أو إلی شھرین بکذا فہو فاسدٌ … وہٰذا إذا افترقا علی ہٰذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرّقا حتّٰی قاطعہ علیٰ ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہو جائز الخ."

(كتاب البيوع،۱۳:۷، ۸، ط: دار المعرفة بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے :

"أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيعين في بيع» وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول،.....وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد ‌زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."

(كتاب البيوع ،باب شرائط الصحة في البيوع ،ج:5 ،ص:158 ،ط:رشيدية)

انٹر نیٹ سروس فراہم کرنے کاکام

 جس چیز کا جائز اور ناجائز دونوں طرح استعمال ہوسکتا ہو اس کی خرید وفروخت، سپلائی، ریپیرنگ وغیرہ جائز ہے، اگر کوئی شخص اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی پر ہوگا۔

 انٹرنیٹ کیبل  کا جائز اور ناجائز دونوں طرح کا استعمال ہے، انٹرنیٹ محض ٹی وی پروگرام( ویڈیوز ) دیکھنے کے لیے مختص نہیں ہے،  بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے جائز کام بھی کیے جاسکتے ہیں، اس لیے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنا جائز ہے، اگر اس کا کوئی ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی غلط استعمال کرنے والے پر ہوگا، انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والا اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔

البحرالرائق میں ہے :

"وقد استفيد من كلامهم هنا أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه، وما لا فلا، ولذا قال الشارح: إنه لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة".(5/155)

فتاوی شامی میں ہے :

"وكذا لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكراً، وإنما المنكر في استعمالها المحظور اهـ  قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلاً والغناء عارض فلم تكن عين المنكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكراً إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكر بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه". (4/268)

قسط یا انٹسالمنٹ پر سوداکرنا

 قسطوں پرکسی چیز کی  خرید و فرخت کرنا  تجارت کی ایک جائز قسم ہے، جو عام طور پر نقد سے  قدرے زائد قیمت پر بائع (دوکاندار)  اور مشتری (خریدار )کی باہمی رضامندی  سے طے پاتا ہے،  البتہ اس کے صحیح ہونے کے لیےچند  شرائط کی پابندی کرنا ضروری ہے،  اگر ان شرائط کی رعایت نہ کی جائے تو سود  لازم آئے گا جو کہ حرام ہے۔

شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

1۔عقد کے وقت  ہی کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے۔

2۔ ادھار  کی مدت  بھی متعین کرلی جائے۔

3۔بیع خلاف جنس کی ہو۔

4۔ قسط میں تاخیر ہونے کی وجہ سے مقرر ہ  قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے ۔

5۔تاخیر کی وجہ سے  جرمانہ وصول کرنے کی شرط عائد نہ کی جائے۔

6۔ ادائیگی سے عاجز ہونے کی وجہ سے سودا منسوخ کرنے پر ادا شدہ رقم  ضبط نہ کی جائے۔

7۔ اور  نہ ہی مبیع  ضبط کی جائے وغیرہ وغیرہ۔

  تو شرعاً  ایسا معاملہ کرنا عام بیع کی طرح جائز ہو گا   کہ   جس میں بائع اور مشتری کو اختیار ہوتا ہے کہ  باہمی رضامندی سے جتنے میں بھی سودا   طے کر لیں  ۔

سنن الترمذی میں ہے  : 

"وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: ‌أبيعك ‌هذا ‌الثوب ‌بنقد ‌بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما."

(أبواب البيوع، ‌‌باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة، ج : 3، ص : 525، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصطفى)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :

"(اشتراه بألف نسيئة وباع بربح مائة بلا بيان) خير المشتري (فإن تلف) المبيع بتعيب أو تعيب (فعلم) بالأجل (لزمه كل الثمن حالا."

رد المحتار میں ہے :

"(قوله: لزم كل الثمن حالا) لأن الأجل في نفسه ليس بمال، فلا يقابله شيء حقيقة إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصدا، ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا."

(كتاب البيوع، ‌‌باب المرابحة والتولية، ج : 5، ص : 141/42، ط : 

Wednesday 17 July 2024

ناپاک خشک قالین پر بیٹھنے پر ناپاکی کاحکم

 ناپاک خشک قالین پر اگر کوئی شخص بیٹھ جائے اور اس کاجسم یا کپڑے گیلے ہوں،تو اگر اس کے بدن یا کپڑوں پرنجاست کا اثر(بو،رنگ)ظاہر ہوجائے تو اس کا بدن اور کپڑےناپاک ہوجائیں گے ورنہ نہیں ۔

کارپیٹ یا قالین جسے نچوڑا نہ جاسکے ، اگر وہ ناپاک ہوجائے ، تو اُس کی پاکی کا طریقہ یہ ہے کہ اسے تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ دھوکر اتنی دیر چھوڑ دیا جائے اُس سے پانی ٹپکنا بند ہوجائے ، پوری طرح سوکھنا ضروری نہیں ہے ، تین مرتبہ ایسا کرنے سے پاک ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے

"والحاصل أنه على ما صححه الحلواني: العبرة للطاهر المكتسب إن كان بحيث لو انعصر قطر تنجس وإلا لا، سواء كان النجس المبتل يقطر بالعصر أو لا. وعلى ما في البرهان العبرة للنجس المبتل إن كان بحيث لو عصر قطر تنجس الطاهر سواء كان الطاهر بهذه الحالة أو لا، وإن كان بحيث لم يقطر لم يتنجس الطاهر، وهذا هو المفهوم من كلام الزيلعي في مسائل شتى آخر الكتاب."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) فروغ في الاستبراء، ج:1/ ص:347، ط:سعيد)

البحرالرائق  میں ہے: 

" قال رحمه الله ( لف ثوب نجس رطب في ثوب طاهر يابس فظهر رطوبته على الثوب ولكن لا يسيل إذا عصر لا يتنجس ) وذكر المرغيناني أنه إن كان اليابس هو الطاهر يتنجس ؛ لأنه يأخذ قليلا من النجس الرطب وإن كان اليابس هو النجس والطاهر هو الرطب لا يتنجس ؛ لأن اليابس هو النجس يأخذ من الطاهر ولا يأخذ الرطب من اليابس شيئا ويحمل على أن مراده فيما إذا كان الرطب ينفصل منه شيء وفي لفظه إشارة إليه حيث نص على أخذ الليلة وعلى هذا إذا نشر الثوب المبلول على محل نجس هو يابس لا يتنجس الثوب لما ذكرنا من المعنى."

( البحر الرائق:  مسائل متفرقه ،ج:8،ص :546، ط:دارالمعرفه

سسرداماد کوزکات دے سکتاہے

 اگر داماد غریب ہے، نصاب کا مالک نہیں ہے  اور ہاشمی (سید/ عباسی وغیرہ) بھی نہیں ہے تو سسر داماد کو زکوۃ دے سکتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"و يجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ ‌لانقطاع ‌منافع الأملاك بينهم."

(كتاب الزكاة، فصل ركن الزكاة: 2/ 50، ط: دار الكتب العلمية)

اجارہ کی زمین پر عشر کس پر واجب ہوگا ۔

 اگر کوئی شخص اپنی   زمین کرایہ  پر دے تو اس صورت میں اس کا عشر  زمین کے مالک پر ہوگا یا کرایہ دار پر! اس میں یہ تفصیل ہے کہ زمین کا مالک اگر کرایہ بہت  زیادہ لیتا ہے اور کرایہ دار کو  کم بچت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں عشر  زمین کے مالک کے ذمہ ہوگا، اور اگر  زمین کا مالک کرایہ کم لیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کرایہ دار کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں  زمین کا عشر کرایہ دار کے ذمہ لازم ہوگا۔

اس زمانے میں کرایہ عموماً   کم ہوتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں مستاجر (کرایہ دار) کو بچت زیادہ ہوتی  ہے ، اس لیے موجودہ زمانے میں از روئے فتویٰ عشر  کرایہ دار پر ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"والعشر على المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم: وفي الحاوي وبقولهما نأخذ.
(قوله: والعشر على المؤجر) أي لو أجر الأرض العشرية فالعشر عليه من الأجرة كما في التتارخانية وعندهما على المستأجر قال في فتح القدير: لهما أن العشر منوط بالخارج وهو للمستأجر وله أنها كما تستنمى بالزراعة تستنمى بالإجارة فكانت الأجرة مقصودة كالثمرة فكان النماء له معنى مع ملكه فكان أولى بالإيجاب عليه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قلت: لكن في زماننا عامة الأوقاف من القرى والمزارع لرضا المستأجر بتحمل غراماتها ومؤنها يستأجرها بدون أجر المثل بحيث لا تفي الأجرة، ولا أضعافها بالعشر أو خراج المقاسمة، فلا ينبغي العدول عن الإفتاء بقولهما في ذلك؛ لأنهم في زماننا يقدرون أجرة المثل بناء على أن الأجرة سالمة لجهة الوقف ولا شيء عليه من عشر وغيره أما لو اعتبر دفع العشر من جهة الوقف وأن المستأجر ليس عليه سوى الأجرة فإن أجرة المثل تزيد أضعافا كثيرة كما لا يخفى فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لا يقول به أحد والله تعالى أعلم."

(کتاب الزکات،باب العشر،ج:2،ص:334،سعید)

امانت کی رقم پر زکوۃ کی ادائیگی کون کرے گا

 امانت رکھوانے والے کی اجازت سے امانت کی رقم کا استعمال سائل کے لیے جائز تھا ، البتہ اس رقم کے مالک چوں کہ رکھوانے والے شخص ہیں؛ اس لیے اس رقم کی زکاۃ مالک پر لازم ہے ، سائل پر یا قرض لینے والے پر نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌وشرطه) ‌أي ‌شرط ‌افتراض ‌أدائها (‌حولان ‌الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض."

(‌‌كتاب الزكاة، ج:2، ص:267، ط:سعید)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني."

(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:338، ط:رشيدية)

مستحق زکوٰۃ کی مد میں ملے راشن کو بیچ سکتا ہے کہ نہیں

 جس کو زکوۃ وغیرہ میں کوئی چیز مل جائے،تو وہ اُس چیزکا مالک بن جاتا ہے، اور اسے اس میں  تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہوتاہے ، چاہے توخود استعمال کرے ،یا فروخت کرے یا کسی دوسرے کو ہبہ کرے ،کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں مستحق  زکوۃ کو زکوۃ  کی مد میں راشن وغیرہ  ملنے کی صورت میں اس کے لیے  آگے بیچنا جائز ہے۔اور اسی طرح استطاعت رکھنے والے کےلیے زکوۃ کا مال خریدناجائز ہے، کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"للمالك أن یتصرف في ملكه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعوي، ج: 6، ص: 264، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم.

وفي الرد: (قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة فيه؛ لأن ملكه إياه عن زكاة ماله."

(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 345، ط: سعيد

زکوٰۃ اور عشر جمع کرنے والوں کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہ دینا

 عاملینِ صدقہ وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے زکات اور عشر جمع کرنے پر مامور ہوں۔  ان لوگوں  کو اسلامی حکومت  زکات کی مد سے تنحواہ (یعنی بقدر محنت اجرت)  دے سکتی ہے، کیونکہ اسلامی حکومت میں امیرالمؤمنین فقراء کا وکیل ہوتا ہے۔لیکن ہندوستان میں   اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے  مدارس ، انجمنوں اور ٹرسٹوں کی طرف سے زکات اور عشر کو جمع کرنے والے لوگوں  کو زکات کی مد سے  تنخواہ اور مزدوری دینا جائز نہیں۔

بدائع الصنائع ميں ہے:

"وأما العاملون عليها فهم الذين نصبهم الإمام لجباية الصدقات واختلف فيما يعطون، قال أصحابنا: يعطيهم الإمام كفايتهم منها.............ولنا أن ما يستحقه العامل إنما يستحقه بطريق العمالة لا بطريق الزكاة بدليل أنه يعطي وإن كان غنيا بالإجماع ولو كان ذلك صدقة لما حلت للغني وبدليل أنه لو حمل زكاته بنفسه إلى الإمام لا يستحق العامل منها شيئا ولهذا قال أصحابنا أن حق العامل فيما في يده من الصدقات حتى لو هلك ما في يده سقط حقه كنفقة المضارب إنها تكون في مال المضاربة حتى لو هلك مال المضاربة سقطت نفقته كذا هذا دل أنه إنما يستحق بعمله لكن على سبيل الكفاية له ولأعوانه لا على سبيل الأجرة لأن الأجرة مجهولة أما عندنا فظاهر لأن قدر الكفاية له ولأعوانه غير معلوم."

(بدائع الصنائع: كتاب الزكاة،  فصل وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع (2/ 44)،ط. دار الكتاب العربي،سنة النشر 1982)

دس محرم کو کھانے کا اہتمام کرنا

  عاشوراء  (دس محرم) کے روز اپنے اہل و عیال پر رزق کی وسعت اور فراوانی کی ترغیب وارد ہوئی ہے، چناچہ مشکاۃ المصابیح میں ہے :

" عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته. قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك. رواه رزين".

(‌‌‌‌كتاب الزكاة ، باب فضل الصدقة ، الفصل الثالث ج: 1 ص: 601 ط: المكتب الإسلامي)

 "حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:  "جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے تو اللہ تعالی سارے سال( اس کے مال و زر میں) وسعت عطا فرمائے گا۔  حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا"۔ (رزین) 

(مظاہر حق جدید ج:2 ص:265 ط: دار الاشاعت)

اس طرح کی روایات دیگر صحابہ سے بھی مروی ہیں جو  اگرچہ سنداً ضعیف ہیں، لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے فضائل میں قابلِ استدلال ہیں، اسی وجہ سے اکابرین نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے، لہذا دس محرم کو خاندان والوں کے لیے  کھانےکے  اہتمام کر نے کو بدعت کہنادرست نہیں ۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

" عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته. قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك. رواه رزين".

(‌‌‌‌كتاب الزكاة ، باب فضل الصدقة ، الفصل الثالث ج: 1 ص: 601 ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے 

"وحديث التوسعة على العيال يوم عاشوراء صحيح وحديث الاكتحال فيه ضعيفة لا موضوعة كما زعمه ابن عبد العزيز".

(‌‌ کتاب الصوم  ، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده ج:2 ص418 / 419 ط:سعید )

اس حدیث میں مطلقاً اپنے اہل و عیال پر وسعت کا ذکر ہے ،  اس دن کی دعوت کو ضروری سمجھنا ، یا اس میں تمام متعلقین کے بلانے کو ضروری سمجھنا درست نہیں، اس سے احتراز لازم ہے۔

مأخَذُ الفَتوی

فی مشكاة المصابيح : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: «من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته» . قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك . رواه رزين (1/ 601)
و فی الصحيح لمسلم : عن ابن عباس -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قدم المدينة فوجد اليهود صياما ، يوم عاشوراء ، فقال لهم رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما هذا اليوم الذي تصومونه؟» فقالوا : هذا يوم عظيم ، أنجى الله فيه موسى و قومه، و غرق فرعون و قومه ، فصامه موسى شكرا ، فنحن نصومه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «فنحن أحق و أولى بموسى منكم فصامه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، و أمر بصيامه» اھ(2/ 796)۔
و فی مرقاة المفاتيح : قال الطيبي : و فيه أن من أصر على أمر مندوب ، و جعله عزما ، و لم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال اھ(2/ 755)۔

زکوٰۃ کی رقم عیدی کہہ کر دینا

 زکات    ادا کرتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکات   ہے، بلکہ کسی بھی عنوان (مثلاً  قرض یا ہدیہ،عیدی  وغیرہ کے نام ) سے ضرورت مند کو دی جاسکتی ہے، ہاں زکات اور صدقاتِ واجبہ میں یہ ضروری ہے کہ وہ رقم الگ کرتے وقت یا ادائیگی کے وقت اس مد (زکات  یا صدقاتِ واجبہ)کی نیت ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح هكذا في البحر الرائق ناقلا عن المبتغى والقنية".

(کتاب الزکات،ج:1،ص:171،دارالفکر)