https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 15 March 2023

تنگ کرنے والے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک

شریعت اسلامیہ میں صلہ رحمی کا حکم ہے، اگر کوئی برا سلوک کرتا ہے تو اس کو معاف کرنے کی ترغیب ہے، بلکہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کا حکم دیا گیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ * وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ترجمہ: اچھائی اور برائی یکساں نہیں ہو سکتی، برائی کو سب سے بہترین طریقے سے دور ہٹائیں گے تو وہ بھی جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے ایسا ہو جائے گا کہ گویا وہ بہت گہرا دوست ہے ٭ اور یہ بات صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں ، یہ خوبی بڑے نصیب والے کو ہی دی جاتی ہے۔[فصلت: 34 ، 35] علامہ سعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں: "اللہ تعالی کا فرمان: وَلا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلا السَّيِّئَةُ یعنی مطلب یہ ہے کہ رضائے الہی کے لئے کی جانے والی نیکیاں اور بھلائیاں ، اللہ تعالی کو ناراض کرنے والی برائیوں اور گناہوں کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح لوگوں کے ساتھ بھلائی اور ان کے ساتھ برا سلوک بھی برابر نہیں ہو سکتے، برائی اور بھلائی کی ماہیت، اوصاف اور بدلہ سب کچھ الگ الگ ہوتے ہیں؛ کیونکہ هَلْ جَزَاءُ الإحْسَانِ إِلا الإحْسَانُ بھلائی کا بدلہ بھلائی ہی ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد مخصوص نوعیت کی بھلائی کرنے کا حکم دیا، اور اس مخصوص بھلائی کی جگہ بھی خاص ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ کے ساتھ برا سلوک کرے تو آپ اس کا بھلا کر دیں، اسی لیے فرمایا: اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ یعنی جب کوئی بد اخلاق شخص آپ سے زبانی یا عملی بد تمیزی کرے اور وہ ان لوگوں میں سے ہو جن کے آپ پر کافی حقوق ہیں ، مثلاً: رشتہ دار اور قریبی دوست احباب وغیرہ ؛ تو آپ اس کی بھلائی کریں، اگر وہ قطع تعلقی کرتا ہے تو پھر بھی آپ صلہ رحمی کریں، اگر وہ ظلم کرے تو آپ انہیں معاف کر دیں، اگر وہ آپ کے سامنے یا پیٹھ پیچھے آپ کے خلاف باتیں کریں تو آپ تب بھی اس کے خلاف باتیں نہ کریں بلکہ اسے معاف کر دیں، اس سے بات کریں تو نرمی سے کریں، اگر وہ آپ سے قطع تعلقی کرتا ہے یا آپ سے بول چال نہیں رکھتا تو اس کے ساتھ اچھے انداز میں گفتگو کریں، اس سے سلام میں پہل کریں، چنانچہ اگر آپ اس کے برے سلوک کے عوض اچھا سلوک پیش کرتے ہیں تو بہت بڑا فائدہ حاصل ہو گا: فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ یعنی جس کے ساتھ آپ کی دشمنی اور عداوت تھی وہ بھی آپ کا قریبی اور گہرا دوست بن جائے گا۔ وَمَا يُلَقَّاهَا یعنی یہ خوبی ہر کسی کو نہیں ملتی بلکہ صرف انہی لوگوں کو ملتی ہے جو من میں آنے والی چیزوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اللہ کے پسندیدہ اعمال پر مجبور کر دیتے ہیں؛ کیونکہ انسانی فطرت یہی ہے کہ برا سلوک کرنے والے کے ساتھ برا سلوک ہی کیا جائے، اسے معاف نہ کیا جائے، اس کے ساتھ حسن سلوک تو بہت دور کی بات ہے۔ چنانچہ جب انسان اپنے نفس پر قابو پا کر اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرے اور تعمیل کی صورت میں ملنے والے وافر ثواب کو پہچان لے ، یہ بات ذہن نشین کر لے کہ برے کے ساتھ برا بننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس سے بغض و عداوت میں اضافہ ہی ہوتا ہے، یہ بھی ذہن نشین کر لے کہ برے کے ساتھ بھلائی کرنے سے اس کی عزت میں کمی نہیں ہو گی بلکہ جو اللہ کے لئے اپنے آپ کو نیچا دکھائے تو اللہ تعالی اس کو بلندیاں عطا فرماتا ہے؛ ان سب باتوں کو مد نظر رکھے تو برے کے ساتھ بھلائی کرنا آسان ہو جاتا ہے، بلکہ ایسے شخص کے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے لذت اور مٹھاس بھی حاصل ہوتی ہے۔ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ یعنی یہ خوبی صرف بڑے نصیب والوں کو ہی ملتی ہے؛ کیونکہ یہ خاص لوگوں کی خوبی ہے، اس خوبی کے ذریعے انسان دنیا و آخرت میں بلند مقام حاصل کر لیتا ہے جو کہ حسن اخلاق کا سب سے بڑا امتیازی نتیجہ ہے۔" ختم شد صحیح مسلم : (2558) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتہ دار ہیں میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھے سے قطع تعلقی رکھتے ہیں، میں ان کا بھلا کرتا ہوں وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ مجھ سے جاہلوں جیسا سلوک کرتے ہیں" اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر ایسا ہی ہے جیسے تم کہہ رہے ہو تو گویا کہ تم انہیں جلتی ہوئی راکھ کھلا رہے ہو، اور جب تک تم اپنے اسی انداز پر قائم رہو گے اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے ایک مدد گار رہے گا۔)

Monday 13 March 2023

خلع اور طلاق کے متعلق بعض باتوں کی تردید

خلع زوجین کے درمیان باہمی رضامندی سے طے پانے والاعقد ہے جس میں عموماًعورت اپنا مہر معاف کرتی ہے یا مہر لے چکی ہو تو کچھ مال دینا طے کرتی ہے اور اس کے عوض شوہر اسے آزاد کردیتاہے۔خلع میں مال کی مقدار کے حوالے سے باہمی رضامندی کا اعتبار ہوتا ہے، البتہ اگر قصور شوہر کاہو تو اسے معاوضہ لیے بغیر بیوی کوچھوڑ دینا چاہیے اوراگر قصور عورت کا ہو تو مہر سے زائد لینے میں اس کے لیے کراہت ہے۔ یہ کہنا کہ خلع میں عورت اپنا مہر، جہیز ، دیگر سامان اور اولاد سب شوہر کو دے کر محض تن کے کپڑے لے کر شوہر کے گھر سے نکل جائے، یہ درست نہیں۔ اور یہ بات بھی درست نہیں کہ شوہر از خود طلاق دے تو اسے بیوی کا سب کچھ لوٹا نا پڑتا ہے اور بیوی خلع لے تو اسے اپنا سب کچھ دینا پڑتا ہے، یہ عوامی باتیں ہیں، جو حقیقت سے دور ہیں