https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 21 September 2024

بیری کے درخت کا حکم

 بیر کا درخت کسی کی ملکیت ہو تو بوقتِ ضرورت اسے کاٹ سکتے ہیں، ایک حدیث شریف میں بیری کے درخت کے کاٹنے پر جو وعید آئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن حبیش کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے الٹے سر دوزخ میں ڈالے گا ۔

 اس حدیث سے متعلق بذل المجہود میں یہ وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص حدود حرم میں بیری کا درخت کاٹے گا اس کے لیے یہ وعید ہے، بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں مدینہ کی بیری کا درخت مراد ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جنگل میں وہ بیری کا درخت مراد ہے جس کے سائے میں مسافر اور جانور راحت پاتے ہیں، اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو کسی دوسرے شخص کا بیری کا درخت ازراہِ ظلم وزیادتی کاٹ ڈالے۔لہذا اپنی ملکیت میں جو بیری کا درخت ہو اسے اپنی ضرورت کے لیے کاٹنا جائز ہے۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (13/ 627):
(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع سدرةً صوب الله رأسه في النار") (1) وفي نسخة: سئل أبو داود عن معنى هذا الحديث، قال: معناه: من قطع سدرة في فلاة يستظل بها ابن السبيل والبهائم عبثًا وظلمًا بغير حق يكون فيها، صوّب الله رأسه في النار، أي: نكّسه.
وقال البيهقي في "سننه": قال أبو ثور: سألت أبا عبد الله الشافعي عن قطع السدرة، قال: لا بأس به، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: اغسلوه بماء وسدر، وقيل: أراد به سدرة مكة لأنها حرم، وقيل: سدرة المدينة،نهى عن قطعها فيكون أنسًا وظلالًا لمن يهاجر إليها، قال: وقرأت في كتاب أبي سليمان الخطابي أن المزني سئل عن هذا فقال: وجهه أن يكون صلى الله عليه وسلم سئل عمن هجم على قطع سدر لقوم أو ليتيم أو لمن حرم الله أن يقطع عليه [فتحامل عليه] بقطعه فاستحق ما قاله، فتكون المسألة سبقت السامع، فسمع الجواب ولم يسمع السؤال، ونظيره.
فقط 

مردہ پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ

 اگر بچہ مردہ پیدا ہو  یعنی پیدائش کے وقت زندگی کی کوئی علامت اس میں موجود نہ ہو، لیکن سارے اعضاء بن چکے ہوں تو ایسے بچے کا حکم یہ ہے کہ اس بچے کو غسل بھی دیا جائے گا اور نام بھی رکھا جائے گا، لیکن باقاعدہ مسنون کفن نہیں دیا جائے گا اور جنازہ کی نماز بھی نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ یوں ہی کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 228):

"(وإلا) يستهل (غسل وسمي) عند الثاني، وهو الأصح، فيفتى به على خلاف ظاهر الرواية إكراماً لبني آدم، كما في ملتقى البحار. وفي النهر عن الظهيرية: وإذا استبان بعض خلقه غسل وحشر هو المختار (وأدرج في خرقة ودفن ولم يصل عليه).

 (قوله: وإلا يستهل غسل وسمي) شمل ما تم خلقه، ولا خلاف في غسله وما لم يتم، وفيه خلاف. والمختار أنه يغسل ويلف في خرقة، ولا يصلى عليه كما في المعراج والفتح والخانية والبزازية والظهيرية شرنبلالية. وذكر في شرح المجمع لمصنفه أن الخلاف في الأول، وأن الثاني لا يغسل إجماعاً. اهـ.

واغتر في البحر بنقل الإجماع على أنه لايغسل فحكم على ما في الفتح والخلاصة من أن المختار تغسيله بأنه سبق نظرهما إلى الذي تم خلقه أو سهو من الكاتب. واعترضه في النهر بأن ما في الفتح والخلاصة عزاه في المعراج إلى المبسوط والمحيط اهـ وعلمت نقله أيضاً عن الكتب المذكورة. وذكر في الأحكام أنه جزم به في عمدة المفتي والفيض والمجموع والمبتغى اهـ فحيث كان هو المذكور في عامة الكتب فالمناسب الحكم بالسهو على ما في شرح المجمع لكن قال في الشرنبلالية: يمكن التوفيق بأن من نفى غسله أراد غسل المراعى فيه وجه السنة، ومن أثبته أراد الغسل في الجملة كصب الماء عليه من غير وضوء وترتيب لفعله كغسله ابتداء بسدر وحرض. اهـ. قلت: ويؤيده قولهم: ويلف في خرقة حيث لم يراعوا في تكفينه السنة فكذا غسله (قوله: عند الثاني) المناسب ذكره بعد قوله الآتي وإذا استبان بعض خلقه غسل لأنك علمت أن الخلاف فيه خلافاً لما في شرح المجمع والبحر (قوله: إكراماً لبني آدم) علة للمتن كما يعلم من البحر، ويصح جعله علة لقوله فيفتى به (قوله: وحشر) المناسب تأخيره عن قوله هو المختار لأن الذي في الظهيرية والمختار أنه يغسل. وهل يحشر؟ عن أبي جعفر الكبير أنه إن نفخ فيه الروح حشر، وإلا لا. والذي يقتضيه مذهب أصحابنا أنه إن استبان بعض خلقه فإنه يحشر، وهو قول الشعبي وابن سيرين. اهـ. ووجهه أن تسميته تقتضي حشره؛ إذ لا فائدة لها إلا في ندائه في المحشر باسمه. وذكر العلقمي في حديث: «سموا أسقاطكم فإنهم فرطكم» الحديث.

Thursday 19 September 2024

دوطلاق کے بعد رجوع

 اگر بیوی کو طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ ایک  یا دو طلاق دی تو ایسی طلاق کو ''طلاقِ رجعی'' کہتے ہیں، طلاقِ رجعی کے بعد  شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع  کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًوفعلاً  رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے  یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا  اور نکاح برقرار  رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح  ٹوٹ جائے گا، میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں  اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی  گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس  سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو ایک طلاقِ رجعی دینے کی صورت میں اس کو مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، اور اگر دوطلاقیں صریح دیں تو آئندہ ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔

اور طلاقِ بائن کے ذریعے  ایک یا دو طلاق دی ہو  تو پھر عدت میں رجوع کا حق نہیں ہوگا، البتہ  باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کرکے دوبارہ ساتھ رہا جاسکتا ہے۔

صورت مسئولہ میں شوھرنے پہلی طلاق رجعی کے بعد عدت کے دوران رجوع کرلیا پھر کچھ عرصے کے بعد ایک طلاق  رجعی دیدی اور دوران عدت رجوع کرلیاتو نکاح برقرار رہاالبتہ اب شوھر صرف ایک طلاق کے مالک رہے اگر آیندہ ایک طلاق دیدی تو تین طلاق مکمل ہوجائیں گی اور کوئی گنجائش رجوع  یا تجدید نکاح کی باقی نہیں رہے گی ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".