https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 6 June 2022

بیوی کو مخاطب کئے بغیر طلاق دینا

طلاق واقع ہونےکے لیے یہ ضروری ہے کہ شوہر طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرے، مثلاً میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، یا اپنی بیوی کا نام لے کر کہے کہ طلاق دی اور بیوی کی موجودگی میں بھی طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرنا ضروری ہے خواہ اشارۃً نسبت کرے۔ اور اگر بیوی کی طرف نسبت نہیں کی ہے نہ صراحۃً اور نہ اشارۃً تو شرعاً طلاق واقع نہیں ہوتی۔ فتاوی شامی میں ہے: ’’لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید) غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 461): ’’ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع بإفتاء المفتي فتبين عدمه لم يقع، كما في القنية. قوله: ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع إلى قوله لم يقع إلخ. أي ديانةً، أما قضاء فيقع ،كما في القنية؛ لإقراره به‘‘ مذکورہ صورت میں اگر شوہر یہ کہتا ہےکہ میں نے ان الفاظ کی نسبت اپنی بیوی کی جانب نہیں کی (جیساکہ سوال میں ہے تو شوہر سے اس بات پر حلف لیاجائے گا، اگر شوہر حلف اٹھالیتا ہے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، اور طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، اور اگر قسم سے انکار کرتا ہے تو تینوں طلاقیں واقع شمار ہوں گی۔ بلا قصد وارادہ کے الفاظ طلاق نکل جائیں خصوصاً جبکہ بیوی کی جانب اضافت و نسبت بھی نہ ہو، تو اس سے طلاق نہیں ہوتی۔ نیز طلاق کے اندر بیوی کی جانب صراحۃً یا دلالۃً اضافت و نسبت شرط اور ضروری ہے؛ لہٰذا زید کی زبان سے بلا اضافت الفاظ طلاق نکلنے سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۶؍۲۱، جدید زکریا۶؍۳۲، جدید زکریا مطول ۸؍۱۶۰ فتاوی محمودیہ قدیم ۸؍۶۴، جدید میرٹھ ۱۸؍۴۰۷، فتاوی دارالعلوم ۹؍۱۹۸-۱۹۹) ولکن لا بد أن یقصدہا باللفظ۔ (الأشباہ قدیم۴۵، جدید زکریا ۱/۹۱) لا یقع من غیرإضافۃ إلیہا۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، کراچي۳/۲۷۳، زکریا۴/۴۹۳) ومنہا الإضافۃ إلی المرأۃ في صریح الطلاق حتی لو أضاف الزوج صریح الطلاق إلی نفسہ بأن قال: أنا منک طالق لایقع۔ (بدائع الصنائع،

بلااضافت ونسبت طلاق طلاق کہنے سے طلاق ہوگی کہ نہیں

محض خیالی اور بلا قصد وارادہ کے الفاظ طلاق نکل جائیں خصوصاً جبکہ بیوی کی جانب اضافت و نسبت بھی نہ ہو، تو اس سے طلاق نہیں ہوتی۔ نیز طلاق کے اندر بیوی کی جانب صراحۃً یا دلالۃً اضافت و نسبت شرط اور ضروری ہے؛ لہٰذا زید کی زبان سے خیالی طور پر بلا اضافت الفاظ طلاق نکلنے سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۶؍۲۱، جدید زکریا۶؍۳۲، جدید زکریا مطول ۸؍۱۶۰ فتاوی محمودیہ قدیم ۸؍۶۴، جدید میرٹھ ۱۸؍۴۰۷، فتاوی دارالعلوم ۹؍۱۹۸-۱۹۹) ولکن لا بد أن یقصدہا باللفظ۔ (الأشباہ قدیم۴۵، جدید زکریا ۱/۹۱) لا یقع من غیرإضافۃ إلیہا۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، کراچي۳/۲۷۳، زکریا۴/۴۹۳) ومنہا الإضافۃ إلی المرأۃ في صریح الطلاق حتی لو أضاف الزوج صریح الطلاق إلی نفسہ بأن قال: أنا منک طالق لایقع۔ (بدائع الصنائع،

Sunday 5 June 2022

بیوی کی طرف نسبت کئے بغیرطلاق طلاق کہنے سے طلاق ہوگی کہ نہیں

شوہر نے اپنی بیوی کے سامنے کہا: ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ ان الفاظ سے شوہر کی نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی ہو یا شوہر ان الفاظ کی ادائیگی سے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت سے انکار کردے لیکن اس انکار پر قسم نہ اٹھاسکے تو اس صورت میں ان الفاظ سے مذکورہ شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اب اس کی زوجہ اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، لہٰذا رجوع اور دوبارہ نکاح ناجائز اور حرام ہے، زوجہ عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، البتہ جب بیوی اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق) قائم ہوجائے پھر اس کے بعد دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ مذکورہ صورت میں اگر شوہر یہ کہتا ہو کہ میں نے ان الفاظ کی نسبت اپنی بیوی کی جانب نہیں کی (جیساکہ صراحتاً الفاظ میں شوہر نے بیوی کی جانب نسبت کا ذکر نہیں کیا) تو شوہر سے اس بات پر حلف لیاجائے گا، اگر شوہر حلف اٹھالیتا ہے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، اور طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، اور اگر قسم سے انکار کرتا ہے تو تینوں طلاقیں واقع شمار ہوں گی۔ امداد الفتاویٰ میں ہے: ’’سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں: میں نے حالت غصہ میں یہ کلمے کہے ہیں: (طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق) اور میں نے کوئی کلمہ فقرہ بالا سے زیادہ نہیں کہا اور نہ میں نے اپنی منکوحہ کا نام لیا اور نہ اس کی طرف اشارہ کیا اور نہ وہ اس جگہ موجود تھی اور نہ اس کی کوئی خطا ہے، یہ کلمہ صرف بوجہ تکرار (یعنی نزاع) یعنی میری منکوحہ کی تائی کے نکلے، جس وقت میرا غصہ فرو ہوا، فوراً اپنی زوجہ کو لے آیا، گواہ دو اشخاص ہیں: ایک میرے ماموں اور ایک غیرشخص ہے اور مستوراتیں ہیں؟ الجواب: چوں کہ دل میں اپنی منکوحہ کو طلاق دینے کا قصد تھا؛ لہٰذا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔‘‘ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے: ’’سوال: زید نے اپنے والدین سے غصہ کی حالت میں بوجہ خفگی والدین اس کی زوجہ پر اور اس پر یہ الفاظ کہے: طلاق، طلاق، طلاق، تین مرتبہ یعنی اس لفظ طلاق کو کسی طرف منسوب نہیں کیا اور یہ کہا کہ میں کہیں چلا جاؤں گا یا بھیک مانگ کر کھاؤں گا، آیا یہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟ جواب: موافق تصریح علامہ شامی کے اس صورت میں زید کی زوجہ مطلقہ ثلاثہ ہوگئی۔‘‘ (کتاب الطلاق 9/196، ط: دارالاشاعت) کفایت المفتی میں ہے : "بغیر نسبت کے صرف ’’ لفظ طلاق‘‘ کہنے سے طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ (سوال) زید کی والدہ و ساس کے درمیان ایک عرصے سے خانگی جھگڑے ہورہے تھے زید سخت بیمار ہے ایک روز زید کے برادر خورد نے زید کی والدہ سے کہا کہ اماں یہ جھگڑے ختم نہ ہوں گے ہم اور تم کہیں چلیں، ان دونوں کو یہاں رہنے دو اور زید کا بھائی اپنی والدہ کو لے جانے لگا، زید نے کہا کہ تم نہ جاؤ میں اس جھگڑے کو ہی ختم کیے دیتا ہوں اور یہ کہہ کر کہا کہ میں نے طلاق دی، یہ الفاظ اپنی والدہ سے مخاطب ہوکر کہے، پھر اس کے بعد جوش میں آکر صرف طلاق طلاق طلاق پانچ چھ مرتبہ کہا، لیکن اپنی زوجہ کا نام ایک مرتبہ بھی نہیں لیا اور نہ اس سے مخاطب ہوکر کہا اور زید کا خیال بھی یہی تھا کہ صرف لفظ طلاق کہنے سے طلاق نہیں ہوتی، زوجہ گھر میں موجود تھی، لیکن اس نے الفاظ مذکورہ نہیں سنے۔ المستفتی نمبر ۳۱۱ ۔۲۲ صفر ۱۳۵۳؁ھ م ۶ جون ۹۳۴!ء (جواب ۳۵) زید کے ان الفاظ میں جو سوال میں مذکور ہیں لفظ طلاق تو صریح ہے، لیکن اضافت الی الزوجہ صریح نہیں ہے، اس لیے اگر زید قسم کھاکر یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ نہیں کہے تھے تو اس کے قول اور قسم کا اعتبار کرلیا جائے گا، اور طلاق کا حکم نہیں دیا جائے گا- محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ"۔ (6/53،54دارالاشاعت) غصہ کی حالت میں بیوی کی طرف نسبت کئے بغیر زبان سے تین طلاق کا لفظ نکالا‘ تو کیا حکم ہے؟ (سوال) زید نے اپنی منکوحہ کے بارے میں بحالت غصہ زبان سے تین طلاق کا لفظ نکالا بلا اضافت کسی کے، زید نے جو تین طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تو زید کے دل میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بنیوا توجروا المستفتی نمبر ۳۹۴ مولوی عبدالخالق (رنگون) ۲۹ جمادی الاول ۱۳۵۳؁ھ ۱۰ ستمبر ۱۹۳۴؁ء (جواب ۳۶) اگر زید نے زبان سے صرف یہ لفظ نکالا ’’ تین طلاق‘‘ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا تو ظاہر ہے کہ اس میں اضافت طلاق نہیں ہے، لیکن اگر یہ لفظ سوال طلاق کے جواب میں کہے ہوں، مثلًا: زوجہ یا اس کے کسی ولی یا رشتہ دار نے زید سے کہا کہ اپنی زوجہ کو طلاق دے دو اور زید نے کہا کہ ’’تین طلاق‘‘ تو اس صورت میں قرینہ حالیہ اضافتہ الی المنکوحہ کے ثبوت کے لیے کافی ہوگا، اور قاضی طلاق کا حکم کرے گا، سوال میں غصہ کی حالت کا ذکر ہے، لیکن غصہ کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں بعض صورتیں تو سوال طلاق کی حالت کا حکم رکھتی ہیں اور بعض نہیں۔ اب چوں کہ مجلسِ قضا کا وجود بھی نہیں اس لیے حکم دیانت یہ ہے کہ زید کو کہا جائے کہ اگر تو نے اپنی بیوی ہی کو یہ لفظ کہا تھا تو طلاق مغلظہ ہوگئی اور اگر بیوی کو نہیں کہا تھا تو طلاق نہیں ہوئی یہ تو عند اللہ حکم ہے اور لوگوں کے اطمینان کے لیے اس سے حلف لیا جائے گا اگر وہ حلف سے کہہ دے کہ میں نےبیوی کوتین طلاق نہیں کہا تھا تو لوگوں کو بھی اس کے تعلق زنا شوئی سے تعرض نہیں کرنا چاہیے اور بیوی بھی ا س کے پاس رہ سکتی ہے اور اگر وہ قسم سے انکار کرے تو زوجین میں تفریق کردی جائے۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘ دہلی۔(6/54.55 دارالاشاعت) قرآن کریم میں ہے: {فإن طلقها فلاتحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره فإن طلقها فلا جناح عليهما أن يتراجعا إن ظنا أن يقيما حدود الله وتلك حدود الله يبينها لقوم يعلمون} [البقرة: 230] رد المحتار میں ہے: "لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودةً ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته، العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه". (كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، مطلب سن بوشن ج:3/ص348، ط: سعيد) فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے: "وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات". (كتاب الطلاق، الفصل الرابع، فيما يرجع إلى صريح الطلاق 4/427/ 429، ط: مكتبة زكريا، ديوبند هند) بدائع الصنائع میں ہے: "وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرًا فلايصدق في الصرف عن الظاهر". (كتاب الطلاق، فصل في النية في نوعي الطلاق ج3، ص: 102، دار الكتب العلمية) ہندیہ میں ہے: "وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (3/473، ط: ماجدية) البحر الرائق میں ہے: "وعدة الحامل وضع الحمل؛ لقوله تعالى: ﴿وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن﴾ (الطلاق: 4) (باب العدة: ج4، ص133، ط: سعيد) بدائع الصنائع میں ہے: "وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر". (كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن 3/187، ط: سعيد) البحر الرائق میں ہے: "(قوله: ومبدأ العدة بعد الطلاق والموت) یعنی ابتداء عدة الطلاق من وقته ... سواء علمت بالطلاق والموت أو لم تعلم حتى لو لم تعلق ومضت مدة العدة فقد انقضت؛ لأن سبب وجوبها الطلاق ... فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، كذا في الهداية". (كتاب الطلاق، باب العدة، 4/144/ ط: سعيد)

مجرد التلفظ بكلمة الطلاق بدون إسنادلايقع

المكتبة الشاملة الحديثة كتاب فتاوى الشبكة الإسلامية [مجموعة من المؤلفين] الرئيسيةأقسام الكتب الفتاوى فصول الكتاب ج: ص: 9576 مسار الصفحة الحالية: فهرس الكتاب فقه الأسرة المسلمة 17865 الفرقة بين الزوجين 4339 الطلاق 2985 الأركان والشروط 29 مجرد التلفظ بكلمة (طالق) دون إسناد لا يقع [مجرد التلفظ بكلمة (طالق) دون إسناد لا يقع] ƒـ[قرأت يا شيخ في كتاب فقه السنة أن التلفظ بكلمة من ألفاظ الطلاق الصريح بدون أن يكون فيه إضافه للزوجة أو ضمير يعود عليها أنه يمنع وقوعه, كأن يقول رجل كلمة طالق فقط دون أن يقول أنت، هل هذا صحيح علما بأني سمعت هذا أيضا من شيخين أحسب أنهما من أهل السنة والجماعة؟]ـ ^الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد: فقول سيد سابق في فقه السنة: ويشترط في وقوع الطلاق الصريح: أن يكون لفظه مضافا إلى الزوجة، كأن يقول: زوجتي طالق، أو أنت طالق. انتهى، أي يشترط للفظ (طالق) ليكون صريحا أن يكون مضافا إلى الزوجة، فإن تجرد من الإضافة والإشارة فهو كناية فيقع إن نوى به الطلاق، وقد أشار إلى ذلك العلامة قليوبي في حاشيته على شرح جلال الدين المحلي فقال: قوله: (كطلقتك) فلا بد من إسناد اللفظ للمخاطب أو عينه أو ما يقوم مقامها. انتهى. فلا بد من إسناد لفظ الطلاق إلى الزوجة إما بالإشارة أو المخاطبة كأنت طالق أو زوجتي طالق أو طلقتك أو أم أولادي طالق، ولم يكن له أولاد من غيرها وهكذا، أما مجرد التلفظ بكلمة (طالق) دون إسناد فلا يقع به طلاق إلا مع النية