Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان
https://follow.it/amir-samdani?action=followPub
Monday, 6 June 2022
بلااضافت ونسبت طلاق طلاق کہنے سے طلاق ہوگی کہ نہیں
محض خیالی اور بلا قصد وارادہ کے الفاظ طلاق نکل جائیں خصوصاً جبکہ بیوی کی جانب اضافت و نسبت بھی نہ ہو، تو اس سے طلاق نہیں ہوتی۔ نیز طلاق کے اندر بیوی کی جانب صراحۃً یا دلالۃً اضافت و نسبت شرط اور ضروری ہے؛ لہٰذا زید کی زبان سے خیالی طور پر بلا اضافت الفاظ طلاق نکلنے سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۶؍۲۱، جدید زکریا۶؍۳۲، جدید زکریا مطول ۸؍۱۶۰ فتاوی محمودیہ قدیم ۸؍۶۴، جدید میرٹھ ۱۸؍۴۰۷، فتاوی دارالعلوم ۹؍۱۹۸-۱۹۹)
ولکن لا بد أن یقصدہا باللفظ۔ (الأشباہ قدیم۴۵، جدید زکریا ۱/۹۱)
لا یقع من غیرإضافۃ إلیہا۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، کراچي۳/۲۷۳، زکریا۴/۴۹۳)
ومنہا الإضافۃ إلی المرأۃ في صریح الطلاق حتی لو أضاف الزوج صریح الطلاق إلی نفسہ بأن قال: أنا منک طالق لایقع۔ (بدائع الصنائع،
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment