https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 7 January 2022

دواوقات کی نماز جمع کرکے پڑھنے کی اجازت کب ہے

 ہر نماز کو اپنے اپنے وقت میں پڑهنا فرض ہے، نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے :
﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾ 
(النساء:۱۰۳)
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے۔

ہرنماز کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے، اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقرر ہے، بلکہ ایک حدیث میں نبی صلی الله عليه وسلم نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں بلا عذر پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو، وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ 

لما فی الترمذی:
مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ.‘‘
(سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)
ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔

لہذا معلوم ہوا کہ دو وقتوں کی نماز کو ایک ہی وقت میں ادا کرنا جائز نہیں ہے، البتہ سفر وغیرہ میں ایک نماز اپنے وقت کے آخر میں اور دوسری نماز اپنے وقت کے شروع میں پڑهی جائے، تو اس کی گنجائش ہے۔
اب رہی وہ احادیث جن میں سفر یا کسی اور عذر کی بنا پر دو نمازوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے، تو اس کے دو جواب ہیں:

ایک جواب یہ ہے کہ جن روایات میں صراحتاً وقت سے پہلے یا وقت کے بعد نماز ادا کرنے کا ذکر ہے، وہ قرآن مجید اور ان احادیث سے متعارض ہیں، جن میں نمازوں کے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اس حدیث میں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ قرآن اور حدیث میں ٹکراؤ ہو، تو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز دیگر احادیث جو نمازوں کو اوقات کے علاوہ اد اکرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں، ان سے بھی ٹکراؤ کی صورت میں ان کثیر وصحیح روایات کو ترجیح دی جائے گی، اس لیے ظہر اور عصرکی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اور مغرب و عشاء کی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اسی پر عمل کیاجائے گا، اور نمازیں اسی وقت میں ادا کرنا ضروری ہوگا، اور دو نمازوں کو جمع کرنے والی روایات کو ترک کردیا جائے گا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ان روایات میں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے، حقیقتاً نہیں، اس کی وضاحت یہ ہے کہ ظہر کی نماز اتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو، کچھ دیر انتظار کیا جائے، پھرجب عصر کا وقت شروع ہوجائے، تو عصر بھی پڑھ لی جائے، اسی طرح مغرب اور عشاء میں کیا جائے، اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی، اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگی، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں ہیں۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے دونمازوں کو اس طرح جمع فرمایا تو راویوں نے کہہ دیا کہ آپ نے دونمازوں کو جمع فرمایا ہے، جب کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی، جیسا کہ مندرجہ ذیل تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے:

عبد اللہ ابن عمر فرماتے ہیں:
’’رَاَيْتُ رَسُوْلَ الله ﷺ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ.‘‘ قال سالم وکان عبداللہ بن عمر یفعلہ اذا اعجلہ السیر یقیم المغرب فیصلیھم ثلاثا ثم یسلم ثم قلما یلبث حتی یقیم العشاء۔
(صحیح بخاری، باب ہل یوذن او یقیم اذا جمع الخ، ج1، ص149)

اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نمازِ مغرب سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر ٹھہر جاتے تھے، پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے تھے، تو حضرت ابن عمر کا مغرب پڑھ کر ٹھہرنا صرف اس لیے تھا کہ عشاء کے وقت کے داخل ہونے کا یقین ہوجائے۔

عن ابن مسعود مارایت النبی صلی الله عليه وسلم صلی صلوۃ لغیر میقاتھا الا صلوتین جمع بین المغرب والعشاء ای فی المزدلفۃ و صلی الفجر قبل میقاتھا( المعتاد) 
(صحیح بخاری، ج1، ص228، باب متی یصلی الفجر بجمع) 

ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وقت کے علاوہ نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، سوائے مزدلفہ میں آپ نے مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا اور فجر کی نماز اپنے (مقررہ) وقت سے پہلے ادا فرمائی۔

ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا، حقیقتاً نہیں، چنانچہ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں، تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے، اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں، تو پھر آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے، اس لئے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا، تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو، اور ان میں باہم تضاد اور ٹکراؤ نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کذا فی الدر مع الرد: 

''(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔

(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله''.

'' ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب» .

(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر''.

(ج:1،ص:382-381،ط:سعید،کراچی)

Thursday 6 January 2022

براؤن کلر کاخضاب لگاناجائز ہے یانہیں

 بالوں کو کلر کرنا جائز ہے، البتہ خالص کالے رنگ کاخضاب لگاناجائز نہیں  ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے، صرف حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی گئی ہے۔ ابوداودشریف کی روایت میں ہے:"حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوش بوبھی نصیب نہ ہوگی"۔

البتہ خالص کالے رنگ کے علاوہ دیگر رنگوں کے خضاب لگانا جائز ہے۔

یہی حکم آج کل بازار میں دست یاب بالوں کے  جدید کلر (رنگ)  کا بھی ہے یعنی خالص سیاہ (کالا) کلر  بالوں پر لگاناتو جائز نہیں ہے، البتہ  کالے رنگ کے علاوہ دوسرے کلر مثلاً خالص براؤن ،  سیاہی مائل براؤن یا سرخ(لال) کلر لگانا جائز ہے، خلاصہ یہ ہے کہ کالے رنگ کے علاوہ کوئی بھی کلر لگانا جائز ہے چاہے کوئی بھی نمبر ہو ، بس رنگ خالص کالا نہیں ہونا چاہیے۔
سنن النسائي (8/ 138):

" أخبرنا عبد الرحمن بن عبيد الله الحلبي، عن عبيد الله وهو ابن عمرو، عن عبد الكريم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، رفعه أنه قال: «قوم يخضبون بهذا السواد آخر الزمان كحواصل الحمام، لايريحون رائحة الجنة»".

صحيح مسلم (3/ 1663):

" وحدثني أبو الطاهر، أخبرنا عبد الله بن وهب، عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضاً، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد»".

الفتاوى الهندية (5/ 359):

"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ"

اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے؛ سیاہ خضاب  خواہ کالی منہدی کا ہو یا کسی اور کلر سے؛ ہاں خالص سیاہ کے علاوہ دیگر رنگ کا خضاب استعمال کیاجاسکتا ہے۔ اختضب لأجل التزین للنّساء الجواري جاز في الأصحّ ویکرہ بالسواد․․․ ومذہبنا أن الصبغ بالحناء والوسمة حسن کما في الخانیة، قال النووي:ومذہبنا استحباب خضاب الشیب للرّجل والمرأة بصفرة أو حُمرة وتحریم خضابہ بالسواد علی الأصحّ لقولہ علیہ السلام: غیّروا ہذا الشیب واجتنبوا السّواد اھ قال الحموي وہذا في حق غیر الغزاة ولا یحرم في حقّہم للإرہاب ولعلّہ محمل من فعل ذلک من الصحابة ط․ (درمختار مع رد المحتار: ۱۰/ ۴۸۸، ط: زکریا)

Wednesday 5 January 2022

اسلام اوراحترام انسانیت

 رسول اﷲ ﷺ کا آخر ی خطبہ احترام انسانیت کا عالمی منشور اور ایک مکمل نصاب ہے۔ اس تاریخی خطبے میں آپ ﷺ نے انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر بزرگی حاصل نہیں۔ آپ ﷺ نے انسانیت کا احترام سکھایا کہ جب بھی کسی سے بات کرو اچھے انداز سے کرو، اچھی گفت گو کرو اور دوسروں کو اپنے شر سے بچاؤ۔

آپؐ اس قدر دوسروں کا خیال رکھتے تھے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں لیٹی ہوئی تھی اچانک میری آنکھ کھلی، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ بڑے آہستہ آہستہ بستر سے نیچے اترے اور دبے قدموں سے پاؤں رکھتے ہوئے چلنے لگتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! آپ کیوں اس طرح کر رہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا: تم سوئی ہوئی تھی میں تہجد کے لیے اٹھ رہا تھا، میں نے چاہا میرے اٹھنے کی وجہ سے کہیں تمہاری نیند میں خلل نہ آجائے۔

مخلوق خدا پر رحم کرنے کی تعلیم اسلام ہی دے رہا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’رحم کرنے والوں پر اﷲ رحم فرماتے ہیں، تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ تم اس وقت مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم رحم کرنے والے نہ بن جاؤ۔ آپ ﷺ نے دفع شر اور نفع رسانی کی تعلیم دی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تُو روک لے اپنے شر کو دوسرے انسانوں سے۔،، یعنی ہر بندے کے اندر خیر بھی ہے اور شر بھی، تو فرمایا کہ اپنا شر دوسرے انسانوں تک نہ پہنچاؤ اس کو اپنے تک ہی روک لو۔ مثلا کئی مرتبہ انسان چاہتا ہے کہ دوسرے بندے کا مذاق اڑائے، شریعت کہتی ہے کہ تمہارے اندر جو خواہش پیدا ہورہی ہے اسے روک لو، اگر تم کسی دوسرے کا مذاق اڑا کر اس کو ایذا پہنچاؤ گے تو یہ مناسب نہیں۔

Tuesday 4 January 2022

Rubbish directives of the UGC

 The University Grants Commission on December 29 had issued a circular, asking three lakh students in 30,000 institutes across the country to perform Surya Namaskar in front of the Tricolour under the Amrit Mahotsav celebrations to mark India's 75th year of Independence. "To commemorate the Amrit Mahotsav celebrations, the 75th anniversary of Independence Day, the federation has decided to run a project of 750 million surya Namaskar in 30 states, involving 30,000 institutes and 3 lakh students from January 1 to February 7," the circular signed by UGC Secretary Rajnish Jain said.

"The government is trying to impose the traditions and culture of the majority on others. This is unconstitutional," General Secretary of the organisation Maulana Khaled Rahmani said.

"The government must immediately roll back the diktat and promote secular values in the country," he said. Instead of issuing such directives, the government needs to focus on real issues such as inflation unemployment, etc, he added.

Monday 3 January 2022

مساجدکی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں


ارشاد باری تعالی ہے :

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ {التوبہ18}

خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے

1 : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آنے کے بعد سب سے پہلئے مسجد کا کام شروع کیا ہے:

قبامیں آپ چنددن ٹھرے اور وہاں مسجد کی بنیاد رکھی ۔

پھر جب مدینہ منورہ منتقل ہوئے تو اپنے لئے گھر کی تعمیر سے قبل مسجد کی بنیاد رکھی ۔

اور صحابہ کے ساتھ آپ خود بھی اسکی تعمیر میں شریک رہے ۔

2 : مسجد کو شریعت میں اللہ تعالی کا گھر کہا گیا اور اسکی نسبت اللہ کی طرف کی گئی :

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا{الجن18}

اور یہ کہ مسجدیں (خاص) خدا کی ہیں تو خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو

ومااجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ ۔۔۔۔ الحدیث

{ مسلم عن ابی ھریرۃ}

اس حدیث میں مسجد کو اللہ کے گھر سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

3 : آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مساجد بنانے کا حکم دیتے :

امرنا رسول ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب

{ احمد ابوداود عن عائشہ}

“ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم محلات میں مسجد تعمیر کریں اور اسے پاک وصاف اور معطر رکھیں ” ۔

آپ کے پاس وفود آتے تو آپ انہیں بھی مساجد کی بناء کا حکم دیتے ۔

حضرت طلق بن علی بیان کرتے ہیں کہ

4 : کسی علاقے میں مسجد کا نہ ہونا اور وہاں سے آذان کی آواز کا نہ آنا اس بات کی دلیل تھی کہ یہ بستی مسلمانوں کی نہیں ہے :

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذاغزا بنا قوم لم یکن یغزو بنا حتی یصبح وینظر الیھم فان سمع الآذان کف عنہم وان لم یسمع اغار علیہم الحدیث

{ متفق علیہ عن انس}

5 : مساجد کا تاکیدی حکم :

مامن ثلاثۃ فی ضربۃ ولاتقام فیہم الصلاۃ الا قد استحوذ علیہم الشیطان فعلیکم با لجماعۃ فان الذئب یاکل من الغنم الفاصبۃ

{احمد ابوداود عن ابی الدرداء}

مسجد کی فضیلت :

۱- مسجد بنانے کی فضیلت :

من بنا للہ مسجدا یبتغی بہ وجہ اللہ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ

“جس نے اللہ تعالی کی رضا مندی چاہتے ہوئے مسجد کی تعمیر کی اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر کی تعمیر فرماتا ہے ”

{متفق علیہ عن عثمان}

۲- مسجد صدقہ جاریہ ہے :

ان مما یلحق المئومن من عملہ وحسناتہ بعد موتہ علما علم ونشرہ او ولد ا صالحا ترکہ اومصحفا ورثہ اومسجدا بناہ اوبیتالابن السبیل بناہ اونہر ا اجراہاوصدقۃ اخرجہا من مالہ فی صحتہ وحیاتہ تلحق من بعد موتہ ۔

{ابن ماجہ ۔ ابن خزیمہ عن ابی ھریرۃ}

++ مذکورہ حدیث میں وجہ استشہاد ہے کہ مسجد کی تعمیر صدقہ جاریہ میں سے ہے ۔

۳- مسجد کی محبت عظیم نیکی ہے :

کیونکہ مسجد سے محبت اللہ سے محبت کی دلیل ہے اور اللہ سے محبت لاالہ الاللہ کے شرائط میں سے ہے ،

سبعۃ یظلہم اللہ فی ظلہ یو م لاظل الاظلہ ، الامام العادل ، وشاب نشا فی عبادۃ اللہ عزوجل ،ورجل قلبہ معلق بالمساجد۔۔۔ الحدیث

{ البخاری مسلم عن ابی ھریرۃ}

+++ اس حدیث سے مطلوب یہ کہ مسجد کی محبت دل میں بسانے والے کے لئے قیامت والے دن عرش کا سایہ نصیب ہوگا ۔

۴- مسجد کی طرف جانا گویا اللہ کی ضیافت میں جانا ہے :

من غدا الی المسجد اوراح اعد اللہ لہ نزلا من الجنۃ کلماغدا اوراح

” جو کوئی صبح یا شام میں مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت کی مہمانی تیار فرماتا ہے ”

{ متفق علیہ عن ابی ھریرۃ}

۵- مسجد کا قصد کرنے والوں کی قیامت کے نرالی شان :

بشر المشائین فی الظلم الی المساجد بالنور التام یوم القیامۃ

“خوشخبری ہو تاریکی میں مسجد کی جانب چلنے والوں کے لئے قیامت کے دن مکمل روشنی کی ”

{ ابوداود، الترمذی عن بریدۃ}

۶- مسجد کی طرف جانا گناہ کاکفارہ اور درجات کی بلندی ہے:

صلاۃ الرجل فی الجماعۃ تضعف علی صلاتہ فی بیتہ وفی سوقہ خمساوعشرون درجۃ وذلک انہ اذا توضا فاحسن الوضوء ، ثم خرج الی المسجد لایخرجہ الا الصلاۃ لم یحط خطوۃ الا رفعت لہ درجۃ وحط عنہ بہا خطیئۃ ۔۔۔۔الحدیث

{البخاری ، مسلم عن ابی ھریرۃ}

++ اس حدیث کا وجہ ذکر یہ کہ مسجد کی طرف قدم بڑھانے والے کے گناہ معاف اور درجات بلند ہوتے ہیں ۔

۷-مسجد میں جانے والوں کی ایک اہم فضیلت :

بما تو طن رجل المساجد للصلاۃ والذکر الاتبشبش اللہ تعالی الیہ کمایتبشبش اھل الغائب بغائبہم اذا قدم علیہم ۔

” جو شخص بھی مسجدمیں نماز اور ذکر کیلئے کوئی جگہ بنالیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اسکی آمد پر اسی طرح خشی اور استقبال کا اظہار کرتا ہے جس طرح کسی کا عزیز ایک مدت غائب رہنے کے بعد اسکے پاس آئے۔”

{ ابن ماجہ ، ابن خزیمہ عن ابی ھریرۃ}

۸- مسجدمیں چھاڑو دینے کی فضیلت :

ان امرۃ سوداء ۔۔۔۔۔۔ {متفق علیہ عن عائشہ}

مذکور ہ حدیث میں اس عورت کا ذکر ہے جو غریب اور کالی کلوٹی تھی اور مسجد نبوی کی صفائی کا اہتمام کرتی تھی ، اس کی وفات ہوجاتی ہے اور لوگ اس کی تدفین کا انتظام فرمادیتے ہیں اور اس عورت کوغیر اہم جانتے ہوئے اس کی اطلاع بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہنچاتے ، بعدمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر اس عورت کی وفات کا علم ہوتا ہے ، آپ افسوس ظاہر کرتے ہوئے عدم اطلاع کی شکایت کرتے ہیں اور قبرستان پہنچ کر اس گمنام عورت کی نماز جنازہ ادا فرماتے ہیں ۔

اس واقعہ سے اس بات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد نبوی کی صفائی کرنے والی ایک گمنام عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر اہمیت دی اور اہمیت کی اہم وجہ یہی تھی کہ وہ عورت مسجدکی صفائی کا خیال رکھتی تھی ۔