https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 9 August 2024

وسعت کے باوجود قرض ادا نہ کرنے پر وعید

  قرض اتارنے کی قدرت ہونے کے باوجود قرض نہ اتارنا اور اس میں ٹال مٹول کرناظلم ہے، یہی وجہ تھی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ اس پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر میت مقروض نہ ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھاتے اور اگرمیت مقروض ہوتی اور اپنے پیچھے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا اور کوئی اس کے قرض کی ضمانت بھی نہ لیتا تو صحابہ سے کہہ دیتے کہ اپنے بھائی کا جنازہ ادا کرلو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے افراد کی نمازِ جنازہ ادا نہ فرماتے؛ تاکہ امت کو قرض میں ٹال مٹول کی برائی اور اس کی شدت کا احساس ہو۔ بعد میں جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فتوحات عطا فرمائیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے موقع پر یہ سوال فرماتے، اگر میت مقروض ہوتی اور اس نے ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام فرماتے اور نمازِ جنازہ ادا فرماتے، جیساکہ مندرجہ ذیل روایت مروی ہے:

"عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بجنازة ليصلي عليها، فقال: «هل عليه من دين؟»، قالوا: لا، فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقال: «هل عليه من دين؟»، قالوا: نعم، قال: «صلوا على صاحبكم»، قال: أبو قتادة علي دينه يا رسول الله، فصلى عليه".

(صحیح البخاری،کتاب الکفالۃ، باب من تكفل عن ميت دينا، فليس له أن يرجع، رقم الحدیث:2295، ج:3، ص:96، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: حضرتِ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں تو اُس کی نماز جنازہ پڑھی،  پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: ہاں۔ فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو، حضرت ابو قتادہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس کا قرض مجھ پر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔

اسی طرح ایسے شخص کے بارے میں جنت میں داخل نہ ہونے کی وعید بھی وارد ہے۔

اعمالکم عمالکم روایت کی تحقیق

 یہ مرفوع حدیث نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے جملےبعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم، اور تابعین کے کلام میں ملتے  ہیں۔ حافظ سخاوی (ت 902 ھ) " المقاصد الحسنة" میں حديث "كما تكونون يولى عليكم أو يؤمر عليكم" کے تحت فرماتے ہیں :

          وعند الطبراني معناه من طريق عمر، و كعب أحبار و الحسن البصري أنه سمع رجلا يدعو على الحجاج فقال له :لا تفعل إنما نخاف إن عزل الحجاج أو مات أن يستولي عليكم القردة و الخنازير فقد روي أن أعمالكم عمالكم وكما تكونون يولى عليكم.

(المقاصد الحسنة للسخاوي، حرف الكاف، رقم الحديث: ٨٤٥ ، ٢/ ٢٨١، جائزة دبي الدولية للقرآن الكريم ١٤٤٠)

یعنی اس حدیث کا ہم معنی کلام امام طبرانی کے ہاں حضرت عمر، کعب أحبار اور حسن بصری رحمہم اللہ تعالیٰ کی سند سے  ملتا ہے اور حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ تب کہا تھا جب آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ حجاج کو بد دعا دے رہا ہے ، تو آپ نے فرمایا:  ایسا مت کرو ، یہ تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے، ہمیں ڈر ہے اگر حجاج معزول ہو گیا یا مر گیا  تو تم پر بندر اور خنزیروں کو مسلط کر دیا جائے ، کیوں کہ مروی ہے کہ أعمالكم عمالكم، وكما تكونون يولى عليكم، مطلب جيسے: اعمال ویسے امراء"۔

اسی طرح محدث عجلونی (ت 1162ھ) رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے  ہیں : 

            "وأقول: رواه الطبراني عن الحسن البصري أنه سمع رجلاً يدعو على الحجاج، فقال له : لا تفعل، إنما نخاف إن عزل الحجاج أو مات و يتولى عليكم القردة و الخنازير، فقد روي أن أعمالكم عمالكم، وكما تكونوا يولى عليكم". (كشف الخفاء ومزيل الإلباس للعجلوني، باب الهمزة مع العين، ١/ ١٤٧، مؤسسة مناهل العرفان)

        اور یہی کلام امام مناوی رحمہ اللہ  (ت ١٠٣١ھ) نے  فیض القدیر میں اور ملا علی قاری رحمہ اللہ ( ت 1014ھ) نے  مرقاۃ  المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح  میں ذکر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیے: (فيض القدير شرح جامع الصغير للمناوي، تحت حرف الكاف في شرح حديث: كما تكونوا يولى عليكم، ٦/ ٣١٧، دار الحديث القاهرة، ١٤٣١- المرقاة شرح المشكاة لعلي القاري ، كتاب الإمارة والقضاء، الفصل الثالث، في شرح حديث: كما تكونون كذلك يؤمر عليكم، ٧ / ٢٢٨، المكتبه الإمدادية، ملتان)

حافظ سخاوی اور محدث عجلونی رحمہما اللہ تعالیٰ کے کلام میں اگرچہ  یہ صراحت نہیں کہ یہ ان حضرات کا اپنا کلام ہے ، یا وہ حضور صلی اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں، یا پھر کوئی اسرائیلی روایت ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ کلام اور اس طرح کا مفہوم قرن اول میں ہی مشہور تھا، خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ بات فی نفسہ درست ہے، لیکن  جب تک کوئی معتبر سند نہ مل جائے ، اس جملے کو بطورِ حدیثِ مرفوع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نسبت کرکے بیان کرنے میں احتیاط ضروری ہے۔

پرانی مسجد کی جگہ مدرسہ بنانا

 مسجد کی زمین پر  مدرسہ تعمیر کرنا شرعاً جائز نہیں ،اس مسجد  کی حفاظت  اور آباد كرنا ضروری ہے، البتہ مسجد کے احکام اور آداب واحترام کی رعایت رکھتے ہوئے وہاں بچوں کی دینی تعلیم کا عارضي طور پر انتظام کیا جاسکتا ہے، یعنی وہاں بیت الخلا، گھر اور وضو خانہ وغیرہ نہ بنایاجائے،مسجد کےآداب کالحاظ رکھتے ہوئے صرف  تعلیم ہو اور اساتذہ اور طلبہ وہاں جماعت سے نماز ادا کریں تو  مسجدبھی آباد رہے گی۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے۔ 

"إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه، وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته."

(الباب الخامس الوقف،الفصل الثالث حکم الوقف،ج:10،ص:7617،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) حاوي القدسي 

مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح. اهـ"

(کتاب الوقف،ج:4،ص:358،سعید)

Thursday 8 August 2024

عائزل نام رکھنا

 "عائزل"  کا معنی ہمیں نہیں مل سکا، نیز کسی مستند حوالے  سے کسی دوسری زبان کا ہونا بھی معلوم نہیں ہوسکا۔

باقی بچوں کے ناموں کے لیے  بہتر یہ ہے کہ ان  کا ایسا نام رکھا جائے جس سے اسلام کے تشخص کا اظہار ہو، اس  کے لیے  لڑکے کا نام انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ کے نام پر رکھیں ، اور لڑکی کا نام  صحابیات رضوان اللہ  علیہن  یا  تابعات رحمہن اللہ  کے ناموں پر  رکھا جائے، یا اچھے معنی والا عربی نام رکھا جائے۔

Tuesday 6 August 2024

شرط فاسد کے ساتھ بیع

 خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ایسی شرط لگانا جس شرط کا یہ عقد نہ تقاضا  کرتا ہو  اور نہ ہی یہ شرط اس معاملہ کے مناسبات میں سے ہو  اور اس شرط میں بیچنے والے یا خریدنے والے کا کوئی فائدہ ہو (یا مبیع کا فائدہ ہو، بشرطیکہ مبیع اس کا اہل ہو، مثلاً: غلام ہو) تو یہ شرط خرید و فروخت کے معاملہ کو فاسد کردیتی ہے، شرعی اعتبار سے  شرطِ فاسد کی صورت میں  فروخت کنندہ اور خریدار کے لیے حکم یہ ہے کہ اس معاملہ کو ختم  کر کے نئے سرے سے معاملہ کریں۔ شرطِ فاسد کی موجودگی میں مشتری کے لیے مبیع سے استفادہ جائز نہیں ہوتا، فقہاءِ کرام نے بیوعِ فاسدہ کو سود کے حکم میں شامل کیا ہے۔

شروطِ فاسدہ کی بنا پر شریعت نے جب بیع کو فاسد قرار دیا ہے تو اس میں عاقدین کی رضا وعدم رضا کا اعتبار نہیں، بلکہ اس عقد میں موجود اس خرابی (شرط فاسد) کو جب تک دور نہ کیاجائے اس وقت تک شریعت کی نگاہ میں وہ بیع درست نہیں ہے، ایسی بیع کو ختم کرکے شرطِ فاسد کے بغیر بیع کرنا لازم ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (5 / 32(

"فالحاصل أن كل جهالة تفضي إلى المنازعة مبطلة فليس يلزم أن ما لايفضي إليها يصح معها بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيا على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه ولايعتبر ذلك مصحّحًا، كذا في فتح القدير."

الهداية شرح البداية - (3 / 48):

"وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقد عن مقصوده."

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (3 / 90):

"ولو كان البيع بشرط لايقتضيه العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين أي البائع والمشتري أو  لمبيع يستحق النفع بأن يكون آدميًّا فهو أي هذا البيع فاسد لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدًا."

سرکاری یوجنا کے تحت ملے فلیٹ کو کرایہ پر دینا

 کیا فرماتے ہیں علماء دین درج ذیل سوال کے جواب میں۔

احقر ایک مسجد کے امام ہے مالی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سےسرکاری آواس یوجنا کے تحت ۵۰گزپرمشتمل ایک نامکمل فلاٹ احقرکوملاہےجسےاحقر اپنی ذاتی رقم سے مکمل کرتولیامگر مسجدسےکافی دوراورایسی ابادی میں جہاں موجودہ حالات میں اسلامی تشخص کےساتھ رہنااورجان ومال کی حفاظت کرنا ایک مستقل مسئلہ بنگیاہے۔

 سرکار کی طرف سے اس طرح کی فلاٹ کوفروخت کر نے یاکریاپراٹھانے کی اجازت نہیں ہے، البتہ سرکاری ادھکاریوں کے من پسند کسی افراد کے حوالے کردیں تو کوکوئ اعتراض نہیں ہے ۔اب سوال یہ ہےکیااس صورت میں فلاٹ کاقبضہ کسی اور کو دےکراس سے  جومیری ذاتی رقم فلاٹ کومکمل کرنےمیں خرچ ہواہےوہ یااس کی موجودہ جوقیمت ہے وہ حاصل کر سکتے ہیں یانہی۔

عبدالقدوس علی گڑھ 

۵اگست ۲۰۲۴

الجواب وباللہ التوفیق ومنہ المستعان 

عقدِ اجارہ یا بیع تام ہونے کے بعد کرایہ داریامشتری منافع کا مالک بن جاتا ہے اور اس کو منافع حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے اب چاہے وہ خود منافع حاصل کرے یا کسی اور کو منافع کا مالک بنائے۔ بشرطیکہ کسی ایسے شخص کو نہ دے جو اس میں ایسا کام شروع کرے جس کی وجہ سے مکان کو نقصان پہنچتا ہو، لہذا اگر حکومت نے کرایہ داریامشتری پر یہ شرط لگائی کہ آپ یہ مکان کسی اور کو کرایہ پر نہیں دیں گے تو یہ شرط باطل ہوگی اور کرایہ داریامشتری وہ مکان  کسی اور کو کرائے پر دینا چاہےتو دے سکتاہے  

لھذا صورت مسئولہ میں 

فلیٹ کاقبضہ کسی اور کو دےکراس سے  جو رقم فلیٹ کومکمل کرنےمیں خرچ ہویی ہےیااس کی موجودہ جوقیمت ہے وہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

    ۔البتہ

حکومتی ضوابط وحدود کی پاسداری کرتے ہویے اپنی جان مال کی حفاظت کرنا بھی لازم ہے ۔

وقد اختلف أهل العلم في بطلان البيع إذا كان مصحوبا بشرط ينافي مقتضى العقد، فذهب المالكية والشافعية وهو رواية عن أحمد إلى بطلان البيع، وذهب الحنفية إلى بطلان البيع إذا كان في الشرط منفعة لأحد المتعاقدين، وذهب الحنابلة إلى صحة البيع وبطلان الشرط وهو قول في مذهب الشافعية، وإليك بعض نصوص الفقهاء في ذلك.

وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها) وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل يبطل التقييد لانه غير مفيد۔  (الدر المختار على صدر رد المحتار، كتاب الإجارة، باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:9، ص:38)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا ‌آجرها ‌بخلاف ‌الجنس أو أصلح فيها شيئا ..... قال ابن عابدين:(قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد"

(كتاب الإجارة،‌‌باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها،29/6،ط:سعيد)

Monday 5 August 2024

فوتگی کے اعلان سے پہلے تلاوت

  اس طر ح کے اعلانات سے پہلے قرآن مجید کے کسی بھی حصے کی تلاوت کرنا مکروہ ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وعن هذا يمنع ‌إذا ‌قدم ‌واحد من العظماء إلى مجلس فسبح أو صلى على النبي صلى الله عليه وآله وأصحابه إعلاما بقدومه حتى ينفرج له الناس أو يقوموا له يأثم هكذا في الوجيز للكردري"۔

(كتاب الكراهية،الباب الرابع في الصلاة والتسبيح ورفع الصوت عند قراءة القرآن،ج:5،ص:315،ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقد كرهوا والله أعلم ونحوه … لإعلام ختم الدرس حين يقرر،(قوله لإعلام ختم الدرس).....فإنه استعمله آلة للإعلام ونحوه إذا قال الداخل: يا الله مثلا ليعلم الجلاس بمجيئه ليهيئوا له محلا، ويوقروه وإذا قال الحارس: لا إله إلا الله ونحوه ليعلم باستيقاظه."

(كتاب الحظر والإباحة،‌‌فصل في البيع،ج:6،ص:431،ط:دار الفكر - بيروت)

منھا نام رکھنا

 معنی کے اعتبار سے منھا   نام رکھنا درست نہیں ، سائل اپنی  بیٹئ کا نام ’’منہا‘‘ کے بجائے  ’’منحہ‘‘  منتخب کرلے  اور اس کا درست تلفظ ’’منحہ‘‘ (مِنْحَہ)ہے، اور  ’’مِنحہ‘‘  کے معنی گفٹ، تحفہ کے ہیں۔

المعجم الوسیط  میں ہے:

"المنحة: العطية". ( ج:۲، صفحہ:  ۸۸۸، ط:  دار الدعوة)

یا اس کے علاوہ صحابیات کے ناموں  سے یا  کسی اچھے معنی والے لفظ کا انتخاب کرلے۔ف

سبحان نام رکھنا

 سبحان‘‘  کے معنی  کسی کو تمام عیوب اور نقائص سے پاک ٹھہرانا یا بتانا ہے،سبحان، اللہ تعالیٰ کے لائقِ شان ہے، اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور  کے بارے میں  ’’سبحان‘‘  نہیں کہا جاسکتا؛ لہٰذا "سبحان" یا "محمد سبحان" نام رکھنا درست نہیں ہے، "عبدالسبحان" نام رکھ سکتے ہیں، لیکن بہتر ہے کہ اس  کےبجائے  کوئی دوسرا نام تجویز کرلیں۔

انبیائے کرام علیہم  الصلاۃ والسلام، صحابہ کرام رضوان  اللہ علیہم اجمعین یا اولیاءِ کرام رحمہم اللہ کے ناموں میں سے یا کوئی اچھا بامعنی نام  کا انتخاب کرلیا جائے۔ (السعایۃ فی کشف مافی شرح الوقایۃ،2/164،ط:سہیل اکیڈمی –فتاوی محمودیہ 19/386، ط:فاروقیہ کراچی)

تفسير القرطبي میں ہے:

"قوله تعالى: (سبحان) " سبحان" اسم موضوع موضع المصدر، وهو غير متمكن، لأنه لايجري بوجوه الإعراب، ولاتدخل عليه الألف واللام، ولم يجر منه فعل، ولم ينصرف لأن في آخره زائدتين، تقول: سبحت تسبيحاً وسبحاناً، مثل كفرت اليمين تكفيراً وكفراناً. ومعناه التنزيه والبراءة لله عز وجل من كل نقص. فهو ذكر عظيم لله تعالى لايصلح لغيره، فأما قول الشاعر: أقول لما جاءني فخره ... سبحان من علقمة الفاخر فإنما ذكره على طريق النادر. وقد روى طلحة بن عبيد الله الفياض أحد العشرة أنه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ما معنى سبحان الله؟ فقال:" تنزيه الله من كل سوء". والعامل فيه على مذهب سيبويه الفعل الذي من معناه لا من لفظه، إذ لم يجر من لفظه فعل، وذلك مثل قعد القرفصاء، واشتمل الصماء، فالتقدير عنده: أنزه الله تنزيها، فوقع" سبحان الله" مكان قولك تنزيه"۔ ( 10 / 204 )

ابروؤں کے درمیان کے بال صاف کرنا

 اگر بھنویں اتنی  زیادہ پھیلی ہوئی ہوں  کہ   معتاد بناوٹ سے مختلف ہوں اوردیکھنے میں  بد نما معلوم ہورہی ہوں  تو عیب دور کرنے کے لیےمرد  وعورت دونوں کے لیے ابروؤں  کو درست کرکے انہیں  عام حالت کے مطابق   معتدل کرنے کی گنجائش ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: لعن الله الواشمات، والمستوشمات، والمتنمصات) : بتشديد الميم المكسورة هي التي تطلب ‌إزالة ‌الشعر ‌من الوجه بالمنماص أي المنقاش، والتي تفعله نامصة، قال النووي: وهو حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب (والمتفلجات) : بكسر اللام المشددة، وهي التي تطلب الفلج، وهو بالتحريك فرجة ما بين الثنايا والرباعيات... والمراد بهن النساء اللاتي تفعل ذلك بأسنانهن رغبة في التحسين... واللام في قوله: (للحسن) : للتعليل... قال النووي: فيه إشارة إلى أن الحرام هو المفعول لطلب الحسن، أما لو احتاجت إليه لعلاج أو عيب في السن ونحوه فلا بأس به."

(كتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الأول، ج:7، ص:2819، ط؛دارالفكر)

بذل ُالمجہود میں ہے:

"قال أبو داود: وتفسير الواصلة: التي تصل الشعر بشعر النساء. والمستوصلة: المعمول بها. والنامصة: التي تنقش ‌الحاجب، ‌حتى ‌ترقه."

(أول كتاب الترجل، باب: في صلة الشعر، ج:12، ص:199، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

البحر الرائق میں ہے:

"ولعن في الحديث «النامصة والمتنمصة» ‌والنامصة هي التي تنقص الحاجب لتزينه، والمتنمصة هي التي يفعل بها ذلك."

(كتاب البيع، ‌‌باب البيع الفاسد، ج:6، ص:88، ط:دارالكتاب الإسلامي)

خواتين كا مرد حضرات سے ناک کان چھدوانا

 خواتین کے لیے  شدید ضرورت کی بنا  پر یعنی کسی بیماری کی علاج کی غرض سے نامحرم کے سامنے متاثرہ بدن کھولنے کی بقدرِ ضرورت اجازت ہے،  لیکن ضرورت کے بغیر یعنی بیماری سے علاج کے بغیر بدن دکھاناجائز نہیں ہے، لہذا کسی بھی خاتون کے  لیے نامحرم مرد سے ناک کان چھیدوانا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ  ناک کان چھیدنا  ایسی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے نامحرم مرد سے کروانے کی اجازت دی جائے، البتہ  اگر بچپن ہی میں (یعنی بچی کے حدِّ شہوت  تک پہنچنے سے پہلے پہلے)  کسی مرد سے بچی کے کان چھدوائے جائیں تو  جائز ہے۔  

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"ولا بأس بثقب أذن البنت والطفل استحسانا ملتقط. قلت: وهل يجوز الخزام في الأنف، لم أره.

(قوله: و الطفل) ظاهره أن المراد به الذكر مع أن ثقب الأذن لتعليق القرط، وهو من زينة النساء، فلايحل للذكور، والذي في عامة الكتب، وقدمناه عن التتارخانية: لا بأس بثقب أذن الطفل من البنات وزاد في الحاوي القدسي: و لايجوز ثقب آذان البنين فالصواب إسقاط الواو (قوله: لم أره) قلت: إن كان مما يتزين النساء به كما هو في بعض البلاد فهو فيها كثقب القرط اهـ ط وقد نص الشافعية على جوازه مدني".

(کتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع، ج:6، ص:420، ط:ایج ایم سعید)

Sunday 4 August 2024

لڑکی والوں کی طرف سے رخصتی کی دعوت

 نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام کرنا  ولیمہ کی طرح سنت نہیں  ہے، ہاں اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے،  کسی قسم کے زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی ورضا  سے اپنے اعزاء اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو  یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا بارات والوں کے لیے جائز ہے، اور اگر  لڑکی والے   خوشی سے نہ کھلائیں تو زبردستی کرکے کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"وقال أنس: «إذا دخلت على مسلم لا يتهم، فكل من طعامه واشرب من شرابه»". (7/ 82،  کتاب الأطعمة، باب  الرجل يدعى إلى طعام ، ط:دارطوق النجاة)

صحیح  مسلم میں ہے:

" عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعي أحدكم إلى طعام، فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك»".(2/ 1054، کتاب الحج، باب  زواج زینب بنت جحش، برقم: 1430، ط:دار احیاء التراث)

      وفیہ أیضاً:

"عن نافع، قال: سمعت عبد الله بن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أجيبوا هذه الدعوة إذا دعيتم لها»، قال: «وكان عبد الله بن عمر يأتي الدعوة في العرس، وغير العرس، ويأتيها وهو صائم»".(2/ 1053، کتاب الحج، باب  زواج زینب بنت جحش، برقم: 1430، ط:دار احیاء التراث)

سنن أبی داود میں ہے:

" عن أبي شريح الكعبي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، جائزته يومه وليلته، الضيافة ثلاثة أيام وما بعد ذلك فهو صدقة، ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه»".(3/ 342، کتاب الاطعمۃ، باب ما جاء فی الضیافۃ، رقم الحدیث:3738، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

     شرح المجلۃ میں ہے:

" لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".(1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیہ)

مصنوعی دانت لگوانا

 ضرورت کے وقت  مصنوعی دانت لگوانا جائز ہے، اور مصنوعی دانت لگانے کے بعد اگر وہ آسانی سے الگ نہ ہوسکتا ہو  تو  غسل میں اس کو اتارنا ضروری نہیں ہوگا، اور اگر آسانی سے الگ ہوسکتا ہو تو غسل کے لیے اس کو نکالنا ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"لما قال الكرخي: إذا سقطت ثنية رجل فإن أبا حنيفة يكره أن يعيدها، ويشدها بفضة أو ذهب، ويقول: هي كسن ميتة، ولكن يأخذ سن شاة ذكية يشد مكانها، وخالفه أبو يوسف، فقال: لا بأس به، ولايشبه سنّه سنّ ميتة، استحسن ذلك، وبينهما فرق عندي وإن لم يحضرني اهـ إتقاني. زاد في التتارخانية: قال بشر: قال أبو يوسف: سألت أبا حنيفة عن ذلك في مجلس آخر فلم ير بإعادتها بأسًا". 

(كتاب الحظر والإباحة، فصل فی اللبس، ج: 6، صفحہ: 362، ط: ایچ، ایم، سعید)

فال نکالنا یانکلوانا

   فال نکالنا یانکلوانا درست نہیں ۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فال نکالنے والوں کے پاس جانے اور ان سے مستقبل کے بارے میں دریافت کرنے سے بھی منع فرمایا اور پوچھنے کی صورت میں اخروی نقصان سے آگاہ کیا ہے، جیساکہ ایک روایت میں ہے کہ "جس نے فال نکالنے والے سے سوال کیا تو اس کی چالیس راتوں تک نماز قبول نہیں کی جاتی"۔ ایک اور روایت میں ہے کہ "جو شخص فال نکانے والے کی پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق کری تو اس نے ان تمام امور کا انکار (کفر) کردیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے"۔ سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ "وہ بری (آزاد) ہو گیا ان سب سے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا"۔۔

"لقول النبي صلى الله عليه وسلم: من أتى كاهناً أو عرافاً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم. رواه أحمد. وفي حديث أحمد والترمذي عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أتى كاهناً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد. ورواه أبو داود بلفظ: فقد برئ مما أنزل على محمد".

في المشکاة: "عن صفية عن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: « من أتى عرافاً فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلةً». رواه مسلم". (٢/ ٤١١)

شرح النووي على مسلم:

"والعراف هو الذي يدعي معرفة الشيء المسروق ومكان الضالة ونحوهما من الأمور، هكذا ذكره الخطابي في معالم السنن في كتاب البيوع، ثم ذكره في آخر الكتاب أبسط من هذا فقال: إن الكاهن هو الذي يدعي مطالعة علم الغيب ويخبر الناس عن الكوائن، قال: وكان في العرب كهنة يدعون أنهم يعرفون كثيراً من الأمور، فمنهم من يزعم أن له رفقاء من الجن وتابعة تلقي إليه الأخبار، ومنهم من كان يدعي أنه يستدرك الأمور بفهم أعطيه، وكان منهم من يسمى عرافاً وهو الذي يزعم أنه يعرف الأمور بمقدمات أسباب يستدل بها على مواقعها كالشيء يسرق، فيعرف المظنون به السرقة، وتتهم المرأة بالريبة، فيعرف من صاحبها ونحو ذلك من الأمور، ومنهم من كان يسمي المنجم كاهناً، قال: وحديث النهي عن إتيان الكهان يشتمل على النهي عن هؤلاء كلهم وعلى النهي عن تصديقهم والرجوع إلى قولهم، ومنهم من كان يدعو الطبيب كاهناً، وربما سموه عرافاً، فهذا غير داخل في النهي. هذا آخر كلام الخطابي. قال الإمام أبو الحسن الماوردي من أصحابنا في آخر كتابه الأحكام السلطانية: ويمنع المحتسب من يكتسب بالكهانة واللهو، ويؤدب عليه الآخذ والمعطي، والله أعلم. (١٠ / ٢٣٢، ط: داراحیاء التراث العربی) فقط

قتل وزناکے ثبوت کےلیے ڈی این اے ٹیسٹ کی حیثیت

 1۔شرعی طور پر محض ڈی این اے ٹیسٹ کی بنا پر کسی کو قاتل نہیں قرار دیا جاسکتا، جب تک کہ اقرار یا  شرعی گواہوں کے ذریعے  کسی کا قاتل ہونا ثابت نہ ہو۔

2۔ زنا کے ثبوت میں بھی ڈی این اے ٹیسٹ  کا کوئی اعتبار نہیں، اگر چار چشم دید نیک مسلمانوں کی گواہی یا اقرار سے ثابت ہوجائے تو ثابت ہوگا ورنہ نہیں۔

3۔قاضی معاملہ کی تفتیش کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے پر مجبور نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ شرعی چیز نہیں، باقی اگر ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ملزم خود اقرار کرلے تو جرم ثابت ہوجائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما أقسام الشهادة فمنها الشهادة على الزنا وتعتبر فيها أربعة من الرجال، ومنها الشهادة ببقية الحدود والقصاص تقبل فيها شهادة رجلين، ولا تقبل في هذين القسمين شهادة النساء هكذا في الهداية....الخ"

 (كتاب الشهادات ،الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والامتناع عن ذلك،3/ 451،ط:رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويثبت الزنا عند الحاكم ظاهرا بشهادة أربعة يشهدون عليه بلفظ الزنا لا بلفظ الوطء والجماع كذا في التبيين.....الخ"

 (كتاب الحدود ،الباب الثاني في الزنا،2/ 143،ط:رشيدية)

حشرات الارض بطور علاج کھانا

 حشرات الارض کا کھانا  ، جمہور فقہاء کے نزدیک حرام ہے، الا یہ کہ: بطورِ علاج ہو اور کسی بھی طب میں اس کے علاوہ کوئی اور علاج نہ ہو ،اس میں شفا یقینی ہو اور  ماہر مسلمان باعمل  طبیب  کی رائے اس کے استعمال کی ہو تو اس صورت میں حرام سے بھی علاج کی گنجائش ہے 

  • اختلف فی التداوی بالمحرم  وظاہر المذہب المنع ۔۔۔۔۔وقیل یرخص اذا علم فیہ الشفاء ولم یعلم دواء اخر کما رخص الخمر للعطشان وعلیہ الفتوی (شامی، ج  : ۱، ص: ۲۱۰)
  • بدائع الصنائع (ج: ۵، ص: ۳۶، ط:دار الکتب العلمیہ)
  • الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج: ۴ص: ۳۲۵، ط: دارالفکر دمشق

کچرابیچنا

 جب کچرے والا اس کچرے کو اپنے لئے اٹھا کر محفوظ کر لیتا ہے اور اس سے قیمتی اور فالتو چیزوں کو ڈھونڈھ کر الگ کر لیتا ہے ، تو اس صورت میں اس کی ملکیت ان اشیاء میں ثابت ہو جاتی ہے ،اب اس کے  لیے ان اشیاء کو آگے فروخت کرناجائز ہے۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(كما أن الكلأ النابت في الأراضي التي لا صاحب لها مباح كذلك الكلأ النابت في ملك شخص بدون تسببه مباح أيضا. أما إذا تسبب ذلك الشخص في هذا الخصوص بأن أعد أرضه وهيأها بوجه ما لأجل الإنبات كسقيه أرضه أو إحاطتها بخندق من أطرافها فالنباتات الحاصلة في تلك الأرض تكون ماله فلا يسوغ لآخر أن يأخذ منها شيئا فإذا أخذ شيئا واستهلكه يكون ضامنا) . .......وبيع هذا الكلأ قبل إحرازه باطل. " 

(الباب الرابع فی بیان شرکہ الاباحة،الفصل الاول فی الاشیاء المباحة وغیرالمباحة، ج:3، ص:254، ط:دار الکتب العلمیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

 "و أما الكلأ الذي ينبت في أرض مملوكة، فهو مباح، غير مملوك، إلا إذا قطعه صاحب الأرض، و أخرج فيملكه، هذا جواب ظاهر الرواية عن أصحابنا. و قال بعض المتأخرين من مشايخنا  رحمهم الله: أنه إذا سقاه، و قام عليه، ملكه، و الصحيح جواب ظاهر الرواية؛ لأنّ الأصل فيه هو الإباحة، لقوله  صلى الله علیه و سلّم: الناس شركاء في ثلاث: الماء، و الكلأ، و النار. و الكلأ:اسم لحشيش ينبت من غير صنع العبد، و الشركة العامة هي الإباحة، إلا إذا قطعه و أحرزه؛ لأنه استولى على مال مباح غير مملوك، فيملكه كالماء المحرز في الأواني ،والظروف ،وسائر المباحات التي هي غير مملوكة لأحد." 

(کتاب الاراضی، انواع الاراضی وبیان حکم کل نوع منھا،ج:6،  ص:193، ط:دارالجیل) 

قزع

 سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں ’’قزع‘‘ سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور "قزع" کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑدیے جائیں، اس طرح کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں ۔

البتہ  بالوں کی تحدید کے لیے گدی سے بال کاٹے جائیں یا حلق کیا جائے تو یہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے، اسی طرح کان کے اطراف کے بال جو کان پر لگ رہے ہوں، انہیں برابر کرنے کے لیے اطراف سے معمولی بال کاٹ لینا جیسا کہ عام طور پر اس کا معمول ہے کہ سر کے بالوں کو متعین کرنے اور اس کو دوسرے سے جدا کرنے کے لیے کان کے اوپر بلیڈ لگاتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ زیادہ اوپر سے بلیڈ نہ لگایا جائے ورنہ ”قزع“ میں داخل ہوگا، حاصل یہ ہے کہ سر کے اطراف کے بال اگر اس طرح کاٹے جائیں کہ ان کی وجہ سے سر کے اس حصہ کے بال کم اور باقی سر کے بال بڑے ہوں تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر سر کے تمام بالوں برابر ہوں اور اطراف سے تحدید کے لیے انہیں برابر کیا جائے تو یہ جائز ہے۔

 سنن ابی داؤد  میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- رأى صبيا قد حلق بعض شعره، وترك بعضه، فنهاهم عن ذلك، وقال: احلقوا كله أو اتركوا كله."

(کتاب الترجل، باب في الذؤابة،ج:6،ص:261،ط:الرسالة العالمیة)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےایک بچہ کو دیکھا کہ اس کے سر کے بعض حصے کے بال مونڈے ہوئے اور بعض حصے میں بال چھوڑ دیے گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ،اور  ارشاد فرمایا کہ  ؛"(اگر بال مونڈنا ہو تو) پورے سر کے بال مونڈو ( اور اگر بال رکھنے ہوں تو) پورے سر پر بال رکھو۔"

بذل المجھود میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - نهى عن القزع) ثم فسر ذلك (وهو أن يحلق رأس الصبي، ويترك له) من شعره (ذؤابة). قلت: وليس هذا مختصا بالصبي، بل إذا فعله كبير يكره (3) له ذلك، فذكر الصبي باعتبار العادة الغالبة."

(كتاب الترجل، باب في الصبي له ذؤابة،ج:12،ص:220،ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية،الهند

لاعلاج شخص کو انجیکشن کے ذریعے مارنا

  زندگی اور موت کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں،اس نے ہر انسان کی موت کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے ،اور مسلمان کا خون اللہ تعالیٰ کے ہاں کعبۃ اللہ سے بھی زیادہ محترم ہے،اس لیے کسی مسلمان کو بغیر کسی گناہ کے جان سے مار ڈالنا گناہ کبیرہ ہے،اور اس پر سخت وعیدیں قرآن وسنت میں وارد ہوئی ہیں ،لہٰذا کسی انسان کو اس کی بیماری کے سبب انجکشن وغیرہ کے ذریعے مارنا یہ قتل کے حکم میں  ہے،اور اگر اس مریض کے حکم سے ہو تو یہ اس کی جانب سے خود کشی کا اقدام ہے،اور دونوں صورتوں میں یہ اقدام ناجائز اور حرام ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً (النساء93)

"ترجمہ : اور جو کوئی قتل کرے مسلمان کو  جان کر تو اس کی سزا دوزخ ہے ،پڑا رہے گا اسی میں اور اللہ کا اس پر غضب ہوا اور اس کو لعنت کی اور اس کےواسطے تیار کیا ہےبڑا عذاب

(فائدہ ) قتل عمد کی سزا یعنی اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو غلطی سے نہیں بلکہ قصداً اور مسلمان معلوم کرنے کے بعد قتل کرے گا تو اس کے لیے آخرت میں جہنم اور لعنت اور عذابِ عظیم ہے،کفارہ سے اس کی رہائی نہیں ہوگی۔"

(تفسیر عثمانی،ج:1 ،ص:436  ، 437 ،ط: دار الاشاعت)

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا محمد بن مقاتل: أخبرنا النضر: أخبرنا شعبة: حدثنا فراس قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس."

"ترجمه: نبی كريمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،والدین کی نافرمانی کرنا،کسی کو(نا حق)قتل کرنااور یمین غموس کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔"

( کتاب الأیمان والنذور ،باب الیمین الغموس ،2 / 518 ط:رحمانیہ )


مصنف عبد الرزاق میں ہے:

" أخبرنا معمر، عن بعض المكيين، أن عبد الله بن عمرو بن العاصي قال: أشهد أنك بيت الله، وأن الله عظم حرمتك، وأن حرمة المسلم أعظم من حرمتك."

"ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں تو اللہ کا گھر ہے،اور اللہ تعالیٰ نے تجھے بڑا قابل احترام بنایا ہے (لیکن)مسلمان کا احترام تیرے احترام سے (بھی) بڑھ کر ہے۔"

(کتاب الجامع،  باب الاغتیاب والشتم  11 / 178 ط: المکتب الإسلامی)

كنز العمال میں ہے:

"من ‌قتل ‌نفسه بحديدة فحديدته في يده يتوجأ  بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن شرب سما فقتل نفسه فهو يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تردى من جبل فقتل نفسه فهو يتردى في نار جهنم خالدا مخلدا فيها."

"ترجمہ:جس نے اپنے آپ کو لوہے سے قتل کیا تو اس کا (وہ) لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گاجہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے،اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیےزہر کے گھونٹ لیتا رہےگا،اور جس نے پہاڑ سے لُڑھک کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں (بھی )ہمیشہ کےلیےلُڑھکتا رہےگا۔"

(حرف القاف،کتاب القصاص،الباب الأول فی القصاص،الفصل الرابع ،الفرع الأول،ج:15 ،ص:36 )

بیوٹی پارلر کا کام سیکھنا اور کرنا

 بیوٹی پارلر کے وہ کام جو شریعت میں  جائز ہواس کو سیکھنا اور کرنا جائز ہے جیسا زیب وزینت اختیار کرنا اور اس میں دوسری عورت سے مدد لینا  ،زینت کے لیے چہرے یا ہاتھ پاؤں کا فیشل کرواناشرعی حدود کے اندر، خواتین کو اپنے چہرے کے غیر معتاد بال مثلًا داڑھی مونچھ ،پیشانی وغیرہ کے بال یا کلائیوں اور پنڈلیوں کے بال صاف کرنا جائز ہے ۔  اورجو شرعًا جائز نہ ہو اس کو سیکھنا اور کرنا  ناجائز ہے،  جیسا کہ خواتین کا اپنے سرکے بالوں کوکٹوانا یا کتروانا خواہ کسی بھی جانب سے ہو مردوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے ناجائز اور گناہ ہے ،عورتوں کے  لیے بھنویں بنانا  ـ(دھاگا یا کسی اور چیز سے )جائز نہیں ہے ، اسی طرح مرد کے ہاتھ سے ہو  ،  شرعی پردے   کی رعایت نہ ہو، ان سب صورتوں میں اجازت نہیں ہوگی۔

لمعات التنقیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے :

 " قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال"

 "وعن ابن عمر أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة". متفق عليه."

(فصل فی الترجل ،ج:7،ص:410،رقم الحدیث :4429/4430،ط:دارالنوادر)

"عن ابن عباس قال: لعنت الواصلة، والمستوصلة، والنامصة، والمتنمصة، والواشمة، والمستوشمة من غير داء."

(فصل فی الترجل ،ج:7،ص:336،رقم الحدیث:4468،ط:دارالنوادر)

صحیح البخاری میں ہے:

"عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن اللّٰہ الواشمات والمستوشمات، والمُتنمِّصات، والمتفلجات للحسن المغیرات خَلْقَ اللّٰہ تعالیٰ، مالي لا ألعنُ من لعن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھو في کتاب اللّٰہ {مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ} ."

 (باب المتفلجات للحسن: 878/2، رقم الحدیث: 5931، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"قطعت شعر رأسها أثمت ولعنت زاد في البزازية وإن بإذن الزوج لأنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق."

(کتاب الحظر والاباحۃ ،فصل فی البیع ،ج:6،ص:407،ط:دارالفکر ،بیروت

رٹائرمنٹ کے بعد پینشن لینا

 سرکاری ملازمت میں جو فرد کسی ایسے ادارے کا ملازم ہو جس کا کام جائز ہوتو ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن و دیگر مراعات جو ادارے کی جانب سے ضابطے کے موافق ملازم کو دی جاتی ہوں ، ان کا حاصل کرنا جائز ہے۔

المعجم الکبیر میں ہے:

"عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «المسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا، وأحل حراما، والصلح جائز بين الناس، إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا»."

( عمرو بن عوف بن ملحة المزني، جلد 17 ص:22 ط: مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ)

ام محمد نام رکھنا

 امِ محمد نام رکھ سکتے ہیں،صحابہ اور تابعین کی خواتین میں یہ نام بطورِ کنیت ملتا ہے۔

الكمال فی اسماء الرجال میں ہے:

"[6692] أم محمد، امرأة أبي علي بن زيد بن جدعان .

روت عن: عائشة الصديقة.  روى عنها: علي بن زيد بن جدعان. روى لها: أبو داود، والترمذي، وابن ماجه".

(‌‌ذكر الكنى من النساء،  أم محمد، امرأة أبي علي بن زيد بن جدعان، 10/ 206، ط:الهيئة العامة للعناية بطباعة ونشر القرآن الكريم والسنة النبوية وعلومها، الكويت)

اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں ہے:

"7595- أم محمد خولة بنت قيس

س: أم محمد خولة بنت قيس روى آدم بن أبي إياس، عن أبي معشر، عن سعيد المقبري، عن عبيد سنوطي، قال: دخلنا على خولة بنت قيس، وكانت تحت حمزة بن عبد المطلب رضي الله عنه، فتزوجها بعده النعمان بن عجلان، فقلنا: يا أم محمد، حدثينا.

فقال لها زوجها النعمان: انظري ماذا تحدثين فإن الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بغير ثبت شديد...الخ".

(‌‌‌‌الكنى من النساء الصحابيات، حرف اللام وحرف الميم،  أم محمد خولة بنت قيس، 7/ 382، ط: دار الكتب العلمية)

والدین کے احترام میں کھڑے ہونا

 " جو یہ چاہے کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے' اس حدیث کے مصداق وہ لوگ ہیں جو تعظیم کے مستحق نہ ہوں  ، لیکن   اپنے لیے لوگوں کے کھڑے ہونے  کو  پسند کرتے ہوں ، جس سے ان کے دلوں میں بڑائی اور تکبر پیدا ہوتا ہو، البتہ اولاد کا اپنے والدین کے لیے احتراما کھڑے ہونے میں، یا سلطانِ عادل کے لیے ان کے رفقاء کے کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ،  اسی طرح اگر کسی بزرگ، استاذ یا کسی اور قابل احترام شخص کے لئے از خود کوئی کھڑا ہوجائے اور وه خود کھڑے ہونے کے لیے نہ کہے اور نہ اس پر خوشی کا اظہار کرےتو وہ اس حدیث کے مصداق سے خارج ہیں ۔

مزید دیکھیے:

مسند احمد میں ہے: 

"حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن حبيب بن الشهيد، قال: سمعت أبا مجلز قال: دخل معاوية على عبد الله بن الزبير وابن عامر، قال: فقام ابن عامر، ولم يقم ابن الزبير، قال: وكان الشيخ أوزنهما، قال: فقال: مه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أحب أن يمثل له عباد الله قيامًا، فليتبوأ مقعده من النار."

(مسند الشاميين، حديث معاوية بن أبي سفيان، رقم الحديث: 16830، ج28، ص40، ط: الرسالة العالمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الوهبانية: يجوز بل يندب القيام تعظيما للقادم كما يجوز القيام، ولو للقارئ بين يدي العالم وسيجيء نظما..............

مرغی کا انڈا

 مرغی کا انڈہ حلال ہے ،لہذا اس کو کھانا شرعا درست ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے : 

"البيضة إذا خرجت من دجاجة ميتة أكلت وكذا اللبن الخارج من ضرع الشاة الميتة كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل ...، ج: 5، ص: 339 ، ط: دار الفكر) 

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے : 

"وفى مختلفات الفقيه أبي الليث : إذا ماتت دجاجة - وخرج منها بيضةجاز اكلها عند أبي حنيفة رحمه الله ، اشتد أو لم يشتد."

(كتاب الاستحسان، الفصل الثاني عشر في الكراهة في الأ كل ...، ج: 18، ص: 146، ط: مكتبة زكريا بديوبند الهند)